Sunday, 13 June 2021

تحقیق اور حقِ تحقیق۔۔۔۔۔محلِ تحقیق، ضرورتِ تحقیق اور اہلِ تحقیق

تحقیق اور حقِ تحقیق:

برادرانِ اسلام! آج دنیا میں علمی پندار نے کچھ ایسی آزاد روی اختیار کرلی ہے کہ جاہلیت تو صرف ایک ہی فتنہ تھی لیکن یہ آزادی نت نئے فتنوں کو جنم دے رہی ہے۔ جس کو دیکھو وہ دین میں تحقیق کا مُدّعی ہے اور بلاجھجک کہتا ہے کہ میں تحقیق کررہا ہوں، اس بات پر اسے بہت بڑا فخر اور غرور ہے۔



تحقیق کا حکم:
اس مین شک نہیں ہے کہ دینِ اسلام ہی ایک تحقیقی دین ہے اور اس نے تحقیق کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ
ترجمہ:         
"اے ایمان والو! اگر آئے تمہارے پاس کوئی گنہگار خبر لے کر تو تحقیق کرلو، کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے، پھر کل کو اپنے کیے پر لگو پچھتانے"۔
[سورۃ الحجرات:6]
یعنی اکثر نزاعات اور مناقشات کی ابتداء جھوٹی خبروں سے ہوتی ہے اس لئے اول اختلاف و تفریق کے اس سرچشمہ کو بند کرنے کی تعلیم دی، یعنی کسی خبر کو یوں ہی بےتحقیق قبول نہ کرو۔
معلوم ہوا کہ دین و دنیا میں سارے فسادات کی بنیاد، عدم تحقیق ہے۔ اگر دنیا میں بے تحقیق باتوں پر عمل کروگے تو دنیا کا نقصان ہوگا، اگر دین میں بے تحقیق باتوں پر عمل کیا تو دین برباد ہوگا۔



عام خبریں جاننے پھیلانے سے پہلے 3 باتوں کی تحقیق کریں؟
خبر دینے والے سے پوچھیں کہ۔۔۔۔۔
(1)کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ بات سچ ہے؟
(2)کیا وہ بات اچھی ہے یا بری؟
(3)کیا مجھے یا کسی اور کو اس بات سے فائدہ ہوگا؟
جب کوئی خبر سچی، اچھی یا فائدہ مند نہیں تو سننے کی کیا ضرورت۔





تحقیق کا حق:
جس طرح دنیا میں ہر فن میں اسی کی بات تحقیق مانی جاتی ہے جو اس فن میں کامل مہارت رکھتا ہوں، نہ کہ کسی فن سے ناآشنا کی۔ مثلاً: ہیرے جواہرات کے بارے میں ماہر جوہری کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ کسی موچی کی، سونے کے بارے میں ماہر سنار کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ کسی کمہار کی، اور قانون میں تحقیقی بات ماہر قانون دان کی ہوگی نہ کہ کسی مداری کی۔ اسی طرح دین میں بھی دین کے ماہرین کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ ہر کندۂ ناتراش کی۔ اسی لیے اللہ نے جس طرح تحقیق کا حکم دیا یہ بات بھی واضح فرمادی کہ تحقیق کا حق کس کس کو ہے۔ فرمایا:
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا
ترجمہ:
اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں، اور اگر اس کو پہنچا دیتے رسول تک اور اپنے حکم والوں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں اس کی، اور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو یقیناََ تم سب پیچھے ہو لیتے شیطان کے مگر تھوڑے۔
[سورۃ النساء:84]

یعنی ان منافقوں اور کم سمجھ مسلمانوں کی ایک خرابی یہ ہے کہ جب کوئی خبر آتی ہے تو اس کو بلا تحقیق مشہور کرنے لگتے ہیں اور اس میں اکثر نقصان اور فساد مسلمانوں کو پیش آتا ہے، منافق ضرر رسانی کی غرض سے اور کم سمجھ مسلمان کم فہمی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ کہیں سے کوئی خبر آئے تو چاہیے کہ اول پہنچائیں سردار تک اور اس کے نائبوں تک، جب وہ اس خبر کی تحقیق اور تسلیم کرلیں تو ان کے کہنے کے موافق اس کو کہیں نقل کریں اور اس پر عمل کریں۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالی نے تحقیق کرنے کا حق رسول اقدس ﷺ اور ان کے بعد اہلِ استنباط (یعنی قرآن وسنت کی گہرائی سے مسائل کا حل "نکالنے-ظاہر کرنے والے ماہرین) کو دیا ہے جس کو اصطلاح میں "مُجتَہِدین" کہتے ہیں۔




اہلِ استنباط کون؟
استنباط عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنیٰ ہیں کہ اللہ تعالی نے جو پانی زمین کی تہہ میں پیدا کرکے عوام کی نظروں سے چھپا رکھا ہے اس پانی کو کنواں وغیرہ بناکر "نکال لینا"۔ اللہ تعالی نے اجتہاد اور فقہ کی ایسی اہم مثال دی کہ ہر شخص آسانی سے سمجھ جائے۔ یہ مثال دے کر پہلی بات تو یہ سمجھا دی کہ انسانی زندگی کے لئے جتنا پانی ضروری ہے کہ اس کے بغیر نہ وضو، نہ غسل، نہ کپڑے صاف، نہ کھانا پکانا۔ اسی طرح اسلامی زندگی کے لیے فقہ ضروری ہے، عبادات ہوں یا معاملات، اقتصادیات ہوں یا سیاسیات، حدود ہوں یا تعزیرات، غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں فقہ کی رہنمائی کی ضرورت نہ ہو۔ دوسری بات یہ سمجھا دی کہ فقہ اور استنباط کسی شخص کی ذاتی خواہش کا نام نہیں۔ جس طرح زمین کی تہہ میں جو پانی ہے وہ اللہ تعالی کا ہی پیدا کیا ہوا ہے نہ کہ اس انسان کا جس نے کنواں کھود کر اس کو نکال لیا، جب بھی کوئی آدمی کسی کنوئیں کا پانی پیتا ہے تو اس عقیدے سے کہ اس پانی کا ایک ایک قطرہ خداوند قدوس کا ہی پیدا کیا ہوا ہے۔ ایک قطرہ بھی اس مستری نے پیدا نہیں کیا۔ اس نے صرف اپنی محنت اور اوزاروں کی مدد سے اس کو ظاہر کر دیا ہے تاکہ خلقِ خدا مستفید ہو، اسی طرح مُجتَہِد دین کے باریک مسائل کو اصولِ فقہ کی مدد سے عوام کے سامنے ظاہر کرتا ہے تاکہ خدا اور رسول کے ان مسائل پر عوام کے لئے عمل کرنا آسان ہو جائے۔ اسی لئے اصول فقہ میں ہر مُجتَہِد کا ایک ہی اعلان ہوتا ہے: "الْقِيَاسُ ‌مُظْهِرٌ ‌لَا ‌مُثْبِتٌ" کہ ہم قیاس کی مدد سے کتاب و سنت کی تہہ میں پوشیدہ مسئلے کو صرف ظاہر کرتے ہیں۔ حَاشَا وَكَلَّا ہم ہرگز کوئی مسئلہ اپنی ذات سے گھر کر کتاب وسنت کے ذمہ نہیں لگاتے۔
[شرح التلويح على التوضيح:1/30، البحر المحيط في أصول الفقه:7/17، فصول البدائع في أصول الشرائع:1/197]
تیسری بات یہ سمجھا دی کہ جس طرح اللہ تعالی نے جب زمین پیدا فرمائی اسی دن سے یہ پانی اس کی تہہ میں پیدا فرما دیا، البتہ اس کا نکالنا ضرورت کے مطابق ہوتا رہا کسی علاقے میں کنوئیں چار ہزار سال پہلے بن گئے، کسی ملک میں چار ہزار سال بعد لیکن جہاں بھی پانی نکالا گیا وہ خدا ہی کا پیدا کردہ پانی تھا۔ کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ جن علاقوں میں پہلے پانی نکل آیا وہ تو خدا کا پیدا کردہ تھا اور جن علاقوں میں بعد میں کنوئیں بنائے گئے وہ بعد میں کسی انسان کا پیدا کردہ تھا۔ پہلی صدی میں ائمہ اربعہ رحمہم اللہ نے جو اجتہادات فرمائے، وہ بھی کتاب وسنت ہی کے مسائل کا بیان اور تفصیل تھی۔ فرق صرف اس قدر رہا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مبارک زندگی جہاد میں گزر گئیں۔ اس لئے ان نفوسِ قدسیہ کو اس کی مکمل تفصیل اور "تدوین" کا موقع نہ ملا۔ یہ سعادت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی قسمت میں تھی کہ کتاب وسنت کے ظاہر اور پوشیدہ مسائل کو پوری تشریح اور تفصیل کے ساتھ نہایت آسان اور عام فہم ترتیب سے "مدون" فرما دیا تاکہ قیامت تک کے مسلمانوں کو کتاب و سنت پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔



خلاصہ:
جس طرح ایک شخص نے کنواں بنالیا اور ہزاروں لوگ اس میں سے پانی پی رہے ہیں، وضو اور غسل کر کے نماز ادا کر رہے ہیں، کھانا پکانا ہو رہا ہے۔ اب کوئی شخص یہ شور مچا دے کہ اس کنوئیں کا تعارفی نام چوہدری نواب دین کا کنواں ہے اس لئے اس میں جو پانی ہے وہ خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں بلکہ یہ پانی چودھری نواب دین کا پیدا کیا ہوا ہے۔ چودھری نواب دین خدا کا شریک بنا بیٹھا ہے، جو لوگ اس کنوئیں سے پانی پیتے ہیں وہ مشرک ہیں، نہ ان کا وضو صحیح ہے نہ غسل، نہ نماز درست ہے نہ روزہ، تو کیا کوئی عقل مند آدمی اس کی خرافات پر کان دھرے گا؟؟؟ یہی حال یہاں ہے کہ ائمہ مُجتَہِدین رحمہم اللہ نے کتاب وسنت کے مسائل کو ظاہر کر دیا اور کنوئیں کی شکل دے دی۔ مقلدین ان مسائل کے موافق نماز، روزہ، حج، زکوۃ، جہاد وغیرہ اعمال میں مصروف ہوگئے۔ ہمارے غیر مقلد دوست کبھی تو کہتے ہیں کہ یہ پانی خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں، ورنہ اس کے ہر ہر قطرے پر اللہ تعالی کا نام لکھا ہوا دکھاؤ، کبھی یہ کہتے ہیں کہ ساری عمر ایک ہی کنوئیں کے پانی سے وضو کرنا یہ تو تقلید شخصی ہے، یہ شرک ہے۔ ہر نمازی کا فرض ہے کہ فجر کی نماز کا وضو اپنے گھر کے نلکے سے کرے، ظہر کا وضو دوسرے ضلع کے نلکے سے، عصر کا وضو دوسرے صوبے کے نلکے سے، مغرب کا وضو دوسرے ملک کے نلکے سے اور عشاء کا وضو دوسرے جہاں کے نلکے سے، ورنہ ایک ہی نلکے سے سب نمازوں کے لئے وضو کرنا کرانا تقلیدِ شخصی ہے اور شرک ہے۔ اہلسنت والجماعت کہتے ہیں کہ جب ہم کنوئیں کے محتاج ہیں تو جس کا پانی آسانی سے دستیاب ہو جائے ساری عمر اسی ایک کنوئیں کا پانی پینا، اسی کے پانی سے ساری عمر کھانا پکانا، اسی کے پانی سے ساری عمر وضو و غسل کرنا بالکل درست ہے، اس کو شرک کہہ کر تمام مسلمانوں کو مشرک بنانا دین کی کوئی خدمت نہیں۔




آمدم بر سر مطلب:
استنباط کا معنیٰ واضح کرنے کے بعد پھر اصل بات کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ دین میں تحقیق کا حق صرف دو ہستیوں کو ہے: (1)رسول اللہ ﷺ اور (2)مُجتَہِد۔



رسول الله ﷺ کا مقام:
رسول دین میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں گھڑتا بلکہ وہ اللہ ہی کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچاتا ہے اور صرف پہنچاتا ہی نہیں اسے سکھاتا بھی ہے۔ اس کی حیثیت مُعلّم کی بھی ہے کہ وہ اپنے قول، فعل اور تقریر سے اس پیغام کی تشریح کرتا ہے۔ وہ صرف مُبَلّغ اور مُعلّم ہی نہیں "مبین" (کھول کھول کر بیان کرنے والا) بھی ہے۔ خدا کی نگرانی میں اس کی وحی کی تشریح کرتا ہے۔ وہ قاضی اور حَکَم بھی ہے کہ احکامِ الہی کو نافذ کرتا ہے۔ اس کی پوری زندگی وحی کے مطابق ڈھلی ہونے کی وجہ سے پوری کائنات کے لئے اُسوۂ حَسَنہ ہے، وہ دین کے ہر فیصلے میں معصوم ہے۔ یہ درحقیقت اللہ تعالی کا بہت بڑا فضل اور مہربانی تھی کہ اپنی پاک وحی کی تشریح اپنی نگرانی میں معصوم پیغمبر ﷺ سے کروا دیں تاکہ بندوں کے لئے خدا کے احکام کے سمجھنے اور عمل کرنے میں کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو جائے، وہ حقوقِ بندگی پورے اطمینان کے ساتھ ادا کر سکیں لیکن شیطان جو اولادِ آدم کے گمراہ کرنے کی قسم کھا کر آیا تھا اس نے کتنے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیا کہ خدا اور بندوں کے درمیان رسول کا واسطہ یقیناً ہے لیکن اتنا جتنا ڈاکئے اور چھٹی رساں کا ہوتا ہے۔ خدا کے کلام کو پہچانا اس کا کام ہے۔ سمجھنا ہمارا اپنا کام ہے، وہ لوگ دین کے نام پر لوگوں کو بے دین کرنے لگے اور شیطان کے پیچھے لگ کر یوں کہنے لگے کہ رسول ﷺ مخلوق ہے اگر اس کے کلام کو بھی مان لیا تو گویا مخلوق کو خدا کے برابر مان لیا اور یہ شرک ہے۔ چنانچہ پیغمبر پاک ﷺ سے منہ موڑ کر اپنی ذہنی سطح کے موافق اور اپنی خواہشات نفسانی کے موافق ایک نیا اسلام گھر لیا۔ اس نئے اسلام کو خدا کا اسلام اور اصلی اسلام کو رسول ﷺ کا گھڑا ہوا اسلام قرار دیا اور اپنا نام "اہلِ قرآن" رکھ لیا۔ وہ لوگ اپنی ہر خواہش کو قرآن کا نام دیتے ہیں۔ جن کا انگریز کے دور سے پہلے کوئی ترجمۂ قرآن نہیں وہ قرآن کے مالک بن بیٹھے اور پوری امت کو رسول ﷺ سمیت منکرِ قرآن قرار دیا۔ بھولے بھالے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ یہ غلط ہے کہ اہلِ قرآن نیا فرقہ ہے بلکہ جب سے قرآن ہے اسی وقت سے اہلِ قرآن ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ جب قرآن سچا تو اہلِ قرآن بھی سچے، تم قرآن کو سچا مان کر اہلِ قرآن کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے، پہلے معاذ اللہ قرآن کو جھوٹا کہو پھر اہلِ قرآن کو جھوٹا کہہ لینا۔ جب اہلِ قرآن کی خرافات جس کو وہ قرآن کے نام سے پیش کرتے ہیں غلط ثابت کیا جاتا ہے تو فوراََ جان چھڑا جاتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں مانتے، ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں۔ اگر آج کے اہلِ قرآن کو ماننا ضروری ہوتا تو رسول پاک ﷺ کو ہی مان لیتے ان کو کیوں چھوڑتے۔ اس طرح وہ شیطانی خرافات پھیلاتے بھی ہیں اور جان بھی بچاتے ہیں۔ قرآن پاک نے خود اس طرز کو اتباعِ شیطان قرار دیا ہے نہ کہ اتباعِ قرآن۔



مُجتَہِد کا مقام:
مُجتَہِد شریعت ساز نہیں ہوتا، شریعت دان اور ماہرِ شریعت ہوتا ہے۔ وہ اگرچہ معصوم نہیں ہوتا لیکن مَطعُون بھی نہیں ہوتا کہ اس کے اجتہاد پر کوئی طعن کرے کیونکہ وہ اپنے ہر ہر اجتہاد میں مأجور(اجر دیا گیاRewarded ہوتا ہے۔ اگر وہ ثواب اور درستگی کو پالے تو دو اجر کا حقدار ہے ورنہ ایک اجر کا، اور یہ مقام امت میں مُجتَہِد کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں کہ اس کی خطا پر بھی اجر کا وعدہ ہو۔

چنانچہ سیدنا حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
«إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ»۔
ترجمہ:
جب حاکم اجتہاد کرکے صحیح فیصلہ کرے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہے اور اگر اجتہاد کے بعد غلط فیصلہ ہو جائے تو ایک اجر ہے۔
[صحیح بخاری:7352، صحیح مسلم:1716، سنن ابوداؤد:3574، سنن ابن ماجہ:2314، السنن الكبرىٰ النَّسائي:5887]

مُجتہد کے منصب کی وضاحت اِستنباط کی تشریح ہو چکی ہے۔ یہی دو ہستیاں دین میں تحقیق، تشریح اور تفصیل کے حقدار ہیں، یہی دو ہستیاں دین کی پہرے دار ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالی کا بڑا فضل اور مہربانی ہے کہ تحقیق اور اجتہاد کا وہ ہم جیسے ضعیفوں کے کندھوں پر نہیں ڈالا بلکہ مُجتَہِدین کی تحقیق پر عمل کرنے کا حکم دے کر ایک طرف دین کو نااہلوں کی تحریف سے بچا لیا، دوسری طرف ہمیں اطمینان اور دلجمعی کی دولت سے نوازا کے ہمیں پورا اطمینان ہے کہ مُجتَہِد کی رہنمائی میں کیا ہوا عمل یقیناً بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہے اور ایک اجر کا بھی پکا یقین ہے اور دوسرے اجر کی اس کی رحمتِ واسعہ سے امید ہے لیکن خدا کے فضل اور مہربانی کی بھی بعض لوگوں نے قدر نہ کی اور مُجتَہِدین سے بغاوت کرکے اپنی کم فہمی اور کج فہمی سے دین کی نئی نئی تشریحات شروع کر دیں۔ مُجتَہِد کے بارے میں خدا اور رسول ﷺ نے یہی بتایا تھا کہ وہ خدا اور رسول ﷺ کا مسئلہ ہی بتاتا ہے لیکن ان حضرات نے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مجھے ڈر ہے خدا اور رسول  کے خلاف مسئلہ بتاتا ہے۔ مُجتَہِد کی تقلید "شرک فی الرسالت" ہے۔ تمام حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مشرک ہیں۔ ائمہ کرام نے دین کے ٹکڑے کر ڈالے ہیں۔ ائمہ مُجتَہِدین رحمہم اللہ کو چھوڑ کر اپنی اپنی حدیثِ نفس کا اتباع شروع کر دیا اور نام "اہلِ حدیث" رکھ لیا اور اپنے بھائیوں (اہلِ قرآن)کی طرح کہنے لگے کہ اہلِ حدیث نیا فرقہ نہیں۔ جب کہا جائے کہ ملکہ وکٹوریہ کے دور سے پہلے کسی حدیث کی کتاب کا ترجمہ یا حاشیہ یا شرح ہی کسی غیرمقلد کی دکھا دیں تو نہیں دکھاسکتے(کیونکہ جو حدیث کے امام گذرے ہیں وہ فقہ کے چار ائمہ کی تقلید کے مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ اکثر ان کے مقلد تھے یا خود امام ورہبر لیکن غیرمقلد نہ تھے)۔ یہ غیرمقلد بس یہی کہتے ہیں کہ جب حدیث سچی تو اہلِ حدیث بھی سچے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جب تم قرآن کو سچا مانتے ہو لیکن ان اہلِ قرآن کو جھوٹا مانتے ہو تو پھر یہ کیوں درست نہیں کہ حدیث سچی ہوں مگر آج کے اہلِ حدیث جھوٹے ہوں۔ حالانکہ حدیث کی کی جتنی کتابیں آج ملتی ہیں وہ یا مُجتَہِدین کی لکھی ہوئی ہیں یا مقلدین کی، جن کا ذکر طبقاتِ حنفیہ، طبقاتِ مالکیہ، طبقاتِ شافعیہ اور طبقاتِ حنابلہ میں ہے۔ کسی مُحدث یا مؤرخ نے طبقاتِ غیر مقلدین یا طبقاتِ منکرینِ حدیث نامی کوئی کتاب لکھی ہی نہیں۔ حدیث کی ایک بھی مستند کتاب نہیں جس میں اجماع اور اجتہاد کے ماننے کو حرام یا شرک قرار دیا ہو، فقہ کے ماننے سے منع کیا ہو۔ اس کے مؤلف کے بارے میں صرف ایک ہی مستند حوالہ پیش کیا جاسکے کہ ۔۔۔ كان لا يجتهد ولا يقلد (یعنی) کہ نہ اس میں اجتہاد کی اہلیت تھی نہ تقلید کرتا تھا۔ اس لئے غیر مقلد تھا۔



نا اہل کا مقام:
رسول ﷺ اور مُجتَہِد کے علاوہ کسی کو کتاب و سنت میں تحقیق کا "اہل" قرار نہیں دیا گیا، جب وہ(غیرمُجتَہِد-غیرمقلد) نا اہل ہے تو اس کا کام اہل(مُجتَہِد) کی تقلید ہے، نہ کہ نا اہل ہو کر دین کی غلط تشریح کرنا۔ رسول اقدس  سے کسی سائل نے قیامت کے بارے میں سوال کیا، فرمایا: جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کر۔ سائل نے عرض کیا: حضرت! امانت کس طرح ضائع ہوتی ہے؟ فرمایا:
«إِذَا ‌وُسِّدَ ‌الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ»
جب کوئی معاملہ نااہلوں کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔
[بخاری:59]

آپ ﷺ نے کیسی عالمگیر حقیقت کا انکشاف فرمایا۔ کیا جب ڈاکٹری نسخے وکیل لکھنا شروع کر دیں تو ڈاکٹری پر قیامت نہیں آجائے گی؟ جب سونے کی جانچ سناروں کے بجائے کمہار کرنے لگے تو قیامت نہیں آجائے گی؟ اسی طرح جب دین کی تشریحات نا اہل کریں گے تو کیا دین پر قیامت نہ آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دین کا علم (کتاب وسنت کے الفاظ) نہیں اٹھایا جائے گا (بلکہ کتاب و سنت یہی رہیں گی) مگر اس کے علماء اٹھا لیے جائیں گے یہاں تک کہ کوئی باقی نہ رہے گا تو لوگ ناواقف ہوں کو اپنا دینی پیشوا بنا لیں گے ، وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
[صحیح بخاری:100، صحیح مسلم:2673، سنن ترمذی:2652، سنن ابن ماجہ:52]

دین کے اصل علماء مُجتَہِدین ہی ہوتے ہیں بعد کے علماء ناقل ہیں۔ اور جو نا اہل ہو کر خود اجتہادی پر اتر آتے ہیں وہ (غیرمُجتَہِد-غیرمقلد) خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ہیں۔ اگرچہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس گمراہی کا نام خوبصورت سا رکھ لیا جائے، جیسے انکارِ حدیث کی گمراہی کا نام اہلِ قرآن رکھ لیا گیا، صرف نام بدلنے سے حقیقت تو نہیں بدلتی۔ کیا تحریف القرآن کا نام تفہیم القرآن لکھنے سے حقیقت بدل گئی! تبرا بازی کا نام تنقیدِ صالح رکھ لینے سے حقیقت بدل گئی! ہرگز نہیں۔ جس طرح اہلِ قرآن ہر فاسق و فاجر بے علم کو قرآن کے سمجھنے سمجھانے کا حق دیتے ہیں مگر معصوم نبی سے یہ حق چھیننا چاہتے ہیں اسی طرح اہلِ حدیث ہر فاسق و فاجر اور ہر جاھل کندۂ ناتراش کو اجتہاد کا حق دیتے ہیں مگر ائمہ مجتہدین جن کا مجتہد ہونا دلیلِ شرعی یعنی اجماعِِ امت سے ثابت ہے اور وہ یقیناََ اپنے ہر فیصلے میں مأجور Rewarded ہیں ان سے یہ حق چھیننا چاہتے ہیں۔ اہلِ قرآن اور اہلِ حدیث کا ایک ہی مقصد ہے کہ لوگ نبی معصوم اور مجتہد ماجور کو چھوڑ کر جاہلوں کو اپنا دینی پیشوا بنا لیں جو خود گمراہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں۔




تحقیق یا مُنازَعَت(Research OR Dispute):
عام طور پر اہلِ قرآن کہتے ہیں کہ مُحدثین معصوم نہ تھے، ہم تحقیق کر کے ان کی غلطی کو غلطی اور صحیح کو صحیح کہتے ہیں۔ اور اہلِ حدیث کہتے ہیں کہ مُجتَہِدین معصوم تو نہیں تھے ہم تحقیق کرکے ان کے غلط اور صحیح اجتہاد کی جانچ کرتے ہیں۔ اس میں پہلی بات تو صحیح ہے مگر بات ادھوری ہے، جیسے مُحدثین معصوم نہیں اہلِ قرآن بھی معصوم نہیں، اور جس طرح مُجتَہِدین معصوم نہیں اہلِ حدیث بھی معصوم نہیں، مگر بات معصوم اور غیرمعصوم کی نہیں، بات "اہل" اور "نااہل" کی ہے۔ مُحدثین اپنے فن میں اہل ہیں، اور اہلِ قرآن خواہ اپنی جماعت میں کتنے بڑے مصنف ہوں (جیسے: محمد اسلم جیراجپوری سابق اہل حدیث، غلام احمد پرویز سابق اہل حدیث) لیکن محدثین کے سامنے فنِ حدیث میں نااہل ہیں۔ ان کی باتوں کو تحقیق نہیں کہا جائے گا بلکہ نااہل کی "مُنازَعَت" (یعنی باہمی نزاع، جھگڑا، تکرار، بحث، مخالفت) کہا جائے گا جو شرعاً گناہِ کبیرہ ہے۔ اسی طرح مُجتَہِدین اور غیرمقلدین میں یہ فرق نہیں کہ مُجتَہِدین غیرمعصوم ہیں اور غیرمقلدین معصوم ہیں، بلکہ فرق یہ ہے کہ وہ لوگ(یعنی مُجتَہِدین) "باجماعِ امت" اہلِ اجتہاد میں سے ہیں اور یہ لوگ(یعنی غیرمقلدین) "باجماعِ امتنااہل ہیں۔ اس لئے ان نااہلوں کا مُجتَہِدین سے الجھنا اگرچہ وہ اپنی جماعت کے بڑے آدمی ہوں (جیسے: محمد جوناگڑھی جس کی طرف نسبت کرکے اہل حدیث اپنے آپ کو محمدی کہتے ہیں) لیکن اجتہاد میں وہ نا اہل ہیں۔ مُجتَہِدین کی مخالفت کا نام تحقیق نہیں بلکہ نااہل کی مُنازَعَت ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب بیعت لیتے تو اس میں ایک یہ عہد لیتے کہ:
{لَا نُنَازِعَ ‌الأَمْرَ ‌أَهْلَهُ}
ہم اہلِ امر(یعنی کسی معاملہ کے اہل) سے منازعت نہیں کریں گے۔
[صحيح البخاري:7199، صحيح مسلم:1709]
عجیب بات ہے اتنی جرأت تو کھلے منکرین حدیث بھی نہیں کرتے کہ حدیث تو جس کو مُنازَعَت قرار دے یہ اس کا نام تحقیق رکھیں۔





ثواب یا گناہ:
یہ تو آپ پڑھ چکے ہیں کہ مُجتَہِد سے اگر خطا بھی ہو جائے تو اسے اجر ملتا ہے لیکن نااہل کا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے، اگر وہ صحیح بات بھی پالے تو اسے اجر کی بجائے گناہ ہوگا۔
رسول اقدس ارشاد فرماتے ہیں:
جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے بات کی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔
[ترمذی:2950]
اور فرمایا:
جس نے قرآن میں اپنی رائے لگائی اور درست بات بھی پا لی تو وہ بھی گنہگار ہے۔
[ابوداؤد:3652]

امام نوويؒ (م676ھ) فرماتے ہیں:
تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ مُجتَہِد ہر اجتہاد میں اجر پاتا ہے، اگر اس کا اجتہاد درست نکلا تو دو اجر کا مستحق ہے: ایک اجر اجتہاد کا دوسرا اس اصابت(درستگی) کا۔ اور اگر اجتہاد خطا نکلا تو بھی ایک اجر اجتہاد کا ملے گا۔ ہاں جو نااہل ہو اس کو اجتہاد سے حکم کرنا کسی حال میں جائز نہیں بلکہ وہ گنہگار ہے۔ اس کا حکم نافذ بھی نہ ہوگا۔ اگرچہ حق کے موافق ہو یا مخالف کیونکہ اس کا حق کو پالینا محض اتفاقی ہے کسی اصل شرعی پر مبنی نہیں۔ پس وہ تمام احکام میں گناہگار ہے۔ حق کے موافق ہو یا مخالف اور اس کے نکالے ہوئے تمام احکام مردود ہیں اس کا کوئی عذر شرعاً مقبول نہیں وہ دوزخی ہے ہے۔
[شرح النووي على صحیح مسلم: ج12/ ص14]

افسوس ہے کہ اہل قرآن اور اہل حدیث نے اس کبیرہ گناہ، جس کا ٹھکانہ دوزخ کے سوا کہیں نہیں، کا نام تحقیق رکھا ہوا ہے اور اس کو عمل بالقرآن اور عمل بالحدیث کہتے ہیں۔


نجات یا ہلاکت:
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین چیزیں نجات دینے والی ہے اور تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں۔ فرمایا: نجات دینے والی یہ ہے: (1) چھپے اور ظاہر ہر حال میں الله سے ڈرنا، (2) خوشی یا ناراضگی ہر حال میں حق بات کہنا، (3) امیری ہو یا فقیری میانہ روی اختیار کرنا۔ اور ہلاک و برباد کرنے والی تین چیزیں یہ ہیں: (1) اپنی خواہش نفس کے پیچھے چلنا، (2) بخل کرنا، (3) اپنی رائے پر فخر کرنا۔ فرمایا: تینوں میں سے یہ (آخری) سب سے بڑی مہلک ہے۔
[مشكاة المصابيح:5122، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌1802]
بلکہ جو اپنی رائے پر اتراتے ہیں ان پر ہدایت کا دروازہ ہی بند ہو جاتا ہے۔
[مشكاة المصابيح:(تفسیر سورۃ الجاثیۃ:23)]
حضرت شیخ عبد الغنی مجددی مدنی رحمہ اللہ ﴿وَإِعْجَابَ ‌كُلِّ ‌ذِي ‌رَأْيٍ بِرَأْيِهِ﴾ پر حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں :
﴿أَيْ: مِنْ غَيْرِ نَظَرٍ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ الْأُمَّةِ، وَالْقِيَاسِ عَلَى أَقْوَى الْأَدِلَّةِ وَتَرْكِ الِاقْتِدَاءِ بِنَحْوِ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ﴾
ترجمہ:
یعنی: (الله کی)کتاب اور (پیغمبر ﷺ کی)سنت ، اور(جمہور علماء کے ذریعہ)امت کے اجماع اور (مجتہد کے)قیاس کو دیکھے بغیر۔ اور(اپنی رائے وخواہش کو ترجیح دیکر) ائمہ اربعہ(یعنی چار مجتہد اماموں) کی اقتداء چھوڑنے والا اس حدیث کا مصداق ہے اور وہی ہلاکت میں گرنے والا ہے۔
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح : 8/ 3214، حدیث:5144، دار الفكر، بيروت - لبنان]

خلاصہ یہ نکلا کہ دین میں تحقیقی بات صرف وہی ہے جو اَدِلَّہ(دلائل) سے بواسطہ آئمہ (اماموں) سے ثابت ہو، جس بات پر ان کا اجماع ہوگا وہ حُجّتِ قاطعہ ہے اور جس پر ان کا اختلاف ہوگا وہ رحمتِ واسعہ(رحمت بھری گنجائش) ہے۔


اندھی تقلید:
ج کل بعض لوگ یہ طعنہ دیتے ہیں کہ یہ تو اندھی تقلید ہے۔ افسوس ان بیچاروں کو اندھی تقلید کا معنیٰ بھی نہیں آتا، اندھی تقلید اس کو کہتے ہیں کہ اندھا(یعنی غیرعالم اور نااہل) اندھے کے پیچھے چلے تو یہ دونوں کسی کھائی میں گر جائیں گے یہ اندھی تقلید ہے۔ اور اگر اندھا آنکھوں والے(یعنی اہل وماہر) کے پیچھے چلے تو وہ آنکھ والا اس اندھے کو بھی اپنی آنکھ کی برکت سے ہر کھائی سے بچا کر لے جائے گا اور منزل تک پہنچا دے گا۔ ائمہ مُجتَہِدین (یعنی وہ چار مشہور امام جن کے مجتہد ہونے میں امت کا اجماع ہے، جیسے:ابوحنیفہ، مالک، شافعی، احمد بن حنبل) وہ عارف (یعنی پہچاننے-جاننے والا واقف) بصیر(یعنی صاحب نظر-دانشمند) ہی نہ تھے بلکہ زیادہ پاک، زیادہ نیک، زیادہ پرہیزگار اور زیادہ علم یاد رکھنے والے بھی تھے۔ البتہ اندھی تقلید ان کے ہاں ہے جو خود بھی اندھے ہیں اور ان کے پیشوا بھی اجتہاد(علمی مہارت) کی آنکھ نہیں رکھتے اور اندھے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
۔۔۔اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»
ترجمہ:
تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
[صحیح بخاری:100، صحیح مسلم:2673، سنن ترمذی:2652، سنن ابن ماجۃ:52]

یہ اندھی تقلید ہے۔ اللہ تعالی ہمیں پیغمبر معصوم ﷺ اور مُجتَہِدین مأجور کی تحقیق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نئے فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔

[ماخوذ = تجلیات صفدر (حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی) : ج 1 ص 117]


Thursday, 10 June 2021

متواتر عمل سند(حدیث) کا محتاج نہیں، ورنہ۔۔۔

دین کے مسائل تین طرح کی اخبار (احادیث) سے ثابت ہوتے ہیں:

(1) متواترات:
کسی محسوس واقعہ (مَثَلاً : کسی قول یا فعل وغیرہ) کو خود سننے اور دیکھنے والوں کی ابتداء سے آخر (اب) تک ہر زمانہ میں ایسی بڑی تعداد اس واقعہ کی خبر دے کہ ان سب کا جھوٹ یا غلطی پر متفق ہونا عادتاً محال سمجھا جاۓ.
[الاحکام فی اصول الاحکام: جلد1 / صفحہ 151؛ التوضیح والتلویح: جلد2 / صفحہ 2-3؛ تسہیل الوصول: صفحہ140؛ فتح الملھم : 1/ 5-6]
یعنی عقل یہ باور نہ کرے کہ ان سب نے سازش کرکے جھوٹ بولا ہوگا یا ان سب کو مغالطہ لگ گیا ہوگا۔





ترجمہ:
متواترات، علم یقینی(بدیہی) کا فائدہ دیتی ہیں۔
وَالمُتَواتِرُ لا يُبْحَثُ عَن رِجَالِهِ، بَل يَجِبُ العَمَلُ بِهِ مِن غَيْرِ بَحْثٍ في رواته
ترجمہ:
اور متواتر(frequent, continual) کے رجال(transmitters) کے متعلق بحث نہیں کی جاتی (کہ وہ سچے-قابلِ اعتماد تھے یا نہیں، گواہوں کی کثرتِ تعداد کی وجہ سے) بلکہ بغیربحث کے اس(متواتر خبر) پر عمل(یقین) کرنا واجب(لازم) ہے۔



جیسے:-
()قبلہ اول بیت المقدس کا منسوخ ہونا اور قبلہ آخر بیت الله کا ناسخ بننا۔
()پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ  پر نازل کردہ الله کی کتاب کے الفاظ اور پیغمبرانہ تشریح(احادیث) کو متعدد سینوں میں یاد رکھنے، دوسروں تک پہنچانے اور کتابوں میں محفوظ کرنے والے (پاک-نیک-مضبوط یادداشت والے گواہ) ہر زمانہ میں، اتنی تعداد میں رہے اور بڑھتے ہی جارے ہیں، کہ جن کا کسی جھوٹی بات پر متفق ہونا عقلاً اور عادتاً محال ہے۔



دنیاوی باتوں میں:-
(1)انسان کے وجود سے پہلے سورج چاند کے موجود ہونے پر یقین
(2)کون شخص کس کا باپ/دادا ہے، اس پر یقین
(3)چاند پر انسان کے قدم رکھنے پر یقین
(4)آنکھوں سے نہ دکھنے والی چیزوں پر یقین:-
انتہائی چھوٹی مخلوق جیسے:-جراثیم، بیکٹیریا، وائرس، فنگس وغیرہگ،
انتہائی ہلکی مخلوق جیسے:- تمام گئسز، سانس، روح، خوشبو وغیرہ
انتہائی بڑی مخلوق جیسے:- بڑے بڑے سیارے، ستارے، گیلیکسیز وغیرہ







(2) مشہورات:
اصولِ حدیث میں مشہورات ان اخبار و احادیث کو کہتے ہیں جنہیں دو سے زائد راوی(Transmitters) روایت(Transmit) کریں لیکن وہ تواتر کی حد تک نہ پہنچیں.

اور اصول فقہ میں:- اول (صحابہ کے) زمانہ میں تو وہ واقعہ خبرِ واحد ہو، پھر وہ پھیل جاۓ کہ دوسرے یا بعد کے زمانوں میں اتنی قوم اس کو روایت کرے کہ جن کا جھوٹ پر اتفاق کا وہم نہ ہو۔
[نور الأنوار: صفحہ 180]

اگر وہ (خبر/واقعہ) اول زمانہ میں بھی اس طرح (متعدد لوگوں سے روایت ہوتی چلی آتی) ہو تو وہ متواتر ہوگی، اور اگر وہ دوسرے زمانہ میں بھی اس طرح نہ ہو تو وہ (اخبار/واقعات) آحاد سے ہیں۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ اصولیین(Jurists-Scholars of Fiqh) کے نزدیک مشہورات آحاد(یعنی وہ خبریں جنھیں ہر دور کے "ایک" راوی نے بیان کیا ہو) اور متواتر (کے درمیان) کی قسم ہے، اور محدثین(Scholars of Hadith) کے نزدیک وہ آحاد کی قسم ہے جو تواتر کی حد تک نہ پہنچے.
[رد المختار: جلد 1 / صفحہ 446]





(3) آحاد:
یہ خبرِ واحد کی جمع ہے، اور جس خبر یا واقعہ کو (ہر دور میں چند) ایک شخص روایت(Transmit) کرے، اسے لغتاً خبرِ واحد کہتے ہیں، اور اصطلاحاً جس میں متواتر کی تمام شرائط نہ ہوں۔ پھر متواتر(خبر) چونکہ علمِ یقینی کا فائدہ دیتی ہے اس لئے وہ مردود نہیں صرف مقبول ہوتی ہیں، لیکن آحاد(واحد کی خبریں) مقبول بھی ہوتی ہیں اور مردود بھی، اس لئے کہ ان کا واجب العمل ہونا ان کے راویوں کا حالات پر مبنی ہے۔
[شرح نخبة الفكر]
اس لئے وہ اخبار آحاد اپنی سند اور ان میں موجود راویوں کے حالات پر مقبول و مردود اوصاف کی تحقیق سے واجب العمل یا متروک العمل سمجھی جائیں گی.



موضوع اور من گھڑت روایات اور انکارِ حدیث کا فتنہ
متواتر عمل سند کا محتاج نہیں، ورنہ۔۔۔

علمِ حدیث، تاریخِ حدیث، موضوعِ حدیث، ضرورتِ حدیث

متونِ حدیث، اقسامِ حدیث، قواعد الحدیث

فن اسماء الرجال

http://raahedaleel.blogspot.com/2012/09/funasmaa-ul-rijaal.html

رجال الحدیث

غریب الحدیث

ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط

روحِ شریعت : بزرگوں پر اعتماد

اصولِ محدثین : ضعیف حدیث "تلقی بالقبول" کے سبب صحیح کا حکم رکھتی ہے.
اصولِ جرح و تعدیل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
[مندرجہ مضمون الزامی جواب ہے، یعنی معترض کا اعتراض رفع کرنے کی بجائے ویسا ہی اعتراض اُس پر وارد کر دینا جیسا کہ اس نے کیا ہے.]

متواتر عمل سند کا محتاج نہیں، ورنہ۔۔۔۔

اہلِ اصول کے ہاں دین کے مسائل تین طرح کے ثابت ہوتے ہیں:
(1) متواترات، (2) مشہوات، (3) آحاد۔
اور اہلِ اصول متواترات کی مثال میں قرآن اور نماز کا ذکر بطور مثال کرتے ہیں۔ جس طرح قرآن پاک تلاوۃً متواتر ہے، اسی طرح نماز عملاً متواتر ہے۔ بلکہ حقیقت میں نماز قرآن پاک سے بھی زیادہ متواتر ہے، کیوں کہ قرآن پاک روزانہ ایک دفعہ بھی ختم کرنا فرض نہیں مگر نماز ہر مکلف مسلمان پر روزانہ پانچ مرتبہ پڑھنی فرض ہے۔ دوسری بات یہ یاد رکھیں کہ متواترات سند کی محتاج نہیں ہوتیں۔ اسی طرح مسلمان قرآن پاک کی ہر ہر آیت کی سند تلاش نہیں کرتے۔ اسی طرح نماز کی روزمرہ پیش آنے والے مسائل اور طریقہ عملاً متواتر ہیں۔ وہ بھی سند کا محتاج نہیں ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ رافضیوں کے ایک گروہ نے متواتر قرآن کا انکار کر دیا ہے اور دوسرے گروہ نے متواتر نماز کی صحت کا انکار کر دیا ہے۔ اور دوسرے گروہ سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اگر متواترات کے لیے بھی سند ضروری ہے اس کے بغیر ثبوت نہیں ہو سکتا تو۔۔۔۔

(1) قرآن پاک کی ہر ہر آیت کریمہ کو سند سے ثابت کردیں، بصورتِ دیگر قرآن کے ثبوت کا انکار کریں جیسے متواتر نماز کا انکار کیا ہے۔

(2) قرآن پاک کی آیات اور سورتوں کی ترتیب کو فرداً فرداً سند سے ثابت کرو، ورنہ بڑے بھائیوں کی طرح اس متواتر ترتیب کا انکار کردیں۔

(3) قرآن و حدیث کے ترجمہ کے لیے لغت کی ضرورت ہے۔ اس متواتر لغت سے قرآن کے ہر ہر لفظ کا معنیٰ واضح لغت تک سند سے ثابت کریں، ورنہ لغت اور اس کے معنیٰ کا اسی طرح برملا انکار کریں جس طرح متواتر نماز کا انکار کیا ہے؟؟؟

(4) متواتر قرآن کے بارے میں کوئی یہ کہے کہ میں اس کو اس لیے نہیں مانتا کہ اس کی ہر آیت کے ثبوت اور ترتیب کی سند مجھے نہیں ملی تو اسے آپ کافر کہتے ہیں یا نہیں۔ تو جو شخص متواتر نماز کے ثبوت کا انکار کرے اس کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟؟؟

(5) جو قرآن پاک تلاوۃً متواتر ہے اس میں ایک آیت کریمہ یوں ہے:
وَٱلَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ۔ وَٱلنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ۔ وَمَا خَلَقَ ٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰٓ۔ (سورۃ اللیل:1-3)
اور بخاری شریف میں ﴿وَٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰٓ﴾ ہے۔ امام بخاری سند کے ساتھ بخاری میں پانچ جگہ لائے ہیں: (حدیث نمبر: 3742، 3743، 3761، 4943، 4944، 6178)۔ کوئی شخص قرآن پاک میں یہ آیت اس طرح چھاپ دے، اور یہ کہے کہ یہ سند سے ثابت ہے اور وہ بے سند اور بے ثبوت ہے، اس کی بھی سند بخاری میں دکھاؤ ورنہ میں اس کو ہرگز نہیں مانتا، تو کیا یہ درست ہے؟ اور کیا آپ نے کوئی ایسا قرآن شائع کیا ہے؟؟؟





(6) جو قرآن پاک تلاوۃً متواتر ہے اس میں ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ ٱلْأَقْرَبِينَ﴾(سورۃ الشعراء:214) ہے، بخاری نے صحیح سند کے ساتھ یہ بھی روایت کیا ہے: وَرَهْطَكَ ‌مِنْهُمُ ‌المُخْلَصِينَ[صحيح البخاري:4971] اب کوئی شخص اس طرح قرآن شائع کرے اور اسی طرح تلاوت کریں اور یہ شور مچائے کہ لوگوں نے بے سند اور بے ثبوت آیتوں کو قرآن میں شامل کیا ہوا ہے اور اس صحیح سند والی آیتوں کو قرآن سے نکال رکھا ہے۔ اسی طرح وہ تواتر قران کو غلط کہیں جس طرح آپ متوازن نماز کو کہتے ہیں تو کیا یہ درست ہے؟؟؟

(7) متواتر قرآن میں ایک آیت یوں ہے: ﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ [سورۃ المسد:1] ، مگر بخاری شریف[حدیث#4971] میں صحیح سند کے ساتھ (مزید) اس کے ساتھ (وَقَدْ ‌تَبَّ) بھی ہے۔ اب کوئی شخص متواتر قرآن میں درج آیت کو بے سند کے کر ماننے سے اسی طرح انکار کردے جس طرح آپ نے متواتر نماز کو پسند کے ماننے سے انکار کر دیا ہے اور بخاری کی سند والی آیت کو قرآن میں شامل کرے تو کیا یہ جائز ہے؟ اگر یہ جائز نہیں تو آپ کا متواتر نماز کے خلاف بخاری کی کوئی حدیث دیکھ کر متواتر نماز کو غلط کہنا کس طرح جائز ہے؟؟؟

(8) مسلمانوں میں عملاً یہ متواتر ہے کہ مرد عورتیں سب بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں، جبکہ بخاری[224، 225، 226، 2471] پر چار جگہ، اور مسلم[273]، ابوداؤد[23]، ترمذی[13]، نسائی[18، 26، 27، 28]، ابن ماجہ[305، 306] ، مسند احمد[18150، 23246، 23345، 23414] پر آنحضرت ﷺ کا کھڑے ہو کر پیشاب فرمانا ثابت ہے۔ اس لئے اہل حدیث کے مرد عورتیں ہمیشہ کھڑے ہو کر پیشاب کریں، بلکہ اگر کوئی اہل حدیث مرد یا عورت بیٹھ کر پیشاب کر رہے ہوں، ان کو اسی حالت میں کھڑا کر دیا کریں کہ ساری امت تو بخاری مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف بیٹھ کر پیشاب کرنے کی وجہ سے دوزخی بن گئی ہے، تم کیوں دوزخی بن رہے ہو؟ اور بار بار مطالبہ کریں کہ بخاری و مسلم کی اس حدیث کا منسوخ ہونا صرف بخاری مسلم سے دکھاؤ؟ ورنہ تم سب کے سب گمراہ ہو۔ تو کیا یہ جائز طریقہ ہے؟

(9) ہمارے ملک میں عموماً وضو کے وقت مسواک کرتے ہیں، اگرچہ اہل حدیث کے ہاں مسواک کا عمل "عمل النادر کالمعدوم" ہے، مگر ایک آدمی کہتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے لیے اپنی امت کو مشقت میں ڈالنے والی بات نہ ہوتی تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔
[بخاری:887، مسلم:252، ابوداؤد:47، ترمذی:22+23، نسائی:7، ابن ماجہ:287، احمد:607+967+7339+7853+9179 +9549+10617+17032+17048+21674 +23486]
اس لیے مسواک بوقتِ اقامت کیا کرو۔ جو بوقتِ وضو مسواک کرتے ہیں وہ صحاح ستہ کی اس حدیث کی مخالفت کی وجہ سے گنہگار ہیں۔

(10) ایک حدیث میں ہے:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ «إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ، ‌يَشُوصُ فَاهُ ‌بِالسِّوَاكِ» رسول اللہ ﷺ جب بھی رات کو اٹھتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف فرماتے۔
[بخاري:245، مسلم:255، ابوداؤد:55]
آج کل اکثر اہل حدیث اس حدیث پر عمل نہیں کر رہے۔ کیا یہ اونچی آمین کی حدیث سے زیادہ صحیح حدیث نہیں ہے؟ اس پر عمل کرانے کے لیے رسالے، جلسے، کتابیں، چیلینج بازیاں، سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس پر نہ خود عمل نہ دوسروں کو چیلنج۔ وجہ فرق کیا ہے؟

(11) ایک حدیث میں ہے: كَانَ يَبْدَأُ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا ‌دَخَلَ بَيْتَهُ؟ قَالَتْ: «‌بِالسِّوَاكِ» (مختصراً) آپ ﷺ جب بھی گھر تشریف لاتے تو ہمیشہ پہلے مسواک کرتے۔ [مسلم:253، ابن ماجه:290ابوداؤد:51، نسائی:8] کیا اہل حدیثوں کے ساتھ ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا، کسی مرد یا عورت کو اس حدیث پر عمل کرتے نہیں دیکھا، حالانکہ یہ حدیث سینے پر ہاتھ باندھنے والی ضعیف حدیث کے مقابلے میں بہت قوی ہے، اُس ضعیف حدیث پر عمل کے لئے پورے ملک میں شور ہے اور اِس صحیح حدیث پر عمل نہ کوشش؟

(12) ایک حدیث میں ہے: «‌إِذَا ‌اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِاللَّيْلِ إِلَى المَسْجِدِ، فَأْذَنُوا لَهُنَّ» رات کو جس وقت بھی تمہاری عورتیں مسجد میں جانے کی اجازت مانگیں، ان کو دے دیا کرو۔  [بخاري:865، مسلم:442، احمد:5211+6304+6444] اس صحیح حدیث پر غیر مقلد مردوں اور عورتوں نے عمل چھوڑ رکھا ہے۔ کیا یہ حدیث حضرت جابر کی آٹھ تراویح والی ضعیف ترین روایت سے بھی گئی گزری ہے؟ اُس پر عمل کے لیے چیلنج بازیاں اور اِس پر عمل بلکل ترک، وجہِ فرق کیا ہے؟

(13) امت کا متواتر عمل یہ ہے کہ جوتا اتار کر نماز پڑھتے ہیں، بخاری ومسلم میں جوتے اتار کر نماز پڑھنے کی کوئی حدیث نہیں، بلکہ اس کے خلاف جوتے پہن کر نماز پڑھنے کی حدیث ہے: يُصَلِّي ‌فِي ‌نَعْلَيْهِ ۔۔۔۔۔ یعنی آپ ﷺ ہمیشہ ہمیشہ جھوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے۔
[بخاری:386+5850، مسلم:554، نسائی:727، ابن ماجه:1037، ترمذي:400، احمد:16364+16353]
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جوتے اتار کر نماز پڑھنا بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف ہے۔ یہ نماز نبی پاک ﷺ والی نماز ہرگز نہیں۔ تو کیا واقعتاً امت کے متواتر عمل کو ان احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط کہا جائے گا؟ یاد رہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنے والی حدیث کو محدثین متواتر کہتے ہیں۔
[شرح معاني الآثار،الطحاوي:2911، مجموعة رسائل علمية(الوادعي):ص7، سلسلة الأحاديث الصحيحة:6/1066(2943)]
جس سے نماز میں متواتر حدیث کے مخالف ہو، کیا وہ نماز صحیح ہوگی؟ ایک طرف حدیث ہے جو سنداً متواتر ہے، دوسری طرف حدیث کے مخالف عامل ہیں۔

(14) بخاری [516] اور مسلم [543] پر بے: (كَانَ ‌يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ ‌أُمَامَةَ) کہ آپ ﷺ ہمیشہ بچی کو اٹھا کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ جبکہ اس فعل کے ترک یا نسخ کی کوئی حدیث بخاری مسلم میں نہیں، جب کہ امت کی متواتر نماز میں یہ عمل نہیں، اب کیا یہ متواتر نماز بخاری مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل ہے؟ اگر کوئی شخص اس متفق علیہ حدیث پر عمل کرنے کی کوشش کرے کہ جب کوئی اہل حدیث مرد یا عورت نماز کی نیت باندھے ان پر ایک بچی سوار کر دے تو کیا اس صورت کو زندہ کرنے پر فی بچہ لادنے پر سو شہید کا ثواب ملے گا یا نہیں، تو کیوں؟؟؟

(15) بخاری[353+354+355+356+360+370] اور مسلم[517+518+519] کی متفق علیہ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی، اور محدثین نے اس حدیث کو متواتر قرار دیتے ہیں، مگر امت کا متواتر عمل اس متواتر حدیث کے خلاف تین کپڑوں میں نماز ادا کرنے کا ہے۔ اب اگر کوئی اہل حدیث امت کی متواتر نماز کو غلط قرار دے اور متواتر حدیث پر عمل کروانے کے لیے اہل حدیث مرد عورتوں کے کپڑے نماز میں اتارنا شروع کردے، صرف ایک ایک پڑا رہنے دے تو کیا اس متواتر حدیث پر عمل کرانے کی کوشش میں اسے فی مردوعورت ہے سو سو شہید کا ثواب ملے گا یا نہیں، تو کیوں؟؟؟

(16) ایک اہلِ حدیث جس کو متفق علیہ احادیث کی مخالفت برداشت نہیں، وہ دوسرے اہل حدیثوں کو چار تکبیروں کے ساتھ ترجیع والی اذان (یعنی اذان میں شہادتین کو پست آواز سے ادا کرنا، پھر بلند آواز سے پڑھنے) سے روکتا ہے، کیونکہ بلا ترجیع اذان بخاری [605+606] مسلم [378] ترمذی [193] ابوداؤد [508] نسائی [627] ابن ماجہ[729+730] مسند احمد[22027] پر ہے، اور امت کا متواتر عمل بھی ہے، اور چار تکبیروں کے ساتھ ترجیع والی اذان نہ بخاری میں ہے نہ مسلم میں۔ باقی اہل حدیث اس پر ضد کرتے ہیں کہ ہم متفق علیہ حدیث کی مخالفت کریں گے تو ان میں سے کس کو سچا اہلحدیث سمجھیں؟

(17) اہل سنت والجماعت کا متواتر عمل یہ آرہا ہے کہ وہ نماز میں ثناء ﴿سُبْحَانَكَ ‌اللَّهُمَّ۔۔۔﴾ پڑھتے ہیں، جب کہ بخاری و مسلم میں میں﴿اللَّهُمَّ ‌بَاعِدْ ‌بَيْنِي۔۔۔﴾ کی کوئی مرفوع حدیث نہیں، وہاں ﴿﴾ ہے۔[بخاری:744، مسلم:598]
تو﴿سُبْحَانَكَ ‌اللَّهُمَّ۔۔۔﴾پڑھنے والوں کی بوجہ مخالفت متفق علیہ حدیث کے باطل ہوگی یا نہیں؟؟؟

(18) بخاری[1927]، مسلم[1106] میں ہے کہ آپ ﷺ روزہ رکھ کر ہمیشہ بیوی سے مباشرت فرماتے۔ ایک اہلحدیث کہتا ہے آپ کا وزن دگی بھر میں ایک روزہ بھی (ایسا) ثابت نہیں کہ گھر میں روزہ رکھا ہو اور بیوی سے مباشرت نہ کی ہو۔ جو شخص بھی روزہ رکھتا ہے اور بیوی سے مباشرت نہیں کرتا میاں بیوی دونوں کا روزہ خلافِ سنت ہے۔

(19) بخاری[297] مسلم[301] پر ہے کہ آنحضرت ﷺ ہمیشہ حائضہ بیوی کی گود میں ٹیک لگا کر قرآن پاک کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے حائضہ کی گود میں ٹیک لگا کر قرآن پاک کی تلاوت کرنا تو سنت سے ثابت ہے۔ جو اہل حدیث مسجد کی چٹائی پر بیٹھ کر تلاوت کرتے ہیں، یہ بخاری مسلم کی کسی حدیث سے ثابت نہیں۔

(20) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ وضو کے بعد ہمیشہ کسی بیوی کا بوسہ لیتے، پھر نماز پڑھتے اور دوبارہ وضو نہ کرتے۔[ترمذي:86، نسائی:170، ابن ماجہ:502، احمد:25766] ایک اہلحدیث کا کہنا ہے کہ جس طرح وضو میں کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا ترک کرنے سے وضو خلاف سنت ہے، ایسے ہی وضو کے بعد بیوی کا بوسہ لینے سے بھی وضو خلاف سنت ہوتا ہے،اور خلاف سنت وضو سے نماز بھی خلاف سنت ہے۔ جبکہ امت کا متواتر عمل ہر وضو میں کلی کرنے پر تو ہے مگر ہر وضو کے بعد بوسہ لینے پر نہیں ہے۔ تو یہاں متواتر عمل کا ساتھ دیا جائے گا۔ یہ خلاف تواتر حدیث کا؟

(21) تمام امت کی متواتر نماز میں یہ ہے کہ رکوع میں ﴿سُبْحَانَ ‌رَبِّي ‌الْعَظِيمَ﴾ پڑھتے ہیں، مگر یہ تسبیح "متفق علیہ" حدیث میں نہیں بلکہ اس کے خلاف یہ ہے: (سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي)[بخاري:794، مسلم:484]
تو کیا رکوع سجدے میں مذکورہ تسبیحات پڑھنے والوں کی نمازوں کو اس لیے باطل قرار دیا جائے گا کہ یہ "متفق علیہ" حدیث کے خلاف ہیں، یا عملی تواتر کا لحاظ کر کے ان کو سنت کہا جائے گا؟

بات دور نکل گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کا جس قدر قرآن تلاوۃً متواتر ہے، اسی طرح نماز اس سے بھی زیادہ عملاً متواتر ہے۔ اس متواتر قرآن کو جس طرح سندو کے ماتحت کرنا قرآن دشمنی ہے، کیونکہ ایک تو یقینی کو ظنی(غیریقینی) کر دیا، دوسرے تواتر سے ثابت کو بیس پسند کہہ کر اس کے ثبوت کا انکار ہے۔
اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ:
(1) اہل سنت والجماعت جو نماز پڑھتے ہیں وہ عمل قرآن پاک سے زیادہ متواتر ہے، اور غیر مقلد جو نماز پڑھتے ہیں وہ عملی تواتر کے خلاف ہے۔
(2) اہل سنت والجماعت کی نماز یقین الثبوت ہے مثلِ قرآن، اور غیر مقلدین کی نماز ظنی الثبوت ہے اور وہ ظنی بھی ایسا جو یقین سے ٹکرا رہا ہے۔
(3) اہل سنت والجماعت کی نماز کی مکمل ترکیب جس طرح روزمرہ ہر جگہ پڑھی جاتی ہے  عملی تواتر سے ثابت ہے، اور غیر مقلدین کی نماز کے روز مرہ پیش آنے والے مسائل اور مکمل ترکیب اخبار آحاد سے ظنی طور پر بھی ثابت نہیں۔یہی وجہ ہے کہ غیر مقلد علماء اپنی مکمل نماز صرف قرآن و حدیث سے ثابت کرنے سے ایسے بھاگتے ہیں ہیں ﴿‌كَأَنَّهُمْ ‌حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ 0 فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ﴾  بیچارے اردو دان حضرات کو دھوکے میں ڈالتے ہیں کہ بخاری و مسلم کا اردو ترجمہ پڑھ لو مکمل نماز کا طریقہ میں جائے گا۔
ایک پروفیسر صاحب کو اسی دھوکے میں ڈالا، میں نے اس سے مکمل نماز کے بارے میں سوالات کیے، وہ ان کی احادیث نہ نکال سکا، آخر اس نے دھوکہ دینے والے اسکالر صاحب سے کہا کہ آپ نے پندرہ سال قرآن حدیث پڑھا اور پچاس سال سے پڑھا رہے ہیں، آپ ہی قرآن کی ہر آیت کی سند اور ترتیب اور اپنی نماز کے ہر مسئلے کا ثبوت اور ترتیب بخاری مسلم سے نکال دیں۔ اب تو اسکالر صاحب ایسے خاموش ہوئے جیسے: ﴿‌صُمٌّ ‌بُكْمٌ﴾ والی آیت ان کے لیے ہی نازل ہوئی ہو اور ﴿‌فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ﴾  کا منظر بن گیا۔ آخر اسے پروفیسر نے کہا کہ تم نے 65 سال قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا اور 65 سال کے مطالعے سے اپنی "ظنی" نماز کے مکمل مسائل جو روزمرہ عمل میں ہے نہ ثابت کر سکے تو ہم لوگوں کو کس چکر میں ڈال دیا ہے کہ متواتر کو چھوڑ کر زمین نماز پڑھیں اور کامل کو چھوڑ کر ناقص کی طرف آئیں، ثابت کی بجائے غیرثابت پڑھیں۔










٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
[مندرجہ مضمون الزامی جواب ہے، یعنی معترض کا اعتراض رفع کرنے کی بجائے ویسا ہی اعتراض اُس پر وارد کر دینا جیسا کہ اس نے کیا ہے.]

غیر مقلدین سے سند کی تحقیق کے بارے میں سوالات:
یہ چند علمی سوالات ہیں، ان کے جوابات صرف قرآن پاک یا صحیح حدیث سے عنایت فرمائیں؟
(1) امام مسلم [صیح مسلم:27] پر امام ابن سیرین(م110ھ) سے نقل فرماتے ہیں:
پہلے زمانے میں کوئی حدیث بیان کرتا تو اس سے سند نہ پوچھتے۔ پھر جب فتنہ پھیلا (یعنی گمراہی شروع ہوئی اور بدعتیں روافض اور خوارج اور مرجیہ اور قدریہ کی شائع ہوئیں) تو لوگوں نے کہا: اپنی اپنی سند بیان کرو۔ پھر دیکھا جائے گا اگر روایت کرنے والے اہل سنت ہیں تو قبول کی جائے گی روایت ان کی اور جو بدعتی ہیں تو نہ قبول کریں گے روایت ان کی۔
اور امام عبداللہ بن مبارک (م181ھ) کا فرمان نقل فرماتے ہیں:
اسناد، دین میں داخل ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو ہر شخص جو چاہتا کہہ ڈالتا (اور اپنی بات چلا دیتا)۔
سوال یہ ہے کہ جب پہلی صدی میں سند دین نہیں تھی تو دوسری صدی میں کس وہیں سے اسے دین قرار دیا گیا، کیا پہلی صدی کے لوگ معاذ اللہ بے دین ہی تھے؟؟؟

(2) سند کی تحقیق فرض ہے یا سنت یا واجب یا مستحب، صرف ایک صریح آیت یا صحیح صریح حدیث پیش فرمائیں، جس سے سند کے مطالب و تحقیق کا فرض ہونا ثابت ہو۔ اور یہ بھی فرمائیں کہ پہلی صدی والے مسلمان اس آیت یا حدیث کو کیوں نہیں مانتے تھے؟
ابن سیرین اور ابن مبارک نے بھی کوئی آیت یا حدیث پیش نہیں کی، محض قیاسی وجہ بیان کی ہے۔

(3) خیر القرون والوں نے اپنے قیاس سے یہ اصول بنایا کہ اہل بدعت سے حدیث نہ لی جائے، مگر بعد والوں نے خصوصا صحاح ستہ والوں نے اس اصول کو نہیں مانا، مثلاً: امام بخاریؒ مندرجہ ذیل راویوں سے حدیث لاتے ہیں:
(1) عمر بن ذر الهمداني جو مرجئہ کے سردار تھے۔
[تهذيب التهذيب: ج7/ ص444-445، الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند]
(2) ابومعاویہ بھی خبیث مرجئہ کے رئیس تھے۔
[تهذيب التهذيب:6/ 139]
(3) عبد العزیز بن ابی رواد والی مرجئہ سے تھے۔
[تهذيب التهذيب:6/ 339]
(4) اسحاق بن سوید، حضرت علی کا سخت دشمن تھا۔
[تهذيب التهذيب:1/ 236]
(5) حریز بن عثمان، صبح و شام حضرت علی پر ستر ستر مرتبہ لعنت بھیجتا تھا اور اپنے مذہب کا داعی تھا۔
[تهذيب التهذيب:2/ 240]
(6) جریر بن عبدالحمید حضرت معاویہ کو اعلانیہ گالیاں دیتا تھا۔
[تهذيب التهذيب:2/ 77]
(7) بہز بن اسد، حضرت عثمان کا مخالف بدمذہب تھا۔
[تهذيب التهذيب:1/ 498]
(8) واحد بن یعقوب غالی شیعہ تھا، حضرت عثمان کو گالیاں دیتا تھا۔
[تهذيب التهذيب:5/ 109]
(9) عوف بن ابی جمیلہ قادری رافضی شیطان تھا۔
[تهذيب التهذيب:8/ 167]
(10) عبد الملک بن اعین، ذراہ اور حمران تینوں بھائی رافضی تھے اور ان میں بڑا خبیث کال والا عبدالملک ہی تھا۔
[تهذيب التهذيب:6/ 385-386]
یہ دس راوی بطور مثال لکھے ہیں،ورنہ بخاری مسلم میں ایسے راوی بہت ہیں۔

(4) خیرالقرون کے خلاف جس طرح امام بخاری نے بہت سے اہل بدعت کی حدیث لی ہے، خیرالقرون کا اصول تھا کہ اہل سنت سے حدیث لی جائے مگر امام بخاری نے بہت سے اہل سنت بلکہ ائمہ اہل سنت سے حدیث نہیں لی۔

(5) جب اسناد دین ہے اور تو تعلیقاتِ بخاری جن کی اسانید محدثین کو نہیں ملی یا ترمذی کے فی الباب کی بعض سندیں نہیں ملیں، اس بارے میں امام بخاری اور امام مسلم کو بے دین کہا جائے گا؟ یا بعد والے سب محدثین کو کم علم کہا جائے گا؟

(6) آجکل جو لوگ اپنی تقریر یا تحریر میں احادیث پیش کرتے ہیں وہ نہ سند بیان کرتے ہیں نا رواۃ کی توثیق(Authentication) بیان کرتے ہیں، ایسی کتاب لکھنے والے یا ایسی تقریر کرنے والے اور ان کے پڑھنے سننے والے سب بے دین ہیں یا نہیں؟؟؟

(7) تقريب التهذيب، تهذيب التهذيب، خلاصہ، طبقات الحفاظ، ميزان الاعتدال وغیرہ کتب کتبِ اسماء الرجال جن پر آج کل تنفیذِ حدیث کا مدار ہے، یہ سب بھی سند اقوال کا مجموعہ ہیں، اور اکثر جرحیں بے دلیل (بلا معقول وجہ) بھی ہیں، ان کے لکھنے یا پڑھنے والوں کے دین کے بارے میں کیا حکم ہے؟ مثلاً: آٹھویں صدی کا ایک آدمی بغیر سند کے دوسری صدی کے آدمی کا قول نقل کرتا ہے۔

(8) جب پہلی صدی کے اصول حدیث (کہ سند کا مطالبہ ضروری نہیں) دوسری صدی والوں نے نہیں مانا (کہ سند کو دین قرار دے دیا) اور دوسری صدی والے اصول حدیث کہ اہل سنت کی حدیث قبول اور اہل بدعت کی حدیث مردود ہے کو صحاح ستہ والوں نے نہیں مانا نا کہ بہت سے اہل بدعت کی احادیث لے لیں اور بہت سے امام اہلسنت کی احادیث رد کر دیں تو بعد والوں کا بنایا ہوا اصول حدیث جو آج رائج ہے اس کا ماننا کس آیت یا حدیث صحیح کی بنا پر ضروری ہے اور پہلے لوگ اس آیت وحدیث پر عمل سے کیوں محروم رہے؟؟؟

(9) ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ (اسناد دین میں سے ہے)، دوسری طرف محدثین یہ بھی فرماتے ہیں کہ صحت سند، صحت متن کو مستلزم نہیں۔ کیا یہ صحیح احادیث کے انکار کا چور دروازہ تو نہیں؟؟؟

(10) محدثین یہ بھی فرماتے ہیں کہ حدیث کی سند صحیح نہ ہو، لیکن امت میں تلقی بالقبول حاصل ہو تو وہ حدیث بھی صحیح ہے۔
[تدریب الراوی:1/ 66، التمهيد - ابن عبد البر:10/ 251، 16/ 218 ، مقدمة ابن الصلاح:80]
اب سند کی کیا حیثیت رہی؟

(11) تهذيب التهذيب میں صحاح ستہ کے رواۃ کا ذکر ہے جن کی تعداد تقریباً ساڑھے بارہ ہزار ہے، اور "میزان الاعتدال" ضعیف راویوں کے لیے مرتب کی گئی ہے جس میں تعداد تقریبا گیارہ ہزار ہے، گویا صحاح ستہ کے رواۃ کا اگر یہ حال ہے تو باقی کتب حدیث کا کیا حال ہوگا، اور سند کی تحقیق اور تنقید میں اولیت راوی کو ہی حاصل ہے؟ باقی سند کے عیوب الگ رہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

غیر مقلدین(نام نہاد اہل حدیث) سے چند سوالات

غیر مقلدین سے چند سوالات
سوال1۔ کیا قرآن پاک میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل موجود ہے؟
(نوٹ) بالتفصیل سے مراد شرائط، ارکان، واجبات، سنن موکدہ، مستحبات، مباحات، مکروہات اور مفسدات ہیں، ان میں ہر ایک کی تعداد، ہر ایک کی تعریف،ہر ایک کے عمد اور سہوا چھوٹ جانے کا حکم صرحة موجود ہونا ہے۔
سوال2۔کیا بخاری شریف میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل و بالترتیب موجود ہے؟
سوال3۔کیا مسلم شریف میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل و بالترتیب موجود ہے؟
سوال4۔کیاسنن نسائی میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل و بالترتیب موجود ہے؟
سوال5۔ کیا جامع ترمذی میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل و بالترتیب موجود ہے؟
سوال6۔ کیا سنن ابی داؤد میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل و بالترتیب موجود ہے؟
سوال7۔ کیا سنن ابن ماجہ میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل و بالترتیب موجود ہے؟
(نوٹ) جب صحاح ستہ میں سے کسی ایک کتاب میں بھی نماز کے مکمل مسائل بالتفصیل وبالترتیب موجود نہیں تو یہ چھ6محدثین نماز کس طرح پڑھا کرتے تھے
سوال8۔ کیا کسی محدث نے نماز کی ایسی جامع کتاب مرتب فرمائی ہے جس میں نماز کا طریقہ مکمل بالتفصیل و بالترتیب ہو، اس میں ہر ہر مسئلہ صحیح، غیر معارض سے پیش فرمایا ہو۔ اور اس کتاب کی صحت پر کوئی آیت یا حدیث صریح دلیل ہو؟
سوال9۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زیر نگرانی کوئی ایسی کتاب مرتب کروائی، جس میں نماز کا مکمل طریقہ بالتفصیل و بالترتیب درج ہو؟ اور وہ کتاب آج تک امت میں متداول ہو؟
سوال10۔ کیا خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں سے کسی خلیفہ راشد نے اپنی زیر نگرانی کوئی نماز کی ایسی جامع کتاب مرتب کروائی جس کو آج تک امت میں تلقی بالقبول کا شرف حاصل ہو؟
سوال11۔ اس امت میں سب سے پہلے کس نے نماز کو بالتفصیل و بالترتیب مرتب کروایا، جن کی مرتب نماز امت میں آج تک متداول ہے؟
(نوٹ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت میں فرائض کا حساب ہوگا، اور ان میں اگر کمی ہوگی تو نوافل سے پوری کی جائے گی،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں فرائض اور سنتوں کا بیان فرمایا ہے۔
(نماز پڑھنے سے پہلے جو باتیں ضروری ہیں، ان کو ائمہ مجتہدین شرائط نماز کہتے ہیں، ائمہ اربعہ کی فقہ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ امت کا اجماع ہے کہ نماز کی کچھ شرائط ہیں)
سوال12۔ آپ یہ بتائیں کہ نماز کی شرائط قرآن کریم میں کتنی مذکور ہیں؟ اور کیا کیا ہیں؟
سوال13۔ آپ یہ بیان فرمادیں کہ نماز کے ارکان کون کون سے ہیں؟ اور رکن کی تعریف کیا ہے؟
سوال14۔آپ یہ بیان فرمادیں کہ نماز میں واجبات کتنے ہیں؟ نیز واجب کی تعریف بھی بیان فرمائیں؟
سوال15۔ آپ یہ بیان فرمائیں کہ نماز میں کتنی چیزیں سنت موکدہ ہیں؟ اور سنت موکدہ کی تعریف بھی بیان فرمادیں؟
سوال16۔ آپ کے نزدیک نماز میں کتنے کام مستحب ہیں اور مستحب کی تعریف بھی بیان ہو؟ (قرآن، و صریح صریح غیر معارض حدیث سے)
سوال17۔ آپ کے نزدیک نماز میں کتنے کام مباح ہیں،اور مباح کی تعریف بھی بیان فرمائیں؟ (قرآن، و صریح صریح غیر معارض حدیث سے)
سوال18۔ آپ کے نزدیک کتنی چیزوں سے نماز مکروہ ہوتی ہے، اور مکروہ کی تعریف بھی بیان فرمائیں؟ (قرآن، و صریح صریح غیر معارض حدیث سے)
سوال19۔ آپ کے نزدیک نماز میں کتنی چیزوں نماز کو فاسد کردیتی ہیں؟ باطل اور فاسد کی تعریف بھی بیان فرمائیں؟ (قرآن، و صریح صریح غیر معارض حدیث سے)
سوال20۔ آپ کے یہاں فجر کے نماز کی کتنی رکعتیں ہیں؟سنت اور فرض کا لفظ صراحة حدیث میں ہو۔
سوال21۔ آپ کی یہاں ظہر کی کتنی رکعت ہیں؟ فرض ، سنت و نفل کا لفظ صراحة حدیث میں موجود ہو۔
سوال22۔ آپ کی یہاں عصر کی کتنی رکعت ہیں؟ سنت اور فرض کی صراحت حدیث میں ہو۔
سوال23۔ آپ کے یہاں مغرب کی کتنی رکعات ہیں؟ فرض و سنت کی تفصیل صراحة حدیث میں ہو۔
سوال24۔ آپ کے یہاں عشاءکی کتنی رکعت ہیں؟ فرض، سنت و نفل کی تفصیل صراحة حدیث میں موجود ہو۔
سوال25۔ آپ کے یہاں جو مجتہدین، محدثین، اور دیگر مسلمان نماز کی شرائط، ارکان، واجبات، سنن،مکروہات و مفسدات کے قائل ہیں، وہ مسلمان ہیں یا کافر؟
سوال26۔تکبیر تحریمہ فرض ہے یا واجب یا سنت یا مستحب؟ حکم صراحة آیت یا حدیث میں مذکور ہو۔
سوال27۔ آپ کے یہاں تکبیر تحریمہ امام کے لئے بلند آواز سے کہنا سنت ہے اور مقتدی کے لئے آہستہ آواز سے۔ یہ حدیث میں دکھائیں؟