Friday, 26 October 2012

جمعہ کے دن کے فضائل، مسائل، احکام وآداب

القرآن:
اے ایمان والو ! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو، اور خریدو فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو۔
[سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 9]
تفسیر:
جمعہ کی پہلی اذان کے بعد جمعہ کے لئے روانہ ہونے کے سوا کوئی اور کام جائز نہیں، نیز جب تک نماز جمعہ ختم نہ ہوجائے خریدو فروخت کا کوئی معاملہ جائز نہیں ہے، اللہ کے ذکر سے مراد جمعہ کا خطبہ اور نماز ہے۔


نماز جمعہ كى فضيلت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت سارى احاديث مروى ہيں، جن ميں سے چند ايک يہ ہيں:

1 - جمعہ نماز ہفتہ بھر کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے حضرت ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نماز پنجگانہ، اور جمعہ دوسرے جمعہ تک جب تك كبيرہ گناہ سے اجتناب كيا جائے تو يہ كفارہ بن جاتا ہے "۔

[صحيح مسلم حديث نمبر233].

حضرت ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے جمعہ كے روز غسل كيا اور جمعہ كے ليے آيا اور اس كے مقدر ميں جتنى نماز لكھى تھى ادا كى اور خطبہ جمعہ كے ختم ہونے تک خاموشى اختيار كى اور پھر امام كے ساتھ نماز جمعہ ادا كى تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ اور اس سے تين روز زيادہ كے گناہ بخش ديے جاتے ہيں "۔

[صحيح مسلم حديث نمبر 857].

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

علماء كرام كا كہنا ہے: دونوں جمعوں اور تين يوم زيادہ كے گناہ بخش دينے كا معنىٰ يہ ہے كہ ايک نيكى دس نيكيوں كى مثل ہے، تو جمعہ كا روز جس ميں يہ بہترين افعال كيے گئے ايک نيكى كے معنىٰ ميں ہوئے جو اسے دس نيكيوں ميں بنا ديتى ہے.

اور ہمارے بعض اصحاب كا كہنا ہے كہ: مراد يہ ہے كہ دونوں جمعوں ميں نماز جمعہ اور خطبہ كے ساتھ دوسرے جمعہ تک يہ سات يوم بغير كسى زيادتى اور نقصان كے ہوئے، اور ان كے ساتھ تين ملائيں تو يہ دس بن جاتے ہيں. اھـ



2 - نماز جمعہ كے ليے جلد جانے ميں اجرعظيم ہے:

بخارى اور مسلم نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے جمعہ كے روز غسل جنابت كيا اور پھر جمعہ كے ليے گيا تو گويا اس نے اونٹ قربان كيا، اور جو دوسرى گھڑى ميں گيا گويا اس نے گائے قربان كى، اور جو تيسرى گھڑى ميں گيا گويا اس نے سينگوں والا مينڈھا قربان كيا، اور جو چوتھى گھڑى ميں گيا گويا اس نے مرغى قربان كى، اور جو پانچويں گھڑى ميں گيا گويا اس نے انڈا قربان كيا، اور جب امام آئے تو فرشتے ذكر سننے كے ليے حاضر ہو جاتے ہيں "۔

[صحيح بخارى حديث نمبر 841 ، صحيح مسلم حديث نمبر 850].



3 - نمازِ جمعہ كے ليے چل كر جانے والے كے ليے ہر قدم كے بدلے مسنون روزے اور قيام كا اجر وثواب ہے:

حضرت اوس بن اوس ثقفى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

"جس نے جمعہ كے روز خود غسل كيا اور غسل كروايا، اور صبح جلدى گيا اور آگے جا كر بيٹھا، اور قريب ہو كر خاموشى سے خطبہ سنا، اس كے ليے ہر قدم كے بدلے مسنون روزے اور قيام كا ثواب ہے "۔

[جامع ترمذى: حديث نمبر 496].

مجموعى طور پر ہم نے جو ذكر كيا ہے اس سے واضح ہوا كہ ايک جمعہ سے دوسرے جمعہ تك گناہوں كا كفارہ بننا جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى موجودگى كے ساتھ مشروط ہے، يعنى غسل، صفائى، خوشبو يا تيل، بہترين اور اچھا لباس، سكون اور وقار سے چل كر جانا، اور گردنيں نہ پھلانگنا، اور دو آدميوں كے مابين عليدگى نہ كرنا، اور اذيت نہ دينا، ادھر ادھر نہ ہونا، خاموشى اختيار كرنا، اور لغو سے پرہيز كرناوغيرہ. اھـ











جمعہ کی نماز کا حکم


اللہ تعالی نے فرمایا: جب جمعہ کے دن نماز کیلئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو، اور خریدو فروخت کو چھوڑدو یہ تمہارے حق میں بہتر ہوگا اگر تم کچھ جانتے ہو۔ حوالہ
إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ(الجمعة:۹)
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر جمعہ کیلئے آئے اور خاموش رہے تو اس کے وہ تمام  گناہ جو  گزشتہ جمعہ سے اس جمعہ تک ہوئے معاف کردئے جاتے ہیں بلکہ تین دن زیادہ (کے گناہ بھی معاف کردئے جاتے ہیں)، اور جس نے کنکریوں کو الٹ پلٹ کیا اس نے لغو کام کیا۔  حوالہ
مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ فَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ وَزِيَادَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَمَنْ مَسَّ الْحَصَى فَقَدْ لَغَا(مسلم، بَاب فَضْلِ مَنْ اسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ فِي الْخُطْبَةِ ۱۴۱۹)
اور آپ  نے یہ بھی فرمایا: جو شخص تین جمعہ کو ہلکا سمجھتے ہوئے چھوڑ دے تو اللہ تعالی اس کے دل پر مہر لگادیتے ہیں۔ حوالہ
مَنْ تَرَکَ ثَلاَثَ جُمُعٍ تَھَاوُنًاطَبَعَ اللہ عَلَیٰ قَلْبِہٖ (ابوداود بَاب التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجُمُعَةِ ۸۸۸)
جمعہ کی دو جہری رکعتیں ہیں اور یہ مستقل فرض عین ہیں ، یہ ظہر کے بدلہ میں نہیں ہیں ، لیکن جس شخص کی جمعہ کی نماز چھوٹ جائے تو اس پر ظہر کی چار رکعت فرض ہوں گے۔ حوالہ
ياأيها الذين آمنوا  إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ(الجمعة:۹)،عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْجُمُعَةِ فَلْيُصَلِّ إِلَيْهَا أُخْرَى وَمَنْ فَاتَتْهُ الرَّكْعَتَانِ فَلْيُصَلِّ أَرْبَعًا » (دارقطني باب فِيمَنْ يُدْرِكُ مِنَ الْجُمُعَةِ رَكْعَةً أَوْ لَمْ يُدْرِكْهَا:۱۶۲۰)۔







جمعہ فرض ہونے کے شرائط



جمعہ کی نماز اس شخص پر فرض ہوتی ہے جس میں مندرجہ ذیل شرطیں پائی جائیں۔
(۱) مرد ہو ، عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں۔حوالہ
 عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مسلم، فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً عَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَوْ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِيٌّ أَوْ مَرِيضٌ (ابوداود بَاب الْجُمُعَةِ لِلْمَمْلُوكِ وَالْمَرْأَةِ ۹۰۱)
(۲) آزاد ہو ، غلام پر جمعہ کی نماز فرض نہیں۔حوالہ
 عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مسلم، فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً عَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَوْ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِيٌّ أَوْ مَرِيضٌ (ابوداود بَاب الْجُمُعَةِ لِلْمَمْلُوكِ وَالْمَرْأَةِ ۹۰۱)
(۳) شہر یا کسی ایسی جگہ میں مقیم ہو جو شہر کے حکم میں ہو، مسافر پر جمعہ فرض نہیں ، اسی طرح گاؤں میں رہنے والے پر بھی جمعہ فرض نہیں۔حوالہ
 عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  قَالَ « مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَعَلَيْهِ الْجُمُعَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلاَّ مَرِيضٌ أَوْ مُسَافِرٌ أَوِ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِىٌّ أَوْ مَمْلُوكٌ فَمَنِ اسْتَغْنَى بِلَهْوٍ أَوْ تِجَارَةٍ اسْتَغْنَى اللَّهُ عَنْهُ وَاللَّهُ غَنِىٌّ حَمِيدٌ ».(دار قطني  باب مَنْ تَجِبُ عَلَيْهِ الْجُمُعَةُ.۱۵۹۵)
(۴)صحت و تندرست ہو، بیمار پر جمعہ فرض نہیں۔حوالہ
 عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مسلم، فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً عَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَوْ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِيٌّ أَوْ مَرِيضٌ (ابوداود بَاب الْجُمُعَةِ لِلْمَمْلُوكِ وَالْمَرْأَةِ ۹۰۱)
(۵)خوف وغیرہ سے مامون و محفوظ ہو، لہذا ایسے شخص پر جو ظالم کے ظلم کے خوف سے چھپا ہوا ہو جمعہ فرض نہیں ۔حوالہ
عَنْ هَمَّامٍ ، قَالَ :سَمِعْتُ الْحَسَنَ وَسُئِلَ عَنِ الْخَائِفِ ، عَلَيْهِ جُمُعَةٌ ؟ فَقَالَ :وَمَا خَوْفُهُ ؟ قَالَ :مِنَ السُّلْطَانِ ، قَالَ :إِنَّ لَهُ عُذْرًا. (مصنف ابن ابي شيبة مَنْ رَخُّصَ لَهُ فِي تَرْكِ الْجُمُعَةِ ۱۵۳/۲)
(۶) بینا ہو ، نابینا پر جمعہ فرض نہ ہوگی۔حوالہ
 عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ قَالُوا وَمَا الْعُذْرُ قَالَ خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى(ابوداود بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ۴۶۴)
(۷) چلنے پر قادر ہو، لہذا جو شخص چلنے پر قادر نہ ہو اس پر جمعہ فرض نہیں۔حوالہ
 عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مسلم، فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً عَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَوْ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِيٌّ أَوْ مَرِيضٌ (ابوداود بَاب الْجُمُعَةِ لِلْمَمْلُوكِ وَالْمَرْأَةِ ۹۰۱)۔
مسئلہ: جس شخص پر جمعہ فرض نہیں ، اگر وہ جمعہ پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہوجائیگی اور اس کے ذمہ سے ظہر ساقط ہوجائیگی، بلکہ اس کے لئے جمعہ کی نماز مستحب ہے۔حوالہ
عن أَبِى الزِّنَادِ قَالَ :كَانَ مَنْ أَدْرَكْتُ مِنْ فُقَهَائِنَا الَّذِينَ يُنْتَهَى إِلَى قَوْلِهِمْ فَذَكَرَ الْفُقَهَاءَ السَّبْعَةَ مِنَ التَّابِعِينَ فِى مَشْيَخَةٍ جُلَّةٍ سِوَاهُمْ مِنْ نُظَرَائِهِمْ أَهْلُ فَقْهٍ وَفَضْلٍ وَرُبَّمَا اخْتَلَفُوا فِى الشَّىْءِ فَأَخَذْنَا بِقَوْلِ أَكْثَرِهِمْ وَأَفْضَلِهِمْ رَأْيًا فَذَكَرَ مِنْ أَقَاوِيلِهِمْ أَشْيَاءَ ثُمَّ قَالَ :وَكَانُوا يَقُولُونَ إِنْ شَهِدَتِ امْرَأَةٌ الْجُمُعَةَ أَوْ شَيْئًا مِنَ الأَعْيَادِ أَجْزَأَ عَنْهَا قَالُوا :وَالْغِلْمَانُ وَالْمَمَالِيكُ وَالْمُسَافِرُونَ وَالْمَرْضَى كَذَلِكَ لاَ جُمُعَةَ عَلَيْهِمْ وَلاَ عِيدَ فَمَنْ شَهِدَ مِنْهُمْ جُمُعَةً أَوْ عِيدًا أَجْزَأَ ذَلِكَ عَنْهُ.(السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ لاَ جُمُعَةَ عَلَيْهِ إِذَا شَهِدَهَا صَلاَّهَا رَكْعَتَيْنِ ۵۸۶۰) 
 اور عورت اپنے گھر میں ظہر کی نماز پڑھے گی، اس لئے کہ اس کا جماعت میں شرکت کرنا ممنوع ہے۔حوالہ
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قُلْتُ لِعَمْرَةَ أَوَمُنِعْنَ قَالَتْ نَعَمْ(بخاري بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ وَالْغَلَسِ ۸۲۲)۔




جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کی شرطیں




          جب تک مندرجہ ذیل شرطیں نہ پائیں جائیں جمعہ کی نماز صحیح نہیں ہوتی۔
(۱) شہر اور فناء شہر (اطراف شہر) کا ہونا، لہذا گاؤں میں جمعہ کی نماز صحیح نہیں ہوگی۔ شہر اور فناء شہر کے بہت سے جگہوں میں جمعہ قائم کرنا صحیح ہے۔ حوالہ
 عَنْ أَبِى عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ قَالَ عَلِىٌّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ لاَ جُمُعَةَ وَلاَ تَشْرِيقَ إِلاَّ فِى مِصْرٍ جَامِعٍ. (السنن الكبري للبيهقي باب الْعَدَدِ الَّذِينَ إِذَا كَانُوا فِى قَرْيَةٍ وَجَبَتْ عَلَيْهِمُ الْجُمُعَةُ ۵۸۲۳)
(۲)بادشاہ یا اس کا نائب ہونا۔ حوالہ
 عن شَيْبَانَ حَدَّثَنِى مَوْلًى لآلِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ:أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِؓ عَنِ الْقُرَى الَّتِى بَيْنَ مَكَّةَ والْمَدِينَةِ مَا تَرَى فِى الْجُمُعَةِ؟ قَالَ:نَعَمْ إِذَا كَانَ عَلَيْهِمْ أَمِيرٌ فَلْيُجَمِّعْ۔
(۳) ظہر کے وقت میں جمعہ کی نمازکا ہونا، ظہر کے وقت سے پہلے یا ظہر کے بعد جمعہ صحیح نہیں ہوتی۔ حوالہ
 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ(بخاري بَاب وَقْتُ الْجُمُعَةِ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ ۸۵۳)
(۴) خطبہ دینا، جب کہ اسے نماز سے پہلے ظہر کے وقت میں پڑھا جائے ، اور اس وقت خطبہ سننے کے لئے ان لوگوں میں سے جن سے جمعہ ہوتا ہے کم از کم ایک کا حاضر ہو نا ضروری ہے۔حوالہ
عَنِ الزُّهْرِىِّ قَالَ ۔۔۔ :وَبَلَغَنَا أَنَّهُ لاَ جُمُعَةَ إِلاَّ بِخُطْبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَخْطُبْ صَلَّى أَرْبَعًا(السنن الكبري للبيهقي باب وُجُوبِ الْخُطْبَةِ ۵۹۱۲)،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ أَصَلَّيْتَ يَا فُلَانُ قَالَ لَا قَالَ قُمْ فَارْكَعْ رَكْعَتَيْن(بخاري بَاب إِذَا رَأَى الْإِمَامُ رَجُلًا جَاءَ وَهُوَ يَخْطُبُ أَمَرَهُ أَنْ يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ: ۸۷۸) عن عطاء قال الخطبة يوم الجمعة قبل الصلاة (مصنف عبد الرزاق باب وجوب الخطبة  ۲۲۲/۳)، مذکورہ پہلی حدیث میں صحابی کا خطبہ کے وقت آنا اس بات کوبتلاتا ہے کہ خطبہ نماز سے پہلے ہے ورنہ وہ خطبہ سے پہلے ہی تشریف لاتے اور خطبہ نماز کے ایک حصہ کی طرح ہے؛ اس لیے اسے نماز کی طرح وقتِ جمعہ ہی میں ادا کرنا ضروری ہے۔  وَقْتُ الْخُطْبَةِ فَوَقْتُ الْجُمُعَةِ وَهُوَ وَقْتُ الظُّهْرِ لَكِنْ قَبْلَ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ لِمَا ذَكَرْنَا أَنَّهَا شَرْطُ الْجُمُعَةِ وَشَرْطُ الشَّيْءِ يَكُونُ سَابِقًا عَلَيْهِ وَهَكَذَا فَعَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (بدائع الصنائع فَصْلٌ بَيَانُ شرائط الجمعة:۳۰/۳)۔
(۵) اذن عام یعنی عام اجازت ہونا : اذن عام کا مطلب یہ ہےکہ وہ جگہ جہاں نماز جمعہ ہورہی ہو ہر آنے والے کو اس میں آنے کی اجازت ہو ، لہذا کسی ایسے گھر میں جس کا دروازہ لوگوں پر بند ہو جمعہ کی نماز صحیح نہیں ہوتی۔ حوالہ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَذِنَ النَّبِيُّ الْجُمُعَةَ قَبْلَ أَنْ يُهَاجِرَ وَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَجْمَعَ بِمَكَّةَ فَكَتَبَ إلَى مُصْعَبِ بْنِ عُمَيْرٍ "أَمَّا بَعْدُ فَانْظُرْ الْيَوْمَ الَّذِي تَجْهَرُ فِيهِ الْيَهُودُ بِالزَّبُورِ فَاجْمَعُوا نِسَاءَكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ فَإِذَا مَالَ النَّهَارُ عَنْ شَطْرِهِ عِنْدَ الزَّوَالِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَتَقَرَّبُوا إلَى اللَّهِ بِرَكْعَتَيْنِ التلخیص الحبیر، کتاب الجمعۃ، حدیث نمبر:۶۲۵۔ قلت:وفی  الحدیث دلالۃ علی ان شرط الجمعۃ ان تؤدی علی سبیل الاشتہار،لما فیہ ان النبی  اذن الجمعۃ قبل ان یھاجر،ولم یستطع ان یجمع بمکۃ ولایخفی ان مکۃ موضع صالح للجمعۃ حتما، لکونہا مصرا، ولم یکن النبی  عاجزا عن الوقت، ولاعن الخطبۃ، والجماعۃ، لأجل کونہ مختفیا فی بیت، فانہ کان یقیم سائر الصلوات بالجماعۃ کذلک، ولکنہ لم یستطع ان یؤد  ی الجمعۃ علی سبیل الاشتہار، والاذن العام، لمافیہ من مخافۃ اذی الکفار، وھجومھم علی المسلمین،ففیہ دلیل قول الحنیفۃ باشتراط الاذن العام للجمعۃ۔
 (اعلاء السنن، باب وقت الجمعہ بعد الزوال:۸/۵۸۔)
(۶) جمعہ جماعت کے ساتھ ہو، لہذا جمعہ کی نماز اگر تن تنہا پڑھے تو نماز صحیح نہیں ہوگی۔ جمعہ کی نماز میں امام کے علاوہ تین آدمیوں کی موجودگی سے جماعت ہوجاتی ہے۔ اگر مسافر یا مریض جمعہ کی نماز کی امامت کرے تو نماز صحیح ہوگی۔ حوالہ
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مسلم، فِي جَمَاعَةٍ (ابوداود بَاب الْجُمُعَةِ لِلْمَمْلُوكِ وَالْمَرْأَةِ ۹۰۱) عن بن جريج قال قلت لعطاء أواجبة صلاة يوم الفطر على الناس أجمعين قال لا إلا في الجماعة قال ما الجمعة بأن يوتى أوجب بذلك منها الا في الجماعة فكيف في الفطر قال عطاء لا يتمان أربعا في جماعة ولا غيرها(مصنف عبد الرزاق باب وجوب صلاة الفطر والأضحى ۵۷۰۸) عَنْ صَالِحِ بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ :خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى السُّوَيْدَاءِ مُتَبَدِّيًا ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْجُمُعَةُ أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ ، فَجَمَعُوا لَهُ حَصْبَاءَ ، قَالَ :فَقَامَ فَخَطَبَ ، ثُمَّ صَلَّى الْجُمُعَةَ رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ قَالَ :الإِمَامُ يُجَمِّعُ حَيْثُ مَا كَانَ(مصنف ابن ابي شيبة الإِمَامُ يَكُونُ مُسَافِرًا فَيَمُرُّ بِالْمَوْضِعِ ۱۴۸/۲)




خطبہ کی سنتیں




مندرجہ ذیل چیزیں خطبہ میں مسنون ہیں۔
(۱)خطیب کا حدث اور نجاست سے پاک ہونا۔ حوالہ
 وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِنَّمَا الْغُسْلُ عَلَى مَنْ تَجِبُ عَلَيْهِ الْجُمُعَةُ… عن سَالِم بْن عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ جَاءَ مِنْكُمْ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ (بخاري بَاب هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدْ الْجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنْ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ وَغَيْرِهِمْ ۸۴۵)
(۲) خطیب کے ستر کا چھپا ہوا ہونا۔
(۳) خطبہ شروع کرنے سے پہلے خطیب کا منبر پر بیٹھنا۔ حوالہ
 عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ خُطْبَتَيْنِ كَانَ يَجْلِسُ إِذَا صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتَّى يَفْرَغَ أُرَاهُ قَالَ الْمُؤَذِّنُ ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ ثُمَّ يَجْلِسُ فَلَا يَتَكَلَّمُ ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ (ابوداود بَاب الْجُلُوسِ إِذَا صَعِدَ الْمِنْبَرَ ۹۲۱)
(۴) خطیب کے سامنے اذان دینا۔ حوالہ
 عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كَانَ النِّدَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوَّلُهُ إِذَا جَلَسَ الْإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا (بخاري بَاب الْأَذَانِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ۸۶۱)
(۵) کھڑے ہوکر خطبہ دینا۔ حوالہ
 عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ قَائِمًا ثُمَّ يَقْعُدُ ثُمَّ يَقُومُ كَمَا تَفْعَلُونَ الْآنَ (بخاري بَاب الْخُطْبَةِ قَائِمًا ۸۶۹)
(۶) اللہ کی حمد وثنا سے خطبہ شروع کرنا۔ حوالہ
 عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ كَانَتْ خُطْبَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ يَحْمَدُ اللَّهَ وَيُثْنِي(مسلم، بَاب تَخْفِيفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ ۱۴۳۵)
(۷) اللہ کی شان کے مناسب تعریف کرنا۔ حوالہ
عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ كَانَتْ خُطْبَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ يَحْمَدُ اللَّهَ وَيُثْنِي(مسلم، بَاب تَخْفِيفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ ۱۴۳۵)
(۸) خطبہ میں کلمات شہادت کا پڑھنا۔ حوالہ
 عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَشَهَّدَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا مِنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَرْسَلَهُ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ مَنْ يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشَدَ وَمَنْ يَعْصِهِمَا فَإِنَّهُ لَا يَضُرُّ إِلَّا نَفْسَهُ وَلَا يَضُرُّ اللَّهَ شَيْئًا (ابوداود بَاب الرَّجُلِ يَخْطُبُ عَلَى قَوْسٍ ۹۲۵)
 (۹) خطبہ میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا اور کم سے کم قرآن کی ایک آیت پڑھنا۔ حوالہ
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَتَانِ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيُذَكِّرُ النَّاسَ (مسلم، بَاب ذِكْرِ الْخُطْبَتَيْنِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَمَا فِيهِمَا مِنْ الْجَلْسَةِ ۱۴۲۶)
(۱۰) خطبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللَّهَ فِيهِ وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَى نَبِيِّهِمْ إِلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُمْ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْقَوْمِ يَجْلِسُونَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ ۳۳۰۲)
(۱۱) دو خطبے پڑھنا، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی سی بیٹھک سے فاصلہ کرنا۔ حوالہ
 عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَتَانِ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيُذَكِّرُ النَّاسَ (مسلم، بَاب ذِكْرِ الْخُطْبَتَيْنِ 
(۱۲) دوسرے خطبہ کو اللہ کی تعریف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سے شروع کرنا۔ حوالہ
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللَّهَ فِيهِ وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَى نَبِيِّهِمْ إِلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُمْ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْقَوْمِ يَجْلِسُونَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ ۳۳۰۲) عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ كَانَتْ خُطْبَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ يَحْمَدُ اللَّهَ وَيُثْنِي(مسلم، بَاب تَخْفِيفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ ۱۴۳۵)
(۱۳) دوسرے خطبہ میں مومن مرد ، عورتوں کے لئے دعا کرنا اور ان کے لئے مغفرت طلب کرنا ۔ حوالہ
 أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يستغفر للمؤمنين والمسلم،ين والمسلمات كل جمعة .(مسند بزار مسند سمرة بن جندب رصي الله عنه ۱۵۹/۲ (
(۱۴) خطبہ اتنی زور دار آواز میں ہونا کہ اسے لوگ سن سکیں۔ حوالہ
 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ وَعَلَا صَوْتُهُ وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ (مسلم، بَاب تَخْفِيفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ ۱۴۳۵)
(۱۵) خطبہ کو اتنا مختصر کرنا کہ ایک لمبی سورۃ کے برابر ہو جائے۔ حوالہ
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ السُّوَائِيِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُطِيلُ الْمَوْعِظَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِنَّمَا هُنَّ كَلِمَاتٌ يَسِيرَاتٌ(ابوداود، بَاب إِقْصَارِ الْخُطَبِ: ۹۳۳)




نماز جمعہ سے متعلق فروعات




         مسئلہ: پہلی اذان کے ساتھ ہی خرید وفروخت کو چھوڑ کر مسجد کی طرف چلنا واجب ہے۔حوالہ
 ياأيها الذين آمنوا  إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ(الجمعة:۹)
         مسئلہ: جب امام خطبہ دینے کیلئے نکل پڑے تو نماز سے فارغ ہونے تک نماز اور گفتگو کرنا جائز نہیں اور نہ سلام کا جواب دینا جائز ہے اور نہ ہی چھنکنے والے کیلئے دعا دی جائے گی۔حوالہ
 إذا دخل أحدُكم المسجدَ والإمامُ على المنبرِ فلا صلاةَ ولا كلامَ حتى يفرغَ الإمامُ (جمع الجوامع أو الجامع الكبير للسيوطي ۲۲۳۰/۱)
          مسئلہ:خطیب کو خطبہ لمبا کرنا مکروہ ہے۔حوالہ
 عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِقْصَارِ الْخُطَبِ (ابوداود بَاب إِقْصَارِ الْخُطَبِ ۹۳۲)
         مسئلہ: خطیب کا خطبہ کی کسی سنت کو چھوڑنا مکروہ ہے۔ حوالہ
عن أَنَس بْن مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ… فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي (بخاري بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ الخ ۴۶۷۵)
         مسئلہ: کھانا، پینا ، کھیلنا اور خطبہ کے وقت آنے والے کی طرف متوجہ ہونا مکروہ ہے۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ فَدَنَا وَأَنْصَتَ وَاسْتَمَعَ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ وَزِيَادَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ قَالَ وَمَنْ مَسَّ الْحَصَى فَقَدْ لَغَا(مسند احمد مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ۹۱۲۰)
          مسئلہ: خطیب جس وقت منبر پر کھڑا ہو تو لوگوں کو سلام نہ کرے۔ حوالہ
 ولا يسلم على القوم عند الحنفية؛ لأنه يلجئهم إلى ما نهوا عنه من الكلام، (الفقه الاسلامي وادلته سنن الخطبة ومكروهاتها: ۴۴۹/۲)
         مسئلہ:جو شخص تشہد میں یا سجدہ میں جمعہ کو پالے تو اس نے جمعہ کو پالیا، وہ دورکعت مکمل کرے۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الصَّلَاةِ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ (ابوداود بَاب مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الْجُمُعَةِ رَكْعَةً۹۴۶)، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ سَمِعَ جَلَبَةَ رِجَالٍ فَلَمَّا صَلَّى قَالَ مَا شَأْنُكُمْ قَالُوا اسْتَعْجَلْنَا إِلَى الصَّلَاةِ قَالَ فَلَا تَفْعَلُوا إِذَا أَتَيْتُمْ الصَّلَاةَ فَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا (بخاري بَاب قَوْلِ الرَّجُلِ فَاتَتْنَا الصَّلَاةُ: ۵۹۹)، مذکورہ حدیث میں عموم ہے کہ امام کی جماعت میں سے جومل جائے اسے پڑھ لو اور جوچھوڑ جائے اس کومکمل کرلو اس طرح یہ مذکورہ صورت کوبھی شامل ہوجائیگی کہ کوئی جمعہ کے تشہد میں یاسجدہ میں امام کوپالے توجوچھوڑ گیا ہے اس کوامام کے سلام پھیرنے کے بعد مکمل کرلے۔
          مسئلہ:معذور اور قیدی کیلئے جمعہ کے دن شہر میں جماعت کے ساتھ ظہر پڑھنا مکروہ ہے۔حوالہ
 عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ ، قَالَ :قَالَ عَلِيٌّ :لاَ جَمَاعَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ إِلاَّ مَعَ الإِمَامِ(مصنف ابن شيبة فِي الْقَوْمِ يُجَمِّعُونَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، إِذَا لَمْ يَشْهَدُوهَا ۱۳۵/۲)









جمعة المبارک کی پانچ خصوصیات :



کہف غار کو کہتے ہیں، اور چونکہ اس سورت میں اصحابِ کہف(غار والوں) کا بیان ہے لہذا اسے سورۃ الکھف کہتے ہیں۔
اس سورت میں یہ مضامین ہیں:-
(1) توحید اور رسالت...یعنی حقیقی خدا صرف ایک ہے اور اللہ کے پیغمبر کے سچے ہونے کا بیان۔
(2) دنیا کے فانی اور حقیر ہونے کا بیان۔
(3) آخرت کی جزا وسزا کا بیان
(4) تکبر کی مذمت اور شرک کی ناحق ہونے پر بحث۔
بعض قصے رسالت، توحید اور بعث(یعنی مرنے کے بعد قبروں سے اٹھنے) پر دلالت کرنے کے لئے ہیں ، اور ان کا باہمی ربط ظاہر ہے کہ ان سب مضامین کو ایمان کے حصول میں (بڑا)دخل ہے۔



جمعہ - فضائل، مسائل اور احکام

   
بسم اللہ الرحمن الرحیم
          اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیمِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَاَصحَابِہ اَجْمَعِین
                اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ساری کائنات پیدا فرمائی اور ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دی․․․․ سات دن بنائے ، اور جمعہ کے دن کو دیگر ایام پر فوقیت دی۔ جمعہ کے فضائل میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہفتہ کے تمام ایام میں صرف جمعہ کے نام سے ہی قرآن کریم میں سورہ نازل ہوئی ہے جس کی رہتی دنیا تک تلاوت ہوتی رہے گی، ان شاء اللہ۔
سورہٴ جمعہ کا مختصر بیان:
                سورہٴ جمعہ مدنی ہے۔ اس سورہ میں ۱۱ آیات اور ۲ رکوع ہیں۔ اس کی ابتدا اللہ جل شانہ کی تسبیح اور تعریف سے کی گئی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی چارصفتیں بیان کی گئی ہیں:
                (۱)          الملک (بادشاہ) حقیقی ودائمی بادشاہ، جس کی بادشاہت پر کبھی زوال نہیں ہے۔
                (۲)         القدوس (پاک ذات) جو ہر عیب سے پاک وصاف ہے۔
                (۳)         العزیز (زبردست) جو چاہتا ہے کرتا ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے، ساری کائنات کے بغیر سب کچھ کرنے والا ہے۔
                (۴)         الحکیم (حکمت والا) اُس کا ہر فیصلہ حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کی رسالت ونبوت کا ذکر کیا گیا ہے کہ ہم نے ناخوانداہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو اُنھیں ہماری آیتیں پڑھ کر سناتا ہے ، اُن کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے۔ پھر یہود ونصاری کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس سورہ کی آخری ۳ آیتوں میں نمازجمعہ کا ذکر ہے:
                ”اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے، یعنی نماز کی اذان ہوجائے، تو اللہ کی یاد کے لیے جلدی کرو۔ اور خرید وفروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ ﴿آیت ۹﴾ اور جب نماز ہوجائے تو زمین میں پھیل جاوٴ اور اللہ کا فضل تلاش کرو یعنی رزق حلال تلاش کرو۔ اور اللہ کو بہت یاد کرو؛ تاکہ تم کامیاب ہوجاوٴ۔ ﴿آیت ۱۰﴾ جب لوگ سودا بکتا دیکھتے ہیں یا تماشہ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں، تو اُدھر بھاگ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔ تو فرمادیجیے جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے، تماشے سے اور سودے سے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والے ہیں“۔ ﴿آیت ۱۱
                آخری آیت (نمبر ۱۱) کا شان نزول : ابتداء ِاسلام میں جمعہ کی نماز پہلے اور خطبہ بعد میں ہوتا تھا؛ چنانچہ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کی نماز سے فراغت کے بعد خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک وحیہ بن خلیفہ کا قافلہ ملک ِشام سے غلّہ لے کر مدینہ منورہ پہنچا۔ اُس زمانے میں مدینہ منورہ میں غلّہ کی انتہائی کمی تھی۔ صحابہٴ کرام نے سمجھا کہ نمازِ جمعہ سے فراغت ہوگئی ہے اور گھروں میں غلّہ نہیں ہے، کہیں سامان ختم نہ ہوجائے؛ چنانچہ خطبہٴ جمعہ چھوڑکر باہر خرید وفروخت کے لیے چلے گئے، صرف ۱۲ صحابہ مسجد میں رہ گئے، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔
                حضرت عراک بن مالک  جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکرلوٹ کر مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہوجاتے اور یہ دعا پڑھتے:
                اللّٰہُمَّ اِنّی اَجَبْتُ دَعْوَتَکَ، وَصَلّیْتُ فَرِیْضَتَک، وَانْتَشَرْتُ کَمَا اَمَرْتَنِی فَارْزُقْنِی مِنْ فَضْلِک وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقِین۔
                اے اللہ! میں نے تیری آواز پر حاضری دی، اور تیری فرض نماز ادا کی، پھر تیرے حکم کے مطابق اس مجمع سے اٹھ آیا، اب تو مجھے اپنا فضل نصیب فرما ، تو سب سے بہتر روزی رساں ہے۔ (ابن ابی حاتم) تفسیر ابن کثیر۔ اس آیت کے پیش نظر بعض سلف صالحین نے فرمایا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن نمازِ جمعہ کے بعد خرید وفروخت کرے، اسے اللہ تعالیٰ ستر حصے زیادہ برکت دے گا۔ (تفسیر ابن کثیر)۔
اذانِ جمعہ:
                جس اذان کا اس آیت میں ذکر ہے، اس سے مراد وہ اذان ہے، جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد ہوتی ہے۔ نبیِ اکرمﷺ کے زمانے میں یہی ایک اذان تھی۔ جب آپ حجرہ سے تشریف لاتے، منبر پر جاتے، تو آپ کے منبر پر بیٹھنے کے بعد آپ ﷺکے سامنے یہ اذان ہوتی تھی۔ اس سے پہلے کی اذان حضور اکرم ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے زمانے میں نہیں تھی۔ حضرت عثمان بن عفان کے زمانے میں جب لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو آپ نے دوسری اذان ایک الگ مکان (زوراء) پر کہلوائی تاکہ لوگ نماز کی تیاری میں مشغول ہوجائیں۔ زوراء: مسجد کے قریب سب سے بلند مکان تھا۔
ایک اہم نقطہ:
                 اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا: ”جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے“ ”جب نماز سے فارغ ہوجائیں“ یہ اذان کس طرح دیجائے؟ اس کے الفاظ کیاہوں؟ نماز کس طرح ادا کریں؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے، البتہ حدیث میں ہے۔ معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کریم سمجھنا ممکن نہیں ہے۔
جمعہ کا نام جمعہ کیوں رکھا گیا:
                 اس کے مختلف اسباب ذکر کیے جاتے ہیں:
                (۱) جمعہ ”جمع“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: جمع ہونا؛ کیونکہ مسلمان اِس دن بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیں اور امت ِمسلمہ کے اجتماعات ہوتے ہیں ، اِس لیے اِس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ (۲) چھ دن میں اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور تمام مخلوق کو پیدا فرمایا۔ جمعہ کے دن مخلوقات کی تخلیق مکمل ہوئی یعنی ساری مخلوق اس دن جمع ہوگئی؛ اس لیے اِس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ (۳) اِس دن یعنی جمعہ کے دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے، یعنی اُن کو اِس دن جمع کیا گیا۔
اسلام کا پہلا جمعہ:
                یوم الجمعہ کو پہلے ”یوم العروبہ“ کہا جاتا تھا۔ نبیِ اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے اور سورہٴ جمعہ کے نزول سے قبل انصار صحابہ نے مدینہ منورہ میں دیکھا کہ یہودی ہفتہ کے دن ، اور نصاریٰ اتوار کے دن جمع ہوکر عبادت کرتے ہیں؛ لہٰذا سب نے طے کیا کہ ہم بھی ایک دن اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لیے جمع ہوں؛ چنانچہ حضرت ابو امامہ کے پاس جمعہ کے دن لوگ جمع ہوئے، حضرت اسعد بن زرارة  نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ لوگوں نے اپنے اِس اجتماع کی بنیاد پر اِس دن کا نام ”یوم الجمعہ“ رکھا ؛ اس طرح سے یہ اسلام کا پہلا جمعہ ہے (تفسیر قرطبی)
نبی اکرم  کا پہلا جمعہ:
                نبی اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے وقت مدینہ منورہ کے قریب بنو عمروبن عوف کی بستی قبا میں چند روز کے لیے قیام فرمایا۔ قُبا سے روانہ ہونے سے ایک روز قبل جمعرات کے دن آپ ﷺ نے مسجد قبا کی بنیاد رکھی۔ یہ اسلام کی پہلی مسجد ہے، جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی۔ جمعہ کے دن صبح کو نبی اکرم ﷺ قُبا سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ جب بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہونچے تو جمعہ کا وقت ہوگیا، تو آپ ﷺ نے بطنِ وادی میں اُس مقام پر جمعہ پڑھایا جہاں اب مسجد (مسجد جمعہ) بنی ہوئی ہے۔ یہ نبی اکرم ﷺ کا پہلا جمعہ ہے(تفسیر قرطبی)۔
جمعہ کے دن کی اہمیت:

                یہودیوں نے ہفتہ کا دن پسند کیا جس میں مخلوق کی پیدائش شروع بھی نہیں ہوئی تھی، نصاری نے اتوار کو اختیار کیا، جس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتدا ہوئی تھی۔ اور اِس امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا، جس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پورا کیا تھا۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب سے پیچھے ہیں؛ لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے۔مسلم کی روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلہ ہمارے بارے میں ہوگا (ابن کثیر)۔
جمعہ کے دن کی اہمیت کے متعلق چند احادیث:
                $  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کا دن سارے دنوں کا سردار ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک جمعہ کا دن سارے دنوں میں سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک عید الاضحی اور عید الفطر کے دن سے بھی زیادہ مرتبہ والا ہے۔ اس دن کی پانچ باتیں خاص ہیں :
                (۱)          اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔
                 (۲)        اِسی دن اُن کو زمین پر اتارا۔
                 (۳)        اِسی دن اُن کو موت دی۔
                (۴)         اِس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اس میں جو چیز بھی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں؛ بشرطیکہ کسی حرام چیز کا سوال نہ کرے۔
                (۵)         اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ تمام مقرب فرشتے ، آسمان، زمین، ہوائیں، پہاڑ، سمندر سب جمعہ کے دن سے گھبراتے ہیں کہ کہیں قیامت قائم نہ ہوجائے؛ اس لیے کہ قیامت، جمعہ کے دن ہی آئے گی (ابن ماجہ)۔
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سورج کے طلوع وغروب والے دنوں میں کوئی بھی دن جمعہ کے دن سے افضل نہیں ،یعنی جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے (صحیح ابن حبان
                $ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ جمعہ کے دن ارشاد فرمایا : مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے اِس دن کو تمہارے لیے عید کا دن بنایا ہے؛ لہٰذا اِس دن غسل کیا کرو اور مسواک کیا کرو (طبرانی، مجمع الزوائد)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن ہفتہ کی عید ہے۔
                $ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی سورہٴ بروج میں﴿وشاھد ومشہود﴾ کے ذریعہ قسم کھائی ہے۔ شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے یعنی اِس دن جس نے جو بھی عمل کیا ہوگا،یہ جمعہ کا دن قیامت کے دن اُس کی گواہی دے گا۔
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے افضل نماز‘ جمعہ کے دن فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہے (طبرانی ، بزاز)۔
                $ جہنم کی آگ روزانہ دہکائی جاتی ہے؛ مگر جمعہ کے دن اس کی عظمت اور خاص اہمیت وفضیلت کی وجہ سے جہنم کی آگ نہیں دہکائی جاتی ۔ (زاد المعاد ۱ / ۳۸۷)۔
جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کی تعیین :
                $ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا : اس میں ایک گھڑی ایسی ہے، جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے، اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو عنایت فرمادیتا ہے اور ہاتھ کے اشارے سے آپ ﷺ نے واضح فرمایا کہ وہ ساعت مختصر سی ہے (بخاری)۔
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ گھڑی خطبہ شروع ہونے سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک کا درمیانی وقت ہے (مسلم
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ مسلمان بندہ جو مانگتا ہے، اللہ اُس کو ضرور عطا فرمادیتے ہیں۔ اور وہ گھڑی عصر کے بعد ہوتی ہے (مسند احمد مذکورہ حدیث شریف اوردیگر احادیث کی روشنی میں جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے متعلق علماء نے دو وقتوں کی تحدید کی ہے: (۱) دونوں خطبوں کا درمیانی وقت، جب امام منبر پر کچھ لمحات کے لیے بیٹھتا ہے۔ (۲) غروبِ آفتاب سے کچھ وقت قبل۔
نماز ِجمعہ کی فضیلت:
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچوں نمازیں، جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے گناہوں کے لیے کفارہ ہیں؛ جب کہ اِن اعمال کو کرنے والا بڑے گناہوں سے بچے (مسلم یعنی چھوٹے گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے۔
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر جمعہ کی نماز کے لیے آتا ہے، خوب دھیان سے خطبہ سنتا ہے اور خطبہ کے دوران خاموش رہتا ہے تو اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک ، اور مزید تین دن کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں (مسلم) ۔
جمعہ کی نماز کے لیے مسجد جلدی پہنچنا :
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح (اہتمام کے ساتھ) غسل کرتا ہے پھر پہلی فرصت میں مسجد جاتا ہے تو گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے انڈے سے خدا کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لیے نکل آتا ہے توفرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں (بخاری، مسلم)۔ یہ فرصت(گھڑی) کس وقت سے شروع ہوتی ہے، علماء کی چند آراء ہیں؛ مگر خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ حتی الامکان مسجد جلدی پہونچیں، اگر زیادہ جلدی نہ جاسکیں تو کم از کم خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت قبل ضرور مسجد پہنچ جائیں۔
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں، پہلے آنے والے کا نام پہلے، اس کے بعد آنے والے کا نام اس کے بعد لکھتے ہیں(اسی طرح آنے والوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب سے لکھتے رہتے ہیں)۔ جب امام خطبہ دینے کے لیے آتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر (جن میں آنے والوں کے نام لکھے گئے ہیں) لپیٹ دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں (مسلم)۔
                خطبہٴ جمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہونچنے والے حضرات کی نمازِ جمعہ تو ادا ہوجاتی ہے، مگر نمازِ جمعہ کی فضیلت اُن کو حاصل نہیں ہوتی ۔
خطبہٴ جمعہ:
                جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ نماز سے قبل دو خطبے دئے جائیں؛ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ جمعہ کے دن دو خطبے دئے (مسلم)۔ دونوں خطبوں کے درمیان خطیب کا بیٹھنا بھی سنت ہے(مسلم)۔ منبرپر کھڑے ہوکر ہاتھ میں عصا لے کر خطبہ دینا سنت ہے۔
دورانِ خطبہ کسی طرح کی بات کرنا؛ حتی کہ نصیحت کرنا بھی منع ہے:
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے روز دورانِ خطبہ اپنے ساتھی سے کہا (خاموش رہو ) اس نے بھی لغو کام کیا(مسلم)۔
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کنکریوں کو ہاتھ لگایا یعنی دورانِ خطبہ اُن سے کھیلتا رہا (یا ہاتھ ، چٹائی، کپڑے وغیرہ سے کھیلتا رہا) تو اس نے فضول کام کیا (اور اس کی وجہ سے جمعہ کا خاص ثواب ضائع کردیا) (مسلم
                $ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ کے دوران گوٹھ مارکر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے (ترمذی (آدمی اپنے گھٹنے کھڑے کرکے رانوں کو پیٹ سے لگاکر دونوں ہاتھوں کو باندھ لے تو اسے گوٹھ مارنا کہتے ہیں) ۔
                $ حضرت عبد اللہ بن بسر فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن منبر کے قریب بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا ہوا آیا جب کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: بیٹھ جا، تونے تکلیف دی اور تاخیر کی (صحیح ابن حبان
                نوٹ: جب امام خطبہ دے رہا ہو تو لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر آگے جانا منع ہے،پیچھے جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائے۔
جمعہ کی نماز کا حکم: جمعہ کی نماز ہر اُس مسلمان، صحت مند، بالغ ،مردپر فرض ہے جو کسی شہر یا ایسے علاقے میں مقیم ہو جہاں روز مرہ کی ضروریات مہیّا ہوں۔ معلوم ہوا کہ عورتوں، بچوں، مسافر اور مریض پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے؛ البتہ عورتیں، بچے، مسافر اور مریض اگر جمعہ کی نماز میں حاضر ہوجائیں تو نماز ادا ہوجائے گی۔ ورنہ اِن حضرات کو جمعہ کی نماز کی جگہ ظہر کی نماز ادا کرنی ہوگی۔
                اگر آپ صحراء میں ہیں جہاں کوئی نہیں ، یا ہوائی جہاز میں سوار ہیں توآپ ظہر کی نماز ادا فرمالیں۔
                نماز ِجمعہ کی دو رکعت فرض ہیں، جس کے لیے جماعت شرط ہے۔ جمعہ کی دونوں رکعت میں جہری قراء ت ضروری ہے۔ نمازِ جمعہ میں سورة الاعلیٰ اور سورہٴ الغاشیہ، یا سورة الجمعہ اور سورة المنافقون کی تلاوت کرنا مسنون ہے۔
جمعہ کے چند سنن وآداب :
                جمعہ کے دن غسل کرنا واحب یا سنت ِموٴکدہ ہے،یعنی عذرِ شرعی کے بغیر جمعہ کے دن کے غسل کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ پاکی کا اہتمام کرنا، تیل لگانا ، خوشبواستعمال کرنا، اور حسب ِاستطاعت اچھے کپڑے پہننا سنت ہے۔
                $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن کا غسل ‘ گناہوں کو بالوں کی جڑوں تک سے نکال دیتا ہے (طبرانی ، مجمع الزوائد)۔ یعنی صغائر گناہ معاف ہوجاتے ہیں، بڑے گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے؛ اگر صغائر گناہ نہیں ہیں تو نیکیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
                $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، جتنا ہوسکے پاکی کا اہتمام کرتا ہے اور تیل لگاتا ہے یا خوشبو استعمال کرتا ہے، پھر مسجد جاتا ہے، مسجد پہنچ کر جو دو آدمی پہلے سے بیٹھے ہوں ان کے درمیان میں نہیں بیٹھتا، اور جتنی توفیق ہو جمعہ سے پہلے نماز پڑھتا ہے، پھر جب امام خطبہ دیتا ہے اس کو توجہ اور خاموشی سے سنتا ہے تو اِس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہ کو معاف ہوجاتے ہیں (بخاری
                $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا، پھر مسجد میں آیا، اور جتنی نماز اس کے مقدر میں تھی ادا کی، پھرخطبہ ہونے تک خاموش رہا اور امام کے ساتھ فرض نماز ادا کی، اس کے جمعہ سے جمعہ تک اور مزید تین دن کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں (مسلم
                $ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، اگر خوشبو ہو تو اسے بھی استعمال کرتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے، اس کے بعدمسجد جاتا ہے ، پھر مسجد آکر اگر موقع ہو تو نفل نماز پڑھ لیتا ہے اور کسی کو تکلیف نہیں پہونچاتا۔ پھر جب امام خطبہ دینے کے لیے آتا ہے، اس وقت سے نماز ہونے تک خاموش رہتا ہے یعنی کوئی بات چیت نہیں کرتا تو یہ اعمال اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہو جاتے ہیں (مسند احمد)۔

سننِ جمعہ :
                مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز سے قبل بابرکت گھڑیوں میں جتنی زیادہ سے زیادہ نماز پڑھ سکیں ، پڑھیں۔ کم از کم خطبہ شروع ہونے سے پہلے چار رکعتیں تو پڑھ ہی لیں جیسا کہ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ صفحہ ۱۳۱) میں مذکور ہے: مشہور تابعی حضرت ابراہیم  فرماتے ہیں کہ حضراتِ صحابہ کرام نمازِ جمعہ سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے (نماز پیمبر صفحہ۲۷۹)۔
                نمازِ جمعہ کے بعد دو رکعتیں یا چار رکعتیں یا چھ رکعتیں پڑھیں، یہ تینوں عمل نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہیں۔ بہتر یہ ہے کے چھ رکعت پڑھ لیں تاکہ تمام احادیث پر عمل ہوجائے اور چھ رکعتوں کا ثواب بھی مل جائے؛ اسی لیے علامہ ابن تیمیہ  فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھنی چاہئیں، اور حضراتِ صحابہ کرام سے چھ رکعات بھی منقول ہیں (مختصر فتاوی ابن تیمیہ، صفحہ ۷۹) (نماز پیمبر صفحہ ۲۸۱)۔
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے (مسلم
                $ حضرت سالم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے (مسلم
                $ حضرت عطاء  فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر بن عبد اللہ  کو جمعہ کے بعد نماز پڑھتے دیکھا کہ جس مصلیٰ پر آپ نے جمعہ پڑھا، اس سے تھوڑا سا ہٹ جاتے تھے، پھر دو رکعتیں پڑھتے، پھر چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ میں نے حضرت عطاء  سے پوچھا کہ آپ نے حضرت عبداللہ بن عمر  کو کتنی مرتبہ ایسا کرتے دیکھا؟ انھوں نے فرمایا کہ بہت مرتبہ۔ (ابو داوٴد)۔
نمازِ جمعہ چھوڑنے پر وعیدیں:
                $ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جمعہ نہ پڑھنے والوں کے بارے میں فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں پھر جمعہ نہ پڑھنے والوں کو اُن کے گھروں سمیت جلاڈالوں (مسلم
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : خبردار! لوگ جمعہ چھوڑنے سے رک جائیں یا پھر اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں پر مہر لگادے گا، پھر یہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے (مسلم)۔
                $ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے تین جمعہ غفلت کی وجہ سے چھوڑ دئے، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا (نسائی، ابن ماجہ، ترمذی، ابوداوٴد
جمعہ کی نماز کے لیے پیدل جانا :
                $ حضرت یزید بن ابی مریم فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز کے لیے پیدل جارہا تھا کہ حضرت عبایہ بن رافع  مجھے مل گئے اور فرمانے لگے تمہیں خوشخبری ہو کہ تمہارے یہ قدم اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہیں۔ میں نے ابو عبس  کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے قدم اللہ کے راستہ میں غبار آلود ہوئے تو وہ قدم جہنم کی آگ پر حرام ہے۔ [ترمذی:1632]۔ اسی مضمون کی روایت کچھ لفظی اختلاف کے ساتھ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔

(جمعہ کی قبلیہ سنتیں﴾
احناف: جمعہ سے پہلے چار رکعات ِسنت مؤکدہ ہیں۔
شوافع: جمعہ سے پہلے دو رکعت مؤکدہ ہیں اور دو رکعت غیر مؤکدہ ہیں۔
حنابلہ: جمعہ سے پہلے چار رکعات سنت ِغیر مؤکدہ ہیں۔
مالکیہ: کوئی مخصوص عدد نہیں ، جتنی  چاہیں پڑھ سکتے ہیں، جیسا کہ تمام سننِ رواتب کے بارے  میں اِمام مالکؒ کا یہی مسلک ہے۔
[الفقه على المذاهب الأربعة: ج1 / ص297-299]

﴿جمعہ کی بعدیہ سنتیں﴾
اِمام ابوحنیفہؒ: جمعہ کے بعد چار رکعات مسنون ہیں ۔
صاحبین(امام ابوحنیفہ کے دو ساتھی شاگرد ابوبوسف اور محمد) : جمعہ کے بعد چھ رکعات مسنون ہیں۔
اِمام شافعیؒ: جمعہ  کےبعد دف رکعت  سنّتِ مؤکدہ ، دف غیر مؤکدہ ہیں۔
اِمام احمدؒ: جمعہ کے بعد کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ چھ رکعات سنّت ہیں۔
﷫اِمام مالکؒ: کوئی مخصوص عدد نہیں، جتنی چاہیں پڑھ سکتے ہیں، جیسا کہ سننِ رواتب کے بارے میں اُن کا یہی مسلک ہے۔
[الفقه على المذاهب الأربعة: ج1 / ص297-299]

جمعہ کے دن یا رات میں سورہٴ کہف کی تلاوت:
                $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص سورہٴ کہف کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا، آئندہ جمعہ تک اس کے لیے ایک خاص نور کی روشنی رہے گی۔
[نسائی، بیہقی:5996، حاکم:3392، صَحِيح الْجَامِع: 6470 , صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب:73]
...تو اس کے اور بیت العتیق(مکہ مکرمہ) کے درمیان ایک خاص روشنی رہے گی۔
[دارمی:3407، صَحِيح الْجَامِع: 6471 , صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب:73]
                $ سورہٴ کہف کے پڑھنے سے گھر میں سکینت وبرکت نازل ہوتی ہے۔ حضرت براء بن عازب  فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سورہٴ کہف پڑھی، گھر میں ایک جانور تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے؟ تو انھیں ایک بادل نظر آیا جس نے انھیں ڈھانپ رکھا تھا۔ صحابی  نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: سورہٴ کہف پڑھا کرو۔ قرآن کریم پڑھتے وقت سکینت نازل ہوتی ہے۔
[صحیح البخاری:5011، صحیح مسلم:(1857)]

جمعہ کے دن دُرود شریف پڑھنے کی خاص فضیلت:
                $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے۔ اِس دن کثرت سے دُرود پڑھا کرو؛ کیونکہ تمہارا دُرود پڑھنا مجھے پہونچایا جاتا ہے ۔
[مسند احمد، ابوداوٴد، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان]۔
                $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات کثرت سے دُرود پڑھا کرو، جو ایسا کرے گا، میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔
[بیہقی]

جمعہ کے دن یا رات میں انتقال کرجانے والے کی خاص فضیلت:
                $ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں انتقال کرجائے، اللہ تعالیٰ اُس کو قبر کے فتنہ سے محفوظ فرمادیتے ہیں۔
[مسند احمد:6582 ، ترمذی:1074]۔

$           $           $





نمازِ جمعہ زوال کے بعد



بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ کی روشنی میں جمہور مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: اِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَی الْمُوٴمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً (سورة النساء ۱۰۳)بے شک نماز اہل ایمان پر فرض ہے جس کا وقت مقرر ہے۔
نماز جمعہ دیگر نمازوں سے مختلف ہے کہ وہ وقت کے بعد پڑھی ہی نہیں جاسکتی؛ کیونکہ دیگر فرض نمازیں وقت ختم ہونے پر بطور قضا پڑھی جاتی ہیں، جبکہ نماز جمعہ فوت ہونے پر نماز ظہر یعنی چار رکعت ادا کی جاتی ہیں۔ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ وقت‘ جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے۔ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام نووی  نے اپنی کتاب (المجموع ۴/۲۶۴) میں تحریر کیا ہے کہ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ کی قضا نہیں ہے، یعنی جس کا جمعہ فوت ہوگیا اسے نماز ظہر ادا کرنی ہوگی۔ ا سی طرح پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جس نے نماز جمعہ ظہر کے وقت میں ادا کی اس نے نماز جمعہ وقت پر ادا کیا جیساکہ حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ اور دیگر فقہاء نے اس مسئلہ پر اجماع امت ذکر کیا ہے۔ پوری امت مسلمہ متفق ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنی چاہئے؛ کیونکہ پوری زندگی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول رہا ہے اور زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ ادا کرنے میں کسی کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔ زوال آفتا ب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی صورت میں جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ دوبارہ ادا کرنی ہوگی اور وقت ختم ہونے پر نماز ظہر کی قضا کرنی ہوگی۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کے مشہور قول کے مطابق سعودی عرب کی عام مساجد میں جمعہ کی پہلی اذان تو زوال آفتاب سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے قبل ہوتی ہے لیکن جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کی قرآن وحدیث کی روشنی پر مبنی رائے کے مطابق خطبہ کی اذان زوال آفتاب کے بعد ہوتی ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں پہلی اذان بھی جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کے قول کے مطابق زوال آفتاب کے بعد ہی ہوتی ہے۔ مگر کبھی کبھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مساجد میں خطبہ والی اذان زوال آفتاب سے قبل ہی دے دی جاتی ہے، جس سے بعض حضرات کو تشویش ہوتی ہے کہ چند منٹ انتظار کرنے میں کونسی دشواری ہے، صرف چند منٹ کے انتظار پر کافی حضرات دوسری اذان سے قبل مسجد پہنچ کر جمعہ کی فضیلت حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی روشنی میں جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ دوسری اذان شروع ہونے کے بعد مسجد پہنچنے والوں کی نماز جمعہ تو ادا ہوجاتی ہے لیکن انہیں جمعہ کی فضیلت کا کوئی بھی حصہ نہیں ملتا اور نہ ہی ان کا نام فرشتوں کے رجسٹر میں درج کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے علماء نے احتیاط پر مبنی جمہور علماء کی رائے کا احترام کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ عام مساجد میں خطبہ کی اذان زوال آفتاب سے قبل نہ دی جائے اور حرمین شریفین میں پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے۔
موضوع کی اہمیت کے مدنظر یہ مضمون تحریر کر رہا ہوں، اللہ تعالیٰ صحیح بات لکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
نماز جمعہ کے اول وقت کے متعلق فقہاء وعلماء کی دو رائیں ہیں۔ دونوں رائے ذکر کرنے سے قبل اختلاف کی اصل وجہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ بعض روایات نماز جمعہ جلدی پڑھنے کے متعلق وارد ہوئی ہیں، حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے ان سے سمجھا کہ نماز جمعہ زوال آفتاب سے قبل پڑھی جاسکتی ہے، حالانکہ کسی ایک صحیح حدیث میں بھی وضاحت کے ساتھ مذکور نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوال آفتاب سے قبل جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہم نے کہا ان احادیث میں صرف نماز جمعہ کے لئے جلدی جانے کی تاکید کی گئی ہے نہ کہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی۔
جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہم اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کی دوسری روایت کے مطابق نماز جمعہ کا وقت ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ کا مشہور قول یہ ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی پڑھنی چاہئے لیکن اگر زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ ادا کرلی گئی تو زوال آفتاب کے بعد اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ جمعہ بھی عید ہے، اس لئے چاشت کے وقت پڑھنے کی گنجائش ہے۔ مشہور حنبلی عالم علامہ ابن رجب رحمة اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں کہ صحیح مذہب کے مطابق جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد ہی واجب ہوتی ہے اگرچہ پہلے ادا کرنے کی گنجائش ہے۔
جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کے قول کے بعض دلائل:
جمہور علماء کے متعدد دلائل ہیں، لیکن اختصار کے مدنظر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد صرف دو احادیث ذکر کررہا ہوں:
(۱) حدیث کی سب سے مستند کتاب لکھنے والے حضرت امام بخاری رحمة اللہ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (صحیح بخاری) میں کتاب الجمعہ کے تحت ایک باب (Chapter) کا نام اس طرح تحریر کیا ہے: "جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعدہے، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم اجمعین سے اسی طرح منقول ہے" غرضیکہ صحابہٴ کرام کے ساتھ حضرت امام بخاری رحمة اللہ کا بھی موقف واضح ہے کہ نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمة اللہ علیہ اسی باب میں یہ حدیث ذکر کرتے ہیں: اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلم کَانَ یُصَلِّی الجُمُعَةَ حِیْنَ تَمِیْلُ الشَّمْسُ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ پڑھا کرتے تھے جس وقت سورج ڈھلتا یعنی زوال کے بعد جمعہ پڑھتے تھے۔ صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر رحمة اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوال آفتاب کے بعد ہی نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ (فتح الباری)
یہ حدیث امام بخاری رحمة اللہ کے علاوہ دیگر محدثین مثلاً امام ترمذی نے بھی اپنی کتاب "ترمذی" میں ذکر کی ہے۔ خود حضرت امام احمد بن حنبل رحمةاللہ علیہ نے اپنی کتاب "مسند احمد" میں بھی ذکر کی ہے۔
(۲) حدیث کی دوسری مستند کتاب (صحیح مسلم) میں امام مسلم رحمةاللہ علیہ نے کتاب الجمعہ کے تحت ایک باب (Chapter)کا نام اس طرح تحریر کیا ہے: "جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد" اور اس باب میں یہ حدیث ذکر فرمائی ہے: حضرت ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب سورج زائل ہوجاتا تھا جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، پھر سایہ تلاش کرتے ہوئے لوٹتے تھے۔ یہ حدیث امام بخاری رحمة اللہ عنہ نے بھی صحیح بخاری میں ذکر فرمائی ہے۔
نوٹ: صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد ان دونوں احادیث میں وضاحت کے ساتھ مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازجمعہ زوال آفتاب کے بعد پڑھا کرتے تھے۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ کے قول کے دلائل:
(۱) حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم لوگ غداء (دوپہر کا کھانا) اور قیلولہ جمعہ کے بعد کیا کرتے تھے۔ ( صحیح بخاری وصحیح مسلم) وجہ استدلال یہ ہے کہ لغت میں غداء (دوپہر کا کھانا) کے معنی ہیں وہ کھانا جو زوال آفتاب سے پہلے کھایا جائے۔ جب غداء نماز جمعہ کے بعد کھایا جائے گا تو نماز جمعہ زوال آفتاب سے پہلے ہونی چاہئے۔ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ صحابہ کرام جمعہ کے روز بھی زوال آفتاب سے پہلے کھایا کرتے تھے، بلکہ وہ کھانا جو زوال آفتاب کے بعد کھایا جاتا ہے اسے عرفاً غداء ہی کہتے ہیں جیسا کہ موجودہ زمانہ میں۔ مثلاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے متعلق ارشاد فرمایا : ہَلمُّوا الی الغداء المبارک لیکن دنیا کا کوئی عالم بھی یہ نہیں کہتا کہ سحری زوال سے قبل کھائی جاسکتی ہے۔
(۲) حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، پھر لوٹ کر اپنے پانی لانے والے اونٹوں کو آرام دیتے تھے۔ راوی حضرت حسن بیان کرتے ہیں کہ میں نے راوی حضرت جعفر سے کہا کہ اس وقت کیا وقت ہوتا تھا۔ فرمایا آفتاب ڈھلنے کا وقت۔ (صحیح مسلم) اس حدیث سے نماز جمعہ کا زوال آفتاب سے پہلے پڑھنے کو ثابت کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ جمعہ کے دن زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد بھی پانی لانے والے اونٹوں کو آرام دلایا جاسکتا ہے جیساکہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ نیز یہ صحابی رسول حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قول نہیں بلکہ راوی کا ہے، غرضیکہ اس مبہم عبارت سے نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب سے قبل شروع ہونا، ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
(۳) حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا استدلال حضرت عبداللہ بن سیدان سلمی رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہے جو سنن دار قطنی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے جس میں خلفاء راشدین کا زوال سے پہلے جمعہ پڑھنا مروی ہے۔ مگر اس حدیث کی سند میں ضعف کی وجہ سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے جیساکہ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام نووی رحمة اللہ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے نماز جمعہ سے متعلق آثار ضعیف ہیں، اور اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح احادیث کی بناء پر اس مذکورہ حدیث میں تاویل اور توجیہ ہی کی جائے گی۔
(۴) حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے بعض ان احادیث سے بھی استدلال کیا ہے جن میں نماز جمعہ کے لئے سویرے جانے کی ترغیب وارد ہوئی ہے؛ لیکن ان احادیث سے زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کو ثابت کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ ان احادیث سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کے لئے سویرے حتی کہ چاشت کے وقت مسجد چلے جانا چاہئے ، مگر ان احادیث میں اس طرح کی کوئی وضاحت وارد نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز زوال آفتاب سے قبل ادا کی جاسکتی ہے۔
خلاصہٴ کلام: پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن ظہر کی جگہ نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے اور اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز جمعہ ادا نہیں کرسکا تو اسے نماز ظہر ہی ادا کرنی ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص نماز جمعہ وقت پر نہیں پڑھ سکا تو قضا ظہر کی نماز (یعنی چار رکعت) کی کرنی ہوگی۔ اسی طرح جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کا اتفاق ہے کہ نماز جمعہ کا آخری وقت‘ ظہر کے آخری وقت کے مانند ہے، یعنی عصر کا وقت ہونے پر نماز جمعہ کا وقت ختم ہوجائے گا۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے بھی یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ کا آخری وقت‘ نماز ظہر کے آخری وقت کی طرح ہے۔ جب جمعہ کا آخری وقت ظہر کے آخری وقت کی طرح ہے تو نماز جمعہ کا اول وقت بھی ظہر کے اول وقت کی طرح ہونا چاہئے۔
اس پر بھی پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنی چاہئے ، البتہ صرف امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ ادا کرلی گئی تو نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ جمہور محدثین وفقہاء وعلماء نے کہا کہ زوال آفتاب سے قبل جمعہ پڑھنے پر نماز جمعہ ادا ہی نہیں ہوگی۔ لہذا احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کی جائے؛ بلکہ پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے تو اختلاف سے بچنے کے لئے بہتر ہے۔
جمہور محدثین وفقہاء وعلماء نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہم اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کی دوسری روایت کے دلائل مفہوم اور سند کے اعتبار سے زیادہ قوی ہیں۔
درج ذیل اسباب کی وجہ سے جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کا قول ہی زیادہ صحیح ہے:
(۱) جمہور علماء کے دلائل صحیح احادیث سے ثابت ہونے کے ساتھ اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں، جبکہ دوسری رائے کے بعض دلائل اگرچہ صحیح احادیث پر مشتمل ہیں لیکن وہ اپنے مفہوم میں واضح نہیں ہیں، نیز دیگر روایات وآثار مفہوم میں تو واضح ہیں لیکن ان کی سند میں ضعف ہے۔
(۲) جمہور محدثین وفقہاء وعلماء حتی کہ چاروں ائمہ میں سے تینوں ائمہ، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام نووی رحمة اللہ علیہم اور چودہ سو سال سے جید علماء کی یہی رائے ہے کہ نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔
(۳) جمہور علماء کا قول اختیار کرنے میں احتیاط بھی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد پڑھنے پر دنیا کے کسی بھی عالم کا کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی پر جمہور فقہاء وعلماء کا فیصلہ ہے کہ نماز جمعہ ادا نہیں ہوگی اور بعد میں نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔
(۴) اگرچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی گنجائش رکھی ہے مگر انہوں نے یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنا بہتر ہے، چنانچہ سعودی علماء (جو اختلافی مسائل میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں) نے یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ادا کی جائے۔
(۵) امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمةا للہ کی شہادت کے مطابق حضرت عمر، حضرت علی، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہی موقف ہے کہ زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ کا وقت ہوتا ہے۔ حضرت امام بخاری  اور حضرت امام مسلم  نے اپنی کتابوں (صحیح بخاری وصحیح مسلم) میں باب (Chapter)کا نام رکھ کر ہی اپنا موقف واضح کردیا کہ زوال آفتاب کے بعد ہی نماز جمعہ کا وقت شروع ہوتا ہے۔
(۶) نماز جمعہ ظہر کی نماز کا بدل ہے اور آخری وقت کے متعلق حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا موقف جمہور علماء کے مطابق ہے، کہ عصر کے وقت پر جمعہ کا وقت ختم ہوجاتا ہے، لہٰذا نماز جمعہ کا اول وقت بھی نماز ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے ہی ہونا چاہئے۔
(۷) جمعہ کے وقت کی ابتداء زوال آفتاب سے قبل ماننے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس وقت یا لمحہ سے نماز جمعہ کے وقت کی ابتداء مانی جائے؟ احادیث میں کوئی وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے حنبلی مکتب فکر کے علماء میں بھی وقت کی ابتداء کے متعلق اختلاف ہے، چنانچہ بعض علماء نے تحریر کیا ہے کہ نماز عید کی طرح سورج کے روشن ہونے سے جمعہ کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سعودی عرب میں عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز اشراق کا وقت شروع ہوتے ہی فوراً ادا کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے گرمیوں میں ساڑھے پانچ بجے عید کی نماز ادا ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ پڑھنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا ہے۔
(۸) زوال آفتاب کے بعد اذان اور نماز جمعہ کی ادائیگی کی صورت میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اور یہ شریعت میں مطلوب ہے۔
(۹) خواتین اور معذور حضرات جن کو اپنے گھر نماز ظہر ادا کرنی ہوتی ہے، زوال آفتاب کے بعد پہلی اذان دینے پر انہیں نماز ظہر کی ادائیگی کا وقت معلوم ہوجائے گا۔ لیکن زوال آفتاب سے ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ قبل اذان دینے سے ان حضرات کے لئے نماز کے وقت شروع ہونے کا کوئی اعلان نہیں ہوگا۔
حنبلی مکتب فکر کے مشہور عالم دین علامہ ابن قدامہ رحمة اللہ علیہ اپنی مایہ ناز کتاب (المغنی: ۳/۱۵۹) میں تحریر کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ زوال آفتاب کے بعد قائم کرنا چاہئے؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد پڑھتے تھے اور پھر نماز پڑھ کر سایہ تلاش کرتے ہوئے لوٹتے تھے ۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ پڑھا کرتے تھے جس وقت سورج ڈھلتا۔ (صحیح بخاری) اس میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے؛ کیونکہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ زوال آفتاب کے بعد یقینا جمعہ کا وقت ہے لیکن زوال آفتاب سے قبل کے متعلق اختلاف ہے۔
اب جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ہونی چاہئے تاکہ نماز جیسی اہم عبادت کی ادائیگی میں کوئی شک وشبہ نہ رہے، تو بعض مساجد میں خطبہ کی اذان کا زوال آفتاب سے قبل دینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ بلکہ اگر پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے تواس میں زیادہ احتیاط ہے نیز دیگر تمام ائمہ کی رائے کا احترام بھی ہے اور کسی طرح کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے بلکہ زوال آفتاب سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل اذان دینے سے اذان کامقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ زوا ل آفتاب کے بعد پہلی اذان دینے پر نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوسکتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے صرف یہی تو کہا ہے کہ اگر نماز جمعہ زوال آفتاب سے قبل ادا کرلی گئی تو اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن انہوں نے یہ تعلیم وترغیب نہیں دی کہ ہم زوال آفتاب سے قبل اذان اوّل کا اہتمام کرلیں۔ الحمد للہ ہمارے علماء کی جد وجہد سے حرمین میں جمعہ کی پہلی اذان زوال آفتاب کے بعد ہوتی ہے، دعا کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ عام مساجد میں بھی شروع ہوجائے تاکہ پہلی اذان بھی ایسے وقت میں دی جائے کہ اس میں دنیا کے کسی عالم کا کوئی اختلاف نہ ہو۔
$ $ $


Add caption
شریعت میں خطبہٴ جمعہ کی مقدار

جمعہ کی عظمت حدیثِ پاک کی روشنی میں
جمعہ کے دن کو اللہ پاک نے معزز ومکرم بنایا ہے اس کی عظمت دوسرے دنوں سے بالاتر اور بہتر ہے قرآن وحدیث میں اس کے فضائل ومناقب بہت تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اس کی شام پرنور، رات باعظمت، صبح بارونق اور دن بابرکت ہے اس کے لیل ونہار اپنے دامن میں ڈھیر سارے خیرات و برکات رکھتے ہیں، اس میں بہت سارے خوش نصیب کے لیے جنت کے فیصلے کیے جاتے ہیں تو بہت سے درد کے ماروں کو جہنم سے چھٹکارے کا پروانہ ملتا ہے، اس میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اس میں بندہ جو جائز مقصد مانگ لے معطی پروردگار عطاء کردیتاہے، اس دن کی کی ہوئی عبادت اور دنوں کی بہ نسبت زیادہ ثواب رکھتی ہے، اس میں درود پاک کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، اس کی عظمت نبی صلى الله عليه وسلم کی پاک زبان مبارک اس طرح بیان کرتی ہے۔ نحن الآخرون السابقون یوم القیامة بیدانہم اوتو الکتاب من قبلنا ثم ہذا یومہم الذی فرض علیہم فاختلفوا فیہ فہدانا اللّٰہ لہ (فالناس لنا فیہ تبع) الیہود غدا والنصاریٰ بعد غد ترجمہ: ہم بعد میں آنے والے اور قیامت میں سبقت کرنے والے ہیں البتہ کہ اہل کتاب کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی پھر یہ ان لوگوں کا جمعہ کا دن ہے جو ان پر فرض کیاگیا (عبادت خاص کے لیے) لیکن ان لوگوں نے اس میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف ہماری رہنمائی کی (لہٰذا وہ لوگ ہمارے پیچھے ہوں گے) یہود کل اور نصاریٰ کل کے بعد(۱) اور صاحب فتح البیان فی مقاصد القرآن اس طرح اس کے احترام کو بیان کرتے ہیں: ان افضل اللیالی لیلة المولد ثم لیلة القدر ثم لیلة الاسراء فعرفة فالجمعة فنصف شعبان فالعید وافضل الایام یوم عرفة ثم یوم نصف شعبان ثم یوم الجمعة واللیل افضل من النہار ترجمہ: راتوں میں افضل ترین آقا صلى الله عليه وسلم کی ولادت کی رات ہے پھر لیلة القدر پھر معراج کی رات اس کے بعد عرفہ، جمعہ، شعبان کی پندرہویں شب اور عید کی رات ہے اور دنوں میں بہتر عرفہ کا دن ہے پھر پندرہویں شعبان پھر جمعہ کا دن البتہ اس کی رات اس کے دن سے بہتر ہے۔(۲)
جب جمعرات کی شام سورج غروب ہوتا ہے تو اس وقت اس کی بڑائی ظاہر ہونے لگتی ہے، صاحبِ دل اور اہل تقویٰ اس رات کو عبادت میں گذارتے ہیں، اس کی عظمت کے مظاہر نماز فجر میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ اس میں خاص سورة کی تلاوت مسنون قرار دی گئی ہے، اس میں سورة کہف اور دخان کی تلاوت آئندہ ہفتہ تک کے لیے باعثِ نجاح وفلاح ہے،اس میں آنے کے لیے غسل،اچھے کپڑے، خوشبو اور تیل لگانے کی ترغیب دی گئی ہے اور عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ بیٹھے ہوئے درود پڑھنے کو نجات اخروی کا ذریعہ اور دعاء کی قبولیت کا وقت بتایا گیاہے۔
جمعہ کے عدم اہتمام پر تنبیہ
جمعہ کی نماز چونکہ ہفتہ کے اجتماع کا دن ہے چند محلے والوں بلکہ دور دراز کے لوگوں کے ملن کا ایک بہتر موقع اور سب کے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کی کبریائی اوراس کی عظمت کے اعتراف کا اچھا وقت ہے، چنانچہ نبی پاک صلى الله عليه وسلم نے اس کے اہتمام کرنے پر بہت زور دیا اوراس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت دھمکی دی ہے جسے حضرت جابررضى الله تعالى عنه نقل فرماتے ہیں کہ رسول صلى الله عليه وسلم نے خطبے میں فرمایا: ان اللّٰہ افترض علیکم الجمعة فی مقامی ہذا فی یومی ہذا فی شہری ہذا فی عامی ہذا الی یوم القیامة فمن ترکہا استخفافا بہا اوجہودًا بہا فلا جمع اللّٰہ شملہ ولا بارک لہ فی امرہ الا ولا صلوٰة لہ ولا زکوٰة لہ ولا حج لہ ولا صوم لہ ولا برلہ حتی یتوب فمن تاب تاب اللّٰہ علیہ ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں پر میری اس جگہ میرے اس دن میرے اس مہینے میرے اس سال میں قیامت تک کے لیے جمعہ کو فرض کردیا ہے لہٰذا جس نے اس کا استخفاف یا انکار کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ اس کے متفرق کاموں کو جمع نہیں کرے گا۔ (کام نہیں بنائے گا) اس کے کام میں برکت نہیں ہوگی، سنو! اس کی نماز، زکوٰة، حج، روزہ اور کسی بھی نیکی کا اعتبار نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے پھر جوتوبہ کرلے گا تو اس پر اللہ پاک متوجہ ہوجائے گا،(۳) انہیں سے یہی بات دوسرے لفظوں میں اس طرح منقول ہے۔ عن رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ قال من کان یومن باللّٰہ والیوم الآخر فعلیہ الجمعة الا مسافرًا او مملوکا او صبیًا او امراَةً او مریضاً فمن استغنٰی عنہا بلہو او تجارة استغنی اللّٰہ عنہ واللّٰہ غنی حمید ترجمہ: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جو اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اس پر جمعہ لازم ہے الا یہ کہ مسافر یا غلام یا بچہ یاعورت یا مریض ہو لہٰذا جس نے اس سے کھیل کود یا تجارت کی وجہ سے بے پرواہی کی تو اللہ کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے اور اللہ بے نیاز اور لائق تعریف ہے۔(۴)
نمازِ جمعہ اور دوسری نمازوں میں فرق
نمازِ جمعہ پنج گانہ نمازوں سے الگ طریقے پر ادا کی جاتی ہے اس میں دو خطبے ہوتے ہیں جس میں خطیب اپنی ذات اور لوگوں کو خشیثِ الٰہی کی تلقین کرتا ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض انجام دیتا ہے۔
خطبہ: خطبہ موعظت ونصیحت کو کہتے ہیں جس میں حمد وثنا، ترغیب و ترہیب ہوتی ہے یہ خطبہ ایسی پاک بات اور موٴثر ذریعہ ہے کہ اس سے بڑے بڑے کام آسانی سے حل ہوجاتے ہیں، اسے دنیاوی معاملہ میں بھی اہمیت حاصل ہے اور دینی امور میں بھی قدر ومنزلت رکھتا ہے، یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے بڑا بڑا معرکہ سر ہوجاتا ہے، جتنے انبیاء تشریف لائے سبھوں نے احکامِ خداکو خطابت کی مدد سے لوگوں تک پہنچایا، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلاة والسلام نے اپنی لکنت کے ختم ہونے کی دعاء کی، نوح علیہ السلام نے کہا کہ ہم نے انہیں دن و رات اعلانیہ اور خفیہ ہر طرح دعوت دی ودیگرانبیاء نے بھی اپنا مشن موعظت ونصیحت سے آگے بڑھایا اللہ تعالیٰ نے خود اسے اپنانے کا حکم دیا اور فرمایا فذکر ان نفعت الذکریٰ تو آپ نصیحت کیا کیجئے اگرنصیحت کرنا مفید ہوتا ہو(۵) وذکر فان الذکری تنفع المومنین اور سمجھاتے رہیے کیونکہ سمجھانا ایمان والوں کو نفع دے گا۔(۶)
خطبہ کے لیے جلدی کرنا
قرآن پاک میں ہے اذا نودی للصلوٰة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر اللّٰہ جب جمعہ کے روزنماز کے لیے اذان کہی جایا کرے تو تم اللہ کی یاد کی طرف چل پڑا کرو(۷) یہاں ذکر اللہ سے مراد خطبہ ہے یعنی جیسے ہی اذان ہو خطبہ سننے کے لیے چل پڑو، نماز سے متعلق جوتیاریاں ہوسکتی ہوں انہیں کرنے لگو، شریعت نے دوٹوک فرمان جاری کردیا ہے کہ اذانِ جمعہ کے بعد جمعہ کی تیاری کی مشغولیات کے علاوہ تمام کام مکروہ ہے۔
خطبہ کا وجوب
کتب فقہ اور تفسیر میں یہ عبارت لکھی ہے۔ والخطبة عند جمہور العلماء شرط فی انعقاد الجمعة خطبہ جمہور علماء کے نزدیک جمعہ کے انعقاد کے لیے ضروری اور شرط ہے(۸) اور یہی بات حضرت ابن عمررضى الله تعالى عنه اور عائشہ صدیقہ رضى الله تعالى عنها سے مروی ہے جو اس کی مزید وضاحت کرتی ہے۔ انما قصرت الجمعة لاجل الخطبة ولابن الوقت سبب لوجود الظہر والوقت متی جعل سببا لوجوب صلاة کان سببا لوجوبہا فی کل یوم کسائر اوقات الصلٰوة ثم اذا وجد سبب القصر تقصر کما تقصر بعذر السفر ترجمہ: نماز جمعہ کی وجہ سے کم کردی گئی ہے اور اس لیے کہ وقت ظہر کے وجود کا سبب ہے لہٰذا جب نماز جمعہ کے وجوب کے لیے وقت کو سبب قرار دیاگیا تو وہ نماز کے پورے اوقات کی طرح ہر دن اس کے وجوب کا سبب ہوگیا پھر جب قصر کا سبب پایا گیا تو نماز کم کردی گئی سفر کی نماز کی طرح جو سفر کے عذر کی وجہ سے کم کردی گئی ہو۔(۹)
انہیں دونوں نفوسِ قدسیہ سے ایک دوسری روایت تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ مروی ہے۔ انما قصرت الصلوٰة لاجل الخطبة اخبران شطر الصلوٰة سقط لاجل الخطبة وشطر الصلوٰة کان فرضا فلا یسقط الا لتحصیل ما ہو فرض ترجمہ: خطبہ کی وجہ سے نماز کم کردی گئی۔ خبردی گئی ہے کہ نماز کا آدھا خطبہ کے پیش نظر ساقط کردیاگیا اور آدھی نماز فرض ہے لہٰذا فرض کو حاصل کرنے کے لیے ہی وہ ساقط ہے۔(۱۰)
خطبہ کی اہمیت
خطبہ میں حمدوثنا اور امرونہی کا ذکر ہوتا ہے جو سراپا ذکر اللہ ہے جس کی روشنی میں بندے اپنی صلاحِ حال کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے اندر خیرات و برکات حاصل کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے اوراسے سن کر اپنے اندر مضبوطی اور قوت محسوس کرتے ہیں اوراحکام خداوندی بجالانے کے لیے کمربستہ ہوجاتے ہیں اتنی عظیم بات کی اہمیت نبی پاک صلى الله عليه وسلم اس طرح بیان فرماتے ہیں جسے حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه نے روایت کیاہے۔ قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا کان یوم الجمعة وقفت الملائکة علی باب المسجد یکتبون الاول فالاول ومثل المہجر کمثل الذی یہدیٰ بدنة ثم کالذی یہدی بقرة ثم کبشا ثم دجاجة ثم بیضة فاذا خرج الامام طووا صحفہم ویستمعون الذکر رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پہلے اس کے بعد اور اس کے بعد آنے والوں کا نام لکھتے رہتے ہیں اور سب سے پہلے مسجد پہنچنے والے کی مثال ایسے آدمی کی طرح ہے جس نے اونٹ کی قربانی کی پھر گائے پھر مینڈھا پھر مرغی پھر انڈا (ان سب کا ثواب حاصل کیا) لیکن جب امام اپنے حجرے سے نکل کر منبر پر تشریف لے آتے ہیں تو یہ اپنے رجسٹر بند کرلیتے ہیں اور پوری توجہ سے خطبہ سننے لگتے ہیں۔(۱۱)
نمازسے قبل خطبے کا پس منظر
نماز جمعہ کا خطبہ عیدین کے خطبہ کی طرح تھا جو نماز دوگانہ ادا کرلینے کے بعد دیا جاتا تھا ایک دن نماز کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم حسب معمول خطبہ فرمارہے تھے کہ اچانک ایک قافلہ آگیا اور اس نے اپنے آمد کی اطلاع نقارہ بجاکر دی جسے اکثر صحابہ کرام سن کر اجتہادی سہو کی وجہ سے آپ کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے، تو اللہ تعالیٰ نے سخت ڈانٹ پلائی اوراس سے بچنے کی دائمی شکل نماز سے پہلے خطبہ شروع کرکے عطاء کیا۔ (ماخوذ از کشاف وغیرہ)
خطبہ کی عظمت
ان باتوں سے اس کی عظمت کا پتہ لگتا ہے کہ موقع کی مناسبت سے یہ کتنا عظیم ہے، شریعت نے اس کے مرتبے کو کس قدر بلند وبالا کیا ہے کہ مسلمانوں کے ہر اجتماع میں اس کی حیثیت مستحب، سنت اور واجب کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔
جب اس کی کئی صورتیں ہیں تو اس کی باریکی بیان کرنا از حد ضروری تھا جسے نبی پاک صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام رضوا ن الله تعالى عليهم اجمعين نے کھول کھول کر اپنے قول وفعل سے واضح کردیا اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس پر من وعن عمل کریں اس سے بال برابر بھی انحراف کرکے عتاب کے شکار نہ ہوں وہ بیان شدہ باتیں راقم اپنی معلومات کے اعتبار سے پیش کرتا ہے جسے اپنانا سنن ہدیٰ کو اپنانا ہے اوراس کے خلاف زیغ وضلال ہے۔
خطبہ کی مقدار حدیث کی روشنی میں
حدیث قولی: نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد حضرت ابووائل حضرت عمار رضى الله تعالى عنه کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں۔ خطبنا عمار فاوجز وابلغ فلما نزل قلنا یا ابا الیقظان لقد بلغت واوجزت فلو کنت تنفست فقال انی سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ان طول صلوٰة الرجل وقصر خطبتہ مئنة من فقہ فاطیلو الصلوٰة واقصروا الخطبة وان من البیان لسحرًا(۱۲) ترجمہ: (حضرت ابووائل کہتے ہیں کہ) حضرت عماررضى الله تعالى عنه نے ہمارے سامنے خطبہ دیا جو مختصر اور جامع تھا، لہٰذا جب وہ اترے تو ہم نے عرض کیا حضرت (ابوالیقظان آپ کی کنیت ہے) آپ نے مختصر لیکن جامع خطبہ دیا (کاش ہمیشہ آپ زندہ رہتے) تو انھوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی پاک صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ آدمی کی عقلمندی کی علامت یہ ہے کہ اس کی نماز سے اس کا خطبہ مختصر ہو لہٰذا نماز لمبی اور خطبہ مختصر کرو اور تقریر تو جادو ہے، اس حدیث پاک سے اشارے اور حکم دونوں ملتے ہیں کہ لوگوں کو خطبہ مختصر دینا چاہیے اور ابوداؤد شریف میں حضرت عماررضى الله تعالى عنه سے ہی مروی ہے امرنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باقصار الخطب ہمیں آقا صلى الله عليه وسلم نے خطبوں کے مختصر کرنے کا حکم دیا ہے(۱۳) اس حدیث پاک میں لفظ امر آیاہے اور یہ خطبہ کے مختصر ہونے کے لیے عبارة النص(۱۴) ہے ایسے لفظ سے حکم کے بعد اب کسی کو اس کے خلاف کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، صاحب بذل المجہود نے اس حدیث کے بظاہر معارض ایک حدیث کا ذکر کیا ہے اوراس کے تطبیق کو تحریر فرمایاہے۔(۱۵) (تعارض) مسلم شریف میں ایک حدیث ہے جس میں نبی پاک صلى الله عليه وسلم کے فجر کے نماز سے ظہر اور اس کے بعد عصر تک خطبہ دینے کی صراحت ہے جو اس حدیث اور حکم حدیث کے معارض ہے، جواب : یہ اس کے معارض اور خلاف نہیں ہے کیونکہ وہ ایک مصلحت کے پیش نظر رہا ہوگا، دوسری بات یہ ہے کہ جمعہ کے خطبہ کا وجود وقت کے ہونے کے بعد ہی ممکن ہے اس سے پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ معارض حدیث میں علی الصباح سے خطبہ کا ذکر آیا ہے۔
حدیث فعلی: عن جابر بن سمرة قال کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخطب قائماً ثم یجلس ثم یقوم ویقرأ آیات ویذکر اللّٰہ عزوجل وکانت خطبة قصدا وصلاتہ قصدًا حضرت جابر بن سمرہ رضى الله تعالى عنه نے روایت کیاہے کہ رسول صلى الله عليه وسلم کھڑے ہوکر خطبہ دیتے تھے پھر بیٹھ جاتے تھے پھر کھڑے ہوتے اور چند آیتیں پڑھتے اور اللہ عزوجل کاذکر کرتے اور آپ کا خطبہ اور آپ کی نماز مختصر ہوتی(۱۶) حضرت جابررضى الله تعالى عنه کی روایت امام ترمذی رحمة الله عليه نے بھی نقل کیا۔ قال کنت اصلی مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فکانت صلوٰتہ قصدا وخطبتہ قصدا انھوں نے کہا کہ میں نبی كريم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ نماز پڑھتا تھا تو آپ کی نماز اور خطبہ مختصر ہوتا(۱۷) خطبتہ پر حاشیہ ہے۔ لا ینافی اقصریة الخطبة بالنسبة الی الصلوٰة یہ بات نماز کی بہ نسبت خطبہ کے کم ہونے کے منافی نہیں ہے اور قصد پرحاشیہ ان الفاظ میں ہے۔ المقصد من الامور المعتدل الذی لایمیل الی احد طرفی الافراط والتفریط قصدًا ایسے امور معتدلہ میں سے ہے جو افراط و تفریط میں سے کسی کی طرف مائل نہ ہو، اس حدیث میں ایک خاص بات ہے جس کی وضاحت بہتر رہے گی حدیث میں کنت اصلی ہے ”صرفی قاعدہ“ جب لفظ کان فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے تو وہ فعل استمراری اور دائمی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ بھی فعل ہمیشہ ہونے والا ہے اس لیے کبھی کبھی ہونے والا فعل اس کا معارض نہ ہوگا۔
ابوداؤد کے مراسیل میں ہے جس کو امام زہری رحمة الله عليه سے روایت کیا ہے۔ الحمد اللّٰہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ نعوذ بہ من شرور انفسنا من یہد اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یظلل فلا ہادی لہ نشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وان محمدا عبدہ ورسولہ ارسلہ بالحق بشیرًا ونذیرًا بین یدی الساعة من یطع اللّٰہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصہما فقد غویٰ نسأل اللّٰہ ربنا ان یجعلنا ممن یطیعہ ویطیع رسولہ ویتبع رضوانہ ویجتنب سخطہ(۱۸) زہری رحمة الله عليه سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم جب بھی خطبہ دیتے تھے تو کہتے تھے۔ کل ما ہو آت قریب ولا بعد لما ہو آت لا یعجل اللّٰہ لعجلة احد ولا یخف لامر الناس ماشاء اللّٰہ الناس یرید اللّٰہ امرا ویرید الناس امرا ما شاء اللّٰہ کان ولو کرہ الناس ولا مبعد لما قرب اللّٰہ ولا مقرب لما بعد اللّٰہ لایکون بشی الا باذن اللّٰہ عزوجل مذکورہ روایت مکمل خطبہ ہے جسے نبی پاک صلى الله عليه وسلم دیا کرتے تھے ایک اور خطبہ حضرت جابررضى الله تعالى عنه نقل کرتے ہیں۔ کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الجمعة یخطبہ فیقول بعد ان یحمد اللّٰہ ویصلی علی انبیائہ ”ایہا الناس ان لکم معالم فانتہو الی معالمکم وان لکم نہایة فانتہوا الی نہایتکم ان العبد الموٴمن بین مخافتین بین اجل قد مضی لایدری ما اللّٰہ قاض فیہ وبین اجل قد بقی لا یدری ما اللّٰہ صانع فیہ فلیاخذ العبد من نفسہ لنفسہ ومن دیناہ لآخرتہ ومن الشبیبة قبل الکبر ومن الحیاة قبل الممات والذی نفسی بیدہ ما بعد الموت من مستعتب ما بعد الدنیا من دار الا الجنة او النار اقول قولی ہذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم وقد تقدم ما خطبہ بہ علیہ الصلوٰة والسلام اول جمعة عند قدومہ المدینة یعنی مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد نبی پاک صلى الله عليه وسلم نے سب سے پہلے یہی خطبہ دیا(۱۹) آپ صلى الله عليه وسلم ہجرت کرکے ابھی ابھی تشریف لائے ہیں تقاضہ تو یہ تھا کہ خوب لمبا چوڑا خطبہ دیتے لیکن خطبہ نہایت مختصر مگر جامع دیا اور دین و دنیا کی بھلائی کی بات اور مغفرت کی دعاء کی امام ابوداؤد رحمة الله عليه نے حضرت جابر بن سمرہ سوائی رضى الله تعالى عنه کی روایت کردہ حدیث پاک نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایطیل الموعظة یوم الجمعة انما ہن کلمات یسیرات(۲۰) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جمعہ کے دن بہت لمبا خطبہ نہیں دیتے تھے بلکہ وہ چند کلمات ہوتے ۔
آپ کا تعلیم کردہ خطبہ
جس طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی زبان مبارک سے لوگوں کے روبروخطبہ دیا ہے اسی طرح اس کی تعلیم بھی وقتاً فوقتاً دی ہے تاکہ اس سے امت فائدہ اٹھائے اور اپنی حاجت دینی پوری کرسکے چنانچہ حضرت عبداللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول صلى الله عليه وسلم نے خطبہ برائے حاجت ان الفاظ میں سکھایا۔
الحمد اللّٰہ نستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یہدہ اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ واشہد ان لا الہ الا اللّٰہ واشہد ان محمدًا عبدہ ورسولہ ثم یقرأ ثلٰث آیات یا ایہا الذی آمنوا اتقوا اللّٰہ حق تقاتہ ولاتموتن الا وانتم مسلومنo یا ایہا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحد وخلق منہا زوجہا وبث منہا رجالاً کثیراً ونسائا واتقوا اللّٰہ الذی تسائلون بہ والارحامط ان اللّٰہ کان علیکم رقیباo یا ایہا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ وقولو قولاً سدیداً(۲۱) اس پر حاشیہ یہ ہے کہ یہ خطبہ تمام حاجت روائی کے لیے عام ہے لہٰذا اپنے ضروری کاموں میں اسے پڑھ کر مدد طلب کرنی چاہیے۔
مختصر خطبہ اجماع صحابہ سے بھی مروی
خطبہ کا مختصر ہونا جس طرح قول رسول فعل نبی اور تعلیم نبوی سے ثابت ہے اسی طرح اجماعِ صحابہ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين بھی اس کے لیے مضبوط مستدل ہے، اس اجماع نے ایک اہم اشکال کو رفع کیا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم تو جوامع الکل تھے لہٰذا اپنی مکمل بات چند کلمات میں کہہ لیتے تھے آپ کے بعد دوسرے حضرات میں یہ صفت نہیں پائی جاتی ہے اس لیے یہ لمبی بات کرکے اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے مجاز ہیں اجماع کی روایت حضرت عثمان غنی رضى الله تعالى عنه کے حوالے سے صاحب بدائع الصنائع نے نقل کی ہے۔ روی عن عثمان رضى الله تعالى عنه انہ لما استخلف خطب فی اول جمعة فلما قال الحمد اللّٰہ ارتج علیہ فقال انتم الی امام فعال احوج منکم الی امام قوال وان ابابکر و عمر کانا یعدان لہذا لمکان مقالا وستاتیکم الخطب من بعد واستغفر اللّٰہ لی ولکم ونزل وصلٰی بہم الجمعة کان ذٰلک بمحضر من المہاجرین الانصار وصلوا خلفہ وما انکروا علیہ صنیعہ مع انہم کانوا موصوفین بالامر بالمعروف والنہی عن المنکر فکان ہذا اجماعا من الصحابة ترجمہ: حضرت عثمان غنی رضى الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ جب آپ خلیفہ بنائے گئے تو پہلے جمعہ میں خطبہ دیا تو جب الحمدللہ کہا تو رک گئے پھر فرمایا تم لوگ فعال امام کے زیادہ محتاج ہو بہ نسبت بہت زیادہ بولنے والے امام کے اورحضرات شیخین (صدیق اکبررضى الله تعالى عنه و فاروق اعظم رضى الله تعالى عنه) اس جگہ کے لیے چند باتیں تیار کررکھے تھے اور عنقریب تمہارے روبرو اس کے بعد خطبے آئیں گے اور میں اپنے لیے اور تم لوگوں کے لیے استغفار کرتا ہوں اور انھوں نے صحابہ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کو جمعہ کی نماز پڑھائی یہ تمام باتیں مہاجرین وانصار کی موجودگی میں پیش آئیں اور تمام حضرات نے ان کی اقتداء میں نماز ادا کی کسی نے بھی ان کے یہ کرنے پرنکیر نہیں کیا باوجودیکہ وہ حضرات امر بالمعروف اور نہی عند المنکرکی صفت سے متصف تھے، لہٰذا یہ صحابہ کا اجماع ہے۔(۲۲) اس واقعہ سے دو باتیں سمجھ میں آئیں: (۱) تینوں خلفاء نے مختصر خطبہ دیا (۲) صحابہ کرام کی موجودگی میں حضرت عثمان غنی رضى الله تعالى عنه کے مختصر خطبہ دینے کو صحابہ کرام نے درست سمجھا اور کچھ نکیر نہیں کیا۔
چھوٹا خطبہ اقوال ائمہ کی روشنی میں
قال ابوحنیفہ رحمة الله عليه ان اقتصر الخطیب علی مقدار یسمٰی ذکر اللّٰہ کقولہ الحمد اللّٰہ سبحان اللّٰہ جاز(۲۳) امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه نے فرمایاکہ اگر خطیب نے اتنی مقدار پر اکتفاء کیا جس کو اللہ کا ذکر کہا جائے مثلاً الحمد اللّٰہ، سبحان اللّٰہ تو جائز ہے۔ فذہب ابوحنیفة الی ان رکن الخطبة تحمیدة او تہلیلة او تسبیحة لان المامور بہ فی قولہ تعالٰی (فسعوا الی ذکر اللّٰہ) مطلق الذکر الشامل للقلیل والکثیر والماثور عنہ لایکون بیانا لعدم الاجمال فی لفظ الذکر تو ابوحنیفہ رحمة الله عليه اس بات کے قائل ہیں کہ خطبہ کا رکن الحمد اللّٰہ یا لا الٰہ الا اللّٰہ یا سبحان اللّٰہ ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے قول فاسعوا الی ذکر اللّٰہ میں حکم مطلق ذکر ہے جو قلیل و کثیر کو شامل ہے اور ان سے منقول ہے کہ وہ بیان نہیں ہے لفظ ذکر میں اجمال نہ ہونے کی وجہ سے وقال الصاحبان: لابد من ذکر طویل یسمٰی خطبة اور صاحبین رحمهما الله نے فرمایا کہ اتنے طویل ذکر کا ہونا ضروری ہے کہ اسے خطبہ کہاجاسکے۔
اما المالکیة فیرون ان رکنہا ہو اقل ما یسمٰی خطبة عند العرب ولو سجعتین، نحو: اتقوا اللّٰہ فیما امر وانتہو عما عنہ نہی وزجر فان سبح او ہلل او کبر لم یجزہ بہرحال مالکیہ تو وہ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ اس کا رکن یہ ہے کہ کم سے کم اتنی مقدار میں خطبہ ہو جسے اہل عرب کے نزدیک خطبہ کہا جاسکے اگرچہ دو مقفیٰ عبارت ہو جیسے اللہ تعالیٰ سے ان باتوں میں ڈرو جس کا حکم دیا ہے اور اللہ کی منع کی ہوئی اور زجر و توبیخ کی ہوئی چیزوں سے باز رہو لہٰذا اگر سبحان اللّٰہ یا لا الٰہ الا اللّٰہ یا اللّٰہ اکبر کہا تو جائز نہیں ہوگا۔
وجزم ابن العربی ان اقلہا حمدا للّٰہ والصلاة علی نبیہ وتحذیر و تبشیر ویقرأ شیئاً من القرآن ابن عربی نے کہا ہے کہ خطبہ کی کم سے کم مقدار اللہ کی تعریف نبى صلى الله عليه وسلم پر درود، ڈرانا اور خوشخبری دینا ہے اور قرآن پاک میں سے کچھ پڑھنا ہے۔
وذہب الشافعیة الی ان لہا خمسة ارکان وہی: (أ) حمد اللّٰہ ویتعین لفظ (اللّٰہ) ولفظ (الحمد) (ب) الصلاة علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویتعین صیغة صلاة وذکر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم باسمہ او بصفتہ فلا یکفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ج) الوصیة بالتقوی ولا یتعین لفظہا (د) الدعاء للمومنین فی الخطبة الثانیة (ھ) قرأة آیة مفہمة ولو فی احداہما فلا یکفی بنحو (ثم نظر) لعدم استقلالہا بالافہام ولا بمنسوخ التلاوة ویسن جعلہا فی الخطبة الاولٰی واستدلوا علی ہذہ الارکان بفعل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم
ترجمہ: شوافع خطبہ کے لیے پانچ رکن مانتے ہیں:(۱) اللہ کی تعریف اس کے لیے لفظ اللہ اور لفظ الحمدمتعین ہے (۲) رسول صلى الله عليه وسلم پر درود کے صیغے اورنبی صلى الله عليه وسلم کا ذکر ان کے نام یا ان کی صفت کے ذریعہ متعین ہوگا۔لہٰذا صلى الله عليه وسلم کافی نہیں ہوگا (۳) اللہ سے ڈرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت جس کے لیے کوئی خاص لفظ ضروری نہیں(۴) دوسرے خطبہ میں مومنین کے لیے دعاء (۵) بامفہوم ایک آیت کا پڑھنا اگرچہ دونوں خطبوں میں سے ایک میں ہو لہٰذا ثم نظر جیسی آیت کافی نہیں ہوگی اس کے مستقل بالمفہوم نہ ہونے کی وجہ سے اورنہ منسوخ التلاوت کافی ہوگا۔ اور اس کو خطبہ اولیٰ میں مسنون قرار دیاگیا ہے اور ان حضرات نے ان ارکان پرنبی صلى الله عليه وسلم کے فعل سے استدلال کیا ہے۔
اما ارکانہا عند الحنابلة فاربعة وہی: (أ) حمد اللّٰہ تعالٰی بلفظ الحمد (ب) الصلاة علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بصیغة الصلاة (ج) الموعظة وہی القصد من الخطبة فلا یجوز الا خلال بہا (د) قرأة آیة کاملة
ترجمہ: بہرحال حنابلہ کے نزدیک خطبہ کے ارکان چار ہیں: (۱) لفظ الحمد سے اللہ تعالیٰ کی تعریف (۲) درود کے لفظ سے نبی پاک صلى الله عليه وسلم پر درود (۳) نصیحت اور یہی خطبہ کا مقصد ہے لہٰذا اس کے چھوڑ دینے کی وجہ سے جائز نہ ہوگا (۴) مکمل آیت کی تلاوت۔
وزاد بعضہم رکنین آخرین: (أ) الموالاة بین الخطبتین وبینہما وبین الصلٰوة فلا یفصل بین اجزاء الخطبتین ولا بیناحداہما وبین الاخری ولا بین الخطبتین وبین الصلاة (ب) الجہر بحیث یسمع العدد المعتبر للجمعة حیث لا مانع
ترجمہ: بعض حضرات نے دوسرے دو رکن کا اضافہ کیا ہے۔ پہلا دونوں خطبوں کے درمیان موالاة(۲۴) اوران دونوں کے درمیان اور نماز کے درمیان بھی لگاتار عمل ہو لہٰذا دونوں خطبوں کے اجزاء اور ان دونوں میں سے ایک اور دوسرے کے اور دونوں خطبوں اور نماز کے درمیان کوئی فصل نہ ہو(۲۵) (دوسرا) اتنی بلند آواز سے ہوکہ اتنے لوگ سن لیں جو جمعہ کے لیے معتبر ہیں اس طور پر کہ کوئی مانع نہ ہو۔(۲۶)
اتنی باتیں سامنے آجانے کے بعد اب بہت طول طویل خطبہ دینا خلاف سنت ہوگا جس کا ترک بہت ضروری ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ ہمارے پیارے حبیب تمہیں جو دیں اسے لے لو اورجس سے منع کردیں اس سے رک جاؤ چنانچہ فرمایا: ما آتٰکم الرسول فخذوہ وما نہٰکم عنہ فانتہوا، نص میں کسی بات کا ذکر کرنا اور دوسری باتوں کو نہ لانا گویا اس سے نہی ہی ہے۔ جسے صحابہ کرام کے اجماع نے ثابت کردیا کہ انتم الی امام فعال احوج منکم الی امام قوال اس لیے ہرخطیب کو لازمی طور پر ان فرامین کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ نبی پاک صلى الله عليه وسلم کے روبرو ہوتے ہوئے خوشنودی اور رضامندی حاصل ہو۔
* * *
حواشی:
(۱) بخاری شریف جلداوّل (صفحہ۱۲۰)۔ (۲) صفحہ ۱۳۸، ج۱۴ مکتبہ احتیاء التراث الاسلامی قطر۔ (۳) روح المعانی ص ۱۰۰ جز ۲۸ مکتبہ احیاء التراث العربی بیروت لبنان۔ (۴) بدائع الصنائع جلد۱، ص۳۸۳۔ (۵،۶،۷) بیان القرآن۔ (۸) تفسیر ابن عطیہ ص ۴۴۸ ج۱۴ مکتبہ امیر الدولہ قطر الطبعة الاولیٰ ۱۴۱۱ھ = ۱۹۹۱/۔ (۹) بدائع الصنائع ج۱، ص۳۸۰ مکتبہ دارالفکر الطبعة الاولیٰ۔ (۱۰) بدائع الصنائع ج۱، ص۳۸۸، ۳۸۹۔ (۱۱) بخاری شریف ج۱، ص۱۲۷۔ (۱۲) مسلم شریف ج۱، ص۲۸۶، مکتبہ ملت دیوبند۔ (۱۳) ابوداؤد شریف ج۱، ص۱۵۸، مکتبہ ملت دیوبند۔ (۱۴) وہ قرآن وحدیث کی بات جو کسی خاص حکم کے لیے آئی ہو۔ (۱۵) یہ ایک کتاب ہے۔ (۱۶،۱۷) نسائی شریف جلد۱، ص۱۵۹، ابن ماجہ ص ۷۷، مکتبہ فیصل دیوبند۔ ترمذی شریف ج۱، ص۱۱۴، فیصل دیوبند۔ (۱۸) اخرجہ ابوداؤد، مراسیل ص ۱۹۴۰۸، بیہقی ج۲، ص۲۱۵، باب کیف یستحب ان تکون الخطبة، بحوالہ الجامع الاحکام القرآن ص ۱۰۵،۱۰۶ ج۹، جز ۱۸ مکتبہ دارالفکر۔ (۱۹) بحوالہ بالا۔ (۲۰) ابوداؤد شریف ج۱، ص۱۵۸، مکتبہ ملت دیوبند۔ (۲۱) نسائی شریف ج۱، ص۱۵۸، مکتبہ فیصل دیوبند۔ (۲۲) بدائع الصنائع ج۱، ص۳۸۹، مکتبہ دارالفکر الطبعة الاولیٰ، کشاف ج۴، ص۵۳۵، مکتبہ منشورات البلاغة، الجامع لاحکام القرآن القرطبی ج۹، جز۱۸، ص۱۰۵، مکتبہ دارالفکر۔ (۲۳) کشاف۔ (۲۴) کسی کام کا لگاتار ہونا۔ (۲۵) جدائیگی۔ (۲۶) الموسوعة الفقہیہ، از ص ۱۷۷ تا ۱۷۸، ج۱۹، الطبعة الثانیة ۱۴۱۰ھ = ۱۹۹۰/ وزارة اوقاف کویت۔
--------------------





عن ابی ھریرۃأن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إنما مثل المهجر إلى الصلاة كمثل الذي يهدي البدنة ثم الذي على أثره كالذي يهدي البقرة ثم الذي على أثره كالذي يهدي الكبش ثم الذي على أثره كالذي يهدي الدجاجة ثم الذي على أثره كالذي يهدي البيضة (سنن النسائي: 936)








لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمُ الْجُمُعَاتِ أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنَ الْغَافِلِينَ ».
(صحيح مسلم ,باب التغليظ في ترك الجمعة:2039)






جمعہ کے دن عمدہ لباس:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، وَعَمْرٌو ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيَّ حَدَّثَهُ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ حَدَّثَهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَا عَلَى أَحَدِكُمْ إِنْ وَجَدَ ، أَوْ مَا عَلَى أَحَدِكُمْ إِنْ وَجَدْتُمْ ، أَنْ يَتَّخِذَ ثَوْبَيْنِ لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ سِوَى ثَوْبَيْ مِهْنَتِهِ " . قَالَ عَمْرٌو : وَأَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ ابْنِ حَبَّانَ ، عَنْ ابْنِ سَلَامٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ ذَلِكَ عَلَى الْمِنْبَرِ . قَالَ أَبُو دَاوُد : وَرَوَاهُ وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِيه ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ » بَاب اللُّبْسِ لِلْجُمُعَةِ ... رقم الحديث: 912]
(سنن أبي داؤد :1080 باب اللُّبْسِ لِلْجُمُعَةِ, وصححه الألباني)

تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1ما على أحدكم إن وجد أن يتخذ ثوبين ليوم الجمعة سوى ثوبي مهنتهيوسف بن عبد اللهسنن أبي داود9121078أبو داود السجستاني275
2ما على أحدكم أن يتخذ ثوبين للجمعة سوى ثوبي مهنة أهلهيوسف بن عبد اللهالمعجم الكبير للطبراني18222736سليمان بن أحمد الطبراني360
3لا يضر رجلا أن يتخذ ثوبين للجمعة سوى ثوبي مهنتهيوسف بن عبد اللهفوائد منتقاة من حديث ابن أبي صابر29---عبد العزيز بن أبي صابر330
4لا يضر رجلا أن يتخذ ثوبين للجمعة غير ثوبي مهنتهيوسف بن عبد اللهالجمعة وفضلها للمروزي38---أحمد بن علي المروزي292

تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1ما على أحدكم لو اشترى ثوبين ليوم الجمعة سوى ثوب مهنتهعبد الله بن سلامسنن ابن ماجه10851095ابن ماجة القزويني275
2ما على أحدكم إن وجد أو ما عليكم إن وجدتم أن تتخذوا ثوبين ليوم الجمعة سوى ثوبي مهنتهعبد الله بن سلامالأحاديث المختارة3262---الضياء المقدسي643
3ما عليكم إن وجدتم أن تتخذوا ثوبين ليوم الجمعة سوى ثوبي المهنةعبد الله بن سلامالأحاديث المختارة3263---الضياء المقدسي643
4ما على أحدكم إن وجد أن يتخذ ثوبين ليوم الجمعة سوى ثوبي مهنتهعبد الله بن سلامالسنن الكبرى للبيهقي54923 : 241البيهقي458
5ما على أحدكم لو اشترى ثوبين ليوم الجمعة سوى ثوب مهنتهعبد الله بن سلاممسند عبد بن حميد507499عبد بن حميد249
6ما على أحدكم لو اتخذ ثوبين لجمعته سوى ثوبي مهنتهعبد الله بن سلامالمعجم الكبير للطبراني2114121156سليمان بن أحمد الطبراني360
7ما عليكم إن وجدتم أن تتخذوا ثوبين ليوم الجمعة سوى ثوبي المهنةعبد الله بن سلامالمعجم الكبير للطبراني2117221187سليمان بن أحمد الطبراني360
8ما على أحدكم لو اشترى ثوبين ليوم جمعة سوى ثوب مهنتهعبد الله بن سلامتلبيس إبليس لابن الجوزي88160أبو الفرج ابن الجوزي597
9لا يضر أحدكم أن يتخذ ثوبين للجمعة سوى ثوبي مهنتهعبد الله بن سلامالتمهيد لابن عبد البر441124 : 37ابن عبد البر القرطبي463
10وما على أحدكم لو اشترى ثوبين لجمعته سوى ثوبي مهنتهعبد الله بن سلامالتمهيد لابن عبد البر441324 : 38ابن عبد البر القرطبي463
11ما على أحدكم لو اشترى ثوبين ليوم الجمعة سوى ثوبي مهنتهعبد الله بن سلامطرح التثريب للعراقي4443 : 851أبو زرعة العراقي806




حَدَّثَنِى أَوْسُ بْنُ أَوْسٍ الثَّقَفِىُّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « مَنْ غَسَّلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاغْتَسَلَ ثُمَّ بَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَمَشَى وَلَمْ يَرْكَبْ وَدَنَا مِنَ الإِمَامِ فَاسْتَمَعَ وَلَمْ يَلْغُ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ أَجْرُ صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا ».
[سنن أبي داود » كِتَاب الطَّهَارَةِ » بَاب فِي الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ... رقم الحديث: 292]
[سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب مَا جَاءَ فِي الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ... رقم الحديث: 1077]
المحدث : الألباني
المصدر : صحيح أبي داود الصفحة أو الرقم: 345 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المصدر : صحيح ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 898 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المصدر : تخريج مشكاة المصابيح الصفحة أو الرقم: 1334 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 6405 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المصدر : صحيح الترغيب الصفحة أو الرقم: 690 خلاصة حكم المحدث : صحيح
[حديث أبى الأشعث عن أوس: أخرجه الطيالسى (ص 152، رقم 1114) ، وأحمد (4/104، رقم 17002) ، وابن أبى شيبة (1/433، رقم 4990) ، وابن سعد (5/511) ، وأبو داود (1/95، رقم 345) والترمذى (2/367، رقم 496) وقال: حسن. والنسائى (3/95، رقم 1381) ، وابن ماجه (1/346، رقم 1087) ، والدارمى (1/437، رقم 1547) ، وابن حبان (7/19، رقم 2781) ، والطبرانى (1/215، رقم 585) ، والبيهقى (3/229، رقم 5670) .
حديث الأشعث عن ابن عمرو: أخرجه الحاكم (1/418، رقم 1043) ، والبيهقى (3/227، رقم 5658) .
حديث أوس بن أوس عن أبى بكر: أورده الدارقطنى فى العلل (1/246، رقم 45) .
حديث شداد بن أوس: أخرجه الطبرانى (7/279، رقم 7134) قال الهيثمى (2/178) : فيه عبد الوهاب بن الضحاك وهو متروك.]







حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مَسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: لَحِقَنِي عَبَايَةُ بْنُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَأَنَا رَائِحٌ إِلَى الْمَسْجِدِ إِلَى الْجُمُعَةِ مَاشِيًا وَهُوَ رَاكِبٌ، قَالَ: أَبْشِرْ فَإِنِّي سَمِعْتُ أَبَا عَبْسٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَهُمَا اللهُ عَلَى النَّارِ "۔
[مسند احمد (15935) وأخرجه البخاري (907) ، والترمذي (1632) ، والنسائي في "المجتبى" 6/14، وابن أبي عاصم في "الجهاد" (112) ، وفي "الآحاد والمثاني" (1973) ، والدولابي 1/43، وابن حبان (4605) ، وأبو نعيم في "الحلية" 2/8، والبيهقي في "السنن" 3/229، والبغوي في "شرح السنة" (2618) من طريق الوليد بن مسلم، بهذا الأسناد.]





 

جمعہ کی برکت سے درجات میں ترقی:
حدیث:حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

احْضُرُوا الْجُمْعَۃَ وَادْنُوا مِنْ الْإِمَامِ فَإِنَّ الرَّجُلَ لَا يَزَالُ يَتَبَاعَدُ حَتَّى يُؤَخَّرَ فِي الْجَنَّةِ وَإِنْ دَخَلَهَا

(مسنداحمد:۵/۱۰۔ ابوداؤد:۱۱۹۸)

ترجمہ:نماز جمعہ میں حاضری دیا کرو اور امام کے قریب بیٹھا کرو؛ کیونکہ آدمی دور ہوتا جاتا ہے؛ حتی کہ جنت میں بھی مؤخرکردیا جائے گا اگرچہ اس میں داخل ہوچکے گا۔

[أخرجه أحمد (5/10، رقم 20112) ، والبيهقى (3/238، رقم 5724) . وأخرجه أيضًا: الطبرانى فى الصغير (1/216، رقم 346) ، قال الهيثمى (2/177) : فيه الحكم بن عبد الملك، وهو ضعيف. والبيهقى فى شعب الإيمان (3/106، رقم 3018) ، والديلمى (1/107، رقم 361) . وأخرجه الطبرانى (7/206، رقم 6854) .]




Day Of Jumma
عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لاَ يُقِيمَنَّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ لْيُخَالِفْ إِلَى مَقْعَدِهِ فَيَقْعُدَ فِيهِ وَلَكِنْ يَقُولُ افْسَحُوا » 
(صحيح مسلم:5817 باب تحريم اقامة الإنسان من موضعه )









سیدنا ابوہریرہ کی ایک حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے اسی مرتبہ یہ درود شریف پڑھے تو اس کے اسی سال کے گناہ معاف ہوں گے اور اسی سال کی عبادت کا ثواب اس کے لئے لکھا جائے گا۔(القول البدیع:۱۸۸)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِیِّ الْاُمِّی وَعَلٰی آلِہ وَسَلِّمْ تَسْلِیْماً
حضرت سہل بن عبداللہ کی روایت میں ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن عصر کے بعد یہ درود شریف اسی مرتبہ پڑھے گا اس کے اسی سال کے گناہ معاف ہوں گے۔( القول البدیع:۱۸۹)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِیِّ الْاُمِّی وَعَلٰی آلِہ وَسَلِّمْ













بدھ، جمعرات، جمعہ کا روزہ رکھنا
حدیث:حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ صَامَ الأَرْبِعَاءَ وَالْخَمِيسَ وَالْجُمْعَةَ بَنَى الله لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ۔

(طبرانی فی الکبیر عن ابی امامہؓ وفی الاوسط عن انسؓ وابن عباسؓ۔ البدورالسافرہ:۱۸۰۹)


ترجمہ:جس شخص نے بدھ، جمعرات اور جمعہ کوروزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں محل بناتے ہیں۔











جمعہ کا دن اور بازار جنت !
حوالہ : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِنَّ فِى الْجَنَّةِ لَسُوقًا يَأْتُونَهَا كُلَّ جُمُعَةٍ فَتَهُبُّ رِيحُ الشَّمَالِ فَتَحْثُو فِى وُجُوهِهِمْ وَثِيَابِهِمْ فَيَزْدَادُونَ حُسْنًا وَجَمَالاً فَيَرْجِعُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ وَقَدِ ازْدَادُوا حُسْنًا وَجَمَالاً فَيَقُولُ لَهُمْ أَهْلُوهُمْ وَاللَّهِ لَقَدِ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالاً. فَيَقُولُونَ وَأَنْتُمْ وَاللَّهِ لَقَدِ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالاً ۔( صحيح مسلم: 7324)



جنتی حضرات علماء کرام کے جنت میں محتاج ہوں گے:
حدیث:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا:

إنّ أهْلَ الجَنَّةِ لَيَحْتاجُونَ إلى العُلَماءِ في الجَنّةِ وذلِكَ يَزُورونَ الله تَعَالَى فِيْ كُلِّ جُمُعَةٍ فَيَقُولُ تَمَنّوْا مَاشِئْتُمْ فَيَلْتَفِتُونَ إلى العُلَماء فَيَقُولُونَ مَاذَا نَتَمَنّى عَلَی رَبِّنَا فَيَقُولُونَ تَمَنّوْا كَذَا وَكَذَا فَهُمْ يَحْتَاجُونَ إلَيْهِمْ في الجَنَّةِ كمايَحْتَاجُونَ إلَيْهِمْ في الدُّنْيا۔

(مسندالفردوس دیلمی:۸۸۰۔ لسان المیزان:۵/۵۵۔ میزان الاعتدال:۷۰۶۶)

ترجمہ:جنت والے جنت میں بھی علماء کے محتاج ہوں گے اور وہ اس طرح سے کہ جنتی ہرجمعہ کواللہ تعالیٰ کی زیارت سے مشرف ہوں گے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے تم جوچاہو تمنا کریں؟ تووہ بتائیں گے کہ تم اس اس طرح کی تمنا کرو؛ چنانچہ یہ حضرات جنت میں علماء کرام کے اسی طرح سے محتاج ہوں گے جس طرح سے یہ ان کے دنیا میں محتاج ہیں۔
حضرت سلیمان بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جنت والے لوگ جنت میں علماء کرام کے محتاج ہوں گے جس طرح سے وہ دنیا میں علماء کے محتاج ہوتے ہیں (وہ اس طرح سے کہ) ان کے پاس ان کے رب تعالیٰ کی طرف سے ایلچی حاضر ہوں گے اور کہیں گے کہ آپ حضرات اپنے رب تعالیٰ سے (نعمتیں) مانگو تووہ کہیں گے کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا مانگیں پھران میں سے ایک دوسرے سے کہے گا: چلو ان علماء کی طرف جب ہمیں دنیا میں کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تھا تب بھی توہم ان کے پاس جایا کرتے تھے؛ پھروہ (ان علماء کے پاس جاکر) کہیں گے کہ ہمارے پاس ہمارے رب تعالیٰ کی طرف سے ایلچی تشریف لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کچھ مانگنے کا حکم فرماتے ہیں جب کہ ہمیں علم نہیں کہ ہم کیا مانگیں؟ تواللہ تعالیٰ علماء کے سامنے (ان نعمتوں کا) اظہار کردیں گے توعلماء ان عوام اہلِ جنت کوبتائیں گے کہ تم ایسا ایسا سوال کرو؛ چنانچہ (ویسے ہی) سوال کریں گے اور ان کووہ چیزیں عطاء کی جائیں گی۔

(ابن عساکر، تاریخ دمشق ابن عساکر۔ البدورالسافرہ:۲۱۹۱)





جمعہ کا خطبہ:
جمعے کے لیے کوئی خاص خطبہ مقرر نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا، درود شریف، قرآنی آیات واحادیث مبارکہ، ذکر الٰہی، وعظ ونصیحت اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تذکرے پر مشتمل کوئی بھی خطبہ پڑھا جاسکتاہے، بطورِ مثال دو جامع خطبے درج ذیل ہیں، انہیں جمعہ میں  پڑھ سکتے ہیں:

جمعه کا خطبه اولیٰ:

«الْحَمْدُ لِلَّهِ ‌نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، مِنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَرْسَلَهُ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ، مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ ‌يَعْصِهِمَا فَإِنَّهُ لَا يَضُرُّ إِلَّا نَفْسَهُ، وَلَا يَضُرُّ اللَّهَ شَيْئًا».
ترجمہ:
ہر قسم کی حمد و ثنا اللہ ہی کے لیے ہے، ہم اسی سے مدد ما نگتے ہیں اور اسی سے مغفرت چاہتے ہیں، ہم اپنے نفس کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور محمد  ﷺ  اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں برحق رسول بنا کر قیامت آنے سے پہلے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ سیدھی راہ پر ہے، اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرے گا وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔
[سنن أبي داود:1097، المسند للشاشي:806، المعجم الكبير للطبراني:10499]

اَمَّا بَعْدُ!
إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كَلَامُ اللَّهِ , وَأَوْثَقَ الْعُرَى كَلِمَةُ التَّقْوَى , وَخَيْرَ الْمِلَلِ مِلَّةُ إِبْرَاهِيمَ , وَأَحْسَنَ الْقَصَصِ هَذَا الْقُرْآنُ , وَأَحْسَنَ السُّنَنِ سُنَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَشْرَفَ الْحَدِيثِ ذِكْرُ اللَّهِ , وَخَيْرَ الْأُمُورِ عَزَائِمُهَا , وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا , وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ الْأَنْبِيَاءِ , وَأَشْرَفَ الْمَوْتِ قَتْلُ الشُّهَدَاءِ , وَأَغَرَّ الضَّلَالَةِ الضَّلَالَةُ بَعْدَ الْهُدَى , وَخَيْرَ الْعِلْمِ مَا نَفَعَ , وَخَيْرَ الْهُدَى مَا اتُّبِعَ , وَشَرَّ الْعَمَى عَمَى الْقَلْبِ , وَالْيَدَ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى , وَمَا قَلَّ وَكَفَى خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ وَأَلْهَى , وَنَفْسٌ تُنْجِيهَا خَيْرٌ مِنْ أَمَارَةٍ لَا تُحْصِيهَا , وَشَرَّ الْعَذِيلَةِ عِنْدَ حَضْرَةِ الْمَوْتِ , وَشَرَّ النَّدَامَةِ نَدَامَةُ يَوْمِ الْقِيَامَةِ , وَمِنَ النَّاسِ مَنْ لَا يَأْتِي الصَّلَاةَ إِلَّا دُبُرًا , وَمِنَ النَّاسِ مَنْ لَا يَذْكُرُ اللَّهَ إِلَّا هَجْرًا , وَأَعْظَمَ الْخَطَايَا اللِّسَانُ الْكَذُوبُ , وَخَيْرَ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ , وَخَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى , وَرَأْسَ الْحِكْمَةِ مَخَافَةُ اللَّهِ , وَخَيْرَ مَا أُلْقِيَ فِي الْقَلْبِ الْيَقِينُ , وَالرَّيْبَ مِنَ الْكُفْرِ , وَالنَّوْحَ مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ , وَالْغُلُولَ مِنْ جَمْرِ جَهَنَّمَ , وَالْكَنْزَ كَيٌّ مِنَ النَّارِ , وَالشِّعْرَ مَزَامِيرُ إِبْلِيسَ , وَالْخَمْرَ جِمَاعُ الْإِثْمِ , وَالنِّسَاءَ حَبَائِلُ الشَّيْطَانِ , وَالشَّبَابَ شُعْبَةٌ مِنَ الْجُنُونِ , وَشَرَّ الْمَكَاسِبِ كَسْبُ الرِّبَا , وَشَرَّ الْمَآكِلِ أَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ , وَالسَّعِيدَ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِهِ , وَالشَّقِيَّ مِنْ شُقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ , وَإِنَّمَا يَكْفِي أَحَدُكُمْ مَا قَنَعَتْ بِهِ نَفْسُهُ , وَإِنَّمَا يَصِيرُ إِلَى مَوْضِعِ أَرْبَعِ أَذْرُعٍ وَالْأَمْرُ بِآخِرِهِ , وَأَمْلَكَ الْعَمَلِ بِهِ خَوَاتِمُهُ , وَشَرَّ الرِّوَايَا رِوَايَا الْكَذِبِ , وَكُلَّ مَا هُوَ آتٍ قَرِيبٌ , وَسِبَابَ الْمُؤْمِنِ فُسُوقٌ وَقِتَالَهُ كُفْرٌ , وَأَكْلَ لَحْمِهِ مِنْ مَعَاصِي اللَّهِ , وَحُرْمَةُ مَالِهِ كَحُرْمَةِ دَمِهِ , وَمَنْ يَتَأَلَّى عَلَى اللَّهِ يُكَذِّبْهُ , وَمَنْ يَغْفِرْ يَغْفِرِ اللَّهُ لَهُ , وَمَنْ يَعْفُ يَعْفُ اللَّهُ عَنْهُ , وَمَنْ يَكْظِمِ الْغَيْظَ يَأْجُرْهُ اللَّهُ , وَمَنْ يَصْبِرْ عَلَى الرَّزَايَا يُعْقِبْهُ اللَّهُ , وَمَنْ يَعْرِفُ الْبَلَاءَ يَصْبِرْ عَلَيْهِ , وَمَنْ لَا يَعْرِفْهُ يُنْكِرْهُ , وَمَنْ يَسْتَكْبِرْ يَضَعُهُ اللَّهُ , وَمَنْ يَبْتَغِ السُّمْعَةَ يُسَمِّعِ اللَّهُ بِهِ , وَمَنْ يَنْوِ الدُّنْيَا تُعْجِزْهُ , وَمَنْ يُطِعِ الشَّيْطَانَ يَعْصِ اللَّهَ , وَمَنْ يَعْصِ اللهَ يُعَذّبْهُ اللهُ۔
ترجمہ:
سب سے سچی بات کلام اللہ ہے اور مضبوط ترین کڑا کلمۃ التقویٰ ہے اور بہترین ملت، ملتِ ابراہیمی ہے اور خوبصورت قصوں میں سے یہ قرآن ہے اور خوبصورت راستہ، سنت محمد ﷺ ہے۔ سب سے زیادہ شرافت والی بات ذکر اللہ ہے۔ بہترین امور میں سے پختہ امر ہے۔ امور میں سے بدترین امور بدعات ہیں اور اچھی ہدایت، انبیاء کی ہدایت ہے۔ سب سے عزت والی موت شہداء کا قتل ہوتا ہے۔ سب سے خطرناک گمراہی، ہدایت کے بعد کی ضلالت ہے۔ بہترین علم وہ ہے جو نفع مند ہو اور بہترین ہدایت وہ ہے جس کی اتباع کی جائے۔ بدترین اندھا پن، دل کا اندھا پن ہے۔

٢۔ اور اوپر کا ہاتھ، نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے جو چیز کم ہو اور کافی ہو اس چیز سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور غافل کردے۔ وَنَفْسٌ تُنْجِیہَا خَیْرٌ مِنْ أَمَارَۃٍ لاَ تُحْصِیہَا بدترین ملامت موت کے وقت کی ملامت ہے اور بدترین ندامت، قیامت کے دن کی ملامت ہے۔ اور بعض لوگ نماز کے لیے آخری وقت میں آتے ہیں۔ اور بعض اللہ کا ذکر غافل دل کے ساتھ کرتے ہیں۔ غلطیوں میں سے سب سے بڑی غلطی جھوٹی زبان ہے۔ بہترین تونگری، دل کی تونگری ہے۔ بہترین زاد تقویٰ ہے۔ حکمت کا بڑا حصہ، خوفِ خدا ہے۔ دلوں میں جو کچھ ڈالا جاتا ہے اس میں سے بہترین چیز یقین ہے اور کفر کے بارے میں شک اور نوحہ، جاہلیت کا عمل ہے۔ خیانت (مالِ غنیمت میں) جہنم کا انگارہ ہے اور خزانہ جہنم کا داغنا ہے۔

٣۔ شعر، شیطان کے باجوں میں سے ہے۔ شراب، گناہوں کا مجموعہ ہے۔ عورتیں، شیطان کی رسیاں ہیں۔ جوانی، جنون کا شعبہ ہے۔ بدترین کمائی، سود کی کمائی ہے اور بدترین کھانا یتیم کا کھانا ہے۔ خوش بخت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے اور بدبخت وہ ہے جو بطن مادر میں بدبخت لکھا گیا ہے۔ تم میں سے کسی کو اتنی مقدار کافی ہے جس پر اس کا نفس قناعت کرلے۔ کیونکہ لوٹنا تو چار بالشت (زمین) کی طرف ہے۔ معاملہ، آخر کا معتبر ہوتا ہے۔ کسی شے پر عمل کا دار و مدار خاتمہ پر ہوتا ہے۔ بدترین روایت کرنے والے، جھوٹ کے روایت کرنے والے ہیں اور جو چیز آنے والی ہے وہ قریب ہے۔ 

٤۔ مومن کو گالی دینا گناہ ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے اور اس کے گوشت کو کھانا خدا کی نافرمانیوں میں سے ہے۔ اس کے مال کی حرمت اس کے خون کی حرمت کی طرح ہے۔ جو اللہ پر جرأت کرتا ہے اللہ اسے جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ اور جو معاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو معاف کردیتے ہیں اور جو درگزر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی درگزر کرتے ہیں اور جو اپنے غصہ کو قابو کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ اجر دیتے ہیں اور جو شخص رزایا پر صبر کرتا ہے اللہ اس کی اعانت کرتے ہیں اور جو آزمائش کو پہچانتا ہے وہ اس پر صبر کرتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ اس کو ناپسند کرتا ہے اور جو بڑا بنتا ہے اللہ اس کو گرا دیتے ہیں اور جو ناموری چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کرتے ہیں اور جو دنیا کی چاہت کرتا ہے۔ دنیا اس کو تھکا دیتی ہے اور جو شیطان کی مانتا ہے خدا کی نافرمانی کرتا ہے اور جو خدا کی نافرمانی کرتا ہے خدا اس کو عذاب دیتا ہے۔
[مغازي الواقدي:3/1016، مصنف ابن أبي شيبة:34552، الزهد لهناد بن السري:497، الزهد لأبي داود:160، فوائد الحنائي:197، زاد المعاد:474]


اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأُمَّتِي , اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأُمَّتِي , اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأُمَّتِي , أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِي وَلَكُمْ.
ترجمہ:
اے اللہ! میری امت کو بخش فرما۔ اے اللہ! میری امت کو بخش فرما۔ اے اللہ! میری امت کو بخش فرما۔ میں بخشش مانگتا اپنے لئے اور تم سب کیلئے۔
[جزء القاسم بن موسى الأشيب:48، فوائد أبي ذر الهروي:5، الترغيب والترهيب لقوام السنة:1253، معجم ابن عساكر:702، الجامع الصغير وزيادته:3164]




جمعه کا خطبه ثانیه:
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ ۞ وَاَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ  لَا شَرِیْکَ لَهٗ ۞ وَاَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ، اَرْسَلَهٗ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرَا بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ ۞ مَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ رَشَدْ، وَمَنْ یَّعْصِهِمَا فَاِنَّهٗ لاَ یَضُرُّ اِلاَّ نَفْسَهٗ وَلاَ یَضُرُّ اللهَ شَیْئاً ۞
ترجمہ:
ہر قسم کی حمد و ثنا اللہ ہی کے لیے ہے، ہم اسی سے مدد ما نگتے ہیں اور اسی سے مغفرت چاہتے ہیں، ہم اپنے نفس کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور محمد  ﷺ  اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں برحق رسول بنا کر قیامت آنے سے پہلے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ سیدھی راہ پر ہے، اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرے گا وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔
[سنن أبي داود:1097، المسند للشاشي:806، المعجم الكبير للطبراني:10499]




أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ۞ إِنَّ اللهَ وَمَلٰئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۞ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ وَصَلِّ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِهٖ وَذُرِّیَّتِهٖ وَصَحْبِهٖ اَجْمَعِیْن۞
ترجمہ:
میں پناہ چاہتا ہوں اللہ کی شیطان مردود سے۔ شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان انتہائی رحم کرنے والا ہے۔ بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو ! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو۔ [سورۃ الاحزاب:56] 
اے اللہ! آپ رحمت نازل فرمائیے اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر اور تمام مومنین اور مومنات اور تمام مسلمین اور مسلمات پر۔
[ الأدب المفرد-البخاري:640][صحيح ابن حبان:903، المستدرك على الصحيحين للحاكم:7175، مسند أبي يعلى الموصلي:1397]
اور برکت نازل فرما ہمارے سردار اور ہمارے راہنما محمد پر اور ان کی ازواج پر اور ان کی اولاد پر اور انکے سارے ساتھیوں پر۔





رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ‌أَرْحَمُ ‌أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي دِينِ اللَّهُ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ، وَأَقْضَاهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ.
ترجمہ:
میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں، اللہ کے دین میں سب سے زیادہ سخت اور مضبوط عمر ہیں، حیاء میں سب سے زیادہ حیاء والے عثمان ہیں، سب سے بہتر قاضی علی بن ابی طالب ہیں۔
[سنن ابن ماجه:154، الشريعة للآجري:1557، مشيخة ابن شاذان الصغرى:49]



وَفَاطِمَةَ ‌سَيِّدَةُ ‌نِسَاءِ ‌أَهْلِ ‌الجَنَّةِ وَأَنَّ ‌الحَسَنَ ‌وَالحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الجَنَّةِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا۔
ترجمہ:
فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین ؓ اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔راضی ہو اللہ ان سے۔
[
سنن الترمذي:3781، السنن الكبرى للنسائي:8240]




وَحَمْزَةُ اَسَدُ اللهِ وَاَسَدُ رَسُوْلِهٖ ۞
ترجمہ:
اور حمزہ شیر ہے اللہ کا اور شیر ہے اس کے رسول کا۔
[طبراني:2952، حاكم:4900، مجمع الزوائد:15463]



اللَّهُمَّ ‌اغْفِرْ ‌لِلْعَبَّاسِ وَلِوَلَدِهِ مَغْفِرَةً ظَاهِرَةً بَاطِنَةً لَا تُغَادِرْ ذَنْبًا۔
ترجمہ:
اے اللہ! عباس کی اور ان کے لڑکے کی بخشش فرما، ایسی بخشش جو ظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے ایسی ہو کہ کوئی گناہ نہ چھوڑے۔
[فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل:1795، سنن الترمذي:3762، مسند البزار:5213، السنة لأبي بكر بن الخلال:24]



اللَّهَ اللَّهَ فِي ‌أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ ‌غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ
ترجمہ:
اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا، جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا۔
[
مسند أحمد:16803، التاريخ الكبير للبخاري:389، سنن الترمذي:3862، السنة لابن أبي عاصم:992، مسند الروياني:882، السنة لأبي بكر بن الخلال:830، صحيح ابن حبان:7256، الشريعة للآجري:1991، الاعتقاد للبيهقي:321]



وَخَيْرُ ‌أُمَّتِي ‌قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ۞
ترجمہ:
میری امت کا سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔
[صحيح البخاري:3650]



وَالسُّلْطَانُ (الْعَادِلُ) ظِلُّ اللهِ فِیْ الْاَرْضِ مَنْ اَهَانَ سُلْطَانَ اللهِ فِی الْاَرْضِ اَهَانَهُ اللهُ ۞
ترجمہ:
(عادل)بادشاہ زمین پر اللہ کا سایہ ہے، جس نے اس کا اکرام کیا اللہ اس کا اکرام کرے گا، اور جس نے اس کی اہانت کی اللہ اس کی توہین کردے گا۔
[السنة لابن أبي عاصم:1024، شعب الإيمان:6988، الجامع الصغير:4799، تخريج كتاب السنة:1024حسن]

 إِنَّ ٱللَّهَ ‌يَأۡمُرُ ‌بِٱلۡعَدۡلِ وَٱلۡإِحۡسَٰنِ وَإِيتَآيِٕ ذِي ٱلۡقُرۡبَىٰ وَيَنۡهَىٰ عَنِ ٱلۡفَحۡشَآءِ وَٱلۡمُنكَرِ وَٱلۡبَغۡيِۚ يَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُونَ۔
ترجمہ:
بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے، اور بےحیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔
[سورة النحل:90]



فَاذْکُرُوا اللهَ یَذْکُرْ کُمْ
ترجمہ:
لہذا تم اللہ کو یاد کرو، الله تمہیں یاد رکھے گا۔
[سورة البقرة:152]
[نثر الدر في المحاضرات:5/24، وفيات الأعيان:2/41]



وَادْعُوْهُ یَسْتَجِبْ لَکُمْ
ترجمہ:
اور اسے ہی پکارو، وہ تمہاری دعائیں قبول کرے گا۔
[سورة غافر:60]



وَلَذِکْرُ اللهِ (تَعَالٰی اَعْلٰی وَاَوْلٰی وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَاَتَمُّ وَاَهَمُّ وَاَعْظَمُ وَاَکْبَرُ) وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ۞
ترجمہ:
 اور اللہ(سب سے زیادہ بلند، پہلا، غالب اور احترام والا، مکمل، اہم، زیادہ عظمت اور بڑائی والے)کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سب کو جانتا ہے۔
[سورة العنكبوت:45]





حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ بُكَيْرٍ أَبُو جَنَّابٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَدَوِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏تُوبُوا إِلَى اللَّهِ قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا، ‏‏‏‏‏‏وَبَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ قَبْلَ أَنْ تُشْغَلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَصِلُوا الَّذِي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ بِكَثْرَةِ ذِكْرِكُمْ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَثْرَةِ الصَّدَقَةِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ، ‏‏‏‏‏‏تُرْزَقُوا وَتُنْصَرُوا وَتُجْبَرُوا، ‏‏‏‏‏‏وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْكُمُ الْجُمُعَةَ فِي مَقَامِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فِي يَوْمِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فِي شَهْرِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏مِنْ عَامِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ تَرَكَهَا فِي حَيَاتِي أَوْ بَعْدِي وَلَهُ إِمَامٌ عَادِلٌ أَوْ جَائِرٌ، ‏‏‏‏‏‏اسْتِخْفَافًا بِهَا أَوْ جُحُودًا لَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَا جَمَعَ اللَّهُ لَهُ شَمْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا بَارَكَ لَهُ فِي أَمْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَلَا صَلَاةَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا زَكَاةَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا حَجَّ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا صَوْمَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا بِرَّ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَتُوبَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا لَا تَؤُمَّنَّ امْرَأَةٌ رَجُلًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَؤُمَّن أَعْرَابِيٌّ مُهَاجِرًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَؤُمَّ فَاجِرٌ مُؤْمِنًا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَقْهَرَهُ بِسُلْطَانٍ يَخَافُ سَيْفَهُ وَسَوْطَهُ.
ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا:  لوگو! مرنے سے پہلے اللہ کی جناب میں توبہ کرو، اور مشغولیت سے پہلے نیک اعمال میں سبقت کرو، جو رشتہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ہے اسے جوڑو، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کو خوب یاد کرو، اور خفیہ و اعلانیہ طور پر زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرو، تمہیں تمہارے رب کی جانب سے رزق دیا جائے گا، تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہاری گرتی حالت سنبھال دی جائے گی، جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر جمعہ اس مقام، اس دن اور اس مہینہ میں فرض کیا ہے، اور اس سال سے تاقیامت فرض ہے، لہٰذا جس نے جمعہ کو میری زندگی میں یا میرے بعد حقیر و معمولی جان کر یا اس کا انکار کر کے چھوڑ دیا حالانکہ امام موجود ہو خواہ وہ عادل ہو یا ظالم، تو اللہ تعالیٰ اس کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دے اور اس کے کام میں برکت نہ دے، سن لو! اس کی نماز، زکاۃ، حج، روزہ اور کوئی بھی نیکی قبول نہ ہوگی، یہاں تک کہ وہ توبہ کرے، لہٰذا جس نے توبہ کی اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا، سن لو! کوئی عورت کسی مرد کی، کوئی اعرابی  (دیہاتی)  کسی مہاجر کی، کوئی فاجر کسی مومن کی امامت نہ کرے، ہاں جب وہ کسی ایسے حاکم سے مغلوب ہوجائے جس کی تلوار اور کوڑوں کا ڈر ہو ۔   
[سنن ابن ماجہ
کتاب: اقامت نماز اور اس کا طریقہ
باب: فرض جمعہ کے بارے میں
حدیث نمبر: 1081]

 وضاحت:
یعنی ظالم حاکم کی طرف سے کوئی امام ایسا ہو یا وہ خود امامت کرے، اور لوگوں کو ڈر ہو کہ اگر اس کی اقتداء نہ کریں گے تو عزت و آبرو کو نقصان پہنچے گا تو مجبوراً اور مصلحتاً فاسق کے پیچھے نماز ادا کرنی جائز ہے، اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ امام ہمیشہ صالح اور نیک اور ذی علم ہونا چاہیے اور اسی وجہ سے اعرابی کو مہاجر کی امامت سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ مہاجر ذی علم نیک اور صالح ہوتے تھے بہ نسبت اعراب (بدوؤں) کے۔



جمعے کے لیے کوئی خاص خطبہ مقرر نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا، درود شریف، قرآنی آیات واحادیث مبارکہ، ذکرِ الٰہی، وعظ ونصیحت اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تذکرے پر مشتمل کوئی بھی خطبہ پڑھا جاسکتا ہے، بطورِ مثال دو جامع خطبے درج ذیل ہیں، انہیں جمعہ میں  پڑھ سکتے ہیں۔

جمعه کا خطبه اولیٰ:
اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَسْتَعِيْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنَعُوْذُ باللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهٗ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِىَ لَهٗ۞ وَاَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ، اَرْسَلَهٗ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا بَيْنَ يَدَىِ السَّاعَةِ مَنْ يُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ رَشَدْ،وَمَنْ يَعْصِهِمَا فَاِنَّهٗ لَا يَضُرُّ اِلَّا نَفْسَهٗ وَلَا يَضُرُّ اللهَ شَيْئًا۞
اَمَّابَعْدُ!فَاِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيْثِ كَلاَمُ اللهِ ، وَأَوْثَقَ الْعُرىٰ كَلِمَةُ التَّقْوىٰ ، وَخَيْرَ الْمِلَلِ مِلَّةُ إبْرَاهِيْمَ ، وَأَحْسَنَ الْقَصَصِ هٰذَا الْقُرْآنُ،وَأَحْسَنَ السُّنَنِ سُنَّةُ مُحَمَّدٍ( ﷺ),وَأَشْرَفَ الْحَدِيْثِ ذِكْرُ اللهِ ،وَخَيْرَ الأُمُوْرِ عَزَائِمُهَا،وَشَرَّ الأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا،وَأَحْسَنَ الْهَدْیِ هَدْیُ الأَنْبِيَاءِ،وَأَشْرَفَ الْمَوْتِ قَتْلُ الشُّهَدَاءِ،وَأَغَرَّ الضَّلاَلَةِ الضَّلاَلَةُ بَعْدَ الْهُدىٰ،وَخَيْرَ الْعِلْمِِ مَا نَفَعَ ،وَخَيْرَ الْهُدىٰ مَا اتُّبِعَ ،وَشَرَّ الْعَمٰى عَمَى الْقَلْبِ،وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلٰى ،وَمَا قَلَّ وَكَفٰى خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ وَأَلْهٰى،وَمَنْ يَغْفِرْ يَغْفِرِ اللّٰهُ لَهٗ ،وَمَنْ يَعْفُ يَعْفُ اللّٰهُ عَنْهُ ، وَمَنْ يَكْظِمِ الْغَيْظَ يَأْجُرْهُ اللّٰهُ ، وَمَنْ يَصْبِرْ عَلَى الرَّزَايَا يُعْقِبْهُ اللّٰهُ ،وَمَنْ يَعْرِفِ الْبَلاَءَ يَصْبِرْ عَلَيْهِ ، وَمَنْ لاَ يَعْرِفْهُ يُنْكِرْهٗ ، وَمَنْ يَسْتَكْبِرْ  يَضَعْهُ اللّٰهُ ، وَمَنْ يَبْتَغِ السُّمْعَةَ يُسَمِّعِ اللّٰهُ بِهٖ،وَمَنْ يَنْوِ الدُّنْيَا تُعْجِزْهُ ، وَمَنْ يُطِعِ الشَّيْطَانَ يَعْصِ اللهَ ، وَمَنْ يَعْصِ اللهَ يُعَذِّبْهُ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاُمَّةِ سَيِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاُمَّةِ سَيِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاُمَّةِ سَيِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ لِيْ وَلَكُمْ۞ 
جمعه کا خطبه ثانیه:
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ ۞وَاَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ  لَا شَرِیْکَ لَهٗ ۞ وَاَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ، اَرْسَلَهٗ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرَا بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ ۞ مَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ رَشَدْ، وَمَنْ یَّعْصِهِمَا فَاِنَّهٗ لاَ یَضُرُّ اِلاَّ نَفْسَهٗ وَلاَ یَضُرُّ اللهَ شَیْئاً ۞ أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ۞ إِنَّ اللهَ وَمَلٰئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۞اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ وَصَلِّ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِهٖ وَذُرِّیَّتِهٖ وَصَحْبِهٖ اَجْمَعِیْن۞قَالَ النَّبِیُ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَرْحَمُ أُمَّتِیْ بِأُمَّتِیْ أَبُوْبَکْرٍرَضِیَ اللهُ عَنْهُ، وَأَشَدُّهُم فِیْ اَمْرِ اللهِ عُمَرُرَضِیَ اللهُ عَنْهُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَیَاءً عُثْمَانُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، وَأَقْضَاهُمْ عَلِیٌّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، وَفَاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا، وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، وَحَمْزَةُ اَسَدُ اللهِ وَاَسَدُ رَسُوْلِهٖ ۞ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْعَبَّاسِ وَوَلِدِهٖ مَغْفِرَةً ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً لاَّ تُغَادِرُ ذَنْبًا ،اَللهَ اَللهَ فِیْ اَصْحَابِيْ لا تَتَّخِذُ وْهُمْ غَرَضًا مِنْ بَعْدِيْ ۞ فَمَنْ اَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّيْ اَحَبَّهُمْ وَمَنْ اَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِيْ اَبْغَضَهُمْ ، وَخَیْرُ اُمَّتِیْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ۞ وَالسُّلْطَانُ (الْعَادِلُ) ظِلُّ اللهِ فِیْ الْاَرْضِ مَنْ اَهَانَ سُلْطَانَ اللهِ فِی الْاَرْضِ اَهَانَهُ اللهُ ۞اِنَّ اللهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْيِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۞ فَاذْکُرُوا اللهَ یَذْکُرْ کُمْ وَادْعُوْهُ یَسْتَجِبْ لَکُمْ وَلَذِکْرُ اللهِ تَعَالٰی اَعْلٰی وَاَوْلٰی وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَاَتَمُّ وَاَهَمُّ وَاَعْظَمُ وَاَکْبَرُ وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ۞ فقط واللہ اعلم




خطبہ دینے کے مختلف انداز پر روایات ملتی ہیں۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
کَانَ النَّبِيُّ یَخْطُبُ قَائِمًا ثُمَّ یَقْعُدُ ثُمَّ یَقُومُ کَمَا تَفْعَلُونَ الْآنَ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے۔ پھر بیٹھتے، پھر کھڑے ہو جاتے جیسے تم اب کرتے ہو۔
بخاري، الصحیح، 1: 311، رقم: 878، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
یہی وجہ ہے کہ آج بھی عربی خطبہ کھڑے ہو کر دو حصوں میں دیا جاتا ہے اور درمیان میں خطیب چند لمحات کے لئے بیٹھتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق دورانِ خطبہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بھی جائز ہے:
عَنْ أَنَسٍ قَالَ بَیْنَمَا النَّبِيُّ یَخْطُبُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُولَ ﷲِ هَلَکَ الْکُرَاعُ وَ هَلَکَ الشَّاءُ فَادْعُ ﷲَ أَنْ یَسْقِیَنَا فَمَدَّ یَدَیْهِ وَدَعَا.
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: گھوڑے ہلاک ہو گئے، بکریاں ہلاک ہو گئیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہم پر بارش برسائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور دعا کی۔
بخاري، الصحیح، 1: 315، رقم: 890
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصا یا کمان کا سہارا لے کر بھی خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا ہے جس طرح کہ حضرت شعیب بن زریق طائفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک ایسے شخص کے پاس بیٹھا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کے شرف سے مشرف تھا۔ جسے حکم بن حزن کلفی کہا جاتا تھا وہ ہم سے حدیث بیان کرتے ہوئے فرمانے لگے۔ میں ایک وفد لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ ہم سات یا نو افراد تھے۔ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اﷲ! ہم نے آپ کی زیارت کرلی ہے۔ لہٰذا اﷲ تعالیٰ سے ہمارے لیے بھلائی کی دعا کیجئے۔
فَأَمَرَ بِنَا أَوْ أَمَرَ لَنَا بِشَيْئٍ مِنْ التَّمْرِ وَالشَّأْنُ إِذْ ذَاکَ دُونٌ فَأَقَمْنَا بِهَا أَیَّامًا شَهِدْنَا فِیهَا الْجُمُعَةَ مَعَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَامَ مُتَوَکِّئًا عَلَی عَصًا أَوْ قَوْسٍ فَحَمِدَ اﷲَ وَأَثْنَی عَلَیْهِ کَلِمَاتٍ خَفِیفَاتٍ طَیِّبَاتٍ مُبَارَکَاتٍ ثُمَّ قَالَ أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ لَنْ تُطِیقُوا أَوْ لَنْ تَفْعَلُوا کُلَّ مَا أُمِرْتُمْ بِهِ وَلَکِنْ سَدِّدُوا وَأَبْشِرُوا.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں کچھ کھجوریں دینے کا حکم فرمایا اور مسلمان ان دِنوں خستہ حالی میں تھے جتنے دن ہم ٹھہرے ان میں ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جمعہ بھی پڑھا آپ ایک لاٹھی یا کمان سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے تو آپ نے چند مختصر، پاکیزہ اورمبارک کلمات کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا۔ اے لوگو! ہر حکم پر عمل کرنے کی تم میں طاقت نہیں ہے لہٰذا مضبوطی سے قائم رہو۔ اوربشارت پاؤ۔
أبي داود، السنن، 1: 287، رقم: 1096، بیروت: دار الفکر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دورانِ خطبہ شہادت کی انگلی سے اشارے بھی فرمایا کرتے تھے، حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:
لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم وَ هُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ مَا یَزِیدُ عَلَی هَذِهِ یَعْنِي السَّبَّابَةَ الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ.
میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف انگوٹھے کے پاس والی یعنی شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا کرتے تھے۔
أبي داود، السنن، 1: 289، رقم: 1104
بوقت ضرورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دست مبارک کو کھول کر اور کبھی مٹھی بند کر کے اشارے فرماتے تھے:
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم وَهُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُولُ یَأْخُذُ الْجَبَّارُ سَمَاوَاتِهِ وَأَرَضِیهِ بِیَدِهِ وَقَبَضَ یَدَهُ فَجَعَلَ یَقْبِضُهَا وَیَبْسُطُهَا ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْجَبَّارُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُونَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ؟ قَالَ وَیَتَمَایَلُ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ یَمِینِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ حَتَّی نَظَرْتُ إِلَی الْمِنْبَرِ یَتَحَرَّکُ مِنْ أَسْفَلِ شَيْئٍ مِنْهُ حَتَّی إِنِّي لَأَقُولُ أَسَاقِطٌ هُوَ بِرَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم.
حضرت عبد اﷲ ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے کہ: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمین و آسمان کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مٹھی بند کرلی اور پھر کھول کر فرمایا اور اﷲ تعالیٰ فرمائے گا میں ہی جبار ہوں میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں سرکش لوگ، کہاں ہیں متکبر لوگ؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے جاتے اور دائیں بائیں گھومتے جاتے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرکت سے منبر بھی متحرک تھا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مجھے یہ خیال ہو رہا تھا کہ کہیں منبر مع حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گر نہ جائے۔
ابن ماجه، السنن، 2: 1429، رقم: 1475، بیروت: دار الفکر
درج بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ خطبہ جمعہ کے لیے کسی ایک کیفیت کو مخصوص نہیں کیا گیا ہے۔ موضوع کی مناسبت سے خطیب خطبہ جمعہ (اردو، عربی) میں ہاتھ سے اشارے بھی کر سکتا ہے، ہاتھ باندھ بھی سکتا ہے ہاتھ کھول بھی سکتا ہے۔



جمعہ کی نمازمیں دونوں خطبوں کا خالص عربی میں پڑھنا مسنون ومتوارث ہے، عربی کے سوا کسی دوسری زبان میں خطبہ ثابت نہیں، اگرچہ صحابہ بلکہ خلفاء کے زمانے میں ہی فارس وغیرہ فتح ہوگئے تھے اور لوگوں کے جدید الاسلام ہونے کی وجہ سے ان کی زبان میں تفہیم کی ضرورت آج سے بہت زیادہ تھی اور صحابہ اور مسلمانوں میں فارسی جاننے والے بھی کثرت سے موجود تھے باوجود اس کے عربی کے سوا کسی اور زبان میں خطبہ نہیں پڑھا گیا، اس لیے خطبہ کا طریقہ ماثورہ متوارثہ مسنونہ یہی ہے کہ وہ خالص عربی میں ہو۔




عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: «كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَتَانِ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَيُذَكِّرُ النَّاسَ»۔
جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں: ( جمعہ کے دن) رسول اللہ ﷺ کے دو خطبے ہوتے تھے، ان دونوں خطبوں کے درمیان آپ (تھوڑی دیر ) بیٹھتے تھے، (خطبہ میں) آپ قرآن پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔
[مسلم:862، ابوداؤد:1094]
عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُخْتٍ لِعَمْرَةَ، قَالَتْ: «أَخَذْتُ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ مِنْ فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَهُوَ يَقْرَأُ بِهَا عَلَى الْمِنْبَرِ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ» (صحیح مسلم 872 )
عَمرہ کی بہن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سوره «ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر یاد کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعہ کو خطبہ میں منبر پر پڑھا کرتے تھے۔
خطبہ ، نماز کی نسبت کم ہو:
قَالَ أَبُو وَائِلٍ: خَطَبَنَا عَمَّارٌ، فَأَوْجَزَ وَأَبْلَغَ، فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا: يَا أَبَا الْيَقْظَانِ لَقَدْ أَبْلَغْتَ وَأَوْجَزْتَ، فَلَوْ كُنْتَ تَنَفَّسْتَ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ، وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ، مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ، فَأَطِيلُوا الصَّلَاةَ، وَاقْصُرُوا الْخُطْبَةَ، وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا»
(صحیح مسلم 872 )
ترجمہ :
جناب ابووائل فرماتے ہیں کہ خطبہ پڑھا ہم پر سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے اور بہت مختصر پڑھا اور نہایت بلیغ پھر جب وہ اترے منبر سے تو ہم نے کہا: اے ابوالیقظان! آپ نے بہت بلیغ خطبہ پڑھا اور نہایت مختصر کہا اور اگر آپ ذرا اس خطبہ کو طویل کرتے تو بہتر ہوتا۔ تب سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے: ”آدمی کا نماز کو لمبا کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے سمجھ دار ہونے کی نشانی ہے سو تم نماز کو لمبا کیا کرو اور خطبہ کو چھوٹا اور بعض بیان جادو ہوتا ہے۔“ (یعنی تاثیر رکھتا ہے)۔

مقامی زبان میں خطبۂ جمعہ ناجائز ہونے کی وجوہات ... 

*پہلی وجہ: اصلی حالت پر نہ رہنا:*

قرآن کریم ،احادیث مبارکہ اورخیر القرون کی شہادتوں سے یہ بات ثابت ہے کہ خطبۂ جمعہ کی حقیقت ذکر اللہ ہے۔ 

*قران کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:*

یا ایھا الذین آمنوا اذا نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔

)سورۃ جمعہ پارہ28 آیت9(

”اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے اذان کہی جائے تو تم فوراً اللہ کے ذکر کی طرف چل پڑا کرو اور خریدو فروخت کو چھوڑ دیا کرو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم کو کچھ سمجھ ہو۔ “

جمہور مفسرین کے ہاں اس آیت میں ذکر للہ سے مراد خطبہ جمعہ ہے کچھ مفسرین کی عبارا ت ملاحظہ فرمائیں:

1: شیخ ابو منصورماتریدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

ذکر یجب الاستماع الیہ والسعی الیہ فدل ھذا علی فرضیۃ الجمعۃ ولما چبت ان المعنیٰ من قولہ (الی ذکر اللہ) ان المراد باذکر الخطبۃ ثم امر بترک البیع للسعی الی ھذا الذکر والاستماع لہ ثبت ان الاکلام فی وقت الخطبۃ مکروہ وفی وقت خروج الامام الی الخطبۃ مکروہ ایضا لان البیع فی ذالک الوقت مکروہ، والبیع کلم فیدل علی کراہیۃ کل کلام فیدل علی صحۃ مذہب ابی حنیفۃ رحمہ اللہ فی انہ یلزم السکوت اذا خرج الامام حتی یفرغ من الصلاۃ۔

)تفسیر تاویلات اہل السنۃ ج10 ص13 ناشر دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان (

ذکر کی طرف کان لگانا اور اس کے لیے فورا چلے جانا واجب ہے، لہذا یہ جمعہ کی فرضیت پر دلیل ہے، اور جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالی کے ارشاد (الیٰ ذکر اللہ) کے معنی یہ ہیں کہ اس ذکر سے مراد خطبہ ہے پھر خرید و فروخت کو چھوڑ کر اس ذکر کی طرف فورا چلے آنے اور اس کی طرف کان لگانے کا حکم ثابت کرتا ہے اس بات کو کہ کلام خطبہ کے وقت میں اور خطبہ کے لیے امام کے نکلنے کے وقت میں بھی مکروہ ہے ، اس لیے کہ اس وقت میں خرید و فروخت مکروہ ہے اور خرید و فروخت بھی کلام ہے لہٰذا یہ ہر کلام کے مکروہ ہونے پر دلیل ہے، اور اس میں امام اعظم ابو حنیفہ کے موقف کے صحیح ہونے پر بھی دلیل ہے، کہ جب امام خطبہ کے لیے نکل آئےتو اس کے نماز سے فارغ ہونے تک خاموش رہنا لازم ہے۔

2: امام جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ویدل ان المراد بالذکرہٰہنا الخطبۃ ان الخطبۃ ھی التی یلی النداء وقد امر بالسعی الیہ فدل ان المرادالخطبۃ۔

)احکام القرآن ج5ص338، 339(

کیونکہ اور حدیث دلیل ہے اس بات پر کہ یہاں ذکر سے مراد خطبہ ہے خطبہ ہی اذان سے ملا ہوا ہوتا ہے اور اسی کی طرف فورا ًچلے آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ ذکر سے خطبہ کے مراد ہونے پر دلیل ہے۔

3. علامہ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی المتوفیٰ 671ھ فرماتے ہیں:

ان المراد بالذکر الصلاۃ فالخطبۃ من الصلاۃ واعبد یکون ذاکرا للہ بفعلہ کما یکون مسبحا للہ بفعلہ۔

)تفسیر قرطبی ج18ص107 (

ذکر سے مراد نماز ہے اور خطبہ بھی نماز کا حصہ ہے اور بندہ بالفعل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ہوگا جیسا کہ بالفعل اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے والا ہے۔

مزید فرماتے ہیں:

والدلیل علی وجوبہا انہا تحرم البیع ولولا وجوبہا ما حرمتہ لان المستحب لا یحرم المباح .

)تفسیر قرطبی ج18 ص107(

اور خطبہ جمعہ کے واجب ہونے پر دلیل خرید و فروخت کا حرام ہونا ہے اگر خطبہ جمعہ واجب نہ ہوتا تو وہ خرید وفروخت کو حرام نہ کرتا اس لیے کہ مستحب چیز مباح کو حرام نہیں کرتی۔

*حدیث :....*

عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:إذا كان يوم الجمعة وقفت الملائكة على باب المسجد يكتبون الأول فالأول ومثل المهجركمثل الذي يهدي بدنة ً ثم كالذي يهدي بقرة ثم كبشاً ثم دجاجة ثم بيضة وإذا خرج الإمام طووا صحفهم يستمعون الذكر۔

)بخاری شریف ج1ص127 قدیمی کتب خانہ کراچی باب الاستماع الی الخطبۃ (

حدیث مذکور کا ترجمہ غیر مقلد عالم مولوی وحید الزمان سے ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ لکھتے ہیں:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے کیا کرتے ہیں (جامع) مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر (نمازیوں کے نام) لکھتے ہیں، جو پہلے آتا ہے اس کو پہلے جو بعد آتا ہے اس کو بعد اور جو کوئی سویرے جاتا ہے اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو اونٹ قربانی کرے پھر ایسے کی جو گائے قربانی کرے پھر ایسے شخص کی جو مینڈھا پھر ایسے کی جو مرغی پھر ایسے کی جو انڈا پھر جب امام (خطبہ کے لیے) نکلتا ہے تو وہ اپنی بہیاں لپیٹ لیتے ہیں اور خطبہ کان لگا کر سکتے ہیں۔

پھر اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کے اس حدیث کو لانے کی غرض بیان کرتے ہوئے وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

 امام بخاری نے اس سے یہ نکالا ہے کہ نمازیوں کو بھی خطبہ کان لگا کر سننا چاہیے، کیوں کہ فرشتے بھی کان لگاکر سنتے ہیں۔

)تیسیر الباری شرح صحیح بخاری ج1ص569 ناشر امجد اکیڈمی لاہور (

معلوم ہوا کہ حدیث مذکور میں الذکر سے مراد خطبہ جمعہ ہے، اسی وجہ سے اس کو خاموشی سے سننا واجب ہے۔

*خیر القرون سے خطبہ جمعہ کے ذکر ہونے کا ثبوت:*

صحابہ کرام رضی ا للہ عنہم اجمعین اور تابعین کرام رحمہم اللہ کے بہترین دور میں بھی خطبۂ جمعہ اور نماز جمعہ پر ذکر اللہ کا اطلاق ہوتا تھا، اس سلسلے میں کچھ تصریحات ملاحظہ فرمائیں:

1: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خطبۂ جمعہ کے وقت دیر سے پہنچے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت خطبۂ جمعہ ارشاد فرمارہے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دیر سے آنے پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطبہ اور نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دیر سے آنے کا عذر پیش فرمایا۔ اس روایت میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں: حتی یفرغ من الذکر.یعنی جب خطبہ اور نماز سے فارغ ہوئے پوری روایت یوں ہے:

عبد الرزاق عن بن جريج قال أخبرني عمرو بن دينار أن عكرمة مولى بن عباس أخبره أن عثمان جاء وعمر يخطب يوم الجمعة فانتحى عمر ناحية الرجل يجلس حتى يفرغ من الذكر فقال عثمان يا أمير المؤمنين ما هو إلا أن سمعت الاولى فتوضأت وخرجت فقال عمر لقد علمت ما هو بالوضوء۔

)مصنف عبدالرزاق باب الغسل یوم الجمعۃ ج3ص195، 196 (

اس روایت سے بھی ثابت ہوا کہ خطبہ کی حقیقت ذکر ہے۔

2: حضرت عطاء تابعی رحمہ اللہ سے کسی نے مسئلہ پوچھا کہ میں نے خطبۂ جمعہ کا بہت تھوڑا سا حصہ پایا امام اس وقت خطبہ کے آخر میں ناپ تول میں کمی سے منع کررہا تھا، اور پورا تولنے کاحکم دے رہا تھا کیا میں ظہر کی چار رکعت پڑھوں یا جمعہ کی دو رکعت تو انہوں نے فرمایا:

قد امر اللہ بذالک فذالک من الذکر فاقصر۔

اللہ تعالی نے اس خطبہ کا جو حکم دیا اس کی حیثیت ذکر کی ہے لہٰذا تو دو رکعت پڑھ لے۔ روایت کے اصل الفاظ یہ ہیں:

عبد الرزاق عن بن جريج قال قال إنسان لعطاء لم أدرك الخطبة الا وهو في المكيال والميزان قال قد امر الله بذلك فذلك من الذكر فاقصر۔

)مصنف عبدالرزاق باب من فاتتہ الخطبۃ ج3ص238 (

اس روایت سے تو خطبہ کی حیثیت بالکل واضح ہوگئی کہ اس کی حقیقت ذکر اللہ ہے وعظ و نصیحت محض اس کے تابع اجزاء میں سے ایک جز ہے۔

*ذکر اللہ میں اصل الفاظ وہ ہیں جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے صادر ہوئے ہیں اور وہ عربی زبان میں ہیں اس لیے ضروری ہے کہ خطبۂ جمعہ عربی زبان میں دیا جائے۔*



*دوسری وجہ: اجماع کے خلاف ہے :*

یہ چیز نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مواظبت اور اجماع کے خلاف ہے۔ عربی خطبۂ جمعہ پر نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے ہمیشگی فرمائی ہے، باوجود اس کے کہ ان کے مخاطب عجمی بھی تھے، 

*اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے مفتی اعظم پاکستان حضرت اقدس مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:*

عمل اور مواظبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی باوجودیکہ جس طرح آج تبلیغ احکام اور ان کی تعمیم و اشاعت کی حاجت ہے اس وقت اس سے زیادہ تھی، کیونکہ اب تو کتب و رسائل ہر قوم کی زبان میں ہزار رہا موجود ہیں اور اس وقت سلسلہ تصنیف بالکل نہ تھا،نیز یہ بھی نہ تھا کہ حضور صلی ا للہ علیہ و سلم کے مخاطب ہمیشہ اہل عرب ہی ہوں بلکہ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ روم و فارس اور مختلف بلاد عجم کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس خطبہ میں شریک ہوتے تھے، اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ مادری زبان عربی ہونے کے دوسری زبان میں خطبہ نہ دیتے تھے، تو اگر مقصود خطبہ و وعظ و تبلیغ یہی تھا اور تبلیغ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہر ہے کہ تمام اقوام عالم عرب و عجم کے لیے عام ہے تو عجمیوں کی رعایت سے ایسا کیا جاسکتا ہے کہ کسی صحابی کو حکم فرمادیتے تو خطبہ کے بعد ہی اس کا ترجمہ عجم کی زبان میں سنادیتے جیسا کہ بعض وفود وغیرہ سے مکالمہ کے وقت ترجمان سے کام لیا جاتا تھا۔ لیکن تمام عمر نبوی میں اس قسم کا ایک واقعہ بھی مروی نہیں، آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک سیل رواں کی صورت میں بلاد عجم میں داخل ہوئے اور دنیا کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا جہاں اسلام کا کلمہ نہیں پہنچا دیا اور شعائر اسلام نماز اور جمعہ اعیاد قائم نہیں کردیے، ان حضرات کے خطبے تاریخ کی کتابوں میں آج بھی بالفاظہا مذکور و مدون ہیں ان میں سے کسی ایک نےبھی کبھی بلاد عجم میں داخل ہونے کے بعد اپنے مخاطبین کی ملکی زبان میں خطبہ نہیں دیا، حالانکہ وہ ابتداء فتح اور اسلامی تعلیمات کی اشاعت کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا، جب کہ تمام لوگ تبلیغ احکام کے لیے آج سے کہیں زیادہ محتاج تھے، یہاں یہ شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ان کو عجمی زبان سے واقفیت نہ تھی کیونکہ بہت سے صحابہ کرام کے متعلق ان کی سوانح و تذکروں میں تصریح ہے کہ وہ فارسی یا رومی یا حبشی وغیرہ زبانیں جانتے اور ان میں بخوبی تقریر کرتے تھے، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے متعلق ثابت ہے کہ وہ بہت سی مختلف زبانیں جانتے تھے اسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تو خود فارس کے رہنے والے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ حبشہ کے اور حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ روم کے باشندے تھے اسی طرح بہت سے حضرات صحابہ ہیں جن کی مادری زبانیں عربی کے علاوہ دوسری تھیں۔

اس کے علاوہ اگر معانی خطبہ کو عجمیوں کے علم میں لانا بوقت خطبہ ہی ضروری سمجھا جاتا اور خطبہ کا مقصد صرف تبلیغ ہی ہوتی تو جو سوال آج کیا جاتا ہے کہ خطبہ عربی میں پڑھنے کے بعد اس کا ترجمہ اردو یا دوسری ملکی زبانوں میں کردیا جائے، یہ کیا اس وقت ممکن نہ تھا؟ جیسا کہ دوسری ملکی اور سیاسی ضرورتوں کے لیے ہر صوبہ میں عمال حکومت اپنے پاس ترجمان رکھتے تھے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک مستقل ترجمان انہیں ضرورتوں کے لیے اپنے پاس ملازم رکھا ہوا تھا۔

)رواہ البخاری فی الوفود (

لیکن اس کے باوجود بھی نہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ منقول ہے کہ آپ نے عربی خطبہ کا ترجمہ ترجمان کے ذریعہ ملکی زبان میں کرایا ہو اور نہ کسی دوسرے صحابی سے، اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ خطبہ کے لیے سنت یہی ہے کہ صرف عربی زبان میں پڑھا جاوے اور بوقت خطبہ کوئی ترجمہ وغیرہ اس کا نہ کیا جائے۔

)جواہر الفقہ ص353، 354 ناشر مکتبہ دار العلوم کراچی (

*حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ خطبۂ جمعہ کے عربی ہونے پر امت کا تعامل کی تصریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:* 

چوں خطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وخلفاء را ملاحظہ کردیم تنقیح آں وجود چند چیز است حمد و شہادتین و صلوٰۃ بر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وامر بتقوی وتلاوت وقرآن پاک ودعائے مسلمین ومسلمات وعربی بودن خطبہ و عربی بودن نیز بجہت عمل مستمرہ مسلمین در مشارق و مغارب باوجود آں کہ در بساری از اقالیم مخاطبان عجمی بودند۔

)مصفیٰ شرح موطا امام مالک ج1ص253 باب التشدید علی من ترک الجمعۃ بغیر عذر (

ترجمہ : جب ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبوں پر نظر ڈالی تو ان میں چند چیزوں کا ثبوت ملا جن میں حمد و ثنا اور کلمہ شہادت اور درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور تقویٰ کا حکم دینا اور کسی آیت کا پڑھنا اور تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرنا اور خطبہ کا عربی زبان میں ہونا، اور خاص عربی زبان میں خطبہ کا ہونا اس لیے ہے کہ تمام مسلمانوں کا مشرق و مغرب میں ہمیشہ یہی عمل رہا ہے باوجودیکہ بہت سے ممالک میں مخاطب لوگ عجمی تھے۔

لہذا غیر عربی میں خطبۂ جمعہ یا اس کا ترجمہ عجمی زبان میں نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشگی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کے خلاف ہے، اور اس کی مخالفت جائز نہیں، 

*چنانچہ غیر مقلد عالم صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں:*

ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی دین اسلام سے خروج ہے، جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی گئی ہے، مومنین سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ مومنین موجود نہ تھا، کہ وہ مراد ہو، اس لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر وضلال ہی ہے، بعض علماء نے سبیل المومنین سے مراد اجماعِ امت لیا ہے یعنی اجماع امت سے انحراف بھی کفر ہے، اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علماء وفقہاء کا اتفاق یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق، یہ دونوں صورتیں اجماع کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے، تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے لیکن اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع واتفاق کے دعوے تو بہت سےمسائل میں کیے گئے لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں جن میں فی الواقع امت کے تمام علماء و فقہاء کا اتفاق ہو، تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں ان کا انکار بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے، اس لیے صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

)صحیح ترمذی للالبانی رقم1759،احسن البیان ص125 ص256، الحدیث شمارہ61 (

*لہذا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مخالفت کی وجہ سے درست نہیں۔*






*تیسری وجہ: خلاف سنت ہے :*

جس کام کو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باوجود کرسکنے کے نہ کیا ہو اس کا ترک سنت ہے اور اس کی مخالفت خلاف سنت ہے:

یہ وجہ اگر چہ دوسری وجہ سے ملتی جلتی ہے تاہم اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو الگ ذکر ذکر کرنا بھی ضروری ہے وہ یہ کہ جس کام کو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باوجود کرسکنے کے نہ کیا ہو حالانکہ اس دور میں اس کی ضرورت بھی تھی تو اس کو نہ کرنا اور چھوڑنا سنت ہے، نبی اقدس صلی ا للہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی ا للہ عنہم کے مخاطب حضرات میں بھی غیر عربی لوگ تھے، لیکن ان حضرات نے پھر بھی خطبۂ جمعہ کو غیر عربی میں یا اس کے ترجمہ غیر عربی میں نہ کیا اور نہ کروایا، جب انہوں نے اس کام کو نہ کیا تو اس کا نہ کرنا اور اس کو چھوڑنا سنت ہے اور اس کی مخالفت خلاف سنت اور بدعت ہے، اس اصول کو کئی حضرات نے ذکر فرمایا ہے، چند ایک کی عبارات پیش خدمت ہیں:

1: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

کل عبادۃ لم یتعبدہا اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فلا تعبدوہا۔

)الاعتصام ج1 ص113(

ہر وہ عبادت جس کو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہ کیا ہو سو تم بھی اس کو مت کرو۔

2: امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولہا فما لم یکن یومئذ دینا لا یکون الیوم دینا۔

)الشفاء للقاضی ج2 ص88 (

اس امت کے بعد والے لوگوں کی ہرگز اصلاح نہ ہوسکے گی مگر صرف اس چیز سے کہ جس سے اس امت کے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی، چنانچہ جو چیز اس وقت دین نہ تھی وہ آج بھی دین نہ ہوگی۔

3: حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

جس طرح پیروی کسی کام کے کرنے میں ہوتی ہے اسی طرح چھوڑنے میں بھی ہوتی ہے لہٰذا جس نے کسی ایسے کام میں ہمیشگی کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ بدعتی ہے۔

)مرقاۃ شرح مشکاۃ ج1 ص41 (

4: علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو نہ کرنا یعنی چھوڑنا ہمارے حق میں سنت ہے۔

)شرح قسطلانی ج7 ص335(

5: علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

جو قول و فعل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہ ہواسے اہل السنت والجماعت بدعت کہتے ہیں کیونکہ اگر وہ بھلائی کا کام ہوتا تو وہ ہم سے پہلے ضرور کر گذرتے کیونکہ وہ حضرات رضی اللہ عنہم بھلائی کی کسی بھی خصلت کی طرف پیش قدمی کیے بغیر نہیں رہے۔

)تفسیر ابن کثیر ج4 ص156 (

6: ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

ترک کے ثبوت کی دوسری قسم یہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہوتا تو یقینا نقل کیا جاتا جب کسی نے نقل نہیں کیا اور نہ ہی کسی مجمع میں بیان کیا گیا، تو معلوم ہوگیا کہ وہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔

)اعلام الموقعین ج1 ص304 (

*مذکورہ تمام عبارات سے معلوم ہوا کہ جس کام کو باوجود کرسکنے کے نہ کیا گیا تو وہ کام نہ کیا جائے گا، اور اس کا نہ کرنا سنت ہوگا اور اس کی مخالفت خلاف سنت اور بدعت ہوگی ، اور غیر عربی میں خطبۂ جمعہ یا عربی کے ساتھ اس کا غیر عربی میں ترجمہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہ کیا گیا حالانکہ جو ضرورت آج بیان کی جاتی ہے اس دور میں اس سے بڑھ کر موجود تھی، لہذا یہ عمل خلاف سنت اور بدعت ہوگا۔*

اس پر ایک مثال اور ذکر کرنا مناسب ہوگی، وہ یہ کہ حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ نے بشر بن مروان کو منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو سخت لہجے میں ارشاد فرمایا:

قبح اللہ ہاتین الیدین لقد رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما یزید علی ان یقول ھکذا بیدہ واشار باصبعہ المسبحۃ۔

)صحیح مسلم ج1 ص287 (

اللہ تعالی ان دونوں چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کا ناس کرے میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ کی انگلی سے زیادہ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔

غور فرمائیں! حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے نہ اٹھانے کو بطور دلیل پیش فرمایا یہ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ جس کام کو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود کرسکنے کے نہ کیا ہو تو اس کی مخالفت جائز نہیں۔


*چوتھی وجہ: مختصر کو طویل کرنا ہے:*

ترجمہ کی صورت میں خطبہ جمعہ لمبا ہوجائے گا، حالانکہ اس کا مختصر ہونا ضروری نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ خطبۂ جمعہ مختصر ہو اگر عربی کے ساتھ اس کا غیر عربی میں ترجمہ بھی کیا گیا تو لامحالہ خطبہ جمعہ لمبا ہوجائے گا جو کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی ہے۔

*خطبۂ جمعہ کے مختصر ہونے کے سلسلے میں کچھ احادیث ملاحظہ فرمائیں:*

*حدیث نمبر1:*

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّى مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَتْ صَلاَتُهُ قَصْدًا وَخُطْبَتُهُ قَصْدًا.

)صحیح مسلم ج1 ص284 جامع الترمذی ج1 ص113 سنن الدارمی ج1 ص440(

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی متوسط ہوتی تھی اور خطبہ بھی متوسط ہوتا تھا۔

*حدیث نمبر2:*

عَنْ وَاصِلِ بْنِ حَيَّانَ قَالَ قَالَ أَبُو وَائِلٍ: خَطَبَنَا عَمَّارٌ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَوْجَزَ وَ أَبْلَغَ، فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا: يَا أَبَا الْيَقْظَانِ لَقَدْ أَبْلَغْتَ وَأَوْجَزْتَ فَلَوْ كُنْتَ تَنَفَّسْتَ فَقَالَ: إِنِّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِنَّ طُولَ صَلاَةِ الرَّجُلِ وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ، فَأَطِيلُوا الصَّلاَةَ وَأَقْصِرُوا الْخُطَبَةَ، وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا۔

)صحیح مسلم ج1 ص286 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی (

حضرت واصل بن حیان سے روایت ہے کہ حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ہمارے سامنے خطبہ پڑھا۔ آپ نے اسے مختصر کیا اور کمال کو پہنچایا پس جب وہ منبر سے نیچے اترے تو ہم نے کہا: اے ابو الیقظان آپ نے خطبہ کمال کو پہنچایا اور مختصر کیا، کاش آپ ذرا دراز کردیتے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کی نماز کی درازی اور خطبہ کا اختصار اس کی عقل مندی اور فہم کی دلیل ہے، تم نماز کو دراز کیا کرو اور خطبہ کو مختصر کیا کرو اور بعض بیان تو جادو ہوتے ہیں۔

*حدیث نمبر3:*

عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عُقَيْلٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ الذِّكْرَ وَيُقِلُّ اللَّغْوَ وَيُطِيلُ الصَّلَاةَ وَيُقَصِّرُ الْخُطْبَةَ۔

)نسائی ج1 ص166 مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ لاہور (

حضرت حسین بن واقد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے حدیث بیان کی یحییٰ بن عقیل نے انہوں نے کہا میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذکر کثرت سے کیا کرتے تھے اور فضول کام بالکل نہ کرتے تھے اور نماز لمبی کرتے تھے اور خطبہ مختصر دیتے تھے۔

*حدیث نمبر4:*

عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِإِقْصَارِ الْخُطَبِ.

)سنن ابی داؤد ج1 ص165 ،سنن کبریٰ للبیہقی ج3 ص208(

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبوں کو مختصر کرنے کا حکم دیا ہے۔

*حدیث نمبر5:*

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : أَطِيلُوا هَذِهِ الصَّلاَةَ ، وَأَقْصِرُوا هَذِهِ الْخُطْبَةَ يَعْنِى صَلاَةَ الْجُمُعَةِ.

)سنن کبری للبیہقی ج3 ص208 باب مایستحب من القصد فی الکلام وترک التطویل (

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس جمعہ کی نماز کو لمبا کرو اور خطبہ کو مختصر کرو۔

*حدیث نمبر6:*

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ السُّوَائِىِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- لاَ يُطِيلُ الْمَوْعِظَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِنَّمَا هُنَّ كَلِمَاتٌ يَسِيرَاتٌ.

)سنن ابی داود ج1 ص165، سنن کبریٰ للبیہقی ج3 ص208(

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ لمبا نہ ہوتا تھا، وہ تو چندکلمات ہوتے تھے۔

*مذکورہ روایات سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم اور حکم یہ ہے کہ خطبۂ جمعہ نماز سے مختصر ہو ترجمہ کرنے کی صورت میں خطبہ نماز سے لمبا ہو جائے گا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے ناجائز ہے۔*


*ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﻭﺟﮧ :*

ﺧﻄﺒۂ ﺟﻤﻌﮧ ﺍﻣﻮﺭ ﺗﻌﺒﺪﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﻮﺭ ﺗﻌﺒﺪﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺎﻟﺢ ﺳﮯ ﺗﻐﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ۔ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺾ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻣﺤﺾ ﺑﻨﺪﮔﯽ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻘﻞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺼﻠﺤﺖ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺗﯿﻤﻢ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺗﯿﻤﻢ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﭼﮩﺮﮦ ﺻﺎﻑ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﻣﭩﯽ ﺁﻟﻮﺩ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﺍﮔﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻘﻞ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺗﯿﻤﻢ ﮐﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻘﻞ ﮐﺎ ﻗﺼﻮﺭ ﮨﮯ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﯿﻤﻢ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻘﻞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺧﻄﺒۂ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻘﻞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺼﻠﺤﺖ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﯽ۔







خطبۂ جمعہ کے مسائل


اس مختصر مضمون میں خطبۂ جمعہ کے بعض مسائل پیشِ خدمت ہیں:

نمبر 1:

رسول اللہ ﷺ منبر پر خطبۂ جمعہ ارشاد فرماتے تھے۔
دیکھئے صحیح ابن خزیمہ (1/ 140 ح1777، وسندہ حسن)صحیح بخاری (1033) اور صحیح مسلم (897، دارالسلام: 2082)

نمبر 2:

آپ ﷺ کے منبر کے تین درجے یعنی تین زینے تھے۔
دیکھئے المستدرک للحاکم (4/ 153۔ 154ح 7656، وسندہ حسن) اور میری کتاب: فضائلِ درود و سلام (ص 60۔ 62)

نمبر 3:

رسول اللہ ﷺ کے منبر اور قبلے (کی دیوار) کے درمیان بکری کے گزرنے جتنی جگہ تھی۔
دیکھئے صحیح مسلم (509) صحیح بخاری (497) اور سنن ابی داود (1082، وسندہ صحیح)

نمبر 4:

آپ ﷺ کا منبر لکڑی کا بنا ہوا تھا۔
دیکھئے صحیح بخاری (917) اور صحیح مسلم (544)

نمبر 5:

رسول اللہ ﷺ منبر کے تیسرے زینے پر بیٹھتے تھے۔
(صحیح ابن خزیمہ 1/ 140 ح 1777، وسندہ حسن، نیز دیکھئے فقرہ نمبر1)

نمبر 6:

کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ خطیب منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو السلام علیکم کہے۔ اس سلسلے میں سنن ابن ماجہ (1109) وغیرہ والی روایت عبداللہ بن لہیعہ کے ضعف (بوجۂ اختلاط) اور تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق وغیرہما میں اس کے ضعیف شواہد بھی ہیں، جن کے ساتھ مل کر یہ روایت ضعیف ہی ہے۔
اگر امام مسجد میں پہلے سے موجود ہو تو بغیر سلام کے منبر پر چڑھ جائے اور اذان کے بعد خطبہ شروع کر دے اور اگر باہر سے مسجد میں آئے تو مسجد میں داخل ہوتے وقت سلام کہہ دے۔
عمرو بن مہاجر سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز (رحمہ اللہ) جب منبر پر چڑھ جاتے تو لوگوں کو سلام کہتے اور لوگ اُن کا جواب دیتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 114ح 5197 وسندہ حسن)

نمبر 7:

خطبۂ جمعہ میں عصا (لاٹھی) یا کمان پکڑنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ دیکھئے سنن ابی داود (1096، وسندہ حسن وصححہ ابن خزیمۃ: 1452)
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہاتھ میں عصا لے کر منبر پر خطبہ دیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 115 ح 5207 وسندہ حسن)
یاد رہے کہ خطبۂ جمعہ میں عصا یا کمان پکڑنا ضروری نہیں لہٰذا ان کے بغیر بھی خطبہ جائز ہے۔
فائدہ: خطبے کے علاوہ بھی رسول اللہ ﷺ سے عصا پکڑنا ثابت ہے۔ دیکھئے مسند احمد (6/23 وسندہ حسن) وصححہ ابن حبان (6774) والحاکم (2/285، 4/425۔ 426) ووافقہ الذہبی۔

نمبر 8:

سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جب امام جمعہ کے دن منبر پر بیٹھتا تو پہلی اذان ہوتی تھی۔ الخ (صحیح بخاری: 916)
امام سلیمان بن طرخان التیمی رحمہ اللہ اہلِ حدیث (مدلس من الطبقۃ الثانیہ عند الحافظ ابن حجر، و من الثالثہ عندنا) نے امام ابن شہاب سے یہی حدیث درج ذیل الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے: ’’کان النداء علٰی عھد رسول اللہ ﷺ و أبي بکر و عمر رضي اللہ عنھما عند المنبر‘‘ إلخ رسول اللہ ﷺ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اذان منبر کے پاس ہوتی تھی۔ الخ (المعجم الکبیر للطبرانی ج7ص 146۔ 147 ح 6646)
اس روایت کی سند امام سلیمان التیمی تک صحیح ہے لیکن یہ روایت تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
دو قسم کے لوگوں کے نزدیک یہ روایت بالکل صحیح ہے:
i: جو لوگ حافظ ابن حجر کی تقسیمِ طبقات پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہیں۔
ii: جو لوگ ثقہ راویوں کے مدلس ہونے کے سرے سے منکر ہیں یعنی جماعت المسعودیین جو کہ جدید دور کے خوارج میں سے ایک خارجی فرقہ ہے۔
تنبیہ: مسجد کے دروازے کے پاس اذان دینے والی روایت (سنن ابی داود: 1088) محمد بن اسحاق بن یسار مدلس کے عن کی وجہ سے ضعیف اور سلیمان التیمی کی روایت کے خلاف ہونے کی وجہ سے منکر و مردود ہے۔

نمبر 9:

ہر خطبۂ جمعہ میں سورۃ قٓ کی تلاوت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ دیکھئے صحیح مسلم (873، ترقیم دارالسلام: 2014)
علامہ نووی نے کہا: ’’و فیہ استحباب قراءۃ قٓ أو بعضھا في کلّ خطبۃ‘‘ اور اس (حدیث) میں (اس کا) ثبوت ہے کہ سورۃ قٓ یا بعض سورۃ قٓ کی قراءت ہر خطبے میں مستحب ہے۔ (شرح صحیح مسلم للنووی 6/161 تحت ح 873)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خطبۂ جمعہ میں سورۃ آل عمران کی قراءت پسند کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 115 ح 5203 وسندہ حسن)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن خطبے میں سورۃ النحل کی تلاوت کی اور بعد میں لوگوں کو یہ مسئلہ سمجھایا کہ اگر کوئی سجدۂ تلاوت نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ (دیکھئے صحیح بخاری: 1077، یعنی سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہے۔)
معلوم ہوا کہ خطبۂ جمعہ میں سورۃ قٓ کا پڑھنا فرض، واجب یا ضروری نہیں بلکہ مسنون ہے۔

نمبر 10:

رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر جمعہ کا خطبہ دیتے پھر آپ بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہوتے (اور دوسرا خطبہ دیتے) تھے۔ الخ (صحیح بخاری: 920، صحیح مسلم: 861)
آپ ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے، پس تمھیں جو بتائے کہ آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے تو اُس شخص نے جھوٹ کہا۔ (صحیح مسلم: 862، دارالسلام: 1996)
معلوم ہوا کہ (بغیر شرعی عذر کے) جمعہ کے دن بیٹھ کر خطبہ یا تقریر ثابت نہیں ہے۔

نمبر 11:

رسول اللہ ﷺ کی نماز درمیانی ہوتی تھی اور آپ کا خطبہ بھی درمیانہ ہوتا تھا۔ دیکھئے صحیح مسلم (866)
ایک دفعہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے بہت مختصر اور فصیح و بلیغ خطبہ دیا پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ((إن طول صلاۃ الرجل و قصر خطبتہ مئنۃ من فقھہ فأ طیلوا الصلوۃ وأقصروا الخطبۃ و إن من البیان سحرًا ۔)) بے شک آدمی کی لمبی نماز اور مختصر خطبہ اس کے فقیہ ہونے کی نشانی ہے لہٰذا نماز لمبی پڑھو اور خطبہ مختصر دو اور بے شک بعض بیان میں جادو ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم: 869)
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں:
i: جمعہ کی نماز عام نمازوں سے لمبی اور خطبہ عام خطبوں سے مختصر ہونا چاہئے۔
ii: جو لوگ جمعہ کے دن بہت لمبے خطبے اور بغیر شرعی عذر کے بیٹھ کر خطبہ دیتے ہیں وہ فقیہ نہیں ہیں۔

نمبر 12:

رسول اللہ ﷺ سے درج ذیل خطبہ مطلقاً ثابت ہے: ((إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہُ وَ نَسْتَعِیْنُہُ، مَنْ یَّھْدِہِ اللہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہُ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلاَ ھَادِيَ لَہُ، وَ أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ [أَشْھَدُ] أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، أَمَّا بَعْدُ:)) (صحیح مسلم: 868، سنن النسائی 6/ 89۔ 90 ح 3280 وسندہ صحیح والزیادۃ منہ)
((فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللہِ، وَ خَیْرَ الْھَدْيِ ھَدْيُ مُحَمَّدٍ (ﷺ) وَ شَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٌ)) (صحیح مسلم: 867)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ہر وہ خطبہ جس میں تشہد نہ ہو، اُس ہاتھ کی طرح ہے جو جذام زدہ (یعنی عیب دار اور ناقص) ہے۔ (سنن ابی داود: 4841، وسندہ صحیح وصححہ الترمذی: 1106، و ابن حبان: 1994، 579)
تشہد سے مراد کلمۂ شہادت ہے۔ دیکھئے عون المعبود (4/ 409)
تنبیہ: سنن ابی داود (2118) سنن الترمذی (1105) سنن النسائی (1405) اور سنن ابن ماجہ (1892) میں خطبۃ الحاجہ کے نام سے خطبۂ نکاح مذکور ہے، جس میں تین آیات کی تلاوت کا بھی ذکر ہے: النساء (1) آل عمران (102) اور الاحزاب (70۔ 71)
اس خطبے کی دو سندیں ہیں:
i: شعبہ وغیرہ عن أبي إسحاق عن أبي عبیدۃ عن عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ (یہ سند منقطع ہے۔)
ii: شعبہ کے علاوہ دیگر راوی: عن أبي إسحاق السبیعي عن أبی الأحوص عن عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ (اس کی سند ابو اسحاق مدلس کی تدلیس یعنی عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔)
مسند احمد (1/ 393 ح 3721) میں شعبہ کی ابو اسحاق عن ابی الاحوص کی سند سے ایک مبتور (کٹی ہوئی، بغیر مکمل سند و متن کے) روایت ہے لیکن اس میں ابو الاحوص کے بعد کی سند مذکور نہیں لہٰذا یہ روایت منقطع ہے۔
امام بیہقی (7/ 146) نے صحیح سند کے ساتھ شعبہ سے روایت کیا: ’’عن أبي إسحاق عن أبي عبیدۃ قال: و أراہ عن أبي الأحوص عن عبداللہ عن النبي ﷺ‘‘ معلوم ہوا کہ یہ سند ’’أراہ‘‘ کی وجہ سے مشکوک یعنی ضعیف ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے سورۃ النساء کی پہلی آیت اور سورۃ الحشر کی اٹھارھویں (18) آیت خطبے میں پڑھنا ثابت ہے۔

نمبر 13:

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’کان للنبي ﷺ خطبتان یجلس بینھما، یقرأ القرآن و یذکرّ الناس ۔‘‘ نبی ﷺ کے دو خطبے ہوتے تھے، آپ ان میں بیٹھتے، قرآن پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔ (صحیح مسلم: 862، دارالسلام: 1995)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطبۂ جمعہ کے دو اہم ترین مقاصد ہیں:
i: قراءت ِ قرآن
ii: لوگوں کو نصیحت یعنی خطبۂ جمعہ ذکر بھی ہے اور تذکیر بھی ہے۔
خطبۂ جمعہ نماز کی طرح ذکر نہیں کہ اس میں لوگوں کو نصیحت نہ ہو اور کسی قسم کی گفتگو نہ ہو بلکہ احادیثِ صحیحہ سے رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام کا عند الضرورت ایک دوسرے سے کلام اور باتیں کرنا ثابت ہے۔ مثلاً
i: آپ ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا: ((أصلّیتَ یا فلان؟ ۔)) اے فلاں! کیا تم نے (دو رکعتیں) نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ((قم فارکع۔)) اُٹھو اور نماز پڑھو۔ (صحیح بخاری: 930، صحیح مسلم: 875)
ii: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خطبۂ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! مویشی اور بکریاں ہلاک ہو گئیں، لہٰذا آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ بارش برسائے۔ الخ (صحیح بخاری: 933، واللفظ لہ، صحیح مسلم: 897)
iii: ایک دفعہ جمعہ کے دن نبی ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ لوگ کھڑے ہوگئے اور اونچی آواز سے کہا: یا نبی اللہ! بارش کا قحط ہو گیا، درخت سرخ ہو گئے اور مویشی ہلاک ہو گئے۔ الخ (صحیح بخاری: 1021، صحیح مسلم: 932)
iv: ایک آدمی جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آ رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اُسے فرمایا: ((اجلس فقد آذیت۔)) بیٹھ جا، پس تو نے (لوگوں کو) تکلیف دی ہے۔ (سنن ابی داود: 1118، وسندہ صحیح وصححہ ابن خزیمہ [1811] و ابن حبان [572] والحاکم علیٰ شرط مسلم [1/ 288 ح 1061] ووافقہ الذہبی)
v: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن (منبر پر) چڑھنے کے بعد فرمایا: ((اجلسوا)) بیٹھ جاؤ۔ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے یہ بات سُنی تو (اتباعِ سنت کے جذبے سے) مسجد کے دروازے پر ہی بیٹھ گئے، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے انھیں دیکھا تو فرمایا: ((تعال یا عبداللہ بن مسعود!)) اے عبداللہ بن مسعود! آ جاؤ۔ الخ (سنن ابی داود: 1091، وسندہ حسن، حدیث ابن جریج عن عطاء بن ابی رباح قوی و صححہ ابن خزیمہ: 1780، والحاکم علیٰ شرط الشیخین 1/283۔ 284 ووافقہ الذہبی)
vi: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ خطبۂ جمعہ میں ایک آدمی (سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ) سے باتیں کی تھیں اور انھوں نے بھی جواب میں کلام کیا تھا۔ رضی اللہ عنہما۔ دیکھئے صحیح بخاری (878) وصحیح مسلم (845)
معلوم ہوا کہ خطبہ میں وعظ و نصیحت کے ساتھ خطیب اور سامعین کا شرعی عذر کے ساتھ باہم دینی اور ضروری باتیں کرنا بھی جائز ہے لہٰذا جو لوگ خطبہ کو نماز پر قیاس کرتے ہیں، اُن کا قیاس باطل ہے۔
درج بالا دو دلیلوں: یذکر الناس (لوگوں کو نصیحت) اور خطیب و سامعین کے کلام سے معلوم ہوا کہ مسنون خطبۂ جمعہ اور قراءتِ قرآن کے بعد قرآن و حدیث کا سامعین کی زبان میں ترجمہ اور تشریح بیان کرنا جائز ہے۔
چوتھی صدی ہجری کے حنفی فقیہ ابو اللیث السمرقندی نے کہا: ’’قال أبو حنیفۃ: ۔۔۔۔ أو خطب للجمعۃ بالفارسیۃ ۔۔۔ جاز‘‘ ابو حنیفہ نے کہا: یا اگر فارسی میں خطبۂ جمعہ دے تو جائز ہے۔ (مختلف الروایۃ ج1ص 80۔ 81 فقرہ 4)
برہان الدین محمود بن احمد الحنفی نے کہا: ’’ولو خطب بالفارسیۃ جاز عند أبي حنیفۃ علٰی کل حال۔‘‘ اور اگر فارسی میں خطبہ دے تو ابو حنیفہ کے نزدیک ہر حال میں جائز ہے۔ (المحیط البرہانی ج2ص 450 فقرہ: 2166)
تنبیہ: اس قسم کے بے سند حوالے حنفیہ کے ہاں ’’فقۂ حنفی‘‘ میں حجت ہوتے ہیں لہٰذا ان حوالوں کو بطورِ الزامی دلیل پیش کیا گیا ہے۔
اس فتوے سے امام ابو حنیفہ کا رجوع کسی صحیح یا حسن سند سے ثابت نہیں اور نہ غیر عربی میں خطبۂ جمعہ کی کراہت آپ سے یا سلف صالحین میں سے کسی ایک سے ثابت ہے۔ اس سلسلے میں آلِ دیوبند و آلِ بریلی جو کچھ بیان کرتے ہیں، سب غلط اور باطل ہے۔
خلاصۃ التحقیق: جمعہ کے دن عربی زبان میں خطبۂ مسنونہ اور قراءتِ قرآن (مثلاً سورۃ قٓ) کے بعد سامعین کی زبان (مثلاً اردو، پشتو، پنجابی وغیرہ) میں وعظ و نصیحت جائز ہے اور مکروہ یا حرام قطعاً نہیں ہے۔

نمبر 14:

خطبۂ جمعہ کے دوران میں اگر کوئی شخص باہر سے آئے تو اس کے لئے یہ حکم ہے کہ دو مختصر رکعتیں پڑھ کر بیٹھ جائے۔ دیکھئے صحیح بخاری (1166) اور صحیح مسلم (875)

نمبر 15:

حالتِ خطبہ میں لوگوں (سامعین) کا تشہد کی طرح بیٹھنا ثابت نہیں ہے۔

نمبر 16:

جمعہ کے دن خطبۂ جمعہ سے پہلے مسجد پہنچ جانا چاہئے کیونکہ خطبہ شروع ہوتے ہی فرشتے اپنے رجسٹر لپیٹ کر ذکر یعنی خطبہ سننا شروع کر دیتے ہیں۔
دیکھئے صحیح بخاری (881) وصحیح مسلم (850)

نمبر 17:

خطبہ میں (استسقاء کے علاوہ) دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعا نہ کرے بلکہ صرف شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے۔ دیکھئے صحیح مسلم (874)

نمبر 18:

اگر شرعی ضرورت ہو تو خطبۂ جمعہ میں چندے اور صدقات کی اپیل کرنا جائز ہے۔
دیکھئے مسند الحمیدی بتحقیقی (741 وسندہ حسن) اور سنن الترمذی (511 وقال: ’’حسن صحیح‘‘و صححہ ابن خزیمہ: 1799، 1830، 2481)

نمبر 19:

خطبۂ جمعہ میں خطیب کا دونوں ہاتھوں سے دائیں بائیں اشارے کرنا اور (دھواں دھار انداز میں) ہوا میں ہاتھ لہرانا وغیرہ ثابت نہیں ہے۔

نمبر 20:

خطبۂ جمعہ کی حالت میں خطیب (کی اجازت) کے ساتھ شرعی و مودبانہ سوال جواب کے علاوہ سامعین کے لئے ہر قسم کی گفتگو منع اور حرام ہے۔
ممانعت کے لئے دیکھئے صحیح بخاری (910، 934) اور صحیح مسلم (851، 857)

نمبر 21:

خطبۂ جمعہ میں امام یعنی خطیب کی طرف رُخ کرنا چاہئے۔ جیسا کہ قاضی شریح، عامر الشعبی اور نضر بن انس وغیرہم تابعین سے ثابت ہے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (2/ 118 ح 5227 وسندہ صحیح، ح 5229 وسندہ صحیح، ح 5230 وسندہ صحیح)
بلکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انھوں نے جمعہ کے دن منبر (یعنی خطیب) کی طرف رُخ کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 118 ح 5233 وسندہ صحیح، نیز دیکھئے الاوسط لابن المنذر 4/74۔ 75)

نمبر 22:

خطبۂ جمعہ کی حالت میں سامعین کا گوٹھ مار کر بیٹھنا ممنوع ہے۔
دیکھئے سنن ابی داود (1110، وسندہ حسن و حسنہ الترمذی: 514)

نمبر 23:

جمعہ کے دن اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہو (یعنی مسجد میں پاؤں رکھے) تو وہاں قریب کے لوگوں کو (آہستہ سے) سلام کہنا جائز ہے، جیسا کہ حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان سے ثابت ہے اور وہ لوگ اس کا جواب دیں گے۔ (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 120 ح 5260 وسندہ صحیح)
اور اس حالت میں سلام نہ کہنا اور جواب نہ دینا بھی جائز ہے جیسا کہ ابراہیم نخعی کے اثر سے معلوم ہوتا ہے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (2/ 121 ح 5264 وسندہ صحیح، ح 5268 وسندہ صحیح)اور فقرہ:6

نمبر 24:

ہر خطبے میں نبی ﷺ پر درود پڑھنا چاہئے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور نبی ﷺ پر درود پڑھا۔ الخ (زوائد عبداللہ بن احمد علیٰ مسند الامام احمد 1/106 ح 837 وسندہ صحیح)
نیز دیکھئے جلا ء الافہام فی فضل الصلوٰۃ والسلام علیٰ محمد خیر الانام ﷺ (ص 368۔ 371، اور نسخہ محققہ بتحقیق الشیخ مشہور حسن ص 438۔ 442) اور کتاب الام للشافعی (1/200، مختصر المزنی ص27)

نمبر 25:

محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر بن الخطاب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) منبر کی ایک طرف کھڑے ہو جاتے تو اپنے جوتوں کے تلوے اپنے بازوؤں پر رکھتے پھر منبر کی لکڑی (رُمانہ) پکڑ کر فرماتے: ’’ابو القاسم ﷺ نے فرمایا، محمد ﷺ نے فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، الصادق المصدوق ﷺ نے فرمایا۔ پھر بعد میں فرماتے: ’’عربوں کے لئے تباہی ہے اُس شر سے جو قریب ہے۔‘‘ پھر جب مقصورہ کے دروازے کی طرف سے امام کے خروج کی آواز سنتے تو بیٹھ جاتے تھے۔ (المستدرک للحاکم 1/ 108 ح 367 وصححہ علیٰ شرط الشیخین و قال الذہبی: ’’فیہ انقطاع‘‘ یعنی یہ روایت منقطع ہے۔ 3/512 ح 6173 و صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی!!)
حافظ ذہبی کو دوسری موافقت میں تو نسیان ہوا لیکن اُن کے پہلے قول سے صاف ظاہر ہے کہ یہ روایت منقطع ہے کیونکہ محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر کی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔
اس ضعیف اثر کو سرفراز خان صفدر دیوبندی نے اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ ’’جمعہ کے خطبہ سے پہلے تقریر کا متعدد صحابۂ کرام سے ثبوت ہے۔‘‘ (راہِ سنت ص 301)
اس سلسلے میں سرفراز خان صفدر نے الاصابہ (ج1ص 184) کے ذریعے سے سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک بے سند قصہ بھی ذکر کیا ہے جو کہ بے سند ہونے کی وجہ سے غیر ثابت اور مردود ہے۔
سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن امام کے خروج سے پہلے بیٹھ کر حدیثیں سناتے رہے۔ دیکھئے المستدرک (1/ 288 ح 1061، صحیح ابن خزیمہ 3/ 156ح 1811، وسندہ صحیح) اور یہی مضمون فقرہ نمبر 13، ذیلی نمبر4
سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کے اس واقعے سے دیوبندیوں و بریلویوں کی مروجہ اردو، پشتواور پنجابی وغیرہ تقریروں کا ثبوت کشید کرنا غلط ہے۔ کیونکہ سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ تو عربی زبان میں حدیثیں سناتے تھے، نہ کہ اردو یا پشتو، پنجابی میں تقریر کرتے تھے (!)
لہٰذا بریلوی کا دیوبندیوں پر دوسرا اعتراض: ’’جمعہ کے دن خطبہ سے قبل تقریر کرنا بدعت ہے مگر تم بھی کرتے ہو۔‘‘ جیسا کہ راہِ سنت میں مذکور ہے (دیکھئے ص 301) بالکل صحیح اور بجا ہے۔
اس اعتراض کا جواب صرف اُس وقت ممکن ہے جب آلِ دیوبند اور آلِ بریلی دونوں مل کر یہ ثابت کر دیں کہ فلاں صحابی پہلے فارسی میں تقریر کرتے تھے اور بعد میں جمعہ کے دو خطبے صرف عربی میں پڑھتے تھے۔ اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو پھر اُن کا عربی مسنون خطبۂ جمعہ اور قراءتِ قرآن کے بعد اُردو وغیرہ غیر عربی زبانوں میں لوگوں کو سمجھانے کے لئے کتاب و سنت کے ترجمہ و تشریح پر اعتراض باطل ہے۔

نمبر 26:

خطبۂ جمعہ کے علاوہ دوسرا خطبہ (تقریر) بیٹھ کر بھی جائز ہے۔ (دیکھئے صحیح بخاری:921)

نمبر 27:

اگر کوئی عذر ہو تو خطیب کسی دوسرے شخص کو نماز پڑھانے کے لئے آگے مصلے پر کھڑا کر سکتا ہے۔ دیکھئے مسائل الامام احمد و اسحاق بن راہویہ (1/ 229 فقرہ: 526)
لیکن بہتر یہی ہے کہ خطیب ہی نماز پڑھائے۔

نمبر 28:

خطبہ میں دینِ اسلام اور مسلمانوں کے لئے دعا کرنی چاہئے۔

نمبر 29:

جب خطیب خطبۂ جمعہ کے لئے عین خطبے کے وقت آئے تو منبر پر بیٹھ جائے، یعنی دو رکعتیں نہ پڑھے، جیسا کہ ابو الولید الباجی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صحیح واقعے سے ثابت کیا ہے: ’’فإذا خرج عمر و جلس علی المنبر و أذن المؤذنون‘‘ إلخ پھر جب عمر (رضی اللہ عنہ) تشریف لاتے اور منبر پر بیٹھ جاتے اور موذنین اذان دیتے۔ الخ (المنتقیٰ شرح الموطأ ج2 ص 113)

نمبر 30:

جمعہ کے دن (خطیب ہوں یا عام نمازی، سب کو) اچھا لباس پہننا چاہئے۔
دیکھئے سنن ابی داود (343) اور مسند احمد (3/ 81 وسندہ حسن)

نمبر 31:

سب سے بہتر لباس سفید لباس ہے۔
دیکھئے سنن ابی داود (4061 وسندہ حسن) و صححہ الترمذی (994) و ابن حبان (1439۔ 1441)والحاکم علیٰ شرط مسلم (1/354) ووافقہ الذہبی
دوسرا لباس بھی جائز ہے، بشرطیکہ کسی شرعی دلیل کے خلاف نہ ہو۔ (دیکھئے سورۃ الاعراف:32)

نمبر 32:

سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور آپ نے کالا عمامہ باندھا ہوا تھا۔ (صحیح مسلم: 1359، دارالسلام: 3311)
تنبیہ: سفید عمامہ بھی جائز ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سر پر سفید عمامہ باندھا تھا۔ دیکھئے المستدرک (ج4 ص 540 ح 8623، اتحاف المہرۃ 8/590ح 10015، وھو حدیث حسن لذاتہ) اور ص598

نمبر 33:

ٹوپی پہننا بھی جائز ہے۔
دیکھئے التاریخ الکبیر للبخاری (1/ 428 عن ابی موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ موقوفاً علیہ وسندہ صحیح)

نمبر 34:

رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں خطبہ دیا اور آپ پر دھاری دار سرخ چادر تھی۔
(مسند احمد 3/ 477 وسندہ صحیح، سنن ابی داود:4073)

نمبر 35:

خطبۂ جمعہ منبر پر ہی ہونا چاہئے۔
دیکھئے فقرہ نمبر1، اور مجموع شرح المہذب (4/527)

نمبر 36:

منبر دائیں طرف ہونا چاہئے، جیسا کہ مسجد نبوی میں ہے۔

نمبر 37:

دورانِ خطبہ نعرۂ تکبیر یا کسی قسم کے نعرے بلند کرنا ثابت نہیں ہے۔

نمبر 38:

دورانِ خطبہ خطیب کا مقتدیوں سے بار بار سبحان اللہ پڑھانا ثابت نہیں ہے۔

نمبر 39:

عوام کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ صرف صحیح العقیدہ علماء کے خطبے سنیں اور اہلِ بدعت کے ہر قسم کے خطبے سے دور رہیں، جیسا کہ حدیث: ’’من وقرصاحب بدعۃ فقد أعان علٰی ھدم الإسلام‘‘ جس نے بدعتی کی عزت کی تو اس نے اسلام کے گرانے میں مدد کی۔ (کتاب الشریعۃ للآجری ص 962 ح 2040 وسندہ صحیح، علمی مقالات ج2ص 556) اور عام دلائلِ شرعیہ سے ثابت ہے۔

نمبر 40:

خطبہ کے آخر میں استغفار کرنا چاہئے، جیسا کہ کفارۃ المجلس والی حدیث کے عموم سے ثابت ہے۔ دیکھے سنن ابی داود (4857 وسندہ صحیح، 4859 وسندہ حسن)

No comments:

Post a Comment