Monday 29 October 2012

حنفی مقلد محدثین (حنفی اہلِ حدیث) اور راوی صحاح ستہ وغیرہ میں


http://urdubooklinks.blogspot.com/2012/09/jaiz-na-jaiz-taqleed.html

امام بخاريؒ(م256ھ) بھی امام شافعيؒ (م150ھ) کے مقلد تھے، آخر میں کتاب کے عکس اور حوالہ سے ثبوت ملاحظہ فرمائیں۔
شکریہ

فرقہ غیرمقلدین جدید وکٹورین اہلِ حدیث سے سوال:

اجتہادی مسائل میں مجتہد عالم کی تقلید "شرک" ہے اور مقلد "جاہل" ہوتا ہے تو احادیث کی سندوں/اسناد میں موجود تقلیدِ شخصی کرنے-والے حنفی-مقلد-محدث راوی ہیں، جو بقول آپ کے "مشرک" اور جاہل ہیں تقلیدِ شخصی(حنفی) کے سبب ، تو آپ ان کی احادیث سے اپنا مذہب کیوں اور کس دلیل سے ثابت کروگے ؟؟؟ کیا اپنی طرف سے حدیثِ نبوی کی کوئی کتاب گھڑ کر لاوگے؟؟؟ اب خود کو جاہل مانوگے یا ان مقلد-محدثین کو تقلید کرنے یعنی "مقلد" ہونے کی وجہ سے جاہل و مشرک کہوگے؟


صحاح-ستہ وغیرہ میں موجود حنفی-مقلد- راوی:



(1) أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ (عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ) المتوفیٰ209ھ


صحاح ستہ میں آپ کی 27 روایات دیکھئے:

حق کو تسلیم کرنے والے کیلئے تو کسی بات میں ایک دو دلیل کافی ہے جیسے عقلمند کیلئے اشارہ کافی ہے اور اونٹ کے آگے بین بجانا فضول ہے۔ جبکہ ان کے علاوہ بھی بہت سے رواۃ محدث ہیں۔
 
امام بخاریؒ (م256ھ) لکھتے ہیں:
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
باب: اس بارے میں کہ مسئلے مسائل کی باتیں اور نیک باتیں عشاء کے بعد بھی کرنا درست ہے۔

حدثنا عبد الله بن الصباح، قال: حدثنا ابو علي الحنفي، حدثنا قرة بن خالد، قال: انتظرنا الحسن، وراث علينا حتى قربنا من وقت قيامه فجاء، فقال: دعانا جيراننا هؤلاء، ثم قال: قال انس بن مالك: انتظرنا النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة حتى كان شطر الليل يبلغه، فجاء فصلى لنا ثم خطبنا، فقال:" الا إن الناس قد صلوا ثم رقدوا، وإنكم لم تزالوا في صلاة ما انتظرتم الصلاة"، قال الحسن: وإن القوم لا يزالون بخير ما انتظروا الخير، قال قرة: هو من حديث انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعلی عبیداللہ حنفی نے، کہا ہم سے قرہ بن خالد سدوسی نے، انہوں نے کہا کہ ایک دن حسن بصری رحمہ اللہ نے بڑی دیر کی۔ اور ہم آپ کا انتظار کرتے رہے۔ جب ان کے اٹھنے کا وقت قریب ہو گیا تو آپ آئے اور (بطور معذرت) فرمایا کہ میرے ان پڑوسیوں نے مجھے بلا لیا تھا (اس لیے دیر ہو گئی) پھر بتلایا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ہم ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے۔ تقریباً آدھی رات ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔ اس کے بعد خطبہ دیا۔ پس آپ نے فرمایا کہ دوسروں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے۔ لیکن تم لوگ جب تک نماز کے انتظار میں رہے ہو گویا نماز ہی کی حالت میں رہے ہو۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی خیر کے انتظار میں بیٹھے رہیں تو وہ بھی خیر کی حالت ہی میں ہیں۔ قرہ بن خالد نے کہا کہ حسن کا یہ قول بھی انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ہے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔



































کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان

باب: جنہوں نے اسے مکروہ رکھا کہ کوئی شہری آدمی کسی بھی دیہاتی کا مال اجرت لے کر بیچے۔

حدثني عبد الله بن صباح، حدثنا ابو علي الحنفي، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار، قال: حدثني ابي، عن عبد الله بن عمررضي الله عنه، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبيع حاضر لباد"، وبه قال ابن عباس.
مجھ سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعلی حنفی نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شہری، کسی دیہاتی کا مال بیچے۔ یہی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی کہا ہے۔
































==================================================

ahnaf huffaz e hadith ki fan e jarah o tadeel me


یہ کتاب درحقیقت علامہ سخاویؒ (٨٣١-٩٠٢هجري) کی کتاب "الاعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ" میں "المتكلمون في الرجال" کا ایک انتخاب ہے، جس کو شیخ عبد الفتاح ابوغدہؒ(١٩١٧-١٩٩٧ع) نے مستقل رسالہ کی صورت میں "أربع رسائل في علوم الحديث" کے ساتھ شایع کیا ہے، چونکہ اس سے حنفی علماء کی فہرست الگ کرنے کی ضرورت تھی تو اس عنوان پر مولف مولانا محمّد ایوب الرشیدی صاحب نے اسے کتابی صورت میں ترتیب دیا ہے.
اس کام کی اہمیت کا ایک دوسرا اہم پہلو بھی ہے کہ ایک مخصوص طبقہ جو اپنی تمام تر توانائی اس پر خرچ کرتا ہے کہ حنفی علماء اور علمِ حدیث کے درمیان وسیع اور گہری خلیج ہے، حالانکہ جو لوگ مسلمہ طور پر نہ صرف یہ کہ علماء حدیث کے سرخیل گردانے جاتے ہوں بلکہ فنِ جرح و تعدیل کے ائمہ بھی شمار ہوتے ہوں، انھیں علمِ حدیث کی مناسبت سے دور کرنے کی کوشش کتنی لاحاصل اور احمقانہ کوشش ہے.
بہر کیف مولوی صاحب موصوف کی کوشش لائقِ تحسین، قابلِ تشجیع اور ہمّت افزائی کی مستحق ہے، الله تعالیٰ موصوف کو جزاۓ خیر دے اور اس کوشش کو شرفِ قبولیت سے نوازے، دنیاۓ علم میں مقبولِ عام بناۓ.
آمین بحرمة النبي صلي الله عليه وسلم

امام ابن عبد الهاديؒ(م744ھ)حنبلی نے اپنی کتاب [طبقات علماء الحديث] میں محدثین کی س جن حنفی فقہاء کو بڑے ماہر علمائے حدیث میں ہونے کی گواہی دی۔
(1) امام محمدُ بنُ النَّضر [طبقات علماء الحديث:661، 2/ 389][تذكرة الحفاظ:2/ 178]
(2) امام طحاویؒ (م321ھ) [طبقات علماء الحديث:764، 2/ 517]
جو شافعی امام ترمذیؒ وبیھقیؒ کی طرح مختلف سنتوں اور فقہاء کے دلائل کو جمع کیا۔
(3) الحَسْكَاني (م470ھ) [طبقات علماء الحديث:1009، 3/ 391]





آئمہ حدیث کے فقہی مذاھب
تقلیدِ شخصی…… محدثین اور سَلفِ صالحین کا تعامل
مشہور محدثین خود تقلید کرتے تھے
سوال
کیا محدثین میں سے کوئی تقلید کرتا تھا
جواب

تقلید کے جائز اور درست ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ سلف صالحین کا ہمیشہ سے اس پر عمل رہا ہے۔ بڑے بڑے اہلِ علم ٗ محدثین اور فقہاء بھی تقلید ہی پر عامل تھے۔ بطور ِ نمونہ چند اہم نام یہاں ذکر کئے جاتے ہیں:غیر مقلدین بتائیں کہ اگر تقلید کرنا شرک ھے تو ان مشرکین کی بتائی احادیث کس دلیل سے قابل قبول ہیں؟؟؟
چند محدثین کے بارے میں بطور مثال بتایا جاتا ھے
( ۱)
لیث ابن سعد (متوفی ۱۷۵) بڑے محدث اور فقیہ تھے۔ وہ حنفی المسلک تھے۔ مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان کے الفاظ میں
وے حنفی مذہب بود و قضائے مصر داشت‘‘ (اتحاف ۲۳۷)
امام بخاری کے استاد ہیں ، حنفی ہیں (عمدۃ القاری
(۲)
امام عبداللہ بن مبارکؒ
جماعتِ محدثین کے سرخیل ہیں۔ ۱۸۱ھ میں وفات پائی ٗ وہ بھی امام ابوحنیفہؒ کے اصحاب و مقلدین میں ہیں (شرح مؤطاللباجی مالکی ۷/ ۳۰۰ ٗ  مفتاح السعادۃ ۲/ ۱۱۲
(۳)
وکیع بن جراحؒ (متوفی ۱۹۷ھ)
بڑے بلند پایہ محدث ہیں اور امام شافعی ؒ جیسے جلیل القدر محدث اور فقیہ ان کے تلامذہ میں ہیں۔ یہ بھی امام ابوحنیفہؒ کے مقلد تھے۔ حافظ ذ ہنی کا بیان ’’ کا   ن یفتی بقول ابی حنیفۃ‘‘(تذکرۃ الحفاظ ۱ / ۲۸۲) اور حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں: ’’کان       یفتی برائی ابی حنیفۃ (جامع بیان العلم ۱/ ۱۴۹)
(۴)
یحیٰ بن سعید القطانؒ
جن کی وفات ۱۹۸ھ میں ہوئی۔ فنِ رجال کے پہلے ناقد اور سید الحفاظ ہیں۔ یہ بھی حنفی ہیں۔ حافظ ذہبی  اور حافظ ابن حجر   کا بیان ہے ’’یفتی        قبول ابی حنیفۃ‘‘  (تذکرۃ الحفاظ ۱/۲۸۲۔ تہذیب التہذیب ۲/ ۴۵۰
(۵)
یحیٰ بن معینؒ (متوفی ۲۳۳ھ)
جرح و تعدیل کے امام اور حدیث میں استاذ الاساتذہ ہیں۔ ان کے بارے حافظ ذہبی ؒ  کا بیان ہے کہ ان کا شمار غالی حنفیوں میں تھا (مقدمہ نصب الرایہ ۱/۴۲
(۶)
امام محمد بن عبداللہ عبدالحکم (متوفی ۲۰۸ھ)
ان کا شمار بڑے حفاظِ حدیث میں ہے۔ یہ فقہ مالکی کے پیرو تھے’’احد                    فقھاء المصر من اصحاب مَالکٔ‘‘۔  (تذکرۃ الحفاظ ۲/ ۱۱۶
(۷)
امام ابوبکر احمد بن محمد المروزی (متوفی ۲۷۵)
بڑے ائمہ حدیث میں ہیں اور حنبلی المذہب ہیں۔ ’’اجل اصحاب احمد ابن حنبلؒ‘‘ (تذکرۃ الحفاظ ۲؍۱۸۵
(۹)
مشہور محدث امام بخاریؒ (متوفی ۲۵۶ھ)


انکو علامہ سبکیؒ نے فقہائے شوافع میں شمار کیا ہے (طبقات الثافعیۃ الکبریٰ ۲/۱ مطبوعہ مصر) نیز غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خاں صاحبؒ کو بھی ان کے شافعی المذہب ہونے کا اعتراف ہے۔ (ابجدالعلوم: ۸۱۰)(الحطۃ ص ۲۸۰ )امام بخاری نے فقہ شافعی اپنے استاذ حمیدی سے سیکھا۔ شاہ ولی اللہؒ نے ’’انصاف‘‘ میں نہایت تفصیل سے ذکرکیا ہے۔

(۱۰)

امام ابودائودؒ (متوفی ۲۷۵ھ)
انکے بارے میں نواب صدیق حسن خاں کے بقول اختلاف ہے کہ وہ شافعی تھے یا حنبلی (الحطۃ فی ذکر صحاح الستہ ۲۴۰) (الحطہ۱۲۵) بستان المحدثین۔  انصاف ( گویا تھے بہرحال مقلدہی۔)
(۱۱)
امام محمد ابن شعیب نسائی   (متوفی ۳۰۳ھ)
جو سنن نسائی کے مؤلف ہیں۔ فقہ شافعی ؒ کے مقلد تھے۔ خود نواب صاحب کو اعتراف ہے کہ یہ شافعی المذہب تھے۔ ’’و کا    ن شافعی المذھب‘‘ (الحطۃ فی ذکر صحاح الستہ۲۵۴)(الحطہ   ص ۱۲۷)اس پر ان کی اپنی کتاب  ’’منسک‘‘ بھی دلالت کرتی ہے۔
(۱۲)
مشہور محدث ابوعوانہ اسفرائنیؒ (متوفی ۳۱۶ھ)
جن کی کتاب صحیح ابوعوانہ ہے۔ شافعی المسلک تھے۔ خود حافظ ذہبی نے اس کا ذکر کیا ہے۔
(تذکرۃ الحفاظ ۲/ ۳)
(۱۳)
امام طحاویؒ (متوفی ۳۲۱ھ)
بڑے پایہ کے محدث ہیں اور مشکلاتِ حدیث کے حل میں ان کا جواب نہیں۔ حنفی المسلک تھے۔(تذکرۃ الحفاظ ۳/ ۲۸۸
(۱۴)
امام اسحاق راہو یہ
ان کو سبکیؒ نے شوافع میں شمار کیا ہے۔ (طبقات الثافعیہ ۱/ ۲۳۲
(۱۵)
محدث دار قطنی (متوفی ۳۸۵ھ)
یہ بھی شوافع میں شمار کئے گئے ہیں ۔(حوالہ سَابق: ۲/ ۳۱۰
(۱۶)
امام مسلم
شافعی ہیں۔الیانع الجنی  ص ۴۹)(کشف الظنون)  ۔  (الانصاف
(۱۷)
امام ترمذی
شافعی ہیں۔عرف الشندی)۔ بعض نے حنفی کہا ہے( انصاف)۔ بہر حال ہیں مقلد ہی۔
(۱۸)
امام ابن ماجہ
شافعی ہیں۔عرف الشذی)بعض نے حنبلی کہا ہے۔الانصاف)   بہر حال ہیں مقلد ہی۔
(۱۹)
دارمی
…… حنبلی ہیں…… الانصاف



بخاری کی ثلاثیات اور حنفی راوی


بخاری شریف کی سب سے اعلی اور اونچی روایات وہ ہیں جن میں حضور ﷺ اور امام بخاری کے درمیان صرف تین واسطے ہیں۔ ( ۱)تبع تابعی (۲) تابعی (۳) صحابی، ایسی رویات کو ثلاثیات کہا جاتا ہے، بخاری شریف میں کل ثلاثیات بائیں ہیں جن میں سے گیارہ روایات مکی بن ابراہیم سے، چھ امام ابو اعاصم النبیل سے تین محمد بن عبد اﷲ الانصاری سے اىک خلا دین بن یحییٰ سے اور اىک عصام بن خالد الحمصی سے مروی ہیں۔
ان بزرگوں میں سے مکی بن ابراہیم بلخی ؒ (م215ھ) امام ابو عاصم النبیل کو (م212ھ) دونوںحضرات امام ابوحنیفہؒ کے کبار مشائخ میں شمار ہو تے ہیں تیسرے بزرگ محمد بن عبد اﷲ الانصاری البصری ؒ حضرت امام اعظم کے تلامذہ میں ہیں۔ اس لحاظ سے گویا بخاری شریف کی بیس ثلاثیات کے راوی حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے شاگرد اورحنفی ہوئے۔

ىہ بات پىچھے ذکر کی جا چکی ہے کہ امام بخاری کے وہ اساتذہ جن سے آپ نے بخاری شریف میں براہ راست روایت لی ہے تقربیاً تین سو دس ہىں جن میں سے پونے دوسو کے قریب عراقی ہیں پھر عراقین میں تقربیاً پىنتالیس کوفی ہیں اوپچاسی بصری ہیں باقی دىگر شہروں کے ہیں ، اس موقع پر ىہ بات بھی قابل ذکر ہیں کہ حضرت امام بخاری ؒ کے اساتذہ میں بہت سے نامور اساتذہ ایسے بھی ہیں جو یا تو براہ راست امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کے شاگروں ہیں یا آپ کے شاگروں کے شاگرد ہیں چند اىک نام بطور برکت ملاحظہ فرماتے چلیں۔
(1) امام احمد بن حنبل ؒ تلمیذ قاضی ابو یوسف
(2) سعید بن ربیع ابوزید الھروی ؒ تلمیذ قاضی ابو یوسف
(3) ضحاک بن مخلد ابو عاصم النبیل تلمیذ امام ابو حنیفہؒ
(4) عباس بن ولید تلمیذ قاضی ابویوسف
(5) عبداﷲ بن یزید العدوی البصری المکی عبدالرحمن المقری ؒ تلمیذ امام ابو حنیفہؒ
(6) عبید اﷲ بن موسی الکوفیؒ تلمیذ امام ابو حنیفہؒ
(7) علی بن جعد الجوھری ؒ ؒ تلمیذ قاضی ابو یوسف
(8) علی بن حجر المروزی ؒ تلمیذ قاضی ابو یوسف
(9) علی بن المدینی ؒ تلمیذ قاضی ابو یوسف
(10) فضل بن عمرو (دکین) ابو نعیم الکوفی ؒ تلمیذ امام ابوحنیفہ ؒ
(11) محمد بن صباح الدولابی البغدادی تلمیذ قاضی ابو یوسفؒ
(12) محمد بن عبد اﷲ بن المثنی الانصاری البصری ؒ تلمیذ امام ابو حنیفہ ؒ
(13) محمد بن عبداﷲ بن جبلة العتکی البصری تلمیذ امام محمد ؒ
(14) محمد بن مقاتل ابو الحسن المروزی تلمیذ امام محمد ؒ
(15) مکی بن ابراہیم البلخی ؒ تلمیذ امام ابو حنیفہؒ
(16) ہشام بن عبدا لملک باھلی ابو لولید الطیالیسی البصری تلمیذ قاضی ابو یوسف
(17) ھیثم بن خارجہ الوحاطی ابو زکریا الشامی تلمیذ قاضی ابو یوسف
(18) یحیی بن صالح الوحاطی ابو زکریا یا الشامی تلمیذ امام محمدؒ
(19) یحیی بن معین ؒ تلمیذقاضی ابویوسف وامام محمدؒ
(20) یحیی بن یحیی بن بکیر بن عبد الرحمن النیسابوری تلمیذ قاضی ابو یوسف
ىہ امام ابوحنیفہؒ، ابو یوسف اور امام محمد ؒ کے وہ تلامذہ ہیں جن سے امام بخاری ؒ نے بخاری شریف میں براہ راست روایات لی ہیں ان کے علاوہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بیسیوں شاگر د اىسے ہیں جن سے امام بخاری ؒ نے بالواسطہ روایات لی ہیں بخوف طوالت ان کا تذکرہ پس انداز کیاجاتا ہے۔
امام بخاری سے بخاری شریف کو اگرچہ نو ہزار افراد نے سنا تھا لیکن اما موم موصوف کے جن تلامذہ سے صحیح بخاری کی روایت کا سلسلہ چلا وہ چار ہیں۔
(1) ابراہیم بن معقل بن حجاج النسفی ؒ (م294)
(2) حماد بن شاکر النسفی ؒ (م311)
(3)محمد بن یوسف الفربری(م320)
(4)ابو طلحہ منصور بن محمد البزدوی (م329)
ان چار میں سے پہلے دونوں بزرگ ابراہیم اور حماد مشہور حنفی عالم ہیں۔ ابراہیم بن معقل ان سب میں سے پہلے دونوں بزرگ ابراہیم اوحماد مشہور حنفی عالم ہیں۔ ابراہیم بن معقل ان سب میں اس حیثیت سے ممتاز ہیں کہ وہ حافظ الحدیث بھی تھے،علامہ ابن حجر ؒ نے فتح الباری کے شروع میں اپناسلسلہ سند ان چاروں حضرات تک بیان کیا ہے، ان چاروں حضرات میں ابراہیم اور حماد کو ىہ خاص شرف حاصل ہ کہ ان کو امام بخاری سے مجامع کی روایت کا سب سے پہلے موقع ملا ہے کىونکہ ابراہیم اور حماد کی وفات بالترتیب 292 اور 311 میں ہوئی ہے جبکہ فربری اورابوطلحہ کی وفات بالترتیب320 اور 329 میں ہوئی ہے اور حقیقت ہے کہ اگر ىہ دونوں حنفی بزرگ امام بخاری کی کتاب کو ان سے روایت نہ کرے تو جامع کی روایت کی ضمانت تن تنہا فربری پر رہ جاتی اوراس طرح روایتی نقطہ نظر سے صورت حال نازک ہو جاتی ، علامہ کوثری ؒمرحوم اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحر یر فرماتے ہیں۔
ہذا البخار لو لا ابراہیم بن معقل النسفی وحماد بن شاکر الحنفیان لکا ينفرد الفربر ی عنہ فی جمیع الصحیح سماعاً
(العلیق علی شروط الائمة الخمسہ للحازی ص81 طبع فی ابتداءابن ماجہ، طبع قدیمی کتب خانہ کراچی)
ىہ حضرت امام بخاریؒ ہیں کہ اگر ابراہیم بن معقل حنفی اور حماد بن شاکر حنفی نہ ہوتے تو فربری ان سے ساری کی ساری جامع الصحیح کے سماع میں منفرد رہ جاتے۔
قارئین کرام !!
ہم بخاری شریف کے متعلق اپنی مختصر تفصیلات پر اکتفاءکرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں،حضرت امام بخاریؒ نے بخاری شریف لکھنے میں جس قدر اہتمام سے کام لیا تھا اسی قدر اﷲ تعالیٰ نے اسے مقبولیت عطا فرمائی ہر زمانہ میں ہر مسلک ومشرب کے علماءاس کی درس و تدریس اور تفصیل وتشریح میں مشغول رہے تا ہنوز ىہ سلسلہ جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔
اس موقع پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قارئین کرام کی توجہ غیر مقلدین کے علماءکے ان بیانات کی طرف بھی کراتے چلیں جن میں امام بخاری سے عقیدت ومحبت کے علی الرغم بخاری شریف اور امام بخاری پر کىا حملے کئے گئے ہیں۔
مشہور صحافی اختر کاشمیری اپنے سفر نامہ ءایران میں لکھتے ہیں۔
اس سیشن کے آخری مقرر گوجوانوالہ کے اہل حدیث عالم مولانا بشیر الرحمن مستحسن تھے،مولانا مستحسن بڑی مستحب کی چیز ہیں علم محیط (اپنے موضوع پر، ناقل)جسم بسیط کے مالک، ان کا انداز تکلم جدت آلود اور گفتگو رف ہوتی ہے فرمانے لگے۔
اب تک جو کچھ کہا گیا ہے وہ قابل قدر ضرور ہے قابل عمل نہیں، اختلاف ختم کرنا ضرور ہے مگر اختلاف ختم کرنے لئے اسباب اختلاف کو مٹانا ہوگا، فریقین کی جو کتب قابل اعتراض ہیں ان کی موجودگی اختلاف کی بھٹی کو تیز کر رہی ہے کیوں نہ ہم ان اسباب کو ہی ختم کر دیں؟ اگر آپ صدق دل سے اتحاد چاہتے ہیں تو ان تمام روایات کو جلانا ہوگاجو اىک دوسرے کی دل آزاری کاسبب ہیں ہم بخاری کو آگ میں ڈالتے ہیں، آپ اصول کافی کو نذر آتش کریں آپ اپنی فقہ صاف کریں ہم اپنی فقہ (محمدی۔ناقل) صا ف کر دىنگے
علامہ و حید الزمان صاحب کی امام بخاریؒ پر تنقید
صحاح ستہ کے مترجم علامہ وحیدالزماں صاحب امام بخاریؒ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
امام جعفر صادق مشہور امام ہیں بارہ اماموں میں سے اور بڑے ثقہ اور فقیہ اور حافظ تھے، امام مالک اور امام ابوحنیفہ ؒ کے شیخ ہیں اور امام بخاری کو معلوم نہیں کیا شبہ ہوگیا کہ وہ اپنے صحیح میں ان سے روایت نہیں کرتے۔۔۔ اﷲ تعالیٰ بخاری پر رحم کر مروان اور عمران بن حطان اور کئی خوارج سے تو انہوں نے روایت کی اور امام جعفر صادق سے جو ابن رسول اﷲ ہیں ان کی روایت میں شبہ کرتے ہیں
اىک دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں:
اور بخاری ؒ پر تعجب ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق سے روایت کی اور مروان وغیرہ سے روایت کی جو اعدائے اہل بىت علیہم السلام تھے
نواب صاحب بخاری شریف کے اىک راوی مروان بن الحکم پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں
حضرت عثمان ؓ کو جو کچھ نقصان پہنچا وہ اسی کمبخت شریر النفس مروان کی بدولت خدا اس سے سمجھے(خدا اس سے بدلہ لے)
بخار شریف حکىم فیض عالم کی نظر میں
امام بخاری ؒ نے واقعہ افک سے متعلق جو احادیث بخاری شریف میں ذکر کی ہیں ان کى تردید کرتے ہوئے حکىم فیض عالم لکھتے ہیں:
ان محدثین، ان شارح حدیث، ان سیرت نویس اور ان مفسرین کی تقلیدی ذہنیت پر ماتم کرنے کو جی چاہت ہے جو اتنی بات کا تجزىہ یا تحقیق کرنے سے بھی عاری تھے کہ ىہ واقعہ سرے سے ہی غلط ہے، لیکن اس دینی وتحقیقی جرات کے فقدان نے ہزاروں المىه پیدا کىے اور پیدا ہوتے رہىں گے، ہمارے امام بخاری ؒ نے اس صحیح بخاری میں جو کچھ درج فرما دیا وہ صحیح اور لاریب ہے خواہ اس سے اﷲتعالیٰ کی الوہیت، انبیاءکرام کی عصمت، ازاوج مطہرات کی طہارت کی فضائے بسیط میں دھجیاں بکھرتی چلی جائىں، کیا ىہ امام بخاری کی اسی طرح تقلید جامدنہیں جس طرح مقلدین ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے ہیں
حکىم فیض عالم حضرت عائشہ ؓ کی عمر کے بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
اب اىک طرف بخاری کی نوسال والی روایت ہے اور دوسری طرف اتنے قوی شواہد حقائق ہیں اس سے صاف نظر آتا ہے کہ سال والی روایت اىک موضوع قول ہے جسے ہم منسوب الی الصحابة کے سواکچھ نہیں کہہ سکتے
حکىم فیض عالم بخاری شریف کے اىک مرکزی رواوی جلیل القدر تابعی اور حدیث کے مدون اول امام بن شہاب زہری ؒ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ابن شہاب منافقین وکذابین کے دانستہ نہ سہی نادانستہ ہی سہی مستقل ایجنٹ تھے اکثر گمراہ کن خبیث اور مکذوبہ روایتیں انہیں کی طرف منسوب ہیں
مزید لکھتے ہیں:
” ابن شہاب کے متعلق ىہ بھی منقول ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے بھی وبلا واسطہ روایت کرتا تھا جو اس کی ولادت سے پہلے مر چکے تھے، مشہور شیعہ مولف شیخ عباس قمی کہتا ہے کہ ابن شہاب پہلے سنی تھا پھر شیعہ ہوگیا (تتمتہ المنتہیٰ ص128) عین الغزال فی اسماءالرجال میں بھی ابن شہاب کو شیعہ کہا گیا ہے
قارئیں کرام !! علامہ وحید الزماں صاحب اور حکیم فیض عالم کی امام بخاریؒ اور ابن شہاب زہریؒ پر اس شدید جرح کے بعد غیر مقلدین کی بخاری شریف پر سے اعتماد اٹھا لیتا چاہىے اور بخاری شریف کی ان سىنکڑوں احادیث سے ہات دھو لینا چاہىے جن کی سند میں ابن شہاب ؒ موجود ہیں بالخصوص حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ کی رفع یدین والی حدیث اور حضرت عبادةؓ کی قرات فاتحہ والی حدیث سے تو بالکل دستبردار ہو جانا چاہىے کىونکہ ان احادیث کی سند میں ىہی ابن شہاب ؒ موجود ہیں، دىکھئے غیر مقلدین کیا فیصلہ فرماتے ہیں؟۔
غیر مقلدین حضرات بخاری شریف کے معاملہ میں اس قدر غیر محتاط واقع ہوئے میں کہ بے دھڑک احادیث مبارکہ بخاری کی طرف منسوب کر دىتے ہیں حالانکہ وہ احادیث یا توسرے سے بخاری میں نہیں ہوتىں یا ان الفاظ کے ساتھ نہیں ہوتیں، دو چار حوالے اس سلسلہ کے نذر قارئىن کىے جاتے ہیں۔
(۱)غیر مقلدین کے شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی صاحب نے اپنی کتاب رسول اکرم کی نماز میں ص48میں اىک حدیث درج ہے
عن عبداﷲ بن عمر قال رایت النبی ﷺافتح التکبیر فی الصلوة فرفع یددہ حین يکبر حتی یجعلھما حدو منکيبہ واذاکبر للرکوع فعل مثلہ و اذا قال سمع اﷲ لمن حمدہ فعل مثلہ و اذ اقال ربنا رلک الحمد فعل مثلہ ولا یفعل ذالک حین یسجد ولا حین یرفع راسہ من السجود“ (سنن کبری ج2ص68، ابو داود ج1 ص 163، صحیح بخاری ج1ص 102 الخ)“
ان الفاظ کے ساتھ ىہ حدیث بخاری شریف میں نہیں ہے، شاىد غیر مقلدین کہىں کہ الفاظ کے ساتھ نہ سہی معنا سہی تو ان کے ىہ بات بھی غلط ہے ىہ معنا بھی بخاری میں نہیں ہے اس لئے کہ حدیث سے چار جگہ رفع یدین ہو رہا ہے۔(۱) تکبیر تحریمہ کے وقت (۲) رکوع میں جاتے وقت (۳) سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے وقت (۴) اور ربنالک الحمد کہتے وقت جبکہ بخاری میں صرف تین جگہ رفع یدین ذکر ہے۔
(۲)غىر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل مفتی ابو البرکات احمد صاحب اىک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں
صحیح بخاری میں آنحضرت ﷺ کی حدیث ہے کہ تین رکعت کے ساتھ وتر نہ پڑھو، مغرب کے ساتھ مشابہت ہوگی
ىہ حد یث بخاری تو دور رہی پوری صحاح ستہ میں نہیں،من ادعی فعليہ لبیان
(۳)حکیم صادق سیالکوٹی صاحب تحریرفرماتے ہیں
حالانکہ حضور نے ىہ بھی صاف صاف فرمایا ہے : افضل الاعمال الصلوة فی اول و قتھا(بخاری) افضل عمل نماز کو اس کے اول وقت میں پڑھنا ہے
ان الفاظ اور معنی کے ساتھ ىہ حدىث پوری بخاری میں کہیں نہیں ہے
(۴حکیم صادق صاحب نے اىک حدیث ان الفاظ کے ساتھ درج کی ہے
عن ابن عباس قال کان الطلاق علی عہد رسول اﷲ ﷺ وا بی بکر و سنتین من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة (صحیح بخاری)
رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں اور حضرت اوبکر ؓ کی پوری خلافت میں اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی دو برس میں(بیکبارگی)تین طلاقیں اىک شمار کی جاتی تھی
اور الفاظ کے ساتھ اس حدیث کا پوری بخاری میں کہیں نام ونشان نہیں ہے
(۵)حکیم صادق سیالکوٹی صاحب نے ”صلوة الرسول “ ص218 میں ”رکوع کی دعائیں“ کے تحت چوتھی دعا ىہ درج کی ہے۔
سبحان اﷲ ذی الجبروت والملکوت والکبریاءوالعظمة
اور حوالہ بخاری و مسلم کا دیا ہے حالانکہ ىہ حدیث نہ بخاری میں ہیں نہ مسلم میں۔
(۶)حکیم صادی سیالکوٹی صاحب نے صلوة الرسول ص153 پر” اذان کے جفت کلمات“ کا عنوان دے کر اذان کے کلمات ذکر کىے ہیں اورحوالہ بخاری و مسلم کا دیا ہے حالانکہ اذان کے ىہ کلمات نہ بخاری میں ہیں نہ مسلم میں۔
(۷حکیم صاحب نے صلوة الرسول ص154 پر”تکبیر کے طاق کلما“ کا عنوان کے تحت تکبیر کے الفاظ درج کئے ہیں اور حوالہ بخاری ومسلم کا دیا ہے حالانکہ تکبیر کے ىہ الفاظ نہ بخاری میں ہىں نہ مسلم میں۔
(۸)حکىم صاحب صلوة الرسول ص156 پر ”اذان کا طریقہ اور مسائل“ کی جلی سرخی قائم کر کے اس کے ذىل میں لکھتے ہیں
حی علی الصلوة کہتے وقت دائیں طرف مریں اور حی علی فلاح کہتے وقتا بائیں مڑیں ولایستدر اور گھو میں نہیں یعنی دائیں اور بائیں طرف گردن موڑیں گھوم نہیں جانا چاہىے (بخاری ومسلم)
قارئین کرام!! غیر مقلدین حضرات جب کوئی عمل اختیار کرتے ہیں تو چاہے وہ غلط کیوں نہ ہو اس ثابت کرنے کے لئے غلط بیانی سے بھی گریز نہیں کرتے بلا حھجک بخاری کے غلط حوالے دےدىتے ہیں حالانکہ بخاری میں ان کو کوئی وجود نہیں ہوتا دو چار حوالے اس سلسلہ کے بھی نذر قارئین کىے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
(۱مولانا ثناءاﷲ امرتسری صاحب تحریر فرماتے ہیں
سینہ پر ہاتھ باندھنے اور رفع یدین کرنے کی روایات بخاری ومسلم اور ان کی شروح میں بکثرت ہیں
مولانا کی ىہ بات بالکل غلط ہے بخاری ومسلم میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایات تو درکنار اىک روایت بھی موجود نہیں۔
(۲)فتاوی علمائے حدیث میں اىک سوال کے جواب میں تحریر ہے۔
جواب صریح حدیث سے صراحتاً ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا، دعا ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا والیٰ ہے، رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے، بخاری شریف میں رکوع کے بعد ہے الخ
غیر مقلد مفتی صاحب کا ىہ جواب بالکل غلط ہے، بخاری شریف پڑھ جائىے، پوری بخاری میں قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے کا کہیں ذکر نہیں ملے گا، بلکہ اس کا الٹ یعنی رکوع میں جانے سے پہلے قنوت پڑھنے کا ذکر متعدد مقامات پر ملے گا۔





امام بخاريؒ(م256ھ) بھی امام شافعيؒ (م150ھ) کے مقلد تھے

(١) الإمام تاج الدين السبكيؒ (م٧٧١ھ) نے ابوعبد الله (امام بخاریؒ) کا تذکرہ اپنی کتاب طبقات (الشافعیہ) میں کیا ہے:
آپ فرماتے ہیں کہ انہوں(امام بخاریؒ) نے سماع (حدیث سننا) کیا ہے زعفرانی، ابوثور اور کرابیسی سے، (امام سبکیؒ کہتے ہیں کہ) میں کہتا ہوں کہ انہوں (امام بخاریؒ) نے امام حمیدیؒ سے فقہ حاصل کی تھی اور یہ سب حضرات امام شافعیؒ کے اصحاب میں سے ہیں.



















(٢) حافظ ابن حجر عسقلانی (م۸۵۲ھ) بھی آپ کو امام شافعی کے قریب لکھتے ہیں۔
[فتح الباری:۱/۱۲۳]



شاہ ولی الله محدث دہلویؒ (م١١٧٤ھ) كی
[الإنصاف مع ترجمہ وصاف: ٦٧]

٣) غیر-مقلدین کے مجددِ وقت، مجتہد العصر اور شیخ الکل نواب صدیق حسن خان صاحب کی
[ابجد العلوم: ٣/١٢٦، طبع مکتبہ قدوسیہ لاہور, مولفہ: اہلحدیث نواب صدیق حسن خاں صاحب]
*********
غیر-مقلد اہلِ حدیث سے سوال: 
اگر تقلید ائمہ_مسلمین شرک و حرام ہے تو امام بخاری رح بھی کیا شافعی مقلد ہونے کے سبب آپکے نزدیک مشرک ہیں؟
-------------
بعض نے ان کا مجتہد ہوجانا بھی ذکر کیا ہے، مگر وہ اصول میں نہیں فروع میں، کیونکہ ان سے اصول_فقہ کی کوئی کتاب نہیں.


علامہ طاہر الجزائری کی رائے میں آپ مجتہد تھے اور استنباط و استخراج میں آپ کی ایک اپنی راہ تھی، صحیح بخاری کے ابواب آپ کے فقہی نقطۂ نظر کے آئینہ دار ہیں۔



یہ صحیح ہے کہ آپ بہت سے مسائل میں امام شافعیؒ کے تابع چلے، اس کی زیادہ تر وجہ یہ ہے کہ آپ نے شیخ عبداللہ الحمیدی سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اور الحمیدی شافعی المذہب تھے تاہم ان مسائل کی بھی کمی نہیں جن میں آپ نے فقہ شافعی سے اختلاف کیا اور فقہ حنفی کو اختیار کیا، اس کا باعث آپ کے استاد اسحق بن راہویہ کو سمجھا جاتا ہے، محدث کبیر مولانا بدر عالم مدنیؒ نے فیض الباری جلد چہارم کے آخر میں ان مسائل کی ایک فہرست دی ہے جن میں امام بخاری فقہ حنفی کے مطابق چلے ہیں۔

================================
اعتراض: امام بخاریؒ نے خود کو شافعی (مقلد) کہاں کہا ہے؟
جواب: اگر کسی امام کی شاہدی سے ان کا "شافعی" (مقلد) ہونا قبل_قبول نہیں، تو کسی کی شاہدی کے سوا ان کا خود کو "مسلمان" کہلانا ثابت کردو؟؟؟



فرقہ غیر-مقلدین-نام نہاد-اہل_حدیث سے سوال :
اجتہادی مسائل میں مجتہد-عالم کی تقلید "شرک" ہے اور مقلد "جاہل" ہوتا ہے تو احادیث کی سندوں/اسناد میں موجود تقلیدِ شخصی کرنے-والے حنفی-مقلد-محدث راوی ہیں، جو بقول آپکے "مشرک" اور جاہل ہیں تقلید_شخصی(حنفی) کے سبب ، تو کیا آپ ان مقلدین کی احادیث سے اپنا مذہب ثابت کروگے؟ یا اپنی طرف حدیث_نبوی نام سے کوئی کتاب گھڑکر لاوگے؟ اب خود کو جاہل مانوگے یا ان مقلد-محدثین کو"مقلد"ہونے کی وجہ سے جاہل کہوگے؟




صحيح مسلم شريف حدیث کی اصح واهم ومعتبرکتب میں سے ہے ، اورصحيح مسلم پربہت سارے شروحات وحواشی بهی علماء امت نے لکهے ہیں، لیکن ان شروحات میں سب سے مقبول ومشہورشرح امام نووی شافعی رحمہ الله کا ہے
اورآپ کو یہ جان کرحیرت ہوگی کہ صحيح مسلم شريف کو امام مسلم رحمہ الله سے بلاواسطہ روایت کرنے والے محدث ابراهيم بن محمد بن سفيان النيسابوري ہیں ، اور یہ حنفى تهے اور کبار ائمة الحديث میں سے تهے ، اور یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ امام نووی شافعی رحمہ الله نے اپنے مقدمه صحيح مسلم میں اس کی تصریح کی ہے ، اور سب سے بڑی عجیب بات ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں صحيح مسلم شريف کا جو نسخہ اسناد المتصل کے ساتهہ رواج پذیر ہے وه اسی حنفى راوى یعنی ابراهيم بن محمد بن سفيان النيسابوري کی روایت کے ساتهہ ہے ، اور یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ امام نووی شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں
صحيح مسلم رحمه الله في نهاية من الشهرة، وهو متواتر عنه من حيث الجملة، فالعلم القطعي حاصل بأنه من تصنيف أبي الحسين مسلم بن الحجَّاج، وأما من حيث الرواية المتصلة بالإسناد المتصل بمسلم؛ فقد انحصرت طريقه عنه في هذه البلدان والأزمان في رواية أبي إسحاق إبراهيم بن محمد بن سفيان، ويروى في بلاد المغرب مع ذلك عن أبي محمد أحمد بن علي القلانسي، عن مسلم" المنهاج 1116 الخ اور یہ بهی یاد رہے کہ امام نووی شافعی رحمہ الله یہ بات ساتویں صدی هجری میں فرما رهے ہیں ، کہ صحيح مسلم شريف کی روایت کا انحصار اسناد متصل کے ساتهہ دو آدمیوں کے واسطے سے ہیں ایک رواية ابي اسحاق ابراهيم بن محمد بن سفيان، کی جس کو رواية المشارقة کہاجاتا ہے ، اور دوسری ہے رواية القلانسی جس کو رواية المغاربة کہا جاتا ہے ، جو اهل مغرب کے یہاں ہے ،
لیکن امام نووی رحمہ الله کے بقول فقد انحصرت طريقه عنه في هذه البلدان والأزمان في رواية أبي إسحاق إبراهيم بن محمد بن سفيان یعنی اس زمانے میں اوران شہروں میں امام مسلم سے صحیح مسلم کی روایت کا انحصارصرف ابي اسحاق ابراهيم بن محمد بن سفيان، کی روایت پرهے
امام مسلم رحمہ الله کے درمیان حنفى راوى کا واسطہ ہے ، اور صحيح مسلم شريف کو اس حنفى راوى کے واسطے سے تمام اہل اسلام پڑهتے پڑهاتے ہیں ، مجهے تو فکران لوگوں کی ہے جو رات دن احناف کو مشرک وگمراه اورکیا کچهہ کہتے تهکتے نہیں ہیں ، بهلا ایسے لوگ اب کس منہ سے صحيح مسلم شريف کو ہاتهہ لگائیں گے کیونکہ امام مسلم رحمہ الله کے درمیان حنفى راوى کا واسطہ ہے جوبراه راست بلاکسی واسطہ کے امام مسلم رحمہ الله سے روایت کرتے ہیں ، اب اگران کے بقول حنفى مشرک وگمراه وجاهل ہیں توکیا اس حنفى راوى کے واسطے سے جو صحيح مسلم شريف کا نسخہ آپ پورے عالم میں پڑهایا جاتا ہے اس کی احادیث کو روایت کرنا جائز ہے ؟ بس اصل بات ہے کہ ان لوگوں نے جاهل عوام کو دهوکہ دینے کے لیئے احناف کے خلاف مختلف وساوس تراشے ہوئے ہیں اور اپنی سستی شہرت اور روزی روٹی کا بازار گرم کیا ہے اور کچهہ نہیں ہے ، الله تعالی عوام کو اس فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی حقیقت سمجهنے کی توفیق دے
امام نووی رحمہ الله کی صحيح مسلم شريف کی سند
امام نووی رحمہ الله اپنے مقدمہ على صحيح مسلم میں اپنی سند امام مسلم رحمہ الله تک اس طرح بیان کرتے ہیں ،
فصل في بيان اسناد الكتاب وحال رواته منا الى الامام مسلم رضي الله عنه مختصرا أما اسنادي فيه فأخبرنا بجميع صحيح الامام مسلم بن الحجاج رحمه الله الشيخ الأمين العدل الرضى أبو اسحاق ابراهيم بن أبي حفص عمر بن مضر الواسطى رحمه الله بجامع دمشق حماها الله وصانها وسائر بلاد الاسلام وأهله قال أخبرنا الامام ذو الكنى أبو القاسم أبو بكر أبوالفتح منصور بن عبد المنعم الفراوي قال أخبرنا الامام فقيه الحرمين أبو جدى أبوعبد الله محمد بن الفضل الفراوي قال أخبرنا أبو الحسين عبد قال أنا أحمد محمد بن عيسى الجلودي قال أنا أبو اسحاق ابراهيم بن محمد بن سفيان الفقيه انا الامام أبو الحسين مسلم بن الحجاج رحمه الله وهذا الاسناد الذي حصل لنا ولاهل بكذا ممن يشاركنا فيه في نهاية من العلو بحمد الله تعالى فبيننا وبين مسلم ستة الخ ( مقدمة النووي على صحيح مسلم ج: 1 ص: 6 )
امام نووی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ یہ سند انتہائ عالی (بلند وبرتر) ہے ،
اس سند عالی کے آخرمیں دیکهیں یہ الفاظ ہیں ، أنا أبو اسحاق ابراهيم بن محمد بن سفيان الفقيه انا الامام أبو الحسين مسلم بن الحجاج رحمه الله الخ یعنی یعنی ابراهيم بن محمد بن سفيان النيسابوري حنفى بلاواسطہ براه راست راوی ہیں
شیخ ابراهيم بن محمد بن سفيان النيسابوري کون ہیں ؟؟
امام نووی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
وأما الشيخ الجلودى فهو السيد الجليل أبو اسحاق ابراهيم بن محمد بن سفيان النيسابورى الفقيه لصاحب المجتهد العابد قال الحاكم أبو عبد الله بن البيع سمعت محمد بن يزيد العدل يقول كان ابراهيم ابن محمد بن سفيان مجاب الدعوة قال الحاكم و سمعت أبا عمرو بن نجيد يقول انه كان من الصالحين قال الحاكم كان ابراهيم بن سفيان من العباد المجتهدين ومن الملازمين لمسلم بن الحجاج و كان من أصحاب أيوب بن الحسن لصاحب صاحب الرأى يعنى الفقيه الحنفى سمع ابراهيم بن سفيان بالحجاز ونيسابور والرى والعراق قال ابراهيم فرغ لنا مسلم من قراءة الكتاب فى شهر رمضان سنة سبع وخمسين ومائتين قال الحاكم مات ابراهيم فى رجب سنة ثمان وثلثمائة رحمه الله ورضى عنه و أما شيخ ابراهيم بن محمد بن سفيان فهو الامام مسلم صاحب الكتاب وهو أبو الحسين مسلم بن الحجاج بن مسلم القشيرى نسبا النيسابورى وطنا عربى صليبة وهو أحد أعلام أئمة هذا الشأن وكبار المبرزين فيه وأهل الحفظ والاتقان والرحالين فى طلبه الى أئمة الاقطار والبلدان والمعترف له بالتقدم فيه بلا خلاف الخ مقدمة النووي على صحيح مسلم ج: 1 ص: 10دار الفكرللطباعة والنصر والتوزيع
طالب حق کے لئے ایک ہی دلیل کافی ہوتی ہےاورطالب هوی کے لئے ہزاروں دلائل بهی ناکافی ہیں
ذالك فضلُ الله يـؤتيـهِ من يشــَـاء واللهُ ذوا الفضل العظــيم

1 comment: