ظلم - یعنی :- ناحق، زیادتی، گناہ
حضرت انسؓ سے روایت ہے کی اللہ کے پیغمبر (ان پر اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو) نے فرمایا:
”ظلم کی تین قسمیں ہیں: (۱) اللہ تعالیٰ ایک ظلم کو کسی صورت نہیں چھوڑے گا، (۲) ایک ظلم کو بخش دے گا اور (۳) ایک ظلم معاف نہیں کیا جائے گا۔ (ان کی تفصیل یہ ہے) جس ظلم کو کسی صورت میں نہیں چھوڑا جائے گا، وہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔
[تفسير يحيى بن سلام: ج2 / ص673، سورۃ لقمان:13]
جس ظلم کو بخش دیا جائے گا وہ اللہ اور بندے کے مابین کیا ہوا ظلم ہے۔
[تفسير ابن كثير - ت السلامة: ج 2/ ص326، سورۃ النساء:48]
اور وہ ظلم جس کو معاف نہیں کیا جائے گا، وہ بندوں کا آپس میں ایک دوسرے پر کیا ہوا ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر صورت میں بعض (مظلوموں) کو بعض (ظالموں) سے قصاص(بدلہ) دلوائے گا۔
[مسند أبي داود الطيالسي:2223، مسند البزار:6493]
سلسلة الأحاديث الصحيحة:1927
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ﺩﻓﺘﺮ(اعمال نامے)ﺗﯿﻦ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﺘﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐچھ ﻣﻌﺎﻑ ﻧﮧ ﻓﺮﻣﺎئے گا۔ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﮐچھ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐچھ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌے گا۔
ﻭﮦ ﺩﻓﺘﺮ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐچھ ﻣﻌﺎﻑ ﻧﮧ ﻓﺮﻣﺎئے گا ﻭﮦ ﺷﺮﯾﮏ ﭨﮭﮩﺮﺍﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﮯ ﺳﺎتھ، ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭ ﺟﻞ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:...یقین جانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے، اللہ نے اس کے لیے جنت حرام کردی ہے...
[ﺳﻮﺭۃ المائدة:72]
ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﮐﭽھ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻥ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺭﻭﺯﮦ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ، یا ﻧﻤﺎﺯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯼ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﭼﺎہے گا ﺗﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩے گا ﺍﻭﺭ ﺩﺭ ﮔﺰﺭ ﻓﺮﻣﺎئے گا۔
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺩﻓﺘﺮ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﭽھ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌے گا ﻭﮦ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﯿﮟ۔ ﺍن کا ﺑﺪﻟﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ۔
[مسند أحمد:26031، تفسير ابن أبي حاتم:6643، المستدرك على الصحيحين للحاكم:8717، شعب الإيمان-للبيهقي:7473، جامع المسانيد لابن الجوزي:7390، التوحيد للمقدسي:75، تفسير ابن كثير:2/ 326، الدر المنثور في التفسير بالمأثور:2/ 558]
بےﺸﮏ ﺍﻟﻠﻪ ﻧﮧ ﺑﺨﺸﮯ ﮔﺎ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺮﯾﮏ ﭨﮭﮩﺮﺍﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗھ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﺨﺶ ﺩﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ (ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ) ﮐﻮ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ۔
[ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ:48]
پہل کرنے والا(حقیقی)ظالم ہوتا ہے۔
القرآن:
کیا تم ان (مکہ کے مشرک) لوگوں سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قسموں (یعنی صلحِ حدیبیہ) کو توڑا، اور پیغمبر کو (اسی کے وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا، اور وہی ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف (چھیڑ چھاڑ کرنے میں بھی) پہل کی؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ (اگر ایسا ہے) تو اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔
[سورۃ التوبۃ:13]
بدلہ لینے میں بھی ظلم (زیادتی) جائز نہیں۔
القرآن:
یہ بات طے ہے اور (آگے یہ بھی سن لو کہ) جس شخص نے کسی کو بدلے میں اتنی ہی تکلیف پہنچائی جتنی اس کو پہنچائی گئی تھی، اس کے بعد پھر اس سے زیادتی کی گئی، تو اللہ اس کی ضرور مدد کرے گا۔ یقین رکھو کہ اللہ بہت معاف کرنے والا، بہت بخشنے والا ہے۔
[سورۃ الحج:60]
سب سے بڑے ظالم کون؟؟؟
اور اس سے بڑا ظالم کون جس نے منع کیا اللہ کی مسجدوں میں کہ لیا جاوے وہاں نام اس کا اور کوشش کی انکے اجاڑنے میں [۱۶۳] ایسوں کو لائق نہیں کہ داخل ہوں ان میں مگر ڈرتے ہوئے [۱۶۴] انکے لئےدنیا میں ذلت ہے [۱۶۵] اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے. {2:114}
[۱۶۳] مساجد کا احترام:
اس کے شان نزول نصاریٰ ہیں کہ انہوں نے یہود سے مقاتلہ کر کے توریت کو جلایا اور بیت المقدس کو خراب کیا یا مشرکین مکہ کہ انہوں نے مسلمانوں کو محض تعصب و عناد سے حدیبیہ میں مسجد حرام (بیت اللہ) میں جانے سے روکا۔ باقی جو شخص کسی مسجد کو ویران یا خراب کرے وہ اسی حکم میں داخل ہے۔
[۱۶۴] یعنی ان کفار کو لائق یہی تھا کہ مساجد اللہ میں خوف و تواضع اور ادب و تعظیم کے ساتھ داخل ہوتے کفار نے جو وہاں کی بے حرمتی کی یہ صریح ظلم ہے یا یہ مطلب ہے کہ اس ملک میں حکومت اور عزت کے ساتھ رہنے کے لائق نہیں ۔ چنانچہ یہی ہوا کہ ملک شام اور مکہ اللہ نے مسلمانوں کو دلوا دیا ۔
[۱۶۵] یعنی دنیا میں مغلوب ہوئے، قید میں پڑے اور مسلمانوں کے باجگذار ہوئے۔
=================
اور اس سے زیادہ ظالم کون جو بہتان باندھے اللہ پر یا جھٹلا دے اسکی آیتوں کو بلاشک بھلائی نصیب نہیں ہوتی ظالموں کو . {6:21}
آخرت میں مشرکین کی حالت
یعنی نبی نہ ہو اور خدا پر افتراء کر کے دعویٰ نبوت کر بیٹھے یا سچے نبی سے جس کی صداقت کے دلائل واضحہ موجود ہوں خدائی پیام سن کر تکذیب پر کمر بستہ ہو جائے ان دونوں سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور سنت اللہ یہ ہے کہ ظالم کو انجام کار کامیابی اور بھلائی نصیب نہیں ہوتی۔ پس اگر فرض کرو۔ معاذ اللہ میں مفتری ہوں تو ہرگز کامیاب نہ ہوں گا اور تم مکذب ہو جیسا کہ دلائل سےظاہر ہے تو تمہاری خیریت نہیں۔ لہذا حالات میں غور کر کے اور انجام سوچ کر عاقبت کی فکر کرو۔ اور اس دن سے ڈرو جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ ابن کثیرؒ نے آیت کے یہ ہی معنی لئے ہیں اور بعض مفسرین نے افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ سے مشرکین کا شرک مراد لیا جیسا کہ آگے وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ میں اشارہ ہے ۔ واللہ اعلم۔
=================
اور اس سے زیادہ ظالم کون جو باندھے اللہ پر بہتان یا کہے مجھ پر وحی اتری اور اس پر وحی نہیں اتری کچھ بھی اور جو کہے کہ میں بھی اتارتا ہوں مثل اسکے جو اللہ نے اتارا [۱۲۰] اور اگر تو دیکھے جس وقت کہ ظالم ہوں موت کی سختیوں میں [۱۲۱] اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہیں کہ نکالو اپنی جانیں [۱۲۲] آج تم کو بدلے میں ملے گا ذلت کا عذاب [۱۲۳] اس سبب سے کہ تم کہتےتھے اللہ پر جھوٹی باتیں اور اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے [۱۲۴] {6:93}
[۱۲۰] ظالموں پر موت کی سختی:
خدا پر بہتان باندھنے سے شاید یہ مراد ہے کہ خدا کی طرف ان باتوں کی نسبت کرے جو اس کی شان رفیع کے لائق نہیں ۔ مثلًا کسی کو اس کا شریک ٹھہرائے یا بیوی بچے تجویز کرے یا یوں کہے "ما انزل اللہ علی بشر من شی" یعنی اس نے بندوں کی ہدایت کو کوئی سامان نہیں کیا۔ ایسا کہنے والا سخت ظالم ہے اسی طرح جو شخص نبوت و پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کرے یا یہ ڈینگ مارے کہ خدا کے جیسا کلام تو میں لا سکتا ہوں ۔ جیسے بعض مشرکین کہتے تھے لَوۡ نَشَآءُ لَقُلۡنَا مِثۡلَ ہٰذَاۤ (الانفال۔۳۱) یہ سب باتیں انتہائی ظلم اور دیدہ دلیری کی ہیں جس کی سزا کا تھوڑا سا حال آگے مذکور ہے۔
[۱۲۱] یعنی موت کی باطنی اور روحانی سختیوں میں۔
[۱۲۲] آخرت میں کفار کا حال:
یعنی روح قبض کرنے اور سزا دینےکو ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور مزید تشدید اور اظہار غیظ کے لئے کہتے جاتے ہیں کہ نکالو اپنی جانیں (جنہیں بہت دنوں سے بانواع حیل بچاتے پھرتے تھے)
[۱۲۳] یعنی سخت تکلیف کےساتھ ذلت و رسوائی بھی ہو گی۔
[۱۲۴] یعنی ازراہ تکبر آیات اللہ کو جھٹلاتے تھے۔
=================
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو باندھے اللہ پر جھوٹ [۲۷] وہ لوگ روبرو آئیں گے اپنے رب کے اور کہیں گے گواہی دینے والے یہی ہیں جنہوں نے جھوٹ کہا تھا اپنے رب پر [۲۸] سن لو پھٹکار ہے اللہ کی ناانصاف لوگوں پر {11:18}
[۲۷] نجات کا واحد راستہ قرآن ہے:
یعنی قرآن جھوٹ اور افتراء نہیں۔ خدا کا سچا پیغام ہے جس کو قبول کرنا ضروری ہے خوب سمجھ لو کہ اس شخص سے زیادہ ظالم کوئی نہیں ہو سکتا جو خدا پر جھوٹ باندھے۔ مثلاً اس کا کلام نہ ہو اور کہہ دے کہ اس کا کلام ہے یا واقعی اس کا ہو اور خدا بار بار فرمائے کہ میرا کلام ہے مگر باوجود روشن دلائل کے جھٹلاتا رہے اور کہتا رہے کہ اس کا نہیں۔
[۲۸] یعنی محشر میں خدا کے سامنے علیٰ رؤس الاشہاد پیش ہوں گے اور ان کی شرارتوں کے دفتر کھولے جائیں گے اس وقت گواہی دینے والے (ملائکہ ، انبیاء ، صالحین بلکہ خود ان کے ہاتھ پاؤں) کہیں گے کہ یہ ہی وہ بدبخت ظالم ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی نسبت جھوٹ بکا تھا۔
=================
اور اس سے بڑا ظالم کون جس کو اس کے پروردگار کے کلام سے سمجھایا گیا تو اُس نے اس سے منہ پھیر لیا۔ اور جو اعمال وہ آگے کرچکا اس کو بھول گیا۔ ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے کہ اسے سمجھ نہ سکیں۔ اور کانوں میں ثقل (پیدا کردیا ہے کہ سن نہ سکیں) اور اگر تم ان کو رستے کی طرف بلاؤ تو کبھی رستے پر نہ آئیں گے {18:57}؛
****************************************
حدثنا موسیٰ حدثنا عبد الواحد حدثنا عمارة حدثنا أبو زرعة قال دخلت مع أبي هريرة دارا بالمدينة فرأی أعلاها مصورا يصور قال سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول ومن أظلم ممن ذهب يخلق کخلقي فليخلقوا حبة وليخلقوا ذرة ثم دعا بتور من مائ فغسل يديه حتی بلغ إبطه فقلت يا أبا هريرة أشيئ سمعته من رسول الله صلی الله عليه وسلم قال منتهی الحلية
ابوزرعہ کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ کے ایک مکان میں داخل ہوا تو دیکھا کہ اس کے اوپر ایک مصور تصویریں بنارہاہے، تو انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے، جو میرے پیدا کرنے کی طرح پیدا کرنے کی کوشش کرے، اگر ایسا ہے تو ایک دانہ پیدا کرکے دکھائے اور ایک ذرہ پیدا کرکے دیکھائے پھر پانی کا برتن منگوایا اور دونوں ہاتھ بغل تک پہنچا کر دھوئے، میں نے پوچھا اے ابوہریرہ تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ اس کے متعلق سنا ہے، کہا کہ
زیور کے پہننے کی انتہائی جگہ تک دھوئے (جہاں تک زیور پہنے جاتے ہیں) ۔
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 914 (5764) - لباس کا بیان : تصویریں توڑ دینے کا بیان]
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کرے گا ان میں مصور بھی ہوگا ۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو بتوں کی مورتیاں اس لئے بناتا ہے کہ ان کی پوجا کی جائے اور چونکہ ایسا شخص یقینا کافر ہوگا اس لئے اگر اس کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا تو کچھ بعید نہیں، اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی مشابہت کی نیت سے تصویر بنائے وہ بھی کافر ہے اور سخت ترین عذاب کا مستوجب ۔ اور جو شخص اس نیت کے بغیر تصویر سازی کرے وہ کافر نہیں ہوگا بلکہ فاسق کہلائے گا اور اس کا وہی حکم ہوگا جو مرتکب معاصی کا ہے اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ حدیث میں جس مصور کے بارے میں وعید بیان کی گئی ہے اس سے جاندار کی تصویر بنانے جاندار کی تصویر بنانے والا مراد ہے نہ کہ درختوں اور عمارات وغیرہ کی تصویر بنانے والا اسی لئے عام طور پر مصور کا اطلاق جاندار کی تصویر بنانے والے پر ہوتا ہے اور جمادات و نباتات وغیرہ کی تصویر بنانے والے نقاش کہتے ہیں ! مجاہد نے پھل دار درختوں کی تصویر بنانے کو بھی مکروہ کہا ہے دوسرے محققین کے نزدیک غیر جاندار کی تصویر بنانا کراہت سے خالی نہیں اور لہو و لعب نیز بے مقصد والا یعنی چیزوں میں داخل ہے ۔
No comments:
Post a Comment