Friday 5 October 2012

داڑھی رکھنے ، سنوارنے کا حکم اور مسنون مقدار


الله تعالیٰ نے یہ شیطان کی بات قرآن پاک میں نقل فرمائی کہ:
... میں لوگوں کو حکم دونگا تو وہ الله کی خلق(یعنی بنائی-ہوئی-صورت) کو بگاڑا کریں گے ... 
[سورۃ النساء:119]
نوٹ:
بگاڑنے میں داڑھی منڈھانا بھی داخل ہے۔


حضرت ہارونؑ کے بارے میں تو قرآن میں ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی حضرت موسیٰؑ سے فرمایا کہ: اے میری ماں کے بیٹے! میرا سر اور داڑھی نہ پکڑ...
[سوره طہٰ :94]
نوٹ:
اس سے معلوم ہوا سر اور داڑھی کے بال اتنے بڑے تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو ہاتھ سے پکڑلیا تھا۔

یعنی انبیاء کا طریقہ داڑھی منڈھانا یا ایک مشت(مٹھی) سے کم پر کترنا/کترانا نہیں تھا۔
ڈاڑھی کا وجوب:
(وجہ#1) متعدد احادیث میں نبی ﷺ نے امت مسلمہ کو داڑھی رکھنے کا امر(حکم )دیا ہے اور حکم وجوب کے لئے ہی ہوتا ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ ، وَفِّرُوا اللِّحَى وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ " ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ .
حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ، مونچھیں کترواؤ، اور حضرت ابنِ عمرؓ جب کبھی حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی مٹھی سے پکڑتے اور جتنی زیادہ ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔
[بخاري:5892، شعب الإيمان للبيهقي:6015، شرح السنة للبغوي:3194]

نبی ﷺ نے صیغۂِ امر(حکمیہ انداز)میں یہ دونوں حکم فرماتے اور امر(حکم) حقیقتاً وجوب(لازم کرنے)کے لئے ہوتا ہے. بس معلوم ہوا کہ یہ دونوں حکم(داڑھی کٹوانا اور مونچھیں بڑھوانا)واجب ہیں اور واجب کا ترک کرنا حرام ہے.

نبي أكرم ﷺ کی احادیث کو سب سے زیادہ سمجھنے والے صحابہؓ تھے، ان مہاجر وانصار (صحابہ) کی اتباع سے خدا کی رضا، جنت اور عظیم کامیابی ملتی ہے
[حوالۂ قرآن، سورۃ التوبہ:100]

اور حضرت ابنِ عمرؓ جیسے صحابی کا جب کبھی حج یا عمرہ کے بھرے اجتماع میں مٹھی سے زیادہ داڑھی کو کاٹنا یہ ثابت کرتا ہے کہ سب کو تعلیم دی جاتے کہ لازم(واجب) مقدار ایک مٹھی ہے اور اس سے زیادہ کو کاٹنا جائز ہے.

حافظ ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں کہ
ظاہر یہ ہے کہ حضرت ابنِ عمرؓ حج وعمرہ کے ساتھ کم کرنے کو خاص نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اعفاء(یعنی بڑھنے کے لئے چھوڑنا) كا مطلب یہ سمھجتے تھے کہ داڑھی بڑھائی جاتے لیکن اتنی نہیں کہ داڑھی کہ بڑھنے سے آدمی کی صورت بری معلوم ہونے لگے. پھر حافظؒ نے طبریؒ کا کلام نقل کیا جس میں حضرت ابنِ عمرؓ کا (کتاب الآثار لأبي يوسف:1044)، حضرت ابوہریرہؓ کا (مصنف لابن أبي شيبه:25488) اور حضرت عمرؓ کا فعل مذکور ہے۔
[فتح الباری شرح صحیح البخاری:10/350]

حافظ ابن عبد البر مالکیؒ  لکھتے ہیں:
حضرت ابنِ عمرؓ کا داڑھی کے اگلے حصہ بال لینا دلیل ہے غیر حج میں بھی بال لینے کی، کیونکہ (یہ کام) باقی زمانہ میں ناجائز ہوتا تو حج میں بھی ناجائز ہوتا. کیونکہ محرمین  (حج/عمرہ کا احرام بھندنے والوں) کو یہ حکم ہے کہ جب وہ احرام کھولنے لگیں تو وہ کام کریں جس سے ان کو منع کیا گیا تھا یعنی حلق یا قصر  پھر حضرت ابنِ عمرؓ نے نبی ﷺ سے داڑھی بڑھنے کی حدیث روایت کی اور وہ اس کی معنیٰ کو زیادہ جانتے ہیں اور حضرت ابنِ عمرؓ  اور جمہور علماءؒ کے نزدیک معنیٰ یہ ہیں کہ جو بال داڑھی کو قبیح اور بھدا کردیں ان کا لینا جائز ہے.
[الاستذکار : 4/317، بیروت]





(وجہ#2) نبی ﷺ داڑھی کے کتروانے یا مونڈنے پر نفرت اور ناگواری کا اظہار فرمایا، اور یہ بھی اس فعل (داڑھی کے رکھنے) کے وجوب پر دلیل ہیں۔
دین میں داڑھی بھی ہے:
مجوسیوں میں سے ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا جس نے اپنی داڑھی مونڈی ہوئی تھی اور اپنی مونچھ بڑھائی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ ہمارا دین ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
«فِي دِينِنَا أَنْ نَجُزَّ الشَّارِبَ، وَأَنْ نُعْفِيَ اللِّحْيَةَ»
لیکن ہمارے دین میں تو یہ ہے کہ ہم مونچھیں کاٹتے ہیں اور داڑھیاں بڑھاتے ہیں۔
[مصنف بن أبي شيبة:25502]

وهذا مرسلٌ صحيحُ الإِسناد۔
[بذل الإحسان بتقريب سنن النسائي:1/173]



خواہش(خیال)پرست»
داڑھی رکھ کر دھوکہ دینے-برے کام کرنے سے بہتر ہے کہ داڑھی نہ رکھی جائے۔
خدا پرست(عقل والے)»
اگر برے کام نہیں چھوٹتے تو کیا تم اسلام چھوڑ دو گے؟ بچنے کی کوشش کرنا لازم ہے، کپڑے میلے ہو جائیں تو دھوتے رہنا لازم ہے، ننگے رہنا نہیں۔


ڈاڑھی مونڈنے والوں کے حیلے اور بہانے اور لچر دلیلیں:
بہت سے لوگ تو ایسے ہیں جو ڈاڑھی مونڈنے اور منڈانے کو گناہ سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو اس بارے میں گناہ گار مانتے ہیں، لیکن کثیر تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو حیلے بہانے تلاش کر کے اس فعلِ بد کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے عذر لنگ اور لچر دلیلیں جو اَب تک سننے میں آئی ہیں وہ یہ ہیں۔

(1)۔اس بات کی تردید کہ آں حضرت ﷺ نے عرب کے ماحول کے مطابق ڈاڑھی رکھ لی تھی:

کہتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ جس علاقہ اور جس ماحول میں تھے اس میں ڈاڑھیاں رکھی جاتی تھیں۔ آپ نے رواج کے مطابق ڈاڑھی رکھ لی تھی، لہٰذا یہ کوئی فعل شرعی نہیں ایک رواجی کام تھا جسے آپ نے اپنا لیا ۔اور بعض جاہل تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اس زمانے میں ہوتے تو اپنی ڈاڑھی مبارک منڈایا کرتے(العیاذ باللہ!) ان جاہلوں کو معلوم نہیں کہ دینِ ابراہیمی میں سے جو چیزیں عرب میں باقی تھیں آںحضرت ﷺ نے انہیں کو اختیار فرمایا، جہالت اور جاہلیت کی جو چیزیں عربوں نے اپنے رواج میں جاری کرلی تھیں ان سے آپ نے روکا اور ان کو مٹایا، اور فرمایا کہ جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے ہے۔  ۱؎
یہی نہیں کہ آپ نے خود ڈاڑھی رکھی بلکہ ڈاڑھی رکھنے کا اپنی امت کو حکم بھی فرمایا۔ ’’بخاری شریف‘‘ میں ہے کہ آںحضرت ﷺ نے فرمایا:
أَنْھِکُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحٰی۔۲؎
ترجمہ:
مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو اور ڈاڑھیوں کو اچھی طرح بڑھائو۔

   ’’مسلم شریف ‘‘میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللِّحٰی۔۳؎
ترجمہ:
مونچھوں کو تراشو، اور ڈاڑھیوں کو لٹکائو۔

بالفرض حضورِ اَقدسﷺ نے اہلِ مکہ کے رواج کے مطابق ڈاڑھی رکھ لی تھی تو رہتی دنیا تک اپنی امت کو ڈاڑھیاں خوب بڑھانے کا بلکہ لٹکانے کا کیوں حکم دیا؟ اگر ایسا ہی تھا جیسا جاہل لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے رواج کی وجہ سے ڈاڑھی رکھ لی تھی تو آپ نے اپنی امت کو یہ ہدایت کیوں نہ فرمائی کہ تم جہاں جس ملک اور جس ماحول میں ہو ویسا ہی کرلینا، ڈاڑھی مونڈنے کا رواج ہو تو مونڈلینا اور اس کے رکھنے کا رواج ہو تو رکھ لینا۔ العیاذ باللہ!

نفس کی خواہشوں کا اتباع کرنے والوں کو شیطان کیسی کیسی پٹی پڑھاتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ  نے عرب میں رواج پائے ہوئے ان طریقوں کو باطل قرار دیا جو جہالت اور جاہلیت کی وجہ سے رواج پکڑے ہوئے تھے۔ عربوں میں گودوانے کا رواج تھا عورتیں بالوں میں بال ملایا کرتی تھیں، مرد ڈاڑھیوں میں گرہ لگاتے تھے، کام کاج کے وقت ننگے ہوجایا کرتے تھے، مرد عورت ننگے ہو کر طواف کرتے تھے، پیشاب پاخانہ کے وقت پردہ کرنے کو عیب سمجھتے تھے، لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے، جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تھا تو اس سے ایک سال تک ایک کوٹھڑی میں عدت گزرواتے تھے اور ایک سال گزر جانے پر اسے بازاروں میں گھماتے تھے ، اور وہ گزرتے ہوئے لوگوں پر اونٹ کی مینگنیاں پھینکتی جاتی تھی۔
اس طرح کی اور بہت سی خرافات میں عرب کے لوگ مبتلا تھے، حضورِ اقدس ﷺ نے ان چیزوں کو مٹایا، اگر آپ رواج سے متأثر ہو کر کوئی عمل اختیار کرتے تو ان چیزوں کو اختیار فرمالیتے اور ان جاہلوں کے خیال کے مطابق کم از کم ڈاڑھی میں تو گرہ لگاہی لیتے، لیکن اس کے برخلاف آپ نے ایک صحابی سے یوں ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں کو خبر دے دینا کہ جو شخص اپنی ڈاڑھی میں گرہ لگائے بلاشبہ محمد اس سے بری ہیں، یعنی بے زار ہیں۔

حضورِ اقدس ﷺ نے دینِ ابراہیمی کی چیزوں کو اپنایا اور جہالت کی چیزوں کو مٹایا ہے:   حضور ِاقدس ﷺ نے عرب کے جاہلوں کی اور جاہلیت کی کسی بات کو نہیں مانا اور جاہلیت کے کسی عمل کو نہیں اپنایا۔ دین ابراہیمی میں سے جو کوئی چیز عرب کے معاشرہ میں باقی تھی اس کو لے لیا اور دینِ ابراہیمی کے خلاف جو بھی کچھ تھا اس کو چھوڑ دیا۔ ڈاڑھی تمام انبیائے کرام ؑ نے رکھی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑبھی ڈاڑھی والے تھے، آںحضرت ﷺ نے انہیں کا اتباع فرمایا جس کا قرآن پاک میں حکم ہیـ:
{ ثُمَّ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا}۱ ؎
پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ ابراہیم حنیف کی ملت کا اتباع کیجیے۔

جب ملتِ ابراہیمی کے اتباع کاحکم ہوگیا تو ملت ِابراہیمی کے اَحکام شریعت ِمحمدیہ کا جزو بن گئے، اور ہر مسلمان پر لازم ہوگیا کہ ان کا اتباع کرے۔ اگر العیاذ باللہ! نبی ہی قوم اور وطن کے رواج کے بہائو میں بہہ جاتا تو پھر انسانوں کی اصلاح کا راستہ کیسے نکلتا؟ اور الٹا لوگوں کا اتباع کرکے کیسے ہادی اور رہنما بن کر سامنے آتا {فاتَّقُوا اللّٰہَ یَآ اُولِی الْاَلْبَابِ}۲؎

(2)۔ اس دلیل کا جواب کہ یہودیوں کی مخالفت میں ڈاڑھی مونڈنی چاہیے:
کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ڈاڑھی منڈانے کے جواز کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺ  کے زمانہ میں مشرکین ڈاڑھی منڈاتے تھے اس وجہ سے ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا، آج کل چوں کہ یہودی ڈاڑھیاں رکھتے ہیں اس لیے ان کی مخالفت میں ڈاڑھی منڈانا واجب ہوا۔ ان لوگوں کی یہ بات بھی جہالت سے بھر پور ہے، کیوں کہ حضورِ اَقدس ﷺ کے زمانہ میں عرب کے مشرک اور یہودی ڈاڑھیاں رکھتے تھے اور فارس کے مشرکین ڈاڑھیاں منڈاتے تھے۔ دونوں باتیں آپ کے سامنے تھیں۔ آپ نے دونوں میں سے اسی چیز کو اختیار فرمایا جو دینِ ابراہیمی کے موافق تھی یعنی ڈاڑھی رکھی اور اپنی امت سے رکھوائی، اور اس کے برخلاف دوسرے فعل یعنی ڈاڑھی مونڈنے سے منع فرمایا اور اس کی مخالفت کا حکم فرمایا۔ اس وقت کے یہودیوں میں اور آج کے یہودیوں میں جو ڈاڑھی رکھنے کا رواج ہے وہ ان میں دینِ ابراہیمی کا ایک عمل باقی ہے، اس عمل کی مخالفت کرنا صحیح نہیں۔ اور ڈاڑھی مونڈنا چوں کہ تمام انبیائے کرام ؑ کے طریقہ کے خلاف ہے اس لیے اس کی مخالفت واجب ہے۔ اگر ہر بات میں یہودیوں کی مخالفت کرنا واجب ہوتا تو حضورِ اقدس ﷺ ڈاڑھی رکھنے اور ختنہ کرنے دونوں کی مخالفت کا حکم فرماتے لیکن آپ نے ایسا نہیں فرمایا۔ تشبہُّ اور مخالفت کے کچھ اصول ہیں ان کو عُلَمائے ربانیین ہی جانتے ہیں۔ ڈاڑھی مونڈنے والے بے عمل ہوں یا کالجوں اور یونیورسٹیوں کے گریجویٹ ہوں، وہ مشابہت اور مخالفت کا معیار سمجھتے ہی نہیں، نفس کی خواہش پوری کرنے کے لیے یہودیوں کی مخالفت کا بہانہ بناکر ڈاڑھیاں تو مونڈڈالیں لیکن ختنہ ترک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اللہ پاک انہیں دین کی سمجھ عطا فرمائے (آمین)۔

(3)۔ اس دلیل کا جواب کہ عرب اور مصری بھی تو ڈاڑھی مونڈتے ہیں:
بعض فیشن کے دل دادہ ڈاڑھی مونڈنے کے جواز کے لیے یوں کہتے ہیں کہ صاحب! عرب بھی تو ڈاڑھی مونڈتے ہیں اور مصر میں بھی ڈاڑھی مونڈی جاتی ہے، اور فلاں قوم میں بھی ڈاڑھی مونڈنے کا رواج ہے، لہٰذا ہم نے بھی مونڈی تو کیا ہوا؟
ان لوگوں سے ہمارا یہ کہنا ہے کہ اتباع اور اقتدا کے لیے رسولِ پاک ﷺ کی ذات اُسوہ اور نمونہ قرار دی گئی ہے، آپ کے قول اور فعل کے خلاف جو چلے اس کا اتباع کرنا گناہ گاری ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اتباع کو چھوڑ کر عرب اور مصر کے فاسقوں کا اتباع کرنا کہاں کی دین داری اور سمجھ داری ہے؟ کسی بھی ملک اور قوم کے افراد شریعت کی خلاف ورزی کر کے آخرت کے مؤاخذہ کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے کے لیے تیار ہوجائیں تو کیا ان کی پیروی میں خود کو آخرت کی گرفت اور عذاب کے لیے پیش کرنا عقل مندی کے خلاف نہیں ہے؟

(4)۔ اس کا جواب کہ ڈاڑھی میں ہی اسلام رکھا ہے:
کچھ لوگ یوں کہتے ہیں کہ واہ صاحب! کیا ڈاڑھی ہی میں اسلام رکھا ہے؟ ڈاڑھی نہ رکھیں گے تو کیا اسلام سے نکل جائیں گے؟ یہ بھی جاہلانہ دلیل ہے۔ اسلا م تو صحیح عقائد کا نام ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں، عقیدہ قرآن وحدیث کے خلاف ہو تو کافر ہوجاتا ہے۔ فرائض وواجبات کے ترک کرنے یا کسی بھی صغیرہ وکبیرہ گناہ کے کرنے سے کافر نہیں ہوتا، بلکہ فاسق ہوجاتا ہے۔ فرائض وواجبات انجام نہ دیں اور گناہ کرتے رہیں، اور عذاب بھگتنے کے لیے تیار رہیں ، یہ کوئی سمجھ داری کی بات نہیں ہے۔ اگر صرف عقیدہ کے طور پر مسلمان ہونا ہی مطلوب ہوتا تو اللہ جل شانہٗ کی طرف سے بہت سے کاموں کے کرنے اور بہت سے کاموں کے نہ کرنے کے اَحکام کیوں نازل ہوتے؟ مسلمان ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ عقیدہ بھی ٹھیک رکھیں اور اَحکام پر بھی عمل کریں، اگر جاہلوں کی بات پر چلے تو بس اسلام کا کوئی عمل بھی نہ کرے کیوں کہ بے عمل ہونے سے کافر تو ہوتا ہی نہیں۔
بات یہ ہے کہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ لوگ گناہ کر کے خوب عذاب کے مستحق بنیں، گناہ گاروں والی زندگی گزارتے ہوئے مرجائیں اور دوزخ میں جائیں۔ شیطان اپنی دشمنی سے کبھی باز نہیں آتا، وہ بد عملی پر مطمئن کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے سجھاتا ہے، اور جو لوگ نصیحت کرتے ہیں بدعملوں سے ان کو الٹے جواب دلواتا ہے۔

(5)۔ اس دلیل کا جواب کہ ڈاڑھی والے دغا باز ہوتے ہیں:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ڈاڑھی والے دغاباز ہیں، ٹٹّی[لمبی ڈاڑھی] کی آڑ میں شکار کھیلتے ہیں، اور ڈاڑھی والوں کے افعال خراب ہیں۔ کیا خوب دور کی کوڑی لائے ! گزارش یہ ہے کہ ایک ڈاڑھی ہی پر کیا منحصر ہے، کیا نمازیوں میں غبن اور خیانت کرنے والے اور گناہوں میں مبتلا رہنے والے نہیں ہیں؟ ہیں اور ضرور ہیں! تو کیا نماز پڑھنا بھی چھوڑ دیں گے؟ نماز تو خیر بعد کی چیز ہے اس سے پہلے ایمان ہے۔ کتنے لوگ ایمان کے مدعی ہیں، اپنے کو مؤمن ومسلم کہتے ہیں لیکن بڑے بڑے گناہوں میں بھی مبتلا ہیں، حرام بھی کھاتے ہیں، غبن اور خیانت بھی کرتے ہیں تو کیا خدانخواستہ ان لوگوں کی گناہ گاری کی وجہ سے اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
اول تو سب ڈاڑھی والے بد عمل نہیں ہیں اور جو بد عمل ہیں آپ ان کے مقابلہ میں ڈاڑھی رکھ کر، نیک اور پَارسَا بن کر اُمت کے سامنے آئیں، اور جو شخص یوں کہے کہ ڈاڑھی والے ایسے ویسے ہوتے ہیں اسے ڈنکے کی چوٹ سینہ تان کر جواب دیں کہ میں بھی ڈاڑھی والا ہوں، بتا میں نے کس کا حق دبایا ہے؟ اور کس کی خیانت کی ہے؟ جو لوگ ڈاڑھی رکھ کر دھوکہ دیتے ہیں وہ ہمارے ڈاڑھی نہ رکھنے سے گناہ نہ چھوڑیں گے، ہمارا ڈاڑھی مونڈنا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے کہ ڈاڑھی والے گناہ گار ہیں لہٰذا ہم ڈاڑھی مونڈنے کے کبیرہ گناہ میں مبتلا رہیں۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر مسلمان خود بھی ڈاڑھی رکھے اور نیک بنے، اور جن ڈاڑھی والوں میں کوئی غفلت یا کوتاہی دیکھے یا چھوٹے بڑے گناہوں میں مبتلا پائے تو اچھے طریقہ پر نرمی کے ساتھ ان کو سمجھائے۔

(6)۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پہلے دوسرے کام کرلیں پھر ڈاڑھی بھی رکھ لیں گے:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ کرنے کے بہت سے کام ہیں پہلے ان کو تو کرلیں ڈاڑھی کا بھی نمبر آجائے گا۔ یہ تو ڈاڑھی منڈانے اور مونڈنے کی کوئی دلیل نہ ہوئی، کیوں کہ جتنے بھی دینی کام ہیں ڈاڑھی کے ساتھ ساتھ ہوسکتے ہیں۔ حضورِ اَقدس ﷺ نے جو ڈاڑھی رکھنے کا حکم فرمایا ہے اس میں تو کوئی ترتیب نہیں ہے کہ پہلے اتنے کام کرلینا پھر ڈاڑھی رکھنا۔ شریعت کے حکم کو ٹالنا اور بے تکی باتیں کر کے شریعت کا باغی ہونا، اور یہ سمجھنا کہ ہم بے قصور ہیں، بہت بڑی بدنصیبی ہے۔ ڈاڑھی ہو یا کوئی بھی دین کا کام ہو ان سب کاموں کو حکم شریعت کے مطابق انجام دینا لازم ہے، یہ پہلے اور پیچھے کی ترتیب کہاں سے آئی؟ شریعت کے ہر حکم پر عمل کرتے چلیں ایک حکم دوسرے حکم پر عمل کرنے سے نہیں روکتا، سب پر عمل کریں اور کٹ حجتی چھوڑیں۔

(7)۔ اس کا جواب کہ دل صاف ہو اگرچہ ڈاڑھی منڈی ہو:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ دل صاف اور روح پاک ہونی چاہیے، باطن کی اصلاح کافی ہے۔ اگر ڈاڑھی مونڈی اور باطن اچھا رہا تو (نعوذباللہ!) کچھ حرج نہیں۔
یہ لوگ دل کی اصلاح اور روح کی پاکیزگی اور باطن کی صفائی کا مطلب ہی نہیں سمجھتے، صرف الفاظ یاد کر رکھے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں کہ گناہوں میں مبتلا رہتے ہوئے قلب کی اصلاح اور باطن کی پاکیزگی، اور باطن کی صفائی کا دعویٰ بالکل جھوٹا دعوٰی ہے۔ جس کا دل صاف اور باطن پاک ہو وہ تو صغیرہ گناہ سے بچنے کا بھی بہت زیادہ اہتمام کرتا ہے، اور جو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو یا کسی بھی صغیرہ گناہ پر اصرار کرتا ہو اور توبہ کرنے کے بجائے کٹ حجتی پر اتر آئے اس کا باطن کیسے صاف ہوسکتا ہے؟ جو شخص گناہوں میں ملوث ہو، کسی بھی گناہ سے اس کو رغبت ہو اس کا دل گندہ اور باطن ناپاک ہے، خواہ شیطان کے سجھانے سے پاکیزگی کا دعوی دار ہو۔
پھر یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر باطن کی صفائی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کافی ہوتی تو نبی کریم علیۃ التحیہ والتسلیم شریعت کے اَحکام پوری تفصیل کے ساتھ کیوں بتاتے؟ اور اَعضا وجوارح سے متعلق جو کام ہیں ان کا حکم کیوں فرماتے؟ اگر صرف دل کی صفائی سے کام چلتا تو بس پورے تئیس(۲۳) سال تک آپ یہی ارشاد فرماتے رہتے کہ قلب صاف کرو اور روح پاک کرو، نہ اعمالِ صالحہ بتاتے، نہ گناہوں سے بچنے کا حکم فرماتے بلکہ فرائض وواجبات کی تفصیل سے بھی آگاہ نہ فرماتے اور گناہوں کی فہرست سے بھی باخبر نہ فرماتے، اور سارا دین بس قلب کی صفائی تک ہی محدود رہتا۔ بہانہ بازو! کچھ تو سمجھ سے کام لو۔

(8)۔ اس کا جواب کہ ڈاڑھی رکھ لی تو شادی کیسے ہوگی؟
بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ ڈاڑھی رکھیں گے تو شادی کیسے ہوگی؟ ڈاڑھی نہ رکھنے کا یہ بھی عجیب بہانہ ہے، ہم تو دیکھتے ہیں کہ لاکھوں افراد ڈاڑھی والے ہیں جن کی بیویاں موجود ہیں اور بڑے میل ومحبت سے رہتے ہیں۔ بیویوں کو شوہروں کی ڈاڑھیوں پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ بہت سی بیویاں تو ترغیب دے کر شوہروں سے ڈاڑھیاں رکھواتی ہیں، ہر سال لاکھوں نکاحوں کی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں، نکاح خواں نکاح پڑھاتے ہیں، ہزاروں دولہے ڈاڑھی والے ہوتے ہیں۔ آپ اپنی جگہ پختہ ہوں ان شاء اللہ شادی بھی ہوگی اور بہت اچھی بیوی ملے گی جو دین ودنیا کے لیے مفید وبہتر ہوگی۔
بات دراصل یہ ہے کہ لوگ دین دار عورت پسند نہیں کرتے، اسکولوں کالج کی پڑھی ہوئی چاہتے ہیں اور ڈپلوما والی تلاش کرتے ہیں، اس طرح کی عورتیں دین سے دور رہتی ہیں، نہ انہیں نماز سے رغبت ہوتی ہے اور نہ پردہ میں رہنا پسند کرتی ہیں، اور نہ شوہر کی ڈاڑھی کو دیکھنا چاہتی ہیں۔ اگر خود بھی دین دار ہوں اور دین دار عورت تلاش کریں تو ڈاڑھی کی وجہ سے شادیوں میں کبھی رکاوٹ نہ ہو۔ بعض لوگ نماز، روزہ کے پابند ہوتے ہوئے بھی اسکول، کالج کی فیشن ایبل لڑکی تلاش کرتے ہیں، جب نکاح ہوجاتا ہے اور وہ اپنے پنجے نکالتی ہے تو میاں صاحب کو پتہ چلتا ہے کہ کس مصیبت میں گھر گئے۔ دین دار عورت تلاش کرو ان شاء اللہ فرماںبردار بھی ہوگی، خدمت بھی کرے گی، صابر وشکر بھی ہوگی۔ جب دین دار عورت پسند نہیں تو وہی ہوگا کہ بیوی اس پر بھی راضی نہ ہوگی کہ اپنے کو بیوی کہلائے، وہ کہے گی میں تو فرینڈ ہوں، اور فرینڈ والے طریقوں سے پیش آئے گی اور بجائے بیوی کے خود شوہر بنے گی، اور شوہر صاحب پارکوں میں اس کے پیچھے پیچھے بچے کو لیے گھوما کریں گے۔
سمجھ کا تقاضا تو یہ ہے کہ مرد کی ڈاڑھی ہو، بچہ ماں اور باپ میں فرق کر سکے، اور دونوں میں سے جس کے پاس سوئے ہاتھ پھیر کر پتہ چلالے کہ میں کس کے پاس سورہا ہوں۔ اگر والد والدہ دونوں کا چہرہ صاف ہو تو وہ بے چارہ کیا امتیاز کرے گا؟

(9)۔اس کا جواب تمہارے کہنے سے ڈاڑھی کیوں رکھوں؟
بعض لوگوں سے جب ڈاڑھی رکھنے کو کہا جاتا ہے تو جواب میں کہہ دیتے ہیں کہ تمہارے کہنے سے ڈاڑھی کیوں رکھوں؟ مجھے رکھنی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی وجہ سے رکھوں گا۔ یہ عجیب جاہلانہ جواب ہے۔ اگر آپ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم سے ڈاڑھی رکھنے والے ہوتے تو جب سے ڈاڑھی نکلی ہے اسی وقت سے رکھ لیتے، اور ڈاڑھی رکھی ہوئی ہوتی تو کسی کو اس بارے میں نصیحت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ اب اگر کسی نے آپ کی دینی ذمہ داری بتادی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم پر چلنے کی یاد دہانی کردی تو اس پر ناراض ہونے کے بجائے اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ کیا وہ یہ کہتا ہے کہ میرے کہنے سے رکھ، وہ بھی تو شریعت کا حکم یاد دلا رہا ہے۔ شریعت میں تبلیغ اسی لیے رکھی گئی ہے کہ عُلَما وصلحا تبلیغ کریں، اور مسلمانوں کی دینی ذمہ داری یاد دلائیں اور مسلمان اس پر عمل کریں، تبلیغ اس لیے تو نہیں ہے کہ جو شخص تبلیغ کرے اور دینی بات بتائے الٹا اس کی تبلیغ کے خلاف چلیں اور حق قبول کرنے سے انکار کریں۔

(10)۔ اس بات کا جواب کہ ڈاڑھی رکھ لی تو ملازمتیں نہ ملیں گی:
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں ابھی امتحانات دینے ہیں اور نوکریاں کرنی ہیں، اگر ڈاڑھی رکھ لیں تو امتحان کیسے دیں گے اور ملازمتیں کیسے ملیں گی؟ ان لوگوں کی یہ بات عجیب ہے۔ امتحان میں کامیابی کا تعلق محنت کرکے جوابات صحیح لکھنے سے ہے۔ جو لوگ نمبر دیتے ہیں ان کے سامنے صورت نہیں ہوتی، انہیں کیا پتہ کہ جس نے جواب لکھا ہے وہ ڈاڑھی والا ہے یا بے ڈاڑھی والا۔ اور پتہ بھی ہو کہ یہ پرچہ ڈاڑھی والے نے لکھا ہے تو اچھے نمبروں سے پاس ہونے کے لائق ہوتے ہوئے کیا ممتحن فیل کردے گا؟ ایسے ظلم کی اجازت آج تک کسی مملکت اور حکومت نے نہیں دی اور نہ کوئی ایسا کرتا ہے۔ رہا ملازمتوں کا معاملہ! تو اس کے بارے میں سکھوں سے ہی عبرت حاصل کرلینی چاہیے، وہ خوب بڑی بڑی ڈاڑھیاں رکھتے ہیں اور امتحانات میں کامیاب ہوتے ہیں اور پھر انہیں ملازمتیں بھی ملتی ہیں، عہدے بھی ملتے ہیں، پولیس، فوج اور دوسرے محکموں میں اونچے عہدے حاصل کیے ہوئے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان کے کئی وزیر سکھ رہ چکے ہیں اور آج کل تو ہندوستان کا صدر بھی سکھ ہے ان کی بڑی ڈاڑھی نے ان کو عہدوں سے نہیں روکا۔
آخر یہ بھی کوئی بات ہے کہ سارا نزلہ آپ کی ہی ڈاڑھی پر گرے گا؟ ہم نے بہت سے ایسے مسلمانوں کو بھی دیکھا ہے جو بڑی بڑی ڈاڑھیوں والے ہیں اور مختلف محکموں میں بڑے بڑے عہدوں پر کام کرتے ہیں، ڈاڑھی کی وجہ سے کوئی بھی انہیں ملازمت سے نہیں نکالتا۔ جو کام لیتا ہے وہ محنت اور امانت ودیانت کو دیکھتا ہے، جس کی کار گزاری اچھی ہو سب اسے پسند کرتے ہیں۔ ڈاڑھی منڈے خیانت کرتے ہیں تو ان کو بھی نوکری سے ہٹادیا جاتا ہے۔ امریکہ کے ایک صدر کو بے عنوانی کی وجہ سے ہٹایا جاچکا ہے، ڈاڑھی مونڈنا اس کے کچھ کام نہ آیا۔ بات اصل وہی ہے کہ اپنا نفس راضی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے بہانے تراشتے ہیں۔

تیرا ہی دل نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں۔

(12)۔ بہت سے لوگ اقامت ِدین کے مدعی ہیں لیکن لمبی ڈاڑھی کا مذاق اڑاتے ہیں:
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں دعوی ہے کہ ہم صالح اور متقی ہیں، امامتِ ِصالحہ کے لائق ہیں اور حقیقت ِتقوی سے متصف ہیں اور اقامتِ دین کے داعی ہیں، لیکن ان لوگوں کی ڈاڑھیاں ذرا ذرا سی ہوتی ہیں بھر پور ڈاڑھی رکھنے سے بچتے ہیں۔ حضورِ اَقدسﷺ کی بڑی اور گھنی ڈاڑھی انہیں پسند نہیں، جب ان کو کہا جاتا ہے کہ بڑی ڈاڑھی رکھو، اور حدیث وفقہ کی تصریحات کے مطابق کم از کم ایک مشت ڈاڑھی ہونا لازم ہے تو بڑی ڈاڑھی والوں کا اور بڑی ڈاڑھی رکھنے کی تبلیغ کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور بر ملا کہہ دیتے ہیں کہ ہاں! بال ناپتے رہو اس سے اقامتِ دین کا فریضہ ادا ہوجائے گا۔
کیسا بھونڈا اور بے ہودہ جواب ہے۔ حضورِ اقدس ﷺ کی صورت مبارکہ جن لوگوں کو پسند نہیں وہ لوگ حضورِ اقدس ﷺ کا دین قائم کرنے چلے ہیں۔ آدھے تولہ ڈاڑھی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے اور پورے عالم کو دینِ اسلام پر چلانے کا بوجھ اٹھانے کو تیار ہیں۔ حضورِ اَقدس ﷺ  نے بہت اہتمام سے حکم دیا کہ ڈاڑھیوں کو اچھی طرح بڑھائو، لیکن اقامتِ دین کے داعی فرمانِ نبی ﷺ  کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی اپنے کو عملِ صالح اور تقویٰ سے متصف سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں نے صریح احادیث کے خلاف یہ فتویٰ جاری کیا ہے کہ ڈاڑھی بس اتنی سی کافی ہے کہ دور سے ڈاڑھی نظر آجائے۔ چوں کہ نفس کو نبوی ڈاڑھی گوارا نہیں اس لیے اپنی طرف سے غیرشرعی فتوے دے کر اپنے نفسوں کو مطمئن کرلیتے ہیں کہ ہم نیک اور صالح ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک حضورِ اقدس ﷺ کا طرزِ زندگی اور آپ کا اتباع اختیار کر کے دین قائم نہ ہوگا تو بلکہ بے پڑھے نام نہاد مفتیوں کے فتووں سے دین قائم ہوگا جو نہ حدیث وفقہ پڑھتے ہیں اور نہ فتوے کی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں۔ طریقۂ رسول اللہ ﷺ سے روگردانی، اور دعویٰ تجدیدِ ِدین اور اقامتِ دین اور امامتِ صالحہ کا؟ فَیَا لَلْعَجَبْ!




داڑھی منڈانے یا ایک مشت سے کم پر کتروانے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت اور شیطان کی پیروی پائی جاتی ہے، اس لیے قرآن وحدیث میں ان دونوں پر جتنی وعیدیں آئی ہیں وہ سب داڑھی منڈانے اور ایک مشت سے کم پر کتروانے پر منطبق ہوں گی، وعید کی چند آیات ملاحظہ ہوں:
 ”وَلَآَمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ وَمَنْ یَتَّخِذِ الشَّیْطَانَ وَلِیًّا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِیْنًا“ 
(سورہٴ نسا: آیت: ۱۱۹)، 
”وَمَنْ یُشَاقِقِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ“ 
(سورہٴ انفال، آیت: ۱۳) 
”فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ“ 
(سورہٴ نور، آیت: ۶۳)، 
”وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا وَاتَّقُوْا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ“ 
(سورہٴ حشر، آیت: ۷) وغیرہ۔ 


=======================================

ڈاڑھی منڈوانا درج ذیل گناہوں کا مجموعہ ہے:
(1) نبی کریم ﷺ کے حکم کی مخالفت۔ (2) انبیاء کرام کی سنت اور فطرت کی مخالفت۔ (3)اس گناہ کا اعلانیہ ہونا کہ ڈاڑھی ایسا گناہ ہے جو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا، اور گناہ کی تشہیر خود ایک گناہ ہے۔ (4) اللہ کی فطری بنائی ہوئی خلقت میں تبدیلی اور مثلہ (چہرہ بگاڑنے) کا گناہ ۔ (5) کافروں سے مشابہت ۔(6) خواتین کے ساتھ  تشبہ، اور مردوں کے لیے ایسا عمل جس سے خواتین کے ساتھ مشابہت حدیث کی رو سے موجبِ لعنت ہے ۔ (7) مخنثین اور ہیجڑوں سے مشابہت ۔(8) گناہ کا تسلسل اور استمرار۔یعنی جب تک انسان  اس عمل کا مرتکب رہتا ہے اس وقت تک اس کا گناہ برابر جاری رہتا ہے۔ (9) اسلامی اور دینی شعائر کی خلاف ورزی۔

احادیثِ رسول ﷺ:

عَنِ الْهَيْثَمِ ، عَنْ رَجُلٍ : أَنَّ أَبَا قُحَافَةَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، لِحْيَتُهُ قَدِ انْتَشَرَتْ ، قَالَ : فَقَالَ : " لَوْ أَخَذْتُمْ ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى نَوَاحِي لِحْيَتِهِ " .

ابو حنیفہؒ (اپنے استاد) ہیثمؒ  سے، وہ ایک آدمی(صحابیؓ) سے  روایت کرتے ہیں کہ ابو قحافہؓ نبی  ﷺ کے پاس آۓ تو ان کی داڑھی کے بال بکھرے ہوۓ تھے، آپ نے اس کی داڑھی کے اطراف کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا:  کاش! .تم کچھ بال لے (کاٹ) لیتے
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1لو أخذتم وأشار بيده إلى نواحي لحيتهعثمان بن عامرالآثار لأبي يوسف10111038يعقوب بن إبراهيم182
2لو يعني أخذتم وأشار بيده إلى نواحي لحيتهعثمان بن عامرمسند أبي حنيفة لابن يعقوب634---عبد الله بن محمد بن يعقوب بن البخاري340
3لو أخذتم وأشار بيده إلى نواحي لحيتهموضع إرسالمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي4277أبو حنيفة150



=================================================
 وَحَدَّثَنِي ، عَنْ مَالِك ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ ، فَدَخَلَ رَجُلٌ ثَائِرَ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ أَنِ اخْرُجْ كَأَنَّهُ يَعْنِي إِصْلَاحَ شَعَرِ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ ، فَفَعَلَ الرَّجُلُ ثُمَّ رَجَعَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَلَيْسَ هَذَا خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدُكُمْ ثَائِرَ الرَّأْسِ كَأَنَّهُ شَيْطَانٌ " .

عطاء بن يسارؒ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمیؓ نبی ﷺ کے پاس پراگندہ سر اور داڑھی کی حالت میں آیا رسول الله ﷺ نے اس کو اشارہ کیا گویا آپ نے اس کو سر اور داڑھی کے بال درست کرنے کا حکم دیا سو وہ بال درست کرا کے واپس آیا تو رسول الله ﷺ نے فرمایا: کیا یہ بہتر نہیں اس سے کہ تم میں سے کوئی پراگندہ بالوں  کے ساتھ ایسے آۓ گویا کہ وہ شیطان ہے.
[الآداب للبيهقي:561، شعب الإيمان للبيهقي:6043](فقہ السنة للسيد: ١/٣٨)

م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1دخل رجل ثائر الرأس واللحية فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده أن اخرج كانه يعني إصلاح شعر رأسه ولحيته ففعل الرجل ثم رجع فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أليس هذا خيرا من أن يأتي أحدكم ثائر الرأس كأنه شيطانموضع إرسالموطأ مالك رواية يحيى الليثي17091770مالك بن أنس179
2دخل رجل ثائر الرأس واللحية فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم كأنه أمره إصلاح شعر رأسه ولحيته ففعل الرجل ثم رجع فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا خيرا من أن يأتي أحدكم ثائر الرأس كأنه شيطانموضع إرسالموطأ مالك برواية أبي مصعب الزهري10971995مالك بن أنس179
3دخل رجل ثائر الرأس واللحية فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن اخرج فأصلح رأسك ولحيتك ففعل ثم رجع فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أليس هذا خيرا من أن يأتي أحدكم ثائر الرأس كأنه شيطانموضع إرسالالآداب للبيهقي554835البيهقي458
4دخل رجل ثائر الرأس واللحية فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن اخرج فأصلح رأسك ولحيتك ففعل ثم رجع فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أليس هذا خيرا من أن يلقى أحدكم ثائر الرأس كأنه شيطانموضع إرسالشعب الإيمان للبيهقي5962---البيهقي458

=================================================
 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا ".
رسول اللہ ﷺ اپنی داڑھی مبارک لمبائی اور چوڑائی دونوں جانب سے(پکڑ کر مشت سے زیادہ) تراشا کرتے تھے۔
[ترمذی:2762، شعب الإيمان للبيهقي:6019، أخلاق النبي لأبي الشيخ الأصبهاني:885، بغوی:12/108،الاستذكار:8/429، فتح الباري شرح صحيح البخاري:10/350، شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك:4/530]




حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، سَمِعَ مُجَاهِدًا ، يَقُولُ : رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلا طَوِيلَ اللِّحْيَةِ ، فَقَالَ : " لِمَ يُشَوِّهُ أَحَدُكُمْ نَفْسَهُ ؟ " .
مجاہدؒ سے روایت ہے کہ  نبی ﷺ نے ایک لمبی داڑھی والے آدمی کو دیکھ کر فرمایا کہ تم میں سے ایک اپنے آپ کو کیوں قبیح (بدنما) بنا دیتا ہے۔
[مراسيل أبي داود:448، المعجم الأوسط للطبراني:8290، المعجم الصغير للطبراني:1079]

 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1دخل رجل ثائر الرأس واللحية فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده أن اخرج كانه يعني إصلاح شعر رأسه ولحيته ففعل الرجل ثم رجع فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أليس هذا خيرا من أن يأتي أحدكم ثائر الرأس كأنه شيطانموضع إرسالموطأ مالك رواية يحيى الليثي17091770مالك بن أنس179
2دخل رجل ثائر الرأس واللحية فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم كأنه أمره إصلاح شعر رأسه ولحيته ففعل الرجل ثم رجع فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا خيرا من أن يأتي أحدكم ثائر الرأس كأنه شيطانموضع إرسالموطأ مالك برواية أبي مصعب الزهري10971995مالك بن أنس179
3أبصر رجلا ثائر الرأس فقال لم يشوه أحدكم نفسه وأشار بيده أي خذ منهجابر بن عبد اللهالمعجم الأوسط للطبراني85108290سليمان بن أحمد الطبراني360
4أبصر رجلا ثائر الرأس فقال لم يشوه أحدكم نفسه وأشار بيده أي يأخذ منهجابر بن عبد اللهالمعجم الصغير للطبراني1076111سليمان بن أحمد الطبراني360
5دخل رجل ثائر الرأس واللحية فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن اخرج فأصلح رأسك ولحيتك ففعل ثم رجع فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أليس هذا خيرا من أن يأتي أحدكم ثائر الرأس كأنه شيطانموضع إرسالالآداب للبيهقي554835البيهقي458
6دخل رجل ثائر الرأس واللحية فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن اخرج فأصلح رأسك ولحيتك ففعل ثم رجع فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أليس هذا خيرا من أن يلقى أحدكم ثائر الرأس كأنه شيطانموضع إرسالشعب الإيمان للبيهقي5962---البيهقي458
7نظر إلى رجل مجفل الشعر فقال ما بال أحدكم يشوه نفسهجابر بن عبد اللهالجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب880874الخطيب البغدادي463
=======================
شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دھلوی (۱۰۵۲ھ) لکھتے ہیں:

گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است و آنکہ آنرا سنت گیند بمعنی طریقہ مسلو ک دین است یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت است ، چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند۔
(اشعۃ اللمعات،کتاب الطہارۃ ، باب السواک ،۱/۲۱۲،فتاوی رضویہ،۲۲/۵۸۱،مطبوعہ جدید)

’’داڑھی بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں آنحضرت ﷺ کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنتِ نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہا جاتا ہے ‘‘۔


=======================
”عن رویفع بن ثابت قال: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَا رُوَيْفِعُ ، لَعَلَّ الْحَيَاةَ سَتَطُولُ بِكَ بَعْدِي ، فَأَخْبِرِ النَّاسَ أَنَّهُ مَنْ عَقَدَ لِحْيَتَهُ أَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا أَوِ اسْتَنْجَى بِرَجِعِ دَابَّةٍ أَوْ عَظْمٍ ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ بَرِيءٌ "۔
ترجمہ:
․․․”حضرت رویفع بن ثابت  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ: میرے بعد قریب ہے کہ تیری زندگی دراز ہو‘ لوگوں کو خبر دینا کہ جو شخص اپنی داڑھی میں گرہ لگائے یا داڑھی چڑھائے یا تانت کا قلادہ ڈالے یا گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرے تو محمد ﷺ اس سے بری ہیں“۔

حضرت مولانا عبد الرحیم لاجپوری صاحب اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ: 
”جب داڑھی لٹکانے کے بجائے چڑھانے پر یہ وعید ہے تو منڈانے اور شرعی مقدار (قبضہ) سے کم کرنے پر کیا وعید ہوگی“۔
(فتاویٰ رحیمیہ ج:۱۰‘ ص:۱۰۷)

الاختیار شرح المختار میں ہے:
”اعفاء اللحی قال: محمد  : عن ابی حنفیة ترکہا حتی تکث وتکثر والتقصیر فیہا سنة‘ وہو ان یقبض رجل لحیتہ فما زاد علی قبضہ قطعہ‘ لان اللحیة زینة وکثرتہا من کمال الزینة وطولہا الفاحش خلاف السنة“۔
ترجمہ:
․․․”اعفاء اللحی یعنی داڑھی بڑھانا امام محمد  کی روایت ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا داڑھی کو چھوڑے رکھنا چاہئے‘ یہاں تک کہ گھنی ہوجائے اور بڑھ جائے اور داڑھی میں قصر سنت ہے اور قصر یہ ہے کہ داڑھی کو مٹھی سے پکڑے جو مٹھی سے بڑھ جائے اس کو کاٹ دیں۔ داڑھی سنت ہے اور اس کا بھر پور ہونا (گھنی ہونا) کمال زینت ہے اور داڑھی کی غیر معمولی درازی خلاف سنت ہے“۔
 (الاختیار شرح المختار ج:۴‘ ص:۲۳۵)

بہرحال یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ داڑھی ایک مشت رکھنا ہی واجب ہے اورداڑھی منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کتروانا حرام ہے اور اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔ جیساکہ حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ کی کتاب الآثار میں ہے:
”محمد قال اخبرنا ابوحنیفة رحمہ اللہ عن الہیثم عن ابن عمر  انہ کان یقبض علی اللحیة ثم یقص ما تحت القبضة قال محمد: وبہ ناخذ وہو قول ابی حنیفة رحمہ اللہ“۔
ترجمہ:
․․․”امام محمد امام اعظم ابوحنیفہ سے وہ حضرت ہیثم  سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر  داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کرمٹھی سے زائد حصہ کو کاٹ دیا کرتے تھے‘ امام محمد فرماتے ہیں کہ: ہمارا عمل اسی حدیث پر ہے اور حضرت امام اعظم نے بھی یہی فرمایا ہے“۔
فقہ مالکی کے مشہور فقیہہ علامہ محمد بن محمد غیثنی مالکی ”المنح الوفیہ شرح مقدمہ العزیة“ میں فرماتے ہیں:
”ان ترک الاخذ من اللحیة من الفطرة‘ وامر فی الارسال بان تعفی ای تترک ولاحرج علی من طالت لحیتہ بان یأخذ منہا اذا زادت علی القبضة“۔
ترجمہ:
․․․”داڑھی رکھنا فطرت میں سے ہے اور چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے کہ بڑھائی جائے‘ لیکن جس شخص کی داڑھی ایک قبضہ سے لمبی ہوجائے تو ایسے شخص کو قبضہ سے زائد حصہ کو کتروا ڈالنے میں کوئی حرج نہیں“۔
مشہور شافعی فقیہ اور محدث امام نووی ”حدیث خصال فطرت“ کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:
”المختار ترکہا علی حالہا وان لایتعرض لہا بتقصیر ولاغیرہ“
ترجمہ:
․․․”مذہب مختاریہ ہے کہ داڑھی کو بالکل چھوڑدیا جائے اور اس کے ساتھ کترنے اور منڈوانے کا تعرض بالکل نہ کیا جائے“۔

فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ”کشاف القناع شرح متن الاقناع“ ج:۱‘ ص:۶۰ میں ہے:
”واعفاء اللحیة ) بان لایاخذ منہا شیأ مالم یستہجن طولہا ویحرم حلقہا ولایکرہ اخذ ما زاد علی القبضة“
”اور حضور اکی سنت داڑھی کو چھوڑدیناہے اس طرح کہ اس میں سے کچھ بھی نہ تراشے جب تک کہ وہ لمبی ہوکر بڑی نہ لگنے لگے اور اس کا منڈانا تو بالکل حرام ہے‘ البتہ قبضہ سے زیادہ حصہ کا تراشنا مکروہ نہیں“۔


امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”وکان من عادة الفرس: قص اللحیة، فنھی الشرع عن ذلک“․
(شرح مسلم،ص:129)
ترجمہ:
 … ”فارسیوں (مجوسیوں) کی عادت تھی کہ وہ داڑھی کے بال کاٹ کر کم کر دیا کرتے تھے، لہٰذا شریعت نے اس سے منع کیا“۔ 

ان میں کچھ لوگ اپنی داڑھیاں منڈوانے بھی لگے تھے، جیسا کہ علامہ عینیؒ نے لکھا ہے: ”لأنھم کانوا یقصرون لحاھم، ومنھم من کان یحلقھا“․
ترجمہ:
”اس لیے وہ لوگ اپنی داڑھیاں چھوٹی کراتے تھے اور ان میں کچھ لوگ مونڈ ڈالتے تھے“۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث نے اعفائے لحیہ کے حکم کی عِلت(سبب) کے ساتھ یہ واضح اشارہ بھی دیا ہے کہ داڑھی کی مقدار کتنی چھوٹی ہونی چاہیے اور اعفائے لحیہ کے حکم کا منشا کب پورا ہو گا؟ مجوسی جب اپنی داڑھیاں چھوٹی کراتے تھے اور مسلمانوں کو ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا تو اتنی بات تو معلوم ہو گئی کہ ان کی داڑھیاں مجوسیوں کی داڑھیوں سے لمبی ہونی چاہییں، لیکن بات پھر بھی مجمل ہے، اس اجمال کی تبیین نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ہوئی۔

(اختلاف امت اور صراط مستقیم، ضمیمہ:3، داڑھی کی مقدار کا مسئلہ:1/238تا 240، مکتبہ لدھیانوی، کراچی)

داڑھی منڈوانے میں یہود ونصاریٰ کی مشابہت ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ داڑھی بڑھاوٴ اور مونچھیں کٹواوٴ اوراپنے سفید بالوں کو (سیاہ رنگ کے سوا)کسی رنگ سے رنگ لو، اس میں یہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار نہ کرو۔

عن أبي ھریرة رضي اللہ عنہ قال: ”أعفوا اللِحیٰ، وخذوا الشوارب، وغیِّروا شَیْْبَکم، ولا تشبَّھوا بالیھود والنصاریٰ“․ (مسند الإمام أحمد بن حنبل، مسند أبي ھریرة، 8672، 14/ 306، موٴسسة الرسالة)

داڑھی منڈوانے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :”أکرم الرجال باللحیٰ، والنساء بالذوائب“․کہ مردوں کو داڑھیوں کے ذریعے شرف بخشا گیا اور عورتوں کو مینڈھیوں کے ذریعے سے۔ (الجامع لأحکام القرآن، سورة الإسراء، رقم الآیة:70، 13/126، موٴسسة الرسالة )

اللہ کی جانب سے ہی عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی اور مردوں کی ہوتی ہے، اسی طرح اللہ کی جانب سے ہی عورتوں کو مینڈھیاں عطا کی گئیں اور مردوں کو یہ چیز عطا نہیں کی گئی۔داڑھی کو اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے درمیان امتیازی شرف کی چیز بنایا ہے۔ 

عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے
چناں چہ ! اللہ رب العزت کی طرف سے ملنے والی صورت کو ہی برقرار رکھنا ضروری ہے، شکل وصورت میں ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا شرعاً ممنوع ہے،یعنی: اگر مرد اپنی داڑھی منڈواتے ہیں تو یہ عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ہے ۔ ایسے افراد پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے لعنت کی گئی ہے، ملاحظہ ہو: 

عن ابن عباس رضي اللہ عنھما قال: ”لعن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء، والمتشبھات من النساء بالرجال“․ (صحیح البخاري، کتاب الباس، باب المتشبہون بالنساء والمتشبہات بالرجال، رقم الحدیث:5885، 7/159، دار طوق النجاة)

عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والا نبی ﷺ کے طریقے پر نہیں
مردوں میں سے جو شخص عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والا ہے ، یا عورتوں میں سے جو عورت مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی ہے، اس کے بارے میں حدیثِ مبارکہ میں بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”وہ ہم میں سے نہیں“۔ غور کر لیا جائے کہ جب وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ملت میں سے نہیں یا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقے پر نہیں ، تو وہ کن میں سے ہو گا؟؟!! ملاحظہ ہو:

عن عطاء، عن رجل من ھذیل، قال: رأیت عبد اللہ بن عمرو بن العاص، ومنزلہ في الحِلِّ، ومسجدہ في الحَرَم، قال: فبینا أنا عندہ، رأیٰ أُمَّ سعید ابنة أبي جھل متقلدة قوساً، وھي تمشي مِشیَةَ الرجل، فقال عبداللہ: من ھٰذہ؟ قال الھُذَلي: فقلت: ھٰذہ أم سعید بنت أبي جھل، فقال: سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول: ”لیس منَّا مَن تشبَّہ بالرجال مِن النساء، ولا مَن تشبَّہ بالنساء مِن الرجال“․(مسندُ الإمام أحمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضي اللہ عنہ، رقم الحدیث:6575، 11/461، 462، موٴسسة الرسالة)

داڑھی منڈوانے میں ہیجڑوں کے ساتھ مشابہت 
علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ کی عبارت سے یہ بات معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی منڈوانا مخنثین (ہیجڑوں )کا فعل ہے، ملاحظہ ہو:
”قال العلائي في کتاب الصوم قبیل فصل العوارض:”إن الأخذ من اللحیة وھي دون القبضة کما یفعلہ بعضُ المغارِبة ومُخَنَّثةِ الرجالِ، لَم یُبِحْہ أحدٌ، وأَخْذُ کلِّہا فعلُ یھودَ والہُنودِ ومَجوسِ الأعاجِم․اھ“،…إلخ“․(تنقیح الفتاویٰ الحامدیة، کتاب الشھادة: 4/238، مکتبة رشیدیة، کوئٹة) 

علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”بے شک ایک مشت سے کم داڑھی کروانے کو، جیسا کہ بعض مغربی اور مخنث لوگ کرتے ہیں ، کسی نے بھی جائز قرار نہیں دیا اور ساری داڑھی کو مونڈ لینا یہودیوں ، ہند کے رہنے والوں اور عجم کے رہنے والے مجوسیوں کا فعل ہے“۔ 

اور ایسے افراد پر جو مخنثوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے، ملاحظہ ہو:
عن ابن عباس رضي اللہ عنھما لعن النبيصلی الله علیہ وسلم المخنثین من الرجال، والمترجلات من النساء، وقال: أخرجوھم من بیوتکم“․ (صحیح البخاري، کتاب الباس، باب إخراج المتشبہین بالنساء من البیوت، رقم الحدیث:5886، 7/159، دار طوق النجاة)

ایک اور روایت میں ہے:
عن ابن عباس رضي اللہ عنھما، قال: لعن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم المخنثین من الرجال، والمترجلات من النساء، قال: فقلت: ما المترجلات من النساء؟ قال: ”المتشبھات من النساء بالرجال“․ (مسندُ الإمام أحمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنھما، رقم الحدیث: 2291، 4/ 431، موٴسسة الرسالة) 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے مخنث (ہیجڑہ)بننے والے مردوں پر اور مرد بننے والی عورتوں پر ۔راوی کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ مرد بننے والی عورتیں کون ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔

اب احناف میں سے اکابر علمائے دیوبند رحمہم اللہ کے کچھ فتاویٰ بھی ملاحظہ فرما لیں:
کفایت المفتی میں ہے:
”داڑھی کٹوانا یا منڈوانا حرام ہے، کتروانے سے یہ مراد ہے کہ اتنی کتروائے کہ ایک مشت سے کم رہ جائے، ایک مشت کی مقدار حدیث سے ثابت ہے“۔ (کفایت المفتی، کتاب الحظروالا باحة، داڑھی منڈانا اور یکمشت سے کم کرنا گناہ ہے: 9/ 175، دار الاشاعت)

”فقہائے کرام نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیا ہے اور اس سے کم رکھنے والے کو تارک الواجب ہونے کی بنا پر فاسق کہا ہے“۔ (کفایت المفتی، کتاب الحظر والاباحہ، یکمشت داڑھی رکھنا واجب ہے: 9/176، دار الاشاعت،کراچی)

امداد الفتاویٰ میں ہے:
” داڑھی رکھنا واجب اور قبضہ سے زائد کٹانا حرام ہے۔“ (امداد الفتاویٰ، بالوں کے حلق وقصر وخضاب اور ختنہ وغیرہ کے احکام، داڑھی کا حکم اور مقدار: 4/223، مکتبہ دارالعلوم کراچی)

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے اس فتوے میں مذکور ” قبضہ سے زائد کٹانا حرام ہے“ کی یہ تشریح کرتے ہیں: 
” یہاں قبضے سے زائد کٹانے سے مراد یہ ہے کہ جس کی داڑھی قبضے سے زائد ہو اس کو قبضے سے زائد حصے کا کٹانا تو جائز ہے اور (کاٹتے کاٹتے)اتنا کاٹنا کہ جس کی وجہ سے داڑھی قبضے سے کم رہ جائے، یہ حرام ہے“۔ (داڑھی کی شرعی حیثیت، ص:35، مکتبہ رشیدیہ، کراچی)

جواہر الفقہ میں ہے:
”باجماع امت داڑھی منڈانا حرام ہے، اسی طرح ایک قبضہ (مٹھی) سے کم ہونے کی صورت میں کتروانا بھی حرام ہے، ائمہ اربعہ حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ کا اس پر اتفاق ہے“۔ (جواہر الفقہ، احکام الخطاب في بعض أحکام اللحیٰ والخضاب، 7/159،160، مکتبہ دارالعلوم، کراچی)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:
”مردوں کے لیے داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کی مقدار شرعی ایک قبضہ یعنی ایک مشت ہے…لہٰذا داڑھی رکھنا واجب اور ضروری ہے، منڈانا حرام اور گناہ ِ کبیرہ ہے“۔ (فتاویٰ رحیمیہ، کتاب الحظر والاباحہ، داڑھی کا وجوب اور ملازمت کی وجہ سے اس کا منڈانا: 10/106، دار الاشاعت، کراچی)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
”داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کا منڈانا حرام ہے، ایک مشت تک پہنچنے سے پہلے پہلے کٹوانا بالاتفاق ناجائز ہے“۔ (فتاویٰ محمودیہ، باب خصال الفطرة ، الفصل الأول فی اللحیہ والشوارب: 19/ 392، ادارہ الفاروق کراچی)

احسن الفتاویٰ میں ہے:
”داڑھی قبضہ سے کم کرنا حرام ہے، بلکہ یہ دوسرے کبیرہ گناہوں سے بھی بد تر ہے، اس لیے کہ اس کے اعلانیہ ہونے کی وجہ سے اس میں دینِ اسلام کی کھلی توہین ہے اور اللہ ورسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے بغاوت کا اظہار واعلان ہے، اسی لیے فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے فیصلہ تحریر فرمایا ہے کہ جو شخص رمضان میں اعلانیہ کھائے پیے، وہ واجب القتل ہے، کیوں کہ وہ کھلے طور پر شریعت کی مخالفت کر رہا ہے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”کل أمتي معافی إلا المجاھرین“․ میری پوری امت لائق ِ عفو ہے، مگر اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ دوسرے گناہ کسی خاص وقت میں ہوتے ہیں، مگر داڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے، سو رہا ہو تو بھی گناہ ساتھ ہے، حتیٰ کہ نماز وغیرہ عبادت میں مشغول ہونے کی حالت میں بھی اس گناہ میں مبتلیٰ ہے، قومِ لوط کے اسباب ِ عذاب میں داڑھی کٹانا بھی ہے، غرضیکہ داڑھی کٹانے یا منڈانے والا فاسق ہے…إلخ“۔ (احسن الفتاویٰ، کتاب الصلاة، باب الامامة والجماعة، داڑھی کٹانے والے کی امامت: 3/260، ایچ ایم سعید) 

”ایک مشت داڑھی رکھنا فرض ہے، اس سے کم کرنا منڈانا بالاجماع حرام ہے اور اس کی علامت ہے کہ ایسے شخص کے دل میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صورتِ مبارکہ سے نفرت ہے“۔ (تتمہ احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان والعقائد، داڑھی کی توہین موجبِ کفر ہے، سوال مثلِ بالا:10/19، مکتبہ الحجاز، کراچی)

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:
”داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے، نہ رکھنے والا فاسق مردود الشہادة ہے“۔( فتاویٰ مفتی محمود، باب الامامة، داڑھی کی شرعی حیثیت: 2/175، جمعیة پبلیکیشنز)

” درمختار میں ہے کہ چار انگشت سے کم داڑھی کا قطع کرنا حرام ہے:”وأما الأخذ منھا وھي دون ذٰلک، فلم یبحہ أحد“․ اور نیز درمختار میں ہے:”والسنة فیھا القبضة…إلخ، وکذا قال یحرم علیٰ الرجل قطع لحیتہ“․لہٰذا جو شخص داڑھی منڈوائے یا ایک مشت سے کم کتروائے وہ فاسق ہے…إلخ۔ ( فتاویٰ مفتی محمود، باب الامامة، داڑھی کترانے والے کی امامت میں ادا کی گئی نمازوں کا حکم:2/184، جمعیة پبلیکیشنز)

ایک مشت داڑھی سے زائد بڑھانے کے بارے میں ایک غلو والا نظریہٴ
مذکورہ بحث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کچھ علماء (جن میں جماعت اہل حدیث کے ساتھ تعلق رکھنے والے حضرات بھی شامل ہیں)اس معاملے میں غلو کا شکا ر ہیں، ان کے نزدیک داڑھی کو بڑھانا ہی بڑھانا ہے، کٹوانا جائز نہیں ہے، چاہے ایک مشت کے بعد ہو یا پہلے۔

ان حضرات کی اتنی بات تو درست ہے کہ ایک مشت سے پہلے کٹوانا جائز نہیں ہے، لیکن ایک مشت کے بعد بھی نہ کٹوانا، یہ تسلیم نہیں ہے، یہ غلو ہے، اس لیے کہ صحیح روایات کے مطابق حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانا ثابت ہے اور اسی پر قرنِ اول سے لے کر اب تک امت کا عمل چلا آرہا ہے، عمل کی حد تک ایسا ہو (یعنی داڑھی ایک مشت کے بعد نہ کٹوائی جائے)تو کوئی حرج نہیں ، اہل سنت والجماعت کے نزدیک بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانا واجب نہیں ہے، جائز ہے۔ لیکن نظریةً اس بات (کہ ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانا جائز نہیں ہے)کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔

اس بارے میں سب سے پہلے اہل سنت والجماعت کے ائمہ اربعہ کا مذہب لکھا جائے گا ، پھر اہل حدیث علماء کے اقوال :
ایک مشت سے زائد کٹوانے میں اہل سنت والجماعت کا مذہب
اس بارے میں نہایت جامع خلاصہ”الموسوعة الفقہیة الکویتیة“سے نقل کیا جاتا ہے:
”بعض فقہاء ،جن میں امام نووی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں ، اس بات کی طرف گئے ہیں کہ داڑھی کے درپے نہ ہوا جائے، نہ اس کی لمبائی کی طرف سے کچھ کاٹا جائے گا اور اس کی چوڑائی کی طرف سے کچھ کاٹا جائے گا، اس لیے کہ اس بارے میں جو حدیث ہے اس کا ظاہر یہی تقاضا کرتا ہے۔امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”داڑھی کٹوانے کے بارے میں مختار مذہب داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دینا ہے، اس طور پر کہ کاٹنے کے ساتھ یا اس کے علاوہ کسی اور طریقے کے ساتھ داڑھی کے درپے نہ ہوا جائے“۔

اور دوسرے فقہاء، جن میں حنفیہ اور حنابلہ ہیں، اس بات کی طرف گئے ہیں کہ جب داڑھی ایک مشت سے زائد ہو جائے تو اس کا کاٹنا جائز ہے، بوجہ اس کے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بات ثابت ہے کہ جب حج یا عمرے کے موقع پر جب سر منڈواتے تھے تو ساتھ ہی داڑھی کے زائد بال اور مونچھیں بھی کتروا لیتے تھے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تھے تو اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑتے تھے اور مٹھی سے زائد بالوں کو کاٹ دیتے تھے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ظاہر یہ ہے کہ:”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایسا صرف حج کے موقع پر ہی نہیں کرتے تھے، بلکہ حدیث کے حکم ”إعفاء اللحیہ“ کو اس حالت کے علاوہ پر محمول کرتے تھے ، جس میں داڑھی اپنے طول وعرض میں بہت زیادہ بڑھنے کے ساتھ چہرہ کو بدنما بنا دیتی ہے“۔ یعنی حج کے علاوہ بھی اپنی داڑھی کوایک مشت کے بعد کاٹ دیتے تھے۔

احناف کا مذہب اس بارے میں یہ ہے کہ ایک مشت کے بعد داڑھی کوکاٹ دینا مسنون ہے، جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے کہ:” داڑھی کو کاٹنا سنت ہے، وہ اس طرح کہ مرد اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں لے ، پھر اگر کچھ بال داڑھی سے زائدہوں تو ان کو کاٹ دے، امام محمد رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ االلہ سے اسی طرح نقل کیا ہے اور ہم اسی قول کو لیتے ہیں“۔

حنفیہ کا ایک قول وجوب کا بھی ہے (لیکن یہ صرف قول ہی ہے، فتویٰ اس پر نہیں ہے)اور وہ قول امام حصفکی رحمہ اللہ کے قول :” الإثم بترکہ“․ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایک مشت سے زائد بالوں کو کاٹ دینا واجب ہے۔

حنابلہ کا قول ہے کہ ایک مشت سے زائد داڑھی کے بالوں کو کاٹنا مکروہ نہیں ہے، فقہاء نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنی داڑھی کے بڑھے ہوئے بالوں کا کاٹا۔

فقہاء کی ایک جماعت اس بات کی طرف گئی ہے کہ داڑھی کے بالوں کو بالکل نہیں کاٹا جائے گا، إلا یہ کہ جب داڑھی کے بڑھے ہوئے بال چہرے کو بدنما بنا دیں۔امام طبری رحمہ الله نے حضرت حسن بصری اور حضرت عطاء بن رباح رحمہما اللہ کا یہی مذہب نقل کیا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے فعل کو اسی پر محمول کیا ہے اور فرمایا ہے : اگر کوئی شخص اپنی داڑھی کو چھوڑ دے، اس کی اصلاح بالکل نہ کرے، یہاں تک کہ اس کی داڑھی لمبائی اور چوڑائی میں بہت ہی زیادہ بڑھ جائے (کہ چہرے کو بدنما لگنے لگے)تو وہ اپنے آپ کو مسخرہ کرنے والوں کے سپرد کر دے۔

قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا: داڑھی بہت زیادہ بڑھ جائے تو کچھ کاٹ دینا اچھا ہے اور اس کو بڑھانے میں بہت زیادہ مبالغہ کرنا مکروہ ہے، جیسا کہ ایک مشت سے کم کر دینا مکروہ ہے۔اور اس جماعت کے مذکورہ قول کی دلیل وہ حدیث (ضعیف)ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنی داڑھی کی لمبائی اور چوڑائی میں سے (ایک مشت سے زائد بڑھ جانے کی صورت میں )کاٹ دیا کرتے تھے۔(الموسوعة الفقہیة الکویتیة، حرف اللام، اللحیة، أخذ اللحیة، 35/224، 225، وزارة الأوقاف والشئون الإسلامیة، الکویت)

یہ (اہل حدیث )حضرات ویسے تو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کسی کی تقلید نہیں کرتے، لیکن عملی طور پر حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے، اپنے مطلب کا قول جہاں اور جس سے مل جائے ، یہ حضرات اسی کی تقلید کرتے ہیں ، لیکن ظاہر اپنے آپ کو یہی کرتے ہیں کہ ہم تقلید نہیں کر رہے، بلکہ اپنی خداداد اجتہادانہ صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے عمل کر رہے ہیں۔ اور عام طور پر موجودہ دور کے یہ حضرات اصحاب ِ ظواہر، علامہ ابن تیمیہ ، علامہ شوکانی اور شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہم اللہ کے اقوال کو بہت زیادہ اعتماد کے ساتھ لیتے ہیں، ذیل میں علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا اس سلسلہ میں موٴقف ذکر کیا جاتا ہے، جو خود ان کے قلم سے مولانا حفظ الرحمن اعظمی ندوی رحمہ اللہ کے نام لکھا گیا:

”وإنما أذھب إلی ما اشرتم إلیہ من الأخذ ما زاد علی القبضة، وذالک لأمرین: 
(۱)تتابع الأخبار عن السلف صحابة وتابعین وائمة مجتھدین، وبخاصة إمام السنة أحمد علی الأخذ، وفي الصحابة ابن عمر وأبوھریرة، وھما من رواة الأمر بإعفاء اللحیة، فلو کان الحدیث علیٰ إطلاقہ ما خالفوا إطلاقہ، کما یزعم بعض المتأخرین․ 
(۲) عدم ورود ما ینافيذالک عن النبي صلی الله علیہ وسلم وأصحابہ فعلاً وقولاً․ وما یقول بعضھم أن النبي صلی الله علیہ وسلم کان لا یأخذ من لحیتہ، إن یظنون إلا ظنا، وما ھم بمستیقنین، وبعبارة أخریٰ لاأصل لہ لذالک روایة“․

میرا مسلک وہی ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا کہ داڑھی میں زائد از قبضہ حصہ لے لیا جائے اور اس مسلک کی دو دلیلیں ہیں: (۱) سلف صالحین ، حضرات صحابہ وتابعین، ائمہ مجتہدین اور خاص طور سے امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور صحابہ میں سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو حدیث اعفاء اللحیہ (داڑھی بڑھانے) کے راوی ہیں، زائد از قبضہ کے لینے کی متواتر روایات اگر حدیث اعفاء اللحیہ اپنے اطلاق پر ہوتی ، جیسا کہ بعض متأخرین کا خیال ہے ، تو یہ حضرات اس کے اطلاق کی مخالفت نہ کرتے۔

(۲) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ سے فعلاً بلکہ قولاً بھی اس کے منافی کسی ہدایت کا منقول نہ ہونا اور بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی داڑھی کے بال نہ لیتے تھے، محض ان کا گمان ہے، جس کا خود ان کو بھی یقین نہیں۔ دوسرے لفظوں میں روایت کی رو سے اس کی کوئی اصل نہیں“۔(إعلام الفتیة بأحکام اللحیة، ص: 63، بحوالہ ”اسلام میں داڑھی کا مقام“، ص:44، کتاب گھر،کراچی)

اسی طرح موجودہ دور کے اہل حدیث حضرات کے اکابرعلمائے کرام کے فتاویٰ میں بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانے کی صراحت مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو:

فتاویٰ نذیریہ میں شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا محمد نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:
”داڑھی کا دراز کرنا بقدر ایک مشت کے واجب ہے، بدلیل حدیثِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے،کما سنتلوا علیکاور داڑھی کا منڈوانا، ایک مشت سے کم رکھنا یا خشخشی بنانا حرام ہے اورموجبِ وعید ہے۔“ (آگے احادیث تحریر ہیں اور آخر میں چار علماء کے دستخط ہیں)۔ (فتاویٰ نذیریہ، کتاب اللباس والزینة:3/359،اہل حدیث اکادمی، لاہور، طبع دوم:1971ء)

فتاویٰ ثنائیہ میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب  لکھتے ہیں:
سوال: داڑھی مسلمان کو کس قدر لمبی رکھنے کا حکم ہے؟
جواب: حدیث میں آیا ہے کہ ”داڑھی بڑھاوٴ“ جس قدر خود بڑھے، ہاتھ کے ایک قبضے کے برابر رکھ کر زائد کٹوا دینا جائز ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک قدرتی گول تھی، تاہم اطراف وجوانب طول وعرض سے کسی قدر کانٹ چھانٹ کر دیتے تھے۔(2/ذی قعدہ 31ھ )
(فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کس قدر لمبی رکھنی ضروری ہے؟ :2/123،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء)

اسی کتاب میں کچھ آگے تو ایک مشت کے بعد کٹوانے کو واجب لکھا ہے، ملاحظہ ہو:
”حاصل یہ کہ سلف صالحین، جمہور صحابہ وتابعین وائمہ محدثین کے نزدیک ایک مشت تک داڑھی کو بڑھنے دینا، حلق وقصر وغیرہ سے تعرض نہ کرنا واجب ہے کہ اس میں اتباعِ سنت اور مشرکوں کی مخالفت ہے اور ایک مشت سے زائد کی اصلاح جائز ہے اور بافراط شعر لحیہ وتشوّہ وجہ وصورت وتشبہ بہ بعض اقوام مشرکین ہندو، سادھو وسکھ وغیرہ، جن کا شعار باوجود افراطِ شعر لحیہ عدمِ اخذ ہے، قبضہ سے زائد کی اصلاح واجب ہے، ورنہ مشرکوں کی موافقت سے خلافِ سنت، بلکہ بدعت ثابت ہو گی، جس کا سلف صالحین میں سے کوئی بھی قائل نہیں“۔(فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کا رکھنا کہاں تک ثابت ہے؟ :2/138،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء)

شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اور انہی کے اکابر کے فتاویٰ نقل کرنے سے مقصود یہ ہے کہ شاید اپنے بڑوں کی تحقیق اور فتاویٰ دیکھ کر یہ حضرات اپنے نظریہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے اصلاح فرمالیں۔اور اس مسئلہ میں غلواور تشدد سے بچ سکیں۔ (جاری)











4 comments:

  1. ماشاء اللہ،تحقیق کا حق ادا کر دیا.
    جزاک اللہ خیرا

    ReplyDelete

  2. نبی ﷺ نے صیغۂِ امر(حکمیہ انداز)میں یہ دونوں حکم فرماتے اور امر(حکم) حقیقتاً وجوب(لازم کرنے)کے لئے ہوتا ہے. بس معلوم ہوا کہ یہ دونوں حکم (داڑھی کٹوانا اور مونچھیں بڑھوانا)واجب ہیں اور واجب کا ترک کرنا حرام ہے.


    ReplyDelete
    Replies
    1. 22 at 22:22
      داڑھی بڑھوانا اور مونچھیں کٹوانا واجب ہے

      Delete
  3. داڑھی بڑھوانا اور مونچھیں کٹوانا واجب ہے

    ReplyDelete