Thursday, 3 May 2012

وہ جنّت میں داخل نہ ہوں گے جو ... They will not go to Paradise


(1) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ "۔
قطع رحمی کرنے (رشتہ ناتے توڑنے) والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔
The person who severs the bond of kinship will not enter Paradise
[احمد(16733+16763وأخرجه الحميدي (557) ، ومسلم (2556) (18) ، وأبو داود (1696) ، والترمذي (1909) ، وأبو يعلى (7391) و (7394) ، وابن خزيمة في "التوحيد" ص363 و364، والطبراني في "الكبير" (1511) ، وأبو نعيم في "الحلية" 7/308، والبيهقي في "السنن" 7/27، وفي "الشعب" (7951) ، وفي  "الآداب" (7) من طريق سفيان بن عيينة، بهذا الإسناد. وقال الحميدي: قال سفيان: تفسيره قاطع رحم. وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح.
وأخرجه البخاري في "صحيحه" (5984) ، وفي "الأدب المفرد" (64) ، ومسلم (2556) (19) ، وأبو يعلى (7392) ، وابن خزيمة في "التوحيد" ص365، وابن حبان (454) ، والطبراني في "الكبير" (1510) و (1513) و (1514) و (1516) و (1517) و (1518) و (1519) ، والبيهقي في "الشعب" (7952) من طرق عن الزهري، به.
وسيأتي برقم (16763) و (16772) .
وقد سلف نحوه من حديث أبي سعيد الخدري برقم (11107) .
قال السندي: قوله: "لا يدخل الجنة قاطع"، أي: قاطع رحمه بلا موجب، والله تعالى أعلم.]





تشریح:

امام نوویؒ نے ارشاد گرامی کی یہ مراد بیان کی ہے کہ جو شخص یہ جاننے کے باوجود کہ قطع رحم کرنا یعنی ناتے داری کا حق ادا نہ کرنا حرام ہے نہ صرف یہ کہ بغیر کسی سبب و عذر کے قطع رحم کرے اور بغیر کسی شبہ و وجہ کے قطع رحم کرنے کو حلال بھی جانے تو وہ جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا یا یہ مراد ہے کہ قطع رحم کرنے والا نجات یافتہ اور اولین لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
[شرح النووي على مسلم:2/ 91]


لا يدخلها مَعَ الْمُتَّقِينَ ‌أَوَّلَ ‌وَهْلَةٍ
ترجمہ:
وہ اس میں داخل نہیں ہوں گے (گناہوں سے بچنے والے متقی) پرہیزگاروں کے ساتھ  پہلی باری میں۔
[القسم الثاني من المعجم الأوسط للطبراني: 2/ 915]
[شرح سنن ابن ماجه للسيوطي وغيره: صفحہ 308 حدیث نمبر 4173]

وجہ:

حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
موحدین میں سے کچھ لوگ جہنم میں عذاب دئیے جائیں گے، یہاں تک کہ کوئلہ ہوجائیں گے، پھر ان پر رحمت الٰہی سایہ فگن ہوگی تو وہ نکالے جائیں گے اور جنت کے دروازے پر ڈال دئیے جائیں گے ۔ آپ نے فرمایا: جنتی ان پر پانی چھڑکیں گے تو وہ ویسے ہی اگیں گے جیسے سیلاب کی مٹیوں میں دانہ اگتا ہے، پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے۔
[سنن الترمذی - جہنم کا بیان - حدیث نمبر 2597]



عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " سَدِّدُوا ، وَقَارِبُوا ، وَأَبْشِرُوا ، فَإِنَّهُ لَا يُدْخِلُ أَحَدًا الْجَنَّةَ عَمَلُهُ " ، قَالُوا : وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : " وَلَا أَنَا ، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِمَغْفِرَةٍ وَرَحْمَةٍ "
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:
اعمال میں میانہ روی اختیار کرو، اور اللہ کی قربت اختیار کرو اور تمہیں خوشخبری ہو کہ کسی کا عمل اسے جنت میں نہیں پہنچائے گا۔ لوگوں نے پوچھا: آپ کو بھی نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ نے فرمایا: مجھ کو بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ بخشش اور رحمت(کے سایہ) سے ڈھانپ لے۔
[صحيح البخاري » كِتَاب الرِّقَاقِ » بَاب الْقَصْدِ وَالْمُدَاوَمَةِ عَلَى الْعَمَلِ, رقم الحديث: 6015]



اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‌لَا ‌يَدْخُلُ ‌الْجَنَّةَ ‌إِلَّا ‌نَفْسٌ ‌مُسْلِمَةٌ۔
نہیں داخل ہوگا جنت میں سوائے مسلمان جان کے۔
None will enter Paradise but a Muslim
[مسند أحمد:8090 ، صحيح البخاري:3062 ، صحيح مسلم:111]
نوٹ:-
مسلمان کہتے ہیں اسلام قبول کرنے والے کو۔



اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لا يدخل الجنة إلا المؤمنون۔
جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔
Verily none but the believers would enter Paradise.
[أخرجه أحمد (1/30، رقم 203) ، ومسلم (1/107، رقم 114)، والترمذى (4/139، رقم 1574) . وقال: حسن صحيح غريب.
 . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (11/196، رقم 4857) ، وابن أبى شيبة (7/395، رقم 36885) ، والبزار (1/310، رقم 198) .]


(2)  حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ "
چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔
A Qattat (an informer or a tale-bearer) will not enter Paradise.
[احمد (23247+23305+23310+23368+23420+23434وأخرجه ابن أبي شيبة 9/91، ومسلم (105) (170) ، وأبو داود (4871) ، وابن خزيمة في "التوحيد" 2/844، وابن منده في "الإيمان" (610) من طريق أبي معاوية، بهذا الإسناد.
وأخرجه مسلم (105) (170) ، وأبو عوانة (86) ، وابن منده (609) و (610) ، والبيهقي في "السنن" 8/166، وفي "الشعب" (11102) ، والبغوي (3570) من طرق عن الأعمش، به.
وأخرجه الطبراني في "الأوسط" (4204) ، وفي "الصغير" (561) من طريق إبراهيم بن مهاجر، عن إبراهيم بن يزيد النخعي، به.
وسيأتي من طريق همام بن الحارث بالأرقام (23305) و (23310) و (23331) و (23368) و (23420) و (23434) .
وسيأتي من طريق أبي وائل شقيق بن سلمة، عن حذيفة بالأرقام (23325) و (23359) و (23387) و (23450) .
وفي باب تعذيب من مَشَى بالنميمة، عن ابن عباس، سلف برقم (1980) ، وهو في "الصحيحين".  قوله: "قتات" يعني نمَّام.]



حديث حذيفة: أخرجه الطيالسى (ص 56، رقم 421) ، وأحمد (5/382، رقم 23295) ، والبخارى (5/2250، رقم 5709) ، ومسلم (1/101، رقم 105) ، وأبو داود (4/268، رقم 4871) ، والترمذى (4/375، رقم 2026) وقال: حسن صحيح. والنسائى فى الكبرى (6/496، رقم 11614) ، والطبرانى (3/168، رقم 3021) . وأخرجه أيضًا: الحميدى (1/210، رقم 443) ، وابن أبى شيبة (5/329، رقم 26585) ، والبزار (7/356، رقم 2954) ، وأبو عوانة (1/39، رقم 86) ، وابن حبان (13/78، رقم 5765) ، والطبرانى فى الأوسط (4/278، رقم 4192) ، والبيهقى (8/166، رقم 16449) .

تشریح:
قتات اور نمام کے ایک ہی معنی ہیں یعنی چغل خور اس شخص کو کہتے ہیں جولگائی بجھائی کرتا ہے اور ادھر کی بات ادھر اور ادھر کی بات ادھر کرکے لوگوں کے درمیان فتنہ وفساد کے بیج بوتا ہے۔





(3) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ "۔
وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی ضرر رسانیوں سے اس کا ہمسایہ ( پڑوسی) محفوظ نہ ہو۔ (ہمسایہ میں گھر کا پڑوسی ہی نہیں بلکہ سفر حضر میں جو بھی ہمسایہ ہو، سب اس میں شامل ہیں.)
He will not enter Paradise whose neighbour is not secure from his wrongful conduct.
[احمد:8855، وأخرجه البخاري في "الأدب المفرد" (121) ، ومسلم (46) (73) ، وأبو يعلى (6482)6490 ، وابن منده في "الِإيمان" (304) و (305) ، والقضاعي في "مسند الشهاب" (875) ، والبيهقي في "الشعب" (9535) من طرق عن إسماعيل بن جعفر، بهذا الِإسناد. 
وأخرجه أبو عوانة 1/30 من طريق محمد بن جعفر بن أبي كثير وعبد العزيز بن أبي حازم، وابن منده (306) من طريق عبد العزيز أيضاً، كلاهما عن العلاء، به. وانظر ما سلف (7878) .
حدیث انس: أخرجه الحاكم (4/182، رقم 7300) .]

تشریح:
مومن وہ ہے جس سے لوگ مامون ہوں ، مسلمان وہ ہوتا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں ، مہاجر وہ ہوتا ہے جو گناہوں سے ہجرت کرلے، اور اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی ضرر رسانیوں سے اس کا ہمسایہ ( پڑوسی) محفوظ نہ ہو۔


(4) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ دِينَارٍ، جَمِيعًا عَنْ يَحْيَى بْنِ حَمَّادٍ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ، عَنْ فُضَيْلٍ الْفُقَيْمِيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ» قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ: «إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ»
جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جو تی بھی اچھی ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔
He who has in his heart the weight of a mustard seed of pride shall not enter Paradise. A person (amongst his hearers) said: Verily a person loves that his dress should be fine, and his shoes should be fine. He (the Holy Prophet) remarked: Verily, Allah is Graceful and He loves Grace. Pride is disdaining the truth (out of self-conceit) and contempt for the people.
[احمد(3913) مسلم(91) التوحيد لابن خزيمة(2/898) ابن حبان(224+5466+5680) ابي عَوانة(153)  شرح أصول اعتقاد، اللالكائي(1611) الآداب للبيهقي(486) الأسماء والصفات للبيهقي(66) شعب الإيمان للبيهقي(5782+7803) شرح السنة للبغوي(3587) التواضع والخمول لابن أبي الدنيا(218)]

تشریح
" ذرہ" سے یا تو چیونٹی مراد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس جیسی سو چیونٹیاں مل کر ایک جو کے وزن کے برابر ہوتی ہیں یا وہ ریز و غبار مراد ہے جو ہوا میں باریک نظر آتا ہے اور روشنی کے وقت چمکتا ہے۔
ایک شخص نے عرض کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ ایک شخص سے کون صحابی مراد ہیں چنانچہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس وقت جن صحابی نے مذکورہ بات عرض کی تھی وہ معاذ بن جبل تھے بعض حضرات نے عبداللہ بن عمرو بن العاص اور بعض حضرات نے ربیعہ بن عامر کا نام ذکر کیا ہے۔
 " کوئی آدمی یہ پسند کرتا ہے" ان صحابی نے جو یہ سوال کیا تو اس کا ایک پس منظر تھا وہ یہ دیکھا کرتے تھے کہ جو لوگ غرور و تکبر کرتے ہیں اور اپنے علاوہ ہر ایک کو ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں ان کے جسم پر اعلی اور نفیس لباس ہوتا ہے ان کے پیروں میں نہایت اعلی جوتیاں ہوتی ہیں اور ان کے کپڑے وغیرہ اعلی درجہ کے ہوتے ہیں چنانچہ جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مذکورہ ارشاد سنا تو ان کو گمان ہوا کہ کہیں یہ چیزیں تو تکبر کی نشانیاں نہیں ہیں اور اعلی و نفیس لباس وغیرہ ہی سے تو تکبر پیدا نہیں ہوتا لہذا انہوں نے پوچھا کہ اگر کوئی محض اپنی ذاتی خواہش پسند اور استطاعت کی بنا پر اچھے اچھے کپڑے پہنے اور عمدہ جوتے وغیرہ استعمال کرے اور اس کے خیال میں بھی یہ بات نہ ہو کہ وہ اپنے کپڑوں وغیرہ کے ذریعہ دوسروں پر اپنی امارت و بڑائی کارعب ڈالے گا، لوگوں کو ذلیل و حقیر سمجھے گا اور اتراہٹ و گھمنڈ کرے گا اور اس شخص کی اس نیت کی علامت یہ ہو کہ وہ جس طرح لوگوں کے سامنے اچھے کپڑے وغیرہ استعمال کرنا پسند کرتا ہو اسی طرح تنہائی میں بھی ان چیزوں کو پسند کرتا ہو تو کیا ایسے شخص پر بھی تکبر کا اطلاق ہوگا، حضور نے اپنے مذکورہ جواب کے ذریعہ واضح فرمایا کہ ایسے شخص پر تکبر کا اطلاق نہیں ہوگا بلکہ اس کا لباس عمدہ زیب تن کرنا اور اچھے جوتے پہننا اس کی تہذیب و شائستگی اور اس کی خوش ذوقی کی علامت ہوگا جس سے شریعت نے منع نہیں کیا ہے اس کے بعد آپ نے کبر کی حقیقت بیان فرمائی کہ جس کبر کو مذموم قرار دیا گیا ہے وہ دراصل اس کیفیت و حالت کا نام ہے جو انسان کو حق آراستہ سے ہٹا دے یعنی تو حید و عبادت خداوندی سے بے پرواہ بنا دے حق و صداقت سے سرکشی کرنے پر مائل کرے حقیقت تک پہنچنے سے روکے اور سچائی کو قبول کرنے سے باز رکھے اور مخلوق خدا کو ذلیل و حقیر سمجھنے پر مجبور کرے بعض حضرات نے بطر الحق کے معنی جمال حق کو باطل کرنا لکھے ہیں۔
" اللہ تعالیٰ جمیل ہے " کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات میں اور اپنے افعال و قدرت میں اوصاف کاملہ سے موصوف ہے۔ اور تمام ظاہری وباطنی حسن و جمال اسی کے جمال کا عکس ہیں اور جمال و جلال بس اسی کی ذات پاک کا خاصہ ہے بعض حضرات نے جمیل کے معنی آراستہ کرنے والے اور جمال بخشنے والے بیان کیے ہیں ، بعضوں نے یہ کہا ہے کہ جمیل دراصل جلیل کے معنی میں ہے اس صورت میں اللہ جمیل کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام تر نور و بہجت اور حسن و جمال کا مالک ہے نیز بعض حضرات نے یہ معنی بھی بیان کیے ہیں کہ وہ اپنے بندوں کا اچھا کا رساز ہے۔
[7405=صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 266,  عن عبد الله بن مسعود]
[41395+41396


(5) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ التُّجِيبِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ مَكْسٍ " يَعْنِي الْعَشَّار.
صاحب مکس (ٹیکس وصول کرنے میں ظلم کرنے والا) جنت میں نہ جائے گا۔
One who wrongfully takes an extra tax (sahib maks) will not enter Paradise.
[احمد:17294، حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس، وقد رواه بالعنعنة، وباقي رجال الإسناد ثقات رجال الصحيح.
وأخرجه أبو داود (2937) من طريق محمد بن سَلَمة، بهذا الإسناد.
وأخرجه الدارمي (1666) ، وابن عبد الحكم في "فتوح مصر" ص293، وابن خزيمة (2333) ، والطحاوي في "شرح معاني الآثار" 2/31، والطبراني في "الكبير" 17/ (879) و (880) من طرق عن محمد بن إسحاق، به.
وسيأتي برقم (17354) .
وفي الباب عن رويفع بن ثابت، بلفظ: "صاحب المكس في النار"، وقد سلف برقم (17001) ، وفي إسناده ابن لهيعة وهو سيئ الحفظ، لكن رواه عنه هناك قتيبة بن سعيد، وقد مشَّى روايته عنه بعض أهل العلم ورآها صالحة.
قال السندي: قوله: "يعني: العشَّار"، أي: الذي يأخذ من المسلمين عشر أموالهم في الزكاة، ولعل المعنى لا يستحق الدخول ابتداءً. اهـ.
وقال البيهقي في "السنن" 7/16: المكس: هو النقصان، فإذا كان العامل في الصدقات ينتقص من حقوق المساكين ولا يعطيهم إياها بالتمام، فهو حينئذٍ صاحب مكس يُخاف عليه الإثم والعقوبة، والله أعلم.]
[17622=سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 1170, عن عقبة بن عامر]
امام دارمی فرماتے ہیں یعنی بھتہ وصول کرنے والا۔
[44338=سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 1606]


(6) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُثْمَانُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ حَارِثَةَ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ الْجَوَّاظُ وَلَا الْجَعْظَرِيُّ» قَالَ: " وَالْجَوَّاظُ: الْغَلِيظُ الْفَظُّ ".
جنت میں بدخلق وبدلحاظ اور مغرور ومتکبر شخص داخل نہیں ہوگا۔ جواظ کہتے ہیں اس شخص کو جوانتہا درجہ کا بدخلق اور بدلحاظ ہو۔
[أخرجه أبو داود (4/253، رقم 4801) ، وعبد بن حميد (ص 174، رقم 480) . وأخرجه أيضًا: أبو يعلى (3/53، رقم 1476) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (6/285، رقم 8173) .]

تشریح
جیسا کہ اوپر کی عبارتوں سے واضح ہوا کہ بعض روایتوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جواظ اور جعظری دونوں ایک معنی ہیں اور بعض روایتوں سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ جواظ کے معنی متکبر کے ہیں اور جعظری کے معنی بدخلق لیکن ان سب روایتوں کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ معنی و مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب ہیں اور دونوں کے درمیان زیادہ تفاوت نہیں ہے۔
 اور ملا علی قاری کہتے ہیں کہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ جواظ اور جعظری سے مراد وہ شخص ہے جو سخت دل اور بدخلق ہو یعنی جس کے باطنی احوال کی گمراہیوں اور عادات و اطور کی خرابیوں نے اس کو شقی القلب بنا دیا ہے کہ نہ اس پر کسی وعظ کا اثر ہوتا ہو اور نہ اس کو خدا کا خوف برائیوں سے روکتا ہو اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اس کا قرینہ وہ روایت ہے جس کو خطیب نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ہر چیز کے لیے توبہ ہے مگر بدخلق کے حق میں توبہ گارگر نہیں ہے کیونکہ وہ ایک تو گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے دوسرے گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ (اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی بدچلنی اور بداطواری اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔
لایدخل الجنۃ الجواظ ولاالجعظری میں لفظ جعظری سے پہلے لا زائد لانا اس بات کی طرف اشارہ ہے یہ جو شخص ان دونوں بری خصلتوں میں سے کسی بھی ایک خصلت میں مبتلا ہوگا اس کو جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا اگر وہ شخص منافقین میں سے ہے تو اس کا جنت میں داخل نہ کیا جانا مطلق معنی پر محمول ہوگا اور اگر اس کا تعلق مومنین سے ہو تو پھر کہا جائے گا کہ اس کے حق میں ان الفاظ کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ وہ نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ ابتداء جنت میں داخل نہیں ہوگا۔[41373


[19466=سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1397, عن حارثة ابن وهب]




(7) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنَّانٌ، وَلَا عَاقٌّ، وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ ".
احسان کر کے جتلانے والا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
“Whoever dies addicted to Khamr will have boiling water thrown in his face when he departs this world.”
[احمد:11222، حديث حسن لغيره، ولهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد: وهو ابن أبي زياد القرشي، ولانقطاعه، مجاهد: وهو ابن جبر المكي، لم يسمع من أبي سعيد، ذكر ذلك العلائي في "جامع التحصيل" ص337، وبقية رجاله ثقات رجال الشيخين. عبد الصمد: وهو ابن عبد الوارث العنبري، وعبد العزيز بن مسلم: هو القسْملي.
وأخرجه البغوي في "شرح السنة" (3428) من طريق عبد الله بن مسلمة، عن عبد العزيز بن مسلم، به.
وأخرجه أبو يعلى (1168) من طريق جرير بن عبد الحميد، عن يزيد بن أبي زياد به.
وأخرجه ابن أبي شيبة 9/92، ومن طريقه البيهقي في "الشعب" (7874) من طريق عبد الرحيم بن سليمان، والنسائي في "الكبرى" (4920) من طريق زائدة بن قدامة، كلاهما عن يزيد، عن مجاهد وسالم بن أبي الجعد، به.
وسيأتي برقم (11398) ، وقد سلف مطولا برقم (11107) ، وذكرنا شواهده في حديث عبد الله بن عمر (6180) .]



[25615=سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 1977,  عن عبد الله بن عمرو]



(8) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ يَحْيَى، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَدْخُلُ الجَنَّةَ سَيِّئُ المَلَكَةِ»
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّئُ الْمَلَكَةِ» . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ أَخْبَرْتَنَا أَنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ أَكْثَرُ الْأُمَمِ مَمْلُوكِينَ وَيَتَامَى؟ قَالَ: «نَعَمْ، فَأَكْرِمُوهُمْ كَكَرَامَةِ أَوْلَادِكُمْ، وَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ» ، قَالُوا: فَمَا يَنْفَعُنَا فِي الدُّنْيَا؟ قَالَ: «فَرَسٌ تَرْتَبِطُهُ تُقَاتِلُ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَمْلُوكُكَ يَكْفِيكَ، فَإِذَا صَلَّى فَهُوَ أَخُوكَ»
غلاموں سے برا سلوک کرنے والا)  بد اخلاق شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا)
 صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ہمیں بتایا ہے کہ اس امت میں پہلی امتوں سے زیادہ غلام اور یتیم ہوں گے ؟ (بہت ممکن ہے کہ بعض لوگ ان کے ساتھ بدخلقی کریں) فرمایا جی ہاں لیکن ان کا ایسے ہی خیال رکھو جیسے اپنی اولاد کا خیال رکھتے ہو اور انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو۔ صحابہ نے عرض کیا ہمیں دنیا میں کونسی چیز فائدہ پہنچانے والی ہے ؟ فرمایا گھوڑا جسے تم باندھ رکھو اس پر سوار ہو کر راہ خدا میں لڑو تمہارا غلام تمہارے لئے کافی ہے اور جب وہ نماز پڑھے (مسلمان ہو جائے) تو وہ تمہارا بھائی ہے ۔

 “He will not enter Paradise who has a bad character.”
They said: "0 Messenger of Allah, did you not tell us that this nation will have more slaves and orphans than any other nation?" He said: "Yes, so be as kind to them as you are to your own children, and feed them with the same food that you eat." They said: "What will benefit us in this world?" He said: A horse that is kept ready for fighting in the cause of Allah, and your slave to take care of you, and if he performs prayer, then he is your brother (in Islam)."

[أخرجه الترمذى (4/334، رقم 1946) وقال: غريب. وابن ماجه (2/1217، رقم 3691) وأخرجه أيضًا: أحمد (1/12، رقم 75)]

تشریح : 
 یہ فرمایا گیا ہے کہ امت میں لونڈی غلام اور یتیم بہت زیادہ ہوں گے تو اس کا سبب یہ ہے کہ جب جہاد کثرت سے ہوگا تو کفار کے قیدی بھی کثرت سے ہاتھ آئیں گے اور جہاد کی کثرت ہی سے مسلمان شہید ہوں گے اور جب مسلمان شہید ہوں گے تو ان کے بچے یتیم ہو جائیں گے۔[39770


[27731=جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2030, عن أبي بکر]
[33618=سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 571, عن أبي بکر]



(9)  لا يدخل الجنة خب ولا منان ولا بخيل
فریب کرنیوالا،  احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ 
“The deceiver, the miser and one who is not benevolent will not enter paradise.” 
[27749=جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2048, عن أبي بکر]


تشریح: مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں جنت میں ابتداء بغیر عذاب کے داخل نہیں ہوں گے بلکہ یہ اپنے اپنے جرم کی سزا پا لیں گے تو عذاب کے بعد جنت میں داخل ہوں گے۔ 
 " بخیل سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے مال میں سے حق واجب ادا نہ کرے۔ 
(یعنی زکوات، قربانی وغیرہ),

 " منان' ' کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمے میں مذکور ہیں اس کے دوسرے معنی کاٹنے والا ہیں یعنی وہ شخص جو اپنے اعزا اور رشتہ داروں سے ترک تعلقات کرے اور مسلمانوں سے محبت و مروت کا معاملہ نہ کرے۔[38268





(10) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عُتْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ، مُدْمِنُ خَمْرٍ»

شراب کا رسیا جنت میں نہ جاسکے گا۔

"No one who is addicted to wine will enter Paradise." 
[أخرجه ابن ماجه (2/1120، رقم 3376) قال البوصيرى (4/39) : هذا إسناد حسن.]

[33304=سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 257,  عن أبي الدردا]





(11) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَابَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ وَلَدُ زِنْيَةٍ، وَلَا مَنَّانٌ، وَلَا عَاقٌّ، وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ»

 زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والا شخص احسان جتانے والا شخص (والدین کا)  نافرمان شخص اور ہمیشہ شراب پینے والا شخص جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔

[دارمی:2138، حدیث ابی سعید: أخرجه أبو يعلى (2/394، رقم 1168) .]
[44733=سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 2001, عن عبد الله بن عمرو]52697



تشریح :
موجودہ زمانے کے اعتبار سے ہر وہ کھیل جوا ہے جس میں عام شرط باندھی جاتی ہے کہ جیتنے والا ہارنے والے سے اتنے روپے یا فلاں چیز لے لے گا جیسے تاش و نرد اور شطرنج وغیرہ ، اسی طرح " سٹہ " بھی جوئے کے حکم میں داخل ہے ۔ 
طیبی کے قول کے مطابق منان کے ایک معنی تو وہ ہیں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں یعنی " کسی فقیر ومحتاج کو صدقہ وخیرات دے کر اس پر احسان جتانا " لیکن ایک احتمال یہ بھی ہے کہ منان دراصل من سے ہو جس کے معنی " قطع " کے ہیں اس طرح منان وہ شخص ہوا جو رشتوں ناتوں کو قطع کرنے والا ہو ۔ 
یہ حدیث کہ " ولد الزنا جنت میں داخل نہیں ہوگا " نہ تو صحیح ہے اور نہ اس کو موضوع ہی قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ ایک ضعیف روایت ہے ، تاہم اگر اس کے کسی درجہ میں صحیح ہونے کا احتمال بھی ہو تو اس صورت میں اس کی تاویل اور وضاحت یہ ہے کہ جو اولاد زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے وہ چونکہ باپ کی تربیت ونگرانی سے محروم رہتی ہے اور ماں کی بد کر داری کا سایہ اس کے اوپر ہوتا ہے اس لئے وہ عام طور پر بگڑ جاتی ہے اور ظاہری وباطنی تربیت نہ پانے کی وجہ سے مختلف طرح کی برائیوں اور بداعمالیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اور مال کار وہ عذاب خداوندی میں گرفتار رہتی ہے ، مزید برآں جس طرح حرام ذرئع مثلًا جوئے اور سود سے کمائے جانے والے مال میں ایک طرح کی " نحوست " ہوتی ہے اس طرح ولد الزنا میں بھی ایک طرح کی نحوست ہوتی ہے کیونکہ وہ ایسے نطفے سے وجود میں آتا ہے جو " حرام جگہ " میں " حرام ذریعہ " سے قرار پایا تھا ۔ یا یہ کہا جائے کہ اس ارشاد " ولد الزنا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔" کے ذریعہ دراصل زانی پر تعریض وتشدید مقصود ہے جو اس (ولد الزنا ) کی پیدائش کا سبب بنا ہے ۔ 
علاوہ ازیں بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہاں " ولد الزنا " سے مراد وہ شخص ہے جو زنا پر مواظبت و مداومت اختیار کرتا ہے اور بدکاری اس کی عادت بن جاتی ہے جیسے بہادروں کو " بنوالحرب " (یعنی جنگ کی اولاد ) یا مسلمان کو بنوالاسلام (یعنی اسلام کی اولاد ) کہہ دیتے ہیں ۔ حاصل یہ کہ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ولد الزنا محض اس وجہ سے کہ وہ زنا کہ نتیجہ میں پیدا ہوا ہے ، عذاب خداوندی میں گرفتار ہوگا یا اس کو جنت کی سعادت سے محروم رکھا جائے گا کیونکہ جس برائی نے اس کو جنم دیا ہے اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔[40006+41228






(12) لا يدخل الجنة لحم نبت من السحت وكل لحم نبت من السحت كانت النار أولى به 
وہ گوشت جس نے حرام مال سے پرورش پائی ہے جنت میں داخل نہیں ہوگا اور جو گوشت یعنی جو جسم حرام مال سے نشوونما پائے وہ دوزخ کی آگ ہی کے لائق ہے.
[حديث أبى بكر: أخرجه الحاكم (4/141، رقم 7164) .
حديث عمر: أخرجه الحاكم (4/142، رقم 7165) .
حديث ابن عباس: أخرجه الطبرانى (11/217، رقم 11544) . قال الهيثمى (10/293) : فيه حسين بن قيس وهو متروك.
حدیث جابر: أخرجه أحمد (3/321، رقم 14481) قال الهيثمى (5/247) : رواه أحمد والبزار ورجالهما رجال الصحيح. وعبد بن حميد (ص 345، رقم 1138) والدارمى (2/409، رقم 2776) ، وأبو يعلى (3/475، رقم 1999) قال الهيثمى (10/230) : رجاله رجال الصحيح غير إسحاق بن أبى إسرائيل وهو ثقة مأمون. وابن حبان (10/372، رقم 4514) ، والحاكم (4/468، رقم 8302) وقال: صحيح الإسناد. والطبرانى (19/141، رقم 309) ، وأبو نعيم فى الحلية (8/247) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (7/46، رقم 9399) .]

تشریح :
حرام مال سے نشوونما پانے والے جسم کے دوزخ میں داخل ہونے سے مراد یا تو یہ ہے کہ ایسا شخص شروع میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوگا بلکہ اس نے جتنا حرام مال کھایا ہوگا اس کے بقدر جب سزا بھگت لے گا تو اس کو جنت میں داخل کیا جائے گا یا یہ کہ ایسا شخص جنت کے اعلی درجات میں داخل نہیں ہو سکے گا یا یہ مراد ہے وہ لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے جو حرام مال کو حرام مال سمجھ کر نہیں بلکہ حلال مال یقین کر کے کھاتے ہیں یا پھر یہ کہ اس ارشاد گرامی کا اصل مقصد حرام مال کھانے کی برائی بیان کرنا ہے اور اس سے مراد زجر و توبیخ تہدید اور سخت وعید ہے۔
جو شخص حرام مال کھانے کمانے کے بعد اپنے اس قبیح فعل پر ندامت وشرمندگی کے ساتھ سچے دل سے توبہ کرے یا اللہ تعالیٰ اس کو بغیر توبہ کے محض اپنے فضل وکرم سے بخش دے اور اس نے جن لوگوں کا مال حرام طریقوں سے کمایا ہوگا ان کو راضی کر دے اور یا اسے کسی کی شفاعت حاصل ہو جائے تو وہ شخص اس وعید سے مستثنی ہوگا۔
[مشکوۃ شریف:جلد سوم: حدیث نمبر 15 (39223) خرید و فروخت کے مسائل و احکام : حرام مال کھانے پر وعید]




(13) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدٍ الطَّائِيِّ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ خَمْسٍ: مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَلَا مُؤْمِنٌ بِسِحْرٍ، وَلَا قَاطِعُ رَحِمٍ ، وَلَا كَاهِنٌ، وَلَا مَنَّانٌ "۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان پانچ سے کوئی آدمی بھی جنت میں داخل نہ ہوگا، صاحب خمس عادی شراب خور، جادو پر یقین رکھنے والا، قطع رحمی کرنے والا، کاہن اور احسان جتانے والا۔ 
[احمد (11107+11781) البزار (2932+2933)]
[56783=مسند احمد:جلد پنجم:حدیث نمبر 124]57454+60019+60847





(14) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ هَاجَرَ، قَالَ: فَقُلْتُ: لَا أَدْخُلُ مَنْزِلِي، حَتَّى آتِيَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْأَلَهُ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ هَذَا سَرَقَ خَمِيصَةً لِي لِرَجُلٍ مَعَهُ فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، فَإِنِّي قَدْ وَهَبْتُهَا لَهُ، قَالَ: " فَهَلَّا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ "
قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُمْ يَقُولُونَ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ هَاجَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا هِجْرَةَ بَعْدَ فَتْحِ مَكَّةَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، فَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا "۔
حضرت صفوان بن امیہ سے مروی ہے کہ ان سے کسی نے کہہ دیا کہ جو شخص ہجرت نہیں کرتا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا یہ سن کر میں نے کہا میں اس وقت تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا جب تک پہلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ مل لوں چنانچہ میں اپنی سواری پر سوار ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جس شخص نے ہجرت نہیں کی وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتح مکہ کے بعد ہجرت کا حکم نہیں رہا البتہ جہاد اور نیت باقی ہے اس لیے جب تم سے نکلنے کے لیے کہا جائے تو تم نکل پڑو۔ پھر میں نے ایک آدمی کے متعلق عرض کیا کہ اس شخص نے میرا کپڑا چرایا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کپڑا اس پر صدقہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ صدقہ کیا۔
[احمد (15306) حديث صحيح بطرقه وشاهديه. طاووس- وهو ابن كيسان اليماني- اختلف فيه: هل سمع مِن صفوان بن أمية أم لا؟ فقد نفى الطحاوي في "شرح مشكل الآثار" 6/161 أن يكون سمعه منه، فقال: وجدنا وفاة صفوان كانت بمكة عند خروج الناس إلى الجمل [يعني سنة 36 هـ] ، ووجدنا وفاة طاووس كانت بمكة سنة ست ومئة، وسنه يومئذٍ بضع وسبعون سنة، فعقلنا بذلك أنه لا يحتمل أنه أخذه عن صفوان سماعاً. وجعل سماعه منه ممكناً ابن عبد البر في "التمهيد" 11/219، فقال: وسماعه- أي طاووس- من صفوان ممكن، لأنه أدرك زمن عثمان.
ثم أنه اختلف فيه على طاووس كما سيأتي في التخريج، وبقية رجاله ثقاترجال الشيخين. عفان: هو ابن مسلم، ووهيب: هو ابن خالد الباهلي، وابن طاووس: هو عبد الله.
وأخرجه النسائي مختصراً في "المجتبى" 7/145-146، وفي "الكبرى" (7371) ، ومن طريقه الطحاوي في "شرح مشكل الآثار" (2388) عن معلى ابن أسد، عن وهيب، بهذا الإسناد.
وتحرف معلى بن أسد في مطبوع "السنن الكبرى" إلى علي بن.
وأخرجه ابن أبي شيبة 14/231، وأخرجه الطحاوي في "شرح مشكل الآثار" (2387) من طريق يونس، والبيهقي في "السنن" 8/267 من طريق الرملي، ثلاثتهم عن سفيان بن عُيينة، عن عمرو بن دينار، عن طاووس، قال: قيل لصفوان بن أمية ... فذكر الحديث.
وأخرجه البيهقي في "السنن" 8/265 من طريق الشافعي، عن سفيان بن عُيينة، عن عمرو بن دينار، عن طاووس، عن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مرسلاً، ولم يسق لفظه، بل أحال به على رواية مالك التي سلف تخريجها برقم (15303) ، وقال: هذا المرسل يقوي الأول. قلنا: يعني رواية مالك المرسلة كذلك.
وقد سلف ذكر شاهده برقم (15303) .
وقوله: "لا هجرة بعد فتح مكة، ولكن جهاد ونية، فإذا استنفرتم فانفروا".
له شاهد من حديث ابن عباس السالف برقم (1991) ، وإسناده صحيح، وهو من رواية طاووس عن ابن عباس، وذكرنا تتمة أحاديث الباب في مسند عبد الله بن عمرو بن العاص، في الرواية رقم (7012) .]
[60868=مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1172]+72499


(15) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْخَطْمِيُّ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ، فَقَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الشِّعْبِ إِذْ قَالَ: " انْظُرُوا، هَلْ تَرَوْنَ شَيْئًا؟ " فَقُلْنَا: نَرَى غِرْبَانًا فِيهَا غُرَابٌ أَعْصَمُ أَحْمَرُ الْمِنْقَارِ، وَالرِّجْلَيْنِ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنَ النِّسَاءِ، إِلَّا مَنْ كَانَ مِنْهُنَّ مِثْلَ هَذَا الْغُرَابِ فِي الْغِرْبَانِ "۔
عمارہ بن خزیمہؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حج یا عمرہ کے سفر میں حضرت عمرو بن عاصؓ کے ساتھ تھے، وہ کہنے لگے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ اسی جگہ پر نبی ﷺ کے ساتھ تھے، کہ نبی ﷺ نے فرمایا دیکھو! تمہیں کچھ دکھائی دے رہا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ چند کوے نظر آ رہے ہیں جن میں ایک سفید کوا بھی ہے جس کی چونچ اور دونوں پاؤں سرخ رنگ کے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں صرف وہی عورتیں داخل ہو سکیں گی جو کووں کی اس جماعت میں اس کوے کی طرح ہوں گی۔
[63204=مسند احمد:جلد ہفتم:حدیث نمبر 895]
hadees#17922+17980



 لا يدخل أحد النار إلا أري مقعده من الجنة لو أحسن ليكون عليه حسرة ولا يدخل الجنة أحد إلا أري مقعده من النار لو أسا ليزداد شكرا
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ارشاد فرمایا: ہر جہنمی کو جنت میں اس کا متوقع ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے اور وہ تمنا کرتا ہے کہ کاش مجھے بھی اللہ نے ہدایت سے سرفراز کیا ہوتا اور وہ اس کے لئے باعث حسرت بن جاتا ہے اسی طرح ہر جنتی کو جہنم میں اس کا متوقع ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ اگر اللہ نے مجھے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں یہاں ہوتا اور پھر وہ اس پر شکر کرتا ہے۔
[مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 3736]

1)  حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنِي الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ (1) فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ كِبْرٍ، وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ ".
جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔
None shall enter the Fire (of Hell) who has in his heart the weight of a mustard seed of Iman.
[احمد:3913، وأخرجه ابنُ أبي شيبة 9/89، وابن منده في "الإيمان " (542) من طريق عفان، بهذا الإسناد.
وأخرجه أبو يعلى (5066) ، والطبراني في "الكبير" (10000) ، وابن منده في "الِإيمان " (542) ، من طرق عن عبد العزيزبن مسلم، به.
وأخرجه مسلم (91) (148) ، وابن ماجه (59) و (4173) ، وأبو يعلى (5065) ، وابن حيان (244) ، وابن منده في "الإيمان " (542) من طريقين عن الأعمش، به.
وأخرجه الطبراني في "الكبير" (10066) من طريق قيس بن الربيع، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن ابن مسعود.
وسيأتي برقم (3947) و (4310) . وانظر (3644) .
والفقرة الأولى منه ستأتي من حديث عبد الله بن عمرو برقم (6526) .
والمراد بقوله: "لا يدخل النارَ مَنْ في قلبه حَبةُ خردل من إيمانٍ "، أي: دخول تخليد وتأبيد.]

تشریح
ایمان سے مراد اصل ایمان نہیں ہے بلکہ ایمان کے ثمرات مراد ہیں جن کو فضائل و اخلاق سے تعبیر کیا جاتا ہے خواہ ان کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے اور جو نور ایمان اور ظہور ایقان سے صادر ہوتے ہیں جہاں تک اصلی ایمان کا تعلق ہے وہ چونکہ تصدیق قلبی کا نام ہے اس لیے اس میں نہ تو زیادتی ہو سکتی ہے اور نہ کمی ، اس اعتبار سے اس کو اجزاء میں منقسم بھی نہیں کیا جا سکتا البتہ اس کے شعبے اور شاخیں بہت ہیں جو اصل ایمان کی حقیقت و ماہیت سے خارج ہیں جیسے نماز روزہ اور زکواۃ وغیرہ اور اسی طرح اسلام کے ظاہری دوسرے تمام احکام یا جیسے تواضع اور ترحم اور اسی طرح وہ تمام چیزیں جو باطنی اوصاف و خصائل کا درجہ رکھتی ہیں چنانچہ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ الایمان بضع و سبعون شعبۃ۔ ایمان کی کچھ اوپر ستر شاخیں ہیں ۔ظاہر ہے کہ شاخوں اور اس کی اصل کے درمیان اتنا گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کا درجہ رکھتی ہیں لیکن اس کے باوجود حقیقت و ماہیت کے اعتبار سے کوئی بھی شاخ اپنی اصل کا مترادف نہیں ہو سکتی اس طرح اصل ایمان ایک الگ چیز ہے اور اسلام کے تمام ظاہری احکام و باطنی اخلاق و خصائل جداگانہ حثییت رکھتے ہیں جن کو اصل ایمان کی حقیقت و ماہیت میں شامل نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد الحیاء شعبۃ من الایمان ۔ مذکورہ بالا قول کی دلیل ہے کیونکہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حیاء ایمان کے مفہوم میں داخل نہیں ہے۔[41395


[7406=صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 267, عن عبد الله بن مسعود]



2)  حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ مُبَشِّرٍ، أَنَّها سَمِعَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ حَفْصَةَ يَقُولُ: " لَا يَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَاءَ اللهُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ، الَّذِينَ بَايَعُوا تَحْتَهَا "...
 انشاءاللہ اصحاب شجرہ میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں داخل نہ ہوگا جنہوں نے اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی 
God willing, the people of the Tree would never enter the fire of Hell one amongst those who owed allegiance under that.
[احمد:27362 ،وأخرجه مسلم (2496) ، وابن سعد 8/458، والحسين المروزي في زياداته على "الزُّهد" لابن المبارك (1417) ، والنسائي في "الكبرى" (11321) -وهو في "التفسير" (341) - والفاكهي في "أخبار مكة" (2873) مختصراً، وابن أبي عاصم في "الآحاد والمثاني" (3317) ، والطبراني في "الكبير" 25/ (269) ، واللالكائي في "شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة" (2193) ، والبيهقي في "دلائل النبوة" 4/143، وفي "شُعَب الإيمان" (371) من طريق حجَّاج بن محمد المِصِّيصي، بهذا الإسناد.
وأخرجه ابن سعد 2/100-101 من طريق وَهْب بن مُنَبّه، عن جابر، به.
وسلف من طريق آخر عن جابر في مسند حفصة برقم (26440) .]

[7406=صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1904,  أخبرتني أم مبشر]+34208+71378+71940+72239



حَدَّثَنَا حُجَيْنٌ، وَيُونُسُ، قَالَا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " لَا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِمَّنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ "
جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ان میں سے کوئی آگ میں داخل نہیں ہوگا۔
[احمد:14778، وأخرجه أبو داود (4653) ، والترمذي (3860) ، والنسائي في "الكبرى" (11508) من طريق قتيبة بن سعيد، وأبو داود (4653) ، وابن حبان (4802) من طريق يزيد بن موهب، كلاهما عن الليث بن سعد، بهذا الإسناد.
وأخرج الترمذي (3863) من طريق خداش بن عياش، عن أبي الزبير، عن جابر، عن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: "ليدخلن الجنة من بايع تحت الشجرة إلا صاحب الجمل الأحمر". وخداش لين الحديث، قيل: صاحب الجمل الأحمر: هو الجدُ بن قيس، انظر "تحفة الأحوذي " 4/360.
وقد سلف قول النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ للعبد الذي جاء يشتكي حاطباَ: "كذبت لا يدخلها- أي النار- إنه قد شهد بدراَ والحديبية" برقم (14484) .]

[19318=سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1249, عن جابر]
[29765=جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1831]
60351


3)  حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ النَّارَ إِلَّا شَقِيٌّ "، قِيلَ: وَمَنِ الشَّقِيُّ؟ قَالَ: " الَّذِي لَا يَعْمَلُ بِطَاعَةٍ، وَلَا يَتْرُكُ لِلَّهِ مَعْصِيَةً ".
 سوائے شقی کے جہنم میں کوئی نہیں جائیگا۔ لوگوں نے عرض کیا اے رسول اللہ! شقی کون؟ فرمایا ایسا بندہ جس نے   فرمانبرداری (نیکی کا کام) نہ کیا ہو اور گناہ کبھی کوئی چھوڑا نہ ہو۔
 "No one will enter Hell except one who is doomed." It was said: "0 Messenger of Allah, who is the one who is doomed?" He said: "The one who never does any act of obedience (towards Allah) and who never omitted any act of sin."
[احمد:8594، وأخرجه ابن ماجه (4298) من طريق عمرو بن هاشم، عن ابن لهيعة، بهذا الِإسنا د. قال البوصيرى (4/259) : هذا إسناد فيه ابن لهيعة وهو ضعيف.]

تشریح : 
 شقی کا لفظ عام مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے یعنی اس سے کافر بھی مراد ہے اور مسلمان فاجر بھی۔


[34225=سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1178, عن أبي هريرة]





4)  حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: وَحَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامٌ، وَعَفَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ عَفَّانُ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عِمَارَةَ بْنِ رُوَيْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا يَلِجُ النَّارَ مَنْ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا "...
وہ آدمی دوزخ میں نہیں جائے گا جس نے سورج نکلنے سے پہلے  (یعنی نماز فجر پڑھے) اور سورج غروب ہونے سے پہلے (یعنی نماز عصر ادا کرے) نماز پڑھی ...
He who said prayer before the rising of the sun and its setting would not enter the fire (of Hell), 
[احمد:، وأخرجه مسلم (634) ، وابنُ حبان (1740) ، والبغوي في "شرح السنة" (383) من طريق رَقَبَة بن مَصْقَلَة، عن أبي بكر بن عمارة، بهذا الإسناد.
وقد سلف بالرقم (17220) ، وسيرد بالحديث بعده، و4/261 في مسند الكوفيين.]

[8571=صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1432, عن ابن عمارة بن رؤيبة]






5) حَدَّثَنَا يَزِيدُ، وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ مُحَمَّدٍ، مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَلِجُ النَّارَ أَحَدٌ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللهِ، حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ، وَلَا يَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَدُخَانُ جَهَنَّمَ فِي مَنْخِرَيْ امْرِئٍ أَبَدًا " وَقَالَ: أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ: " فِي مَنْخِرَيْ مُسْلِمٍ أَبَدًا ".
اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے والا انسان دوزخ میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ چلا جائے۔ (یہ نا ممکن ہے)
اور اللہ کی راہ میں پہنچنے والی گرد وغبار اور دوزخ کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے۔ 
“ A man who weeps from fear of Allah will not go to Hell till the milk returns to the udder.
 And dust in Allah’s path and smoke of Hell will never come together (on anyone).
[أخرجه أحمد (10560) ، وأخرجه البيهقي في "شعب الِإيمان" (800) من طريق أبي عبد الرحمن المقرىء وحده، بهذا الإسناد.
وأخرجه عبد الله بن المبارك في "الجهاد" (30) ، وعنه هناد بن السري في "الزهد" (465) ، وعن هناد الترمذى (1633) و (2311) ، والنسائي 6/12 عن المسعودي، به- وهو عند ابن المبارك في "الجهاد" مختصر، بالشطر الثاني منه فقط. قال الترمذي: حسن صحيح.
وأخرجه الحاكم 4/260 من طريق محمد بن عبد الوهاب، عن جعفر بن عون، عن المسعودي، به. وصحح إسناده، ووافقه الذهبي. قلنا: ورواية جعفر عن المسعودي قبل اختلاطه.
وأخرج الشطر الثاني منه الحميدي (1091) ، وابن حبان (4607) من طريق مسعربن كدام، وابن ماجه (2774) من طريق سفيان بن عيينة، كلاهما عن محمد بن عبد الرحمن مولى آل طلحة، به.
وأخرج الشطر الأول منه وكيع في "الزهد" (23) ، وأخرج الشطر الثاني هناد (466) عن يونس بن بكير، كلاهما (وكيع ويونس) عن المسعودي، به- ووقفاه على أبي هريرة، وكلاهما رويا عن المسعودي قبل الاختلاط، وقرن وكيع بالمسعودي مسعراً.
وأخرجه موقوفاً أيضاً النسائي 6/12، والبيهقي في "الشعب" (801) من طريق مسعر بن كدام، عن محمد بن عبد الرحمن مولى آل طلحة، به.
وأخرج عبد بن حميد (1447) من طريق صالح بن كيسان، عن أبي عبد الرحمن، عن أبي هريرة، مرفوعاً، ضمن حديث طويل:" لا يبكي عبد فتقطر عيناه من خشية الله، فيدخله الله النار أبداً، حتى يعود قطرُ السماء إليها".
ولشطره الثاني ابظر ما سلف برقم (7480) .
ويشهد لشطره الأول حديث أبي ريحانة، سيأتي في مسنده 4/134 و135.
وحديث أنس عند ابن أبي عاصم في "الجهاد" (147) ، وأبي يعلى (4346) .
وحديث ابن عباس عند ابن أبي عاصم (146) ، والترمذي (1639) . وهذه الأحاديث الثلاثة حِسان.]

تشریح : 
 یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس نہ چلا جائے یہ جملہ تعلیق بالمحال کے طور پر ہے یعنی جس طرح دوہے ہوئے دودھ کا تھنوں میں واپس جانا محال ہے ۔ اسی طرح اس شخص کا دوزخ میں جانا محال ہے ۔ 


[27402=جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1701, عن أبي هريرة]





6) عن أبى أيوب قال: إن نبى الله - صلى الله عليه وسلم - أخبرنى أنه قال لا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ يَقُولُ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ "
جس نے "لا إله إلا الله" (صدقِ دل سے) کہا ہوگا، وہ (ہمیشہ) جہنم میں نہ داخل ہوگا.
A man, who said (heartly) "There is no god except Allah", will not go (permenantly) to hell.
[الرابع من أمالي أبي عبد الله المحاملي: رقم الحديث: 74, سنة الوفاة: 330؛



عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ قَالَ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُخْلِصًا دَخَلَ الْجَنَّةَ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا إِخْلاصُهَا ؟ ، قَالَ " أَنْ تَحْجُزَكُمْ عَنْ كُلِّ مَا حُرِّمَ عَلَيْكُمْ " .
جو شخص "اخلاص" کے ساتھ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے، وہ جنت میں داخل ہوگا، کسی نے پوچھا کہ کلمہ کے اخلاص (کی علامت) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ الله کی حرام کردہ کاموں سے اس کو روک دے۔

تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1من قال لا إله إلا الله مخلصا دخل الجنة قيل وما إخلاصها قال أن تحجزه عن محارم اللهزيد بن أرقمالمعجم الأوسط للطبراني12581235سليمان بن أحمد الطبراني360
2من قال لا إله إلا الله مخلصا دخل الجنة قال وقال رسول الله إخلاصه أن يحجزه عما حرم الله عليهزيد بن أرقمالمعجم الكبير للطبراني49315074سليمان بن أحمد الطبراني360
3من قال لا إله إلا الله مخلصا دخل الجنةزيد بن أرقمحلية الأولياء لأبي نعيم1425414286أبو نعيم الأصبهاني430
4من قال لا إله إلا الله مخلصا دخل الجنة وإخلاصها أن تحجر عن محارم اللهزيد بن أرقمالتدوين في أخبار قزوين للرافعي1053---عبد الكريم الرافعي623
5من قال لا إله إلا الله مخلصا دخل الجنةزيد بن أرقمالتدوين في أخبار قزوين للرافعي1362---عبد الكريم الرافعي623
6من قال لا إله إلا الله مخلصا دخل الجنة قال رسول الله وإخلاصها أن تحجزه عما حرم الله عليهزيد بن أرقمالدعاء للطبراني13741475سليمان بن أحمد الطبراني360




7) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يُوقَفُ عَبْدَانِ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ فَيَأْمُرُ بِهِمَا إِلَى الْجَنَّةِ ، فَيَقُولانِ : رَبَّنَا بِمَ اسْتَأْهَلْنَا دُخُولَ الْجَنَّةِ ، وَلَمْ نَعْمَلْ عَمَلًا تُجَازِينَا بِهِ الْجَنَّةَ ؟ فَيَقُولُ اللَّهُ : أَدْخِلا عَبْدَيَّ ، فَإِنِّي آلَيْتُ عَلَى نَفْسِي ، أَلَّا يَدْخُلَ النَّارَ مَنِ اسْمُهُ أَحْمَدُ وَمُحَمَّدٌ .



مسلم بن ابراہیم، ہشام، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دے اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر نیکی (ایمان) ہو وہ دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے اور اس کے دل میں گہیوں کے ایک دانے کے برابر خیر (ایمان) ہو وہ (بھی) دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر نیکی (ایمان) ہو وہ بھی دوزخ سے نکالا جائے گا، ابوعبداللہ نے کہا کہ ابان نے بروایت قتادہ، انس، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بجائے خیر کے ایمان کا لفظ روایت کیا ہے۔


صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 43, ایمان کا بیان : صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 478 






من قال لا إله إلا الله:









http://www.islamweb.net/hadith/hadithServices.php?type=1&cid=62&sid=720









تخريج الحديث:






http://www.islamweb.net/hadith/hadithServices.php?type=1&cid=6&sid=720






ابومعمر، عبدالوارث، حسین، عبداللہ بن بریدہ، یحیی بن یعمر، ابوالاسود دولی، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ سفید کپڑے پہنے ہوئے سو رہے تھے، پھر میں حاضر ہوا تو آپ بیدار ہوچکے تھے، آپ نے فرمایا جس بندہ نے لا الہ الا اللہ کہا پھر اس حال میں مر گیا تو جنت میں داخل ہوگا، میں نے کہا اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے، آپ نے فرمایا اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے، میں نے کہا اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے، آپ نے فرمایا اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے، میں نے کہا اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے، آپ نے فرمایا اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے اور ابوذر کی ناک خاک آلود ہو، اور ابوذر رضی اللہ عنہ جب بھی اس حدیث کو بیان کرتے تو کہتے کہ وان رغم انف ابی ذر، ابوعبداللہ (بخاری) نے کہا یہ اس صورت میں ہے کہ موت کے وقت ہو یا اس سے پہلے ہو، جب کہ توبہ کرے اور نادم ہو اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے تو بخش دیا جائے گا۔ [1. صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 779, لباس کا بیان :, سفید کپڑوں کا بیان2. صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 273, ایمان کا بیان : اس بات کے بیان میں کہ جو اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے ہوئے مرا وہ دوزخ میں داخل ہوگا ۔] 


No comments:

Post a Comment