ڈاڑھی مونڈنے والوں کے حیلے اور بہانے اور لچر دلیلیں:
بہت سے لوگ تو ایسے ہیں جو ڈاڑھی مونڈنے اور منڈانے کو گناہ سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو اس بارے میں گناہ گار مانتے ہیں، لیکن کثیر تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو حیلے بہانے تلاش کر کے اس فعلِ بد کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے عذر لنگ اور لچر دلیلیں جو اَب تک سننے میں آئی ہیں وہ یہ ہیں۔
(1)۔اس بات کی تردید کہ آں حضرت ﷺ نے عرب کے ماحول کے مطابق ڈاڑھی رکھ لی تھی:
کہتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ جس علاقہ اور جس ماحول میں تھے اس میں ڈاڑھیاں رکھی جاتی تھیں۔ آپ نے رواج کے مطابق ڈاڑھی رکھ لی تھی، لہٰذا یہ کوئی فعل شرعی نہیں ایک رواجی کام تھا جسے آپ نے اپنا لیا ۔اور بعض جاہل تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اس زمانے میں ہوتے تو اپنی ڈاڑھی مبارک منڈایا کرتے(العیاذ باللہ!) ان جاہلوں کو معلوم نہیں کہ دینِ ابراہیمی میں سے جو چیزیں عرب میں باقی تھیں آںحضرت ﷺ نے انہیں کو اختیار فرمایا، جہالت اور جاہلیت کی جو چیزیں عربوں نے اپنے رواج میں جاری کرلی تھیں ان سے آپ نے روکا اور ان کو مٹایا، اور فرمایا کہ جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے ہے۔ ۱؎
یہی نہیں کہ آپ نے خود ڈاڑھی رکھی بلکہ ڈاڑھی رکھنے کا اپنی امت کو حکم بھی فرمایا۔ ’’بخاری شریف‘‘ میں ہے کہ آںحضرت ﷺ نے فرمایا:
أَنْھِکُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحٰی۔۲؎
ترجمہ:
مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو اور ڈاڑھیوں کو اچھی طرح بڑھائو۔
’’مسلم شریف ‘‘میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللِّحٰی۔۳؎
ترجمہ:
مونچھوں کو تراشو، اور ڈاڑھیوں کو لٹکائو۔
بالفرض حضورِ اَقدسﷺ نے اہلِ مکہ کے رواج کے مطابق ڈاڑھی رکھ لی تھی تو رہتی دنیا تک اپنی امت کو ڈاڑھیاں خوب بڑھانے کا بلکہ لٹکانے کا کیوں حکم دیا؟ اگر ایسا ہی تھا جیسا جاہل لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے رواج کی وجہ سے ڈاڑھی رکھ لی تھی تو آپ نے اپنی امت کو یہ ہدایت کیوں نہ فرمائی کہ تم جہاں جس ملک اور جس ماحول میں ہو ویسا ہی کرلینا، ڈاڑھی مونڈنے کا رواج ہو تو مونڈلینا اور اس کے رکھنے کا رواج ہو تو رکھ لینا۔ العیاذ باللہ!
نفس کی خواہشوں کا اتباع کرنے والوں کو شیطان کیسی کیسی پٹی پڑھاتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے عرب میں رواج پائے ہوئے ان طریقوں کو باطل قرار دیا جو جہالت اور جاہلیت کی وجہ سے رواج پکڑے ہوئے تھے۔ عربوں میں گودوانے کا رواج تھا عورتیں بالوں میں بال ملایا کرتی تھیں، مرد ڈاڑھیوں میں گرہ لگاتے تھے، کام کاج کے وقت ننگے ہوجایا کرتے تھے، مرد عورت ننگے ہو کر طواف کرتے تھے، پیشاب پاخانہ کے وقت پردہ کرنے کو عیب سمجھتے تھے، لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے، جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تھا تو اس سے ایک سال تک ایک کوٹھڑی میں عدت گزرواتے تھے اور ایک سال گزر جانے پر اسے بازاروں میں گھماتے تھے ، اور وہ گزرتے ہوئے لوگوں پر اونٹ کی مینگنیاں پھینکتی جاتی تھی۔
اس طرح کی اور بہت سی خرافات میں عرب کے لوگ مبتلا تھے، حضورِ اقدس ﷺ نے ان چیزوں کو مٹایا، اگر آپ رواج سے متأثر ہو کر کوئی عمل اختیار کرتے تو ان چیزوں کو اختیار فرمالیتے اور ان جاہلوں کے خیال کے مطابق کم از کم ڈاڑھی میں تو گرہ لگاہی لیتے، لیکن اس کے برخلاف آپ نے ایک صحابی سے یوں ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں کو خبر دے دینا کہ جو شخص اپنی ڈاڑھی میں گرہ لگائے بلاشبہ محمد اس سے بری ہیں، یعنی بے زار ہیں۔
حضورِ اقدس ﷺ نے دینِ ابراہیمی کی چیزوں کو اپنایا اور جہالت کی چیزوں کو مٹایا ہے: حضور ِاقدس ﷺ نے عرب کے جاہلوں کی اور جاہلیت کی کسی بات کو نہیں مانا اور جاہلیت کے کسی عمل کو نہیں اپنایا۔ دین ابراہیمی میں سے جو کوئی چیز عرب کے معاشرہ میں باقی تھی اس کو لے لیا اور دینِ ابراہیمی کے خلاف جو بھی کچھ تھا اس کو چھوڑ دیا۔ ڈاڑھی تمام انبیائے کرام ؑ نے رکھی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑبھی ڈاڑھی والے تھے، آںحضرت ﷺ نے انہیں کا اتباع فرمایا جس کا قرآن پاک میں حکم ہیـ:
{ ثُمَّ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا}۱ ؎
پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ ابراہیم حنیف کی ملت کا اتباع کیجیے۔
جب ملتِ ابراہیمی کے اتباع کاحکم ہوگیا تو ملت ِابراہیمی کے اَحکام شریعت ِمحمدیہ کا جزو بن گئے، اور ہر مسلمان پر لازم ہوگیا کہ ان کا اتباع کرے۔ اگر العیاذ باللہ! نبی ہی قوم اور وطن کے رواج کے بہائو میں بہہ جاتا تو پھر انسانوں کی اصلاح کا راستہ کیسے نکلتا؟ اور الٹا لوگوں کا اتباع کرکے کیسے ہادی اور رہنما بن کر سامنے آتا {فاتَّقُوا اللّٰہَ یَآ اُولِی الْاَلْبَابِ}۲؎
(2)۔ اس دلیل کا جواب کہ یہودیوں کی مخالفت میں ڈاڑھی مونڈنی چاہیے:
کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ڈاڑھی منڈانے کے جواز کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺ کے زمانہ میں مشرکین ڈاڑھی منڈاتے تھے اس وجہ سے ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا، آج کل چوں کہ یہودی ڈاڑھیاں رکھتے ہیں اس لیے ان کی مخالفت میں ڈاڑھی منڈانا واجب ہوا۔ ان لوگوں کی یہ بات بھی جہالت سے بھر پور ہے، کیوں کہ حضورِ اَقدس ﷺ کے زمانہ میں عرب کے مشرک اور یہودی ڈاڑھیاں رکھتے تھے اور فارس کے مشرکین ڈاڑھیاں منڈاتے تھے۔ دونوں باتیں آپ کے سامنے تھیں۔ آپ نے دونوں میں سے اسی چیز کو اختیار فرمایا جو دینِ ابراہیمی کے موافق تھی یعنی ڈاڑھی رکھی اور اپنی امت سے رکھوائی، اور اس کے برخلاف دوسرے فعل یعنی ڈاڑھی مونڈنے سے منع فرمایا اور اس کی مخالفت کا حکم فرمایا۔ اس وقت کے یہودیوں میں اور آج کے یہودیوں میں جو ڈاڑھی رکھنے کا رواج ہے وہ ان میں دینِ ابراہیمی کا ایک عمل باقی ہے، اس عمل کی مخالفت کرنا صحیح نہیں۔ اور ڈاڑھی مونڈنا چوں کہ تمام انبیائے کرام ؑ کے طریقہ کے خلاف ہے اس لیے اس کی مخالفت واجب ہے۔ اگر ہر بات میں یہودیوں کی مخالفت کرنا واجب ہوتا تو حضورِ اقدس ﷺ ڈاڑھی رکھنے اور ختنہ کرنے دونوں کی مخالفت کا حکم فرماتے لیکن آپ نے ایسا نہیں فرمایا۔ تشبہُّ اور مخالفت کے کچھ اصول ہیں ان کو عُلَمائے ربانیین ہی جانتے ہیں۔ ڈاڑھی مونڈنے والے بے عمل ہوں یا کالجوں اور یونیورسٹیوں کے گریجویٹ ہوں، وہ مشابہت اور مخالفت کا معیار سمجھتے ہی نہیں، نفس کی خواہش پوری کرنے کے لیے یہودیوں کی مخالفت کا بہانہ بناکر ڈاڑھیاں تو مونڈڈالیں لیکن ختنہ ترک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اللہ پاک انہیں دین کی سمجھ عطا فرمائے (آمین)۔
(3)۔ اس دلیل کا جواب کہ عرب اور مصری بھی تو ڈاڑھی مونڈتے ہیں:
بعض فیشن کے دل دادہ ڈاڑھی مونڈنے کے جواز کے لیے یوں کہتے ہیں کہ صاحب! عرب بھی تو ڈاڑھی مونڈتے ہیں اور مصر میں بھی ڈاڑھی مونڈی جاتی ہے، اور فلاں قوم میں بھی ڈاڑھی مونڈنے کا رواج ہے، لہٰذا ہم نے بھی مونڈی تو کیا ہوا؟
ان لوگوں سے ہمارا یہ کہنا ہے کہ اتباع اور اقتدا کے لیے رسولِ پاک ﷺ کی ذات اُسوہ اور نمونہ قرار دی گئی ہے، آپ کے قول اور فعل کے خلاف جو چلے اس کا اتباع کرنا گناہ گاری ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اتباع کو چھوڑ کر عرب اور مصر کے فاسقوں کا اتباع کرنا کہاں کی دین داری اور سمجھ داری ہے؟ کسی بھی ملک اور قوم کے افراد شریعت کی خلاف ورزی کر کے آخرت کے مؤاخذہ کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے کے لیے تیار ہوجائیں تو کیا ان کی پیروی میں خود کو آخرت کی گرفت اور عذاب کے لیے پیش کرنا عقل مندی کے خلاف نہیں ہے؟
(4)۔ اس کا جواب کہ ڈاڑھی میں ہی اسلام رکھا ہے:
کچھ لوگ یوں کہتے ہیں کہ واہ صاحب! کیا ڈاڑھی ہی میں اسلام رکھا ہے؟ ڈاڑھی نہ رکھیں گے تو کیا اسلام سے نکل جائیں گے؟ یہ بھی جاہلانہ دلیل ہے۔ اسلا م تو صحیح عقائد کا نام ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں، عقیدہ قرآن وحدیث کے خلاف ہو تو کافر ہوجاتا ہے۔ فرائض وواجبات کے ترک کرنے یا کسی بھی صغیرہ وکبیرہ گناہ کے کرنے سے کافر نہیں ہوتا، بلکہ فاسق ہوجاتا ہے۔ فرائض وواجبات انجام نہ دیں اور گناہ کرتے رہیں، اور عذاب بھگتنے کے لیے تیار رہیں ، یہ کوئی سمجھ داری کی بات نہیں ہے۔ اگر صرف عقیدہ کے طور پر مسلمان ہونا ہی مطلوب ہوتا تو اللہ جل شانہٗ کی طرف سے بہت سے کاموں کے کرنے اور بہت سے کاموں کے نہ کرنے کے اَحکام کیوں نازل ہوتے؟ مسلمان ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ عقیدہ بھی ٹھیک رکھیں اور اَحکام پر بھی عمل کریں، اگر جاہلوں کی بات پر چلے تو بس اسلام کا کوئی عمل بھی نہ کرے کیوں کہ بے عمل ہونے سے کافر تو ہوتا ہی نہیں۔
بات یہ ہے کہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ لوگ گناہ کر کے خوب عذاب کے مستحق بنیں، گناہ گاروں والی زندگی گزارتے ہوئے مرجائیں اور دوزخ میں جائیں۔ شیطان اپنی دشمنی سے کبھی باز نہیں آتا، وہ بد عملی پر مطمئن کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے سجھاتا ہے، اور جو لوگ نصیحت کرتے ہیں بدعملوں سے ان کو الٹے جواب دلواتا ہے۔
(5)۔ اس دلیل کا جواب کہ ڈاڑھی والے دغا باز ہوتے ہیں:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ڈاڑھی والے دغاباز ہیں، ٹٹّی[لمبی ڈاڑھی] کی آڑ میں شکار کھیلتے ہیں، اور ڈاڑھی والوں کے افعال خراب ہیں۔ کیا خوب دور کی کوڑی لائے ! گزارش یہ ہے کہ ایک ڈاڑھی ہی پر کیا منحصر ہے، کیا نمازیوں میں غبن اور خیانت کرنے والے اور گناہوں میں مبتلا رہنے والے نہیں ہیں؟ ہیں اور ضرور ہیں! تو کیا نماز پڑھنا بھی چھوڑ دیں گے؟ نماز تو خیر بعد کی چیز ہے اس سے پہلے ایمان ہے۔ کتنے لوگ ایمان کے مدعی ہیں، اپنے کو مؤمن ومسلم کہتے ہیں لیکن بڑے بڑے گناہوں میں بھی مبتلا ہیں، حرام بھی کھاتے ہیں، غبن اور خیانت بھی کرتے ہیں تو کیا خدانخواستہ ان لوگوں کی گناہ گاری کی وجہ سے اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
اول تو سب ڈاڑھی والے بد عمل نہیں ہیں اور جو بد عمل ہیں آپ ان کے مقابلہ میں ڈاڑھی رکھ کر، نیک اور پَارسَا بن کر اُمت کے سامنے آئیں، اور جو شخص یوں کہے کہ ڈاڑھی والے ایسے ویسے ہوتے ہیں اسے ڈنکے کی چوٹ سینہ تان کر جواب دیں کہ میں بھی ڈاڑھی والا ہوں، بتا میں نے کس کا حق دبایا ہے؟ اور کس کی خیانت کی ہے؟ جو لوگ ڈاڑھی رکھ کر دھوکہ دیتے ہیں وہ ہمارے ڈاڑھی نہ رکھنے سے گناہ نہ چھوڑیں گے، ہمارا ڈاڑھی مونڈنا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے کہ ڈاڑھی والے گناہ گار ہیں لہٰذا ہم ڈاڑھی مونڈنے کے کبیرہ گناہ میں مبتلا رہیں۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر مسلمان خود بھی ڈاڑھی رکھے اور نیک بنے، اور جن ڈاڑھی والوں میں کوئی غفلت یا کوتاہی دیکھے یا چھوٹے بڑے گناہوں میں مبتلا پائے تو اچھے طریقہ پر نرمی کے ساتھ ان کو سمجھائے۔
(6)۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پہلے دوسرے کام کرلیں پھر ڈاڑھی بھی رکھ لیں گے:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ کرنے کے بہت سے کام ہیں پہلے ان کو تو کرلیں ڈاڑھی کا بھی نمبر آجائے گا۔ یہ تو ڈاڑھی منڈانے اور مونڈنے کی کوئی دلیل نہ ہوئی، کیوں کہ جتنے بھی دینی کام ہیں ڈاڑھی کے ساتھ ساتھ ہوسکتے ہیں۔ حضورِ اَقدس ﷺ نے جو ڈاڑھی رکھنے کا حکم فرمایا ہے اس میں تو کوئی ترتیب نہیں ہے کہ پہلے اتنے کام کرلینا پھر ڈاڑھی رکھنا۔ شریعت کے حکم کو ٹالنا اور بے تکی باتیں کر کے شریعت کا باغی ہونا، اور یہ سمجھنا کہ ہم بے قصور ہیں، بہت بڑی بدنصیبی ہے۔ ڈاڑھی ہو یا کوئی بھی دین کا کام ہو ان سب کاموں کو حکم شریعت کے مطابق انجام دینا لازم ہے، یہ پہلے اور پیچھے کی ترتیب کہاں سے آئی؟ شریعت کے ہر حکم پر عمل کرتے چلیں ایک حکم دوسرے حکم پر عمل کرنے سے نہیں روکتا، سب پر عمل کریں اور کٹ حجتی چھوڑیں۔
(7)۔ اس کا جواب کہ دل صاف ہو اگرچہ ڈاڑھی منڈی ہو:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ دل صاف اور روح پاک ہونی چاہیے، باطن کی اصلاح کافی ہے۔ اگر ڈاڑھی مونڈی اور باطن اچھا رہا تو (نعوذباللہ!) کچھ حرج نہیں۔
یہ لوگ دل کی اصلاح اور روح کی پاکیزگی اور باطن کی صفائی کا مطلب ہی نہیں سمجھتے، صرف الفاظ یاد کر رکھے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں کہ گناہوں میں مبتلا رہتے ہوئے قلب کی اصلاح اور باطن کی پاکیزگی، اور باطن کی صفائی کا دعویٰ بالکل جھوٹا دعوٰی ہے۔ جس کا دل صاف اور باطن پاک ہو وہ تو صغیرہ گناہ سے بچنے کا بھی بہت زیادہ اہتمام کرتا ہے، اور جو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو یا کسی بھی صغیرہ گناہ پر اصرار کرتا ہو اور توبہ کرنے کے بجائے کٹ حجتی پر اتر آئے اس کا باطن کیسے صاف ہوسکتا ہے؟ جو شخص گناہوں میں ملوث ہو، کسی بھی گناہ سے اس کو رغبت ہو اس کا دل گندہ اور باطن ناپاک ہے، خواہ شیطان کے سجھانے سے پاکیزگی کا دعوی دار ہو۔
پھر یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر باطن کی صفائی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کافی ہوتی تو نبی کریم علیۃ التحیہ والتسلیم شریعت کے اَحکام پوری تفصیل کے ساتھ کیوں بتاتے؟ اور اَعضا وجوارح سے متعلق جو کام ہیں ان کا حکم کیوں فرماتے؟ اگر صرف دل کی صفائی سے کام چلتا تو بس پورے تئیس(۲۳) سال تک آپ یہی ارشاد فرماتے رہتے کہ قلب صاف کرو اور روح پاک کرو، نہ اعمالِ صالحہ بتاتے، نہ گناہوں سے بچنے کا حکم فرماتے بلکہ فرائض وواجبات کی تفصیل سے بھی آگاہ نہ فرماتے اور گناہوں کی فہرست سے بھی باخبر نہ فرماتے، اور سارا دین بس قلب کی صفائی تک ہی محدود رہتا۔ بہانہ بازو! کچھ تو سمجھ سے کام لو۔
(8)۔ اس کا جواب کہ ڈاڑھی رکھ لی تو شادی کیسے ہوگی؟
بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ ڈاڑھی رکھیں گے تو شادی کیسے ہوگی؟ ڈاڑھی نہ رکھنے کا یہ بھی عجیب بہانہ ہے، ہم تو دیکھتے ہیں کہ لاکھوں افراد ڈاڑھی والے ہیں جن کی بیویاں موجود ہیں اور بڑے میل ومحبت سے رہتے ہیں۔ بیویوں کو شوہروں کی ڈاڑھیوں پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ بہت سی بیویاں تو ترغیب دے کر شوہروں سے ڈاڑھیاں رکھواتی ہیں، ہر سال لاکھوں نکاحوں کی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں، نکاح خواں نکاح پڑھاتے ہیں، ہزاروں دولہے ڈاڑھی والے ہوتے ہیں۔ آپ اپنی جگہ پختہ ہوں ان شاء اللہ شادی بھی ہوگی اور بہت اچھی بیوی ملے گی جو دین ودنیا کے لیے مفید وبہتر ہوگی۔
بات دراصل یہ ہے کہ لوگ دین دار عورت پسند نہیں کرتے، اسکولوں کالج کی پڑھی ہوئی چاہتے ہیں اور ڈپلوما والی تلاش کرتے ہیں، اس طرح کی عورتیں دین سے دور رہتی ہیں، نہ انہیں نماز سے رغبت ہوتی ہے اور نہ پردہ میں رہنا پسند کرتی ہیں، اور نہ شوہر کی ڈاڑھی کو دیکھنا چاہتی ہیں۔ اگر خود بھی دین دار ہوں اور دین دار عورت تلاش کریں تو ڈاڑھی کی وجہ سے شادیوں میں کبھی رکاوٹ نہ ہو۔ بعض لوگ نماز، روزہ کے پابند ہوتے ہوئے بھی اسکول، کالج کی فیشن ایبل لڑکی تلاش کرتے ہیں، جب نکاح ہوجاتا ہے اور وہ اپنے پنجے نکالتی ہے تو میاں صاحب کو پتہ چلتا ہے کہ کس مصیبت میں گھر گئے۔ دین دار عورت تلاش کرو ان شاء اللہ فرماںبردار بھی ہوگی، خدمت بھی کرے گی، صابر وشکر بھی ہوگی۔ جب دین دار عورت پسند نہیں تو وہی ہوگا کہ بیوی اس پر بھی راضی نہ ہوگی کہ اپنے کو بیوی کہلائے، وہ کہے گی میں تو فرینڈ ہوں، اور فرینڈ والے طریقوں سے پیش آئے گی اور بجائے بیوی کے خود شوہر بنے گی، اور شوہر صاحب پارکوں میں اس کے پیچھے پیچھے بچے کو لیے گھوما کریں گے۔
سمجھ کا تقاضا تو یہ ہے کہ مرد کی ڈاڑھی ہو، بچہ ماں اور باپ میں فرق کر سکے، اور دونوں میں سے جس کے پاس سوئے ہاتھ پھیر کر پتہ چلالے کہ میں کس کے پاس سورہا ہوں۔ اگر والد والدہ دونوں کا چہرہ صاف ہو تو وہ بے چارہ کیا امتیاز کرے گا؟
(9)۔اس کا جواب تمہارے کہنے سے ڈاڑھی کیوں رکھوں؟
بعض لوگوں سے جب ڈاڑھی رکھنے کو کہا جاتا ہے تو جواب میں کہہ دیتے ہیں کہ تمہارے کہنے سے ڈاڑھی کیوں رکھوں؟ مجھے رکھنی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی وجہ سے رکھوں گا۔ یہ عجیب جاہلانہ جواب ہے۔ اگر آپ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم سے ڈاڑھی رکھنے والے ہوتے تو جب سے ڈاڑھی نکلی ہے اسی وقت سے رکھ لیتے، اور ڈاڑھی رکھی ہوئی ہوتی تو کسی کو اس بارے میں نصیحت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ اب اگر کسی نے آپ کی دینی ذمہ داری بتادی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم پر چلنے کی یاد دہانی کردی تو اس پر ناراض ہونے کے بجائے اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ کیا وہ یہ کہتا ہے کہ میرے کہنے سے رکھ، وہ بھی تو شریعت کا حکم یاد دلا رہا ہے۔ شریعت میں تبلیغ اسی لیے رکھی گئی ہے کہ عُلَما وصلحا تبلیغ کریں، اور مسلمانوں کی دینی ذمہ داری یاد دلائیں اور مسلمان اس پر عمل کریں، تبلیغ اس لیے تو نہیں ہے کہ جو شخص تبلیغ کرے اور دینی بات بتائے الٹا اس کی تبلیغ کے خلاف چلیں اور حق قبول کرنے سے انکار کریں۔
(10)۔ اس بات کا جواب کہ ڈاڑھی رکھ لی تو ملازمتیں نہ ملیں گی:
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں ابھی امتحانات دینے ہیں اور نوکریاں کرنی ہیں، اگر ڈاڑھی رکھ لیں تو امتحان کیسے دیں گے اور ملازمتیں کیسے ملیں گی؟ ان لوگوں کی یہ بات عجیب ہے۔ امتحان میں کامیابی کا تعلق محنت کرکے جوابات صحیح لکھنے سے ہے۔ جو لوگ نمبر دیتے ہیں ان کے سامنے صورت نہیں ہوتی، انہیں کیا پتہ کہ جس نے جواب لکھا ہے وہ ڈاڑھی والا ہے یا بے ڈاڑھی والا۔ اور پتہ بھی ہو کہ یہ پرچہ ڈاڑھی والے نے لکھا ہے تو اچھے نمبروں سے پاس ہونے کے لائق ہوتے ہوئے کیا ممتحن فیل کردے گا؟ ایسے ظلم کی اجازت آج تک کسی مملکت اور حکومت نے نہیں دی اور نہ کوئی ایسا کرتا ہے۔ رہا ملازمتوں کا معاملہ! تو اس کے بارے میں سکھوں سے ہی عبرت حاصل کرلینی چاہیے، وہ خوب بڑی بڑی ڈاڑھیاں رکھتے ہیں اور امتحانات میں کامیاب ہوتے ہیں اور پھر انہیں ملازمتیں بھی ملتی ہیں، عہدے بھی ملتے ہیں، پولیس، فوج اور دوسرے محکموں میں اونچے عہدے حاصل کیے ہوئے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان کے کئی وزیر سکھ رہ چکے ہیں اور آج کل تو ہندوستان کا صدر بھی سکھ ہے ان کی بڑی ڈاڑھی نے ان کو عہدوں سے نہیں روکا۔
آخر یہ بھی کوئی بات ہے کہ سارا نزلہ آپ کی ہی ڈاڑھی پر گرے گا؟ ہم نے بہت سے ایسے مسلمانوں کو بھی دیکھا ہے جو بڑی بڑی ڈاڑھیوں والے ہیں اور مختلف محکموں میں بڑے بڑے عہدوں پر کام کرتے ہیں، ڈاڑھی کی وجہ سے کوئی بھی انہیں ملازمت سے نہیں نکالتا۔ جو کام لیتا ہے وہ محنت اور امانت ودیانت کو دیکھتا ہے، جس کی کار گزاری اچھی ہو سب اسے پسند کرتے ہیں۔ ڈاڑھی منڈے خیانت کرتے ہیں تو ان کو بھی نوکری سے ہٹادیا جاتا ہے۔ امریکہ کے ایک صدر کو بے عنوانی کی وجہ سے ہٹایا جاچکا ہے، ڈاڑھی مونڈنا اس کے کچھ کام نہ آیا۔ بات اصل وہی ہے کہ اپنا نفس راضی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے بہانے تراشتے ہیں۔
تیرا ہی دل نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں۔
(12)۔ بہت سے لوگ اقامت ِدین کے مدعی ہیں لیکن لمبی ڈاڑھی کا مذاق اڑاتے ہیں:
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں دعوی ہے کہ ہم صالح اور متقی ہیں، امامتِ ِصالحہ کے لائق ہیں اور حقیقت ِتقوی سے متصف ہیں اور اقامتِ دین کے داعی ہیں، لیکن ان لوگوں کی ڈاڑھیاں ذرا ذرا سی ہوتی ہیں بھر پور ڈاڑھی رکھنے سے بچتے ہیں۔ حضورِ اَقدسﷺ کی بڑی اور گھنی ڈاڑھی انہیں پسند نہیں، جب ان کو کہا جاتا ہے کہ بڑی ڈاڑھی رکھو، اور حدیث وفقہ کی تصریحات کے مطابق کم از کم ایک مشت ڈاڑھی ہونا لازم ہے تو بڑی ڈاڑھی والوں کا اور بڑی ڈاڑھی رکھنے کی تبلیغ کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور بر ملا کہہ دیتے ہیں کہ ہاں! بال ناپتے رہو اس سے اقامتِ دین کا فریضہ ادا ہوجائے گا۔
کیسا بھونڈا اور بے ہودہ جواب ہے۔ حضورِ اقدس ﷺ کی صورت مبارکہ جن لوگوں کو پسند نہیں وہ لوگ حضورِ اقدس ﷺ کا دین قائم کرنے چلے ہیں۔ آدھے تولہ ڈاڑھی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے اور پورے عالم کو دینِ اسلام پر چلانے کا بوجھ اٹھانے کو تیار ہیں۔ حضورِ اَقدس ﷺ نے بہت اہتمام سے حکم دیا کہ ڈاڑھیوں کو اچھی طرح بڑھائو، لیکن اقامتِ دین کے داعی فرمانِ نبی ﷺ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی اپنے کو عملِ صالح اور تقویٰ سے متصف سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں نے صریح احادیث کے خلاف یہ فتویٰ جاری کیا ہے کہ ڈاڑھی بس اتنی سی کافی ہے کہ دور سے ڈاڑھی نظر آجائے۔ چوں کہ نفس کو نبوی ڈاڑھی گوارا نہیں اس لیے اپنی طرف سے غیرشرعی فتوے دے کر اپنے نفسوں کو مطمئن کرلیتے ہیں کہ ہم نیک اور صالح ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک حضورِ اقدس ﷺ کا طرزِ زندگی اور آپ کا اتباع اختیار کر کے دین قائم نہ ہوگا تو بلکہ بے پڑھے نام نہاد مفتیوں کے فتووں سے دین قائم ہوگا جو نہ حدیث وفقہ پڑھتے ہیں اور نہ فتوے کی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں۔ طریقۂ رسول اللہ ﷺ سے روگردانی، اور دعویٰ تجدیدِ ِدین اور اقامتِ دین اور امامتِ صالحہ کا؟ فَیَا لَلْعَجَبْ!
|
|
ماشاء اللہ،تحقیق کا حق ادا کر دیا.
ReplyDeleteجزاک اللہ خیرا
ReplyDeleteنبی ﷺ نے صیغۂِ امر(حکمیہ انداز)میں یہ دونوں حکم فرماتے اور امر(حکم) حقیقتاً وجوب(لازم کرنے)کے لئے ہوتا ہے. بس معلوم ہوا کہ یہ دونوں حکم (داڑھی کٹوانا اور مونچھیں بڑھوانا)واجب ہیں اور واجب کا ترک کرنا حرام ہے.
22 at 22:22
Deleteداڑھی بڑھوانا اور مونچھیں کٹوانا واجب ہے
داڑھی بڑھوانا اور مونچھیں کٹوانا واجب ہے
ReplyDelete