سوال: حضرت شیخ نے فضائلِ صدقات حصہ دوم میں حدیث ۱۰/ کے تحت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا خط نقل کیا ہے جس کے آخر میں وہ یہ کہتے ہیں کہ یا اللہ بہت کمزورہوں، گناہ گار ہوں، سب تیرا ہی ظل ہے، اور میں ہوں وہ تو ہے اور جو تو ہے وہ میں ہوں، اور میں تو شرک درشرک ہے۔ اس عبارت کولے کر غیر مقلدین بڑا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ یہ جماعتی ہمہ اوست کی تبلیغ کرتے ہیں اور ان دیوبندیوں کا یہی عقیدہ ہے۔ اس کے بارے میں تفصیل سے وضاحت فرمائیں؟
جواب:
شطحیات کیا ہیں:
بعض اہلِ حال سے غلبہ حال میں ایسے کلمات صادر ہوجاتے ہیں جو شریعت پر منطبق نہیں ہوتے۔(التکشف 519) ’’بے اختیاری‘‘ کی حالت میں جو غلبہ وارد کی وجہ سے قواعدِ شریعت کے خلاف کوئی بات منہ سے نکل جائے وہ ’’شطح‘‘ ہے۔ اس شخص پر نہ گناہ ہے اور نہ ہی اس بات میں اس کی تقلید جائز ہے۔(تعلیم الدین)
(دیکھئے مقدمہ ابن خلدون230)
اکابر(بزرگوں) کے کلام میں بہت سے الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن پر ظاہر بیں کفر تک کا فتویٰ لگادیتے ہیں اس قسم کے الفاظ غلبہ شوق یا سکر کی حالت میں نکل جاتے ہین وہ نہ موجبِ کفر ہیں اورنہ موجبِ تقلید۔ حدیث میں آیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جیساکہ ایک آدمی سفر میں جارہا ہو اور اس کی اونٹی پر اس کا ساراسامان کھانے پینے ک اہے اورایسے جنگل میں جو بڑا خطرناک وہلاکت کا محل ہے تھوڑ دیر کو لیٹا, ذرا آنکھ لگی اور جب آنکھ کھلی تو اس کی اونٹنی کہیں بھاگ گئی۔ وہ ڈھونڈتا رہا اور گرمی اور پیاس کی شدت بڑھ گئی تو وہ اس نیت سے اسی جگہ آکر لیٹ گیا کہ مرجائوں گا اور ہاتھ پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر میں آنکھ کھلی تو اس کی اونٹنی پاس کھڑی تھی اس پر سارا سازوسامان کھانے پینے کا موجود تھا۔ اس وقت میں اس کی خوشی کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا اور خوشی میں کہنے لگا: اے اللہ تو میرا بندہ میں تیرا رب۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ شدتِ فرح سے چوک گیا۔ یہ روایت بخاری(6309) ومسلم(2747) مین حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت انسؓ سے مختلف الفاظ سے نقل کی گئی ہے۔
’’سب تیرا ہی ظل ہے‘‘ اس جملے کا واضح مطلب یہ ہے کہ تمام موجودات کا وجود ذاتِ باری تعالیٰ کے وجود سے ہے۔ موجودات کا اپنا مستقل ذاتی وجود نہیں بلکہ تمام موجودات اپنے وجود میں ذاتِ باری تعالیٰ کی محتاج ہیں اور اس کی قدرت کاملہ کا نتیجہ ہیں۔ ’’میں ہوں وہ تو ہے، جو تو ہے وہ میں ہوں‘‘ یہ جملہ صوفیا کی اصطلاح ’’عینیت‘‘ کی ایک تعبیر ہے جس کا مطلب صوفیا کے یہاں عین ذاتِ باری تعالیٰ کا احتیاج ہے۔ یعنی جتنی مخلوقات اور اسبابِ ظاہریہ ہیں، ان کا وجود اور ان کی تاثیر ہیچ اور کالعدم نظر آنے لگے اور آدمی اپنے کو صرف عین ذاتِ باری تعالیٰ کا محتاج سمجھنے لگے۔ جس شخص کو اللہ نے حقیقت شناس نگاہ دی ہو وہ جب اس کائنات میں اللہ کے وجود کی معرفت حاصل کرتا ہے تو اسے تمام موجودات کالعدم اور ان کی تاثیرات ہیچ نظر آنے لگتی ہے، اور اسے اپنے ہرعمل کے پیچھے ذاتِ باری تعالیٰ کی وہ قدرت نظر آتی ہے جس کی آیت کریمہ:
سو تم نے ان کو نہیں مارا لیکن اللہ نے ان کو مارا اور تو نے نہینں پھینکی مٹھی خا ک کی جس وقت کہ پھینکی تھی لیکن اللہ نے پھینکی اور تاکہ کرے ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان بیشک اللہ ہے سننے والا جاننے والا۔
[سورۃ الانفال:17]
میں نشاندہی کی گئی ہے۔ اور جس کو حدیث قدسی میں یوں بیان کیا گیا ہے:
شطحیات کیا ہیں:
بعض اہلِ حال سے غلبہ حال میں ایسے کلمات صادر ہوجاتے ہیں جو شریعت پر منطبق نہیں ہوتے۔(التکشف 519) ’’بے اختیاری‘‘ کی حالت میں جو غلبہ وارد کی وجہ سے قواعدِ شریعت کے خلاف کوئی بات منہ سے نکل جائے وہ ’’شطح‘‘ ہے۔ اس شخص پر نہ گناہ ہے اور نہ ہی اس بات میں اس کی تقلید جائز ہے۔(تعلیم الدین)
(دیکھئے مقدمہ ابن خلدون230)
اکابر(بزرگوں) کے کلام میں بہت سے الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن پر ظاہر بیں کفر تک کا فتویٰ لگادیتے ہیں اس قسم کے الفاظ غلبہ شوق یا سکر کی حالت میں نکل جاتے ہین وہ نہ موجبِ کفر ہیں اورنہ موجبِ تقلید۔ حدیث میں آیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جیساکہ ایک آدمی سفر میں جارہا ہو اور اس کی اونٹی پر اس کا ساراسامان کھانے پینے ک اہے اورایسے جنگل میں جو بڑا خطرناک وہلاکت کا محل ہے تھوڑ دیر کو لیٹا, ذرا آنکھ لگی اور جب آنکھ کھلی تو اس کی اونٹنی کہیں بھاگ گئی۔ وہ ڈھونڈتا رہا اور گرمی اور پیاس کی شدت بڑھ گئی تو وہ اس نیت سے اسی جگہ آکر لیٹ گیا کہ مرجائوں گا اور ہاتھ پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر میں آنکھ کھلی تو اس کی اونٹنی پاس کھڑی تھی اس پر سارا سازوسامان کھانے پینے کا موجود تھا۔ اس وقت میں اس کی خوشی کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا اور خوشی میں کہنے لگا: اے اللہ تو میرا بندہ میں تیرا رب۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ شدتِ فرح سے چوک گیا۔ یہ روایت بخاری(6309) ومسلم(2747) مین حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت انسؓ سے مختلف الفاظ سے نقل کی گئی ہے۔
[شریعت وطریقت کا تلازم: ۔شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی ص202]
سو تم نے ان کو نہیں مارا لیکن اللہ نے ان کو مارا اور تو نے نہینں پھینکی مٹھی خا ک کی جس وقت کہ پھینکی تھی لیکن اللہ نے پھینکی اور تاکہ کرے ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان بیشک اللہ ہے سننے والا جاننے والا۔
[سورۃ الانفال:17]
میں نشاندہی کی گئی ہے۔ اور جس کو حدیث قدسی میں یوں بیان کیا گیا ہے:
وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا
ترجمہ:
ترجمہ:
...اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔
[صحیح بخاری:6502، صحيح ابن حبان:347]
[صحیح بخاری:6502، صحيح ابن حبان:347]
اس کی نظیر یوں سمجھئے: دن میں آسمان پر سوج موجود ہو تو ستارے نظر نہیں آتے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ستارے موجود ہی نہیں بلکہ ستارے یقینا موجود ہوتے ہیں لیکن سورج کا وجود ان پر اس طرح غالب ہوجاتا ہے کہ اس کے سامنے ان کا وجود نظر نہیں آتا، اسی طرح جس شخص کو اللہ نے حقیقت شناس نگاہ دی ہو وہ جب اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے وجود کی معرفت حاصل کرلیتا ہے تو تمام وجود اسے ہیچ اور کالعدم نظر آتے ہیں، وحدت الوجود کا صاف اور صحیح مطلب یہی ہے اور ہمارے اکابر علمائے دیوبند اسی معنی ومفہوم میں وحدت الوجود کے قائل ہیں۔
[مستفاد از فتاویٰ عثمانی: ۱/۷۱، ۷۲]
اس حدیث کا مضمون مذکورہ فی السوال عبارت کے مضمون سے کافی قریب ہے۔ پس ’’عینیت‘‘ اسی طرح ’’وحدة الوجود‘‘ کی اصطلاح کا صرف اتنا مطلب ہے کہ عارف کو ذاتِ باری تعالیٰ کے وجود کی معرفت ہوجائے اوراس کو اس درجہ استغراق ہو کہ جملہ مخلوقات سے بے خبر ہوجائے۔ اور تمام مخلوقات سے بے نیاز ہوکر اپنے کو صرف اسی ایک ذات کا محتاج سمجھنے لگے۔ ’’وحدة الوجود‘‘ یا ’’عینیت‘‘ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تمام موجودات اور باری تعالیٰ کا وجود متحد ہے جیسا کہ ظاہراً سمجھ میں آتا ہے، بلکہ یہ کھلا ہوا شرک ہے اور اسی کو حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’شرک در شرک‘‘ فرمایا ہے۔ پس کسی صاحب فن پر اعتراض کرنے سے پہلے متعلق فن کی اصطلاحات اور تعبیرات کا جاننا ضروری ہے۔ ورنہ پھر ایک صحیح العقیدہ کی طرف غلط اور کفریہ عقائد منسوب کرکے اس وعید کے مستحق ہوں گے جو حدیث پاک میں وارد ہوئی ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لِأَخِيهِ: كَافِرٌ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ، وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَيْهِ».
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لِأَخِيهِ: كَافِرٌ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ، وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَيْهِ».
ترجمہ:
جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پہ کفر آئے گا اگر وہ واقعی کافر ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا۔
جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پہ کفر آئے گا اگر وہ واقعی کافر ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا۔
[صحیح مسلم:60، صحیح ابن حبان:250]
والرابعة أن لا يرى في الوجود إلا واحداً وهي مشاهدة الصديقين وتسمية الصوفية الفناء في التوحيد لأنه من حيث لا يرى إلا واحداً فلا يرى نفسه أيضاً وإذا لم ير نفسه لكونه مستغرقاً بالتوحيد كان فانياً عن نفسه في توحيده بمعنى أنه فني عن رؤية نفسه والخلق.
(احياء علوم الدين ٤/٢٤٥)
''توحید کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ بندہ صرف ذات باری ہی کو موجود دیکھے۔ یہی صد یقین کا مشاہدہ ہے اور صوفیہ اِسے ہی فنا فی التوحید کہتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس مرتبہ میں بندہ چونکہ وجود واحد کے سوا کچھ نہیں دیکھتا، چنانچہ وہ اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتا۔ اور جب وہ توحید میں اس استغراق کے باعث اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتا تو اُس کی ذات اِس توحید میں فنا ہو جاتی ہے، یعنی اِس مرتبہ میںاُس کا نفس اور مخلوق، دونوں اُس کی نگاہوں کے لیے معدوم ہو جاتے ہیں۔''
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی شاعر کی کہی سب سے سچی بات لبید شاعر کا یہ کلام ہے:
أَلَا کُلُّ شَیۡءٍ مَا خَلَا اللہَ، بَاطِلُ (یعنی) اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔
[بخٓاری:6147]
امام غزالیؒ (المتوفى: 505هـ) نے لکھا ہے:
فاعلم ان هذه غاية علوم المکاشفات واسرار هذا العلم لا يجوز ان تسطر فی کتاب، فقد قالالعارفون: افشاء سر الربوبية کفر.
(احياء علوم الدين ٤/٢٤٦)
(احياء علوم الدين ٤/٢٤٦)
''پس جاننا چاہیے کہ علوم مکاشفات کی اصل غایت یہی توحید ہے اور اِس علم کے اسرار کسی کتاب میں لکھے نہیں جا سکتے، اِس لیے کہ عارفین کا قول ہے کہ ربوبیت کے راز کو فاش کرنا کفر ہے۔''
حضرت علیؓ نے فرمایا:
«حَدِّثُوا النَّاسَ، بِمَا يَعْرِفُونَ أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ، اللَّهُ وَرَسُولُهُ»
لوگوں کو ایسی حدیث(بات)کہو جو وہ سمجھ سکیں،کیا تم چاہتے ہو کہ الله اور اس کے رسول کو جھٹلایا جاۓ؟
[بخاری:127]
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے:
«مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا لَا تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ، إِلَّا كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةً»
جب تم لوگوں سے ایسی حدیث(بات)کہو گے جو ان کی عقل نہ سمجھ سکے تو یہ ان کیلئے فتنہ کا باعث بن جائے گی۔
[مسلم:1/11 مقدمہ]
شیخ احمد سرہندیؒ نے
توحید شہودی کا نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ عالم چونکہ مرتبہ وہم میں بہرحال ثابت ہے، اِس لیے نفی صرف شہود کی ہونی چاہیے۔ اُن کے نزدیک، اِس مقام پر سالک اللہ کے سوا کچھ نہیں دیکھتا۔ چنانچہ اِس وقت اُس کی توحید یہ ہے کہ وہ مشہود صرف اللہ کو مانے۔ ''مکتوبات'' میں ہے:
توحید شہودی یکے دیدن است، یعنی مشہود سالک جزیکے نہ باشد۔ (مکتوبات ١، مکتوب ٤٣)
''توحید شہودی یہ ہے کہ تنہا ذات حق ہی دکھائی دے، یعنی سالک کا مشہود اُس ذات کے سوا کوئی دوسرا نہ ہو۔''
No comments:
Post a Comment