Friday, 26 October 2012

تدوینِ قرآن مجید ایک تحقیقی جائزہ


قرآن کی حفاظت کے لیےاللہ کا حیرت انگیز انتظام

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ”إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ“( سورة الحجر: پ۱۴/۹) ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ یہ پہلی وہ آسمانی کتاب ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا، گویا اس کی حفاظت کے لیے یہ وعدہ الٰہی ہے اور قرآن کا اعلان ہے: ”إِنَّّّ اللَّہَ لَاْ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ“(سورة آل عمران:پ۳/۹) اللہ کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ بس اللہ نے اپنا یہ وعدہ سچ کر دکھایا۔ اور کتاب اللہ کی حفاظت کا حیرت انگیز انتظام کیا۔ اس طور پر کہ اس کے الفاظ بھی محفوظ، اس کے معانی بھی محفوظ، اس کا رسم الخط بھی محفوظ، اس کی عملی صورت بھی محفوظ، اس کی زبان بھی محفوظ، اس کا ماحول بھی محفوظ، جس عظیم ہستی پر اس کا نزول ہوا اس کی سیرت بھی محفوظ، اور اس کے اولین مخاطبین کی سیَرْ بھی یعنی زندگیاں بھی محفوظ۔
غرضیکہ اللہ رب ا لعزت نے اس کی حفاظت کے لیے جتنے اسباب و وسائل اور طریقے ہوسکتے تھے، سب اختیار کئے، اور یوں یہ مقدس اور پاکیزہ کتاب ہر لحاظ اور ہر جانب سے مکمل محفوظ ہوگئی۔ الحمدللہ آج چودہ سو انتیس سال گذرنے کے بعد بھی اس میں رتی برابر بھی تغیر و تبدل نہ ہوسکا، لاکھ کوششیں کی گئیں، مگر کوئی ایک کوشش بھی کامیاب اور کارگر ثابت نہ ہوسکی، اور نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔
کتاب الٰہی کی، کیسے حفاظت کی گئی؟
ڈاکٹر محمود احمد غازی اپنی کتاب محاضرات حدیث میں تحریر فرماتے ہیں ”کتاب الٰہی کے تحفظ کے لیے اللہ رب العزت نے دس چیزوں کو تحفظ دیا، یہ دس چیزیں وہ ہیں، جو قرآن پاک کے تحفظ کی خاطر محفوظ کی گئی ہیں“ ۔
وہ کون سی چیزیں ہیں، جو قرآن کے خاطر محفوظ کی گئیں؟
قرآن کی حفاظت کی خاطر نو چیزیں محفوظ کی گئیں:
(۱) قرآن کی کا متن یعنی اس کے بعینہ وہ الفاظ جو اللہ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ سے یا وحی کے کسی اور طریق سے نبی آخرالزماں صلى الله عليه وسلم پر نازل کئے، آپ صلى الله عليه وسلم پر جب وحی نازل ہوتی، تو آپ فوراً کاتبین وحی میں سے کسی سے کتابت کروالے لیتے، پھر صحابہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زبانِ اقدس سے بھی اُسے سنتے، اور جو تحریر کیا ہوا ہوتا، اُسے بھی محفوظ کرلیتے، اس طرح ۲۳/سال تک قرآن، نزول کے وقت ہی لکھا جاتا رہا، صحابہ نے اسے حفظ بھی یاد کیا، کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس کے حفظ کی بڑی فضیلتیں بیان کی ۔ ایک روایت کے مطابق صحابہ میں سب سے پہلے حفظِ قرآن مکمل کرنے والے حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔
دورِ نبوی صلى الله عليه وسلم کے بعد دورِ ابی بکر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ، اور دیگر صحابہ کے کے مشورے سے اس کی تدوین عمل میں آئی، یعنی اس کو یکجا کر لیا گیا اور دورِ عثمانی میں اس کی تنسیخ‘ عمل میں آئی، یعنی اس کے مختلف نسخے بناکر کوفہ، بصرہ، شام، مکہ وغیرہ جہاں جہاں مسلمان آباد تھے بھیج دیے گئے، یہ تو تحریری صورت میں حفاظت کا انتظام ہوا، ا س کے علاوہ اس کو لفظ بلفظ یاد کرنے کا التزام کیا گیا، وہ الگ۔ اس طرح قرآن سینہ و سفینہ دونوں میں مکمل لفظاً محفوظ ہوگیا، اور یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ آج بھی جاری ہے، قیامت تک جاری رہے گا، انشاء اللہ، اللہم اجعل القرآن ربیع قلوبنا و جلاء اعیننا.
(۲) جہاں اللہ رب العزت نے اس کے متن کی حفاظت کی، وہیں اس کے معنی و مفہوم اور مراد کی حفاظت کا بھی انتظام کیا، اس لیے کہ صرف الفاظ کا محفوظ ہونا کافی نہیں تھا، کیوں کہ مراد اور معنی اگر محفوظ نہ ہو، تو ا س کی تحریف یقینی ہوجاتی ہے، کتب سابقہ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا، کیوں کہ اس کے الفاظ اگرچہ کچھ نہ کچھ محفوظ رہے، مگر اس کے معانی و مفہوم تو بالکل محفوظ نہ رہے، اس لیے کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے اقوال و افعال و اعمال کو محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہ کیا، جس کے نتیجہ میں الفاظ محفوظہ بھی کارگر ثابت نہ ہوسکے، مثلاً عیسائی مذہب ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دو اصولوں کی تعلیم دی گئی، اور ہم اس کے علمبردار ہیں: نمبر ایک عدل و انصاف۔ نمبردو محبت و الفت۔ مگر اگر آپ، ان سے دریافت کریں کہ عدل و انصاف کس کو کہتے ہیں، تو وہ اس کا مفہوم نہیں بیان کرسکتے۔ یہی حال محبت کا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عدل اور محبت کی پرواہ کیے بغیر لاکھوں نہیں، کروڑوں انسانوں کو عیسائیت کے فروغ کی خاطر قتل کر دیا گیا، اور یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں۔ اسی طرح یہودیت کی اصل بنیاد اس اصول پر ہے،کہ تم اپنے پڑوسی کے لیے وہی پسند کرو،جو اپنے لیے پسند کرو۔ لیکن اگر آپ یہود کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا،کہ انہوں نے اپنے پڑوسیوں کو جتنا ستایا، اتنا دنیا میں کسی نے اپنے پڑوسیوں کو نہیں ستایا ہوگا، اور اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے، جو اسرائیل کی جارحیت سے عیاں ہے، مگر اسلام، الحمد للہ سنت نبوی کے پورے اہتمام کے ساتھ محفوظ رہنے کی وجہ سے، قرآن کی تعلیمات پر مکمل طور پر محفوظ چلا آرہا ہے۔ اس طرح اللہ نے سنتِ رسول جس کو احادیث رسول صلى الله عليه وسلم بھی کہا جاتا ہے، کے ذریعہ معانی و مفاہیم اور مراد الٰہی کو محفوظ رکھنے کا انتظام کیا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قرآن کی جو تفسیر کی، جسے ”تفسیر بالمأثور“کہا جاتا ہے، جس پر امام سیوطی، امام ابن کثیر وغیرہ، بے شمار علماء نے تفسیر یں لکھیں، اور ہر آیت کی تفسیر، حدیث رسول سے کرکے دکھائی، وہ درحقیت اللہ ہی کی جانب سے ہے، کیوں کہ قرآن نے اعلان کیا ہے ”ان علینا بیانہ“ ( سورة القیٰمة: پ۲۹/۱۹)یعنی اس قرآن کی تفسیر بھی ہم نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ا یک جگہ پر”جمعہ وقرآنہ“ ہے، ایک جگہ ارشاد ہے ”وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحی“ آپ صلى الله عليه وسلم کوئی بات اپنے جی سے نہیں کرتے، بلکہ وحی خدا وندی ہی ہوتی ہے ۔ اسی کو کسی فارسی شاعر نے کہا:
گفتہٴ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
اس پوری گفتگو سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ”تفسیر بالمأثور“ درحقیقت اللہ ہی کی، کی ہوئی تفسیر ہے، اور ظاہر ہے اللہ ہی اپنی مراد کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ لہٰذا حدیث کی حفاظت سے معانی و مراد خداوندی بھی محفوظ ہوگئے؛ اللہ ہمیں کتاب اللہ اور سنت رسول پر مرمٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
(۳) قرآن کے الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ، وہ جس زبان میں نازل ہوا،وہ زبان یعنی عربی زبان بھی محفوظ۔ اس کے لیے بھی اللہ نے عجیب انتظام کیا، اس طور پر کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا ”احبوا العرب لثلاث انی عربی، ولسان أہل الجنة عربی، والقرآن عربی“ قرآن نے خود اعلان کیا ”بلسان عربی مبین“ ( سورة الشعراء: پ۱۹/۱۵۹)ہم نے قرآن کو صاف ستھری عر بی زبان میں نازل کیا۔اگر آپ لسانیات کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا دنیا کی کوئی زبان تین چار سو سال سے زیادہ محفوظ نہ رہ سکی، یا تو وہ ختم ہوگئی یا کسی دوسری زبان میں ضم ہوگئی، یا ایسے تغیر و تبدل کی شکار ہوگئی کہ اس کی پہلی ہیئت باقی نہ رہ سکی، مگر عربی زبان مسلمانوں کی توجہ و عنایت کا ایسا شہکار ہے، جو بیان سے باہر ہے؛ اولاً خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے صحابہ  كرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کی تربیت میں عربی زبان کی نوک و پلک کی درستگی کو خوب اہمیت دی، آپ صلى الله عليه وسلم کے بعد حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے بھی، اپنی توجہ کو اس پر مبذول کیا، جیسا کہ حضرت ابوبکررضي الله تعالى عنه، حضرت عمررضي الله تعالى عنه اور دیگر صحابہ كرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ، یہاں تک کہ حضر ت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ تعالی عنہ نے تو نحو عربی و صرف عربی کی بنیاد ڈال کر، اسے خاص توجہ کا مرکز بنایا، اور پھر آپ کے بعد اُمت کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا، جس نے اپنی زندگیاں اسی زبان کی حفاظت و ترویج میں وقف کردی، ابوالاسود الدُویلی ،امام سیبویہ، اما م خلیل فراہیدی، امام کسائی، امام فراء، امام مبرد، امام اخفش، امام یعصم، امام تغلب، امام ثعلب، امام یشکر، امام ابن حاجب، امام ابن ہشام، امام ابن عقیل، امام ابن جنی، امام نفطویہ، امام زازویہ، امام خالویہ، امام راہویہ وغیرہ نے اپنی پوری زندگیاں صرف و نحو ، علمِ بیان وغیرہ کی حفاظت کے لیے وقف کردیں، جس کی برکت سے آج بھی عربی زبان اسی اصل ہیئت پر باقی ہے، جس ہیئت پر وہ نزول قرآن کے وقت تھی، اور قیامت کے وقوع سے پہلے پہلے تک جب تک اس قرآن کو باقی رکھنے کی اللہ کی مشیت ہوگی، امت کی ایک جماعت اس کارِخیر میں مشغول رہے گی، انشاء اللہ۔
(۴) صرف الفاظ و معانی اور قرآنی زبان ہی کی حفاظت پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بل کہ اس کے الفاظ و معانی کی عملی صورت کی حفاظت کا بھی پورے پورے انتظام کیا گیا، اس طور پر کہ قرآن جس لفظ میں نازل ہوتا، نبی کریم صلى الله عليه وسلم اس کی مراد و حی کی روشنی میں صحابہ کو سمجھاتے، اور سمجھانے کے بعد اسکو عملاً بطور نمونہ، کرکے بھی بتلاتے تھے، جسکو آج کی زبان میں تھیوری (Theory)کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل (Practical)کا بھی اہتمام کیا جاتا، مثلاً نماز، قرآن نے صرف یہ الفاظ کہے ”اقیموا الصلوة“ (سورة البقرة: ۱/۴۳) نماز قائم کرو، مگر پورے قرآن میں کہیں اس کی پوری تفصیل بالترتیب نہیں بتائی گئی، ہاں کہیں قیام، کہیں رکوع، کہیں سجود کو متفرق طور پر بیان کیا گیا، جب کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس کا طریقہ بالترتیب صحابہ کو بتایا، اور پھر اس کو عملی طور پر کرکے دکھایا اور کہا ”صلوا کما رأیتمونی اصلی“ نماز ایسی ہی پڑھو جیسی مجھ کو پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ صحابہ نے ایسا ہی کیا، پھر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد صحابہ نے بھی بدستور اس پر عمل جاری رکھا، اور تابعین بھی انہیں جیسا کرتے رہے ، گویا انہوں نے بھی ہوبہو ایسا ہی کیا، اس کے بعد تبعِ تابعین، اس طرح آج تک نسلاً بعد نسلٍ اور قرناً بعد قرنِ امت کا اس پر تعامل، اس طرح عملی صورت بھی محفوظ ہوگئی، یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ صلوہ العید، صلوة الجنازة، زکوٰة، صدقہ، قربانی، تلاوت قرآن وغیرہ سب کی عملی صورت آج تک امت کے ذریعہ اللہ رب العزت نے محفوظ رکھی، اسی لیے جب کوئی قرآن کی تفسیر و تشریح میں من مانی کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اُمت میں اس کو تلقی بالقبول (مقبولیت) حاصل نہیں ہوتا، البتہ کچھ افراد جو مفادپرست ہو یا ان کی اسلامی تربیت نہ ہوئی ہو، یا ضروری علم دین سے واقف نہ ہو، اس کے تابع ہو جاتے ہیں، اور ایسا تو دنیا میں ہوتا ہی ہے، عربی میں محاورہ مشہور ہے ”لکل ساقطة لاقطة“ ہرگری پڑی چیز کا کوئی نہ کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے۔
 خلاصہٴ کلام یہ کہ قرآن کے مفاہیم و مرادوں کو بھی اللہ رب العزت نے تعامل کے ذریعہ محفوظ رکھا، یقینا دنیا کی کوئی طاقت اللہ کی مشیت کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ واللہ غالب علی امرہ و لکن اکثر الناس لایعلمون(سورة یوسف:۱۲/۲۱)۔
(۵) میرے عزیزو! قربان جائیے اس رب کائنات پر ،جس نے اپنی کتاب کی حفاظت کے لیے ایسے ایسے انتظام کیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، اور انسان اس کی کرشمہ سازیوں پر سر دھندتا رہ جاتا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جس ماحول میں قرآن کا نزول ہوا، جس سیاق و سباق میں آیتیں نازل ہوئی، اس ماحول کو بھی تحفظ اور دوام بخشا گیا، حدیث کے ذخیرے نے وہ پورا ماحول اس کی منظر کشی اور نقشہ کشی ہمارے سامنے رکھ دی، جب طالب حدیث اس کو پڑھتا ہے، تو اس کے سامنے چشم تصور میں وہ سارا منظر متشکل ہو کر آجاتا ہے، جس منظر میں قرآن کریم نازل ہوا، جس پس منظر اور پیش منظر میں، قرآن مقدس کے احکام و ہدایات پر صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے، صاحبِ وحی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حاضری اور موجودگی میں عمل درآمد شروع کیا، جس کو علم حدیث میں ”حدیثِ مسلسل“ کہا جاتا ہے، اس کی صورت یہ ہوئی کہ راوی نے، حدیث کو جب نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے سنا، یا دیکھا، تو اس وقت جو کیفیت تھی، راوی جس سے روایت بیان کرتا ہے، اس کے سامنے وہی انداز و اسلوب اختیار کرتا ہے، جس انداز سے اس نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے اس حدیث کو اخذ کیا ہو، اور وہ پوری کیفیت بعینہ کرکے دکھاتا ہے، جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے صادر ہوئی ہو، مثلاً ”حدیث مسلسل بالتشبیک“ اس کاو اقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو گناہ اور توبہ کے وقت ایمان کی کیفیت کو بیان کیا، کہ اگر بندہ گناہ کرتا ہے، تو ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے، اور جب توبہ کرتا ہے تو وہ دوبارہ دل میں داخل ہو جاتا ہے، اور آپ نے اپنی انگلیوں کو پروکر علیحدہ کیا اور کہا ایمان گناہ کے وقت اس طرح نکل جاتا ہے، ا ور جب توبہ کرے تو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر پروکر (جس کو تشبیک الاصابع کہتے ہیں) بتایا، پھر اس صحابی نے بھی اس روایت کو بیان کرکے، اسی طرح کرکے بتایا، اس طرح یہ سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے بظاہر ایسا کرنے سے کوئی فائدہ سمجھ میں نہیں آتا، اگر نہ بھی کیا جاتا تو بات سمجھ میں آجائی گی، مگر اس کا ایک اضافی فائدہ یہ ہوتا ہے، کہ نفسیاتی اور جذباتی طور پر انسان اس ماحول میں چلا جاتا ہے، جس ماحول میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اس بات کو بیان فرمارہے تھے، مسجد نبوی میں یا جس مقام پر حضور اقدس صلى الله عليه وسلم اس کو بیان فرمارہے تھے، تو روحانی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں وہاں موجود ہوں، اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اس عمل کو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین اور حدیث کے اساتذہ اور طلبہ کے ذریعے دیکھتا چلا آرہا ہوں، بالکل اسی طرح کی کیفیت ”اسباب نزول آیات“ کے بولتے اور سنتے وقت ہوتی ہے۔
سبب نزول کہتے ہیں، حدیث میں وارد، اُن واقعات کو جوکسی آیت کے نزول کے وقت پیش آیا ہو، اس سے قرآن فہمی میں بڑی مدد ملتی ہے، کیوں کہ جب آیت کا سبب نزول معلوم ہو جائے، تو اس پرمرتب احکام کا درجہ بھی معلوم ہو جاتا ہے، اگرچہ یہ ضروری بھی نہیں قرار کیا گیا، کہ ہر آیت کا سبب نزول ہو، مستقلاً علماء نے اس پر تصانیف چھوڑی، مثلاً امام جلال الدین سیوطی، امام واحدی وغیرہ نے۔
(۶) قرآن کریم کی حفاظت کی غرض سے جہاں بہت ساری چیزوں کو تحفظ بخشا گیا، وہیں سیرت نبوی یعنی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زندگی کے حالات کو بھی محفوظ کیا۔ کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قرآنی مطالبات پر عمل کرکے بتایا تاکہ کل آکر کوئی ایسا نہ کہے ہم قرآنی مطالبات پر عمل نہیں کرسکتے، یہ تو بڑے شاق اور دشوار گذار ہیں، تو بطور نمونہ کے آپ نے عمل کرکے بتلایا اور عمل بھی ایسا، جیسا اس پر عمل کرنے کا حق ہے، اسی لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالى عنه سے، حضور اقدس صلى الله عليه وسلم کے اخلاق کے بارے میں جب دریافت کیا گیا، تو آپ رضي الله تعالى عنها نے کہا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ کہاں ہاں۔ تو آپ نے فرمایا ”کان خلقہ القرآن“ آپ قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ جہاں کوئی امر نازل ہوا، فوراً عمل کرکے بتایا، اسی لیے قرآن نے اعلان کر دیا”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة“ (سورة الاحزاب:پ۲۱،آیت۲۱)آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی، اے مسلمانو! تمہارے لیے نمونہ ہے، دنیا میں کسی ہستی کی سیرت و حیات پر اتنا کام نہیں ہوا جتنا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حیات مبارکہ پر ہوا، اور ہوتا چلا جارہا ہے، آج بھی اس کی افادیت میں کوئی کمی محسوس نہیں ہورہی ہے، بل کہ مزید اس کی افادیت میں اضافہ ہو رہا ہے، اللہم اجعلنا ممن یتبع الرسول و یطیعہ.
(۷) نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ذات اقدس کو اللہ رب العزت نے اپنی آخری کتاب قرآن کے نزول کے لیے منتخب کیا اور آپ کے لیے آخری دین، دین اسلام کو تجویز کیا، قرآن کی حقانیت کوباقی رکھنے کے لیے اس کے تقدس و علو مرتبت کو ثابت کرنے کے لیے صاحب قرآن کی عظمت اور تقدس کو باقی رکھنا بھی امرِ ناگزیر تھا، اللہ رب العزت نے اس کے لیے جو حیرت انگیز اور تعجب خیز انتظام فرمایا، اسی میں سے ایک یہ کہ آپ کے نسب مبارک کو بھی مکمل محفوظ کیا گیا، عرب جو امی ، اَن پڑھ تھے، مگر اس کے باوجود اقوام عالم میں ان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنے انساب کے یاد رکھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے یہی اہتمام بعد میں چل کر ایک فن کی حیثیت اختیار کر گیا، اور اس پر کتابیں بھی لکھی گئیں، مثلاً الانساب للامام السمعانی وغیرہ، علم الانساب کہتے ہیں اس ریکارڈ کو جس میں یہ محفوظ کیا جائے کہ کون سا قبیلہ کہاں سے وجود میں آیا، کس قبیلے کے کس آدمی کا باپ کون اس کا دادا کون، اسی طرح اوپر تک اس کی شادی کہاں ہوئی، اس کی اولاد کتنی تھی، عربی قبائل میں کس قبیلے کی کس قبیلے کے ساتھ رشتہ داری تھی وغیرہ۔
اب کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ عربوں کو ان موضوعات سے دلچسپی رہی ہوگی، یا انہیں اس طرح کی معلومات کے جمع کرنے کا شوق رہا ہوگا، لیکن بات اتنی کہنے سے نہیں ٹلتی، ڈاکٹر محمود احمد غازی ایک حیرت انگیز بات کا انکشاف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ” جب ہم انساب کی کتابوں کا جائزہ لیتے ہیں، اور ان کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ایک عجیب و غریب بات سامنے آتی ہے، بہت عجیب وغریب، اتنی عجیب و غریب، کہ اس کو محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا، وہ عجیب و غریب بات یہ سامنے آتی ہے کہ جتنی معلومات محفوظ ہوئیں، وہ مرکوز ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی شخصیت پر حالاں کہ جس وقت انساب کی حفاظت کا کام شروع ہوا، اس وقت تو حضور صلى الله عليه وسلم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے“۔ مگر اللہ کو منظور تھا کہ آپ کا نسب مکمل محفوظ اور منسلک رہے تاکہ آپ کے آباء و اجداد کی علو شان، ان کی پاکبازی سے آپ کی خاندانی شرافت اور کرامت کا ثبوت فراہم ہو، اور یوں صاحب قرآن کی شان بھی قرآن کے شایان شان ہونے کا ثبوت مہیا ہو جائے، اور کسی بھی ذی ہوش و خرد مند کے لیے آپ کی تکذیب کا سوال باقی نہ رہے، اور آپ کی تصدیق دل و جان سے قبول کرلے، ہاں مگر یہ کہ اس میں حسد و عناد، شرکشی و شرارت ہو، اس طرح قرآن کی حفاظت اس کے وقار اور اس کی حقانیت کے ثبوت کے لیے اللہ رب العزت نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے نسب مبارک کو محفوظ کرلیا، واللّٰہ علی کل شئ قدیر. (سورة البقرة:پ۱،آیت۱۰۶) واللّٰہ غالب علی امرہ و لکن اکثر الناس لایعلمون.(سورة یوسف:پ۱۲،آیت۲۱)
(۸) قرآن کے نزول کے وقت اس کے اولین مخاطب اور اس کے اولین حاملین حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جو براہِ راست مخاطب تھے، قرآن کی حفاظت کے لیے اللہ نے ایک انتظام اور بندوبست یہ بھی کیا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کے حالات کو محفوظ کروالیا، ایک اندازے کے مطابق صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی، مگر ان میں سے اکثریت آخری دور میں قبولیت اسلام سے شرف یاب ہوئی، اس اولین حاملین، جنہیں قدیم الاسلام یا اولین موٴمنین کہا جاتا ہے، ان کی تعداد کم و بیش پندرہ بیس ہزار رہی ہوگی، اور جن صحابہ نے آپ سے زیادہ کسبِ فیض کیا، ان کے حالات کو بھی اللہ نے محفوظ کرلیا، تاکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ ساتھ ان کے حالات کا علم ہو جائے اور انہوں نے ایمانی تقاضوں اور اسلامی مطالبات کو، جس حسن و خوبی کے ساتھ عملی جامہ پہنایا، اس کی معرفت بھی حاصل ہو جائے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے، محمد عربی صلى الله عليه وسلم تو رسول تھے، ان کے ساتھ اللہ کی خاص عنایت و رحمت تھی، انہوں نے اگر عمل کیا، یہ ان کی امتیازی شان تھی، مگر جب صحابہ کی زندگیاں بھی اسی نقش قدم پر پائی، تو معلوم ہو جاتا کہ ایسا نہیں اگر انسان ارادہ کرلے، تو مکمل ایمانی تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے، جیسا کہ صحابہ نے پورا کیا، اسی لیے قرآن نے کہا ”امنوا کما آمن الناس“ ایمان لاوٴ صحابہ جیسا ایمان لائے۔ اس میں الناس پرالف لام عہدِ خارجی کا ہے، یعنی حضرات صحابہ۔
صحابہ کے حالات میں ایک عجیب پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ جو صحابہ نبی کریم صلى الله عليه وسلمسے جتنا قریب تھے، ان کے حالات اتنے ہی زیادہ تفصیل کے ساتھ ملتے ہیں، صحابہ کے حالات کی حفاظت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ صاحب قرآن کے اصحاب و احباب کا جب علم ہو تو اس سے آپ کے محبِ خیر بل کہ سراپا خیر ہونے کا اندازہ ہو، کیوں کہ آدمی اپنے دوستوں سے جانا جاتا ہے، حدیث شریف میں ”فانظر الی من یخالل“ کہ جب تم کسی کے بارے میں جاننا چاہو تو دیکھو کہ وہ کیسے لوگوں کے ساتھ رہتا ہے، تو اس سے معلوم ہو جائے گا کہ یہ کیسا ہے، انسانی تاریخ میں حضرات انبیاء کرام کے بعد اگر کوئی مقدس اور بہترین گروہ ہے تو وہ گروہِ صحابہ ہے، لہٰذا قرآن اور صاحب قرآن کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ قرآن پر اجتماعی عمل کیسے ہو؟ سنت اور قرآن کی اجتماعی تشکیل کس طرح ہوں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں امت نے کیسے جنم لیا؟ اور ان سوالات کے جوابات مکمل نہیں ہو سکتے تھے، مگر صحابہ کے احوال کے جانے بغیر، لہٰذا اللہ نے انتظام کیا، اور اولین حاملین قرآن اور اولین عاملین میں سے تقریباً پندرہ ہزار نفوس قدسیہ کے حالات نام بہ نام نسل بہ نسل دستیاب ہیں، اور الحمد للہ امت تب سے لے کر اب تک اور قیامت تک ان کے نقوش و خطوط سے استفادہ کرتی رہے گی، اور قرآن پر عمل کرنے کے لیے اسے معاون سمجھتی رہے گی، و اللہ لطیف بالعباد۔
(۹) اب جب صحابہ جو قرآن کے الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ اس پر انفرادی و اجتماعی طور پر عمل کرنے والے اور دنیا کو یہ بتانے والے ٹھہرے کہ قرآن قابل عمل ہی نہیں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے، تو ان کے حالات کے جاننے کے لیے، ان کے اصحاب جن کو تابعین کہا جاتا ہے، کے حالات کا قلمبند ہونا بھی ضروری تھا، تاکہ صحابہ کے حالات ہم تک یعنی ان کے بعد والوں تک صحیح طور پر پہنچے، تو اس کے لیے، ان تابعین وتبعِ تابعین کے احوال کا تحفظ بھی ضروری تھا، کرشمہٴ الٰہی دیکھئے کہ ایسے چھ لاکھ افراد کے بارے میں پورا بایوڈاٹا یعنی مکمل معلومات کو بھی اللہ نے تحفظ بخشا اور وہ بھی سرسری نہیں بلکہ ان کی پوری تفصیلات کے ساتھ، کہ یہ کون تھے؟ کس زمانہ میں پیدا ہوئے؟ ان کی شخصیت کس درجہ کی تھی؟ ان کا علم وفضل کس درجہ کا تھا؟ انہوں نے کس کس سے کسبِ فیض کیا؟ ان کا حافظہ کیسا تھا؟ ان میں کیا اچھائیاں تھیں وغیرہ۔ غرضیکہ اس طور پر منقی و مصفی کرکے سامنے رکھ دیا گیا ہے، کہ آدمی ان کی شخصیت سے اطمینان بخش حد تک معلومات حاصل کرلے۔ اس کو فن ”اسماء رجال“ سے تعبیر کیا گیا۔ اور ڈاکٹر محمود احمد غازی فرماتے ہیں کہ یہ ایسا فن ہے کہ اس کی مثال دنیا کے کسی مذہبی و غیر مذہبی فن میں نہیں ملتی، نہ مذہبی علوم میں اس کی مثال اور نہ غیر مذہبی علوم میں۔
خلاصہٴ کلام یہ کہ وہ چیزیں ہیں، جس کو قرآن کی حفاظت کی خاطر اللہ رب العزت نے حیرت انگیز انداز میں تحفظ بخشا، اوراپنے کامل قدرت کا مظاہرہ کیا، اللہ ہمیں قرآن کی قدردانی کی توفیق عطافرمائے اور ہمارے ظاہر وباطن کو قرآن کے منشاء کے مطابق بنادے۔ آمین یا رب العالمین!

تدوینِ قرآن مجید ایک تحقیقی جائزہ



                ”قرآن مجید“ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، جو آخری نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہے، قیامت تک کوئی اور کتاب نازل نہ ہوگی، یہ زندگی کا وہی دستورِ کہن ہے جو ہمارے آبائے اولین کو ملا تھا، اس میں اصولاً اسی کا اعادہ اور عہد کی تجدید ہے، یہ خدائی عطیہ، ہمارا مشترکہ روحانی ترکہ ہے، جو منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے، اسے دوسری آسمانی کتابوں کا آخری اور دائمی ایڈیشن بھی کہا جا سکتا ہے۔ ابتدائے نزول سے آج تک بلا کسی ادنیٰ تغیر و تبدل کے باقی ہے، اس میں سرِ مو کوئی فرق نہیں آیا، ایک لمحہ کے لیے نہ تو قرآن مسلمانوں سے جدا ہوا اور نہ مسلمان قرآن سے جدا ہوئے، اس میں باطل کے در آنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے: ”لاَ یَأتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنَ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہ “(حم سجدہ)
                (ترجمہ:) قرآن مجید میں باطل نہ تو سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔
                آسمانی کتابوں میں قرآن مجید ہی کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ قیامت تک اپنی اصل حالت پر رہے گا، خود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، ایک جگہ بڑے ذور دار انداز میں ارشاد فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ (حجر ۹)
                (ترجمہ:) ہم نے ہی ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
                صرف الفاظ نہیں؛ بلکہ معانی و مطالب کی تشریح و توضیح کی ذمہ داری بھی خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے: ”ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ“ (ترجمہ) پھر ہم پر ہی اس کا بیان (بھی) ہے۔
                قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا، کبھی ایک آیت کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں، نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی، یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری رہا؛ اس لیے آپ ﷺ کے سامنے آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل؛ بلکہ ناممکن تھا، ہاں! یہ بات ضرور ہے کہ ہر آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوا لیتے تھے اور زمانہ کے لحاظ سے نہایت ہی پائدار چیز پر لکھواتے تھے؛ چناں چہ پورا قرآن مجید بلا کسی کم و کاست کے لکھا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہٴ مبارکہ میں موجود تھا، اس میں نہ تو کوئی آیت لکھنے سے رہ گئی تھی اور نہ ہی کسی کی ترتیب میں کوئی کمی تھی؛ البتہ سب سورتیں الگ الگ تھیں، اور متعدد چیزوں پر لکھی ہوئی تھیں، کتابی شکل میں جلد سازی اور شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی:
            قد کان القرآنُ کُلُّہ مکتوباً فی عَہْدِہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لکن غیرَ مجموعٍ في مَوضِعٍ واحدٍ۔ (الکتابي ج ۲ص ۳۸۴ بحوالہ تدوینِ قرآن ص ۴۳)
                (ترجمہ:) پورا قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھا ہوا تھا؛ لیکن ایک جگہ جمع نہیں تھا۔
                حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کتابی شکل میں جمع کرایا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کی محقق نقلیں تیار کرکے ہر طرف پھیلایا؛ بلکہ پوری امت کو اس پر جمع کیا۔ آج تک قرآن مجید اسی کے مطابق موجود ہے۔
حفاظتِ قرآن مجید کے طریقے
                ابتدائے نزول سے قرآن مجید کی حفاظت جس طر ”لکھ کر“ ہوئی ہے، اس سے کہیں زیادہ ”حفظ“ کے ذریعہ ہوئی ہے، سینہ بہ سینہ حفظ کی خصوصیت صرف اسی آخری کتابِ الٰہی کو نصیب ہوئی، تو رات، انجیل اور دوسری آسمانی کتابوں اور صحیفوں کی حفاظت صرف سفینہ میں ہوئی، اس لیے وہ تغیر و تبدل اور دوسرے حوادث کا شکار ہو گئیں، قرآن مجید کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے، ارشاد فرمایا:
            و مُنَزِّلٌ علیکَ کتاباً لا یغسِلْہ الماء۔ (صحیح مسلم)
                (ترجمہ:) میں آپ پر ایسی کتاب نازل کرنے والا ہوں جس کو پانی نہیں دھو سکے گا۔
                غرض یہ کہ قرآن کی حفاظت شروع شروع میں سب سے زیادہ حافظہ کے ذریعہ ہوئی اور حفاظت کا سب سے اہم ذریعہ یہی ہے، اسی وجہ سے آج تک یہ کتاب مقدس اپنی اصل حالت پر باقی ہے، صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے خداداد بے نظیرحافظے کو جاہلیت کے اشعار، انسابِ عرب حتی کے اونٹوں اور گھوڑوں کی نسلوں کے حفظ سے ہٹا کر، آیاتِ الٰہی کے حفظ پر لگادیا، عرب کے ضرب المثل حافظے نے چند ہی دنوں میں ہزاروں حفّاظِ آیاتِ الٰہی کو معرضِ شہود میں لا کھڑا کر دیا، حفّاظ کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ: صرف ”جنگ ِیمامہ“ میں شہید ہونے والے حافظوں کی تعداد سات سو تھی، بخاری شریف کے حاشیہ میں ہے: وکان عِدَّةٌ مِن القُرّاء سَبْعَ مائة (۲/۷۴۵)۔
                سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریل علیہ السلام جب قرآن مجید پڑھ کر سناتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی دہرانے لگے تھے؛ تاکہ خوب پختہ ہو جائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: لا تُحَرِّک بہ لِسانَک لِتَعْجَلَ بہ، انّ علینا جَمْعَہ و قُرآنَہ۔ (قیامہ۱۷)  (ترجمہ:) آپ قرآن مجید کو جلدی جلدی یاد کرلینے کی غرض سے، اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے، (اس لیے کہ) قرآن مجید کو جمع کرنے اور اس کو پڑھوانے کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے۔
کتابت کا اہتمام
                زبانی یاد کرنے اور کرانے کے ساتھ ہی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیات کی حفاظت کے لیے کتابت (لکھانے) کا بھی خوب اہتمام فرمایا، نزول کے ساتھ ہی بلا تاخیر آیات قلم بند کرا دیتے تھے:
            فکان اذا نَزَلَ علیہ الشئیُ دَعَا بَعْضَ مَنْ کان یَکْتُُبُ فیقولُ: ضعوا ہٰذا في السُّورة التي یذکر فیہا کذا و کذا۔ (مختصر کنزص ۴۸ بحوالہ تدوین قرآن ص۲۷)۔
                (ترجمہ:) چناں چہ رسول اللہ ﷺ پر جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی، تو (بلاتاخیر) جو لکھنا جانتے تھے، ان میں سے کسی کو بلاتے اور ارشاد فرماتے کہ: اس آیت کو اس سورت میں لکھو جس میں فلاں فلاں آیتیں ہیں۔
                اور مجمع الزوائد میں یہاں تک ہے: کان جبریلُ علیہ السلام یُملي علی النبيّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (۷/۱۵۷) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریل قرآن مجید لکھواتے تھے۔
                مسند احمد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشاد فرمایا: آتاني جبریلُ فأمَرَني۔(کنز العمال ۲/۴۰) یعنی حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر مجھے (فلاں آیت کو فلاں جگہ رکھنے کا) حکم دیا۔
                غرض یہ کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم آیات لکھانے کا بھی خوب اہتمام فرماتے تھے، اور لکھانے کے بعد سن بھی لیتے تھے، اگر کوئی فرو گذاشت ہوتی تو اس کی اصلاح فرما دیتے تھے: فإن کان فیہ سَقَطٌ أقَامہ۔(مجمع الزوائد ۱/۶۰) پھر یہ لکھی ہوئی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس محفوظ فرما لیتے تھے۔
                صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر لکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتے تھے، اس طرح بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھائی ہوئی آیات موجود تھیں، بعض کے پاس پورا پورا قرآن مجید لکھا ہوا تھا۔
سامانِ کتابت
                نزولِ قرآن مجید کے زمانہ میں ایجادات و مصنوعات کی کمی ضرور تھی، جس طرح آج کاغذ، قلم اور دوات کی بے شمار قسمیں دریافت ہیں، اس زمانہ میں اتنی ہرگز نہ تھیں؛ لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس وقت کاغذ اور کتابیں دریافت نہ تھیں، یمن، روم اور فارس میں کتب خانے بھی تھے، یہود و نصاریٰ کے پاس کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا، اس زمانے میں ”کاغذ“ وغیرہ کی صنعتیں بھی تھیں؛ لیکن بڑے پیمانے پر نہ ہونے کی وجہ سے کاغذ وغیرہ ہر جگہ دریافت نہ تھے؛ اس لیے لکھنے کے لیے جو چیز بھی قابل اور پائدار سمجھ میں آتی اس پر لکھ لیا جاتا تھا۔ (التبیان فی علوم القرآن ص۴۹)
                قرآن مجید کی کتابت کے لیے بھی اس وقت کی ایسی پائدار چیزیں استعمال کی گئیں، جن میں حوادث وآفات کے مقابلے کی صلاحیت نسبتاً زیادہ تھی؛ تاکہ مدتِ دراز تک محفوظ رکھا جا سکے۔ (تدوین قرآن ص ۳۱)حافظ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق کتابتِ قرآن میں درج ذیل چیزیں استعمال کی گئیں:
                (الف) زیادہ تر پتھروں کی چوڑی اور پتلی سلوں (لِخاف) کو استعمال کیا گیا، اِسے ہم سلیٹ کہہ سکتے ہیں۔
                (ب) اونٹوں کے مونڈھوں کی چوڑی گول ہڈیوں (کَتِف) پر بھی لکھا گیا، مونڈھوں کی ہڈیوں کو نہایت اچھی طرح گول تراش کر تیار کیا جاتا تھا۔
                (ج) چمڑوں کے کافی باریک پارچوں (رِقاع) پر بھی قرآن مجید لکھا جاتا تھا، یہ ٹکڑے نہایت باریک ہوتے تھے، اور لکھنے کے لیے ہی تیار کیے جاتے تھے، گوشت خور ملک میں اس کی بڑی افراط تھی۔
                (د) بانس کے ٹکڑوں پر بھی آیات لکھی جاتی تھیں۔
                (ھ) درخت کے چوڑے اور صاف پتے بھی کتابت کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
                (و) کھجور کی شاخوں کی چوڑی جڑوں (عسیب) اور کھجور کے جڑے ہوے پتوں کو کھول کر ان کی اندرون جانب بھی آیات کی کتابت ہوتی تھی۔
                (ز) محدثین نے کاغذ پر بھی کتابتِ قرآن کا ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری ۹/۱۷)
سورتوں اور آیتوں کی ترتیب
                پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن مجید میں سورتوں اور آیتوں کی ترتیب توقیفی ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پورا قرآن مجیدمرتب طور پر لکھوایا، آج بھی اسی ترتیب سے قرآن مجید لکھا اور پڑھا جا رہا ہے، اور قیامت تک اسی طرح رہے گا۔
                پورا قرآن مجید بائیس سال، پانچ ماہ، چودہ دن میں نازل ہوا (مناہل العرفان ص۴۳)، حسبِ ضرورت کبھی ایک آیت، کبھی چند آیتیں اور کبھی پوری سورہ کی شکل میں آیات نازل ہوتی رہیں، اور ساتھ ہی یہ بھی حکم ہوتا کہ اس کو فلاں سور ہ کے فلاں مقام پر رکھ دیجیے؛ چناں چہ کاتبینِ وحی کو بلا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ضَعواہا في مَوضع کذا (التبیان في علوم القرآن ص۴۹، فتح الباری ۹/۲۷) (ترجمہ:) اس کو فلاں مقام پر لکھو!
عہدِ نبوی میں قرآن مجید کے نسخے
                جیسا کہ اوپر گذرا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ وحی کے ساتھ ہی آیات لکھوا لیا کرتے تھے، اور لکھانے کے ساتھ سن بھی لیتے تھے، پھر اسے اپنے پاس محفوظ فرما لیتے تھے، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پورا قرآن مجید لکھی ہوئی شکل میں بھی موجود تھا؛ لیکن ایک جلد میں مجلد نہ تھا، مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا۔
                صحابہٴ کرام میں جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ،وہ خدمت ِنبوی میں پہنچ کر آیات لکھ لیتے تھے، جب کسی سورت میں آیت کا اضافہ ہوتا تو معلوم کرکے مرتب فرما لیتے تھے، اس طرح بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدقہ نسخہٴ قرآن موجود تھا، بعض کے پاس پورا قرآن بھی تھا اور بعض کے پاس چند سورتیں اور چند آیتیں تھیں، لکھنے لکھانے کا سلسلہ بالکل ابتداء سے کثرت سے جاری تھی، اس کی شہادت درج ذیل روایتوں سے ملتی ہے:
                (۱) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے والی روایت میں ہے کہ: ان کی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہما ان سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے، وہ حضرت خباب بن الارث سے قرآن پڑھ رہے تھے، جب حضرت عمر نہایت غضب ناک حالت میں ان کے پاس پہنچے تو ان کے سامنے ایک صحیفہ تھا جس کو انہوں نے چھپا دیا تھا، اس میں سورہ طہ کی آیات لکھی ہوئی تھیں۔ (سنن دار قطنی ۱/ ۱۲۳ باب نہی المحدث عن مس القرآن، دار نشر لاہور)
                (۲) امام بخاری علیہ الرحمہ نے ”کتاب الجہاد“ میں ا یک روایت نقل کی ہے، جس میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصاحف (لکھا ہوا قرآن مجید) لے کر دشمنوں کی زمین میں جانے سے منع فرما دیا تھا۔ (صحیح بخاری ۱/۴۱۹)
                (۳)حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مشورہ سے جب قرآن مجید کے اجماعی نسخہ کی کتابت کا وقت آیا تو اس وقت حضرت زید بن ثابت کو پابند کیا گیا تھا کہ: جو کوئی بھی لکھی ہوئی آیت لے کر آئے ،اس سے دو گواہوں کی گواہی اس بات پر لیجیے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے ؛چناں چہ اس پر عمل ہوا (الاتقان ۱/۷۷)
                مذکورہ بالا تینوں روایتوں اور ان کے علاوہ بہت سی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس آیات لکھی ہوئی تھیں؛ بلکہ بعض کے پاس پورا قرآن مجید بھی لکھی ہوئی شکل میں موجود تھا۔
عہد صدیقی میں تدوینِ قرآن مجید
                ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: أعظمُ النّاسِ في المصاحب أجراً أبوبکرٍ، رحمہُ اللّٰہ علی أبي بکر، ہو أوّلُ مَنْ جَمَعَ کتابَ اللّٰہ۔ (الاتقان في علوم القرآن ۱/۷۶)
                (ترجمہ:) قرآن مجید کی خدمت کے سلسلے میں سب سے زیادہ اجر و ثواب کے مستحق ابوبکرصدیق ہیں، اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائیں کہ وہ اولین شخصیت ہیں، جنہوں نے، جمعِ قرآن کا (مایہ ناز) کارنامہ انجام دیا۔
                سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا، سارے اجزا الگ الگ تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی تمام سورتوں کوا یک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر ایک ہی جلد میں مجلد کروانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا؛ چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہو گیا جس کو سارے صحابہٴ کرام کی اجماعی تصدیق حاصل ہوئی۔
                حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی خدمت کو حکومت کی طرف سے انجام دینے کا مطالبہ کر رہے تھے، وہ چاہتے تھے کہ خلافت و حکومت اس مہم کو اپنے ہاتھ میں لے اور اپنی نگرانی میں اس کو مکمل کرائے؛ تاکہ قرآن مجید ضائع ہونے سے بچ جائے اور بعد میں کتاب اللہ میں اختلاف پیدا نہ ہو۔
                حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت امام بخاری علیہ الرحمہ نے نقل فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ:
                ”جنگ یمامہ“ کے فوراً بعد صدیق اکبر نے میرے پاس بلاوا بھیجا، میں ان کے پاس پہنچا تو وہاں حضرت عمر فاروق بھی موجود تھے، حضرت ابوبکر مجھ سے مخاطب ہوئے کہ: عمر نے ابھی آکر مجھ سے کہا کہ: جنگ ِیمامہ میں حفاظِ کرام کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی ہے، اگر آئندہ لڑائیوں میں بھی اسی طرح حفاظ شہید ہوتے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قرآن کریم کا بڑا حصہ ناپید نہ ہو جائے!
                لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید جمع کرنے کا حکم دے دیں، میں نے کہا کہ: جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہے، وہ ہم کیسے کریں؟ عمر نے جواب دیا کہ: بہ خدا! یہ کام بہتر ہے، اس کے بعد عمر بار بار مجھ سے یہ کہتے رہے ؛یہاں تک کہ مجھے بھی اس پر شرحِ صدر ہو گیا، اور اب میری رائے بھی وہی ہے جو عمر کی ہے!
                اِنَّکَ رجلٌ شابٌّ عاقلٌ، لا نَتَّہِمُکَ، وقد کُنْتَ کتبتَ الوحيَ لرسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فَتَتَبَّعِ القرآنَ فاجمعْہُ۔(ترجمہ:) واقعہ یہ ہے کہ تم نوجوان، سمجھ دار آدمی ہو، ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں ہے، اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کتابتِ وحی کی خدمت بھی کر چکے ہو؛ اس لیے تم قرآن کریم کو تلاش کرکے جمع کرو!
                حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: خدا کی قسم! اگر یہ حضرات مجھے پہاڑ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو مجھے اتنا مشکل نہ ہوتا، جتنا جمعِ قرآن کا بار ہوا، میں نے کہا بھی کہ: آپ حضرات ایسا کام کیوں کر رہے ہیں ،جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا؟ اس پر حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ: خدا کی قسم یہ کام بہتر ہے، اور حضرت ابوبکر بار بار یہی دہراتے رہے؛ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا، جس کام کے لیے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو شرحِ صدر عطا فرمایا تھا؛چنانچہ میں نے کھجور کی شاخوں، پتھر کی باریک تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن مجید تلاش کرکے جمع کرنا شروع کر دیا؛ یہاں تک کہ توبہ کی آیت ؛لقد جاء کم رسولٌ مِنْ انفسِکم اخیر سورہ تک“ میں نے صرف حضرت ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پائی، ان کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں پایا، ان کی تنہا شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمی کی شہادت کے قائم مقام قرار دیاتھا (صحیح بخاری ۲/ ۷۴۵، ۷۴۶)
جمعِ قرآن میں حضرت زید بن ثابت کا طریقہٴ کار
                حضرت ابوبکر و عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سب حافظِ قرآن تھے ،ان کے علاوہ بھی صحابہٴ کرام میں حفاظ کی کمی نہیں تھی، اگر حضرت زید چاہتے تو اپنے حافظہ سے پورا قرآن مجید لکھ دیتے، یا حافظ صحابہٴ کرام کو اکٹھا کرکے محض ان کے حافظے کی مدد سے بھی قرآن مجید لکھا جا سکتا تھا، اسی طرح محض رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کی لکھی ہوئی آیتوں سے بھی قرآن مجید لکھا جا سکتا تھا؛ لیکن حضرت ابوبکر نے بیک وقت سارے وسائل کو برروئے کار لانے کا حکم فرمایا، خود بھی شریک رہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت زید کے ساتھ لگایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا کہ:
                جن لوگوں نے جو کچھ بھی آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھی ہو، وہ سب لے کر آئیں! (فتح الباری۹/۱۷) چناں چہ جب کوئی لکھی ہوئی آیت آتی تو بلا چوں و چرا قبول نہ کی جاتی تھی؛ بلکہ اس پر دو گواہی طلب کی جاتی تھی:
            وکان لا یَقْبَلُ مِنْ أحدٍ شےئاً حتی یَشْہَدَ شَاہِدَان۔ (الاتقان ۱/۷۷)
                (ترجمہ:) اور کسی سے بھی کوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ اس پر دو گواہ گواہی نہ دے دیتے (کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی، یعنی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کی تصدیق ہو چکی ہے کہ یہ واقعتا آیتِ الٰہی ہے )۔
                جمع قرآن میں درج ذیل باتیں بھی پیشِ نظر رکھی گئیں:
                ۱  سب سے پہلے حضرت زید اپنی یاد داشت سے اس کی تصدیق فرماتے تھے۔

                ۲  حضرت ابوبکر نے حضرت زید اور حضرت عمر دونوں حضرات کو حکم دیا تھا کہ: ”آپ دونوں حضرات مسجدِ نبوی کے دروازے پر بیٹھ جاےئے، پھر جو کوئی آپ دونوں کے پاس کتاب اللہ کی کوئی آیت دو گواہوں کے ساتھ لے کر آئے ،اس کو آپ دونوں لکھ لیجیے! (فتح الباری ۹/۱۷، الاتقان ۱/۷۷)
                رسول اللہ ﷺ کے سامنے کتابت ہونے پر گواہیاں لی جانے کی کیا وجہ تھی؟ اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں:) کانَ غزضُہم أن لا یُکْتَبَ الاّ منْ عَیْنِ ما کُتِبَ بین یَدَي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا مِنْ مْجَرَّدِ الحِفظ۔( فتح الباری ۹/۱۷، الاتقان ۱/۷۷)
                 (ترجمہ:) ان کا مقصد یہ تھا کہ: صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عین سامنے لکھی گئی آیتوں کو ہی لکھا جائے، محض حافظہ سے نہ لکھا جائے۔
                حافظ ابن حجر نے ہی ایک دوسری وجہ بھی لکھی ہے کہ: گواہیاں اس بات پر بھی لی جاتی تھیں کہ: دو گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ لکھی ہوئی آیت ان وجوہ (سبعہ) کے مطابق ہے جن پر قرآن مجید نازل ہوا ہے (فتح الباری ۹/ ۱۷، الاتقان۱/۷۷)
                ۳  لکھنے کے بعد صحابہٴ کرام کے پاس موجود لکھے ہوئے مجموعوں سے ملایا جاتا؛ تاکہ یہ مجموعہ متفقہ طور پر قابلِ اعتماد ہو جائے، (البرہان في علوم القرآن للزرکشی ۱/۲۳۸)
                جب اجتماعی تصدیق کے ساتھ ”قرآن مجید“ کی جمع و تدوین کا کام مکمل ہو گیا، تو صحابہٴ کرام نے آپس میں مشورہ کیا کہ: اس کو کیا نام دیا جائے؟ چناں چہ بعض صحابہٴ کرام نے اس کا نام ”سِفْر“ رکھا؛لیکن یہ نام یہودیوں کی مشابہت کی وجہ سے پاس نہیں ہوا، اخیر میں ” مصحف“ نام پر سارے صحابہٴ کرام کا اتفاق ہو گیا۔ (الاتقان ۱/۷۷)
                قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر کے پاس ان کی وفات تک رہا، پھر حضرت عمر کے پاس رہا، جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس محفوظ رکھاگیا، جیسا کہ بخاری شریف کے حوالے سے گذر چکا ہے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس سے ہی منگوا کر نقول تیار کرائے تھے۔
نسخہٴ صدیق کی خصوصیت
                دوسرے صحابہٴ کرام کے پاس بھی قرآن مجید لکھا ہوا تھا؛ لیکن جن خصوصیات کا حامل حضرت ابوبکر صدیق والا اجماعی نسخہ تھا، ان سے دوسرے سارے نسخے خالی تھے، اسی وجہ سے صحابہٴ کرام کے درمیان اُسے ”اُم“ کہا جاتا تھا،اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
                ۱ ہر سورت کو الگ الگ لکھا گیا تھا؛ لیکن ترتیب بعینہ وہی تھی، جو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی (فتح الباری ۹/۲۲)
                ۲ اس نسخہ میں ساتوں حروف جمع تھے، جن پر قرآن مجید کا نزول ہوا۔ (مناہل العرفان ۱/۲۴۶، ۲۴۷)
                ۳یہ نسخہ خط ”حِیَرِی“ میں لکھا گیا تھا۔ (تاریخ القرآن از مولانا عبد الصمد صارم# ص ۴۳)
                ۴اس میں صرف وہ آیات لکھی گئی تھیں، جن کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی۔
                ۵اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی ”اجماعی تصدیق“ سے تیار ہو جائے؛ تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے (علوم القرآن از مفتی محمد تقی عثمانی ص۱۸۶)
                ۶اس نسخہ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر، ایک ہی جلد میں مجلد کرایا گیا تھا، اور یہ کام حکومت کی طر ف سے انجام دیا گیا، جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو پایا تھا، (تدوین قرآن ص۴۰)
            وکان القرآنُ فیہا مُنْتَشِراً فَجَمَعَہا جامعٌ و رَبَطَہَا بخیطٍ۔ (الاتقان ۱/۸۳)
                (ترجمہ:) اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں قرآن مجید کی مکمل یاد داشتوں کا جو ذخیرہ تھا) اس میں (قرآنی سورتیں) الگ الگ لکھی ہوئی تھیں؛ پس اس کو (حضرت ابوبکرکے حکم سے) جمع کرنے والے (زید بن ثابت) نے ایک جگہ (ساری سورتوں کو) جمع کر دیا، اور ایک دھاگا سے سب کی شیرازہ بندی کر دی۔
                قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، جب ان وفات ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو (وصیت کے مطابق) آپ کی بیٹی ام الموٴمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رکھا رہا (صحیح بخاری ۲/۷۴۶)
عہدِ عثمانی میں امت کی شیرازہ بندی
                 جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ جمعِ قرآن ہے، اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ پوری امت کو قرآن مجید کے اس متفق علیہ نسخہ پر جمع کرنا ہے جو ”عہدِ صدیقی“ میں تیار کیا گیا تھا، اس طرح امتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھرنے سے انہوں نے بچا لیا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
                بالکل ابتداء میں مضمون و معنی کی حفاظت کرتے ہوئے الفاظ میں ادنی تبدیلی کے ساتھ پڑھنے کی اجازت بھی دی گئی تھی، (مناہل العرفان) جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا، تو جن لوگوں نے مذکوہ بالا رعایتوں کی بنیاد پر اپنے اپنے قبائلی اور انفرادی لہجوں یا مختلف متواتر تلفظ کے لحاظ سے قرآن مجید کے مختلف نسخے لکھے تھے، انکے درمیان شدید اختلاف رونما ہو گیا؛ حتی کہ ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی، تو صحابہٴ کرام کے مشورے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ متفق علیہ نسخہ پر امت کو جمع کیا، اور اس کے علاوہ سارے نسخوں کو طلب کرکے نذرِ آتش کر دیا؛ تاکہ ”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“؛ چنانچہ اختلاف جڑ سے ختم ہو گیا (تفصیل کے لے دیکھئے: تدوینِ قرآن ۴۴، ۵۴، تحفة الالمعی ۷/۹۴،۹۵، مناہل العرفان وغیرہ)
کام کی نوعیت
                حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تیار کردہ نسخہ یہ کہہ کر منگوایا کہ ہم اس سے نقل تیار کرکے اصل آپ کو واپس کر دیں گے، چناں چہ حضرت حفصہ نے وہ نسخہ بھیج دیا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تین قریشی اور چوتھے انصاری صحابی کو پانچ یا سات نسخے لکھنے کا حکم فرمایا، قریشی صحابی میں، حضرت عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام رضی اللہ عنہم تھے اور انصاری صحابی سے مراد حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں۔
                ان سب کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی ہدایت دی تھی کہ آپ حضرات کا اگر کسی جگہ رسم الخط میں حضرت زید سے اختلاف ہو تو اس لفظ کو قریش کے رسم الخط کے مطابق لکھیں؛ اس لیے کہ قرآن مجید قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے (فتح الباری ۹/۲۲)۔
                معتبر روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ: پورے قرآن مجید کے کسی لفظ میں بھی ان لوگوں کااختلاف نہیں ہوا، ہاں! سورہٴ بقرہ میں ایک لفظ ”التابوت“ ہے، اس کے بارے میں حضرت زید کی رائے گول ”ة“ سے لکھنے کی تھی، اور حضرت سعید بن العاص، لمبی ”ت“ سے لکھنا چاہتے تھے، جب یہ بات حضرت عثمان غنی کے پاس پہنچی تو آپ نے لمبی ”ت“ سے لکھنے کا حکم فرمایا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: سیر أعلام النبلاء مع حاشیہ ۲/۴۴۱،۴۴۲)۔
                واضح رہے کہ مذکورہ بالا چار حضرات ”مجلس کتابت“ کے اساسی رکن تھے، ان کے علاوہ دوسرے حضرات کو بھی ان کے ساتھ کیا گیا تھا، فتح الباری میں ہے کہ حضرت عثمان نے قریش اور انصار کے بارہ افراد کو اس کے لیے جمع فرمایا تھا، ان میں مذکورہ چاروں حضرات کے علاوہ اُبی بن کعب، مالک بن ابی عامر، کثیر بن افلح، انس بن مالک اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ (فتح الباری ۹/۲۳)۔
عہد عثمانی میں تیار کردہ نسخوں کی خصوصیات
                ۱حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جو نسخہ تیار ہوا تھا، اس میں ساری سورتیں الگ الگ لکھی گئی تھیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام سورتوں کو اسی ترتیب سے یکے بعد دیگرے ایک ہی مصحف میں لکھوایا۔ (فتح الباری ۹/۲۲)۔
                ۲قرآن مجید ایسے رسم الخط میں لکھا گیا کہ ممکن حد تک متواتر قرأتیں سما جائیں۔ (مناہل العرفان ۱/۲۵۳)
                ۳حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جن حضرات کو نسخہٴ قرآن تیار کرنے کے لیے مامور فرمایا تھا، ان حضرات نے اسی نسخہ کو بنیاد بنایا تھا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تیار کیا گیا تھا، اسی کے ساتھ مزید احتیاط کے لیے وہی طریقہ اختیار فرمایا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اختیار کیا گیا تھا؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی متفرق تحریریں جو مختلف صحابہٴ کرام کے پاس محفوظ تھیں، انھیں دوبارہ طلب کیا گیا اور ان کے ساتھ از سرنو مقابلہ کر کے یہ نسخے تیار کیے گئے۔ (علوم القرآن ص۱۹۱)
عہدِ عثمانی میں تیار کردہ نسخوں کی تعداد
                اس سلسلے میں دو اقوال ہیں، ایک قول یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پانچ نسخے تیار کرائے تھے، یہی قول زیادہ مشہور ہے۔ (فتح الباری ۹/۲۴)اور دوسرا اقوال یہ ہے کہ حضرت عثمان نے سات نسخے تیار کرائے تھے، ایک نسخہ مدینہ منورہ میں رکھا گیا، اور بقیہ مکہ، شام، یمن، بحرین، بصرہ ور کوفہ میں ایک ایک کرکے بھیج دیا گیا، یہ قول ابن ابی داؤد سے ابو حاتم سجستانی نے نقل کیا ہے۔ (فتح الباری۹/۲۵)۔
امت میں پائے جانے والے دیگر مصاحف
                حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کے پاس موجود سارے نسخوں کو نذرِ آتش کرنے کا حکم نافذ فرما دیا (فتح الباری ۹/۱۳) تاکہ امتِ مسلمہ ایک رسم الخط پر متفق ہوجائے اور امت کی شیرازہ بندی باقی رہے۔
                اس وقت موجود بلا استثناء سارے صحابہٴ کرام نے حضرت عثمان کے اس کارنامے کی تائید و حمایت کی اور خوب خوب سراہا۔
عہد صدیقی والا نسخہ
                 حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ام الموٴمنین حضرت حفصہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والا نسخہ واپسی کے وعدے سے منگوایا تھا (فتح الباری ۹/۱۹) ؛اس لیے اس سے نقلیں تیار کرکے حسبِ وعدہ واپس فرما دیا۔ (فتح الباری۱۳۹)۔





کاتبینِ پیغمبرِ اعظم ﷺ— ایک تعارف

(۱/۲)


اسلام آخری مذہب ہے، قیامت تک دوسرا کوئی مذہب نازل ہونے والا نہیں ہے، اس دین کی حفاظت و صیانت کا سہرا صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سر ہے، صحابہ کی برگزیدہ جماعت نے اسلام کی بقا اور اس کے تحفظ کے لیے جان و مال کو قربان کیا، انھیں کے خونِ جگر سے سینچے ہوئے درخت کا پھل آج ہم سب کھا رہے ہیں، انہوں نے دین کو اس کی صحیح صورت میں محفوظ رکھنے کا جتن کیا، ان کی زندگی کا ہر گوشہ اسلام کی صحت و سلامتی کی کسوٹی ہے، جو لوگ صحابہٴ کرام سے جتنا قریب ہیں، وہ دین سے اتنا ہی قریب ہیں، اور جو لوگ جتنا اس جماعت سے دورہوں گے؛ ان کی باتیں اُن کا نظریہ، اُن کا عقیدہ اور اُن کا عمل اتنا ہی دین سے منحرف ہوگا۔
قرآن و سنت کی حفاظت میں صحابہٴ کرام نے جس طرح اپنے حیرت انگیز خداداد حافظے کو کام میں لایا، اسی طرح دوسرے وسائل اختیار کرنے سے بھی انہوں نے دریغ نہیں کیا، انہوں نے آیات و احادیث کی حفاظت لکھ کر بھی کی ہے، بہت سے صحابہٴ کرامﷺ نے قرآن مجید لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھا تھا، اسی میں تلاوت کیاکرتے تھے، بہت سے صحابہٴ کرام نے چند سورتیں یا چند آیتیں لکھ رکھی تھیں، احادیث کا لکھا ہوا ذخیرہ بھی بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس محفوظ تھا، کثرت سے آیات و احادیث یادکرنے اور لکھنے کی روایات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اندر وحی اور دین کی حفاظت کا جذبہ کتنا زیادہ تھا، اُس دور میں جب کہ لکھنے پڑھنے کے وسائل آج کی طرح بہت وافر نہ تھے، پھر بھی انہوں نے بڑی دلچسپی سے کتابت سیکھی اور سکھائی، بعض صحابہٴ کرام کو دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کتابت سکھانے کا حکم تھا، وہ اپنے فن کا مظاہر کرتے تھے، بعض اہلِ فن کو خدمتِ نبوی میں رہ کر ”وحی الٰہی“ کی کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اُن میں بھی درجہ بندی تھی، بعض کی غیر موجودگی میں بعض کی نیابت متعین تھی، بعض کو احادیث لکھنے کی خصوصی اجازت بھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، احکامِ زکوٰة و صدقات، فرامین ومعاہدات لکھنے کے لیے بھی صحابہٴ کرام کی اچھی خاصی تعداد دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود رہتی تھی، حیدرآباد کے مشہور و معروف محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمة اللہ علیہ نے دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھے گئے دستاویزات جمع فرمائے ہیں، ہر دستاویز پر لکھنے والے صحابہٴ کرام کے نام بہ حیثیت کاتب درج ہیں، اس سے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہٴ کرامکے درمیان لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔
خلاصہ یہ کہ صحابہٴ کرام نے جس طرح اپنے حافظہ کے ذریعہ دین کی حفاظت کی ہے، اسی طرح لکھ کر بھی پورے دین کو مکمل شکل میں انہوں نے محفوظ فرمایا ہے۔
راقم الحروف کوتاہ ہمت اب تک کی جد و جہد اور کاوش سے تاریخ و سیر کی کتابوں سے پچھتّر(۷۵) صحابہٴ کرام کے نام دریافت کرسکا ہے، جنہوں نے دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل کیا ہے، بعض نے وحی کی کتابت فرمائی، بعض نے احادیث لکھیں، بعض نے دستاویزات لکھے، بعض نے احکام زکوٰة اور فرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابت کی، بعض نے قرآن مجید کی جمع وتدوین میں نمایاں طور پر حصہ لیا۔
کتاب التراتیب ا لإداریہ (۱/۱۶ط مراکش) میں ایسے صحابہٴ کرام کی تعداد بیالیس ہے، ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی کتاب ”کاتبانِ وحی“ میں اڑتالیس صحابہٴ کرام کا ذکر ہے، اور المقری محمد طاہر رحیمی ملتانی کی کتاب ”کاتبانِ وحی“ میں چھپن صحابہٴ کرام کا ذکر ہے، اسی کتاب سے حضرت قاری ابوالحسن صاحب اعظمی دامت برکاتہم نے ”کاتبینِ وحی“ میں مواد فراہم فرمایا ہے، ان سب میں سے تکرار کو حذف کرنے کے بعد ”کاتبین “ صحابہٴ کرام کی تعداد پچہتر(۷۵) ہو جاتی ہے، ان میں سے انچاس (۴۹) صحابہٴ کرام ایسے ہیں، جن کے بارے میں راقم الحروف کو کاتب ہونے کی صراحت کتابوں میں مل گئی ، اور ایک نام عبداللہ بن خطل یا عبدالعزی بن خطل ہے، اس کے بارے میں ارتداد کی روایت ملتی ہے، کاتب ہونے کی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اسی طرح ایک نامعلوم ”نصرانی انصاری“ کے کاتب ہونے کی روایت ملتی ہے؛ تا ہم یہ بھی لکھا ہے کہ ایمان سے پھر گیا تھا، جب دفن کیا گیا تو قبر نے اوپر پھینک دیا، اور ایک نام ”السجل“ ذکر کیا جاتا ہے، سورہ انبیاء (آیت ۱۰۴) میں مذکور ہے، راجح قول کے مطابق یہ کوئی کاتبِ وحی صحابی نہیں ہیں، اسی طرح مزید تئیس (۲۳) صحابہٴ کرام کے بارے میں صریح روایت تلاشنے سے راقم الحروف قاصر رہا؛ اس لیے اخیر میں ان کے ناموں کی ”الف بائی“ فہرست لکھ دی گئی ہے؛ تاکہ ان کے بارے میں صریح روایتوں کی تحقیق کی جا سکے، متعدد اہلِ علم نے کاتبینِ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ان کے اسمائے گرامی درج فرمائے ہیں، جن صحابہٴ کرام کے بارے میں تاریخی روایات موجود ہیں اُن کی ترتیب بھی ”الف بائی“ رکھی گئی ہے؛ تاکہ متعین نام تلاش کرنے میں سہولت ہو، ان کی ابتداء صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم: حضرت ابان بن سعید سے ہے اور یزید بن معاویہ پر یہ ترتیب مکمل ہوتی ہے۔
۱—حضرت ابان بن سعید: حضرت ابان بن سعید اُن صحابہٴ کرام میں سے ہیں، جن کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بارہا کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت حضرت عمر بن شبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن عبدالبر، ابن الاثیر، ابن کثیر د مشقی، ابن سید الناس، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے، (حوالہ کے لیے ملاحظہ فرماےئے: (المصباح المضئی ۱۸/أ، الہدایہ والنہایہ۵/ ۳۴۰، الاستیعاب۱/۵۱، التاریخ الکامل ۲/۳۱۳، عیون الاثر ۲/۳۱۵ العجالة السنیہ ۲۴۶، التنبیہ وا لإشراف ۳۴۶ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ص۱۳۵)
آپ کا سلسلہٴ نسب یہ ہے:
ابان بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قرشی، اموی رضی اللہ عنہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلحِ حدیبیہ کے موقع سے حضرت عثمان بن عفان کو مکہ مکرمہ بھیجا تھا، تو ان کو حضرت ابان نے ہی پناہ دی تھی اور اپنے گھوڑے پر سوار کرکے نہایت ہی جرأت و بے باکی سے ارشاد فرمایا تھا:
اَقْبِلْ و أدْبِرْ وَلاَ تَخَفْ أَحَداً۔ (ترجمہ:) آپ آگے پیچھے جہاں تشریف لے جانا چاہیں، لے جائیں، اور کسی سے خوف زدہ نہ ہوں! (الاستیعاب ۱/۷۵)، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے پہلے تین ماہ کی درمیانی مدت میں ایمان لائے، (تاریخ خلیفہ بن خیاط ۵۰) سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علاء بن حضرمی کے بعد ان کو ”بحرین“ کا عامل مقرر فرما دیا تھا (الاستیعاب ۱/۷۵)، پورے عہدِ نبوی میں اس عہدہ پر فائز رہے اور صدیق اکبر کے زمانہٴ خلافت میں شام کے محاذِ جنگ پر گئے اور جامِ شہادت نوش کیا، بعض روایات میں ”جنادین“۱۳ئھ میں آپ کی شہادت کا ذکر ہے اور بعض موٴرخین نے جنگِ یرموک ۱۵ئھ میں آپ کی شہادت کا ذکر کیا ہے۔ (نقوش، رسول نمبر ج ۷ ص۱۳۵)
۲—حضرت ابو ایوب انصاری: میزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کون واقف نہیں؟ آپ سابقین اولین میں سے ہیں، بیعت عقبہٴ ثانیہ میں موجود تھے، بدر و حنین اور خندق سمیت سارے غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، آپ کو بھی دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہے، عراقی، انصاری اور ابن سید الناس وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح الفیہ ص۲۴۶ عیون الاثر ۲/۳۱۶، المصباح المضیئی ۲۱/أ بحوالہ نقوش رسول نمبر ج۷ ص۱۳۶)
حضرت علی رضی اللہ عنہ جب عراق جانے لگے تھے تو اس موقع سے حضرت ابو ایوب انصاری کو حُدیبیہ میں اپنا قائم مقام بنایا تھا، خوارج کی جنگ میں بھی حضرت علی کی طرف سے حصہ لیا، بالآخر قسطنطنیہ کی جنگ میں شہید ہوئے، وفات سے پہلے سپہ سالار نے آپ سے آخری خواہش پوچھی، تو آپ نے فرمایا کہ: جب میں مر جاؤں، تو میری لاش کو دشمن کی زمین میں آگے لے جا کر دفن کر دینا؛ چناں چہ جب انتقال ہوا، تو یزید بن معاویہ نے ایک دستہ تیار کیا، جس کی نگرانی میں آپ کو قسطنطنیہ کے قریب لے جاکر دفن کیا گیا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سیرت ابن ہشام ۱/۴۹۸الاستیعاب ۱/۴۰۴، الاصابہ ۱/۴۰۵، اُسد الغابہ ۲/۸۱ وغیرہ)
۳ —حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ: خلفیہٴ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ صحابہٴ کرام میں سب سے افضل ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ”ثانیٴ اثنین اذ ہما في الغار“ (توبہ۴۰) فرمایا ہے، آپ کی صحابیت قرآنِ پاک سے ثابت ہے؛ اس لیے جو شخص بھی آپ کے صحابی ہونے کا انکار کرے گا وہ کافر ہو جائے گا، عام الفیل کے ڈھائی سال بعد، ہجرت سے پچاس سال پہلے پیدا ہوئے (الاصابہ ۲/۳۳۴، تذکرة الحفاظ ۱/۵) آپ کا نام عبداللہ ہے، یہ نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا تھا، پہلے نام ”عتیق“ تھا، کنیت ابوبکر اور لقب ”صدیق“ ہے، آپ کو بھی دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہوا ہے، اس کی صراحت، ابن حجر، ابن کثیر، عمرو بن شبہ، ابن سید الناس، مزی، عراقی اور انصاری نے کی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: فتح الباری ۹/۲۷، البدایہ والنہایہ ۳۵۱، تہذیب الکمال ۴/ب، الروض الأنف ۲/۲۳۰، عیون الاثر ۲/۳۱۵، شرح ألفیہ عراقی ۳۲۵ وغیرہ)
 یہ بات تو صحیح ہے کہ آپ نے کم لکھا ہے؛ لیکن یہ کہنا کہ آپ لکھنا جانتے ہی نہ تھے، جیسا کہ بعض عیسائی موٴرخین نے محض بغض و عناد میں لکھ دیا ہے، یہ بات بالکل درست نہیں ہے۔ امام بخاری کی روایت میں کئی مرتبہ حضرت انس کا یہ قول موجود ہے کہ: سیدنا صدیقِ اکبر نے آپ کو احکامِ زکوٰة جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمائے، لکھ کر دیے، اس طرح کی روایات کو بلا دلیل کیوں کرحقیقت سے پھیرا جا سکتا ہے؟ خود سُراقہ بن مالک والی روایت بھی حضرت صدیق اکبر کے لکھنے کی تصدیق کرتی ہے، ابن کثیر نے اس پر بڑی اچھی بحث کی ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۱، الوثائق السیاسیة ص ۳۶، مسند احمد بن حنبل وغیرہ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۸ ۱۳)
۴—حضرت ابو خزیمہ بن أوس رضی اللہ عنہ: ان کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے: ابو خزیمہ بن أوس بن زید بن اصرم بن ثعلبہ بن غنم بن مالک بن نجار، یہ انصاری خزرجی ہیں، غزوہٴ بدر اور دیگر معرکوں میں شریک ہوئے۔
ان کے بارے میں ابن شہاب نے عبید بن السباق سے اور انہوں نے زید بن ثابت سے نقل کیا ہے کہ: میں نے ”سورہٴ توبہ کی آخری دو آیتیں“ ابو خزیمہ انصاری کے پاس پائی (اسد الغابہ ۵/ ۱۸۰ بحوالہ کاتبین وحی ص۷۰)
۵—حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ: آپ کا پورا نام صخر بن حرب تھا، عمر میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس سال بڑے تھے، فتحِ مکہ کے بعد اسلام لائے، اس سے پہلے اسلام کے سخت ترین دشمن تھے، فتحِ مکہ کے دن سرکارِ دوعالم ﷺ نے اعلان فرمایا تھا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے بھی امان ہے، حنین، طائف اور یرموک وغیرہ میں شریک ہوئے، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ”نجران“ کا عامل مقرر فرمایا تھا، زمانہٴ جاہلیت سے ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے، مشہور موٴرخ واقدی نے آپ کو زمانہٴ جاہلیت میں لکھنے والوں میں شمار کیا ہے۔
اسلام لانے کے بعد آپ کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی لکھنے کا شرف حاصل ہوا، عراقی، ابن سید الناس، ابن مِسکویہ اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح ألفیہ عراقی ۳۴۶، عیون الأثر ۲/۳۱۶، تجارب الأمم ۱/۲۹۱، المصباح المضئی ۲۵،۲۸/أ بحوالہ نقوش ۷/۱۳۹) حضرت ابو سفیان کی وفات تقریباً ۹۰ سال کی عمر میں ہوئی، یہ حضرت عثمان بن عفان کی خلافت کا زمانہ تھا، بعض نے ۳۰ھء، بعض نے ۳۱ھء اور بعض موٴرخین نے ۳۴ھء میں آپ کی وفات لکھی ہے۔
۶—حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدا لأسد رضی اللہ عنہ: آپ کا اسم گرامی عبداللہ بن عبدالأسد بن ہلال بن مخزوم ہے، (الاصابہ ۲/ ۳۳۵) آپ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے (اسد الغابہ ۳/۱۹۵) حضرت ابوبکر صدیق کی طرح عموماً آپ بھی کنیت ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔ سابقین اولین میں شمار کے جاتے ہیں، ایک روایت کے مطابق آپ گیارہویں مسلمان ہیں۔ آپ کی شادی ام سلمہ سے ہوئی آپ کی وفات کے بعد حضرت ام سلمہ کو ام الموٴمنین ہونے کا شرف حاصل ہوا، ایک روایت کے مطابق قیامت کے دن دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ وصول کرنے والوں میں آپ پہلے شخص ہوں گے۔ غزوہٴ احد میں ایسا کاری زخم لگا کہ وہی موت کا سبب بن گیا۔ (سیرہ ابن ہشام ۱/۲۵۲،الاصابہ ۲/۳۳۵،)
دربارِ رسالت مآب ﷺ میں کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، اس کی صراحت ابن سید الناس، ابن مِسکویہ، ابو محمد دمیاطی، عراقی یعمری اور انصاری نے کی ہے، (حوالہ کے لیے ملاحظہ فرماےئے: عیون الاثر ۲/۳۱۶ تجارب الامم ۱/۲۹۱، المصباح المضئی ۳۴/ب، العجالة السنیہ شرح الفیہ عراقی ص ۳۴۶ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۰)
۷— حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ: حضرت ابی ابن کعب کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے: اُبی بن کعب بن قیس بن زید بن معاویہ بن عمر و انصاری نجاری، کنیت ابوالمنذر اور ابوالطفل تھی، سارے غزوات میں شریک ہوئے، آپ فقہائے صحابہ میں بھی شمار ہوتے ہیں، اور بلا اختلاف سید القراء ہیں، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ تم کو قرآن سناؤں، حضرت ابی بن کعب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! یہ سن کر حضرت ابی بن کعب فرطِ مسرت سے رونے لگے، (صحیح بخاری تفسیر سورہ لم یکن)
آپ مشہور و معروف کاتبینِ وحی میں سے ہیں، دربارِ رسالت مآب ﷺ میں کتابت کا شرف حاصل کرنے کی صراحت بہت سی کتابوں میں موجود ہے، (حوالے کے لیے دیکھیے: تاریخ طبری۶/۱۷۹، المصباح المضئی ۸/ ب، تجارب الامم ۱/۲۹۱، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، الورزاء والکُتَّاب ۱۲، اسد الغابہ ۱/۵۰ شرح الفیہ عراقی ۲۴۵، تہذیب الکمال ۵/۲۴۰، البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۰ بحوالہ نقوش۷/۱۴۱)
ایک روایت میں ہے کہ: سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھ کر (مدینہ منورہ) وحی لکھنے والوں میں آپ سب سے اول ہیں (البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۰) عیون الاثر اور تاریخ ابن الاثیر میں بھی آپ کے سب سے پہلے کاتب ہونے کی صراحت موجود ہے (التارالکامل ۲/۱۳) تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان وحی کی کتابت فرماتے تھے، اور اگر وہ موجود نہ ہوتے، تو حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت وحی کی کتابت فرماتے تھے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں کئی ایسے مکاتیب ذکر کیے ہیں، جن میں کاتب کا نام ابی بن کعب درج ہے، مثال کے طور پر دیکھیے: وثیقہ نمبر ۶۳، ۶۴، ۷۶، ۱۲۰، ۱۲۱، ۱۲۴، ۱۶۳، ۱۷۴، ۲۰۶، ۲۴۴وغیرہ (الوثائق السیاسیہ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۲) آپ کی وفات علی اختلاف الاقوال ۱۹ھء یا ۲۰ھء یا۲۲ھء یا ۳۰ھء میں ہوئی۔ (نقوش ۷/ ۱۴۲)
۸— حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ: انھیں کے گھر میں حضرت عمر نے اسلام قبول کیا تھا، اس کے بعد ہی کھلم کھلا اسلام کی دعوت دی جانے لگی، یہ گھر کوہِ صفا کے دامن میں تھا، اسے دعوتِ اسلام کا پہلا خفیہ مرکز کہا جا سکتا ہے، حضرت ارقم ساتویں مسلمان تھے اور حضرت عمر چالیسویں مسلمان تھے۔
آپ نے تمام غزوات میں حصہ لیا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو صدقات جمع کرنے پر مامور فرمایا تھا، اور مدینہ طبیہ میں ایک حویلی بھی عنایت فرمائی تھی (الاصابہ ۱/ ۲۸۰، اسدالغابہ ۱/ ۶۰)
متعدد موٴرخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربارِ رسالت میں لکھا ہے، مثلاً ابن کثیر، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری وغیرہ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۱/ ۶۰، عیون الاثر ۲/ ۳۱۶، شرح الفیہ ص ۲۴۷، المصباح المضئی ۱۸/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۲)
علامہ ابن کثیر نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ: حضرت ارقم رضی اللہ عنہ نے سرکارِ دوعالم ﷺ کے حکم سے عظیم بن الحارث المحاربی کو ایک بہت بڑی جاگیر لکھ دی تھی (البدایہ والنہایہ۵/ ۳۴۱)
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی مشہور و معروف کتاب الوثائق السیاسیہ میں وثیقہ نمبر ۸۴، ۸۸، ۱۷۶، ۲۱ ۲ پر بحیثیت کاتب حضرت ارقم کے دستخط موجود ہیں۔
آپ کی عمر اسی سال سے زائد ہوئی، بعض نے حضرت صدیق اکبر کی وفات کے دن آپ کی وفات لکھی ہے اور بعض نے ۵۵ئھ بتائی ہے، وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی (اسد الغابہ ۱/ ۲۲۹ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)
۹—حضرت بریدہ بن الحصیب رضی اللہ عنہ: حضرت بریدہ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت ایمان قبول کیا، اور غزوہٴ احد کے بعد مدینہ تشریف لائے، اور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ غزوات میں شریک ہوئے (اسد الغابہ ۱/ ۱۷۵، الاصابہ ۱/ ۱۴۶) متعدد موٴرخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربار رسالت میں شمار کیا ہے، مثلا: ابن سیدا لناس، عراقی اور انصاری وغیرہ (حوالے کے لیے دیکھیے: عیون الاثر ۲/ ۳۱۶ العجالة السنیہ شرح الفیہ ۲۴۶، المصباح المضئی ۷/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)
حضرت بلال بن سراج بن مجاعہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کو یمن میں ایک جاگیر عطا فرمائی تھی، جس کی تحریر حضرت بریدہ نے لکھی تھی، وہ درج ذیل ہیں:
”محمد رسول کی طرف سے مجاعہ بن مرارہ کے لیے جو بنی سلم سے ہے کہ: میں تم کو ایک سرحدی زمین دیتا ہوں جو کوئی تم سے اس معاملہ میں جھگڑا کرے اُسے چاہیے کہ میرے پاس آئے“۔ اس کو بریدہ نے لکھا۔ (المصباح المضئی ۱۸/ أبحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)
۱۰— حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب تھے جس طرح حضرتِ حسان بن ثابت کو آپ کے شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے (اسد الغابہ۱/۲۲۹) جب سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو حضرت ثابت نے تقریر کی اور فرمایا کہ ہم دشمنوں سے آپ کی اس طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنی جان اور اولاد کی حفاظت کرتے ہیں؛ لیکن اس کے بدلے ہمیں کیا ملے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت! اس پر پورے مجمع نے خوشی کا اظہار کیا اور بیک زبان ہو کر سب بول پڑے کہ: ہم اس پر خوش ہیں (الاصابہ ۱/۱۹۵)
آپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے ہیں ابن کثیر، ابن سعد، ابن سیدا لناس، مزّی، عراقی اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/۳۴۱، طبقات بن سعد ۱/۸۲، عیون الاثر /۳۱۵، تہذیب الکمال ۴/ ب العجالة السنیہ شرح الفیہ ۲۴۵، المصباح المضئی ۱۹أ)
ڈاکٹر محمدمصطفی اعظمی لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر حمیداللہ نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں وثیقہ نمبر ۱۵۷ میں تحریر کنندہ کا نام قیس بن شماس الرویانی لکھا ہے؛ لیکن صحابہٴ کرام میں اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا، شاید یہ ثابت بن قیس بن شماس ہوگا“۔ (نقوش ۷/۱۴۴)
آپ کی شہادت جنگ یمامہ میں ۱۱ھء کو ہوئی (اسد الغابہ۱/۲۲۹، ۲۳۰، الاصابہ ۱/۱۹۵، الاستیعاب ۱/ ۱۹۵ بحوالہ نقوش)
۱۱— حضرت جعفر رضی اللہ عنہ: ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی رقم طراز ہیں: ”بیہقی کی ابن اسحاق والی روایت کے سوا میں نے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جعفر رضی اللہ عنہ کا نام کسی کو ذکر کرتے نہیں پایا (الاصابہ ۲/ ۲۳۹، ۲۹۹) مزید بر آں یہ کہ میرے نزدیک یہ شخصیت بھی غیر واضح ہے؛ کیوں کہ اس نام کے متعدد صحابہٴ کرام تھے، شاید یہ جعفر بن ابی طالب ہیں یا جعفر بن ابی سفیان۔
بیہقی میں ہے ﷺ جب کبھی حضرت زید اور عبداللہ بن أرقم وقت پر موجود نہ ہوتے اور کسی کماندار کو، کسی بادشاہ کو یا کسی دوسرے انسان کو کوئی چیز لکھ کر دینا ہوتی، تو حضرت جعفرسے لکھوا لیتے تھے الخ“ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۰/ ۱۲۶ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۵)
۱۲— حضرت جہم بن سعد رضی اللہ عنہ: ابن حجر کی روایت ہے کہ حضرت جہم کو القفاعی نے کاتبینِ رسول اللہ ﷺ میں شمار کیا ہے، اور لکھا ہے کہ حضرت زبیر اور جہم اموالِ صدقہ لکھا کرتے تھے، اسی طرح مفسر قرطبی نے بھی اپنی تالیف ”مولد النبی ﷺ“ میں کاتبین میں آپ کا ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ عراقی اور انصاری نے بھی آپ کا شمار کاتبین کے ضمن میں کیا ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۱/ ۲۵۵، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶، المصباح المضئی ۱۹/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۵)
۱۳— حضرت جُہیم بن الصلت رضی اللہ عنہ: آپ کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے: جُہیم بن الصلت بن مخرمہ بن المطلب بن عبد مناف قرشی رضی اللہ عنہ۔
ابن الاثیر اور بن عبدالبر نے لکھا ہے کہ آپ فتح خیبر کے سال مسلمان ہوئے، اور ابن سعد کی روایت ہے کہ آپ فتحِ مکہ کے بعد مسلمان ہوئے (الاستیعاب ۱/۲۴۷ ، اسد الغابہ ۱/ ۲۵۵)بلاذری نے لکھا ہے کہ جُہیم بن الصلت زمانہٴ جاہلیت سے لکھنا جانتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی آپ نے لکھا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر بھی لکھا ہے (الاصابہ ۱/۲۵۵)اموالِ صدقہ کی تفصیلات لکھنے کی روایت بھی ملتی ہے (التنبیہ والاِشراف ۲۴۵)
حضرت جُہیم کے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب ہونے کی صراحت ابن شبہ، یعقوبی، ابن مسکویہ، ابن سید الناس، ابن حجر، عراقی، انصاری نے بھی کی ہے (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب، تاریح یعقوبی ۲/ ۸۰، تجارب الامم ۱/ ۳۹۱، عیون الاثر، أنساب الاشراف ۱/ ۵۳۲ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۶)
۱۴— حضرت حاطب بن عمر رضی اللہ عنہ:
سلسلہٴ نسب اس طرح ہے:
حضرت حاطب بن عمرو بن عبدالشمس بن عبد وَدّ قرشی عامری رضی اللہ عنہ ابتدائی دور میں ہی مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کیا، حبشہ کی طرف ہجرت کی، جنگِ بدر میں شریک ہوئے۔
دربارِ رسالت میں کتابت کا شرف حاصل کیا، ابن مسکویہ، ابن سیدالناس عراقی اور انصاری وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: تجارب الامم ۱/۲۹۱، عیون الاثر ۲/ ۳۱۶، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶ بحوالہ نقوش رسول نمبر ۷/۱۴۶)
۱۵— حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے معتمد تھے، یمن کے رہنے والے تھے، حضرت عمر کے عہدِ خلافت میں جب کوئی وفات پا جاتا تو حضرت عمر فرماتے: اگر حذیفہ اس کے جنازہ میں شریک ہوں گے، تو ہی عمر شامل ہوگا، اگر وہ شامل نہ ہوں گے، تو میں بھی نہ ہوں گا (الاصابہ ۱/۳۳۱،۳۳۲)
 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے کہا: کوئی تمنا کرو! انہوں نے تمنا کی کہ اے کاش! ان کے وہ گھر جن میں وہ رہتے ہیں جواہرات اور دینار و درہم سے بھرا ہو اور وہ ان سب کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں! لیکن حضرت عمر نے فرمایا کہ: میری تمنا ہے کہ: میرے پاس ابو عبیدہ بن الجراح، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن الیمان جیسے لوگ ہوں، جن کو میں اللہ کی اطاعت کے لیے عامل مقرر کروں۔ (اسد الغابہ ۱/۳۹، ۴۹۲)
آپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے ہیں، اس کی صراحت قرطبی، ثعلبی، عراقی اور انصاری نے کی ہے، ان سب نے لکھا ہے کہ: ”حضرت حذیفہ کھجور کی چھال پر لکھاکرتے تھے، اور مسعودی نے لکھا ہے کہ: حضرت حذیفہ حجاز کی متوقع آمدنی کے گوشوارے مرتب فرمایا کرتے تھے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۲۱/ أ، العجالہٴ السنیہ شرح الفیہ ۲۴۶، التنبیہ والإشراف ۲۴۵، بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۸)
آپ کی وفات حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد۳۶ھ میں ہوئی۔ (الاستیعاب ۱/۲۴۸)
۱۶— حضرت حصین بن نمیر رضی اللہ عنہ: الوزراء والکُتّاب میں ہے کہ: حضرت حصین بن نمیر اور حضرت مغیرہ بن شعبہ لوگوں کے معاملات لکھا کرتے تھے (الوزراء والکُتّاب ۱۲) اور انصاری نے لکھا ہے کہ آپ دونوں حضرات قرض اور معاملات تحریر فرماتے تھے، ابنِ مسکویہ نے بھی آپ کو کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار کیاہے اور لکھا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں شخصیات عوام الناس کے معاملات بھی لکھا کرتے تھے اور حضرت خالد اور حضرت معاویہ کی عدم موجودگی میں ان کی نیابت میں کتابت فرماتے تھے (تجارب الامم۱/۲۹۰) آپ کے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کی صراحت عراقی اور یعقوبی نے بھی کی ہے، (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح الفیہ عراقی۲۴۷، تاریخ یعقوبی۲/۸۰ بحوالہ نقوش۷/۱۴۸)
۱۷— حضرت حنظلہ بن الربیع رضی اللہ عنہ: حضرت حنظلہ بن الربیع بن صیفی بن ریاح تمیمی رضی اللہ عنہ بڑے مشہور ومعروف جلیل القدر صحابی ہیں، ایک موقع سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: تم لوگ ان کی اوران جیسوں کی اقتداء کیا کرو! (اسد الغابہ۲/۵۸)
آپ مشہور کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے، الوزراء والکتاب نامی کتاب میں ہے کہ آپ تمام کاتبین کے نائب تھے، اور ہر ایک کے غیر حاضر ہونے کی صورت میں لکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ ”الکاتب“ سے جانے جاتے تھے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے آپ کو کاتب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعبیر کیا ہے (التاریخ الکبیر۲/۳۶)۔ اور امام مسلم نے بھی ایسا ہی لکھا ہے (الطبقات لمسلم بن حجاج۲۸۰/ب) اور طبقات ابن سعد میں بھی اس کی صراحت موجود ہے (طبقات بن سعد۶/۳۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مہر حضرت حنظلہ کے پاس رکھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ: ہر تیسرے دن مجھے تمام لکھایاہوا یاد دلا دیا کرو! چنانچہ حضرت حنظلہ ہر تیسرے دن سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اموال اور طعام وغیرہ جو آپ کی تحریری تحویل میں ہوتایاددلادیاکرتے تھے اور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال کو سونے سے پہلے تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ (الوزراء والکتاب۱۳/۱۳)
آپ کے کاتبِ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صراحت ابن حجر، ابن کثیر، ابن سید الناس، ابن الاثیر، ابن شبہ، یعقوبی، مزی، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: الاصابہ۱/۳۵۹، ۳۶۰، البدایہ والنہایہ۵/۲۴۲، عیون الاثیر۲/۳۱۵، اسد الغابہ۲/۵۸، المصباح المضئی۸/ب، تاریخ یعقوبی۲/۸۰، تہذیب الکمال۴/ب، شرح الفیہ عراقی۲۴۵، المصباح المضئی۲۰/أ، التنبیہ والإشراف۲۸۲ بحوالہ نقوش۷/۱۵۰)
آپ نے حضرت امیر معاویہ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ (الاصابہ۱/۳۶۰)
۱۸— حضرت حویطب بن عبد العزّیٰ رضی اللہ عنہ: آپ نے فتحِ مکہ کے سال آٹھ سال کی عمر میں ایمان قبول فرمایا، آپ کے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کی صراحت ابن مسکویہ، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری نے کی ہے، (حوالہ کے لیے دیکھیے: الاستیعاب۱/۸۴، تجارب الامم۱/۲۹۱، عیون الاثر۲/۳۱۶، شرح الفیہ عراقی۲۴۶، المصباح المضئی۲۰/ب بحوالہ نقوش۷/۱۵۰)
۱۹— حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ: سابقین اولین میں سے ہیں، حضرت صدیق اکبر کے بعد ہی اسلام قبول فرمایا تھا، بعض روایات کے مطابق تیسرے چوتھے یا پانچویں مسلمان ہیں۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مذحج اور صفاء الیمین کے صدقات کا عامل مقرر فرمایاتھا، رحلتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک آپ اس عہدہ پر فائز تھے۔ (الاستیعاب۱/۳۹۹،۴۰۰)
حضرت خالد بن سعید سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تمام امور کی کتابت فرماتے تھے (التنبیہ والإشراف۲۴۵) اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں درج ذیل وثائق میں کاتب کی حیثیت سے آپ کا اسم گرامی رقم فرمایا ہے: (وثیقہ:۱۹،۲۰،۱۱۴، ۲۰۲، ۲۱۳، ۲۱۴، اور۲۲۳)
سب سے پہلے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ کی کتابت حضرت خالد بن سعید نے کی تھی (الاصابہ۱/۴۰۶) مکہ مکرمہ میں وحی کی کتابت سے بہرہ ور ہوئے، اور جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو بنیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں خطوط نویسی کا شرف حاصل ہوا، طبری کی صراحت کے مطابق حضرت خالد بن سعید کو خدمتِ نبوی میں بیٹھ کر ضروریات ومعاملات لکھنے کا شرف بھی حاصل ہے، بہت سے موٴرخین نے آپ کا ذکر کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا ہے، ان میں سرفہرست: ابن اسحاق، ابن سعد، ابن شبہ، طبری، جہشیاری، ابن الاثیر، ابن کثیر، مزی، عراقی، ابن سید الناس، ابن مسکویہ اورانصاری وغیرہ ہیں۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ۵/۳۵، طبقات ابن سعد۴/۶۹، المصباح المضئی۲۱/ب، تاریخ طبری۶/۱۷۹، الوزراء والکتاب۱۲، التاریخ الکامل۲/۳۱۳، تہذیب الکمال۴/ب، شرح الفیہ عراقی۲۴۵، عیون الاثر۲/۳۱۵، تجارب الامم۱/۲۹۱ وغیرہ بحوالہ نقوش۷/۱۵۲)
ایک قول کے مطابق حضرت خالد بن سعید کی شہادت ۱۴ھء میں ہوئی۔ (الاصابہ۱/۴۰۷)
۲۰— حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ: ہر مسلمان حضرت خالید بن ولید سے واقف ہے، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”سیف اللہ“ کا لقب دیا تھا، آپ کی کنیت ابو سلیمان تھی، ام الموٴمنین حضرت میمونہ بنت الحارث کے بھانجے تھے، ہجرت سے چالیس سال قبل پیدا ہوئے، زمانہٴ جاہلیت میں بھی جنگی مہارت و سیادت کے امتیازات آپ کے پاس رہتے تھے، آپ اکثر جنگلوں میں قائد ہوا کرتے تھے۔
جب آپ نے اسلام قبول کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اسلامی لشکروں کی قیادت مرحمت فرمائی، فتحِ مکہ میں بھی شریک رہے، اور عُزّی کا بت آپ نے ہی گرایا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء ۱/ ۲۶۴، الاستیعاب ۱/۴۰۷)
آپ کاتبینِ رسول اللہ ﷺ میں سے تھے، عمر بن شبہ، ابن کثیر، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ ب، البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۴، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۵۴)
علامہ ابن کثیر نے ”البدایہ والنہایہ“ میں حضرت خالد بن ولید کا رقم کردہ ایک خط نقل کیا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:
”بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام مومنین کی طرف کہ: یہاں کوئی شکار نہ کرے، اور شکار کو نہ پکڑے، اور نہ ہی قتل کرے، اگر کوئی ایسا کرتا ہوا پایا گیا، تو اسے کوڑے مارے جائیں گے، اور اس کے کپڑے اتار دیے جائیں گے، اور اگر کوئی ان حدود کو توڑے گا تو وہ ماخوذ ہوگااور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو پیش کر دیا جائے گا“ اور یہ تحریر محمد رسول اللہ کی طرف سے ہے، اور اِسے خالد نے رسول اللہ کے حکم سے لکھا ہے“۔ اور کوئی انھیں پامال نہ کرے ورنہ وہ اپنے اوپرظلم کرنے والا ہوگا جیسا کہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۴)   (جاری)
$        $        $




کاتبینِ پیغمبرِ اعظم ﷺ ایک تعارف

(۲/۲)


از:       مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

۲۱ حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ:
آپ مشہور صحابی ہیں، آپ کا سلسلہٴ نسب یہ ہے: خزیمہ بن ثابت بن الفاکہ بن ثعلبہ بن ساعدہ بن عامر بن عیان بن عامر بن خطمہ بن جشم بن مالک بن اوس انصاری اویسی۔
آپ سابقین اولین مسلمانوں میں سے ہیں، تاریخ و سیر کی کتابوں میں آپ کے فضائل ومناقب بڑی کثرت سے مرقوم ہیں۔
کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مصاحف کی کتابت کے وقت ہم کو ”سورہٴ احزاب“ کی آیت (۳۳) مِنَ الموٴمنینَ رجالٌ صَدَقُوا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہ الخ۔ حضرت خزیمہ بن ثابت سے ملی، جن کی شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شہادتوں کے برابر قرار دیا تھا۔
اس سے آپ کے کاتبِ وحی ہونے کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۱/۴۲۵ بحوالہ کاتبینِ وحی ص۱۷۵، ۱۷۷)
۲۲ حضرت زیبر بن عوام رضی اللہ عنہ:
آپ نے ہجرت سے ۱۸/ سال پہلے ایمان قبول فرمایا، اس وقت آٹھ سال کے تھے، اسلام لانے کی وجہ سے چچا نے طرح طرح کی اذیتیں دی، آپ ساری تکلیفیں برداشت کرتے اور زبان سے یہ الفاظ دہراتے تھے: لا أرجعُ إلیٰ الکفرِ أبداً (سیر أعلام النبلاء ۱/۳۹) ترجمہ: میں اَب کبھی کفر کی طرف لوٹ نہیں سکتا۔
آپ عشرہٴ مبشرہ میں سے ہیں، آپ کے متعلق سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع سے ارشاد فرمایا: لکل نبيٍ حواري وحواري الزبیرُ۔ (سیر أعلام النبلاء ۱/۳۹) ترجمہ: ہر نبی کا ایک حواری (خیرخواہ، مددگار) ہوتا ہے، اور میرا حواری زبیر ہے۔
آپ کاتبینِ پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، خدمتِ نبوی میں اموالِ صدقات کی کتابت کا شرف آپ کو اور حضرت جہیم بن الصلت کو حاصل ہے، متعدد موٴرخین نے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی کتابت کی صراحت فرمائی ہے، ان میں سر فہرست ابن شبہ، ابن کثیر، عراقی، ابن سید الناس، اور انصاری ہیں، آپ قبیلہٴ طی کے بنو معاویہ کی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط تحریر فرمایا تھا۔
(حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب ، البدایہ والنہایہ ۵/۳۴۴، العجالة السنیہ ۲۴۶، عیون الاثر ۲/۳۱۵، وغیرہ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۱۵۶)
۲۳ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ:
کاتبینِ وحی میں سے نمایاں اور سرفہرست آنے والا نام حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہے، آپ کا سلسلہٴ نسب یہ ہے:
حضرت زید بن ثابت بن ضحاک بن زید خزرجی انصاری رضی اللہ عنہ، کتابتِ قرآن؛ بلکہ قرآن مجید کی جمع و تدوین میں سب سے نمایاں خدمت آپ نے ہی انجام دی ہے، آپ مدینہ منورہ کے مفتی اور امام تھے، علمِ میراث میں مشیخیت کا درجہ حاصل تھا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے متعلق ارشاد فرمایا: أفْرَضُ أمَّتِي زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ۔ (سیر أعلام النبلاء ۲/۳۰۹) ترجمہ: میری امت میں سب سے زیادہ علمِ فرائض جاننے والے، زید بن ثابت ہیں۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے، اس وقت حضرت زید کی عمر گیارہ سال تھی، اور سترہ سورتیں یاد کر چکے تھے، جب سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سورتیں سنیں تو بہت خوش ہوئے اور یہودیوں پر عدمِ اعتمام کا اظہار کرتے ہوئے، ان کی زبان و تحریر سیکھنے کا حکم فرمایا، حضرت زید فرماتے ہیں کہ: نصف مہینہ میں ہی یہود کی زبان و تحریر پر میں قادر ہو گیا، اور اتنا ماہر ہو گیا کہ: یہود کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط لکھتا تھا، اور ان کی طرف سے جو خطوط آتے تھے ان کو آپ کے سامنے پڑھتا بھی تھا۔
حضرت زید ہی کی روایت ہے کہ: سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ارشاد فرمایا: میں ایک ایسی قوم کے پاس مراسلت کرتا ہوں، جس پر مجھے اطمینان نہیں ہے کہ وہ کہیں کچھ زیادہ یا کمی نہ کر دے، لہذا اے زید! تم سُریانی زبان سیکھ لو! میں حکم پاتے ہی صرف پندرہ یا سترہ دنوں کی قلیل مدت میں سُریانی زبان سیکھ لیا، (الاصابہ ۱/۵۴۳، البدایہ والنہایہ ۵/۳۲۸) آپ خدمتِ نبوی میں رہ کر بادشاہوں کے خطوط بھی لکھاکرتے تھے (الورزاء ولکتاب ۱۲)
آپ کے کاتبِ وحی ہونے کی روایت متواتر ہے، جن موٴرخین نے کتابت کی صراحت کی ہے، ان میں سرفہرست ابن اسحاق، خلیفہ ابن خیاط، عمر بن شبہ، بخاری، طبری وغیرہ ہیں۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۰، تاریخ خلیفہ ۱/۷۷، فتح الباری ۹/۲۲، تاریخ طبری ۶/۷۹ وغیرہ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۱۵۸ صحیح بخاری ۲/۷۴۶ فضائل القرآن)
حضرت زید فرماتے ہیں کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی کی کتابت کرتا تھا، جب آپ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو سخت گرمی لگتی تھی، آپ کے جسم اطہر پر پسینوں کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے، جب آپ کی یہ کیفیت ختم ہو جاتی تھی تو میں سامانِ کتابت لے کر حاضر ہوتا، آپ لکھواتے رہتے اور میں لکھتا جاتا، لکھنے کے دوران قرآن پاک نقل کرنے کے بوجھ سے مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے، اور میں کبھی چل نہ سکوں گا، جب فارغ ہو جاتا تو آپ فرماتے ”پڑھو“! میں پڑھ کر سناتا، اگراس میں کوئی فروگذاشت ہوتی تو آپ اس کی اصلاح فرما دیتے، پھر اُسے لوگوں کے سامنے لاتے۔ (مجمع الزوائد ۱/۱۵۲ باب عرض الکتابت بعد املاہ) اسی امتیازی وصف کی وجہ سے حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کے مشورہ سے آپ کو ایک جگہ قرآن مجید جمع کرنے کی خدمت اصرار کے ساتھ سپرد فرمائی، اور انھیں اوصاف کی وجہ سے حضرت عثمان غنی نے مصاحف نقل کرنے والی جماعت کا انچارج بنایا (صحیح بخاری ۲/۷۴۶)
۲۴ السجل:
قرآن مجید کی آیت: یَومَ نَطْوِي السَّماء کَطَي السِّجِلِّ لِلکُتُب الخ ترجمہ: وہ دن یاد کرنے کا قابل ہے جس دن ہم (نفخہٴ اولی کے وقت) آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے، جس طرح لکھے ہوئے مضمون کاکاغذ لپیٹا جاتا ہے (انبیاء ۱۰۴) اس کی تفسیر میں ”السجل“ سے متعلق تین اقوال ملتے ہیں:
(الف) بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد کتاب ہے ۔
(ب) بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد ایک فرشتہ ہے ۔
(ج) بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد ایک صحابی ہیں، جو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کتابت کیا کرتے تھے: السجلُّ کاتبُ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (ابن کثیر ۴/۶۰۲)اس کی صراحت ابوداؤد، نسائی اور طبری میں بھی ہے، (بن کثیر ۴/۶۰۲) کشاف، در منثور اور فتح القدیر میں بھی یہ قول ہے۔
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ: یہ روایت موضوع ہے، حفاظِ حدیث کی ایک جماعت نے اسے موضوع قرار دیا ہے، صحابہٴ کرام میں”سجل“ نامی کوئی شخص ہے ہی نہیں (اسد الغابہ ۲/۲۶۱ ابن کثیر ۴/۶۰۲)
ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی نے خطیب کا قول نقل کیا ہے: ہٰذا مُنْکَرٌ جِداً لاَ یَصِحُّ أصلاً مِنْ حدیثِ ابنِ عمر (الاصابہ ۲/۱۵ بحوالہ نقوش ۷/۱۵۹) ترجمہ: یہ بہت منکَر قول ہے، ابن عمر سے اس طرح کی کوئی حدیث منقول نہیں ہے۔
علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر (۴/۶۰۲)، البدایہ والنہایہ (۵/۳۲۹) اور الفصول فی سیرة الرسول (۱۸۸) میں اس طرح کی روایت کے غیر واضح اور ناقابلِ اعتبار ہونے پر مکمل کلام کیا ہے، لکھتے ہیں:
 قُلتُ: وقد أَنْکَرَ غیرُ واحدٍ مِنَ الحُفّاظِ، وَقَدْ أَفْرَدتُ لہ جزء اً وَبَیَّنْتُ طرَقہ و عِلَلَہ، ومَنْ تَکَلَّم فیہ مِنَ الأئمةِ، وَمَنْ ذَہَبَ منہم إلیٰ أنہ حدیثٌ موضوعٌ۔ (الفصول في سیرة الرسول ص۱۸۸)
ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ متعدد حفاظِ حدیث نے اس حدیث کو غیر صحیح قرارا دیا ہے، میں نے اس پر ایک الگ تصنیف کی ہے، اس میں ساری سندوں کو ان کے اسباب و علل کے ساتھ بیان کیا ہے، اس میں ان تمام ائمہ کے اقوال کو بھی جمع کیا ہے، جنہوں نے اس حدیث کی سندوں پر کلام کیا ہے، اور ان لوگوں کے بھی اقوال جمع کیے ہیں، جنہوں نے حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم
نوٹ: چوں کہ بعض کتابوں میں یہ نام مذکور ہے، قارئین کو اس سے تشویش ہوتی ہے؛ اس لیے اس پر اتنی طویل گفتگو کی گئی۔ (اشتیاق احمد )
۲۵ حضرت سعد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ:
یہ خالد بن سعید اور ابان بن سعید کے بھائی ہیں، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن آپ کو بازارِ مکہ کا عامل بنایا تھا، یوم طائف میں شہید ہوئے، ابن سید الناس، انصاری اور ابن مسکویہ نے آپ کو کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار کیا ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۲/۸، الاصابہ ۲/۴۷، عیون الاثر ۲/۳۱۵، المصباح المضئی ۲۲، تجارب الامم ۱/۲۹۱بحوالہ ”نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۱۶۰،۱۶۱)
۲۶ شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ:
انہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کیا تھا، اور حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی، حضرت ابوبکر نے شام کی فتوحات کے لیے انھیں بھیجا تھا، اور حضرت عمر نے شام کے علاقے کا آپ کو والی بنایا، آپ کاتبینِ رسول اللہ ﷺ  میں سے ہیں، عمر بن شبہ، مسعودی، یعقوبی، عراقی، ابن سیدالناس اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۲/۱۴۱المصباح المضئی ۸/ب، التنبیہ والاشراف ۲۴۶، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، تہذیب الکمال ۴/ب، العجالة السنیہ ۲۴۵، عیون الاثر ۲/۳۱۵ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۱۶۱)
”الوثائق السیاسیہ“ میں ایک وثیقہ ( جس کا نمبر۴۳) آپ کا لکھا ہوا ہے، شام کے طاعونِ عمواس میں ۱۸ھ کو وفات ہوئی۔
۲۷ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ:
ان آٹھ لوگوں میں سے ہیں، جو پہلے پہل اسلام لائے، اور ان پانچ لوگوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، (الاصابہ ۲/۲۲۹) غزوہٴ احد میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی جان کے ذریعہ بچاؤ کیا، تیر اپنے ہاتھوں پر روکتے تھے، اس کی وجہ سے انگلیاں شل ہو گئی تھیں، اس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ”طلحة الخیر“ کا لقب دیا، اور بیعتِ رضوان کے موقع سے ”طلحة الجود“ کا لقب دیا اورغزوہٴ تبوک کے موقع سے ”طلحة الفیاض“ کے لقب سے نوازا۔
آپ نے ان چار عورتوں سے نکاح کیا، جن کی ایک ایک بہن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں۔
حضرت طلحہ کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت ابن مسکویہ، ابن سید الناس، عراقی، اور انصاری وغیرہ نے کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۲/۲۲۰ اسد الغابہ ۲/۹۲ تجارب الامم ۱/۲۹۱، عیون الاثر ۲/۳۱۶، العجالة السنیہ ۲۴۶، المصباح المضئی ۲۹/ ب بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۶۲، ۶۳)
۲۸  حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ:
یہ طفیل بن عبد اللہ کے غلام تھے، حضرت عمر سے پہلے ہی ایمان قبول فرمایا، ایمان قبول کرنے کی وجہ سے آپ کوبڑی اذیت دیجانے لگی، تو حضرت ابوبکر صدیق نے خرید کر آزاد کردیا (الاصابہ ۲/ ۲۵۶) سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیقِ اکبر جن دنوں غارِ ثور میں چھپے تھے، ان دنوں عامر بن فہر اس کے ارد گرد بکریاں چراتے تھے، شام کے وقت بکریوں کو غار کے پاس لے جاتے، دونوں حضرات بکریوں کا دودھ پی لیتے تھے، جب صبح ہوتی تو صدیقِ اکبر کے فرزند عبد اللہ غار کے پاس سے بکریوں کے قدموں کے نشانات پر چل کر انہیں مٹادیتے (اسد الغابہ ۲/ ۹۱)غزوہٴ بدر واُحد میں شریک ہوئے، اور بےئرِ معونہ میں شہید ہوئے۔ (الاستیعاب ۳ / ۸)
بلاشبہ آپ کاتبانِ نبی اکرم ﷺ  میں سے ہیں، اس کی صراحت مزّی، ابن کثیر، عراقی، ابن سید الناس اور انصاری وغیرہ نے کی ہے، (حوالے کے دیکھیے: تہذیب الکمال ۴/ ب، البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۸، العجالة السنیہ ۲۴۵، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵، وغیرہ بحوالہ ”نقوس“ رسول نمبر ۷/ ۱۶۴ )
مسند احمد میں ہے کہ: (ہجرت کے سفر میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ بن مالک المدلجی کو جو امان نامہ لکھ کر دیا تھا، وہ عامر بن فہیرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لکھا تھا، سراقہ خود کہتے ہیں:
”میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے امان نامہ لکھ دینے کی درخواست کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہر کو حکم فرمایا، انہوں نے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر وہ امان نامہ تحریر کردیا۔ (مسند احمد ۴/ ۱۷۶) یہ تو مسند احمد کی روایت ہے۔
البدایہ والنہایہ میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ: ﷺ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر کو لکھنے کا حکم دیا، چنانچہ انہوں نے ایک امان نامہ لکھا اور اس کے حوالے کردیا۔ (البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۱) الوثائق السیاسیہ ص۳۶)
ابن کثیر نے ان دونوں روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ: امان نامہ کا کچھ حصہ حضرت ابوبکر نے لکھا اور کچھ حصہ آپ کے غلام عامر نے لکھا واللہ اعلم بالصواب (البدایہ النہایہ ۵ /۳۵۱ بحوالہ نقوش رسول نمبر ۷/۱۳۸)
۲۹ حضرت عباس رضی اللہ عنہ:
کسی بھی موٴرخ نے حضرت عباس کا ذکر بہ حیثیت کاتبِ رسول اللہ کے نہیں کیا ہے؛ حالاں کہ بعض وثائق میں حضرت عباس کا نام مرقوم ہے، شاید وجہ یہ ہو کہ اکثر لوگ اپنے پیش رو کی بات نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
ہاں یہ بات ضرور قابلِ تحقیق ہے کہ حضرت عباس سے کون سے عباس مراد ہیں؟ اس لیے کہ صحابہٴ کرام میں بہت سے ایسے حضرات موجود ہیں جن کا نام عباس ہے، میں ذیل میں ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی مدظلہ العالی کی تحقیق درج کرتا ہوں، فرماتے ہیں کہ:
”میں اس امر سے کوئی مانع نہیں پاتا کہ کاتبانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فہرست میں حضرت عباس کے نام کا اضافہ کردوں؛ مگر اتنی بات ضرور ہے کہ عباس کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میرے نزدیک مبہم ہے؛ کیوں کہ صحابہٴ کرام میں بہت سارے ایسے حضرات موجود ہیں، جن کا نام نامی عباس ہے، جن کو ابن عبدالبر، ابن حجر اور ابن اثیر وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔
زیادہ تر عباس سے مراد عباس بن عبدالمطلب ہی ہوتے ہیں، اور یہی ہمارا مقصد ہے، وہ تحریر جس پر ہم اس نام کے اضافہ کرنے کا اعتماد کر رہے ہیں، غنائمِ خیبر اور ان کو امہات الموٴمنین وغیرہ پر تقسیم کرنے کے متعلق ہے․․․․․․ اس تحریر کا ترجمہ پیش ہے:
”اس گندم کا ذکر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواجِ مطہرات کو عطا فرمایا، ازواجِ مطہرات کے لیے ایک سو اسّی (۱۸۰)، فاطمہ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پچاسی (۸۵)، اسامہ بن زید کے لیے چالیس (۴۰) مقداد بن الاسود کے لیے پندرہ (۱۵) اور ام رُمیثہ کے لیے پانچ وسق ہوں گے۔“
”عثمان بن عفان اور عباس گواہ بنے اور ”عباس“ نے ہی لکھا۔“ (سیرة ابن ہشام ۳/۳۵۲،۳۵۳، الوثائق السیاسیہ وثیقہ نمبر ۱۸ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر۷/۱۶۴، ۱۶۵)
۳۰ حضرت عبداللہ بن الارقم رضی اللہ عنہ:
فتح مکہ کے دن ایمان لائے، آپ کے دادا نبی کریم ﷺ  کے ماموں تھے (الاصابہ ۲/۲۷۳) آپ کی کتابت پر سرکار دوعالم ﷺ  نے اعتماد فرمایا، حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے بھی آپ سے مختلف چیزیں لکھوائی ہیں۔ (السنن الکبری للبیہقی ۱۰/۱۲۶) حضرت عمر نے آپ کو بیت المال کا متولی بھی بنایا تھا، وفات سے پہلے بینائی ختم ہوگئی تھی، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وفات ہوئی (اسد الغابہ ۳/۱۱۶ وغیرہ)
بلاشبہ آپ کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس کی صراحت ابن اسحاق، ابن شبہ، بخار، مسلم، طبری، جہشیاری، مسعودی اور ابن مِسکویہ وغیرہ نے کی ہے (حوالے کے دیکھیے: المصباح المضئی۸/ب، طبقات امام مسلم ۲۸۰/ب، تاریخ طبری ۶/۱۷۹ الوذراء والکتاب ۱۲، التنبیہ وا لإشراف ۲۴۵، تجارب الامم ۱/۲۹۱،۲۹۲ تہذیب الکمال ۴/ب، البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۹، الاصابہ ۲/۲۷۳، الاستیعاب۲/۲۶۲۔ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۱۶۶)
امام بیہقی کی سننِ کبری میں ایک روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک خط آیا، تو آپ نے فرمایا: میری طرف سے کون جواب دے گا؟ عبداللہ بن الارقم نے جواب دیا: ”میں“! اور انہوں نے اس کا جواب لکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، اور پسند فرمایا، اور دعاء فرمائی: ”اللّٰہم وَفِّقْہ“ : اے اللہ! اسے خیر کی توفیق عطا فرما! (الاستیعاب ۲/۲۶۱، السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۰/۱۶)
ایک روایت میں ہے کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن الارقم بن یغوث سے لکھوایا کرتے تھے، اور وہ آپ کی طرف سے بادشاہوں کو جواب دیا کرتے تھے، کتابت میں ان کی امانت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر اعتماد تھا کہ آپ انھیں کسی بادشاہ کی طرف خط لکھنے کا حکم فرماتے تو وہ لکھ کر اور مہر لگا کر بند کر دیتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت محسوس نہ فرماتے۔
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن ثابت اور عبداللہ بن الارقم سے لکھوایا کرتے تھے، جب یہ دونوں موجود نہ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی حاضر ہوتا، اس سے لکھواتے، عموماً حضرت عمر، حضرت علی، حضرت خالد بن سعید، حضرت مغیرہ اور حضرت معاویہ موجود ہوتے تھے۔ (الاصابہ ۲/۲۷۳)
حضرت عبداللہ بن الارقم زیادہ تر قبائل کے درمیان معاہدات، بادشاہوں کے خطوط، انصار کے مردوں اور عورتوں کے درمیان مکانات کے تصفیے، قرض کی تحریریں، خرید و فروخت کے دستاویزات، پانی کی تقسیم کے معاہدات وغیرہ تحریر فرماتے تھے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے: تاریخ طبری ۶/۱۷۹، الوزراء والکتاب ۱۲، التنبیہ والاشراف ۲۴۵، الاستیعاب ۸۷۴، ۸۷۵ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر۷/۱۶۷)
۳۱ حضرت عبداللہ بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ:
آپ صدیق اکبر کے صاحب زادے ہیں،شروع میں ہی اسلام قبول کیا، حنین، طائف میں شریک ہوئے، وفات ۱۱ئھ میں ہو گئی، والد ماجد نے نماز جنازہ پڑھائی، عموماً موٴرخین نے ان کو کاتبین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں شمار فرمایا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بلا شبہ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھنے کا شرف حاصل کیا ہے، ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے الوثائق السیاسیة میں وثیقہ نمبر ۹۴ میں بہ حیثیت کاتب عبد اللہ بن ابو بکر صدیق کا اسم گرامی نقل فرمایا ہے۔ (دیکھیے ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی تحریر، ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۱۶۷، ۱۶۸)
۳۲ عبداللہ بن خطل یا عبد العزّی بن خطل: (مرتد ہو کر مقتول ہوا)
متعدد موٴرخین نے اس کے کاتبِ نبی ﷺ  ہونے کی بات لکھی ہے، مثلاً: ابن سید الناس انصاری اور عراقی نے لکھا ہے کہ: یہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابت کرتا تھا، پھر مرتد ہو گیا اور حضور کے حکم سے قتل ہوا، اس وقت خانہٴ کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہوا تھا (دیکھیے: عیون الاثر ۲/۳۱۶ المصباح المضئی ۳۷/أ، العجالة السنیہ ۲۴۷وغیرہ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۶۸)
لیکن ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی لکھتے ہیں کہ: ”اس کے کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر کوئی معتبر سند موجود نہیں ہے (نقوش ۷/۱۶۸) بعض کتابوں میں یہ بھی ہے کہ وہ وحی کی کتابت میں اپنی طرف سے الٹ پھیر کر دیتاتھا؛لیکن یہ بات بھی بہت مضبوط نہیں ہے، اس کے قتل کیے جانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے عبدالبر نے لکھا ہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا، اس کے ساتھ ایک اور مسلمان کو کر دیا، اس نے اس مسلمان کو قتل کر دیا، اور قتل کی سزا کے ڈر سے مرتد ہو کر مکہ مکرمہ بھاگ گیا، اور مشرکین سے جا ملا:۔ (الدرر في المغازی والسیر ۲۳۳) سیرت ابن ہشام میں یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان غلام تھا،جو اس کی خدمت کرتا تھا، اس نے غلام کو حکم دیا کہ پہاڑی بکرا ذبح کرکے اس کے لیے کھانا تیار کرے، اور خود سو گیا، جب اٹھا تو دیکھا کہ کھانا تیار نہیں ہے، بس کیا تھا کہ غلام کو جان سے ہی مار ڈالا اور ڈر کے مارے مرتد ہو کر مکہ مکرمہ بھاگ گیا، اورشقاوت اتنی بڑھ گئی کہ اپنی دو لونڈیوں سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ہجو کے اشعار کہلواتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے اس کے خون کو مباح قرار دیا، فتحِ مکہ کے دن وہ قتل کر دیا گیا، اس وقت وہ خانہٴ کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہوا تھا، اس کے ساتھ اس کی لونڈیوں کے قتل کا بھی حکم نافذ ہوا تھا۔ (سیرة ابن ہشام۳/۴۱۰، المغازی للواقدی ۸۵۹، ۸۶۰وغیرہ بحوالہ نقوش ۷/۱۶۸، ۱۶۹)
۳۳ حضرت عبداللہ بن رواحہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ:
بلند پایہ شاعر تھے، ایام ِجاہلیت ہی سے لکھنا پڑھنا جانتے تھے، انصار میں سابقین اولین میں سے ہیں، انصار کے بارہ نقیبوں میں سے ہیں۔ غزوہٴ احد، خندق، خیبر، وغیرہ میں شریک رہے، جنگ موتہ میں ۸ھ کو شہید ہوئے۔ (اصابہ ۲/۳۰۷، اسد الغابہ ۳/۱۵۸، ۱۵۹)
آپ کاتبینِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، اس کی صراحت ابن سعد، عمرو بن شبہ، ابن عبدالبر، ابن حجر، عینی، عراقی، ابن سیدالناس اور انصاری وغیرہ نے کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۲/ ۳۰۶، المصباح المضئی ۳۳/ب، الاستیعاب ۲/ ۳۰۱، عمدة القاری ۲۰/ ۱۹، العجالة السنیہ ۲۴۶، عیون الاثر ۲/۳۱۵ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۱۷۱)
۳۴ حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربّہ رضی اللہ عنہ:
یہ وہی عبداللہ ہیں ،جن کو خواب میں اذان کا طریقہ بتایا گیا تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو اسی طرح اذان دینے کا حکم فرمایا۔ (الاصابہ ۲/ ۳۱۵، الاستیعاب ۲/ ۳۱۱،۳۱۲، اسد الغابہ ۳/ ۱۶۶) آپ کاتبِ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہیں، اس کی صراحت واقدی، ابن سیدالناس ، ابن کثیر، عراقی، اور انصاری وغیرہ نے کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۰، عیون الاثر۲/ ۳۱۵، العجالة السنیہ ۲۴۷ المصباح المضئی ۳۵/ أ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۷۲)
طبقاتِ بن سعد میں حضرت عبداللہ بن زید کا لکھا ہوا ایک خط بھی محفوظ ہے، ڈاکٹر محمد حمیداللہ حیدرآبادی نے الوثائق السیاسیہ میں اس کو نقل فرمایا ہے۔ اس کے اخیر میں ہے کہ” یہ تحریر عبداللہ بن زید نے لکھی ہے“۔ (دیکھیے: طبقات بن سعد ۱/ ۲: ۲۱ الوثائق السیاسیہ وثیقہ نمبر۴۱ بحوالہ ”نقوش“ ۷/ ۱۷۲)
۳۵ حضرت عبداللہ بن سعد ابی سرح رضی اللہ عنہ:
یہ حضرت عثمان غنی کے رضاعی بھائی ہیں، فتحِ مکہ سے پہلے ہی ایمان قبول کیا، اور ہجرت کی، پھر شیطان کے بہکاوے میں آکر مرتد ہو گئے اور مشرکینِ مکہ سے جا ملے، فتحِ مکہ کے دن حضرت عثمان غنی کی سفارش پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امان دیا، پھر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور بہت پختہ مسلمان رہے، اسلام ہی پر ان کا خاتمہ ہوا (الاستیعاب ۲/ ۳۷۵، فتح الباری ۸/ ۱۱، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵ )
ارتداد سے پہلے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا بھی موقع نصیب ہوا، اہلِ تاریخ و سیر کا اس پر اتفاق ہے۔ (سیرة ابن ہشام ۳/ ۴۰۵، تاریخ خلیفہ بن خیاط ۱/ ۷۷)
ان کے سلسلے میں بعض کتابوں میں یہ بات ملتی ہے کہ: ابن ابی سرح قرآن مجید کی کتابت میں تبدیلی کر دیا کرتے تھے، اس پر ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی نے بڑی مفصل گفتگو فرمائی ہے (دیکھیے: ”نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۱۷۳ تا ۱۷۶) انہوں نے متعدد روایتوں کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
”حقیقت یہ ہے کہ سارا قصہ غلط ہے، اور ابن ابی سرح کی طرف غلط منسوب ہے․․․․ اس طرح کی بات کی نسبت متعدد لوگوں کی طرف کی گئی ہے، انھیں میں سے عبداللہ بن خطل انصاری بھی ہے، جو مرتد ہو کر مرا تھا اور دفنائے جانے کے بعد زمین نے اس کو باہر پھینک دیا تھا، (تاریخ القرآن ص ۵۵)
قرآن مجید کی ہر قسم کی تحریف سے سلامتی ،اللہ تعالیٰ کا اس کی حفاظت کا ذمہ اٹھانا اور نبی اکرم ﷺ  کی قرآن مجید کے معاملہ میں نمایاں درجہ کی احتیاط جس کی شہادت دوستوں سے قبل دشمنوں نے دی، ان تمام چیزوں کی موجودگی میں،ہمارے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ ہم قرآن مجید میں تغیر کے اس قسم کے قصوں کو تسلیم کر لیں، خصوصاً ایسی روایات کی بنا پر جو بے سند ہیں اور جن کو ابن ابی سرح کے دشمنوں نے تراشا اور پھر ان سے دوسروں نے نقل کی۔ آگے رقم طراز ہیں:
”معتمد علیہ قدیم مصادرمیں ابن ابی سرح کے متعلق اس قسم کا کوئی قصہ مذکور نہیں ہے ، قدیم مصادر میں سے ہمارے پاس سیرة ابن ہشام، سیرة ابن اسحاق وغیرہ ہیں ان میں صرف کتابت اور ارتداد کی بات ہے اور بس“۔
آگے لکھتے ہیں کہ:
” اصل میں یہ حکایت ابن کلبی سے منقول ہے جو شیعہ تھا، اور عثمانیوں کا دشمن تھا اور واقدی سے منقول ہے جو ضعیف بلکہ وضعِ حدیث کیساتھ متہم تھا ۔“اخیر میں خلاصہ کے طور پر لکھتے ہیں:
”کاتبانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کوئی ایسی بات کہ فلاں اور فلاں قرآن میں تحریف کیا کرتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ اللہ علیہ وسلم اس سے غافل تھے، جھوٹی اور خلافِ واقع بات ہے، دین اس قسم کی ہفوات کو تسلیم کرتا ہے نہ علمی مباحث میں ایسی باتوں کو کوئی حیثیت حاصل ہے“۔ (”نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۱۷۳ تا ۱۷۶)
۳۶ حضرت عبداللہ بن سعید رضی اللہ عنہ:
آپ کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے:
عبداللہ بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبدالشمس بن عبد مناف آپ قریشی ہیں، زمانہٴ جاہلیت میں آپ کا نام ”حکم“ تھا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر” عبداللہ “رکھا، آپ لکھنا بھی جانتے تھے؛ بلکہ اچھے کاتب تھے، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ: اہلِ مدینہ کو لکھنا سکھائیں! آپ غزوہٴ بدر میں شریک ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے شہادت نصیب فرمائی، بعض روایتوں میں آپ کی شہادت ”جنگ یمامہ“ ۱۱ھ اور بعض میں ”جنگ موتہ“ ۸ھ میں نقل کی گئی ہے، واللہ اعلم (اسد الغابہ ۵/ ۲۳۹، الاصابہ ۱/۳۴۴ بحوالہ کاتبینِ وحی ص ۲۱۶)
۳۷ حضرت عبداللہ بن اُبي بن سلول رضی اللہ عنہ:
موصوف کا نام ”حباب“ تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کرکے”عبداللہ “رکھ دیا، بدر، احد اور تمام غزوات میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے، ان کا باپ رئیس المنافقین تھا۔ (الاستیعاب ۲/۳۳۵)
یہ کاتبینِ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، یعقوبی، عمرو بن شبہ، ابن عبدالبر، سہیلی، عراقی، ابن حجر، ابن سید الناس، انصاری اور عامری وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ ب، العجالة السنیہ ۲۴۷، الاصابہ ۲/ ۳۳۶، عیون الاثر ۲/۳۱۵، بہجة المحافل ۲/۱۶۱ بحوالہ ” نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۱۷۷ )
صدیقِ اکبر کے عہد خلافت میں مرتدین کے ساتھ جنگ میں شہید ہوئے (الاصابہ ۲/۳۳۶)
۳۸   حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص بن وائل رضی اللہ عنہ:
آپ لکھنا، پڑھنا جانتے تھے، اپنے والد سے پہلے ہی اسلام قبول فرمایا تھا، رسول اللہ ﷺ  سے آپ نے حدیث شریف لکھنے کی اجازت طلب فرمائی تو آپ ﷺ  نے اجازت دے دی؛ اس لیے آپ کے پاس حدیث شریف کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہو گیا تھا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مجھ سے زیادہ احادیث کا جاننے والا سوائے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کے کوئی نہیں ہے؛ اس لیے کہ یہ احادیث لکھ لیا کرتے تھے، آپ قرآن مجید کے حافظ تھے، دربار نبوی سے تین دن سے کم میں ختم کی اجازت مانگی تھی تو اجازت نہیں ملی؛ البتہ تین دن میں قرآن مجید ختم کرنے کی اجازت مل گئی۔
آپ کی وفات ۶۵ھ یا ۶۹ھ میں ہوئی۔ (الاصابہ ۲/۳۵۲، غایة النہایہ ۱/۴۳۹ بحوالہ کاتبینِ وحی ص ۹۳)
۳۹ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ:
تیسرے خلیفہ ہیں، آپ كا لقب ذو النورین ہے، پہلے حضرت رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا، ان کی وفات کے بعد ام کلثوم آپ کی زوجہ ہوئیں، آپ عشرہٴ مبشرہ میں سے ہیں۔
دربار نبوی میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت درج ذیل موٴرخین نے کی ہے: یعقوبی، عمرو بن شبہ، واقدی، طبری، ابن مسکویہ، جہشیاری، ابن کثیر، ابن اثیر، مزّی، ابن سیدالناس، عراقی، انصاری وغیرہ۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، المصباح المضئی ۸/ب البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۳۹، تاریخ طبری ۶/ ۱۷۹، تہذیب الکمال ۴/ب عیون الاثر ۲/۳۱۵، العجالة السنیہ۲۴۵۔ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۷۷)
۲۸/ ذی الحجہ ۲۳ھ کو آپ کو خلیفہ منتخب کیا گیا، اور ۱۸/ ذی الحجہ ۳۵ھ کو عصر کے بعد جمعہ کے دن شہید کر دیے گئے۔ (الاصابہ ۲/۴۶۳)
۴۰  حضرت عقبہ بن عامر بن عبس جہنی رضی اللہ عنہ:
آپ علم فرائض اور فقہ میں بڑے ماہر تھے، زبان و بیان پر بھی اچھی خاصی قدرت تھی، شاعری کا ذوق نکھرا ہوا تھا، جمعِ قرآن میں بھی آپ نے خدمت انجام دی ہے، ابن سعد نے طبقات میں ایک وثیقہ نقل کیا ہے، جس میں کاتب کی حیثیت سے ”عقبہ“ کا نام ہے، اب یہ بات قابلِ تحقیق ہے کہ یہ عقبہ کون ہیں؟ راجح قول وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا، ڈاکٹر محمدحمیداللہ نے کاتب کا نام ”علاء بن عقبہ“ لکھا ہے؛ حالاں کہ یہ ”عقبہ “ہیں، ابن عقبہ نہیں ہیں، انصاری نے ان کو کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فہرست میں شمار کیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ علاء بن عقبہ اور ہیں اور عقبہ اور ہیں، تحقیق کے لیے ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی مدظلہ العالی کا مقالہ دیکھا جا سکتا ہے۔ (”نقوش“ رسول نمبر۷/ ۱۷۸) انہوں نے طبقات بن سعد۱/۴، المصباح المضئی،۳۷/ أ، الوثائق السیاسیہ وثیقہ نمبر ۱۵۴ اور الاصابہ ۲/ کے حوالے درج فرمائے ہیں۔
۴۱ حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ:
آپ کا اسم گرامی علاء بن عبداللہ بن عباد تھا، حضر موت سے تعلق تھا، سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بحرین کا والی بنایا تھا۔
آپ کاتبینِ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، ڈاکٹر محمد حمیداللہ حیدرآبادی نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں متعد دستاویزات پر آپ کا نام بہ حیثیت کاتب نقل فرمایا ہے، دیکھیے وثیقہ نمبر (۱۶۵، ۱۶۶، ۱۹۶)۔
(مزید حوالوں کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب، تجارب الامم ۱/۲۹ التنبیہ والاشراف ۲۴۶، التاریخ الکامل ۲/ ۳۱۳، البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۲ عیون الاثر / ۳۱۵ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر۷/ ۱۷۹)
۴۲ علاء بن عقبہ رضی اللہ عنہ:
یہ بھی کاتبینِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، یہ اور حضرت ارقم رضی اللہ عنہما لوگوں کے درمیان قرض، خرید و فروخت اور دیگر معاملات کے دستاویزات لکھا کرتے تھے، (الاصابہ۲/۴۹۸) انہوں نے ہی عمرو بن حزم کا معاہدہ لکھا، جس کی اصلاح ابو موسیٰ  نے کی، الوثائق السیاسیہ میں وثیقہ نمبر ۱۵۴، ۱۵۵، ۲۱۰ پر بحیثیت کاتب دستاویز حضرت علاء بن عقبہ کا نام درج ہے۔ (مزید حوالوں کے لیے دیکھیے: التنبیہ والاشراف ۲۴۵، تاریخ طبری ۶/۱۷۹ ،اسد الغابہ ۴/۹، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۳، العجالة السنیہ ۲۴۷، عیون الاثر ۲/۳۱۶، المصباح المضئی ۳۶/ ب بحوالہ نقوش ۷/۱۷۹،۱۸۰)
۴۳ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ:
امیر الموٴمنین خلیفہ رابع نے سرکار دوعالم ﷺ  کی گود میں پرورش پائی، حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ  سے نکاح ہوا، آپ کے بارے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أقضاہُم علی (الاستیعاب ۲/۱۱) ترجمہ: تمام صحابہ میں علی بہترین فیصلہ کرنے والے ہیں، بارہ رمضان المبارک ۴۰ھ کو دھوکہ سے آپ کو شہید کر دیا گیا۔
آپ کاتبِ وحی ہیں، اس پر تمام اہلِ تاریخ و سیر کا اتفاق ہے، ڈاکٹر محمدحمیداللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب الوثائق السیاسیہ میں درج ذیل دستاویزات پر آپ کا نام بطورِ کاتبِ تحریر نقل فرمایا ہے: (۱۱، ۳۳، ۴۴، ۴۵،۸۵، ۱۱۱، ۱۴۱، ۱۶۲، ۱۶۷، ۱۷۲، ۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۳)۔ مزید حوالوں کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۸/۱۱، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۰، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، تاریخ ِ طبری ۶/۱۷۹، الوزراء والکتاب ، تجارب الامم ۱/۲۹۱، التاریخ الکامل ۲/۳۱۲، تہذیب الکمال ۴/ب، العجالة السنیہ ۲۴۵، عیون الاثر ۲/۳۱۵، المصباح المضئی ۱۶/أ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۸۱)
۴۴ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ:
امیر الموٴمنین خلیفہٴ دوم کے اسلام لانے کی تمنا خود سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے، آپ کے اسلام لانے کے بعد اسلام کو بڑی تقویت حاصل ہوئی، کئی مرتبہ آپ کی رائے کے مطابق وحی نازل ہوئی۔
بلاشبہ آپ کاتب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، (اس کی صراحت درج ذیل کتابوں میں ہے: البدایہ والنہایہ (۵/۳۵۰) ، المصباخ المضئی (۸/ب)، تجارب الامم (۱/۲۹۱) اسد الغابہ (۵/۵۳)، تہذیب الکمال (۴/ب ) العجالہ السنیہ (۲۴۵) عیون الاثر (۲/۳۱۵)، بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر(۷/ ۱۸۱، ۱۸۲)۔
۴۵ حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ:
ایام جاہلیت ہی سے عرب کے نہایت ہی ہوشیار، بہادر اور شہسوار تھے، شاعری کا بھی اچھا ذوق تھا، ان کے مسلمان ہو کر مدینہ منورہ ہجرت کرنے پر سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی خوشی ہوئی تھی، آپ نے ارشاد فرمایا: ” مکہ کی زمین نے اپنے چھپے ہوئے خزانے تمہارے سامنے پھینک دیے ہیں (الاستیعاب ۱۱۵۸)
آپ کے کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صراحت درج ذیل کتابوں میں موجود ہے (المصباح المضئی ۸/ب، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، العجالة السنیہ ۲۴۶ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر۷/۱۸۲،۱۸۳)
۴۶ حضرت محمد بن مسلمہ بن سلمہ انصاری رضی اللہ عنہ:
بعثتِ نبوی سے بائیس سال پہلے پیدا ہوئے، زمانہٴ جاہلیت ہی میں ان کا نام محمد رکھا گیا، بالکل ابتدائی دور میں ایمان قبول کیا، سرکار دوعالم ﷺ  نے حضرت ابو عبیدہ سے ان کی مواخات کرائی تھی، حق گوئی میں بڑے جری تھے۔ ”اردن“ کے ایک آدمی نے ۴۳ھ میں آپ کو مدینہ منورہ میں خود آپ کے گھر میں شہید کر دیا۔
دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، ابن سعد نے طبقات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط بھی محفوظ کیا ہے ،جس کو حضرت محمد بن مسلمہ نے رقم فرمایا تھا۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۳/ ۳۸۳، سیر أعلام النبلاء ۲/ ۲۶۷ المصباح المضئی ۳۷/ ب ، طبقات ابن سعد ۱/۸۲، الاستیعاب ۱۴۰۳ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۱۸۴)
۴۷ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ:
ہجرت نبوی سے تقریباً دس سال پہلے پیدا ہوئے، آپ کا قد لمبا، چہر ہ خوب صورت، بال حسین و جمیل، آنکھیں بڑی بڑی اور سامنے کے دانت بجلی کی مانند چمک دار تھے، آپ ان ستر صحابہٴ کرام میں سے ہیں جو بیعتِ عقبہ میں حاضر ہوئے تھے، اورجن لوگوں نے بنی سلمہ کے بتوں کو توڑا تھا، تمام غزوات میں شریک ہوئے تھے، اور عہد نبوی میں ہی قرآن مجید جمع فرمایا تھا، آپ ان چار شخصیات میں سے ہیں جن سے قرآن سیکھنے کی تلقین سرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی، آپ کے علاوہ تین شخصیات درج ذیل ہیں: حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابی ابن کعباور حضرت سالم۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کی وفات کے بعد آپ کو شام کا والی بنایا گیا، ۸ھ میں طاعون عمواس میں شہید ہوئے۔
یعقوبی اور انصاری کی تصریح کے مطابق آپ کاتبینِ پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار ہوتے ہیں، (حوالوں کے لیے دیکھیے: (الاستیعاب ۱۴۰۴، الاصابہ ۳/ ۴۲۷ تاریخ یعقوبی ۲/۸۰ وغیرہ بحوالہ ”نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۱۸۴ تا ۱۸۶ تلخیص)
۴۸ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ:
بعثتِ نبوی سے پانچ سال پہلے پیدا ہوئے، حضرت ابوسفیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ معاویہ کو اپنا کاتب بنا لیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول فرمائی۔
ابن اسحاق، ابن سعد، ابن حنبل، عمر بن شبہ، خلیفہ ابن خیاط، طبری، جہشیاری، مسعودی، ابن مسکویہ، یعقوبی وغیرہ نے آپ کے کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔
ڈاکٹرمحمد حمیداللہ حیدرآبادی نے ”الوثائق السیاسیہ “میں درج ذیل دستاویزات پر بحیثیت کاتب، حضرت معاویہ کے نام کی تحقیق و تخریج فرمائی ہے: وثیقہ نمبر ۸۹، ۱۳۱، ۱۶۴، ۱۸۵، ۲۱۵ اور۲۲۲۔
(حوالوں کے لیے ملاحظہ فرمائیے: البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۰، المصباح المضئی ۸/ب، تاریخ خلیفہ ۱/ ۷۷، تاریخ طبری ۶/ ۱۷۹، الوزراء والکتاب ۱۲ التنبیہ والاشراف ۲۴۶، تجارب الامم ۱/۲۹۱، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰ بحوالہ ”نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۱۸۶، ۱۸۷)
۴۹ حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ دوسی:
آپ سعید بن العاص کے آزاد کردہ غلام تھے، بیعتِ رضوان اور بعد کے سارے غزوات میں شریک ہوئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر مبارک آپ کی نگرانی میں رہتا تھا۔ شیخین نے آپ کو بیت المال کا نگراں مقرر فرمایا تھا۔
آپ کو دربارِ رسالت مآب ﷺ  میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، عمر بن شبہ اور جہشیاری نے اس کی صراحت کی ہے، اور آخر الذکر نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ ﷺ  کے لیے مالِ غنیمت کی فہرست لکھ دیا کرتے تھے، مسعودی، عراقی، ابن سید الناس اور انصاری وغیرہ نے بھی یہ بات لکھی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: العجالة السنیہ ۲۴۵ الاستیعاب ۱۷۴۸، الاصابہ ۳/ ۴۵۱، الاستیعاب ۱۷۴۹، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۵، اسد الغابہ ۴/۴۰۳، المصباح المضئی ۸/ب، الوزراء والکتاب ۱۲، التنبیہ والاشراف ۲۴۶، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵ بحوالہ ”نقوش‘’ رسول نمبر۷/ ۱۸۷)
۵۰ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ:
آپ کو ”مغیرة الرأی“ بھی کہا جاتا تھا، آپ عرب کے نہایت ہوشیار اور چالاک لوگوں میں شمار ہوتے تھے، خندق کے سال ایمان لائے، بیعتِ رضوان میں بھی شریک رہے، غزوہٴ یرموک میں ایک آنکھ زخمی ہو گئی ،حضرت معاویہ نے آپ کو کوفہ کا گورنر بنایا تھا، آپ کاتبینِ وحی میں سے ہیں، لوگوں کے معاملات لکھا کرتے تھے، ”الوثائق السیاسیہ “میں متعدد دستاویزات آپ کے لکھے ہوئے ہیں (دیکھیے: وثیقہ نمبر ۸۱، ۸۳، ۸۶، ۹۵، ۱۵۳، ۱۹۴، ۱۹۵ اور ۲۰۴)
(مزید حوالوں کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۲/ ۴۵۲، الاستیعاب ۱۴۴۶، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۰، المصباح المضئی ۸/ب، الوزراء والکتاب ۱۲ تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، التنبیہ والاشراف ۲۴۵، تجارب الامم۱/ ۲۹۱ العجالة السنیہ ۲۴۶، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۱۸۷، ۱۸۸)
۵۱ ایک نصرانی انصاری:
ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی ایک مجہول کاتب کے بارے میں لکھتے ہیں:
”بنی نجار کا ایک آدمی نصرانی تھا، پھراسلام لایا، سورہ بقرہ اور آل عمران پڑھی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب تھا، مگر دوبارہ مرتد ہو گیا․․․․ اللہ تعالیٰ نے اسے موت دی، لوگوں نے دفنایا تو زمین نے اسے قبول نہ کیا، اور باہر پھینک دیا۔ (انظر:خ المناقب ۲۶، الحدیث ۳۶۱۷، م فضائل و منحةالمعبود ۲/۵ بحوالہ ”نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۱۸۸)
۵۲ حضرت یزید بن معاویہ:
یہ حضرت معاویہ کے باپ کی طرف سے (علاتی) بھائی تھے، انھیں، ”یزید الخیر“ بھی کہا جاتا تھا، فتح مکہ کے دن اسلام لائے، حضرت معاذ بن جبلکے بعد شام کے والی بنائے گئے، ۱۸ھ کے طاعونِ عمواس میں فوت (شہید) ہوئے۔
آپ کو سرکار دوعالم ﷺ  کی خدمت میں کتابت کا شرف حاصل ہے ،ابن سعد، ابن مسکویہ، ابن عبدالبر، ابن عبد ربّہ، عراقی، ابن سید الناس، اور انصاری نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔
(حوالے کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۱۵۷۵، ۱۵۷۶، سیرأعلام النبلاء ۱/ ۲۳۸، المصباح المضئی ۴۲/ أ ،تجارب الامم ۱/۲۹۱، العجالة السنیہ ۲۴۶، عیون الاثر ۲/۳۱۶، بحوالہ” نقوش‘’ رسول نمبر۷/۷۸۹)
چند اور کاتبین:
ذیل میں اکیس صحابہٴ کرام اور دو ام المومنین صحابیہ کے اسمائے گرامی پیش کیے جا رہے ہیں، جن کے نام متعدد کتابوں میں ”کاتبینِ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم“ کی فہرست میں ہے: لیکن راقم الحروف کو ان کے سلسلے میں اب تک کتابت کی صریح روایات نہ مل کسی ہیں :
۵۳ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ
۵۴ حضرت ابو زید رضی اللہ عنہ
۵۵ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ
۵۶ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
۵۷  حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ
۵۸  حضرت حفصہ (ام المومنین )رضی اللہ عنہا
۵۹  حضرت خالد بن العاص رضی اللہ عنہ
۶۰  حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ
۶۱  حضرت سعد بن العاص رضی اللہ عنہ
۶۲  حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ
۶۳  حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ
۶۴  حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ
۶۵ حضرت عائشہ (ام المومنین) رضی اللہ عنہا
۶۶  حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ
۶۷  حضرت عبدالرحمن بن حارث رضی اللہ عنہ
۶۸ حضرت عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہ
۶۹  حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ
۷۰  حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ
۷۱  حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
۷۲  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
۷۳  حضرت عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ
۷۴  حضرت منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ
۷۵  نعمامن بن بشیر رضی اللہ عنہ
          تفصیلی حالات کے لیے دیکھیے: ”کاتبینِ وحی“ موٴلفہ حضرت قاری ابوالحسن اعظمی مدظلہ، شعبہٴ تجوید و قرأت دارالعلوم دیوبند۔
 از:  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

*        *        *




No comments:

Post a Comment