Wednesday 24 October 2012

حج روحانی اور اخلاقی تربیت کا مثالی نظام



حج بیت اللہ روحانی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ


از: ریحان اختر، ریسرچ اسکالر‏، شعبہٴ دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی


          اسلام میں عبادتیں دو طرح کی ہیں، ایک کا تعلق انسان کے جسم سے ہوتا ہے، مثلاً نماز، روزہ وغیرہ اور عبادت کی دوسری قسم کا تعلق انسان کے مال سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صاحبِ ثروت کی ذاتی کمائی میں معذور اور مجبور بندگانِ خدا کا بھی حصہ ہوتا ہے، جو زکوٰة صدقات کی شکل میں حق داروں کو پہنچایا جاتا ہے۔ ان دوعبادتوں کے مجموعے کو حج کہا جاتا ہے، جس میں جسمانی عبادت کے ساتھ مالی عبادت بھی انجام پاجاتی ہے۔ شاید اسی حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے خداوند عالم نے صرف صاحب استطاعت مسلمانوں پر ہی اس عبادت کو فرض کیا ہے، جس کی انجام دہی کے لیے جسمانی مشقت، مالی اخراجات کے ساتھ اپنے اہل وعیال اور وطنِ عزیز کی جدائی کا غم بھی اٹھانا پڑتا ہے۔
          جس طرح نماز، روزہ اور زکوٰة تمام عبادتیں سابقہ شریعتوں میں فرض تھیں، اسی طرح کسی مقدس ومحترم مقام کی زیارت کے لیے جانا بھی کسی نہ کسی صورت تمام شریعتوں میں تھا؛ مگر حقیقتاً فریضہٴ حج ملت ابراہیمی کی یادگار ہے جو قیامت تک زندہ تابندہ رہے گی۔ قرآن پاک میں متعدد آیات میں حج بیت اللہ کی زیارت کا ذکر آیا ہے۔ اور آیات قرآنی میں حج کے تمام ضروری احکام وہدایات واضح کردی گئی ہیں۔ فریضہٴ حج صرف صاحب استطاعت لوگوں پر ہے، اللہ پاک کا ارشاد ہے:
          وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ الیہ سَبِیْلا (آل عمران آیت ۹۷)
          ترجمہ: اوراللہ تعالیٰ کے لیے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔
          حج تو درحقیقت خدا کی اس مقدس سرزمین پر حاضری کا نام ہے، جہاں نبیوں، رسولوں اور برگزیدہ بندوں نے اپنی حاضری کے ذریعہ اطاعت وبندگی کا فریضہ انجام دیا ہے، اور اپنی اطاعت وبندگی کا عہدوپیمان کیا ہے۔ درحقیقت اس فریضہ کی ادائیگی کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں اپنی غلطیوں سے توبہ کرنا اور اپنے انتہائی محسن ومنعم ومولیٰ و مالک کو منانا ہے؛ تاکہ وہ ہم پر نظررحمت کردے اور ہمارے ساتھ عفودرگزر کا معاملہ کرے؛ کیوں کہ وہ رحم وکرم اور لطف وعنایت کا بحرِبے کراں ہے۔
          حج انسان کو کس طرح سے اللہ رب العزت کی نگاہ میں معزز ومکرم اور موقر ومحترم بنادیتا ہے اور حج کی ادائیگی کے بعد اس کی زندگی میں کیسی زبردست تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور کس طرح سے اس کی تربیت ہوجاتی ہے، پیغمبر اعظم کا ارشاد گرامی ہے کہ:
          عَنْ أبِيْ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَانَّہُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ کَمَا یَنْفِی الْکِیْرُ خُبْثَ الْحَدِیْدِ وَالذَّہَبِ وَالْفِضَّة(مشکوٰة المصابیح کتاب المناسک ،ص:۲۲۰)
          آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: حج اور عمرہ یکے بعد دیگرے ادا کرو؛ اس لیے کہ یہ دونوں افلاس اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، چاندی اور سونے کے میل کو دور کردیتی ہے۔
          ایک دوسری حدیث میں ہے:
          عَنْ اُمِّ سَلْمَةَ قَالَتْ سَمعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ أَہَلَّ بِحَجَّةٍ أوْ عُمْرَةٍ عَنِ الْمَسْجِدِ الأقْصٰی الی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ غُفِرَ لَہ مَا تَقَدَّمَ عَنْ ذَنّبِہ وَمَا تَأخَّرَ وَ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّةُ (مشکوٰة المصابیح، کتاب المناسک،ص:۲۲۲)
          حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو شخص احرام باندھے حج اور عمرہ کا مسجدِ اقصیٰ سے مسجد حرام تک اس کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور جنت اس کے لیے واجب ہوجاتی ہے۔
          حج بیت اللہ تو مومنین کے لیے توبہ وانابت، روحانی تربیت،اور رجوع الی اللہ کا بہترین ذریعہ ہے اور بندگی و طاعت اور خودسپردگی کا مظہر ہے۔ ایک مومن کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ عشقِ خداوندی اور محبتِ الٰہی سے اپنے قلوب واذہان کو مسحور رکھے۔ جب احرام باندھے اور تلبیہ ”لبیک اللّٰہم لبیک“ کا ورد کرے، تو ایسا محسوس ہوکہ بارگاہ الٰہی سے بندہ کو اطاعت و فرمانبرداری کے لیے بلایا جارہا ہے، اس پکار سے آدمی کے اندر عبدیت وبندگی کا احساس تازہ ہو اور خواہش نفس پر قابو پانے کا جذبہ نشوونما پائے۔ اس عمل سے ہر ہر قدم پر تواضع وانکساری، روحانی کیف وسرور، خوف وخشیت، اخلاص وللہیت پیدا ہوجائے۔ صبر وتحمل کی عادت پڑجائے، فریضہٴ حج کی ادائیگی سے موٴمن ایسا پاک وصاف ہوجاتا ہے کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ کا حقیقی مصداق بن جاتا ہے۔
           بحسن وخوبی اس فریضہ کی ادائیگی کے بعد آدمی کی پوری ذات اطاعت وبندگی، خوف وخشیتِ ربانی اور فنا فی اللہ کا ترجمان بن جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ ہر برے عمل سے اجتناب کرنے لگتا ہے، اس کے اندر اعمالِ صالحہ کی طرف سبقت کاذوق وشوق بڑی تیزی سے بڑھ جاتا ہے، اس کی زندگی میں انقلاب آجاتا ہے، اب اس کی زندگی میں ایک نئی روح، ایک نئی حیات اور اس کا ایک نیا دور شروع ہوجاتا ہے، جس میں دین ودنیا کی بھلائیاں جمع اور دونوں کی کامیابی شامل ہوتی ہے۔
          حج بیت اللہ درحقیقت وہ عظیم الشان فریضہ ہے جس میں ایک حاجی کو وقت کی قربانی دینا پڑتی ہے، مال خرچ کرنا پڑتا ہے اور جسمانی مشقتیں جھیلنا پڑتی ہیں۔ مزید برآں اعزہ واقرباء اور احباب و رفقاء سے دور ہوکر اور ان کی یادوں کو بالائے طاق رکھ کر اللہ رب العزت اور اس کے حبیب محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یادوں کے ورد کو اس تربیتی کورس میں اپنی زندگی کا شیوہ بناتا ہے، اس طرح اس کے اندر اخلاص وللہیت، اخوت ومحبت، ایثار وقربانی اور دوسرے ان تمام اوصافِ حسنہ کو نشونما دینے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے جس کے دور بیں اثرات ونتائج اس کی عملی زندگی میں سامنے آتے ہیں اور پھر بلاشبہ اس کی زندگی قوم وملت بلکہ پوری دنیا کے لیے موجبِ سعادت ورحمت ثابت ہوجاتی ہے۔
***


حجة الوداع کا پیغام امتِ مسلمہ کے نام

از:           نصیرالدین قاسمی ولیدپوری،          استاذ: دارالعلوم مدنی دارالتربیت کرمالی گجرات

                اذا جاء نصر اللّٰہ الخ، جب اللہ کی مدد آئے گی اور مکہ فتح ہوگا، تو تم دیکھوگے کہ لوگ دین خداوندی میں جوق درجوق داخل ہورہے ہیں، اب تم اللہ کی یاد میں مصروف ہوجاؤ اور استغفار کرو، بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔
آخری حج کی تیاری
                جب یہ سورت نازل ہوئی، تو پیغمبرِ انسانیت نے اللہ کی مرضی اور منشاء کو پالیا کہ اب وقتِ رحلت قریب آگیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے خانہٴ کعبہ کی تطہیر کا آخری اعلان کراچکے تھے، کہ آیندہ کسی مشرک کو اللہ کے گھر میں داخل ہونے اور برہنہ طواف کرنے کی اجازت نہ ہوگی، حضور ﷺ نے ہجرت کے بعد فریضہ حج ادا نہیں فرمایا تھا، اب ۱۰ھ میں ارادہ ہوا کہ سفر آخرت سے پہلے پوری امت مسلمہ کے ساتھ مل کر آخری حج کیاجائے، حضرت علی کو یمن سے بلایاگیا، قبائل کو آدمی بھیج کر ارادئہ پاک کی اطلاع دی گئی، تمام ازواجِ مطہرات کو رفاقت کی خوشخبری سنائی گئی، حضرت فاطمہ کو تیاری کا حکم دیاگیا، ۲۵/ذی قعدہ کو مسجدِ نبوی میں جمعہ ہوا اور وہیں ۲۶/کی روانگی کا اعلان ہوگیا، جب ۲۶/ کی صبح منور ہوئی، تو چہرئہ انور سے روانگی کی مسرتیں پوری طرح نمایاں ہورہی تھیں، آپ ﷺ نے غسل کرکے لباس تبدیل فرمایا اور ادائے ظہر کے بعد، تہلیل و تکبیر کے ترانوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، اس وقت ہزارہا پروانہٴ امت اپنے نبیِ رحمت ﷺ کے ہم رکاب تھے، یہ مقدس قافلہ مدینہ منور سے ۶/میل دور ذی الحلیفہ میں پہنچ کر ٹھہرا اور ذی الحلیفہ میں رات گذار کر دوسرے روز روانہ ہوا، روانہ ہونے سے پہلے آپ ﷺ پھر حمدوثنا میں مشغول ہوگئے اور بڑے سوز وگداز سے دو رکعتیں ادا کیں، پھر قصویٰ (آپ ﷺ کی اونٹنی کا نام ہے) پر سوار ہوکر احرام باندھا اور ترانہٴ لبیک بلند کردیا: ”لبیک اللّٰہم لبیک لاشریکَ لکَ لبیک ان الحمدَ والنمعةَ لک والملکَ لک لاشریک لک“
                اس ایک صدرائے حق کی اتباع میں ہزار ہا عاشقانِ خدا کی صدائیں بلند ہونے لگیں، آسمان کا جوف تکبیر وتہلیل کی صداؤں سے لبریز ہوگیا اور دشت وجبل توحید کے ترانوں سے گونجنے لگے، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں جہاں تک انسان کی نظر کام کرتی تھی، انسان ہی انسان نظر آتے تھے، جب اونٹنی کسی اونچی جگہ سے گذرتی تو تین تین مرتبہ صدائے تکبیر بلند فرماتے، آوازِ نبوی کے ساتھ لاکھوں عاشقانِ رسول کی آوازیں اٹھتیں، اور کاروانِ نبوت کے لبوں پر نعرہ ہائے تکبیر کا ایک دریائے رواں جاری ہوجاتا، سفر مبارک پورے نوروز جاری رہا،۴/ ذی الحجہ کو طلوعِ سحر کے ساتھ مکہ معظمہ کی عمارتیں نظر آنے لگیں اور ہاشمی خاندان کے نونہالان اپنے عظیم محسن کی تشریف آوری کی خوشخبری سن کر اپنے گھروں سے خوش وخرم دوڑتے ہوئے نکل رہے تھے کہ چہرئہ انور کی مسکراہٹوں کے ساتھ لپٹ جائیں، ادھر سرورعالم ﷺ شفقتِ منتظر کی تصویر بن رہے تھے، حضور پاک ﷺ نے اپنے کم سن بچوں کے شگفتہ چہرے دیکھے، تو جوش محبت سے جھک گئے اور کسی کو اونٹ کے آگے بٹھالیا اور کسی کو پیچھے سوار کرلیا، تھوڑی دیر بعد کعبة اللہ کی عمارت پر نظر پڑی تو فرمایا: ”اے اللہ! خانہ کعبہ کو اور زیادہ شرف وامتیاز عطا فرما“ معمارِ حرم نے سب سے پہلے کعبة اللہ کا طواف فرمایا، پھر مقام ابراہیم کی طرف تشریف لے گئے اور دوگانہٴ تشکر ادا کیا، اس وقت زبان پاک پر یہ آیت جاری تھی ﴿وَاتَّخِذُوا مِن مَّقامِ ابراہیمَ مُصَلّیٰ﴾ اور مقام ابراہیم کو سجدہ گاہ بناؤ۔
                کعبة اللہ کی زیارت کے بعد صفا اور مروہ کی پہاڑیوں پر تشریف لے گئے، یہاں پر کعبة اللہ کا پرکشش منظر نظر آیا، تو زبان مبارک سے ابر گہرِبار کی طرح کلمات توحید و تکبیر جاری ہوگئے ﴿لا الٰہ الا اللّٰہ وحدَہ لاشریکَ لَہ، لہ الملکُ ولہ الحمدُ یُحْیِی ویُمیتُ وہُوَ علی کلِّ شيءٍ قدیر، لا الٰہ الا اللّٰہ وحدَہ اَنْجَزَ وَعْدَہ نَصَرَ عَبْدَہ وہَزَمَ الأحْزَابَ وَحْدَہ﴾ خدا ہی صرف معبودِ برحق ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، ملک اس کا، حمد اس کے لیے، وہی جلاتا اور مارتا ہے، ہر چیز پر اسی کی قدرت ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے وعدہ پورا کردیا، اس نے اپنے بندوں کی نصرت فرمائی اور تنہا تمام قبائلی جمعیتوں کو پاش پاش کردیا۔
                ۸/ذی الحجہ کو منیٰ میں قیام فرماکر ۹/کو جمعہ کے روز، نمازِ فجر ادا کرکے منیٰ سے روانہ ہوئے اور وادی نمرہ میں آٹھہرے، دن ڈھلنے کے قریب میدان عرفات میں تشریف لائے، تو ایک لاکھ چوبیس ہزار توحید پرستوں کا ایک جم غفیر سامنے تھا اور زمین سے آسمان تک تکبیر وتہلیل کی صدائیں گونج رہی تھیں، اب سرکارِ دوعالم قصویٰ پر سوار ہوکر آفتابِ عالم تاب کی طرح کوہِ عرفات کی چوٹی سے طلوع ہوئے؛ تاکہ خطبہٴ حج ادا فرمائیں۔
خطبہٴ حج الوداع
                حجة الوداع کے وقت دولت وحکومت کا سیل رواں مسلمانوں کی طرف امنڈتا چلا آرہا تھا اور رسول اللہ ﷺ کا غم یہ تھا کہ دولت کی فراوانی، امت کے اتحاد کو پاش پاش کردے گی، اسی لیے اتحادِ امت کا موضوع اپنے سامنے رکھ لیا اور پھر دردِ امت کی پوری توانائی اسی موضوع پر صرف فرمادی، پہلے نہایت درد انگیز الفاظ میں قیامِ اتحاد کی اپیل کی، پھر فرمایا کہ پس ماندہ طبقات کو شکایت کا موقع نہ دینا، تاکہ حصارِ اسلام میں کوئی شگاف نہ پڑجائے، پھر اسباب نفاق کی تفصیل بیان کرکے ان کی بیخ کنی کا عملی طور پر سروسامان فرمایا، پھر واضح کیا کہ جملہ مسلمانوں کے اتحاد کا مستقل سنگِ اساس کیا ہے؟ آخری وصیت یہ فرمائی کہ ان ہدایات کو آیندہ نسلوں میں پھیلانے اور پہنچانے کے فرض میں کوتاہی نہ کرنا، خاتمہٴ تقریر کے بعد حضور ﷺ نے اپنی ذات کی سرخ روئی کے لیے حاضرین سے شہادت پیش کرتے ہوئے اس طرح بار بار اللہ کو پکارا کہ مخلوق خدا کے دل پگھل گئے، آنکھیں سیلاب بن گئیں اور روحیں انسانی جسموں میں تڑپنے لگیں۔
                حمد وصلوة کے بعد خطبہ حج کا پہلا درد انگیز فقرہ یہ تھا:
                اے لوگو! میں خیال کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں اور تم اس اجتماع میں کبھی دوبارہ جمع نہیں ہوں گے۔
                اس ارشاد سے اجتماع کی غرض وغایت اظہر من الشمس ہوکر سب کے سامنے آگئی اور جس نے بھی یہ ارشاد مبارک سنا، تڑپ کر رہ گیا، اب اصل پیغام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
                ”اے لوگو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت وناموس اسی طرح ایک دوسرے پر حرام ہے جس طرح یہ دن (یوم قربانی) یہ مہینہ (ذی الحجہ) اور یہ شہر (مکہ مکرمہ) تم سب کے لیے قابلِ حرمت ہے“ اور اسی نکتہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ”اے لوگو! آخر تمہیں بارگاہ خداوندی میں حاضر ہونا ہے، وہاں تمہارے اعمال کی باز پرس ہوگی، خبردار! میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو“
                رسول پاک کی یہ دردمندانہ وصیت زبان مبارک سے نکلی اور تیر کی طرح دلوں میں پیوست ہوگئی، اس کے بعد آپ ﷺ نے ان نفاق انگیز شگافوں کی طرف توجہ دلائی جن کے پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، یعنی یہ کہ اقتدار اسلام کے بعد غریب اور پس ماندہ گروہوں پر ظلم کیا جائے گا اس سلسلہ میں فرمایا:
                ”اے لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہنا، تم نے نامِ خدا کی ذمہ داری سے انھیں زوجیت میں قبول کیا ہے، عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ غیر کو تمہارے بستر پر نہ آنے دیں، اگر وہ ایسا کریں، تو تم انہیں ایسی مار مارو جو نمایاں نہ ہو اور عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ انہیں با فراغت کھانا کھلاؤ اور بافراغت کپڑا پہناؤ اور جو خود کھاؤ وہی اپنے غلاموں کو بھی کھلاؤ، جو پہنو وہی انھیں بھی پہناؤ“
رسم جاہلیت کی بیخ کنی
                عرب میں فساد وخوں ریزی کی بڑی بڑی دو وجہیں تھیں: (۱) ادائے سود کے مطالبات (۲) مقتولوں کا انتقام: ایک شخص دوسرے شخص سے اپنے قدیم خاندانی سود کا مطالبہ کرتا اور یہی جھگڑا پھیل کر خون کا سمندر بن جاتا، ایک آدمی دوسرے آدمی کو قتل کردیتا، اس سے نسلاً بعد نسلٍ قتل وانتقام کے سلسلے جاری ہوجاتے، رسول اللہ ﷺ نے انھیں دونوں اسبابِ فساد کو باطل فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
                ”اے لوگو! آج میں جاہلیت کے تمام قواعد ورسوم کو اپنے قدموں سے پامال کرتا ہوں، میں جاہلیت کے قتل وغارت گری کے جھگڑے کو ملیامیٹ کرتا ہوں اور سب سے پہلے خود اپنے خاندانی مقتول ربیعہ بن حارث کے خون سے جسے ہذیل نے قتل کیا تھا، دست بردار ہوتا ہوں، زمانہٴ جاہلیت کے تمام سودی مطالبات باطل قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے خود اپنے خاندانی سودعباس بن عبدالمطلب کے سود سے دست بردار ہوتا ہوں۔“
                اہل عرب کے نزاع اور اسباب کا دفعیہ ہوچکا، تو اس میں بین الاقوامی تفریق کی طرف توجہ فرمائی، جو صدیوں کے بعد عرب وعجم، یا گورے اور کالے کے نام سے پیدا ہونے والی تھی، ارشاد فرمایا:
                ”اے لوگو! تم سب کا خدا بھی ایک ہی ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک ہے، لہٰذا کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر، کسی کالے کو گورے پر کوئی پیدایشی برتری اور فضیلت نہیں ہوگی، ہاں! افضل وہ ہے جو پرہیزگار ہو، ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان ایک کنبہ اور خاندان کے مانند ہیں۔“
                اس کے بعد آپ ﷺ نے اتحادِ اسلام کی اساس کی طرف رہ نمائی فرمائی اور ارشاد فرمایا:
                ”اے لوگو! میں تم میں وہ چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا، تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے، وہ چیز ہے اللہ کی کتاب۔
                اس کے بعد آپ ﷺ نے اتحادِ امت کے عملی پروگرام کی طرف رہ نمائی فرمائی اور یوں گویا ہوئے:
                ”اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور نہ میرے بعد کوئی نئی امت ہے، پس تم سب اللہ کی عبادت کرنا، نماز پنج گانہ کی پابندی کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکوٰة دینا، اللہ کے گھر کا حج کرنا اور اللہ کی جنت میں جگہ حاصل کرنا۔“
                آخر میں فرمایا: ﴿وَاَنْتُمْ تُسْألُون عَنِّی فَمَا أنْتُم قَائِلُون﴾ ترجمہ: ایک دن اللہ تعالیٰ تم لوگوں سے میرے متعلق گواہی طلب کریں گے، تم اس وقت کیا جواب دوگے؟
                اس پر مجمع عام سے پرجوش صدائیں بلند ہوئیں:
                ”انَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ، وَاَدَّیْتَ، وَنَصَحْتَ“ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے سب احکام پہنچادئیے، آپ نے فرضِ رسالت ادا کردیا، آپ نے کھرے کھوٹے کو الگ کردیا۔
                اس وقت حضور سرور عالم ﷺ کی انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھی، ایک دفعہ آسمان کی طرف انگلی اٹھاتے تھے اور دوسری دفعہ مجمع کی طرف اشارہ کرتے تھے اور کہتے جاتے تھے”اللّٰہُمَّ أشْہَدْ، اللّٰہُمَّ أشْہَدْ، اللّٰہُمَّ أشْہَدْ“ اے اللہ خلق خدا کی گواہی سن لے، اے اللہ خلق خدا کا اعتراف سن لے، اے اللہ گواہ ہوجا۔
                اس کے بعد ارشاد فرمایا:
                ”جو لوگ حاضر ہیں، وہ ان لوگوں تک جو یہاں موجود نہیں ہیں، میری ہدایات پہنچاتے چلے جائیں؛ ممکن ہے کہ آج کے بعض سامعین سے زیادہ پیام تبلیغ کے سننے والے اس کلام کی محافظت کریں“
تکمیل دین اور اتمامِ نعمت
                خطبہٴ حج سے فارغ ہوئے، تو جبرئیل امین وہیں تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کا تاج شہنشاہی لے آئے اور یہ آیت نازل ہوئی ﴿اَلْیَومَ أکملتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُم الاسلامَ دِیْنًا﴾ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت مکمل کردی اور دین اسلام پر اپنی رضامندی کی مہر لگادی۔
                سرکار دوعالم ﷺ نے جب لاکھوں کے اجتماع میں اتمامِ نعمت اور تکمیل دین کا یہ آخری اعلان فرمایا، اختتام خطبہ کے بعد حضرت بلال نے اذان دی اور حضور ﷺ نے ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھائی، پھر ناقہ پر سوار ہوکر موقف پر تشریف لائے اور دیر تک دربار الٰہی میں کھڑے دعائیں کرتے رہے، غروبِ آفتاب کے قریب جب ناقہٴ نبوی ہجومِ خلائق میں سے گذری اور کثرت ہجوم کے باعث لوگوں میں اضطراب سا پیدا ہونے لگا، تو آپ ﷺ ارشاد فرماتے جاتے تھے ”السَّکِینَةَ أیُّہا النَّاسُ، السَکِینَةَ أیُّہا الناسُ“ لوگو! سکون کے ساتھ، مزدلفہ میں نماز مغرب وعشاء ادا کی، پھر نماز عشاء کے بعد لیٹ گئے اور صبح تک آرام فرماتے رہے، محدثین لکھتے ہیں کہ عمر بھر میں یہی ایک رات تھی جس کے اندر آپ نے نماز تہجد ادا نہیں فرمائی، ۱۰/ذی الحجہ کو جمرہ کی طرف روانہ ہوئے، چاروں طرف لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا، لوگ مسائل پوچھتے تھے اور آپ جواب دیتے تھے، جمرہ کے پاس ابن عباس نے کنکریاں چن کردیں، تو آپ نے انہیں پھینکا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا:
                اے لوگو! مذہب میں غلو کرنے سے بچنا، تم سے پہلی امتیں اسی سے برباد ہوئی تھیں۔
                تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد فراقِ امت کے جذبات تازہ ہوجاتے، تو آپ ارشاد فرماتے کہ ”اس وقت حج کے مسائل سیکھ لو! میں نہیں جانتا کہ شاید اس کے بعد مجھے دوسرے حج کی نوبت آئے“
                یہاں سے منی کے میدان میں تشریف لائے، آگے، پیچھے اور دائیں بائیں، مہاجرین، انصار، قریش اور دوسرے قبائل کی صفیں دریا کی طرح رواں تھیں اور ان میں ناقہ نبوی کشتی نوح کی طرح، سفینہٴ نجات بنا ہوا تھا۔
                پھر ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب کی حرمت کا اعلان کرتے ہوئے، مجمع کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: ”مسلمانو! تمہارا مال، تمہارا خون، تمہاری آبرو، اسی طرح محترم ہیں جس طرح یہ دن (یوم قربانی) جس طرح یہ مہینہ (ذی الحجہ) اور جس طرح یہ محترم شہر (بلدة الحرام) ہیں۔ تم میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، اے لوگو! توحید، نماز، روزہ، زکوٰة اور حج یہی جنت میں داخلے کے ذرائع ہیں، میں نے تمہیں حق کا پیغام پہنچادیا ہے، اب موجود لوگ یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچاتے رہیں، جو بعد میں آئیں گے۔“
                یہاں سے قربان گاہ کی طرف تشریف لائے اور ۶۳ اونٹ خود ذبح فرمائے اور ۳۷ کو حضرت علی سے ذبح کرایا اور ان کا گوشت اور پوست سب خیرات کردیا، پھر عبد بن معمر کو طلب کرکے سر کے بال اتروائے اور یہ موئے مبارک تبرکاً تقسیم ہوگئے، یہاں سے اٹھ کر خانہٴ کعبہ کا طواف فرمایا اور زمزم کا پانی نوش فرماکر منیٰ کی طرف واپس تشریف لے گئے اور ۱۲/ذی الحجہ تک وہیں مقیم رہے، ۱۳/ کو خانہٴ کعبہ کا آخری طواف کیا اور انصار ومہاجرین کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف مراجعت فرمائی۔
                جب غدیر خم پر پہنچے تو صحابہ کو جمع کرکے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! میں بھی بشر ہوں، ممکن ہے اللہ کا بلاوا جلد آجائے اور میں اسے قبول کرلوں، میں تمہارے لیے دو مرکز ثقل قائم کرچکا ہوں، ایک کتاب اللہ، جس میں ہدایت اور روشنی جمع ہیں، اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑلو، اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں خداترسی کی وصیت کرتا ہوں“ گویا یہ اجتماع امت کے لیے اہل وعیال کے حقوق واحترام کی وصیت تھی، مدینہ کے قریب پہنچ کر رات ذوالحلیفہ میں ٹھہرے اور دوسرے دن مدینہ منورہ میں داخل ہوگئے، حمد کرتے ہوئے اور شکریہ بجالاتے ہوئے۔
وہ کب کے آئے اور گئے بھی، نظروں میں اب تک سمارہے ہیں
یہ چل رہے ہیں، وہ پھر رہے ہیں، یہ آرہے ہیں، وہ جارہے ہیں






No comments:

Post a Comment