تحقیق اور حقِ تحقیق:
برادرانِ اسلام! آج دنیا میں علمی پندار نے کچھ ایسی آزاد روی اختیار کرلی ہے کہ جاہلیت تو صرف ایک ہی فتنہ تھی لیکن یہ آزادی نت نئے فتنوں کو جنم دے رہی ہے۔ جس کو دیکھو وہ دین میں تحقیق کا مُدّعی ہے اور بلاجھجک کہتا ہے کہ میں تحقیق کررہا ہوں، اس بات پر اسے بہت بڑا فخر اور غرور ہے۔
تحقیق کا حکم:
اس مین شک نہیں ہے کہ دینِ اسلام ہی ایک تحقیقی دین ہے اور اس نے تحقیق کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ
ترجمہ:
"اے ایمان والو! اگر آئے تمہارے پاس کوئی گنہگار خبر لے کر تو تحقیق کرلو، کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے، پھر کل کو اپنے کیے پر لگو پچھتانے"۔
[سورۃ الحجرات:6]
یعنی اکثر نزاعات اور مناقشات کی ابتداء جھوٹی خبروں سے ہوتی ہے اس لئے اول اختلاف و تفریق کے اس سرچشمہ کو بند کرنے کی تعلیم دی، یعنی کسی خبر کو یوں ہی بےتحقیق قبول نہ کرو۔
معلوم ہوا کہ دین و دنیا میں سارے فسادات کی بنیاد، عدم تحقیق ہے۔ اگر دنیا میں بے تحقیق باتوں پر عمل کروگے تو دنیا کا نقصان ہوگا، اگر دین میں بے تحقیق باتوں پر عمل کیا تو دین برباد ہوگا۔
عام خبریں جاننے پھیلانے سے پہلے 3 باتوں کی تحقیق کریں؟
خبر دینے والے سے پوچھیں کہ۔۔۔۔۔
(1)کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ بات سچ ہے؟
(2)کیا وہ بات اچھی ہے یا بری؟
(3)کیا مجھے یا کسی اور کو اس بات سے فائدہ ہوگا؟
جب کوئی خبر سچی، اچھی یا فائدہ مند نہیں تو سننے کی کیا ضرورت۔
تحقیق کا حق:
جس طرح دنیا میں ہر فن میں اسی کی بات تحقیق مانی جاتی ہے جو اس فن میں کامل مہارت رکھتا ہوں، نہ کہ کسی فن سے ناآشنا کی۔ مثلاً: ہیرے جواہرات کے بارے میں ماہر جوہری کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ کسی موچی کی، سونے کے بارے میں ماہر سنار کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ کسی کمہار کی، اور قانون میں تحقیقی بات ماہر قانون دان کی ہوگی نہ کہ کسی مداری کی۔ اسی طرح دین میں بھی دین کے ماہرین کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ ہر کندۂ ناتراش کی۔ اسی لیے اللہ نے جس طرح تحقیق کا حکم دیا یہ بات بھی واضح فرمادی کہ تحقیق کا حق کس کس کو ہے۔ فرمایا:
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا
ترجمہ:
اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں، اور اگر اس کو پہنچا دیتے رسول تک اور اپنے حکم والوں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں اس کی، اور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو یقیناََ تم سب پیچھے ہو لیتے شیطان کے مگر تھوڑے۔
[سورۃ النساء:84]
یعنی ان منافقوں اور کم سمجھ مسلمانوں کی ایک خرابی یہ ہے کہ جب کوئی خبر آتی ہے تو اس کو بلا تحقیق مشہور کرنے لگتے ہیں اور اس میں اکثر نقصان اور فساد مسلمانوں کو پیش آتا ہے، منافق ضرر رسانی کی غرض سے اور کم سمجھ مسلمان کم فہمی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ کہیں سے کوئی خبر آئے تو چاہیے کہ اول پہنچائیں سردار تک اور اس کے نائبوں تک، جب وہ اس خبر کی تحقیق اور تسلیم کرلیں تو ان کے کہنے کے موافق اس کو کہیں نقل کریں اور اس پر عمل کریں۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالی نے تحقیق کرنے کا حق رسول اقدس ﷺ اور ان کے بعد اہلِ استنباط (یعنی قرآن وسنت کی گہرائی سے مسائل کا حل "نکالنے-ظاہر کرنے والے ماہرین) کو دیا ہے جس کو اصطلاح میں "مُجتَہِدین" کہتے ہیں۔
اہلِ استنباط کون؟
استنباط عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنیٰ ہیں کہ اللہ تعالی نے جو پانی زمین کی تہہ میں پیدا کرکے عوام کی نظروں سے چھپا رکھا ہے اس پانی کو کنواں وغیرہ بناکر "نکال لینا"۔ اللہ تعالی نے اجتہاد اور فقہ کی ایسی اہم مثال دی کہ ہر شخص آسانی سے سمجھ جائے۔ یہ مثال دے کر پہلی بات تو یہ سمجھا دی کہ انسانی زندگی کے لئے جتنا پانی ضروری ہے کہ اس کے بغیر نہ وضو، نہ غسل، نہ کپڑے صاف، نہ کھانا پکانا۔ اسی طرح اسلامی زندگی کے لیے فقہ ضروری ہے، عبادات ہوں یا معاملات، اقتصادیات ہوں یا سیاسیات، حدود ہوں یا تعزیرات، غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں فقہ کی رہنمائی کی ضرورت نہ ہو۔ دوسری بات یہ سمجھا دی کہ فقہ اور استنباط کسی شخص کی ذاتی خواہش کا نام نہیں۔ جس طرح زمین کی تہہ میں جو پانی ہے وہ اللہ تعالی کا ہی پیدا کیا ہوا ہے نہ کہ اس انسان کا جس نے کنواں کھود کر اس کو نکال لیا، جب بھی کوئی آدمی کسی کنوئیں کا پانی پیتا ہے تو اس عقیدے سے کہ اس پانی کا ایک ایک قطرہ خداوند قدوس کا ہی پیدا کیا ہوا ہے۔ ایک قطرہ بھی اس مستری نے پیدا نہیں کیا۔ اس نے صرف اپنی محنت اور اوزاروں کی مدد سے اس کو ظاہر کر دیا ہے تاکہ خلقِ خدا مستفید ہو، اسی طرح مُجتَہِد دین کے باریک مسائل کو اصولِ فقہ کی مدد سے عوام کے سامنے ظاہر کرتا ہے تاکہ خدا اور رسول کے ان مسائل پر عوام کے لئے عمل کرنا آسان ہو جائے۔ اسی لئے اصول فقہ میں ہر مُجتَہِد کا ایک ہی اعلان ہوتا ہے: "الْقِيَاسُ مُظْهِرٌ لَا مُثْبِتٌ" کہ ہم قیاس کی مدد سے کتاب و سنت کی تہہ میں پوشیدہ مسئلے کو صرف ظاہر کرتے ہیں۔ حَاشَا وَكَلَّا ہم ہرگز کوئی مسئلہ اپنی ذات سے گھر کر کتاب وسنت کے ذمہ نہیں لگاتے۔
[شرح التلويح على التوضيح:1/30، البحر المحيط في أصول الفقه:7/17، فصول البدائع في أصول الشرائع:1/197]
تیسری بات یہ سمجھا دی کہ جس طرح اللہ تعالی نے جب زمین پیدا فرمائی اسی دن سے یہ پانی اس کی تہہ میں پیدا فرما دیا، البتہ اس کا نکالنا ضرورت کے مطابق ہوتا رہا کسی علاقے میں کنوئیں چار ہزار سال پہلے بن گئے، کسی ملک میں چار ہزار سال بعد لیکن جہاں بھی پانی نکالا گیا وہ خدا ہی کا پیدا کردہ پانی تھا۔ کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ جن علاقوں میں پہلے پانی نکل آیا وہ تو خدا کا پیدا کردہ تھا اور جن علاقوں میں بعد میں کنوئیں بنائے گئے وہ بعد میں کسی انسان کا پیدا کردہ تھا۔ پہلی صدی میں ائمہ اربعہ رحمہم اللہ نے جو اجتہادات فرمائے، وہ بھی کتاب وسنت ہی کے مسائل کا بیان اور تفصیل تھی۔ فرق صرف اس قدر رہا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مبارک زندگی جہاد میں گزر گئیں۔ اس لئے ان نفوسِ قدسیہ کو اس کی مکمل تفصیل اور "تدوین" کا موقع نہ ملا۔ یہ سعادت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی قسمت میں تھی کہ کتاب وسنت کے ظاہر اور پوشیدہ مسائل کو پوری تشریح اور تفصیل کے ساتھ نہایت آسان اور عام فہم ترتیب سے "مدون" فرما دیا تاکہ قیامت تک کے مسلمانوں کو کتاب و سنت پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔
خلاصہ:
جس طرح ایک شخص نے کنواں بنالیا اور ہزاروں لوگ اس میں سے پانی پی رہے ہیں، وضو اور غسل کر کے نماز ادا کر رہے ہیں، کھانا پکانا ہو رہا ہے۔ اب کوئی شخص یہ شور مچا دے کہ اس کنوئیں کا تعارفی نام چوہدری نواب دین کا کنواں ہے اس لئے اس میں جو پانی ہے وہ خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں بلکہ یہ پانی چودھری نواب دین کا پیدا کیا ہوا ہے۔ چودھری نواب دین خدا کا شریک بنا بیٹھا ہے، جو لوگ اس کنوئیں سے پانی پیتے ہیں وہ مشرک ہیں، نہ ان کا وضو صحیح ہے نہ غسل، نہ نماز درست ہے نہ روزہ، تو کیا کوئی عقل مند آدمی اس کی خرافات پر کان دھرے گا؟؟؟ یہی حال یہاں ہے کہ ائمہ مُجتَہِدین رحمہم اللہ نے کتاب وسنت کے مسائل کو ظاہر کر دیا اور کنوئیں کی شکل دے دی۔ مقلدین ان مسائل کے موافق نماز، روزہ، حج، زکوۃ، جہاد وغیرہ اعمال میں مصروف ہوگئے۔ ہمارے غیر مقلد دوست کبھی تو کہتے ہیں کہ یہ پانی خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں، ورنہ اس کے ہر ہر قطرے پر اللہ تعالی کا نام لکھا ہوا دکھاؤ، کبھی یہ کہتے ہیں کہ ساری عمر ایک ہی کنوئیں کے پانی سے وضو کرنا یہ تو تقلید شخصی ہے، یہ شرک ہے۔ ہر نمازی کا فرض ہے کہ فجر کی نماز کا وضو اپنے گھر کے نلکے سے کرے، ظہر کا وضو دوسرے ضلع کے نلکے سے، عصر کا وضو دوسرے صوبے کے نلکے سے، مغرب کا وضو دوسرے ملک کے نلکے سے اور عشاء کا وضو دوسرے جہاں کے نلکے سے، ورنہ ایک ہی نلکے سے سب نمازوں کے لئے وضو کرنا کرانا تقلیدِ شخصی ہے اور شرک ہے۔ اہلسنت والجماعت کہتے ہیں کہ جب ہم کنوئیں کے محتاج ہیں تو جس کا پانی آسانی سے دستیاب ہو جائے ساری عمر اسی ایک کنوئیں کا پانی پینا، اسی کے پانی سے ساری عمر کھانا پکانا، اسی کے پانی سے ساری عمر وضو و غسل کرنا بالکل درست ہے، اس کو شرک کہہ کر تمام مسلمانوں کو مشرک بنانا دین کی کوئی خدمت نہیں۔
آمدم بر سر مطلب:
استنباط کا معنیٰ واضح کرنے کے بعد پھر اصل بات کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ دین میں تحقیق کا حق صرف دو ہستیوں کو ہے: (1)رسول اللہ ﷺ اور (2)مُجتَہِد۔
رسول الله ﷺ کا مقام:
رسول دین میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں گھڑتا بلکہ وہ اللہ ہی کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچاتا ہے اور صرف پہنچاتا ہی نہیں اسے سکھاتا بھی ہے۔ اس کی حیثیت مُعلّم کی بھی ہے کہ وہ اپنے قول، فعل اور تقریر سے اس پیغام کی تشریح کرتا ہے۔ وہ صرف مُبَلّغ اور مُعلّم ہی نہیں "مبین" (کھول کھول کر بیان کرنے والا) بھی ہے۔ خدا کی نگرانی میں اس کی وحی کی تشریح کرتا ہے۔ وہ قاضی اور حَکَم بھی ہے کہ احکامِ الہی کو نافذ کرتا ہے۔ اس کی پوری زندگی وحی کے مطابق ڈھلی ہونے کی وجہ سے پوری کائنات کے لئے اُسوۂ حَسَنہ ہے، وہ دین کے ہر فیصلے میں معصوم ہے۔ یہ درحقیقت اللہ تعالی کا بہت بڑا فضل اور مہربانی تھی کہ اپنی پاک وحی کی تشریح اپنی نگرانی میں معصوم پیغمبر ﷺ سے کروا دیں تاکہ بندوں کے لئے خدا کے احکام کے سمجھنے اور عمل کرنے میں کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو جائے، وہ حقوقِ بندگی پورے اطمینان کے ساتھ ادا کر سکیں لیکن شیطان جو اولادِ آدم کے گمراہ کرنے کی قسم کھا کر آیا تھا اس نے کتنے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیا کہ خدا اور بندوں کے درمیان رسول کا واسطہ یقیناً ہے لیکن اتنا جتنا ڈاکئے اور چھٹی رساں کا ہوتا ہے۔ خدا کے کلام کو پہچانا اس کا کام ہے۔ سمجھنا ہمارا اپنا کام ہے، وہ لوگ دین کے نام پر لوگوں کو بے دین کرنے لگے اور شیطان کے پیچھے لگ کر یوں کہنے لگے کہ رسول ﷺ مخلوق ہے اگر اس کے کلام کو بھی مان لیا تو گویا مخلوق کو خدا کے برابر مان لیا اور یہ شرک ہے۔ چنانچہ پیغمبر پاک ﷺ سے منہ موڑ کر اپنی ذہنی سطح کے موافق اور اپنی خواہشات نفسانی کے موافق ایک نیا اسلام گھر لیا۔ اس نئے اسلام کو خدا کا اسلام اور اصلی اسلام کو رسول ﷺ کا گھڑا ہوا اسلام قرار دیا اور اپنا نام "اہلِ قرآن" رکھ لیا۔ وہ لوگ اپنی ہر خواہش کو قرآن کا نام دیتے ہیں۔ جن کا انگریز کے دور سے پہلے کوئی ترجمۂ قرآن نہیں وہ قرآن کے مالک بن بیٹھے اور پوری امت کو رسول ﷺ سمیت منکرِ قرآن قرار دیا۔ بھولے بھالے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ یہ غلط ہے کہ اہلِ قرآن نیا فرقہ ہے بلکہ جب سے قرآن ہے اسی وقت سے اہلِ قرآن ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ جب قرآن سچا تو اہلِ قرآن بھی سچے، تم قرآن کو سچا مان کر اہلِ قرآن کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے، پہلے معاذ اللہ قرآن کو جھوٹا کہو پھر اہلِ قرآن کو جھوٹا کہہ لینا۔ جب اہلِ قرآن کی خرافات جس کو وہ قرآن کے نام سے پیش کرتے ہیں غلط ثابت کیا جاتا ہے تو فوراََ جان چھڑا جاتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں مانتے، ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں۔ اگر آج کے اہلِ قرآن کو ماننا ضروری ہوتا تو رسول پاک ﷺ کو ہی مان لیتے ان کو کیوں چھوڑتے۔ اس طرح وہ شیطانی خرافات پھیلاتے بھی ہیں اور جان بھی بچاتے ہیں۔ قرآن پاک نے خود اس طرز کو اتباعِ شیطان قرار دیا ہے نہ کہ اتباعِ قرآن۔
مُجتَہِد کا مقام:
مُجتَہِد شریعت ساز نہیں ہوتا، شریعت دان اور ماہرِ شریعت ہوتا ہے۔ وہ اگرچہ معصوم نہیں ہوتا لیکن مَطعُون بھی نہیں ہوتا کہ اس کے اجتہاد پر کوئی طعن کرے کیونکہ وہ اپنے ہر ہر اجتہاد میں مأجور(اجر دیا گیا) Rewarded ہوتا ہے۔ اگر وہ ثواب اور درستگی کو پالے تو دو اجر کا حقدار ہے ورنہ ایک اجر کا، اور یہ مقام امت میں مُجتَہِد کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں کہ اس کی خطا پر بھی اجر کا وعدہ ہو۔
چنانچہ سیدنا حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
«إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ»۔
ترجمہ:
جب حاکم اجتہاد کرکے صحیح فیصلہ کرے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہے اور اگر اجتہاد کے بعد غلط فیصلہ ہو جائے تو ایک اجر ہے۔
[صحیح بخاری:7352، صحیح مسلم:1716، سنن ابوداؤد:3574، سنن ابن ماجہ:2314، السنن الكبرىٰ النَّسائي:5887]
مُجتہد کے منصب کی وضاحت اِستنباط کی تشریح ہو چکی ہے۔ یہی دو ہستیاں دین میں تحقیق، تشریح اور تفصیل کے حقدار ہیں، یہی دو ہستیاں دین کی پہرے دار ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالی کا بڑا فضل اور مہربانی ہے کہ تحقیق اور اجتہاد کا وہ ہم جیسے ضعیفوں کے کندھوں پر نہیں ڈالا بلکہ مُجتَہِدین کی تحقیق پر عمل کرنے کا حکم دے کر ایک طرف دین کو نااہلوں کی تحریف سے بچا لیا، دوسری طرف ہمیں اطمینان اور دلجمعی کی دولت سے نوازا کے ہمیں پورا اطمینان ہے کہ مُجتَہِد کی رہنمائی میں کیا ہوا عمل یقیناً بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہے اور ایک اجر کا بھی پکا یقین ہے اور دوسرے اجر کی اس کی رحمتِ واسعہ سے امید ہے لیکن خدا کے فضل اور مہربانی کی بھی بعض لوگوں نے قدر نہ کی اور مُجتَہِدین سے بغاوت کرکے اپنی کم فہمی اور کج فہمی سے دین کی نئی نئی تشریحات شروع کر دیں۔ مُجتَہِد کے بارے میں خدا اور رسول ﷺ نے یہی بتایا تھا کہ وہ خدا اور رسول ﷺ کا مسئلہ ہی بتاتا ہے لیکن ان حضرات نے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مجھے ڈر ہے خدا اور رسول ﷺ کے خلاف مسئلہ بتاتا ہے۔ مُجتَہِد کی تقلید "شرک فی الرسالت" ہے۔ تمام حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مشرک ہیں۔ ائمہ کرام نے دین کے ٹکڑے کر ڈالے ہیں۔ ائمہ مُجتَہِدین رحمہم اللہ کو چھوڑ کر اپنی اپنی حدیثِ نفس کا اتباع شروع کر دیا اور نام "اہلِ حدیث" رکھ لیا اور اپنے بھائیوں (اہلِ قرآن)کی طرح کہنے لگے کہ اہلِ حدیث نیا فرقہ نہیں۔ جب کہا جائے کہ ملکہ وکٹوریہ کے دور سے پہلے کسی حدیث کی کتاب کا ترجمہ یا حاشیہ یا شرح ہی کسی غیرمقلد کی دکھا دیں تو نہیں دکھاسکتے(کیونکہ جو حدیث کے امام گذرے ہیں وہ فقہ کے چار ائمہ کی تقلید کے مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ اکثر ان کے مقلد تھے یا خود امام ورہبر لیکن غیرمقلد نہ تھے)۔ یہ غیرمقلد بس یہی کہتے ہیں کہ جب حدیث سچی تو اہلِ حدیث بھی سچے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جب تم قرآن کو سچا مانتے ہو لیکن ان اہلِ قرآن کو جھوٹا مانتے ہو تو پھر یہ کیوں درست نہیں کہ حدیث سچی ہوں مگر آج کے اہلِ حدیث جھوٹے ہوں۔ حالانکہ حدیث کی کی جتنی کتابیں آج ملتی ہیں وہ یا مُجتَہِدین کی لکھی ہوئی ہیں یا مقلدین کی، جن کا ذکر طبقاتِ حنفیہ، طبقاتِ مالکیہ، طبقاتِ شافعیہ اور طبقاتِ حنابلہ میں ہے۔ کسی مُحدث یا مؤرخ نے طبقاتِ غیر مقلدین یا طبقاتِ منکرینِ حدیث نامی کوئی کتاب لکھی ہی نہیں۔ حدیث کی ایک بھی مستند کتاب نہیں جس میں اجماع اور اجتہاد کے ماننے کو حرام یا شرک قرار دیا ہو، فقہ کے ماننے سے منع کیا ہو۔ اس کے مؤلف کے بارے میں صرف ایک ہی مستند حوالہ پیش کیا جاسکے کہ ۔۔۔ كان لا يجتهد ولا يقلد (یعنی) کہ نہ اس میں اجتہاد کی اہلیت تھی نہ تقلید کرتا تھا۔ اس لئے غیر مقلد تھا۔
نا اہل کا مقام:
رسول ﷺ اور مُجتَہِد کے علاوہ کسی کو کتاب و سنت میں تحقیق کا "اہل" قرار نہیں دیا گیا، جب وہ(غیرمُجتَہِد-غیرمقلد) نا اہل ہے تو اس کا کام اہل(مُجتَہِد) کی تقلید ہے، نہ کہ نا اہل ہو کر دین کی غلط تشریح کرنا۔ رسول اقدس ﷺ سے کسی سائل نے قیامت کے بارے میں سوال کیا، فرمایا: جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کر۔ سائل نے عرض کیا: حضرت! امانت کس طرح ضائع ہوتی ہے؟ فرمایا:
«إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ»
جب کوئی معاملہ نااہلوں کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔
[بخاری:59]
آپ ﷺ نے کیسی عالمگیر حقیقت کا انکشاف فرمایا۔ کیا جب ڈاکٹری نسخے وکیل لکھنا شروع کر دیں تو ڈاکٹری پر قیامت نہیں آجائے گی؟ جب سونے کی جانچ سناروں کے بجائے کمہار کرنے لگے تو قیامت نہیں آجائے گی؟ اسی طرح جب دین کی تشریحات نا اہل کریں گے تو کیا دین پر قیامت نہ آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دین کا علم (کتاب وسنت کے الفاظ) نہیں اٹھایا جائے گا (بلکہ کتاب و سنت یہی رہیں گی) مگر اس کے علماء اٹھا لیے جائیں گے یہاں تک کہ کوئی باقی نہ رہے گا تو لوگ ناواقف ہوں کو اپنا دینی پیشوا بنا لیں گے ، وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
[صحیح بخاری:100، صحیح مسلم:2673، سنن ترمذی:2652، سنن ابن ماجہ:52]
دین کے اصل علماء مُجتَہِدین ہی ہوتے ہیں بعد کے علماء ناقل ہیں۔ اور جو نا اہل ہو کر خود اجتہادی پر اتر آتے ہیں وہ (غیرمُجتَہِد-غیرمقلد) خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ہیں۔ اگرچہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس گمراہی کا نام خوبصورت سا رکھ لیا جائے، جیسے انکارِ حدیث کی گمراہی کا نام اہلِ قرآن رکھ لیا گیا، صرف نام بدلنے سے حقیقت تو نہیں بدلتی۔ کیا تحریف القرآن کا نام تفہیم القرآن لکھنے سے حقیقت بدل گئی! تبرا بازی کا نام تنقیدِ صالح رکھ لینے سے حقیقت بدل گئی! ہرگز نہیں۔ جس طرح اہلِ قرآن ہر فاسق و فاجر بے علم کو قرآن کے سمجھنے سمجھانے کا حق دیتے ہیں مگر معصوم نبی سے یہ حق چھیننا چاہتے ہیں اسی طرح اہلِ حدیث ہر فاسق و فاجر اور ہر جاھل کندۂ ناتراش کو اجتہاد کا حق دیتے ہیں مگر ائمہ مجتہدین جن کا مجتہد ہونا دلیلِ شرعی یعنی اجماعِِ امت سے ثابت ہے اور وہ یقیناََ اپنے ہر فیصلے میں مأجور Rewarded ہیں ان سے یہ حق چھیننا چاہتے ہیں۔ اہلِ قرآن اور اہلِ حدیث کا ایک ہی مقصد ہے کہ لوگ نبی معصوم اور مجتہد ماجور کو چھوڑ کر جاہلوں کو اپنا دینی پیشوا بنا لیں جو خود گمراہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں۔
تحقیق یا مُنازَعَت(Research OR Dispute):
عام طور پر اہلِ قرآن کہتے ہیں کہ مُحدثین معصوم نہ تھے، ہم تحقیق کر کے ان کی غلطی کو غلطی اور صحیح کو صحیح کہتے ہیں۔ اور اہلِ حدیث کہتے ہیں کہ مُجتَہِدین معصوم تو نہیں تھے ہم تحقیق کرکے ان کے غلط اور صحیح اجتہاد کی جانچ کرتے ہیں۔ اس میں پہلی بات تو صحیح ہے مگر بات ادھوری ہے، جیسے مُحدثین معصوم نہیں اہلِ قرآن بھی معصوم نہیں، اور جس طرح مُجتَہِدین معصوم نہیں اہلِ حدیث بھی معصوم نہیں، مگر بات معصوم اور غیرمعصوم کی نہیں، بات "اہل" اور "نااہل" کی ہے۔ مُحدثین اپنے فن میں اہل ہیں، اور اہلِ قرآن خواہ اپنی جماعت میں کتنے بڑے مصنف ہوں (جیسے: محمد اسلم جیراجپوری سابق اہل حدیث، غلام احمد پرویز سابق اہل حدیث) لیکن محدثین کے سامنے فنِ حدیث میں نااہل ہیں۔ ان کی باتوں کو تحقیق نہیں کہا جائے گا بلکہ نااہل کی "مُنازَعَت" (یعنی باہمی نزاع، جھگڑا، تکرار، بحث، مخالفت) کہا جائے گا جو شرعاً گناہِ کبیرہ ہے۔ اسی طرح مُجتَہِدین اور غیرمقلدین میں یہ فرق نہیں کہ مُجتَہِدین غیرمعصوم ہیں اور غیرمقلدین معصوم ہیں، بلکہ فرق یہ ہے کہ وہ لوگ(یعنی مُجتَہِدین) "باجماعِ امت" اہلِ اجتہاد میں سے ہیں اور یہ لوگ(یعنی غیرمقلدین) "باجماعِ امت" نااہل ہیں۔ اس لئے ان نااہلوں کا مُجتَہِدین سے الجھنا اگرچہ وہ اپنی جماعت کے بڑے آدمی ہوں (جیسے: محمد جوناگڑھی جس کی طرف نسبت کرکے اہل حدیث اپنے آپ کو محمدی کہتے ہیں) لیکن اجتہاد میں وہ نا اہل ہیں۔ مُجتَہِدین کی مخالفت کا نام تحقیق نہیں بلکہ نااہل کی مُنازَعَت ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب بیعت لیتے تو اس میں ایک یہ عہد لیتے کہ:
{لَا نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ}
ہم اہلِ امر(یعنی کسی معاملہ کے اہل) سے منازعت نہیں کریں گے۔
[صحيح البخاري:7199، صحيح مسلم:1709]
عجیب بات ہے اتنی جرأت تو کھلے منکرین حدیث بھی نہیں کرتے کہ حدیث تو جس کو مُنازَعَت قرار دے یہ اس کا نام تحقیق رکھیں۔
ثواب یا گناہ:
یہ تو آپ پڑھ چکے ہیں کہ مُجتَہِد سے اگر خطا بھی ہو جائے تو اسے اجر ملتا ہے لیکن نااہل کا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے، اگر وہ صحیح بات بھی پالے تو اسے اجر کی بجائے گناہ ہوگا۔
رسول اقدس ارشاد فرماتے ہیں:
جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے بات کی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔
[ترمذی:2950]
اور فرمایا:
جس نے قرآن میں اپنی رائے لگائی اور درست بات بھی پا لی تو وہ بھی گنہگار ہے۔
[ابوداؤد:3652]
امام نوويؒ (م676ھ) فرماتے ہیں:
تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ مُجتَہِد ہر اجتہاد میں اجر پاتا ہے، اگر اس کا اجتہاد درست نکلا تو دو اجر کا مستحق ہے: ایک اجر اجتہاد کا دوسرا اس اصابت(درستگی) کا۔ اور اگر اجتہاد خطا نکلا تو بھی ایک اجر اجتہاد کا ملے گا۔ ہاں جو نااہل ہو اس کو اجتہاد سے حکم کرنا کسی حال میں جائز نہیں بلکہ وہ گنہگار ہے۔ اس کا حکم نافذ بھی نہ ہوگا۔ اگرچہ حق کے موافق ہو یا مخالف کیونکہ اس کا حق کو پالینا محض اتفاقی ہے کسی اصل شرعی پر مبنی نہیں۔ پس وہ تمام احکام میں گناہگار ہے۔ حق کے موافق ہو یا مخالف اور اس کے نکالے ہوئے تمام احکام مردود ہیں اس کا کوئی عذر شرعاً مقبول نہیں وہ دوزخی ہے ہے۔
[شرح النووي على صحیح مسلم: ج12/ ص14]
افسوس ہے کہ اہل قرآن اور اہل حدیث نے اس کبیرہ گناہ، جس کا ٹھکانہ دوزخ کے سوا کہیں نہیں، کا نام تحقیق رکھا ہوا ہے اور اس کو عمل بالقرآن اور عمل بالحدیث کہتے ہیں۔
نجات یا ہلاکت:
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین چیزیں نجات دینے والی ہے اور تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں۔ فرمایا: نجات دینے والی یہ ہے: (1) چھپے اور ظاہر ہر حال میں الله سے ڈرنا، (2) خوشی یا ناراضگی ہر حال میں حق بات کہنا، (3) امیری ہو یا فقیری میانہ روی اختیار کرنا۔ اور ہلاک و برباد کرنے والی تین چیزیں یہ ہیں: (1) اپنی خواہش نفس کے پیچھے چلنا، (2) بخل کرنا، (3) اپنی رائے پر فخر کرنا۔ فرمایا: تینوں میں سے یہ (آخری) سب سے بڑی مہلک ہے۔
[مشكاة المصابيح:5122، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1802]
بلکہ جو اپنی رائے پر اتراتے ہیں ان پر ہدایت کا دروازہ ہی بند ہو جاتا ہے۔
[مشكاة المصابيح:(تفسیر سورۃ الجاثیۃ:23)]
حضرت شیخ عبد الغنی مجددی مدنی رحمہ اللہ ﴿وَإِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ﴾ پر حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں :
﴿أَيْ: مِنْ غَيْرِ نَظَرٍ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ الْأُمَّةِ، وَالْقِيَاسِ عَلَى أَقْوَى الْأَدِلَّةِ وَتَرْكِ الِاقْتِدَاءِ بِنَحْوِ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ﴾
ترجمہ:
یعنی: (الله کی)کتاب اور (پیغمبر ﷺ کی)سنت ، اور(جمہور علماء کے ذریعہ)امت کے اجماع اور (مجتہد کے)قیاس کو دیکھے بغیر۔ اور(اپنی رائے وخواہش کو ترجیح دیکر) ائمہ اربعہ(یعنی چار مجتہد اماموں) کی اقتداء چھوڑنے والا اس حدیث کا مصداق ہے اور وہی ہلاکت میں گرنے والا ہے۔
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح : 8/ 3214، حدیث:5144، دار الفكر، بيروت - لبنان]
خلاصہ یہ نکلا کہ دین میں تحقیقی بات صرف وہی ہے جو اَدِلَّہ(دلائل) سے بواسطہ آئمہ (اماموں) سے ثابت ہو، جس بات پر ان کا اجماع ہوگا وہ حُجّتِ قاطعہ ہے اور جس پر ان کا اختلاف ہوگا وہ رحمتِ واسعہ(رحمت بھری گنجائش) ہے۔
اندھی تقلید:
ج کل بعض لوگ یہ طعنہ دیتے ہیں کہ یہ تو اندھی تقلید ہے۔ افسوس ان بیچاروں کو اندھی تقلید کا معنیٰ بھی نہیں آتا، اندھی تقلید اس کو کہتے ہیں کہ اندھا(یعنی غیرعالم اور نااہل) اندھے کے پیچھے چلے تو یہ دونوں کسی کھائی میں گر جائیں گے یہ اندھی تقلید ہے۔ اور اگر اندھا آنکھوں والے(یعنی اہل وماہر) کے پیچھے چلے تو وہ آنکھ والا اس اندھے کو بھی اپنی آنکھ کی برکت سے ہر کھائی سے بچا کر لے جائے گا اور منزل تک پہنچا دے گا۔ ائمہ مُجتَہِدین (یعنی وہ چار مشہور امام جن کے مجتہد ہونے میں امت کا اجماع ہے، جیسے:ابوحنیفہ، مالک، شافعی، احمد بن حنبل) وہ عارف (یعنی پہچاننے-جاننے والا واقف) بصیر(یعنی صاحب نظر-دانشمند) ہی نہ تھے بلکہ زیادہ پاک، زیادہ نیک، زیادہ پرہیزگار اور زیادہ علم یاد رکھنے والے بھی تھے۔ البتہ اندھی تقلید ان کے ہاں ہے جو خود بھی اندھے ہیں اور ان کے پیشوا بھی اجتہاد(علمی مہارت) کی آنکھ نہیں رکھتے اور اندھے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
۔۔۔اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»
ترجمہ:
تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
[صحیح بخاری:100، صحیح مسلم:2673، سنن ترمذی:2652، سنن ابن ماجۃ:52]
یہ اندھی تقلید ہے۔ اللہ تعالی ہمیں پیغمبر معصوم ﷺ اور مُجتَہِدین مأجور کی تحقیق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نئے فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
[ماخوذ = تجلیات صفدر (حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی) : ج 1 ص 117]