بعثتِ نبوی ﷺ کے مقاصد:
رسول اللہؐ کی بعثت اللہ کا احسان ہے:
یعنی انہی کی جنس (انسان) اور قوم (عرب) کا ایک آدمی رسول بنا کر بھیجا جس کے پاس بیٹھنا بات چیت کرنا، زبان سمجھنا اور ہر قسم کے انوار و برکات کا استفادہ کرنا آسان ہے، اس کے احوال، اخلاق سوانح زندگی، امانت و دیانت خدا ترسی اور پاکبازی سے وہ خوب طرح واقف ہیں۔ اپنی ہی قوم اور کنبے کے آدمی سےجب معجزات ظاہر ہوتے دیکھتےہیں تو یقین لانے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے۔ فرض کرو کوئی جن یا فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا تو معجزات دیکھ کر یہ خیال کر لینا ممکن تھا کہ چونکہ جنس بشر سے جداگانہ مخلوق ہے شاید یہ خوارق اس کی خاص صورت نوعیہ اور طبیعت ملکیہ و جنیہ کا نتیجہ ہوں، ہمارا اس سے عاجز رہ جانا دلیل نبوت نہیں بن سکتا بہرحال مومنین کو خدا کا احسان ماننا چاہیئے کہ اس نے ایسا رسول بھیجا جس سے بےتکلف فیض حاصل کر سکتے ہیں اور وہ باوجود معزز ترین اور بلند ترین منصب پر فائز ہونے کے ان ہی کے مجمع میں نہایت نرم خوئی اور ملاطفت کے ساتھ گھلا ملا رہتا ہے ﷺ۔
بعثتِ رسولؐ کے بنیادی مقاصد:
اس مضمون کی آیت سورۂ بقرہ میں دو جگہ گذر چکی ہے خلاصہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی چار شانیں بیان کی گئیں۔ (۱) تلاوت آیات: (اللہ کی آیات پڑھ کر سنانا) جن کے ظاہری معنی وہ لوگ اہل زبان ہونے کی وجہ سے سمجھ لیتےتھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ (۲) تزکیہ نفوس: (نفسانی آلائشوں اور تمام مراتب شرک و معصیت سے ان کو پاک کرنا اور دلوں کو مانجھ کر صقیل بنانا) یہ چیز آیات اللہ کے عام مضامین پر عمل کرنے، حضور کی صحبت اور قلبی توجہ و تصرف سے باذن اللہ حاصل ہوتی تھی۔ (۳) تعلیم کتاب: (کتاب للہ کی مراد بتلانا) اس کی ضرورت خاص خاص مواقع میں پیش آتی تھی ۔ مثلًا ایک لفظ کے کچھ معنی عام تباور اور محاورہ کے لحاظ سے سمجھ کر صحابہ کو کوئی اشکال پیش آیا، اس قت آپ کتاب اللہ کی اصلی مراد جو قرائن مقام سے متعین ہوتی تھی بیان فرما کر شبہات کا ازالہ فرما دیتے تھے، جیسے اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ (الانعام۔۸۲) الخ اور دوسرے مقامات میں ہوا۔ (۴) تعلیم حکمت: (حکمت کی گہری باتیں سکھلانا) اور قرآن کریم کے غامض اسرار و لطائف اور شریعت کی دقیق و عمیق علل پر مطلع کرنا خواہ تصریحًا یا اشارۃً۔ آپ نے خد اکی توفیق و اعانت سے علم و عمل کے ان اعلیٰ مراتب پر اس درماندہ قوم کو فائز کیا جو صدیوں سے انتہائی جہل و حیرت اور صریح گمراہی میں غرق تھی۔ آپ کی چند روزہ تعلیم و صحبت سے وہ ساری دنیا کے لئے ہادی و معلم بن گئ۔ لہذا انہیں چاہیئے کہ اس نعمت عظمیٰ کی قدر پہچانیں۔ اور کبھی بھولے سے ایسی حرکت نہ کریں جس سے آپ کا دل متالم ہو۔
الحدیث:
1) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ وَمَنْصُورٍ وَقَتَادَةَ ، سمعوا سالم بن أبي الجعد ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا مِنْ الْأَنْصَارِ غُلَامٌ فَأَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ مُحَمَّدًا ، قَالَ شُعْبَةُ : فِي حَدِيثِ مَنْصُورٍ إِنَّ الْأَنْصَارِيَّ ، قَالَ : حَمَلْتُهُ عَلَى عُنُقِي فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَفِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ وُلِدَ لَهُ غُلَامٌ فَأَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ مُحَمَّدًا ، قَالَ : سَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي ، فَإِنِّي إِنَّمَا جُعِلْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَكُمْ ، وَقَالَ حُصَيْنٌ : بُعِثْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَكُمْ ، قَالَ : عَمْرٌو ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَالِمًا ، عَنْ جَابِرٍ أَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ الْقَاسِمَ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " سَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي " .
[صحيح البخاري » كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ ... رقم الحديث: 3983 (3114)]
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم انصاریوں میں لڑکا پیدا ہوا اور یہ ارادہ کیا گیا کہ اس کا نام محمد رکھا جائے شعبہ نے کہا منصور کی حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ انصاری نے کہا میں اس لڑکے کو سرور عالم ﷺ کی خدمت میں لے گیا اور سلیمان کی حدیث میں یہ کہا گیا کہ خود ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تھا جس کا نام انہوں نے محمد رکھنا چاہا تو سرور عالم نے ارشاد فرمایا میرا نام رکھ لو مگر میری کنیت نہ رکھنا کیونکہ صرف میں ہی قاسم بنایا گیا ہوں اور تم میں تقسیم کرنا میرا کام ہے حصین کا بیان ہے کہ سرور دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا میں تو قاسم بنا کر بھیجا گیا ہوں جو تم میں (دین کی فقہ و سمجھ) تقسیم کرتا ہوں. عمرو کہتے ہیں کہ شعبہ نے قتادہ سے بذریعہ سالم حضرت جابر سے سنا ہے کہ اس انصاری نے اپنے بیٹے کا نام قاسم رکھنا چاہا تو سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرا نام رکھ لو مگر میرے نام کے ساتھ میری کنیت نہ رکھنا۔
[أخرجه البخارى (5/2290، رقم 5843) ، ومسلم (3/1683، رقم 2133) . وأخرجه أيضًا: ابن أبى شيبة (5/264، رقم 25927) ، وأحمد (3/369، رقم 15006) .
أخرجه الحاكم (4/308، رقم 7735) وقال: صحيح على شرط الشيخين، ووافقه الذهبى. وأخرجه أيضًا: الطيالسى (ص 239، رقم 1730) ، وأحمد (3/298، رقم 14219) ، والبخارى (3/1134، رقم 2947) ، ومسلم (3/1683، رقم 2133) ، وابن سعد (1/107) .]
علم اور علماء کی فضیلت
2) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَحْمَدَ الْمَلِيحِيُّ ، أنا أَبُو عَلِيٍّ الْحُسَيْنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ السَّرَّاجُ ، أنا الْحَسَنُ بْنُ يَعْقُوبَ الْعَدْلُ ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ الْفَرَّاءُ ، نا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِمَجْلِسَيْنِ فِي مَسْجِدِهِ ، أَحَدُ الْمَجْلِسَيْنِ يَدْعُونَ اللَّهَ ، وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ ، وَالآخَرُ يَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ ، وَيُعَلِّمُونَهُ ، قَالَ : " كِلا الْمَجْلِسَيْنِ عَلَى خَيْرٍ ، وَأَحَدُهُمَا أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ ، أَمَّا هَؤُلاءِ ، فَيَدْعُونَ اللَّهَ ، وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ ، وَأَمَّا هَؤُلاءِ ، فَيَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ ، وَيُعَلِّمُونَ الْجَاهِلَ ، فَهَؤُلاءِ أَفْضَلُ ، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا " ثُمَّ جَلَسَ فِيهِمْ " . وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي تَوْبَةَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَارِثِ ، أنا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكِسَائِيُّ ، أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَحْمُودٍ ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخَلالُ ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ ، وَقَالَ : " أَمَّا هَؤُلاءِ فَيَدْعُونَ اللَّهَ وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ ، فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ .
[شرح السنة » كِتَابُ الْعِلْمِ » بَابُ فَضْلِ الْعِلْمِ ... رقم الحديث: 127 (128)]
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ اپنی مسجد میں دو محافل کے پاس سے گزرے توارشاد فرمایا دونوں نیکی کا کام کررہے ہیں لیکن ان میں سے ایک دوسرے پر فضیلت رکھتی ہے۔ یہ لوگ جو اللہ سے دعا مانگ رہے ہیں اس کی بارگاہ میں متوجہ ہیں اگر اللہ نے چاہا تو انہیں عطا کردے اور اگر چا ہے تو عطا نہ کرے اور یہ لوگ جو دین کا علم حاصل کررہے ہیں اور ناواقف لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں یہ افضل ہیں کیونکہ مجھے بھی تعلیم دینے والا بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر نبی اکرم ﷺ ان حضرات میں تشریف فرما ہوگئے۔
[أخرجه ابن ماجه (1/83، رقم 229) ، أخرجه أيضًا: الطيالسى (ص 298، رقم 2251) ، والبزار (6/428، رقم 2458) ، والحارث (1/185، رقم 40) ، وفى الحديث أن النبى - صلى الله عليه وسلم - دخل المسجد وقوم يذكرون الله عز وجل وقوم يتذاكرون الفقة فذكره.]
تخريج الحديث
الشواهد
|
3) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمٍ ، نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ صَالِحَ الأَخْلاقِ " .
[مكارم الأخلاق لابن أبي الدنيا » مَحَبَّةُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لِمَكَارِمِ الأَخْلاقِ ... رقم الحديث: 12 (13)]
حضرت ابوھریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں بس بھیجا گیا ہوں نیک اخلاق (کی تعلیم) کے مکمل کرنے کو.
[أخرجه أحمد (8952) ، وابن سعد (1/192) . أخرجه الحاكم (2/670، رقم 4221) وقال: صحيح على شرط مسلم. والبيهقى (10/192، رقم 20572) . وأخرجه أيضًا: الديلمى (2/12، رقم 2098) .]
تخريج الحديث
|
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ﴿سورۃ التوبة:33﴾
وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں۔
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ ﴿سورة الانبياء:107﴾
اور (اے نبیؐ) ہم نے تمکو بھیجا ہے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر.
4) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، قَالَ : حَّدَثَنَا الحُسَيْنُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الأَشْرَسِ , قَالَ : حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ , عَنْ أَبَى عَبْدِ الْمَلِكِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ , عَنْ جَدِّهِ , عَنْ أَبَى أُمَامَةَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَنِي رَحْمَةً وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ , بَعَثَنِي لأَمْحَقَ الْمَعَازِفَ وَالْمَزَامِيرَ وَأَمْرَ الْجَاهِلِيَّةِ وَالأَوْثَانَ , وَحَلَفَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ بِعِزَّتِهِ لا يَشْرَبُ الْخَمْرَ أَحَدٌ فِي الدُّنْيَا إِلا سَقَاهُ اللَّهُ مِثْلَهَا مِنَ الْحَمِيمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , مَغْفُورٌ لَهُ أَوْ مُعَذَّبٌ , وَلا يَدَعُهَا أَحَدٌ فِي الدُّنْيَا إِلا سَقَيْتُهُ إِيَّاهَا فِي حَظِيرَةِ الْقُدُسِ حَتَّى تَقْنَعَ نَفْسُهُ " .
خلاصة حكم المحدث: [له شواهد يأخذ بها قوة]
حضرت ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا رحمت اور ہدایت سارے جہاں والوں کے لئے ، مجھے بھیجا تاکہ میں بانسریاں باجے اور تمام آلات موسیقی اور جاہلیت کی باتوں کو اور بتوں کو مٹا ڈالوں،
تخريج الحديث
|
الشواهد
|
الشواهد
|
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ (اپنے دشمنوں ) کافروں کے حق میں بددعا فرمائیے ، تاکہ وہ ہلاک ہوں اور ان کی جڑ اکھڑجائے ) تو فرمایا مجھ کو لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ مجھ کو تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے (مسلم)
تشریح :
مجھ کو تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے کے ذریعہ آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ میں سارے جہاں کے لئے رحمت کا باعث ہوں کیا مؤمن اور کیا کافر ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ وما ارسلنک الا رحمتہ للعلمین۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو سارے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے : اس صورت میں جب کہ سب ہی کے حق میں رحمت کر بھیجا گیا ہوں ، کافروں کے حق میں بددعا کیسے کرسکتا ہوں خواہ وہ میرے کیسے ہی دشمن کیوں نہ ہوں ۔ اہل ایمان کے حق میں آنحضرت ﷺ کا باعث رحمت ہونا تو ظاہرہی ہے رہی کافروں کی بات تو ان کے حق میں آپ ﷺ کا باعث رحمت ہونا اس اعتبار سے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دین اور اس کے رسول کی سخت نافرمانی ، سرکشی اور دشمنی کے باوجود محض آنحضرت ﷺ کے بابرکت وجود کے باعث ان پر سے دنیا کا عذاب اٹھا لیا گیا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم ۔ اس حالت میں کہ آپ ان کے درمیان موجود ہیں اللہ تعالیٰ ان پر (دنیا میں ) عذاب نازل نہیں کرے گا : بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی اس برکت کو حیات مبارکہ تک ہی محدود نہیں رکھا ، ہمیشہ کے لئے اس برکت کو باقی رکھا اور طے فرما دیا کہ کلی استیصال کا عذاب قیامت تک نازل نہیں ہوگا ، جب کہ کتنی ہی گذشتہ امتیں اپنے پیغمبروں کی بددعا کی وجہ سے نیست ونابود کردی گئیں اور ان کا معمولی ساوجود بھی باقی نہ رہا۔ علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ میں اس لئے نہیں آیا ہوں کہ کسی کو اللہ کی رحمت سے دور کروں بلکہ اس دنیا میں میری بعثت کا مقصد یہی ہے کہ میں اللہ کی نازل کردہ ہدایت ، اپنی تعلیمات اور اخلاق کی طاقت سے لوگوں کو اللہ اور اس کی رحمت کے قریب کروں ، ایسی صورت میں جب کہ کسی کے حق میں بددعا کرنا یا کسی پر لعنت بھیجنا میری شان سے بعید اور میرے حال کے غیر مناسب ہے تو میں ان کافروں کے حق میں بھی کیسے بددعا کروں اور کس طرح ان پر لعنت بھیجوں ۔
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ ، أَخْبَرَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " تَعْلَمُونَ أَنِّي رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ بُعِثْتُ لِرَفْعِ قَوْمٍ وَوَضْعِ آخَرِينَ " .
حضرت معبد بن خالدؓ سے مروی ہے رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں تو محض وہ رحمت ہوں جو بطور ہدیہ بھیجی گئی ہوں ، میں (ماننے والی) ایک قوم کی ترقی اور (منکروں کی) تنزلی کے لئے مبعوث ہوا ہوں.
تخريج الحديث
|
5) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْث ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ فَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِي يَدِي " ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : وَقَدْ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَنْتَثِلُونَهَا .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ » بَاب مَا قِيلَ فِي لِوَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ ... رقم الحديث: 2770 (2977)]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا میں جوامع الکلم کے ساتھ مبعوث ہوا ہوں اور بذریعہ رعب میری مدد کی گئی ہے ایک دن جب کہ میں سو رہا تھا تو میرے پاس روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھ میں رکھ دی گئیں ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تو رخصت ہو گئے اور تم اس خزانہ کو نکال رہے ہو۔
[أخرجه البخارى (3/1087، رقم 2815) ، ومسلم (1/371، رقم 523) ، والنسائى (6/3، رقم 3087) . وأخرجه أيضًا: أحمد (2/264، رقم 7575) ، وابن حبان (14/277، رقم 6363) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (1/161، رقم 139) .]
تشریح : حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ مجھے بشارت عطاء فرمائی کہ بڑے بڑے علاقوں اور شہروں کا فتح ہونا اور ان کے خزانوں اور مال واسباب کا حاصل ہونا میرے لئے اور میری امت کے لئے آسان کردیا گیا ۔ یا خزانوں سے مراد معدنیات ہیں جوزمین کے نیچے چھپی ہوئی ہیں جیسے سونا ، چاندی اور دوسری قیمتی چیزیں ۔
تخريج الحديث
|
6) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ , حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ مِنْ سَرَايَاهُ , قَالَ : فَمَرَّ رَجُلٌ بِغَارٍ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ , قَالَ : فَحَدَّثَ نَفْسَهُ بِأَنْ يُقِيمَ فِي ذَلِكَ الْغَارِ , فَيَقُوتُهُ مَا كَانَ فِيهِ مِنْ مَاءٍ , وَيُصِيبُ مَا حَوْلَهُ مِنَ الْبَقْلِ , وَيَتَخَلَّى مِنَ الدُّنْيَا , ثُمَّ قَالَ : لَوْ أَنِّي أَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ , فَإِنْ أَذِنَ لِي فَعَلْتُ , وَإِلَّا لَمْ أَفْعَلْ , فَأَتَاهُ فَقَالَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ , إِنِّي مَرَرْتُ بِغَارٍ فِيهِ مَا يَقُوتُنِي مِنَ الْمَاءِ وَالْبَقْلِ , فَحَدَّثَتْنِي نَفْسِي بِأَنْ أُقِيمَ فِيهِ , وَأَتَخَلَّى مِنَ الدُّنْيَا , قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ بِالْيَهُودِيَّةِ وَلَا بِالنَّصْرَانِيَّةِ , وَلَكِنِّي بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ , وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَغَدْوَةٌ أَوْ رَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا , وَلَمُقَامُ أَحَدِكُمْ فِي الصَّفِّ خَيْرٌ مِنْ صَلَاتِهِ سِتِّينَ سَنَةً " .[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ الصُّدَيِّ بْنِ ... رقم الحديث: 21703]
حضرت ابوامامہؓ (صدی بن عجلان) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک لشکر میں نکلے تو دوران سفر جب ہم میں سے ایک شخص ایک ایسی غار (وادی) کے درمیان سے گزرا جس میں کچھ پانی اور سبزہ تھا تو اس نے اپنے دل میں سوچا کہ وہ اسی غار میں رہ جائے اور دنیا سے کنارہ کشی کر لے ۔ چنانچہ اس نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی آپ ﷺ نے فرمایا یاد رکھو! نہ تو میں دین یہودیت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں اور نہ دین عیسائیت دے کر کہ میں تم لوگوں کو رہبانیت کی تعلیم دوں ، بیجا مشقت وتکلیف میں مبتلا کروں اور لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور لذات دنیا سے مطلقًا کنارہ کشی کی اجازت دوں بلکہ میں تو دین حنیفہ دے کر بھیجا گیا ہوں جو ایک آسان دین ہے جس میں نہ تو انسانیت عامہ کے لئے بیجا تکلیف وحرج ہے اور نہ زائد از ضرورت مشقت ومحنت ہے قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے دن کے صرف ابتدائی یا آخری حصے میں یعنی صبح وشام کو اللہ کی راہ جہاد میں چلے جانا دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور تم سے کسی کا میدان جنگ کی جماعت نماز کی صف میں کھڑا ہونا اس کی ساٹھ سال کی تنہا پڑھی جانے والی نماز سے بہتر ہے ۔"
[أخرجه أحمد (22291) ، والطبرانى (8/216، رقم 7868) .]
[أخرجه أحمد (22291) ، والطبرانى (8/216، رقم 7868) .]
تخريج الحديث
|
***************************************
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ ، ثنا أَبِي ، أَنْبَأَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبٍ الْقُرَشِيُّ ، ثَنَا عَمِّي ، أَخْبَرَنِييُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ حَدِيثٍ عَمْرٍو الْحَضْرَمِيِّ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآَلِهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا ، فَكَانَ أَكْثَرَ خُطْبَتِهِ ذِكْرَ الدَّجَّالِ ، يُحَدِّثُنَا عَنْهُ ، حَتَّى فَرَغَ مِنْ خُطْبَتِهِ ، فَكَانَ فِيمَا قَالَ لَنَا يَوْمَئِذٍ : " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا إِلا حَذَّرَ أُمَّتَهُ الدَّجَّالَ ، وَإِنِّي آخِرُ الأَنْبِيَاءِ ، وَأَنْتُمْ آخِرُ الأُمَمِ ...
[فَضَائِلُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ » مَا ذُكِرَ فِي فَضْلِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ » بَابُ : مُقَامِ الْمُسْلِمِينَ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ ... رقم الحديث: 32]
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِعَبْدٍ ، قَالُوا : حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمِسْوَرِ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي ، إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ ، وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ ، يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الإِيمَانِ ، حَبَّةُ خَرْدَلٍ " ، قَالَ أَبُو رَافِعٍ : فَحَدَّثْتُهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، فَأَنْكَرَهُ عَلَيَّ ، فَقَدِمَ ابْنُ مَسْعُودٍ ، فَنَزَلَ بِقَنَاةَ ، فَاسْتَتْبَعَنِي إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَعُودُهُ ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ ، فَلَمَّا جَلَسْنَا سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ ، حَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثْتُهُ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ صَالِحٌ : وَقَدْ تُحُدِّثَ بِنَحْوِ ذَلِكَ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ وحَدَّثَنِيهِ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق بْنِ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِيالْحَارِثُ بْنُ الْفُضَيْلِ الْخَطْمِيُّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَا كَانَ مِنْ نَبِيٍّ ، إِلَّا وَقَدْ كَانَ لَهُ حَوَارِيُّونَ ، يَهْتَدُونَ بِهَدْيِهِ ، وَيَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِهِ " ، مِثْلَ حَدِيثِ صَالِحٍ ، وَلَمْ يَذْكُرْ قُدُومَ ابْنِ مَسْعُودٍ ، وَاجْتِمَاعِ ابْنِ عُمَرَ مَعَهُ .
[صحيح مسلم » كِتَاب الإِيمَانِ » بَاب بَيَانِ كَوْنِ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنَ ... رقم الحديث: 74]
[فَضَائِلُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ » مَا ذُكِرَ فِي فَضْلِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ » بَابُ : مُقَامِ الْمُسْلِمِينَ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ ... رقم الحديث: 32]
المستدرك على الصحيحين:4 : 527(8723) ، فوائد تمام الرازي : 256(267) ، طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها : 1051(1054)
ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ نے کوئی نبیؑ ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔ اور میں تمام انبیاء کے آخر میں ہوں اور تم آخر میں ہو سب امتوں سے
[سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 957 (- فتنوں کا بیان : فتنہ دجال]
ایمان کا تقاضا : نیکیوں (اور سنّتوں) کا حکم کرنا اور برائیوں (بدعتوں) سے روکنا
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھ سے پہلے جس امت میں نبی بھیجا گیا ہے اس کی امت میں سے اس کے کچھ دوست اور صحابی بھی ہوئے ہیں جو اس کے طریقہ پر کار بند اور اس کے حکم کے پیرو رہے ہیں لیکن ان صحابیوں کے بعد کچھ لوگ ایسے بھی ہوئے ہیں جن کا قول فعل کے خلاف اور فعل حکم نبی کے خلاف ہوا ہے جس شخص نے ہاتھ سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا جس نے زبان سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا جس نے دل سے جہاد کیا (یعنی نفرت کا اظھار کرتے ان کی ان باتوں سے الگ رہا) وہ بھی مومن تھا اس کے علاوہ رائی کے دانہ کے برابر ایمان کا کوئی درجہ نہیں ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث حضرت ابن عمرؓ کے سامنے بیان کی انہوں نے نہ مانا اور انکار کیا اتفاق سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ آگئے اور قناہ وادی مدینہ میں اترے تو حضرت ابن عمرؓ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی عیادت کو مجھے اپنے ساتھ لئے گئے میں ان کے ساتھ چلا گیا جب ہم وہاں جا کر بیٹھ گئے تو میں نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے یہ حدیث اسی طرح بیان کی جیسا کہ میں نے حضرت ابن عمرؓ سے بیان کی تھی حضرت صالح فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ابورافعؒ سے اسی طرح بیان کی گئی ہے۔(مسلم)
تخريج الحديث
|
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت قیامت کی قرب کی نشانی ہے
بإصبعيه هکذا بالوسطی والتي تلي الإبهام بعثت والساعة کهاتين
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2079 (4642) - تفاسیر کا بیان : تفسیر سورت والنازعات]
آپ نے بیچ کی اور انگوٹھے کے پاس والی انگلی کے اشارے سے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ . ح قَالَ : وحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ النَّضْرِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَايَزِيدُ هُوَ ابْنُ صُهَيْبٍ الْفَقِيرُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي ، نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ ، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا ، فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ فَلْيُصَلِّ ، وَأُحِلَّتْ لِي الْمَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي ، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً ، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْحَيْضِ » بَاب الصَّلَاةِ عَلَى النُّفَسَاءِ وَسُنَّتِهَا ... رقم الحديث: 326 (335)
[صحيح البخاري » كِتَاب الْحَيْضِ » بَاب الصَّلَاةِ عَلَى النُّفَسَاءِ وَسُنَّتِهَا ... رقم الحديث: 326 (335)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ دی گئی تھیں، ایک ماہ کی راہ سے بذریعہ رعب کے میری مدد کی گئی اور زمین میرے لئے مسجد اور طاہر کرنے والی بنائی گئی اور یہ اجازت مل گئی کہ میری امت میں سے جس شخص کو جہاں نماز کا وقت آجائے وہ وہیں پڑھ لے اور میرے لئے غنیمت کے مال حلال کر دیئے گئے، دیگر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے اور میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور مجھے شفاعت (کی اجازت) عنایت فرمائی گئی ہے۔[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 328, - تیمم کا بیان : تیمم کے احکام، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ پس تم پاک مٹی سے تیمم کرو اور اس سے اپنے منہ کو اور ہاتھوں کو ملو، جو تیمم کی اجازت دیتا ہے]
تشریح : مجھ کو اس رعب کے ذریعہ نصرت عطا ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے اور اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ پر مجھے اس خصوصیت کے ساتھ فتح ونصرت عطا فرماتا ہے کہ ان کے دلوں میں میرا رعب اور خوف پیدا ہوجاتا ہے اور وہ مجھ سے ایک مہینہ کی مسافت کی دوری پر بھی ہوتے ہیں تو میرے نام ہی سے ان کی ہمت پست ہوجاتی ہے اور مارے رعب ودہشت کے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ، ساری زمین کو میرے لئے مسجد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے پہلے کے رسولوں اور نبیوں کی شریعت میں ہر جگہ نماز پڑھنا اور عبادت کرنا درست نہیں تھا ان کی نمازوعبادت کے لئے جو جگہ عبادت خانہ کے طور پر متعین اور مخصوص ہوتی تھی بس وہیں نماز وعبادت ہوسکتی تھی لیکن مجھے یہ خصوصیت عطاء ہوئی کہ میں اور میری امت کے لوگ بیت الخلاء وغسل خانہ اور مقبرہ کے علاوہ پوری روئے زمین پر جس جگہ اور جہاں چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں الاّ یہ کہ کسی جگہ کی ناپاکی کا علم یقین کے ساتھ ہوجائے تو اس جگہ نماز پڑھنا جائز نہیں اسی طرح گذشتہ امتوں میں پانی کے بغیر پاکی حاصل نہیں ہوتی تھی لیکن ہمارے لئے یہ جائز قرار دیا گیا ہے کہ اگر کہیں پانی دستیاب نہ ہو یا پانی کے استعمال میں کوئی شرعی عذر حائل ہو تو پاک مٹی کے ذریعہ تیمم کرکے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے میرے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا کی وضاحت یہ ہے کہ مال غنیمت کے بارے میں گذشتہ امتوں میں جو یہ معمول تھا کہ حاصل ہونے والا مال غنیمت اگر جانوروں کے علاوہ کسی اور جنس کا ہوتا تو اس کو جمع کرکے ایک جگہ رکھ دیا جاتا اور پھر آسمان سے ایک آگ اترتی اور وہاں جمع شدہ تمام مال واسباب کو جلا کر واپس چلی جاتی اور اگر مال غنیمت مویشوں اور جانوروں کی صورت میں ہوتا تو اس کے حقدار صرف وہی لوگ ہوتے تھے جو اس کو دشمنوں سے چھنتے اور اس پر قبضہ کرتے تھے نبی اور رسول کو اس میں سے کچھ نہ ملتا لیکن ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ صرف یہ کہ خمس یعنی مال غنیمت کا پانچوں حصہ بلکہ صفی بھی لینا جائز کیا گیا ہے صفی اس چیز کو کہتے ہیں جو مال غنیمت میں سب سے اچھی ہو چنانچہ مال غنیمت میں جو چیز سب سے اچھی معلوم ہوتی تھی جیسے تلوار وغیرہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے مخصوص فرمالیتے تھے مجھے کو شفاعت عظمی عامہ کے مرتبے سے سرفراز فرمایا گیا قیامت کے دن یہ مرتبہ خاص صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوگا اور شفاعت کے جتنے بھی مواقع اور مقام ہوں گے وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی مرتبہ کے تحت ہوں گے اس بارے میں تفصیلی بحث باب شفاعتہ میں گذر چکی ہے مجھ کو روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا کہ بارے میں یہ ذہن نشین رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت صرف انسانوں کی تک محدود نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جنات کی طرف بھی ہوئی ہے اپنی رسالت کے ذریعہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم روئے زمین کے تمام انسانوں تک اللہ کا پیغام ہدایت پہنچایا اسی طرح جنات کی بھی ہدایت فرمائی اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول الثقلین کہا جاتا ہے ہوسکتا ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی اس وقت تک جنات کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہ ہوئی ہوبعد میں ہوئی ہو اور اسی وجہ سے اس حدیث میں جنات کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے چھ چیزوں کے ذریعہ دوسرے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے ، (١) مجھے جامع کلمات عطاء ہوئے (٢) دشمنوں کے دل میں میرا رعب ڈالنے کے ذریعہ مجھے فتح ونصرت عطا فرمائی گئی (٣) مال غنیمت میرے لئے حلال ہوا (٤) ساری زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی قرار دیا گیا ، (٥) ساری مخلوق کے لئے مجھے نبی بنا کر بھیجا گیا (٦) اور نبوت ورسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا گیا ۔ (مسلم ) تشریح : مجھے جامع کلمات عطاہوئے ۔" کا مطلب یہ ہے کہ دین کی حکمتیں اور احکام ، ہدایت کی باتیں اور مذہبی ودنیاوی امور سے متعلق دوسری چیزوں کو بیان کرنے کا ایسا مخصوص اسلوب مجھے عطا فرمایا گیا جو نہ پہلے کسی نبی اور رسول کو عطا ہوا اور نہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے فصیح وبلیغ کو نصیب ہوا ! اس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ تھوڑے سے الفاظ کے ایک چھوٹے سے جملہ میں معانی ومفہوم کا ایک گنجینہ پہناں ہوتا ہے ، پڑھئے اور لکھئے تو چھوٹی سی سطر بھی پوری نہ ہو ، لیکن اس کا فہم اور وضاحت بیان کیجئے تو کتاب کی کتاب تیار ہوجائے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وارشادات میں اس طرح کے کلمات کی ایک بڑی تعداد ہے جن کو " جوامع الکلم " سے تعبیر کیا جاتا ہے ، ان میں سے چند کلمات کو بطور مثال یہاں نقل کیا جاتا ہے : ١انماالاعمال بالنیات ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے ۔ ٢ومن حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ ۔ بے فائدہ بات کو ترک کردینا آدمی کے اسلام کا حسن ہے ۔ ٣الدین النصیحۃ ۔ دین خیر خواہی کا نام ہے ٤العدۃ دین وعدہ ۔ وعدہ ، بمنزلہ دین کے ہے ۔ ٥المستشارموتمن جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانتدار ہے ۔ بعض علماء نے بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے کام لے کر احادیث کے ذخائر میں سے اس طرح کی حدیثوں کو ، جو جوامع الکلم " میں سے ہیں چنا ہے (اور انکا مجموعہ تیار کیا ہے !بعض شارحین نے یہ لکھا ہے کہ " مجھے جوامع الکلم یعنی جامع کلمات عطاہوئے ہیں ۔" میں جوامع الکلم سے " قرآن کریم " مراد ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ کے کلام کا یہ اعجاز نمایاں ہے کہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑے بڑے مضمون پنہاں ہیں ، لیکن پہلی وضاحت ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ اسی مضمون کی ایک دوسری روایت میں " اختصہ لی الکلام " کے الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں اس سے اسی قول کی تائید ہوتی ہے کہ یہاں " جوامع الکلم " سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اقوال مراد ہیں " اور نبوت ورسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا گیا ، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا ، رسالت تمام ہوئی اب میرے بعد کوئی اور نبی ورسول نہیں آئے گا کیونکہ اللہ کا دین مکمل ہوگیا ہے قیامت کے قریب حضرت عیسی علیہ السلام کا اترنا بھی اسی دین کو مضبوط بنانے اور زیادہ سے زیادہ پھیلانے کے لئے ہوگا۔
میں بھیجا گیا ہوں احمر و اسود کی طرف، عبدالملک نے کہا کہ احمر یعنی انسان، اسود یعنی جن.
آنحضرت کا خاندانی ونسبی فضل وشرف :
بعثت من خير قرون بني آدم قرنا فقرنا حتی کنت من القرن الذي کنت فيه
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 781 (3344) - انبیاء علیہم السلام کا بیان : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف]
انقلابِ زمانہ کے ساتھ مجھے بنی آدم کے بہترین خانوادوں میں منتقل کیا جاتا رہا ، آخر دور میں میرا وجود جس میں کہ مقدر تھا.
یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد ، نبی محمد (صلی الله علیہ وسلم) کے نسب کے جتنے بھی سلسلے ہوۓ وہ سب حضرت آدم کی اولاد میں سے بہترین خانوادے تھے، آپ کے اجداد میں ابراہیم علیہ السلام پھر اسماعیل علیہ السلام جو ابو العرب ہیں اس کے بعد عربوں کے جتنے سلسلے ہیں ان سب میں آپ کا خانوادہ اولادِ اسماعیل کی شاخ کنانہ سے پھر قریش سے پھر بنی ہاشم سے ہے، جو سب سے زیادہ بلند تر اور رفیع المنزلت خانوادہ ہے.
ترجمہ: حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم چالیس برس بعد مبعوث کے گئے.
ترجمہ: حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنی ولادت سے چالیس برس بعد مبعوث کے گئے.
==========================================
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایک اعرابی نے مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کر دیا، تو لوگوں نے اسے پکڑ لیا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی (کا خواہ کم ہو یا بھرا ہو) ڈال دو، اس لئے کہ تم لوگ نرمی کرنے کے لئے بھیجے گئے ہو، سختی کرنے کیلئے نہیں۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 221 - وضو کا بیان : مسجد میں پیشاب پر پانی ڈالنے کا بیان]