Monday, 28 May 2012

دجال ۔۔۔ کیا، کون؟ کب؟ کہاں؟ کتنے اور کیسے؟؟


دجال کے معنیٰ ہیں حقیقت کو چھپانے والا، سب سے بڑا دھوکے باز اور چالباز۔

لفظ دجال کا مادہ دجل ہے جس کے معنیٰ ہیں خلط ملط کر دینا، تلبیس یعنی شیطانی چالوں سے دوسروں کو دھوکے اور التباس میں ڈالنا، ملمع سازی کرنا، حقیقت کو چھپانا، جھوٹ بولنا اور غلط بیانی کرنا۔ گویا دجال میں یہ تمام منفی اوصاف پائے جاتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں دجال سے مراد جھوٹا مسیح (المسیح الدجال) ہے جو قیامت کی اہم نشانیوں میں سے ایک ہے۔ وہ آخری زمانے میں ظاہر ہوگا اور نبوت اور خدائی کا دعویٰ کرے گا۔

خروج دجّال کے متعلق عقیدہ رکھنا کتنا اہم ہے اور فتنۂ دجّال کی کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حدیث کی تمام مستند کتابوں میں اس کا ذکر "تواتر" سے موجود ہے۔

امام بخاری نے دجّال پر ایک خصوصی باب مختص کیا ہے اور صحیح بخاری میں 51 مرتبہ دجّال کا ذکر آیا ہے۔
[صحيح البخاري« حديث نمبر 86، 184، 832، 833، 922، 1053، 1377، 1555، 1879، 1880، 1881، 1882، 2543، 3057، 3239 ،3337، 3338، 3355، 3395، 3439، 3441، 3450، 3451، 4366، 4402، 4707، 5902، 5913، 6175، 6365، 6368، 6375، 6377، 6999، 7026، 7122، 7124، 7125، 7127، 7128، 7129، 7130، 7131، 7132، 7133، 7134، 7287، 7355، 7407، 7473]


صحیح مسلم میں بھی دجّال پر ایک باب قائم ہے اور صحیح مسلم میں لفظ دجّال 65 مرتبہ مذکور ہے۔

سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی میں بھی دجّال پر ابواب موجود ہیں اور ان دونوں مجموعہ ہائے احادیث میں لفظ دجّال بالترتیب 28 اور 33 مرتبہ آیا ہے۔

سنن ابن ماجہ میں لفظ دجّال 18 مرتبہ،

مسند احمد میں 206 مرتبہ،

مؤطا امام مالک میں 5 مرتبہ آیا ہے۔

امام ابو یعلیٰ، امام بزار، امام طبری، امام ابن ماجہ، امام ہیثمی رحمہم اللہ کے اپنے اپنے مرتب کردہ مجموعہ ہائے احادیث میں دجّال کا لفظ اتنی بار مذکور ہے کہ اس کی حیثیت ایک ذخیرے کی سی ہے اور ان کا شمار کرنا تقریباً ناممکن امر ہے۔ امام حاکم، امام قرطبی، نعیم بن حماد، ابن کثیر، علامہ برزنجی اور شیخ یوسف مقدسی کے مرتب کردہ مجموعہ ہائے احادیث میں بھی دجّال سے متعلق کثرت سے روایات موجود ہیں۔







دجال کا نکلنا» قیامت کی بڑی علامت میں سے ایک ہے۔
فتنۂ دجال کی سنگینی

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ - رضي الله عنهما - قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" لَقَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ (¬1) فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا مِنْ فِتْنَةِ الدجال (¬2) "
¬_________
ترجمہ:
حدیث#1
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بے شک مجھ پر وحی بھیجی گئی ہے کہ تم قبروں میں (فوت ہونے کے بعد) آزمائش میں ڈالے جاؤ گے، (یہ آزمائش) فتنۂ دجال کے قریب قریب (ہوگی)۔"
[صحيح البخاري:994]
---
تشریح:
1۔"فِتْنَة" سے مراد آزمائش اور امتحان ہے۔
2۔دونوں فتنوں (قبر کے فتنے اور دجال کے فتنے) میں مشابہت کی وجہ شدت، ہولناکی اور عمومیت ہے۔ (شرح سنن النسائی - ج 3 / ص 296)

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص102]




عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" إِنَّهُ لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ مُنْذُ ذَرَأَ اللَّهُ ذُرِّيَّةَ آدَمَ أَعْظَمَ مِنْ فِتْنَةِ الدجال "

¬_________
ترجمہ:
حدیث#2
فتنۂ دجال کی شدت:
حضرت ابی امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بے شک اللہ تعالیٰ نے جس دن سے اولاد آدم کو پیدا کیا ہے، زمین پر فتنۂ دجال سے بڑھ کر کوئی (اور) فتنہ نہیں ہوا۔"
[سنن ابن ماجة:4077، مستدرک حاکم:8620]
[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص103]





عَنْ ابْنِ عُمَرَ - رضي الله عنهما - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" مَا بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ أَمْرٌ أَعْظَمُ مِنْ الدجال " (¬1)
وفي رواية (¬2): " مَا كَانَتْ فِتْنَةٌ وَلَا تَكُونُ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ أَكْبَرَ مِنْ فِتْنَةِ الدّجَّالِ " 

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص104]


ترجمہ:
حدیث#3
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"آدم (علیہ السلام) کی پیدائش سے لے کر قیامت تک (کائنات میں) دجال سے بڑھ کر کوئی (شدید) واقعہ نہیں ہے۔"

اور دوسری روایت میں ہے:
"نہ تو (ماضی میں) کوئی فتنہ ہوا ہے اور نہ ہی قیامت کے قائم ہونے تک کوئی فتنہ ہوگا، جو فتنۂ دجال سے بڑھ کر ہو۔"

¬_________
(¬1) صحیح مسلم:2946، مسند احمد:16298
(¬2) عند (ك) 64، انظر الصَّحِيحَة:3081
---





عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ - رضي الله عنه - قَالَ:
ذُكِرَ الدجال عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: " لَأَنَا لِفِتْنَةِ بَعْضِكُمْ أَخْوَفُ عِنْدِي مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ , وَلَنْ يَنْجُوَ أَحَدٌ مِمَّا قَبْلَهَا إِلَّا نَجَا مِنْهَا , وَمَا صُنِعَتْ فِتْنَةٌ مُنْذُ كَانَتْ الدُّنْيَا صَغِيرَةٌ وَلَا كَبِيرَةٌ إِلَّا لِفِتْنَةِ الدَّجَّالِ " (¬1)

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص105]

ترجمہ:
حدیث#4
حضرت حذيفہ بن يمان رضي الله عنه سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے دجال کا ذکر کيا گيا تو آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
"بے شک ميں تم ميں سے کسی کی (دنیاوی) فتنہ سے زيادہ ڈرتا ہوں دجال کے فتنہ سے، اور جو شخص اس (دجال) سے پہلے (آنے والے فتنوں) سے بچ جائے گا وہ اس (دجال کے فتنہ) سے بھی بچ جائے گا، اور جب سے دنيا ہے چھوٹا يا بڑا کوئی فتنہ نہيں بنايا گيا مگر فتنہ دجال کے ليے (يعنی اس کی نسبت سے يا اس کے مشابہ)۔"(1)
¬_________
(¬1) مسند احمد:23352 , صحیح ابن حبان:6807، انظر الصَّحِيحَة:3082، وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
یعنی يہ حديث امام احمد نے مسند ميں روايت کی ہے، حديث نمبر: 23352، اور امام ابن حبان نے صحيح ميں روايت کی ہے، حديث نمبر: 6807۔ نيز ديکھيے الصحيحہ: 3082، اور شيخ شعيب الارناؤوط نے کہا ہے کہ اس کا سند صحيح ہے۔




الِاسْتِعَاذَةُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدجال
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ - رضي الله عنه - قَالَ:
" بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِي حَائِطٍ (¬1) لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ , إِذْ حَادَتْ بِهِ (¬2) فَكَادَتْ تُلْقِيهِ (¬3) " , وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ , فَقَالَ: " مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ؟ " , فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا , قَالَ: " فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ؟ " , قَالَ: مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ (¬4)
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا , فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا (¬5) لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ , ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ: تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ " , فَقُلْنَا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ , فَقَالَ: " تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ " , فَقُلْنَا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ , فَقَالَ: " تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ الْفِتَنِ (¬6) مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ (¬7) " , فَقُلْنَا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ , فَقَالَ: " تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدجال " , فَقُلْنَا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدجال. (¬8)
¬_________
(¬1) الْحَائِطُ: الْبُسْتَانُ مِنْ النَّخْلِ إِذَا كَانَ عَلَيْهِ حَائِطٌ وَهُوَ الْجِدَارُ.
(¬2) أَيْ: مَالَتْ عَنْ الطَّرِيق وَنَفَرَتْ.
(¬3) أَيْ: تُسقِطُه وترميه عن ظهرها. مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (ج 1 / ص 460)
(¬4) قال ابن حجر: أي بعد بعثتك , بدليل قوله (إن هذه الأمة تبتلى في قبورها) أي: بالعذاب فيها , قال: وإنما حملته على ذلك ليوافق الأصح أن أهل الفترة لا عقاب عليهم. أ. هـ وأهل الفترة على ما حققوا فيه نادر الوجود , فكيف يحمل على أهل الشرك؟ , فقال: (إن هذه الأمة) أي: جنس الإنسان , فهذه إشارة لما في الذهن , وأصل الأمة: كل جماعة يجمعهم أمر واحد , إما دين أو زمان أو مكان , (تُبْتَلَى) أي: تُمْتَحَنُ في قبورها , ثم تُنَعَّمُ أو تُعَذَّب. مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (ج 1 / ص 460)
(¬5) أَيْ: لَوْلَا أَنْ يُفْضِي سَمَاعُكُمْ إِلَى تَرْكِ أَنْ يَدْفِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا. شرح سنن النسائي - (ج 3 / ص 294)
(¬6) الفتن: جمع فتنة , وهي الامتحان , وتستعمل في المكر والبلاء , وهو تعميم بعد تخصيص. مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (ج 1 / ص 461)
(¬7) هو عبارة عن شمولها , لأن الفتنة لا تخلو منهما , أي: ما جهر وأسر , وقيل: ما يجري على ظاهر الإنسان وما يكون في القلب من الشرك والرياء والحسد وغير ذلك من مذمومات الخواطر. مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (ج 1 / ص 461)
(¬8) (م) 2867 , (حم) 21701

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص107]

ترجمہ:

حدیث#5
اللہ کی پناہ میں آنا فتنۂ دجال سے

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو نجار کے ایک باغ (حائط) میں اپنی ایک خچر پر سوار تھے اور ہم آپ کے ساتھ تھے کہ اچانک خچر نے آپ کو لے کر جھٹکا دیا اور قریب تھا کہ آپ کو گرا دے، وہاں چار یا پانچ یا چھ قبریں تھیں۔ آپ نے پوچھا: "ان قبروں والوں کو کون جانتا ہے؟" ایک شخص بولا: میں۔ آپ نے پوچھا: "یہ کب مرے ہیں؟" اس نے کہا: شرک کی حالت میں مرے ہیں۔

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اس امت کو ان کی قبروں میں آزمایا جائے گا۔ اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے کو دفن نہ کرو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ تمہیں قبر کے عذاب میں سے وہ سنائے جو میں اس سے سنتا ہوں۔" پھر آپ نے ہماری طرف رخ کر کے فرمایا: "تم اللہ کی پناہ مانگو دوزخ کے عذاب سے۔" ہم نے کہا: ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں دوزخ کے عذاب سے۔ آپ نے فرمایا: "تم اللہ کی پناہ مانگو قبر کے عذاب سے۔" ہم نے کہا: ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں قبر کے عذاب سے۔ آپ نے فرمایا: "تم اللہ کی پناہ مانگو ہر فتنہ سے، خواہ وہ ظاہر ہو یا پوشیدہ۔" ہم نے کہا: ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ہر فتنہ سے، خواہ وہ ظاہر ہو یا پوشیدہ۔ آپ نے فرمایا: "تم اللہ کی پناہ مانگو دجال کے فتنہ سے۔" ہم نے کہا: ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں دجال کے فتنہ سے۔

---

تشریح:
1۔حائط سے مراد وہ باغ ہے جس کے گرد دیوار ہو۔
2۔حادت به: یعنی خچر راستے سے ہٹ گئی اور بدک گئی۔
3۔تلقيه: یعنی آپ کو گرانے لگی۔
4۔ماتوا في الإشراك: یعنی آپ کی بعثت کے بعد شرک کی حالت میں مرے، کیونکہ آپ نے فرمایا "اس امت کو قبروں میں آزمایا جائے گا"، اور صحیح بات یہ ہے کہ اہل فترہ پر عذاب نہیں ہے، لہذا یہاں امت سے مراد بنی نوع انسان ہے، اور ابتلاء سے مراد امتحان ہے، پھر انعام یا عذاب ہو گا۔
5۔لا تَدافَنُوا: یعنی اس خوف سے کہ تم ایک دوسرے کو دفن کرنا چھوڑ دو گے۔
6۔الفتن: فتنہ کی جمع ہے، یعنی آزمائش، اور یہاں مراد ہر طرح کے فتنے ہیں۔
7۔ما ظهر منها وما بطن: یعنی ہر ظاہری اور پوشیدہ فتنہ، خواہ وہ دل میں ہو جیسے شرک، ریاء، حسد وغیرہ۔
8۔یہ حدیث مسلم (2867) اور مسند احمد (21701) میں ہے۔




عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ - رضي الله عنهما - قَالَ:
" (كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يُعَلِّمُنَا هَذَا الدُّعَاءَ كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ) (¬1) (يَقُولُ: إِذَا فَرَغَ أَحَدُكُمْ مِنْ التَّشَهُّدِ الْآخِرِ (¬2) فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْ أَرْبَعٍ (¬3) يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ , وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ , وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ (¬4) وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدجال) (¬5) "
¬_________
(¬1) (م) 590
(¬2) قوله: (إِذَا فَرَغَ أَحَدكُمْ مِنْ التَّشَهُّد الْآخَر): فِيهِ تَعْيِين مَحَلّ هَذِهِ الِاسْتِعَاذَة بَعْد التَّشَهُّد الْأَخِير , وَهُوَ مُقَيَّد وَحَدِيث عَائِشَة الْمَرْوِيّ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَالسُّنَن بِلَفْظِ " أَنَّ النَّبِيّ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ يَدْعُو فِي الصَّلَاة اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذ بِك مِنْ عَذَاب الْقَبْر " الْحَدِيث , مُطْلَق , فَيُحْمَل عَلَيْهِ، وَهُوَ يَرُدّ مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ اِبْن حَزْم مِنْ وُجُوبهَا فِي التَّشَهُّد الْأَوَّل، وَمَا وَرَدَ مِنْ الْإذْن لِلْمُصَلِّي بِالدُّعَاءِ بِمَا شَاءَ بَعْد التَّشَهُّد يَكُون بَعْد هَذِهِ الِاسْتِعَاذَة لِقَوْلِهِ (ثُمَّ يَدْعُو لِنَفْسِهِ بِمَا بَدَا لَهُ). عون المعبود - (ج 2 / ص 463)
(¬3) اُسْتُدِلَّ بِهَذَا الْأَمْر عَلَى وُجُوب الِاسْتِعَاذَة، وَقَدْ ذَهَبَ إِلَى ذَلِكَ بَعْض الظَّاهِرِيَّة , وَفِي السُّبُل: وَالْحَدِيث دَلِيل عَلَى وُجُوب الِاسْتِعَاذَة مِمَّا ذَكَرَ، وَهُوَ مُذْهَب الظَّاهِرِيَّة , وَابْن حَزْم مِنْهُمْ، وَأَمَرَ طَاوُسٌ اِبْنه بِإِعَادَةِ الصَّلَاة لَمَّا لَمْ يَسْتَعِذْ فِيهَا , فَإِنَّهُ يَقُول بِالْوُجُوبِ وَبُطْلَان الصَّلَاة مَنْ تَرَكَهَا، وَالْجُمْهُور جَعَلُوا الْأَمْرَ عَلَى النَّدْب. عون المعبود - (ج 2 / ص 463)
(¬4) قَالَ اِبْن دَقِيق الْعِيد: فِتْنَة الْمَحْيَا مَا يَعْرِض لَلْأَنِسَانِ مُدَّة حَيَاته مِنْ الِافْتِنَان بِالدُّنْيَا وَالشَّهَوَات وَالْجَهَالَات , وَأَعْظَمهَا وَالْعِيَاذ بِاللَّهِ أَمْر الْخَاتِمَة عِنْد الْمَوْت , وَ (فِتْنَة الْمَمَات) يَجُوز أَنْ يُرَاد بِهَا الْفِتْنَة عِنْد الْمَوْت , أُضِيفَتْ إِلَيْهِ لِقُرْبِهَا مِنْهُ، وَيَكُون الْمُرَاد عَلَى هَذَا بِفِتْنَةِ الْمَحْيَا مَا قَبْل ذَلِكَ، وَيَجُوز أَنْ يُرَاد بِهَا فِتْنَة الْقَبْر، وَقَدْ صَحَّ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي قُبُورهمْ , وَقِيلَ: أَرَادَ بِفِتْنَةِ الْمَحْيَا الِابْتِلَاء مَعَ زَوَال الصَّبْر , وَبِفِتْنَةِ الْمَمَات السُّؤَال فِي الْقَبْر مَعَ الْحَيْرَة. عون المعبود - (ج 2 / ص 463)
(¬5) (م) 588 , (ت) 3494 , (خ) 1311 

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص108]

ترجمہ:
حدیث#6
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دعا سکھاتے تھے جیسے قرآن کی سورت سکھاتے ہیں۔ آپ فرماتے تھے: "جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو جائے تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے۔ یہ کہے: اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں جہنم کے عذاب سے، اور قبر کے عذاب سے، اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے، اور مسیح دجال کے فتنے کے شر سے۔"
---
تشریح:
1۔یہ حدیث مسلم شریف میں ہے، حدیث نمبر: 590۔
2۔قول "جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو جائے" میں اس استعاذہ کی جگہ کی تعیین ہے کہ یہ آخری تشہد کے بعد پڑھی جائے۔
3۔اس امر (فَلْيَسْتَعِذْ) سے استعاذہ کے وجوب پر استدلال کیا گیا ہے، بعض ظاہریہ علماء کا یہی مذہب ہے۔ جبکہ جمہور کے نزدیک یہ مستحب ہے۔
4۔"فتنۃ المحیا والممات" کی تفسیر میں کہا گیا ہے: زندگی کی آزمائش سے مراد انسان کی زندگی میں پیش آنے والی دنیا اور خواہشات کی آزمائشیں ہیں، اور سب سے بڑی آزمائش موت کے وقت ہوتی ہے۔ اور موت کی آزمائش سے مراد قبر میں ہونے والی آزمائش ہے۔
5۔یہ حدیث مسلم (588)، ترمذی (3494) اور بخاری (1311) میں بھی موجود ہے۔




تَحْذِيرُ الْأَنْبِيَاءِ لِأَقْوَامِهِمْ مِنَ الدجال 
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" (مَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا أَنْذَرَ أُمَّتَهُ الْأَعْوَرَ الْكَذَّابَ) (¬1) (أَنْذَرَهُ نُوحٌ وَالنَّبِيُّونَ مِنْ بَعْدِهِ) (¬2) (وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ) (¬3) (وَأَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ، وَهُوَ خَارِجٌ فِيكُمْ لَا مَحَالَةَ) (¬4) (فَإِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ , فَأَنَا حَجِيجُهُ (¬5) دُونَكُمْ (¬6) وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ) (¬7) (فَكُلُّ امْرِئٍ) (¬8) (حَجِيجُ نَفْسِهِ (¬9) وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ (¬10)) (¬11) "
¬_________
(¬1) (خ) 6712
(¬2) (خ) 4141
(¬3) (خ) 2892
(¬4) (جة) 4077 , انظر صحيح الجامع: 7875 , وقصة الدجال ص41 , والحديث ضعيف في (جة)
(¬5) أَيْ: خَصْمُه وَمُحَاجُّه وَمُغَالِبُه بِإِظْهَارِ الْحِجَج عَلَيْهِ , وَالْحُجَّة: الدَّلِيل وَالْبُرْهَان. عون المعبود (ج 9 / ص 359)
(¬6) أَيْ: قُدَّامَكُمْ وَدَافِعُهُ عَنْكُمْ. عون المعبود (ج 9 / ص 359)
(¬7) (م) 2937
(¬8) (جة) 4077
(¬9) أَيْ: فَكُلُّ اِمْرِئٍ يُحَاجُّهُ وَيُحَاوِرُهُ وَيُغَالِبُهُ بِنَفْسِهِ. عون المعبود (ج 9 / ص 359)
(¬10) أَيْ: اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَلِيُّ كُلِّ مُسْلِمٍ وَحَافِظُهُ , فَيُعِينُهُ عَلَيْهِ وَيَدْفَعُ شَرَّهُ. عون المعبود (ج 9 / ص 359)
(¬11) (م) 2937 


[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص110]

ترجمہ:
حدیث#7
انبیاء کا اپنی قوموں کو دجال سے ڈرانا

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر اس نے اپنی امت کو کانے جھوٹے (دجال) سے ڈرایا۔ نوح (علیہ السلام) نے بھی ڈرایا اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء نے بھی (اپنی اپنی امتوں کو ڈرایا)، اور میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں۔ اور میں آخری نبی ہوں، اور تم آخری امت ہو، اور وہ تمہارے درمیان یقیناً نکلے گا۔ پس اگر وہ اس وقت نکلے جب میں تمہارے درمیان موجود ہوں تو میں تمہاری طرف سے اس کا مقابلہ کرنے والا ہوں گا (اور اسے قابو کروں گا)، اور اگر وہ اس وقت نکلے جب میں تمہارے درمیان موجود نہ ہوں تو ہر شخص خود اس کا مقابلہ کرے گا (اپنے ایمان کے ساتھ)، اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا نائب (محافظ و مددگار) ہے۔"
---
تشریح:
1۔(بخاری) 6712۔
2۔ (بخاری) 4141۔
3۔ (بخاری) 2892۔
4۔ (ابن ماجة) 4077، نیز دیکھیے صحیح الجامع: 7875، اور قصۃ الدجال ص41، تاہم ابن ماجہ کی یہ روایت ضعیف ہے۔
5۔ "حجيجہ" سے مراد اس کا مخالف، اس سے بحث کرنے والا اور دلیل و برہان کے ذریعے اس پر غلبہ پانے والا ہے۔
6۔ "دونكم" یعنی تمہارے آگے اور تمہاری طرف سے اس کا دفاع کرنے والا۔
7۔ (مسلم) 2937۔
8۔ (ابن ماجة) 4077۔
9۔ یعنی ہر شخص خود اس سے بحث و مباحثہ کرے گا اور اپنے ایمان کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے گا۔
10۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کا ولی اور محافظ ہے، وہ اس کی مدد کرے گا اور اس کے شر سے بچائے گا۔
11۔ (مسلم) 2937۔





عَلَامَاتُ ظُهُورِ الدجال

عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ - رضي الله عنها - قَالَتْ:
(سَمِعْتُ نِدَاءَ مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ ? - صلى الله عليه وسلم - يُنَادِي: الصَلَاةَ جَامِعَةً , فَخَرَجْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ? - صلى الله عليه وسلم - , فَكُنْتُ فِي صَفِّ النِّسَاءِ الَّتِي تَلِي ظُهُورَ الْقَوْمِ , " فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - صَلَاتَهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقَالَ: لِيَلْزَمْ كُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ (¬1) ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُكُمْ؟ " , قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " إِنِّي مَا وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُكُمْ لِرَهْبَةٍ (¬2) وَلَا رَغْبَةٍ (¬3) وَلَكِنْ جَمَعْتُكُمْ لِأَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ كَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا، فَجَاءَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ، وَحَدَّثَنِي حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ حَدَّثْتُكُمْ عَنْ الْمَسِيحِ الدجال، حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَكِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ لَخْمٍ وَجُذَامٍ (¬4) فَلَعِبَ بِهِمْ الْمَوْجُ (¬5) شَهْرًا فِي الْبَحْرِ) (¬6) وفي رواية: (حَدَّثَنِي أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ فِلَسْطِينَ رَكِبُوا سَفِينَةً فِي الْبَحْرِ فَجَالَتْ بِهِمْ) (¬7) (ثُمَّ أَرْفَئُوا إِلَى جَزِيرَةٍ (¬8) فِي الْبَحْرِ حَتَّى (¬9) مَغْرِبِ الشَّمْسِ , فَجَلَسُوا فِي أَقْرُبِ (¬10) السَّفِينَةِ فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ يَلْتَمِسُونَ الْمَاءَ، فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبٌ (¬11) كَثِيرَةُ الشَّعْرِ، 
[ وفي رواية: فَإِذَا بِامْرَأَةٍ تَجُرُّ شَعْرَهَا] 
(¬12) لَا يَدْرُونَ مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ) (¬13) 
[ وفي رواية: لَا يُدْرَى ذَكَرٌ هُوَ أَمْ أُنْثَى لِكَثْرَةِ شَعْرِهِ] 
(¬14) (فَفَرِقُوا (¬15) مِنْهَا أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً، فَقَالُوا: وَيْلَكِ مَا أَنْتِ؟، قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ (¬16) فَقَالُوا: وَمَا الْجَسَّاسَةُ؟ , قَالَتْ: أَيُّهَا الْقَوْمُ , انْطَلِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي هَذَا الدَّيْرَ (¬17) 
[ وفي رواية: ذَلِكَ الْقَصْرِ] 
(¬18) فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّى دَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ خَلْقًا قَطُّ، 
[ وفي رواية: يَنْزُو (¬19) فِيمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ] 
(¬20) وَأَشَدُّهُ وِثَاقًا) (¬21) (يَجُرُّ شَعْرَهُ , مُسَلْسَلٌ فِي الْأَغْلَالِ) (¬22) (مَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى كَعْبَيْهِ بِالْحَدِيدِ، مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ، فَقُلْنَا: مَنْ أَنْتَ؟، قَالَ: قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَى خَبَرِي فَأَخْبِرُونِي مَا أَنْتُمْ؟ , فَقُلْنَا: نَحْنُ أُنَاسٌ مِنْ الْعَرَبِ , رَكِبْنَا فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ فَصَادَفْنَا الْبَحْرَ حِينَ اغْتَلَمَ (¬23)
فَلَعِبَ بِنَا الْمَوْجُ شَهْرًا ثُمَّ أَرْفَأْنَا إِلَى جَزِيرَتِكَ هَذِهِ , فَجَلَسْنَا فِي أَقْرُبِهَا فَدَخَلْنَا الْجَزِيرَةَ , فَلَقِيَتْنَا دَابَّةٌ أَهْلَبٌ كَثِيرُةُ الشَّعَرِ , لَا يُدْرَى مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ , فَقُلْنَا: وَيْلَكِ مَا أَنْتِ؟ , فَقَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ , فَقُلْنَا: وَمَا الْجَسَّاسَةُ؟ , فَقَالَتْ: اعْمِدُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ , فَأَقْبَلْنَا إِلَيْكَ سِرَاعًا , وَفَزِعْنَا مِنْهَا وَلَمْ نَأْمَنْ أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً , فَقَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ) (¬24) (الَّذِي بَيْنَ الْأُرْدُنِّ وَفِلَسْطِينَ؟) (¬25) (فَقُلْنَا: عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ؟ , قَالَ: أَسْأَلُكُمْ عَنْ نَخْلِهَا هَلْ يُثْمِرُ؟ , فَقُلْنَا لَهُ: نَعَمْ , قَالَ: أَمَا إِنَّهُ يُوشِكُ أَنْ لَا يُثْمِرُ , ثُمَّ قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ؟ , قُلْنَا: عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ؟ , قَالَ: هَلْ فِيهَا مَاءٌ؟ , فَقُلْنَا لَهُ: نَعَمْ , هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ , قَالَ: أَمَا إِنَّ مَاءَهَا يُوشِكُ أَنْ يَذْهَبَ , ثُمَّ قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ (¬26)؟ , قُلْنَا: عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ؟ , قَالَ: هَلْ فِي الْعَيْنِ مَاءٌ , وَهَلْ يَزْرَعُ أَهْلُهَا بِمَاءِ الْعَيْنِ؟ , فَقُلْنَا لَهُ: نَعَمْ , هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ , وَأَهْلُهَا يَزْرَعُونَ مِنْ مَائِهَا) (¬27) (قَالَ: هَلْ خَرَجَ نَبِيُّ الْأُمِّيِّينَ؟، فَقُلْنَا: نَعَمْ) (¬28) (قَالَ: مَا فَعَلَ؟ , فَقُلْنَا لَهُ: قَدْ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ وَنَزَلَ يَثْرِبَ , قَالَ: أَقَاتَلَهُ الْعَرَبُ؟ , فَقُلْنَا: نَعَمْ , قَالَ: كَيْفَ صَنَعَ بِهِمْ؟ , فَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّهُ قَدْ ظَهَرَ عَلَى مَنْ يَلِيهِ مِنْ الْعَرَبِ وَأَطَاعُوهُ , فَقَالَ لَنَا: قَدْ كَانَ ذَلِكَ؟ , قُلْنَا: نَعَمْ , قَالَ: أَمَا إِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ لَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ , وَإِنِّي مُخْبِرُكُمْ عَنِّي , إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ , 
[ وفي رواية: أَنَا الدجال] 
(¬29) وَإِنَّهُ يُوشَكُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَأَخْرُجَ , فَأَسِيرَ فِي الْأَرْضِ فلَا أَدَعَ قَرْيَةً إِلَّا هَبَطْتُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً , غَيْرَ مَكَّةَ وَطَيْبَةَ , فَهُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَيَّ كِلْتَاهُمَا , كُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً مِنْهُمَا اسْتَقْبَلَنِي مَلَكٌ بِيَدِهِ السَّيْفُ صَلْتًا (¬30) يَصُدُّنِي عَنْهَا , وَإِنَّ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَائِكَةً يَحْرُسُونَهَا , قَالَتْ فَاطِمَةُ: " فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِهِ (¬31) فِي الْمِنْبَرِ -) (¬32) (أَبْشِرُوا يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ) (¬33) (هَذِهِ طَيْبَةُ , هَذِهِ طَيْبَةُ , هَذِهِ طَيْبَةُ - يَعْنِي الْمَدِينَةَ - أَلَا هَلْ كُنْتُ حَدَّثْتُكُمْ ذَلِكَ؟ " , فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ , قَالَ: " فَإِنَّهُ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْهُ (¬34)
وَعَنْ الْمَدِينَةِ وَمَكَّةَ , أَلَا إِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّامِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ , لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ , لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ - وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ) (¬35) " (¬36)
¬_________
(¬1) أَيْ: مَوْضِع صَلَاته فَلَا يَتَغَيَّر وَلَا يَتَقَدَّم وَلَا يَتَأَخَّر. عون المعبود - (ج 9 / ص 363)
(¬2) أَيْ: لِخَوْفٍ مِنْ عَدُوّ. عون المعبود - (ج 9 / ص 363)
(¬3) أَيْ: وَلَا لِأَمْرٍ مَرْغُوب فِيهِ مِنْ عَطَاء كَغَنِيمَةٍ. عون المعبود - (ج 9 / ص 363)
(¬4) قبيلتين من قبائل اليمن.
(¬5) أَيْ: دَار بِهِمْ، وَاللَّعِب فِي الْأَصْل مَا لَا فَائِدَة فِيهِ مِنْ فِعْل أَوْ قَوْل , فَاسْتُعِيرَ لِصَدِّ الْأَمْوَاج السُّفُن عَنْ صَوْب الْمَقْصِد وَتَحْوِيلهَا يَمِينًا وَشِمَالًا. عون المعبود - (ج 9 / ص 363)
(¬6) (م) 2942
(¬7) عند (ت) 2253 , (حم) 27146 , وأنا أميل إلى هذه الرواية , لأن معظم الأمارات التي سأل عنها الدجال موجودة في فلسطين , وأهل مكة أدرى بشعابها. ع
(¬8) أَيْ: اِلْتَجَئُوا إِلَيْهَا , ومَرْفَأ السُّفُن: الْمَوْضِع الَّذِي تُشَدّ إِلَيْهِ وَتُوقَف عِنْده. (فتح) - (ج 20 / ص 131)
(¬9) وفي رواية (ثُمَّ أَرْفَئُوا إِلَى جَزِيرَةٍ فِي الْبَحْرِ حَيْثُ مَغْرِبِ الشَّمْسِ) انظر السنن الواردة في الفتن (ج2 ص 235) , وانظر (طب) ج24ص388ح958
(¬10) (أَقْرُب): جَمْع قَارِب.
(¬11) الْهُلْب: الشَّعْر، وَقِيلَ: مَا غَلُظَ مِنْ الشَّعْر، وَقِيلَ: مَا كَثُرَ مِنْ شَعْر الذَّنَب , وَإِنَّمَا ذَكَّرَهُ لِأَنَّ الدَّابَّة يُطْلَق عَلَى الذَّكَر وَالْأُنْثَى لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَمَا مِنْ دَابَّة فِي الْأَرْض} 
, وقَالَ النَّوَوِيّ: الْأَهْلَب غَلِيظ الشَّعْر كَثِيره. عون المعبود (ج9ص 363)
(¬12) (د) 4325
(¬13) (م) 2942
(¬14) (حم) 27146 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
(¬15) أي: خافوا.
(¬16) الْجَسَّاسَة سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِتَجَسُّسِهَا الْأَخْبَار لِلدَّجَّالِ. عون المعبود - (ج 9 / ص 363)
(¬17) أَيْ: دَيْر النَّصَارَى. عون المعبود - (ج 9 / ص 363)
(¬18) (د) 4325
(¬19) أَيْ: يَثِب وُثُوبًا. عون المعبود - (ج 9 / ص 363)
(¬20) (د) 4325
(¬21) (م) 2942
(¬22) (د) 4325
(¬23) أَيْ: حين هاج ..
(¬24) (م) 2942
(¬25) (ت) 2253
(¬26) (عَيْن زُغَر): بَلْدَة مَعْرُوفَة فِي الْجَانِب الْقِبْلِيّ مِنْ الشَّام قَلِيلَة النَّبَات. (النووي - ج 9 / ص 333) , قال ياقوت الحموي: حدثني الثقة أن زُغَر هذه في طرف البحيرة المنتنة , في واد هناك , بينها وبين البيت المقدس ثلاثة أيام , وهي من ناحية الحجاز , ولهم هناك زروع , قال ابن عباس رضي الله عنهما: لما هلك قوم لوط , مضى لوط عليه السلام وبناته يريدون الشام , فماتت الكُبَرى من بناته وكان يقال لها (رَيَّة) , فدُفنت عند عين هناك , فسميت باسمها عين رَيّة , ثم ماتت بعد ذلك الصغرى وكان اسمها زُغَر , فدفنت عند عين فسميت عين زغر، وهذه في واد وَخِمٍ رديءٍ في أشأم بقعة , إنما يسكنه أهله لأجل الوطن , وقد يهيج فيهم في بعض الأعوام مرض فيُفني كل من فيه أو أكثرهم. معجم البلدان (ج2ص397)
(¬27) (م) 2942
(¬28) (د) 4325
(¬29) (حم) 27146 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
(¬30) أَيْ: مَسْلُولًا. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 333)
(¬31) المِخصرة: ما يَختصره الإنسان بيده فيُمسِكه من عصا أو عُكَّازةٍ أو مِقْرَعَةٍ أو قضيب , وقد يتكئ عليه.
(¬32) (م) 2942
(¬33) (حم) 27146
(¬34) أَيْ: عن الدجال ..
(¬35) (م) 2942 , (د) 4325
(¬36) قال الألباني في قصة الدجال ص82: اعلم أن هذه القصة صحيحة - بل متواترة - لم ينفرد بها تميم الداري كما يظن بعض الجهلة من المُعَلِّقين على (النهاية) لابن كثير (ص 96 - طبعة الرياض) , فقد تابعه عليها أبو هريرة وعائشة وجابر كما يأتي (ص 83 و87) , ثم قال الألباني في تمام المنة ص79: قرأت منذ بضعة أيام كتاب: " الإسلام المصفَّى " تأليف محمد عبد الله السمان وهو - والحق يقال - كتاب قيم قد عالج فيه كثيرا من المسائل والقواعد التي تهم المسلم في العصر الحاضر ولكنه عفا الله عنه قد اشتط كثيرا في بعض ما تحدث عنه ولم يكن الصواب فيه حليفه , مثل مسألة نزول عيسى وخروج الدجال والمهدي، فقد أنكر كل ذلك وزعم أنها " ضلالات مصنوعة " , وأن الأحاديث التي وردت فيها أحاديث آحاد لم تبلغ حد التواتر، ونحن نقول للأستاذ: تقسيمك أنت وغيرك - أيا كان - الأحاديث الصحيحة إلى قسمين , قسم يجب على المسلم قبولها ويلزمه العمل بها وهي أحاديث الأحكام ونحوها , وقسم لَا يجب عليه قبولها والاعتقاد بها , وهي أحاديث العقائد وما يتعلق منها بالأمور الغيبية , أقول: إن هذا تقسيم مبتدَع لَا أصل في كتاب الله ولا في سنة رسوله - صلى الله عليه وسلم - , ولا يعرفه السلف الصالح , بل عموم الأدلة الموجبة للعمل بالحديث تقتضي وجوب العمل بالقسمين كليهما ولا فرق , فمن ادعى التخصيص فليتفضل بالبينة مشكورا , وهيهات , ثم أَلَّفْتُ رسالتين هامتين جدا في بيان بطلان التقسيم المذكور , الأولى: " وجوب الأخذ بحديث الآحاد في العقيدة " , والأخرى: " الحديث حجة بنفسه في العقائد والأحكام ". أ. هـ 

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص112]

ترجمہ:

حدیث#8
دجال کے ظہور کی علامات
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن کی آواز سنی جو پکار رہا تھا: "الصلاة جامعة" (نماز کے لیے اجتماع کرو)، تو میں مسجد میں آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں عورتوں کی صف میں تھی جو مردوں کے پیچھے تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کی تو منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپ مسکرا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: "ہر شخص اپنی نماز کی جگہ پر قائم رہے۔" پھر فرمایا: "کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں جمع کیا ہے؟" لوگوں نے کہا: "اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔" آپ نے فرمایا: "بخدا میں نے تمہیں نہ تو کسی خوف کی وجہ سے جمع کیا ہے اور نہ ہی کسی دنیوی چیز کی طمع میں، بلکہ میں نے تمہیں اس لیے جمع کیا ہے کہ تمیم داری ایک نصرانی تھے، وہ آئے، بیعت کی اور مسلمان ہو گئے، اور انہوں نے مجھ سے ایک ایسی بات بیان کی جو اس بات سے موافقت رکھتی ہے جو میں تم سے مسیح دجال کے بارے میں بیان کرتا رہا ہوں۔ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے بحری جہاز میں سفر کیا تھا لخم اور جذام قبیلے کے تیس آدمیوں کے ساتھ۔ پھر موجوں نے انہیں ایک مہینے تک سمندر میں ہانکا...

ایک روایت میں ہے: "...انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ اہل فلسطین میں سے کچھ لوگوں نے سمندر میں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو وہ انہیں لیے پھرتی رہی... پھر وہ سمندر میں ایک جزیرے پر پناہ لینے کے لیے آئے جہاں سورج ڈوبتا تھا۔ وہ کشتی کے قریب ہی بیٹھ گئے پھر جزیرے میں پانی کی تلاش میں داخل ہوئے تو انہیں ایک بالوں والا جانور ملا، جس کے بال بہت زیادہ تھے..."

ایک روایت میں ہے: "...اور اچانک انہیں ایک عورت نظر آئی جو اپنے بال گھسیٹ رہی تھی..."

"...اتنے زیادہ بالوں کی وجہ سے وہ اس کا آگے اور پیچھے کا حصہ نہیں پہچان سکتے تھے..."

ایک روایت میں ہے: "...یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ نر ہے یا مادہ کیونکہ اس کے بال بہت زیادہ تھے..."

"انہیں خوف ہوا کہ کہیں یہ شیطانی مخلوق نہ ہو۔ انہوں نے کہا: 'تجھے خرابی ہو، تو کون ہے؟' اس نے کہا: 'میں جساسہ ہوں۔' انہوں نے کہا: 'جساسہ کیا ہے؟' اس نے کہا: 'اے لوگو! اس شخص کے پاس اس گرجا (یا محل) میں جاؤ، وہ تمہارے حالات جاننے کے لیے بے تاب ہے۔' چنانچہ ہم تیزی سے چلے یہاں تک کہ گرجا میں داخل ہوئے، تو وہاں ہم نے مخلوقات میں سے ایک انتہائی بڑے جسم والا انسان دیکھا..."

ایک روایت میں ہے: "...آسمان اور زمین کے درمیان اچھال رہا تھا..."

"...اور وہ مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا، اپنے بال گھسیٹ رہا تھا، بیڑیوں میں جکڑا ہوا..."

"...اس کے گھٹنوں سے ٹخنوں تک لوہے کی زنجیریں تھیں، اس کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے تھے۔ ہم نے پوچھا: 'تم کون ہو؟' اس نے کہا: 'تم میرے حالات جاننے میں کامیاب ہو گئے ہو، اب تم مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو؟' ہم نے کہا: 'ہم عربوں میں سے کچھ لوگ ہیں، ہم نے ایک بحری جہاز میں سفر کیا تو ہمیں سمندر نے اس وقت پکڑا جب وہ طوفانی تھا۔ موجوں نے ہمیں ایک مہینہ تک ہانکا، پھر ہم تمہارے اس جزیرے پر پہنچے۔ ہم کشتی کے قریب بیٹھ گئے پھر جزیرے میں داخل ہوئے۔ ہمیں ایک بالوں والا جانور ملا جس کے بال بہت زیادہ تھے، ہم اس کا آگے پیچھے نہیں پہچان سکتے تھے۔ ہم نے کہا: تجھے خرابی ہو، تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ ہوں۔ ہم نے کہا: جساسہ کیا ہے؟ اس نے کہا: اس گرجا میں موجود اس شخص کے پاس جاؤ، وہ تمہارے حالات جاننے کے لیے بے تاب ہے۔ چنانچہ ہم تیزی سے تیرے پاس آئے، ہمیں اس سے ڈر لگا تھا اور ہمیں یقین نہیں تھا کہ یہ کوئی شیطانی مخلوق نہ ہو۔' اس نے کہا: 'مجھے بيسان (جو اردن اور فلسطین کے درمیان ہے) کے کھجور کے درختوں کے بارے میں بتاؤ۔' ہم نے کہا: 'تم ان کے کس پہلو کے بارے میں دریافت کر رہے ہو؟' اس نے کہا: 'میں تم سے ان کے کھجوروں کے بارے میں پوچھ رہا ہوں، کیا وہ پھل دیتے ہیں؟' ہم نے اس سے کہا: 'ہاں۔' اس نے کہا: 'سن لو! عنقریب وہ پھل دینا بند کر دیں گے۔' پھر اس نے کہا: 'مجھے بحیرۂ طبریہ کے بارے میں بتاؤ۔' ہم نے کہا: 'تم اس کے کس پہلو کے بارے میں دریافت کر رہے ہو؟' اس نے کہا: 'کیا اس میں پانی ہے؟' ہم نے اس سے کہا: 'ہاں، اس میں بہت پانی ہے۔' اس نے کہا: 'سن لو! عنقریب اس کا پانی ختم ہو جائے گا۔' پھر اس نے کہا: 'مجھے عین زغر کے چشمے کے بارے میں بتاؤ۔' ہم نے کہا: 'تم اس کے کس پہلو کے بارے میں دریافت کر رہے ہو؟' اس نے کہا: 'کیا اس چشمے میں پانی ہے اور کیا اس کے باشندے اس چشمے کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں؟' ہم نے اس سے کہا: 'ہاں، اس میں بہت پانی ہے اور اس کے باشندے اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔'... اس نے کہا: 'کیا امیوں (یعنی اَن پڑھوں) کے نبی تشریف لا چکے ہیں؟' ہم نے کہا: 'ہاں۔' اس نے کہا: 'انہوں نے کیا کیا؟' ہم نے اس سے کہا: 'وہ مکہ سے نکل کر یثرب (مدینہ) میں آ بسے ہیں۔' اس نے کہا: 'کیا عربوں نے ان سے جنگ کی؟' ہم نے کہا: 'ہاں۔' اس نے کہا: 'انہوں نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟' ہم نے اسے بتایا کہ آپ اپنے قریبی عربوں پر غالب آ گئے ہیں اور وہ آپ کے مطیع ہو گئے ہیں۔ اس نے ہم سے کہا: 'کیا واقعی ایسا ہوا ہے؟' ہم نے کہا: 'ہاں۔' اس نے کہا: 'سن لو! یقیناً ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ ان کی اطاعت کریں۔ اور میں تمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں مسیح... ہوں۔'

ایک روایت میں ہے: "...میں دجال ہوں۔"

"...اور یقیناً مجھے عنقریب نکلنے کی اجازت دی جائے گی، تو میں نکلوں گا اور زمین میں سفر کروں گا۔ میں چالیس راتوں کے اندر کوئی بھی بستی نہیں چھوڑوں گا مگر مکہ اور طیبہ (مدینہ) کے۔ یہ دونوں مجھ پر حرام ہیں۔ جب بھی میں ان میں سے کسی ایک میں داخل ہونے کا ارادہ کرتا ہوں تو ایک فرشتہ ننگی تلوار لیے میرا مقابلہ کرتا ہے اور مجھے اس سے روک دیتا ہے۔ اور بے شک ان کے ہر گھاٹی پر فرشتے ہیں جو ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔' فاطمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا - اور آپ نے اپنی چھڑی سے منبر پر ضرب لگائی - 'خوش ہو جاؤ اے مسلمانوں کی جماعت! یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے - مراد مدینہ ہے۔ کیا میں نے تم سے یہ بات بیان نہیں کی تھی؟' لوگوں نے کہا: 'ہاں۔' آپ نے فرمایا: 'تمیم داری کی بات نے مجھے خوش کر دیا کیونکہ یہ اس بات سے موافق تھی جو میں تم سے دجال اور مدینہ و مکہ کے بارے میں بیان کرتا رہا ہوں۔ سنو! وہ شام کے سمندر میں ہے یا یمن کے سمندر میں۔ نہیں، بلکہ مشرق کی جانب سے ہے، نہیں بلکہ مشرق کی جانب سے ہے - اور آپ نے مشرق کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا۔'"

---

تشریحی نکات:

· (م) سے مراد صحیح مسلم ہے۔
· (د) سے مراد سنن ابو داود ہے۔
· (ت) سے مراد جامع ترمذی ہے۔
· (حم) سے مراد مسند احمد ہے۔
· "جساسہ" کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ دجال کے لیے خبریں تلاش کرتی تھی۔
· "عین زغر" شام کے قریب ایک مقام ہے۔
· اس طویل حدیث میں دجال کے ظہور سے پہلے کی ایک علامت، اس کی جگہ، اس کی بعض حیرت انگیز صفات اور مکہ و مدینہ کے تحفظ کا ذکر ہے۔
· علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح بلکہ متواتر قرار دیا ہے اور اس قسم کی احادیث (آحادیث) کو عقائد میں بھی حجت ماننے پر زور دیا ہے۔





عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:

" إِنَّ قَبْلَ خُرُوجِ الدجال ثَلَاثُ سَنَوَاتٍ شِدَادٍ، يُصِيبُ النَّاسَ فِيهَا جُوعٌ شَدِيدٌ، يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الْأُولَى أَنْ تَحْبِسَ ثُلُثَ مَطَرِهَا، وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا , ثُمَّ يَأْمُرُ السَّمَاءَ فِي الثَّانِيَةِ فَتَحْبِسُ ثُلُثَيْ مَطَرِهَا , وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ ثُلُثَيْ نَبَاتِهَا ,
ثُمَّ يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الثَّالِثَةِ فَتَحْبِسُ مَطَرَهَا كُلَّهُ فلَا تُقْطِرُ قَطْرَةً، وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ نَبَاتَهَا كُلَّهُ فلَا تُنْبِتُ خَضْرَاءَ، فلَا تَبْقَى ذَاتُ ظِلْفٍ (¬1) إلَّا هَلَكَتْ إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ , قِيلَ: فَمَا يُعِيشُ النَّاسُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ؟ , قَالَ: " التَّهْلِيلُ وَالتَّكْبِيرُ وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّحْمِيدُ , وَيُجْرَى ذَلِكَ عَلَيْهِمْ مَجْرَى الطَّعَامِ " (¬2)
¬_________
(¬1) الظِّلف: الظُّفُر المشقوق للبقرة والشاة والظبي ونحوها.
(¬2) (جة) 4077 , انظر صَحِيح الْجَامِع: 7875 , وصححه الألباني في كتاب: قصة المسيح الدجال ص41


[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص113]


ترجمہ:

حدیث#9

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بے شک دجال کے نکلنے سے پہلے تین سخت سال ہوں گے، جن میں لوگوں کو سخت بھوک لگے گی۔ اللہ تعالیٰ پہلے سال آسمان کو حکم دے گا کہ وہ اپنی بارش کا تہائی حصہ روک لے، اور زمین کو حکم دے گا کہ وہ اپنی اُگاوٹ کا تہائی حصہ روک لے۔ پھر دوسرے سال آسمان کو حکم دے گا کہ وہ اپنی بارش کا دو تہائی حصہ روک لے، اور زمین کو حکم دے گا کہ وہ اپنی اُگاوٹ کا دو تہائی حصہ روک لے۔ پھر تیسرے سال اللہ تعالیٰ آسمان کو حکم دے گا کہ وہ اپنی ساری بارش روک لے تو وہ ایک قطرہ بھی نہ برسائے، اور زمین کو حکم دے گا کہ وہ اپنی ساری اُگاوٹ روک لے تو وہ کوئی ہریالی نہ اُگائے۔ پس ہر کھری والا جانور (1) مر جائے گا سوائے اس کے جسے اللہ چاہے۔ پوچھا گیا: اس زمانے میں لوگ کس چیز پر زندہ رہیں گے؟ آپ نے فرمایا: 'لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، سبحان اللہ، الحمد للہ کہنا، اور یہ (ذکر و تسبیح) ان کے لیے کھانے کا کام دے گی (یعنی انہیں روحانی طاقت بخشے گی اور صبر کی توفیق ہوگی)۔'"
---
(1) ذات ظلف سے مراد وہ جانور ہیں جن کے کھر پھٹے ہوئے ہوتے ہیں جیسے گائے، بکری، ہرن وغیرہ۔
(2) یہ حدیث ابن ماجہ (4077) میں ہے، نیز دیکھیے صحیح الجامع (7875)، اور امام البانی نے "قصۃ المسیح الدجال" (ص41) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔





عَنْ ابْنِ عُمَرَ - رضي الله عنهما - قَالَ:

(كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - , " فَذَكَرَ الْفِتَنَ فَأَكْثَرَ فِي ذِكْرِهَا حَتَّى ذَكَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ (¬1) " فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ؟) (¬2) (قَالَ: " هِيَ فِتْنَةُ هَرَبٍ (¬3) وَحَرَبٍ (¬4)) (¬5) (ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ (¬6) دَخَنُهَا (¬7) مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي , يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي (¬8) وَلَيْسَ مِنِّي (¬9) وَإِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ , ثُمَّ يَصْطَلِحُ النَّاسُ (¬10) عَلَى رَجُلٍ كَوَرِكٍ عَلَى ضِلَعٍ (¬11) ثُمَّ فِتْنَةُ الدُّهَيْمَاءِ (¬12) لَا تَدَعُ (¬13) أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطَمَتْهُ لَطْمَةً (¬14) فَإِذَا قِيلَ انْقَضَتْ (¬15) تَمَادَتْ (¬16) يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا , حَتَّى يَصِيرَ النَّاسُ إِلَى فُسْطَاطَيْنِ (¬17) فُسْطَاطِ إِيمَانٍ لَا نِفَاقَ فِيهِ , وَفُسْطَاطِ نِفَاقٍ لَا إِيمَانَ فِيهِ فَإِذَا كَانَ ذَاكُمْ فَانْتَظِرُوا الدجال (¬18) مِنْ يَوْمِهِ أَوْ مِنْ غَدِهِ) (¬19) "

¬_________

(¬1) الْأَحْلَاس: جَمْع حِلْس وَهُوَ الْكِسَاء الَّذِي يَلِي ظَهْر الْبَعِير تَحْت الْقَتَب، وشَبَّهَهَا بِهِ لِلُزُومِهَا وَدَوَامهَا. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬2) (د) 4242

(¬3) أَيْ: يَفِرّ بَعْضهمْ مِنْ بَعْض لِمَا بَيْنهمْ مِنْ الْعَدَاوَة وَالْمُحَارَبَة. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬4) الْحَرَب بِالتَّحْرِيكِ: نَهْبُ مَال الْإِنْسَان وَتَرْكُه لَا شَيْء لَهُ , وَقَالَ الْخَطَّابِيُّ: الْحَرَب ذَهَاب الْمَال وَالْأَهْل. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬5) (حم) 6168 , انظر صحيح الجامع: 4194 , الصحيحة: 974

(¬6) الْمُرَاد بِالسَّرَّاءِ النَّعْمَاء الَّتِي تَسُرّ النَّاس مِنْ الصِّحَّة وَالرَّخَاء وَالْعَافِيَة مِنْ الْبَلَاء وَالْوَبَاء، وَأُضِيفَتْ إِلَى السَّرَّاء لِأَنَّ السَّبَب فِي وُقُوعهَا اِرْتِكَاب الْمَعَاصِي بِسَبَبِ كَثْرَة التَّنَعُّم. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬7) أَيْ: سَبَبُ ظُهُورِهَا وَإِثَارَتِهَا , شَبَّهَهَا بِالدُّخَانِ الْمُرْتَفِع، وَ (الدَّخَنُ) بِالتَّحْرِيكِ مَصْدَر دَخِنَتْ النَّار تَدْخَن , إِذَا أُلْقِيَ عَلَيْهَا حَطَب رَطْبٌ فَكَثُرَ دُخَانهَا. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬8) أَيْ: يَزْعُم أَنَّهُ مِنِّي فِي الْفِعْل , وَإِنْ كَانَ مِنِّي فِي النَّسَب , وَالْحَاصِل أَنَّ تِلْكَ الْفِتْنَة بِسَبَبِهِ وَأَنَّهُ بَاعِث عَلَى إِقَامَتهَا. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬9) أَيْ: لَيْسَ مِنْ أَهْلِي فِي الْفِعْل , لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ مِنْ أَهْلِي لَمْ يُهَيِّج الْفِتْنَة , وَنَظِيره قَوْله تَعَالَى: {إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ} 

. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬10) أَيْ: يَجْتَمِعُونَ عَلَى بَيْعَة رَجُل. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬11) الْوَرِك مَا فَوْق الْفَخِذ , وقَالَ الْخَطَّابِيُّ: هُوَ مَثَل , وَمَعْنَاهُ الْأَمْر الَّذِي لَا يَثْبُت وَلَا يَسْتَقِيم , وَذَلِكَ أَنَّ الضِّلَع لَا يَقُوم بِالْوَرِكِ , وَبِالْجُمْلَةِ يُرِيد أَنَّ هَذَا الرَّجُل غَيْر خَلِيق لِلْمُلْكِ وَلَا مُسْتَقِلّ بِهِ , وقَالَ فِي النِّهَايَة: أَيْ يَصْطَلِحُونَ عَلَى أَمْر وَاهٍ لَا نِظَام لَهُ وَلَا اِسْتِقَامَة , لِأَنَّ الْوَرِك لَا يَسْتَقِيم عَلَى الضِّلَع وَلَا يَتَرَكَّب عَلَيْهِ لِاخْتِلَافِ مَا بَيْنهمَا وَبُعْده. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬12) الدَّهْمَاء: السَّوْدَاء , وَالتَّصْغِير لِلذَّمِّ , أَيْ: الْفِتْنَة الْعَظْمَاء , وَالطَّامَّة الْعَمْيَاء. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬13) أَيْ: لَا تَتْرُك تِلْكَ الْفِتْنَة. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬14) أَيْ: أَصَابَتْهُ بِمِحْنَةٍ وَمَسَّتْهُ بِبَلِيَّةٍ، وَأَصْل اللَّطْم هُوَ الضَّرْب عَلَى الْوَجْه بِبَطْنِ الْكَفّ، وَالْمُرَاد أَنَّ أَثَر تِلْكَ الْفِتْنَة يَعُمّ النَّاس , وَيَصِل لِكُلِّ أَحَد مِنْ ضَرَرهَا. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬15) أَيْ: فَمَهْمَا تَوَهَّمُوا أَنَّ تِلْكَ الْفِتْنَة اِنْتَهَتْ. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬16) أَيْ: اِسْتَطَالَتْ وَاسْتَمَرَّتْ وَاسْتَقَرَّتْ. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬17) الفسطاط: المقصود هنا هو الجماعة من الناس , أي: ينقسم الناس إلى معسكرين: معسكر إيمان ومعسكر نفاق. ع

(¬18) أَيْ: انْتَظِرُوا ظُهُوره. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)

(¬19) (د) 4242

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص114]

ترجمہ:

حدیث#10

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فتنوں کا ذکر کیا اور بہت زیادہ ذکر کرتے رہے یہاں تک کہ فتنۂ احلاس کا ذکر فرمایا۔ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! فتنۂ احلاس کیا ہے؟

آپ نے فرمایا: "وہ بھاگ دوڑ اور لوٹ مار کا فتنہ ہے۔

پھر فتنۂ سراء (خوشحالی کا فتنہ) ہے، جس کا دھواں میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کے قدموں تلے سے نکلے گا جو یہ گمان کرے گا کہ وہ مجھ سے ہے، حالانکہ وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اور میرا دوست صرف پرہیزگار ہے۔

پھر لوگ ایک ایسے شخص پر اتفاق کر لیں گے جو ایسے ہوگا جیسے کوئی کولہا (ورک) پسلی (ضلع) پر رکھا گیا ہو (یعنی بے ڈھنگا اور غیر موزوں حکمران)۔

پھر فتنۂ دہیماء (کالا، گھنا فتنہ) آئے گا جو اس امت کے کسی شخص کو نہیں چھوڑے گا بلکہ سب کو ایک طمانچہ مارے گا۔ جب کہا جائے گا کہ ختم ہو گیا تو وہ اور پھیل جائے گا۔ اس میں آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگ دو جماعتوں (فسطاط) میں تقسیم ہو جائیں گے: ایک ایسی جماعت جس میں صرف ایمان ہوگا، نفاق نہیں ہوگا، اور دوسری ایسی جماعت جس میں صرف نفاق ہوگا، ایمان نہیں ہوگا۔

جب یہ صورت حال ہو جائے تو تم دجال کا انتظار کرو (کہ ظہور کرے گا) اسی دن یا اگلے دن۔"

---

حاشیہ وحوالہ:

1. الاحلاس: "حلس" کی جمع ہے، جو اون کا وہ غلاف ہوتا ہے جو اونٹ کی پیٹھ پر کاٹھی کے نیچے ہوتا ہے۔ فتنے کو اس سے اس کی چپکنے اور برقرار رہنے کی وجہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔

2. (د): سنن ابو داود، حدیث نمبر: 4242۔

3. فتنۂ ہرب: یعنی لوگ ایک دوسرے سے دشمنی اور جنگ کی وجہ سے بھاگیں گے۔

4. فتنۂ حرب: اس سے مراد لوگوں کے مال و اسباب کی لوٹ مار اور تباہی ہے۔

5. (حم): مسند احمد، حدیث نمبر: 6168۔ نیز دیکھیے صحیح الجامع: 4194، الصحیحہ: 974۔

6. السراء: اس سے مراد وہ نعمت اور خوشحالی ہے جو لوگوں کو صحت، فراوانی اور مصیبتوں سے نجات کی صورت میں خوش کرتی ہے۔ اسے "سراء" سے اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ اس کے وقوع کا سبب زیادہ عیش و آرام کی حالت میں گناہوں کا ارتکاب ہے۔

7. دخنھا: یعنی اس فتنے کے ظہور اور بھڑکنے کی وجہ۔ اس کا دھواں سے تشبیہ دی گئی ہے۔

8. یزعم انه مني: یعنی وہ یہ گمان کرے گا کہ وہ میرے طریقے پر ہے، حالانکہ نسبی طور پر وہ مجھ سے ہو سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ وہی اس فتنے کو ہوا دے گا۔

9. وليس مني: یعنی وہ میرے طریقے پر نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ میرا ہوتا تو فتنہ نہ برپا کرتا۔

10. يَصْطَلِحُ النَّاسُ: یعنی لوگ کسی ایک شخص کی بیعت پر متفق ہو جائیں گے۔

11. كَوَرِكٍ عَلَى ضِلَعٍ: یہ ایک مثال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ غیر مستحکم اور درست نہیں ہوگا، کیونکہ پسلی پر کولہا درست طریقے سے قائم نہیں رہ سکتا۔ مراد یہ کہ وہ شخص حکمرانی کے لیے موزوں اور مستقل نہیں ہوگا۔

12. الدُّهَيْمَاء: سیاہی مائل۔ تکبیر (تصغیر) ذم کے لیے ہے۔ یعنی بہت بڑا اور اندھیرے میں ڈالنے والا فتنہ۔

13. لَا تَدَعُ: یعنی یہ فتنہ کسی کو نہیں چھوڑے گا۔

14. لَطَمَتْهُ لَطْمَةً: یعنی اس فتنے کی مصیبت اور آزمائش ہر شخص کو لگی ہوگی۔

15. انقضت: یعنی جب بھی لوگ یہ سمجھیں گے کہ فتنہ ختم ہو گیا ہے۔

16. تَمَادَتْ: یعنی وہ فتنہ پھیلے گا، جاری رہے گا اور قائم ہو جائے گا۔

17. فُسْطَاطَيْنِ: یہاں "فسطاط" سے مراد لوگوں کا گروہ یا لشکر ہے۔ یعنی لوگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے۔

18. فَانْتَظِرُوا الدجال: یعنی اس کے ظہور کا انتظار کرو۔

19. (د): سنن ابو داود، حدیث نمبر: 4242۔




عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ - رضي الله عنهما - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:

" يَخْرُجُ الدجال فِي خَفْقَةٍ مِنْ الدِّينِ (¬1) وَإِدْبَارٍ مِنْ الْعِلْمِ " (¬2)

¬_________

(¬1) أَيْ: في حالِ ضَعْفٍ من الدّين وقِلَّةِ أهله. النهاية في غريب الأثر - (ج 2 / ص 131)

(¬2) (حم) 14997 , وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص115]

ترجمہ:

حدیث#11

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"دجال اس وقت نکلے گا جب دین (کی پابندی) کمزور ہوگی اور علم (کا دور) پِشٹ پائی کر رہا ہوگا۔"

---

حاشیہ وحوالہ :

1. "خَفْقَةٍ مِنْ الدِّينِ" کا مطلب ہے: دین کی کمزوری کے حالات میں اور اس کے ماننے والوں کی کمی میں۔

2. یہ حدیث امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند (حدیث نمبر: 14997) میں روایت کی ہے، اور شیخ شعیب ارناؤوط رحمہ اللہ نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔






عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ:

كُنْتُ بِالْكُوفَةِ فَقِيلَ: خَرَجَ الدجال، قَالَ: فَأَتَيْنَا عَلَى حُذَيْفَةَ بْنِ أُسَيْدٍ الْغِفَارِيِّ - رضي الله عنه - وَهُوَ يُحَدِّثُ، فَقُلْتُ: هَذَا الدجال قَدْ خَرَجَ، فَقَالَ: اجْلِسْ، فَجَلَسْتُ، فَأَتَى عَلَيْهِ الْعَرِّيفُ (¬1) فَقَالَ: هَذَا الدَّجَّالُ قَدْ خَرَجَ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يُطَاعِنُونَهُ، قَالَ: اجْلِسْ، فَجَلَسَ، فَنُودِيَ: إِنَّهَا كَذِبَةٌ صَبَّاغٌ، فَقُلْنَا: يَا أَبَا سَرِيحَةَ، مَا أَجْلَسْتَنَا إِلَّا لِأَمْرٍ فَحَدِّثْنَا، قَالَ: إِنَّ الدَّجَّالَ لَوْ خَرَجَ فِي زَمَانِكُمْ لَرَمَتْهُ الصِّبْيَانُ بِالْخَذْفِ (¬2)

وَلَكِنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ فِي بُغْضٍ مِنَ النَّاسِ، وَخِفَّةٍ مِنَ الدِّينِ، وَسُوءِ ذَاتِ بَيْنٍ " (¬3)

¬_________

(¬1) العريف: القَيِّم الذي يتولى مسئولية جماعة من الناس.

(¬2) أي: لقذفوه بالحجارة.

(¬3) (ك) 8612 ا , وصححه الألباني في كتاب قصة المسيح الدجال ص106


[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص116]

ترجمہ:

حدیث#12

حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں کوفہ میں تھا۔ کہا گیا کہ دجال نکل آیا ہے۔ تو ہم حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ حدیث بیان کر رہے تھے۔ میں نے کہا: یہ دجال نکل آیا ہے۔ تو انہوں نے کہا: بیٹھ جاؤ۔ تو میں بیٹھ گیا۔ پھر عریف (ذمہ دار شخص) ان کے پاس آیا اور کہا: یہ دجال نکل آیا ہے، اور اہل کوفہ اس سے لڑ رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہا: بیٹھ جاؤ۔ تو وہ بیٹھ گیا۔ پھر اعلان کیا گیا: یہ جھوٹا رنگریز ہے (یعنی وہ دجال نہیں تھا)۔ تو ہم نے کہا: اے اباسریحہ! آپ نے ہمیں صرف کسی خاص بات کے لیے بٹھایا ہے، تو ہمیں حدیث سنائیں۔ انہوں نے کہا: بے شک دجال اگر تمہارے زمانے میں نکلتا تو بچے اسے کنکریاں مارتے (یعنی اس کا کوئی اثر نہ ہوتا)۔ لیکن دجال اس وقت نکلے گا جب لوگوں میں آپس کی بغض ہوگا، دین کمزور ہوگا، اور باہمی تعلقات خراب ہوں گے۔

---

حاشیہ وحوالہ :

1. العریف: وہ ذمہ دار شخص جو لوگوں کے ایک گروہ کی نگرانی کرتا ہے۔

2. بِالْخَذْفِ: یعنی بچے اسے پتھر مارتے۔

3. یہ روایت الکامل فی ضعفاء الرجال (8612 ا) میں ہے، اور امام البانی نے کتاب "قصۃ المسیح الدجال" (ص106) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔





عَنْ حُذَيْفَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:

" لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي زَمَانٌ يَتَمَنَّوْنَ فِيهِ الدجال "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مِمَّ ذَاكَ؟ , قَالَ: " مِمَّا يَلْقُونَ مِنَ الْعَنَاءِ (¬1) " (¬2)

¬_________

(¬1) قلت: هذا يدل على أنه قبل الدجال تكون فِتَنٌ شديدة كما ذكر النبي - صلى الله عليه وسلم - في فتنة الدهيماء التي لا تدع أحدا إلا لطمته. ع

(¬2) (طس) 4289 , انظر الصَّحِيحَة: 3090


[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص117]


ترجمہ:

حدیث#13

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"میری امت پر ضرور ایسا زمانہ آئے گا جب وہ دجال کی تمنا کریں گے۔"

میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان، ایسا کیوں ہوگا؟ آپ نے فرمایا: "اس مصیبت کے باعث جو ان پر آئے گی۔"

---

حاشیہ وحوالہ:

1. میں کہتا ہوں: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کے ظہور سے پہلے سخت فتنے ہوں گے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ دہیماء کے بارے میں بیان فرمایا ہے جو ہر شخص کو اپنی زد میں لے لے گا۔

2. یہ حدیث طبرانی کی المعجم الکبیر (4289) میں ہے، نیز دیکھیے صحیحہ البانی (3090)۔





عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ:

لَمَّا فُتِحَتْ إِصْطَخْرُ نَادَى مُنَادٍ: أَلَا إِنَّ الدجال قَدْ خَرَجَ , فَلَقِيَهُمْ الصَّعْبُ بْنُ جَثَّامَةَ - رضي الله عنه - فَقَالَ: لَوْلَا مَا تَقُولُونَ لَأَخْبَرْتُكُمْ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: " لَا يَخْرُجُ الدَّجَّالُ حَتَّى يَذْهَلَ النَّاسُ عَنْ ذِكْرِهِ , وَحَتَّى تَتْرُكَ الْأَئِمَّةُ ذِكْرَهُ عَلَى الْمَنَابِرِ " (ضعيف) (¬1)

¬_________

(¬1) (حم) 16718 , وقال الشيخ شعيب الأرنؤوط: إسناده ضعيف لانقطاعه , راشد بن سعد المقرائي الحمصي لم يدرك الصعب بن جثامة. أ. هـ

قلت: الحديث ضعيف الإسناد , لكنَّ هذا هو الحاصل على أرض الواقع. ع


[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص118]

ترجمہ:

حدیث#14

حضرت راشد بن سعد سے روایت ہے کہ جب اصطخر فتح ہوا تو ایک منادی نے پکارا: آگاہ ہو جاؤ کہ دجال نکل آیا ہے۔ تو صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ ان سے ملے اور کہا: اگر تم لوگ یہ بات نہ کرتے تو میں تمہیں بتاتا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: "دجال اس وقت تک نہیں نکلے گا جب تک لوگ اس کے ذکر سے غافل نہ ہو جائیں، اور جب تک امام (خطباء) منبروں پر اس کا ذکر کرنا ترک نہ کر دیں۔"

---

حاشیہ وحوالہ:

1. یہ حدیث مسند احمد (16718) میں ہے۔ شیخ شعیب ارناؤوط نے کہا ہے کہ اس کا سند ضعیف ہے کیونکہ یہ منقطع ہے۔ راشد بن سعد مقرائی حمصی نے صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔

   میں کہتا ہوں: حدیث سنداً ضعیف ہے، لیکن (اس میں بیان کردہ) یہ بات عملی طور پر واقع ہو رہی ہے۔





عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ - رضي الله عنه - , عَنْ نَافِعِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ - رضي الله عنه - قَالَ:

كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِي غَزْوَةٍ فَقَالَ: " تَغْزُونَ جَزِيرَةَ الْعَرَبِ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ 

[ لَكُمْ] 

(¬1) ثُمَّ فَارِسَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ 

[ لَكُمْ] 

(¬2) ثُمَّ تَغْزُونَ الرُّومَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ 

[ لَكُمْ] 

(¬3) ثُمَّ تَغْزُونَ الدجال (¬4) فَيَفْتَحُهُ اللَّهُ 

[ لَكُمْ (¬5)] 

(¬6) " , فَقَالَ لِي نَافِعٌ: يَا جَابِرُ , لَا نَرَى الدَّجَّالَ يَخْرُجُ حَتَّى تُفْتَحَ الرُّومُ. (¬7)

¬_________

(¬1) (حم) 1540 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.

(¬2) (حم) 1540

(¬3) (حم) 1540

(¬4) الخطاب فيه للصحابة , والمراد الأمة. مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (ج 15 / ص 398)

(¬5) أَيْ: يجعله مقهورا مغلوبا. مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (ج 15 / ص 398)

(¬6) (حم) 1540

(¬7) (م) 2900 , (جة) 4091۔

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص119]

ترجمہ:

حدیث#15

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ، حضرت نافع بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے تو آپ نے فرمایا: "تم جزیرہ عرب پر غزوہ کرو گے تو اللہ اسے تمہارے لیے فتح کر دے گا، پھر فارس (ایران) پر غزوہ کرو گے تو اللہ اسے تمہارے لیے فتح کر دے گا، پھر تم روم (بازنطینی سلطنت) پر غزوہ کرو گے تو اللہ اسے تمہارے لیے فتح کر دے گا، پھر تم دجال پر غزوہ کرو گے تو اللہ اسے (تمہارے لیے) فتح (مغلوب) کر دے گا۔"

حضرت نافع نے مجھ سے کہا: اے جابر! ہم دجال کے نکلنے کو اس وقت تک نہیں دیکھیں گے جب تک روم فتح نہیں ہو جاتا۔

---

حوالہ وحاشیہ:

1. (حم) 1540، شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

2. (حم) 1540

3. (حم) 1540

4. یہ خطاب صحابہ کرام کے لیے ہے اور مراد امت مسلمہ ہے۔

5. یعنی اللہ اسے مغلوب اور شکست خوردہ بنا دے گا۔

6. (حم) 1540

7. یہ حدیث مسلم (2900) اور ابن ماجہ (4091) میں بھی موجود ہے۔





عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:

" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ (¬1) فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنْ الْمَدِينَةِ مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ، فَإِذَا تَصَافُّوا (¬2) قَالَتْ الرُّومُ: خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا (¬3) مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ، فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ: لَا وَاللَّهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا، فَيُقَاتِلُونَهُمْ، فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا، وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ هُمْ أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ، وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا، فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ (¬4) فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ قَدْ عَلَّقُوا سُيُوفَهُمْ بِالزَّيْتُونِ , إِذْ صَاحَ فِيهِمْ الشَّيْطَانُ: إِنَّ الْمَسِيحَ (¬5) قَدْ خَلَفَكُمْ فِي أَهْلِيكُمْ، فَيَخْرُجُونَ - وَذَلِكَ بَاطِلٌ - فَإِذَا جَاءُوا الشَّامَ خَرَجَ، فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ يُسَوُّونَ الصُّفُوفَ، إِذْ أُقِيمَتْ الصَلَاةُ، فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ - صلى الله عليه وسلم - فَأَمَّهُمْ، فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللَّهِ (¬6) ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ، وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللَّهُ بِيَدِهِ (¬7) فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ " (¬8)

¬_________

(¬1) (الْأَعْمَاق وَدَابِق) مَوْضِعَانِ بِالشَّامِ بِقُرْبِ حَلَب. (النووي - ج 9 / ص 276)

(¬2) تصافَّ: قام في مواجهة غيره وجها لوجه.

(¬3) سَبَوا: أسروا.

(¬4) أي: مدينة استنبول.

(¬5) أي: الدجال.

(¬6) أي: الدجال.

(¬7) يعني: أن اللَّه يقتله على يد عيسى. كقوله تعالى: {فلم تقتلوهم ولكن الله قتلهم} 

.

(¬8) (م) 2897۔

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص120]

ترجمہ:

حدیث#16

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک روم (کی فوج) الاعماق یا دابق (شام کے دو مقامات) میں نہ اتر آئے۔ پس ان سے جنگ کے لیے مدینہ سے ایک لشکر نکلے گا جو اس دن زمین کے بہترین لوگوں میں سے ہوگا۔ جب دونوں فوجیں آمنے سامنے صف آرائی کریں گی تو روم (کی فوج) کہے گی: ہمیں اور ان (مسلمانوں) کو چھوڑ دو جو ہم میں سے گرفتار ہوئے ہیں، ہم ان سے لڑیں گے۔ مسلمان کہیں گے: نہیں، اللہ کی قسم! ہم تمہیں اور اپنے بھائیوں کے درمیان نہیں چھوڑیں گے۔ چنانچہ وہ ان سے لڑیں گے۔ ایک تہائی پسپا ہو جائے گا، اللہ ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ ایک تہائی قتل ہو جائیں گے، وہ اللہ کے نزدیک بہترین شہید ہوں گے۔ اور ایک تہائی فتح یاب ہوں گے، وہ کبھی فتنے میں نہیں پڑیں گے، پھر وہ قسطنطنیہ فتح کر لیں گے۔ پھر جب وہ مال غنیمت تقسیم کر رہے ہوں گے، اپنی تلواروں کو زیتون کے درخت پر لٹکائے ہوئے ہوں گے، اتنے میں شیطان ان میں چیخے گا: بے شک مسیح (دجال) تمہارے گھر والوں میں تمہاری جگہ لے چکا ہے۔ تو وہ (واپس) نکلیں گے، حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔ پھر جب وہ شام پہنچیں گے تو دجال نکل آئے گا۔ پھر جب وہ جنگ کی تیاری کر رہے ہوں گے، صفیں درست کر رہے ہوں گے، اتنے میں نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی۔ تو عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے اور ان کی امامت کریں گے۔ پس جب اللہ کا دشمن (دجال) آپ کو دیکھے گا تو اس طرح پگھل جائے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔ اگر آپ اسے چھوڑ دیتے تو یوں ہی پگھل کر ہلاک ہو جاتا، لیکن اللہ اسے آپ کے ہاتھ سے قتل کروائے گا، پھر آپ انہیں اپنی نیزے پر اس کا خون دکھائیں گے۔"


---


(تشریحی نوٹس)


1. الْأَعْمَاق وَدَابِق: شام کے قریب حلب کے پاس دو مقامات ہیں۔

2. تَصَافُّوا: آمنے سامنے صف بندی کر لی۔

3. سَبَوْا: گرفتار کر لیے تھے۔

4. قُسْطَنْطِينِيَّةَ: یعنی استنبول شہر۔

5. الْمَسِيحَ: یعنی دجال۔

6. عَدُوُّ اللَّهِ: یعنی دجال۔

7. يَقْتُلُهُ اللَّهُ بِيَدِهِ: یعنی اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اسے قتل کروائے گا۔ جیسے اللہ کا فرمان ہے: "فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ" (الانفال:17)۔

8. یہ حدیث صحیح مسلم (2897) میں ہے۔



عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ (¬1) خَرَابُ يَثْرِبَ (¬2) وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ (¬3) وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ قُسْطَنْطِينِيَّةَ , وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدجال (¬4) " (¬5)
¬_________
(¬1) أَيْ: عِمَارَته بِكَثْرَةِ الرِّجَال وَالْعَقَار وَالْمَال. عون المعبود - (ج 9 / ص 330)
(¬2) (يَثْرِب): اِسْم الْمَدِينَة الْمُشَرَّفَة , أَيْ: عُمْرَان بَيْت الْمَقْدِس كَامِلًا مُجَاوِزًا عَنْ الْحَدِّ , وَقْت خَرَاب الْمَدِينَة. عون المعبود - (ج 9 / ص 330)
(¬3) أَيْ: ظُهُور الْحَرْب الْعَظِيمة , قَالَ اِبْن الْمَلَك: بَيْن أَهْل الشَّام وَالرُّوم. عون المعبود - (ج 9 / ص 330)
(¬4) خُلَاصَته أَنَّ كُلّ وَاحِد مِنْ هَذِهِ الْأُمُور أَمَارَةٌ لِوُقُوعِ مَا بَعْده , وَإِنْ وَقَعَ هُنَاكَ مُهْمَلَة. عون المعبود - (ج 9 / ص 330)
(¬5) (د) 4294 , (حم) 22076 , انظر صحيح الجامع: 4096 , المشكاة: 5424


[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص121]

ترجمہ:

حدیث#17

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بیت المقدس کی آبادی (یثرب) مدینہ کی ویرانی ہے، اور مدینہ کی ویرانی عظیم جنگ (ملحمة) کا ظہور ہے، اور عظیم جنگ کا ظہور قسطنطنیہ کی فتح ہے، اور قسطنطنیہ کی فتح دجال کا خروج ہے۔"

---

(تشریحی نوٹس)

1. عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ: اس سے مراد بیت المقدس کی مکمل آبادی، مردوں، جائیدادوں اور مال و دولت کی کثرت ہے۔
2. خَرَابُ يَثْرِبَ: (یثرب) مدینہ منورہ کا نام ہے۔ یعنی بیت المقدس کا پورا طور پر آباد ہونا اس وقت ہوگا جب مدینہ ویران ہو رہا ہوگا۔
3. خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ: یعنی عظیم جنگ کا ظہور۔ ابن الملک نے کہا ہے کہ یہ شام والوں اور رومیوں کے درمیان ہوگی۔
4. اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے بعد والا واقعہ رونما ہوگا، اگرچہ درمیان میں کچھ فاصلہ بھی ہو سکتا ہے۔
5. یہ حدیث سنن ابو داود (4294)، مسند احمد (22076) میں ہے۔ نیز دیکھیے صحیح الجامع (4096) اور مشکوۃ المصابیح (5424)۔




كَثْرَةُ الدَّجَاجِلَة قَبْلَ خُرُوجِ الدجال 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:

" (لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ (¬1) دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ قَرِيبٌ مِنْ ثَلَاثِينَ (¬2)) (¬3) (مِنْهُمْ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ) (¬4) (كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ) (¬5) (يَكْذِبُ عَلَى اللَّهِ وَعَلَى رَسُولِهِ (¬6)) (¬7) (وَإِنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ , لَا نَبِيَّ بَعْدِي) (¬8)

¬_________

(¬1) أَيْ: يَخْرُج، وَلَيْسَ الْمُرَاد بِالْبَعْثِ مَعْنَى الْإِرْسَال الْمُقَارِن لِلنُّبُوَّةِ، بَلْ هُوَ كَقَوْلِهِ تَعَالَى (إِنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِين عَلَى الْكَافِرِينَ) (فتح) - (ج 10 / ص 410)

(¬2) لَيْسَ الْمُرَاد بِالْحَدِيثِ مَنْ اِدَّعَى النُّبُوَّة مُطْلَقًا , فَإِنَّهُمْ لَا يُحْصَوْنَ كَثْرَةً , وَإِنَّمَا الْمُرَاد مَنْ قَامَتْ لَهُ شَوْكَة وَبَدَتْ لَهُ شُبْهَة كَمَنْ وَصَفْنَا، وَقَدْ أَهْلَكَ اللَّه تَعَالَى مَنْ وَقَعَ لَهُ ذَلِكَ مِنْهُمْ , وَبَقِيَ مِنْهُمْ مَنْ يُلْحِقهُ بِأَصْحَابِهِ , وَآخِرهمْ الدجال الْأَكْبَر. (فتح) - (ج 10 / ص 410)

(¬3) (خ) 6704 , (م) 157

(¬4) (حم) 23406 , وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.

(¬5) (خ) 6704 , (م) 157

(¬6) رَوَى (د) 4334: " قال إِبْرَاهِيم النَّخَعِيِّ لِعُبَيْدَة بْن عَمْرو: أَتَرَى الْمُخْتَارَ بن أبي عبيد الثقفي مِنْهُمْ , فَقَالَ عُبَيْدَةُ: أَمَا إِنَّهُ مِنْ الرُّءُوسِ.

(¬7) (د) 4334

(¬8) (حم) 23406

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص123]

ترجمہ:

دجال کے ظہور سے پہلے کثیر تعداد میں دجالوں کا آنا

حدیث#18

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک قریب تیس جھوٹے دجال نہ اٹھائے جائیں، ان میں چار عورتیں بھی ہوں گی۔ وہ سب یہ دعویٰ کریں گے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ وہ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ اور میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔")

---

حاشیہ وحوالہ:

1. يُبْعَثَ سے مراد ظاہر ہونا ہے، نہ کہ نبوت کے ساتھ مخصوص رسول بنا کر بھیجنا۔ یہ اللہ کے قول "إِنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ" کی طرح ہے۔

2. اس حدیث سے مراد ہر وہ شخص نہیں ہے جو مطلقاً نبوت کا دعویٰ کرے، کیونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بلکہ مراد وہ لوگ ہیں جن کی کوئی طاقت ہو اور ان کے پاس کوئی (دھوکہ دینے والی) بات ہو، جیسا کہ ہم نے بیان کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک کو جو یہ کام کرتا آیا ہلاک کر دیا ہے، اور ان میں سے وہ باقی بچے ہیں جن کو وہ اپنے ساتھیوں سے ملائے گا، اور ان میں سے آخری سب سے بڑا دجال ہوگا۔

3. یہ حدیث بخاری (6704) اور مسلم (157) میں ہے۔

4. یہ حدیث مسند احمد (23406) میں ہے، اور شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

5. یہ حدیث بخاری (6704) اور مسلم (157) میں ہے۔

6. سنن ابو داود (4334) میں ہے کہ ابراہیم نخعی نے عبیدہ بن عمرو سے پوچھا: کیا تم مختار بن ابی عبید ثقفی کو ان (دجالوں) میں سے سمجھتے ہو؟ تو عبیدہ نے کہا: وہ (جھوٹے دعویداروں میں) سرغنہ (بڑے سر) تھے۔

7. یہ حدیث سنن ابو داود (4334) میں ہے۔

8. یہ حدیث مسند احمد (23406) میں ہے۔





صِفَةُ الدجال

عَنْ ابْنِ عُمَرَ - رضي الله عنهما - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:

" (أُرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فِي الْمَنَامِ) (¬1) (فَرَأَيْتُ رَجُلًا آدَمَ (¬2) كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ 

[ وفي رواية: أَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ] 

(¬3) لَهُ لِمَّةٌ (¬4) كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ اللِّمَمِ) (¬5) (تَضْرِبُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ) (¬6) (قَدْ رَجَّلَهَا (¬7) فَهِيَ تَقْطُرُ مَاءً (¬8)) (¬9) (وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ , فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (¬10) ثُمَّ رَأَيْتُ رَجُلًا وَرَاءَهُ) (¬11) (أَحْمَرًا (¬12) جَسِيمًا (¬13)) (¬14) (جَعْدًا قَطَطًا (¬15) أَعْوَرَ الْعَيْنِ الْيُمْنَى) (¬16) (كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ (¬17)) (¬18) (وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلٍ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ , فَقُلْتُ مَنْ هَذَا؟ , فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ الدجال) (¬19) (وَأَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا ابْنُ قَطَنٍ (¬20)) (¬21) "

¬_________

(¬1) (خ) 3256

(¬2) أَيْ: أَسْمَر.

(¬3) (خ) 3255

(¬4) (اللِّمَّة) جَمْعهَا لِمَم , كَقِرْبَةِ وَقِرَب , وَهُوَ الشَّعْر الْمُتَدَلِّي الَّذِي جَاوَزَ شَحْمَة الْأُذُنَيْنِ , فَإِذَا بَلَغَ الْمَنْكِبَيْنِ فَهُوَ (جُمَّة) وَإِذَا قَصُرَتْ عَنْهُمَا فَهِيَ وَفْرَة. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)

(¬5) (خ) 5562 , (م) 169

(¬6) (خ) 3256

(¬7) أَيْ: سَرَّحَهَا بِمُشْطٍ مَعَ مَاء أَوْ غَيْره. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)

(¬8) يُحْتَمَل أَنْ يُرِيد أَنَّهَا تَقْطُر مِنْ الْمَاء الَّذِي سَرَّحَهَا بِهِ لِقُرْبِ تَرْجِيله , وقَالَ الْقَاضِي عِيَاض: وَمَعْنَاهُ عِنْدِي أَنْ يَكُون ذَلِكَ عِبَارَة عَنْ نَضَارَته وَحُسْنه، وَاسْتِعَارَةً لِجَمَالِهِ. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)

(¬9) (خ) 5562 , (م) 169

(¬10) اخْتَلَفَ الْعُلَمَاء فِي سَبَب تَسْمِيَته مَسِيحًا , قَالَ الْوَاحِدِيّ: ذَهَبَ أَبُو عُبَيْد وَاللَّيْث إِلَى أَنَّ أَصْله بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَشِيحًا فَعَرَّبَتْهُ الْعَرَب وَغَيَّرَتْ لَفْظه، كَمَا قَالُوا: مُوسَى وَأَصْله مُوشِى بِالْعِبْرَانِيَّةِ , فَلَمَّا عَرَّبُوهُ غَيَّرُوهُ , فَعَلَى هَذَا لَا اِشْتِقَاق لَهُ , وَذَهَبَ أَكْثَر الْعُلَمَاء إِلَى أنَّهُ مُشْتَقّ , ثُمَّ اِخْتَلَفَ هَؤُلَاءِ , فَحُكِيَ عَنْ اِبْن عَبَّاسرضي الله عنهماأَنَّهُ قَالَ: لِأَنَّهُ لَمْ يَمْسَح ذَا عَاهَة إِلَّا بَرِئَ وَقَالَ إِبْرَاهِيم وَابْن الْأَعْرَابِيّ: الْمَسِيح الصِّدِّيق , وَقِيلَ: لِكَوْنِهِ مَمْسُوح أَسْفَل الْقَدَمَيْنِ لَا أَخْمُص لَهُ، وَقِيلَ: لِمَسْحِ زَكَرِيَّا إِيَّاهُ، وَقِيلَ: لِمَسْحِهِ الْأَرْض , أَيْ: قَطْعهَا، وَقِيلَ: لِأَنَّهُ خَرَجَ مِنْ بَطْن أُمّه مَمْسُوحًا بِالدُّهْنِ، وَقِيلَ: لِأَنَّهُ مُسِحَ بِالْبَرَكَةِ حِين وُلِدَ، وَقِيلَ: لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى مَسَحَهُ , أَيْ: خَلَقَهُ خَلْقًا حَسَنًا , وَقِيلَ غَيْر ذَلِكَ. وَاَللَّه أَعْلَم. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)

(¬11) (خ) 3256

(¬12) الْأَحْمَر عِنْد الْعَرَب: الشَّدِيد الْبَيَاض مَعَ الْحُمْرَة.

(¬13) أي: ضخم الجسد.

(¬14) (خ) 3257 , (م) 169

(¬15) الْمُرَاد بِهِ شِدَّة جُعُودَة الشَّعْر.

(¬16) (خ) 3256

(¬17) (طَافِيَة) أَيْ: بَارِزَة، وَمَعْنَاهُ أَنَّهَا نَاتِئَة نُتُوء حَبَّة الْعِنَب مِنْ بَيْن أَخَوَاتهَا، وَضَبَطَهُ بَعْض الشُّيُوخ بِالْهَمْزِ (طافئة) فَقَدْ جَاءَ فِي حديث آخَر أَنَّهُ مَمْسُوح الْعَيْن (مَطْمُوسَة) وَلَيْسَتْ جَحْرَاءَ وَلَا نَاتِئَة، وَهَذِهِ صِفَة حَبَّة الْعِنَب إِذَا سَالَ مَاؤُهَا وَهُوَ يُصَحِّح رِوَايَة الْهَمْز. (فتح الباري) - (ج 20 / ص 139)

(¬18) (خ) 5562

(¬19) (خ) 3256

(¬20) قَالَ الزُّهْرِيُّ: هو رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ هَلَكَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ. (خ) 3257

(¬21) (خ) 3257 , (م) 169 

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص125]

ترجمہ:


حدیث#19

دجال کی صفت


حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"میں نے رات کو خواب میں خود کو کعبہ کے پاس دیکھا۔ میں نے ایک گندمی رنگت والا آدمی دیکھا، جیسے گندمی رنگ والے مردوں میں سے سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔

ایک روایت میں ہے: (سرخ رنگت، گھونگریالے بال، چوڑے سینے والا)

اس کے سر کے بال (لمہ) تھے، جیسے تم لموں میں سے سب سے خوبصورت دیکھتے ہو۔

وہ (لمہ) اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان لٹک رہا تھا۔

اس نے اس (بال) میں کنگھی کر رکھی تھی، وہ پانی ٹپکا رہا تھا۔

وہ اپنے ہاتھ دو آدمیوں کے مونڈھوں پر رکھے ہوئے تھا اور بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ مسیح ابن مریم ہیں۔

پھر میں نے ان کے پیچھے ایک آدمی کو دیکھا۔

سرخ رنگت والا، جسمانی طور پر بہت بڑا،

گھونگریالے، بال بالکل گھنگریالے، دائیں آنکھ سے کانا،

گویا وہ آنکھ ابھری ہوئی انگور کی گٹھلی ہے،

اپنے ہاتھ ایک آدمی کے مونڈھوں پر رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ مسیح دجال ہے۔

اور اس سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والا شخص (خزاعہ قبیلے کا) ابن قطن ہے۔"


---


(تشریحی نوٹس)


1. (بخاری) 3256۔

2. آدم: یعنی گندمی یا سانولا رنگ۔

3. (بخاری) 3255۔

4. لِمَّة: اس کی جمع لِمَم ہے۔ یہ وہ بال ہوتے ہیں جو کانوں کی لو تک لٹکے ہوں۔ اگر مونڈھوں تک ہوں تو جُمَّة کہلاتے ہیں، اور اگر ان سے چھوٹے ہوں تو وَفْرَة کہلاتے ہیں۔

5. (بخاری) 5562، (مسلم) 169۔

6. (بخاری) 3256۔

7. رَجَّلَهَا: یعنی پانی یا تیل لگا کر کنگھی کی تھی۔

8. تَقْطُرُ مَاءً: اس کا احتمال یہ ہے کہ بال پانی کے قطرے ٹپکا رہے تھے کیونکہ ابھی کنگھی کی تھی۔ قاضی عیاض نے کہا: میرے نزدیک اس کا مطلب اس کی تازگی اور خوبصورتی کی تعبیر ہے، اور اس کے حسن کے لیے استعارہ ہے۔

9. (بخاری) 5562، (مسلم) 169۔

10. المسیح ابن مریم: علماء نے اس نام کی وجہ تسمیہ میں اختلاف کیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ عبرانی لفظ "مشیحا" سے عربی میں آیا ہے۔ دوسرے علماء کے نزدیک یہ مشتق ہے۔ پھر ان میں بھی اختلاف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک اسے "مسیح" اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ جس مریض پر ہاتھ پھیرتے تھے وہ شفا یاب ہو جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ممسوح القدم (یعنی تلوے کا ابھار نہ ہونا) تھے، یا انہیں زکریا علیہ السلام نے مسح کیا تھا، یا وہ زمین کو مسح کرتے (طواف کرتے) تھے، یا پیدا ہونے پر تیل لگایا گیا تھا، یا اللہ نے انہیں مسح کیا (یعنی خوبصورت بنایا)۔ واللہ اعلم۔

11. (بخاری) 3256۔

12. أَحْمَر: عرب کے ہاں احمر سے مراد وہ سفید رنگت ہے جس میں سرخی ہو۔

13. جَسِيم: یعنی بڑے جسم والا۔

14. (بخاری) 3257، (مسلم) 169۔

15. قَطَط: اس سے مراد بالوں کی شدید گھنگراہٹ ہے۔

16. (بخاری) 3256۔

17. عِنَبَةٌ طَافِيَة: یعنی ابھری ہوئی، گویا انگور کی گٹھلی دوسری گٹھلیوں کے درمیان سے ابھری ہوئی ہے۔ بعض شیوخ نے اسے طافِئَة (یعنی مدھم، بجھی ہوئی) پڑھا ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اس کی آنکھ ممسوح (ہموار، نہ ابھری ہوئی) ہوگی۔ یہ روایت ہمز کے ساتھ پڑھنے کی تصدیق کرتی ہے۔

18. (بخاری) 5562۔

19. (بخاری) 3256۔

20. ابن قطن: زہری نے کہا: یہ خزاعہ قبیلے کا ایک شخص تھا جو زمانہ جاہلیت میں مر گیا تھا۔

21. (بخاری) 3257، (مسلم) 169۔






عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" (مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ حَذَّرَ أُمَّتَهُ) (¬1) (الْأَعْوَرَ الْكَذَّابَ) (¬2) (لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ (¬3)) (¬4) (وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ) (¬5) (وَلَكِنِّي سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ) (¬6) (إِنَّهُ يَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ) (¬7) (وَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَنْ يَرَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رَبَّهُ - عز وجل - حَتَّى يَمُوتَ) (¬8) (وَإِنَّهُ أَعْوَرٌ) (¬9) (مَمْسُوحُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى , عَلَيْهَا ظَفَرَةٌ غَلِيظَةٌ (¬10)) (¬11)
[ وفي رواية: مَطْمُوسُ الْعَيْنِ , لَيْسَ بِنَاتِئَةٍ (¬12) وَلَا حَجْرَاءَ]
(¬13)
[ وفي رواية: إِحْدَى عَيْنَيْهِ كَأَنَّهَا زُجَاجَةٌ خَضْرَاءُ]
(¬14) (وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ) (¬15) (وَإِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كُفْرٌ) (¬16) (ثُمَّ تَهَجَّاهَا: (ك ف ر)) (¬17) (يَقْرَؤُهَا كُلُّ مُؤْمِنٍ أُمِّيٌّ وَكَاتِبٌ) (¬18)
[ وفي رواية: قَارِئٌ وَغَيْرُ قَارِئٍ]
(¬19) (هِجَانٌ أَزْهَرُ (¬20) كَأَنَّ رَأْسَهُ أَصَلَةٌ (¬21)) (¬22) (وَكَأَنَّ شَعْرَ رَأْسِهِ أَغْصَانُ شَجَرَةٍ) (¬23) (حُبُكٌ حُبُكٌ حُبُكٌ (¬24) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ) (¬25) (قَصِيرٌ (¬26) أَفْحَجُ (¬27)) (¬28) (وَلَا يُسَخَّرُ لَهُ مِنَ الْمَطَايَا (¬29) إِلَّا الْحِمَارُ، فَهُوَ رِجْسٌ (¬30) عَلَى رِجْسٍ) (¬31) "
¬_________
(¬1) (حم) 14144 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: صحيح.
(¬2) (خ) 6712
(¬3) قَوْله: (مَا مِنْ نَبِيّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمه، لَقَدْ أَنْذَرَ نُوح قَوْمه) هَذَا الْإِنْذَار لِعِظَمِ فِتْنَته وَشِدَّة أَمْرهَا. فتح الباري
(¬4) (خ) 2892
(¬5) (ت) 2234 , (خ) 2892
(¬6) (خ) 5821
(¬7) (جة) 4077 , (خ) 2892
(¬8) (ت) 2235 , (حم) 23722
(¬9) (خ) 6712 , (م) 2933
(¬10) (الظَّفَرَة): جِلْدَة تُغْشِي الْبَصَر، وَقَالَ الْأَصْمَعِيّ: لَحْمَة تَنْبُت عِنْد الْمَآقِي. (النووي - ج 9 / ص 326)
(¬11) (حم) 23327 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
(¬12) أي: بارزة.
(¬13) أَيْ: عَمِيقَة , وهذه الجملة في (د) 4320 , وانظر صَحِيح الْجَامِع: 2459
(¬14) (حم): 21173 , انظر صَحِيح الْجَامِع: 3401 , الصَّحِيحَة: 1863، وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.
(¬15) (خ) 6712 , (م) 2933
(¬16) (حم) 13168 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح , (خ) 6712
(¬17) (م) 2933 , (ت) 2245
(¬18) (حم) 13168 , (م) 2933
(¬19) (حم): 20417 , وصححها الألباني في قصة الدجال ص70 , وقال شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح
(¬20) الهِجان: الشديد البياض , والأزهر بمعناه.
(¬21) قال الشيخ الألباني في الصحيحة: 1193: (الأصَلة): الحية العظيمة الضخمة القصيرة , والعرب تشبه الرأس الصغير الكثير الحركة برأس الحية. كما في النهاية , والحديث صريح في أن الدجال الأكبر من البشر , وهو من الأدلة على بطلان تأويلهم بأنه ليس بشخص , وإنما هو رمز للحضارة الأوربية وزخارفها وفتنها , فالدجال بشر , وفتنته أكبر من ذلك. أ. هـ
وهذه القطعة من رواية (حم): 2148
(¬22) (حم) 2148 , انظر الصحيحة: 1193
(¬23) (حم) 3546 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح , وانظر كتاب الإسراء والمعراج للألباني ص75
(¬24) أَيْ: شعر رأسه مُتَكَسِّرٌ من الجعودة , مثل الرمل الذي تهب عليه الريح فيصير له حُبُك.
(¬25) (حم) 23207 , انظر الصَّحِيحَة: 2808
(¬26) هَذَا يَدُلّ عَلَى قِصَر قَامَة الدجال، وَقَدْ وَرَدَ فِي حَدِيث تَمِيم الدَّارِيّ فِي شَأْن الدَّجَّال أَنَّهُ أَعْظَم إِنْسَان , وَوَجْه الْجَمْع أَنَّهُ لَا يَبْعُد أَنْ يَكُون قَصِيرًا بَطِينًا عَظِيم الْخِلْقَة , قَالَ الْقَارِي: وَهُوَ الْمُنَاسِب لِكَوْنِهِ كَثِير الْفِتْنَة، أَوْ الْعَظَمَة مَصْرُوفَة إِلَى الْهَيْبَة , وقِيلَ: يَحْتَمِل أَنَّ اللَّه تَعَالَى يُغَيِّرهُ عِنْد الْخُرُوج. عون المعبود - (ج 9 / ص 358)
(¬27) (الأَفْحَج): هُوَ الَّذِي إِذَا مَشَى بَاعَدَ بَيْن رِجْلَيْهِ , فَهُوَ مِنْ جُمْلَة عُيُوبه. عون المعبود - (ج 9 / ص 358)
(¬28) (د) 4320
(¬29) المطايا: جمع مطية , وهي الدابة التي يُركبُ مَطاها , أَيْ: ظهرها.
(¬30) الرِّجس: اسم لكل مستقذر أو عمل قبيح.
(¬31) قال الحاكم في المستدرك: 8612 هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ، وقال الذهبي في التلخيص: على شرط البخاري ومسلم، وقال الألباني في قصة الدجال ص106: وهو كما قالا , وصححه الألباني في صحيح الجامع: 7875

ترجمہ:

حدیث#20
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی امت کو کانے جھوٹے (دجال) سے ڈرایا نہ ہو۔ بے شک نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا، اور میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں۔ لیکن میں تم سے اس بارے میں ایک ایسی بات کہوں گا جو کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی۔ وہ (دجال) کہے گا: 'میں تمہارا رب ہوں۔' اور تم جانتے ہو کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے رب (عزوجل) کو موت سے پہلے نہیں دیکھ سکتا۔ اور وہ کانا ہے، اس کی بائیں آنکھ ممسوح (ہموار) ہے، اس پر موٹی جھلی ہے۔

ایک روایت میں ہے: 'اس کی آنکھ ممسوح ہے، نہ ابھری ہوئی ہے اور نہ گہری۔'

اور ایک روایت میں ہے: 'اس کی ایک آنکھ ایسی ہے جیسے سبز شیشہ۔'

اور بے شک تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ اور اس کی آنکھوں کے درمیان 'ک ف ر' لکھا ہوگا، ہر مومن چاہے ان پڑھ ہو یا لکھا پڑھا، اسے پڑھ لے گا۔

ایک روایت میں ہے: 'پڑھنے والا اور نہ پڑھنے والا۔'

وہ سفید رنگت والا ہے، گویا اس کا سر سانپ کا سر ہے۔ اور گویا اس کے سر کے بال درخت کی شاخیں ہیں، بل کھائی ہوئی، بل کھائی ہوئی، بل کھائی ہوئی (تین بار)۔

وہ قد میں چھوٹا اور ٹانگوں میں جھکا ہوا (افحج) ہے۔ اور اس کی سواریوں میں سے کوئی اس کے تابع نہیں ہوگی سوائے گدھے کے، تو وہ گندگی پر گندگی ہے۔"

---

تشریح:

1. (حم) 14144، شیخ شعیب ارناؤوط نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔


2. (خ) 6712۔


3. قول: 'کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی قوم کو ڈرایا نہ ہو، بے شک نوح نے اپنی قوم کو ڈرایا' یہ انذار اس لیے ہے کہ اس کی فتنہ انگیزی بہت بڑی اور سخت ہے۔


4. (خ) 2892۔


5. (ت) 2234، (خ) 2892۔


6. (خ) 5821۔


7. (جة) 4077، (خ) 2892۔


8. (ت) 2235، (حم) 23722۔


9. (خ) 6712، (م) 2933۔


10. (الظفرة): وہ جھلی جو آنکھ کے ڈھیلے پر چڑھی ہوتی ہے۔ اصمعی نے کہا: وہ گوشت جو آنکھ کے کنارے پر اگتا ہے۔


11. (حم) 23327، شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔


12. یعنی ابھری ہوئی۔


13. یعنی گہری، اور یہ جملہ (د) 4320 میں ہے، نیز دیکھیے صحیح الجامع: 2459۔


14. (حم) 21173، دیکھیے صحیح الجامع: 3401، الصحیحہ: 1863، اور شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔


15. (خ) 6712، (م) 2933۔


16. (حم) 13168، شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے، (خ) 6712۔


17. (م) 2933، (ت) 2245۔


18. (حم) 13168، (م) 2933۔


19. (حم) 20417، البانی نے قصہ الدجال ص70 میں اسے صحیح قرار دیا ہے، اور شعیب ارناؤوط نے کہا: اس کا سند صحیح ہے۔


20. الهجان: شدید سفید، اور الأزهر اسی معنی میں ہے۔


21. شیخ البانی نے الصحیحہ: 1193 میں کہا: (الأصلة): بڑا موٹا سانپ، اور عرب چھوٹے سر کو جو حرکت میں زیادہ ہو، سانپ کے سر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اور حدیث صراحت کرتی ہے کہ دجال اکبر انسانوں میں سے ہے، اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ ان کا تألیل باطل ہے کہ وہ کوئی شخص نہیں بلکہ یورپی تہذیب اور اس کی فتنہ انگیزیوں کی علامت ہے، بلکہ دجال ایک انسان ہے اور اس کا فتنہ اس سے بڑھ کر ہے۔ اور یہ ٹکڑا روایت (حم) 2148 سے ہے۔


22. (حم) 2148، دیکھیے الصحیحہ: 1193۔


23. (حم) 3546، شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے، اور دیکھیے کتاب الاسراء والمعراج للالبانی ص75۔


24. یعنی اس کے سر کے بال گھونگریالے ہیں، جیسے ریت پر ہوا چلنے سے بل پڑ جاتے ہیں۔


25. (حم) 23207، دیکھیے الصحیحہ: 2808۔


26. یہ دلالت کرتا ہے کہ دجال کی قد چھوٹی ہے، اور تمیم داری کی حدیث میں آیا ہے کہ وہ سب سے بڑا انسان ہے۔ جمع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بعید نہیں کہ وہ چھوٹا، موٹا اور بڑی ساخت والا ہو، قاری نے کہا: اور یہ اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ فتنہ انگیز ہو، یا عظمت ہیبت کے لیے ہو، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے نکلتے وقت بدل دے۔


27. (الأفحج): وہ شخص جو چلتے وقت اپنی ٹانگوں میں فاصلہ رکھتا ہے، اور یہ اس کی عیبوں میں سے ہے۔


28. (د) 4320۔


29. المطايا: مطیہ کی جمع، وہ سواری جس پر سوار ہوا جاتا ہے۔


30. الرجس: ہر گندی چیز یا برے کام کا نام۔


31. حاکم نے المستدرک: 8612 میں کہا: یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور ان دونوں (بخاری و مسلم) نے اسے روایت نہیں کیا، اور ذہبی نے التلخیص میں کہا: بخاری و مسلم کی شرط پر، اور البانی نے قصہ الدجال ص106 میں کہا: جیسا انہوں نے کہا، اور البانی نے صحیح الجامع: 7875 میں اسے صحیح قرار دیا ہے

۔





عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ - رضي الله عنه - قَالَ:

" ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ (¬1) فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ (¬2)

" حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ , فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ (¬3) " عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ: مَا شَأْنُكُمْ؟ " , فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ , فَقَالَ: " غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ (¬4) إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ , وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ , وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ , إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ (¬5) عَيْنُهُ طَافِئَةٌ , كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ " (¬6)

¬_________

(¬1) أَيْ: ذات صباح.

(¬2) قَوْلُهُ: (فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ) فِي مَعْنَاهُ قَوْلَانِ: أَحَدهمَا أَنَّ خَفَّضَ بِمَعْنَى حَقَّرَ، وَقَوْله: (رَفَّعَ) أَيْ عَظَّمَهُ وَفَخَّمَهُ فَمِنْ تَحْقِيره أَنَّ اللَّه تَعَالَى عَوَرَهُ، وَمِنْهُ قَوْله - صلى الله عليه وسلم -: " هُوَ أَهْوَن عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ " , وَأَنَّهُ لَا يَقْدِر عَلَى قَتْل أَحَد إِلَّا ذَلِكَ الرَّجُل، ثُمَّ يَعْجِز عَنْهُ، وَأَنَّهُ يَضْمَحِلّ أَمْره، وَيُقْتَل بَعْد ذَلِكَ هُوَ وَأَتْبَاعه ,


وَمِنْ تَفْخِيمه وَتَعْظِيم فِتْنَته وَالْمِحْنَة بِهِ هَذِهِ الْأُمُور الْخَارِقَة لِلْعَادَةِ، وَأَنَّهُ مَا مِنْ نَبِيّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمه. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 327)

(¬3) أصْل الرَّواح أن يكونَ بعد الزوال , فالمعنى أنهم سمعوا الحديث بعد صلاة الفجر , ثم رجعوا إلى المسجد عند صلاة الظهر.

(¬4) أَيْ: غَيْر الدَّجَّال أَخْوَف مُخَوِّفَاتِي عَلَيْكُمْ، فَأَخْوَف مَا أَخَاف عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّة الْمُضِلُّونَ. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 327)

(¬5) أَيْ: شَدِيد جُعُودَة الشَّعْر، مُبَاعِد لِلْجُعُودَةِ الْمَحْبُوبَة. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 327)

(¬6) (م) 2937 , (ت) 2240

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص127]

ترجمہ:

حدیث#21
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا، تو آپ نے اس (کے خطرے) کو گھٹا کر اور بڑھا کر (اس کی ہیبت اور اس کی کمزوری دونوں پہلو) بیان فرمایا، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے باغ میں موجود ہے۔ جب ہم (دوپہر کو) واپس آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر اس (تعجب) کو بھانپ لیا اور فرمایا: 'تمہیں کیا ہوا ہے؟' ہم نے عرض کیا: 'یا رسول اللہ! آپ نے صبح دجال کا ذکر کیا تھا، آپ نے اس (کے خطرے) کو گھٹا اور بڑھا کر بیان فرمایا، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے باغ میں موجود ہے۔' آپ نے فرمایا: 'دجال کے علاوہ (دنیا کے فتنے) مجھے تم پر زیادہ خوفناک لگتے ہیں۔ اگر وہ اس وقت نکلے جب میں تمہارے درمیان ہوں تو میں تمہاری طرف سے اس کا مقابلہ کرنے والا ہوں گا، اور اگر وہ اس وقت نکلے جب میں تمہارے درمیان نہ ہوں تو ہر شخص خود اپنا مدافع ہوگا، اور اللہ ہر مسلمان پر میرا نائب (مددگار) ہے۔

بے شک وہ جوان ہے، بال گھنگرالے ہیں، اس کی آنکھ بے نور/پھٹی ہوئی ہے، گویا میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے مشابہ پاتا ہوں۔'"

---

حاشیہ وحوالہ:

1. خفض فيه ورفع: اس کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ آپ نے اس کی عظمت اور اس کی فتنہ انگیزی کی شدت کو بڑھا چڑھا کر بیان فرمایا۔ دوسرا یہ کہ آپ نے اس کی ذلت اور اس پر اللہ کی قدرت (جیسے اس کا کانا ہونا) کو بھی بیان فرمایا۔

2. غیر الدجال أخوفني عليكم: یعنی دجال کے مقابلے میں، گمراہ کرنے والے حکمران یا دنیاوی فتنے مجھے تم پر زیادہ خوفناک لگتے ہیں۔

3. قطط: یعنی سخت گھونگریالے بال۔

4. یہ حدیث مسلم (2937) اور ترمذی (2240) میں ہے۔




خَبَرُ ابْنِ صَيَّادْ وَمُشَابَهَتُهُ لِلدَّجَّال


عَنْ ابْنِ عُمَرَ - رضي الله عنهما - قَالَ:

(انْطَلَقَ عُمَرُ مَعَ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فِي رَهْطٍ (¬1) قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ , فَوَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ (¬2) بَنِي مَغَالَةَ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ الْحُلُمَ (¬3)) (¬4) (فَلَمْ يَشْعُرْ ابْنُ صَيَّادٍ بِشَيْءٍ " حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ: تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ " , فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ (¬5) ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم -: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟) (¬6) (" فَرَفَضَهُ (¬7) رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَقَالَ: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ) (¬8) (ثُمَّ قَالَ لَهُ: يَا ابْنَ صَائِدٍ مَاذَا تَرَى؟ ") (¬9) (قَالَ: أَرَى عَرْشًا عَلَى الْمَاءِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " تَرَى عَرْشَ إِبْلِيسَ عَلَى الْبَحْرِ , وَمَا تَرَى؟ " , قَالَ: أَرَى صَادِقَيْنِ وَكَاذِبًا , أَوْ كَاذِبَيْنِ وَصَادِقًا) (¬10) (فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ) (¬11) (ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " مَا تُرْبَةُ الْجَنَّةِ " , قَالَ: دَرْمَكَةٌ (¬12) بَيْضَاءُ مِسْكٌ (¬13) يَا أَبَا الْقَاسِمِ قَالَ: " صَدَقْتَ) (¬14) (ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئَةً (¬15)) (¬16) (- وَخَبَأَ لَهُ: {يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} 

(¬17) - ") (¬18) (فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ (¬19) فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: اخْسَأْ (¬20) فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ (¬21) " , فَقَالَ عُمَرُ - رضي الله عنه -: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ) (¬22) (فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " دَعْهُ , فَإِنْ يَكُنْ الَّذِي نَخَافُ فَلَنْ تَسْتَطِيعَ قَتْلَهُ) (¬23) (

[ وفي رواية: فَلَسْتَ صَاحِبَهُ] 

إِنَّمَا صَاحِبُهُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، وَإِنْ لَا يَكُنْ هُوَ، فَلَيْسَ لَكَ أَنْ تَقْتُلَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْعَهْدِ، قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مُشْفِقًا (¬24) أَنَّهُ الدَّجَّالُ) (¬25) (ثُمَّ انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ - رضي الله عنه - إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، وَهُوَ يَخْتِلُ (¬26) أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَهُوَ مُضْطَجِعٌ فِي قَطِيفَةٍ (¬27)

لَهُ فِيهَا زَمْزَمَةٌ (¬28) فَرَأَتْ أمُّ ابْنِ صَيّادٍ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ "، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ: يَا عَبْدَ اللَّهِ - وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ (¬29) - هَذَا مُحَمَّدٌ، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ (¬30)) (¬31) (فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " مَا لَهَا قَاتَلَهَا اللَّهُ؟ , لَوْ تَرَكَتْهُ لَبَيَّنَ) (¬32) (قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِي النَّاسِ , فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ , ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ) (¬33) (فَقَالَ: مَا بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ أَمْرٌ أَعْظَمُ مِنْ الدَّجَّالِ) (¬34) وفي رواية: (مَا كَانَتْ فِتْنَةٌ وَلَا تَكُونُ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ أَكْبَرَ مِنْ فِتْنَةِ الدّجَّالِ) (¬35) (وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ حَذَّرَ أُمَّتَهُ) (¬36) (الْأَعْوَرَ الْكَذَّابَ) (¬37) (لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ (¬38)) (¬39) (وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ) (¬40) (وَلَكِنِّي سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ) (¬41) (إِنَّهُ يَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ) (¬42) (وَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَنْ يَرَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رَبَّهُ - عز وجل - حَتَّى يَمُوتَ) (¬43) (وَإِنَّهُ أَعْوَرٌ) (¬44) (مَمْسُوحُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى , عَلَيْهَا ظَفَرَةٌ غَلِيظَةٌ (¬45)) (¬46) 

[ وفي رواية: مَطْمُوسُ الْعَيْنِ , لَيْسَ بِنَاتِئَةٍ (¬47) وَلَا حَجْرَاءَ] 

(¬48) 

[ وفي رواية: إِحْدَى عَيْنَيْهِ كَأَنَّهَا زُجَاجَةٌ خَضْرَاءُ] 

(¬49) (وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ) (¬50) (وَإِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كُفْرٌ) (¬51) (ثُمَّ تَهَجَّاهَا: (ك ف ر)) (¬52) (يَقْرَؤُهَا كُلُّ مُؤْمِنٍ أُمِّيٌّ وَكَاتِبٌ) (¬53) 

[ وفي رواية: قَارِئٌ وَغَيْرُ قَارِئٍ] 

(¬54) (هِجَانٌ أَزْهَرُ (¬55) كَأَنَّ رَأْسَهُ أَصَلَةٌ (¬56)) (¬57) (وَكَأَنَّ شَعْرَ رَأْسِهِ أَغْصَانُ شَجَرَةٍ) (¬58) (حُبُكٌ حُبُكٌ حُبُكٌ (¬59) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ) (¬60) (قَصِيرٌ (¬61) أَفْحَجُ (¬62)) (¬63) (وَلَا يُسَخَّرُ لَهُ مِنَ الْمَطَايَا (¬64) إِلَّا الْحِمَارُ، فَهُوَ رِجْسٌ (¬65) عَلَى رِجْسٍ) (¬66) (قَالَ: وَأُرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فِي الْمَنَامِ) (¬67) (فَرَأَيْتُ رَجُلًا آدَمَ (¬68) كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ 

[ وفي رواية: أَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ] 

(¬69) لَهُ لِمَّةٌ (¬70) كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ اللِّمَمِ) (¬71) (تَضْرِبُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ) (¬72) (قَدْ رَجَّلَهَا (¬73) فَهِيَ تَقْطُرُ مَاءً (¬74)) (¬75) (وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ , فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (¬76) ثُمَّ رَأَيْتُ رَجُلًا وَرَاءَهُ) (¬77) (أَحْمَرًا (¬78) جَسِيمًا (¬79)) (¬80) (جَعْدًا قَطَطًا (¬81) أَعْوَرَ الْعَيْنِ الْيُمْنَى) (¬82) (كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ (¬83)) (¬84) (وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلٍ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ , فَقُلْتُ مَنْ هَذَا؟ , فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ) (¬85) (وَأَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا ابْنُ قَطَنٍ) (¬86) "

¬_________

(¬1) (الرَّهْطُ): عَدَدٌ مِنَ الرِّجَالِ مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَى عَشَرَةٍ , قَالَ الْقَزَّازُ: وَرُبَّمَا جَاوَزُوا ذَلِكَ قَلِيلًا.

(¬2) الْأُطُم: البناء المرتفع.

(¬3) أَيْ: قَارَبَ الْبُلُوغ.

(¬4) (خ) 1289

(¬5) قَوْله: (أَشْهَد أَنَّك رَسُول الْأُمِّيِّينَ) فِيهِ إِشْعَار بِأَنَّ الْيَهُود الَّذِينَ كَانَ اِبْن صَيَّاد مِنْهُمْ كَانُوا مُعْتَرِفِينَ بِبَعْثَةِ رَسُول اللَّه - صلى الله عليه وسلم -، لَكِنَّهم يَدَّعُونَ أَنَّهَا بَعْثةٌ مَخْصُوصَة بِالْعَرَبِ، وَفَسَاد حُجَّتهمْ وَاضِح جِدًّا، لِأَنَّهُمْ إِذَا أَقَرُّوا بِأَنَّهُ رَسُول اللَّه اِسْتَحَالَ أَنْ يَكْذِب عَلَى اللَّهِ، فَإِذَا اِدَّعَى أَنَّهُ رَسُوله إِلَى الْعَرَب وَإِلَى غَيْرهَا تَعَيَّنَ صِدْقه، فَوَجَبَ تَصْدِيقه. (فتح) - (ج 9 / ص 291)

(¬6) (خ) 2890

(¬7) أَيْ: تَرَكَهَ , وقد كان مُمْسِكًا به كما تقدم. ع

(¬8) (خ) 1289

(¬9) (حم) 14998 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.

(¬10) (م) 2925

(¬11) (خ) 1289

(¬12) الدَّرْمَك: هُوَ الدَّقِيق الْحُوَّارِيّ الْخَالِص الْبَيَاض. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 317)

(¬13) أَيْ أَنَّهَا فِي الْبَيَاض دَرْمَكَة، وَفِي الطِّيب مِسْك. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 317)

(¬14) (م) 2928

(¬15) أَيْ: أَخْفَيْت لَك شَيْئًا. (فتح) - (ج 9 / ص 291)

(¬16) (خ) 1289

(¬17) 

[ الدخان/10] 


(¬18) (ت) 2249

(¬19) روى الْبَزَّارِ وَالطَّبَرَانِيِّ فِي " الْأَوْسَط " مِنْ حَدِيث زَيْد اِبْن حَارِثَة قَالَ " كَانَ النَّبِيّ - صلى الله عليه وسلم - خَبَّأَ لَهُ سُورَة الدُّخَان " , وَكَأَنَّهُ أَطْلَقَ السُّورَة وَأَرَادَ بَعْضهَا، فَإِنَّ عِنْد أَحْمَد عَنْ عَبْد الرَّزَّاق فِي حَدِيث الْبَاب: " وَخَبَّأْت لَهُ: يَوْم تَأْتِي السَّمَاء بِدُخَانٍ مُبِينٍ " وَحَكَى أَبُو مُوسَى الْمَدِينِيّ أَنَّ السِّرّ فِي اِمْتِحَان النَّبِيّ - صلى الله عليه وسلم - لَهُ بِهَذِهِ الْآيَة , الْإِشَارَة إِلَى أَنَّ عِيسَى ابْن مَرْيَم يَقْتُل الدَّجَّال بِجَبَلِ الدُّخَّان، فَأَرَادَ التَّعْرِيض لِابْنِ الصَّيَّاد بِذَلِكَ , وَأَمَّا جَوَاب اِبْن صَيَّاد بِالدُّخِّ فَقِيلَ: إِنَّهُ اِنْدَهَشَ فَلَمْ يَقَع مِنْ لَفْظ الدُّخَان إِلَّا عَلَى بَعْضه. فتح الباري - (ج 9 / ص 291)

(¬20) خَسَأْتُ الْكَلْبَ: بَعَّدْتُهُ , وخَاسِئِينَ مُبْعَدِينَ.

(¬21) أَيْ: قَدْر أَمثَالك مِنْ الْكُهَّان الَّذِينَ يَحْفَظُونَ مِنْ إِلْقَاء شَيَاطِينهمْ مَا يَحْفَظُونَهُ مُخْتَلَطًا صِدْقه بِكَذِبِهِ. (فتح) (ج9ص291)

(¬22) (خ) 1289

(¬23) (م) 2924 , (حم) 3610

(¬24) أي: خائفا.

(¬25) (حم) 14998

(¬26) أَيْ: يَخْدَع اِبْن صَيَّاد وَيَتَغَفَّلهُ لِيَسْمَع شَيْئًا مِنْ كَلَامه، وَيَعْلَم هُوَ وَالصَّحَابَة حَاله فِي أَنَّهُ كَاهِن أَمْ سَاحِر وَنَحْوهمَا , وَفِي الحديث كَشْف أَحْوَال مَنْ تُخَاف مَفْسَدَته , وَفِيهِ كَشْف الْإِمَام الْأُمُور الْمُهِمَّة بِنَفْسِهِ. فتح الباري (ج9 ص291)

(¬27) القطيفة: كساء أو فِراش له أهداب ..

(¬28) (الزَّمْزَمَة): صَوْت خَفِيّ لَا يَكَادُ يُفْهَم.

(¬29) من رواية (حم): 14998 وقال الشيخ شعيب الأرنؤوط: إسناده على شرط مسلم.

(¬30) أَيْ: نَهَضَ مِنْ مَضْجَعه وَقَامَ.

(¬31) (خ) 1289

(¬32) (حم) 14998 , (خ) 1289

(¬33) (خ) 5821

(¬34) (م) (2946) , (حم) 16298

(¬35) عند (ك) 64 , انظر الصَّحِيحَة: 3081

(¬36) (حم) 14144 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: صحيح.

(¬37) (خ) 6712

(¬38) قَوْله: (مَا مِنْ نَبِيّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمه، لَقَدْ أَنْذَرَ نُوح قَوْمه) هَذَا الْإِنْذَار لِعِظَمِ فِتْنَته وَشِدَّة أَمْرهَا. فتح الباري

(¬39) (خ) 2892

(¬40) (ت) 2234 , (خ) 2892

(¬41) (خ) 5821

(¬42) (جة) 4077 , (خ) 2892

(¬43) (ت) 2235 , (حم) 23722

(¬44) (خ) 6712 , (م) 2933

(¬45) (الظَّفَرَة): جِلْدَة تُغْشِي الْبَصَر، وَقَالَ الْأَصْمَعِيّ: لَحْمَة تَنْبُت عِنْد الْمَآقِي. (النووي - ج 9 / ص 326)

(¬46) (حم) 23327 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.

(¬47) أي: بارزة.

(¬48) أَيْ: عَمِيقَة , وهذه الجملة في (د) 4320 , وانظر صَحِيح الْجَامِع: 2459

(¬49) (حم): 21173 , انظر صَحِيح الْجَامِع: 3401 , الصَّحِيحَة: 1863، وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.

(¬50) (خ) 6712 , (م) 2933

(¬51) (حم) 13168 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح , (خ) 6712

(¬52) (م) 2933 , (ت) 2245

(¬53) (حم) 13168 , (م) 2933

(¬54) (حم): 20417 , وصححها الألباني في قصة الدجال ص70 , وقال شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح

(¬55) الهِجان: الشديد البياض , والأزهر بمعناه.

(¬56) قال الشيخ الألباني في الصحيحة: 1193: (الأصَلة): الحية العظيمة الضخمة القصيرة , والعرب تشبه الرأس الصغير الكثير الحركة برأس الحية. كما في النهاية , والحديث صريح في أن الدجال الأكبر من البشر , وهو من الأدلة على بطلان تأويلهم بأنه ليس بشخص , وإنما هو رمز للحضارة الأوربية وزخارفها وفتنها , فالدجال بشر , وفتنته أكبر من ذلك. أ. هـ


وهذه القطعة من رواية (حم): 2148

(¬57) (حم) 2148 , انظر الصحيحة: 1193

(¬58) (حم) 3546 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح , وانظر كتاب الإسراء والمعراج للألباني ص75

(¬59) أَيْ: شعر رأسه مُتَكَسِّرٌ من الجعودة , مثل الرمل الذي تهب عليه الريح فيصير له حُبُك.

(¬60) (حم) 23207 , انظر الصَّحِيحَة: 2808

(¬61) هَذَا يَدُلّ عَلَى قِصَر قَامَة الدَّجَّال، وَقَدْ وَرَدَ فِي حَدِيث تَمِيم الدَّارِيّ فِي شَأْن الدَّجَّال أَنَّهُ أَعْظَم إِنْسَان , وَوَجْه الْجَمْع أَنَّهُ لَا يَبْعُد أَنْ يَكُون قَصِيرًا بَطِينًا عَظِيم الْخِلْقَة , قَالَ الْقَارِي: وَهُوَ الْمُنَاسِب لِكَوْنِهِ كَثِير الْفِتْنَة، أَوْ الْعَظَمَة مَصْرُوفَة إِلَى الْهَيْبَة , وقِيلَ: يَحْتَمِل أَنَّ اللَّه تَعَالَى يُغَيِّرهُ عِنْد الْخُرُوج. عون المعبود - (ج 9 / ص 358)

(¬62) (الأَفْحَج): هُوَ الَّذِي إِذَا مَشَى بَاعَدَ بَيْن رِجْلَيْهِ , فَهُوَ مِنْ جُمْلَة عُيُوبه. عون المعبود - (ج 9 / ص 358)

(¬63) (د) 4320

(¬64) المطايا: جمع مطية , وهي الدابة التي يُركبُ مَطاها , أَيْ: ظهرها.

(¬65) الرِّجس: اسم لكل مستقذر أو عمل قبيح.

(¬66) قال الحاكم في المستدرك: 8612 هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ، وقال الذهبي في التلخيص: على شرط البخاري ومسلم، وقال الألباني في قصة الدجال ص106: وهو كما قالا , وصححه الألباني في صحيح الجامع: 7875

(¬67) (خ) 3256

(¬68) أَيْ: أَسْمَر.

(¬69) (خ) 3255

(¬70) (اللِّمَّة) جَمْعهَا لِمَم , كَقِرْبَةِ وَقِرَب , وَهُوَ الشَّعْر الْمُتَدَلِّي الَّذِي جَاوَزَ شَحْمَة الْأُذُنَيْنِ , فَإِذَا بَلَغَ الْمَنْكِبَيْنِ فَهُوَ (جُمَّة) وَإِذَا قَصُرَتْ عَنْهُمَا فَهِيَ وَفْرَة. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)

(¬71) (خ) 5562 , (م) 169

(¬72) (خ) 3256

(¬73) أَيْ: سَرَّحَهَا بِمُشْطٍ مَعَ مَاء أَوْ غَيْره. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)

(¬74) يُحْتَمَل أَنْ يُرِيد أَنَّهَا تَقْطُر مِنْ الْمَاء الَّذِي سَرَّحَهَا بِهِ لِقُرْبِ تَرْجِيله , وقَالَ الْقَاضِي عِيَاض: وَمَعْنَاهُ عِنْدِي أَنْ يَكُون ذَلِكَ عِبَارَة عَنْ نَضَارَته وَحُسْنه، وَاسْتِعَارَةً لِجَمَالِهِ. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)

(¬75) (خ) 5562 , (م) 169

(¬76) اخْتَلَفَ الْعُلَمَاء فِي سَبَب تَسْمِيَته مَسِيحًا , قَالَ الْوَاحِدِيّ: ذَهَبَ أَبُو عُبَيْد وَاللَّيْث إِلَى أَنَّ أَصْله بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَشِيحًا فَعَرَّبَتْهُ الْعَرَب وَغَيَّرَتْ لَفْظه، كَمَا قَالُوا: مُوسَى وَأَصْله مُوشِى بِالْعِبْرَانِيَّةِ , فَلَمَّا عَرَّبُوهُ غَيَّرُوهُ , فَعَلَى هَذَا لَا اِشْتِقَاق لَهُ , وَذَهَبَ أَكْثَر الْعُلَمَاء إِلَى أنَّهُ مُشْتَقّ , ثُمَّ اِخْتَلَفَ هَؤُلَاءِ , فَحُكِيَ عَنْ اِبْن عَبَّاسرضي الله عنهماأَنَّهُ قَالَ: لِأَنَّهُ لَمْ يَمْسَح ذَا عَاهَة إِلَّا بَرِئَ وَقَالَ إِبْرَاهِيم وَابْن الْأَعْرَابِيّ: الْمَسِيح الصِّدِّيق , وَقِيلَ: لِكَوْنِهِ مَمْسُوح أَسْفَل الْقَدَمَيْنِ لَا أَخْمُص لَهُ، وَقِيلَ: لِمَسْحِ زَكَرِيَّا إِيَّاهُ، وَقِيلَ: لِمَسْحِهِ الْأَرْض , أَيْ: قَطْعهَا، وَقِيلَ: لِأَنَّهُ خَرَجَ مِنْ بَطْن أُمّه مَمْسُوحًا بِالدُّهْنِ، وَقِيلَ: لِأَنَّهُ مُسِحَ بِالْبَرَكَةِ حِين وُلِدَ، وَقِيلَ: لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى مَسَحَهُ , أَيْ: خَلَقَهُ خَلْقًا حَسَنًا , وَقِيلَ غَيْر ذَلِكَ. وَاَللَّه أَعْلَم. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)

(¬77) (خ) 3256

(¬78) الْأَحْمَر عِنْد الْعَرَب: الشَّدِيد الْبَيَاض مَعَ الْحُمْرَة.

(¬79) أي: ضخم الجسد.

(¬80) (خ) 3257 , (م) 169

(¬81) الْمُرَاد بِهِ شِدَّة جُعُودَة الشَّعْر.

(¬82) (خ) 3256

(¬83) (طَافِيَة) أَيْ: بَارِزَة، وَمَعْنَاهُ أَنَّهَا نَاتِئَة نُتُوء حَبَّة الْعِنَب مِنْ بَيْن أَخَوَاتهَا، وَضَبَطَهُ بَعْض الشُّيُوخ بِالْهَمْزِ (طافئة) فَقَدْ جَاءَ فِي حديث آخَر أَنَّهُ مَمْسُوح الْعَيْن (مَطْمُوسَة) وَلَيْسَتْ جَحْرَاءَ وَلَا نَاتِئَة، وَهَذِهِ صِفَة حَبَّة الْعِنَب إِذَا سَالَ مَاؤُهَا وَهُوَ يُصَحِّح رِوَايَة الْهَمْز. (فتح الباري) - (ج 20 / ص 139)

(¬84) (خ) 5562

(¬85) (خ) 3256

(¬86) (خ) 3257 , (م) 169

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص129]



ابن صیاد کی خبر اور اس کی دجال سے مشابہت

حدیث#22

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند لوگوں (تین سے دس کے درمیان) کے ہمراہ ابن صیاد کے پاس گئے۔ انہوں نے اسے بنو مغالہ کے ایک اونچے قلعے کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوا پایا۔ ابن صیاد تقریباً بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا۔

ابن صیاد کو کچھ بھی خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر مارا، پھر ابن صیاد سے فرمایا: "کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟"

ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں (یعنی عربوں یا ساری انسانیت) کے رسول ہیں۔"

پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: "کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟"

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا: "میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔"


پھر آپ نے اس سے فرمایا: "اے ابن صیاد! تو کیا دیکھتا ہے؟"

اس نے کہا: "میں پانی پر ایک تخت دیکھتا ہوں۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو ابلیس کا تخت سمندر پر دیکھ رہا ہے۔ اور پھر کیا دیکھتا ہے؟"

اس نے کہا: "میں دو سچے اور ایک جھوٹا، یا دو جھوٹے اور ایک سچا دیکھتا ہوں۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تجھ پر معاملہ مشتبہ کر دیا گیا ہے۔"


پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "جنت کی مٹی کیسی ہے؟"

اس نے کہا: "ایک سفید خالص آٹا ہے، اے ابوالقاسم! خوشبو دار ہے۔"

آپ نے فرمایا: "تو نے سچ کہا۔"


پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "بے شک میں نے تیرے لیے ایک چیز چھپا رکھی ہے۔" (اور آپ نے اس کے لیے یہ آیت چھپائی تھی: "جس دن آسمان ظاہر دھوئیں کو لے آئے گا۔" (الدخان:10))۔

ابن صیاد نے کہا: "وہ 'دخ' ہے۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "خاموش ہو جا! تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔"

تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے چھوڑ دو، اگر وہی (دجال) ہے جس کا ہمیں ڈر ہے تو تو اسے قتل نہیں کر سکے گا، اس کا مقابلہ کرنے والا تو عیسیٰ بن مریم ہیں، اور اگر وہ (دجال) نہیں ہے تو تجھے اہل عہد میں سے کسی آدمی کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔"

ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس خوف میں رہے کہ کہیں یہی دجال نہ ہو۔


اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس کھجور کے باغ کی طرف گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ آپ چھپ کر یہ چاہ رہے تھے کہ ابن صیاد سے اس سے پہلے کچھ سن لیں کہ وہ آپ کو دیکھ لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا، وہ اپنی ایک چادر میں لیٹا ہوا تھا جس میں سے کچھ آہٹ کی سی آواز آ رہی تھی۔ ابن صیاد کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا جبکہ آپ کھجور کے تنوں کے پیچھے چھپ رہے تھے۔ اس نے ابن صیاد سے کہا: "اے عبداللہ!" (یہ ابن صیاد کا نام تھا) "یہ محمد ہیں۔" تو ابن صیاد اچانک اٹھ کھڑا ہوا۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے کیا ہوا ہے؟ اللہ اسے ہلاک کرے، اگر یہ اسے (میری آمد سے آگاہ نہ کرتی) تو وہ (اپنا حال) واضح کر دیتا۔"


ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ کی اس طرح تعریف کی جیسے اس کے لائق ہے، پھر دجال کا ذکر فرمایا۔ آپ نے فرمایا: "آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کوئی معاملہ دجال سے زیادہ عظیم نہیں ہے۔"

ایک روایت میں ہے: "نہ تو کوئی فتنہ ہوا ہے اور نہ ہی قیامت تک کوئی فتنہ ہوگا جو دجال کے فتنے سے بڑا ہو۔" اور "کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی امت کو کانے جھوٹے (دجال) سے ڈرایا نہ ہو۔ بے شک نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا، اور میں تمہیں ڈراتا ہوں۔ لیکن میں اس بارے میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جو کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی: وہ کہے گا: 'میں تمہارا رب ہوں۔' اور تم جانتے ہو کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے رب (عزوجل) کو موت سے پہلے نہیں دیکھ سکتا۔ اور وہ کانا ہے، اس کی بائیں آنکھ ممسوح (ہموار) ہے، اس پر موٹی جھلی ہے۔"


ایک روایت میں: "اس کی آنکھ ممسوح ہے، نہ ابھری ہوئی ہے اور نہ گہری۔"

اور ایک روایت میں: "اس کی ایک آنکھ ایسی ہے جیسے سبز شیشہ۔"

"اور بے شک تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ اور اس کی آنکھوں کے درمیان 'ک ف ر' لکھا ہوگا، ہر مومن خواہ ان پڑھ ہو یا لکھا پڑھا، اسے پڑھ لے گا۔"

ایک روایت میں: "پڑھنے والا اور نہ پڑھنے والا (سب پڑھ سکیں گے)۔"

"وہ سفید رنگت والا ہے، گویا اس کا سر سانپ کا سر ہے۔ اور گویا اس کے سر کے بال درخت کی شاخیں ہیں، بل کھائی ہوئی، بل کھائی ہوئی، بل کھائی ہوئی (تین بار)۔"

"وہ قد میں چھوٹا اور ٹانگوں میں جھکا ہوا (افحج) ہے۔ اور اس کی سواریوں میں سے کوئی اس کے تابع نہیں ہوگی سوائے گدھے کے، تو وہ گندگی پر گندگی ہے۔"


آپ نے فرمایا: "میں نے رات کو خواب میں خود کو کعبہ کے پاس دیکھا۔ میں نے ایک گندمی رنگت والا آدمی دیکھا، جیسے گندمی رنگ والے مردوں میں سے سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔"

ایک روایت میں: (سرخ رنگت، گھونگریالے بال، چوڑے سینے والا) "اس کے سر کے بال (لمہ) تھے، جیسے تم لموں میں سے سب سے خوبصورت دیکھتے ہو، وہ (لمہ) اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان لٹک رہا تھا، اس نے اس (بال) میں کنگھی کر رکھی تھی، وہ پانی ٹپکا رہا تھا، وہ اپنے ہاتھ دو آدمیوں کے مونڈھوں پر رکھے ہوئے تھا اور بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ مسیح ابن مریم ہیں۔ پھر میں نے ان کے پیچھے ایک آدمی کو دیکھا، سرخ رنگت والا، جسمانی طور پر بہت بڑا، گھونگریالے، بال بالکل گھنگریالے، دائیں آنکھ سے کانا، گویا وہ آنکھ ابھری ہوئی انگور کی گٹھلی ہے، اپنے ہاتھ ایک آدمی کے مونڈھوں پر رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ مسیح دجال ہے۔ اور اس سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والا شخص (خزاعہ قبیلے کا) ابن قطن ہے۔"

---

حاشیہ کے حوالہ جات

(1) الرَّهْطُ: تین سے دس آدمیوں کا گروہ۔ قزاز نے کہا: کبھی اس سے تھوڑا زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔

(2) الْأُطُم: اونچی عمارت/قلعہ۔

(3) یعنی بلوغت کے قریب۔

(4) (خ) 1289: صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الصِّبْيَانِ۔

(5) قول "أَشْهَد أَنَّك رَسُول الْأُمِّيِّينَ" اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہودی جن میں سے ابن صیاد تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اقرار کرتے تھے، لیکن وہ دعویٰ کرتے تھے کہ یہ صرف عربوں کے لیے مخصوص ہے، حالانکہ ان کی حجت بالکل باطل ہے۔ کیونکہ جب وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو یہ محال ہے کہ آپ اللہ پر جھوٹ باندھیں۔ پس جب آپ یہ دعویٰ کریں کہ آپ عرب اور دوسروں کے لیے رسول ہیں تو آپ کا سچا ہونا متعین ہو جاتا ہے، لہذا آپ کی تصدیق واجب ہے۔ (فتح الباری، ج 9/ ص291)

(6) (خ) 2890: صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ۔

(7) یعنی آپ نے اسے چھوڑ دیا، حالانکہ پہلے اسے پکڑے ہوئے تھے۔

(8) (خ) 1289

(9) (حم) 14998: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

(10) (م) 2925: صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب فِي ابن صياد۔

(11) (خ) 1289

(12) الدَّرْمَك: بہت سفید، صاف ستھرا، خالص گندم کا آٹا۔ (شرح نووی علی مسلم، ج9/ص317)

(13) یعنی سفیدی میں (خالص آٹے جیسا) اور خوشبو میں کستوری جیسا۔ (شرح نووی علی مسلم، ج9/ص317)

(14) (م) 2928: صحیح مسلم، کتاب الفتن۔

(15) یعنی میں نے تیرے لیے ایک چیز چھپا رکھی ہے۔ (فتح الباری، ج9/ص291)

(16) (خ) 1289

(17) [الدخان/10]: سورۃ الدخان آیت نمبر 10۔

(18) (ت) 2249: جامع ترمذی، کتاب التفسیر۔

(19) بزار اور طبرانی نے "الأوسط" میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کی ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے سورۃ الدخان چھپائی تھی۔" گویا آپ نے سورۃ کا لفظ استعمال کیا اور اس کا کچھ حصہ مراد لیا۔ کیونکہ باب کی حدیث میں امام احمد کے ہاں عبدالرزاق کی روایت ہے: "اور میں نے اس کے لیے یہ چھپایا: 'جس دن آسمان ظاہر دھوئیں کو لے آئے گا'۔" اور ابو موسیٰ المدنی نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس آیت کے ساتھ اس کی آزمائش کا راز یہ تھا کہ اس بات کی طرف اشارہ کرنا کہ عیسیٰ بن مریم دجال کو "جبل الدخان" پر قتل کریں گے۔ آپ نے ابن صیاد کے سامنے اس کا تعریضاً ذکر کیا۔ رہا ابن صیاد کا "دُخّ" کا جواب، تو کہا جاتا ہے کہ وہ گھبرا گیا تھا اور "دخان" کے لفظ سے صرف ایک جزو (دخ) اس کی سمجھ میں آیا۔ (فتح الباری، ج9/ص291)

(20) خَسَأْتُ الْكَلْبَ: میں نے کتے کو دور بھگایا۔ اور "خَاسِئِينَ" کے معنی ہیں: دور کیے گئے۔

(21) یعنی تیرے جیسے کاہنوں کی حد تک، جو اپنے شیاطین کے القاء سے جو کچھ محفوظ کرتے ہیں وہ سچ اور جھوٹ کا مرکب ہوتا ہے۔ (فتح الباری، ج9/ص291)

(22) (خ) 1289

(23) (م) 2924: صحیح مسلم۔ (حم) 3610: مسند احمد۔

(24) یعنی خائف۔

(25) (حم) 14998

(26) یعنی وہ ابن صیاد کو دھوکہ دے کر اس کی بے خبری میں اس کی کوئی بات سننا چاہتے تھے، تاکہ آپ اور صحابہ اس کے حالات سے واقف ہو سکیں کہ وہ کاہن ہے یا جادوگر یا اس طرح کا کوئی۔ اس حدیث میں اس بات کی تعلیم ہے کہ جس شخص کی فساد انگیزی کا خوف ہو اس کے حالات کی خود تحقیقات کی جائے، اور اس میں یہ بھی ہے کہ امام اہم معاملات کی خود تحقیق کرے۔ (فتح الباری، ج9/ص291)

(27) القطیفہ: ایک کپڑا یا بچھونا جس کے کناروں پر جھالر ہو۔

(28) الزمزمۃ: دھیمی، سمجھ میں نہ آنے والی آواز۔

(29) یہ روایت (حم) 14998 سے ہے۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے کہا ہے کہ اس کی سند شرط مسلم پر ہے۔

(30) یعنی اپنے بستر سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔

(31) (خ) 1289: (مذکورہ بالا)۔

(32) (حم) 14998: (مذکورہ بالا)۔ (خ) 1289: (مذکورہ بالا)۔

(33) (خ) 5821: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غَزْوَةِ ذَاتِ السَّلَاسِلِ۔

(34) (م) 2946: صحیح مسلم، کتاب الفتن۔ (حم) 16298: مسند احمد۔

(35) (ك) 64: الکامل فی ضعفاء الرجال۔ الصحیحہ: 3081: سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۔

(36) (حم) 14144: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

(37) (خ) 6712: صحیح بخاری، کتاب أحاديث الأنبياء، باب خُرُوجِ الدَّجَّالِ۔

(38) قول: "کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی قوم کو ڈرایا نہ ہو، بے شک نوح نے اپنی قوم کو ڈرایا" یہ انذار اس لیے ہے کہ اس کی فتنہ انگیزی بہت بڑی اور سخت ہے۔ (فتح الباری)

(39) (خ) 2892: صحیح بخاری، کتاب الفتن۔

(40) (ت) 2234: جامع ترمذی۔ (خ) 2892:

(41) (خ) 5821

(42) (جة) 4077: سنن ابن ماجہ۔ (خ) 2892: (مذکورہ بالا)۔

(43) (ت) 2235: جامع ترمذی۔ (حم) 23722: مسند احمد۔

(44) (خ) 6712 (م) 2933

(45) الظَّفَرَة: آنکھ کے ڈھیلے پر چڑھی ہوئی جھلی۔ اصمعی نے کہا: آنکھ کے کنارے پر اگی ہوئی گوشت کی گانٹھ۔ (شرح نووی علی مسلم، ج9/ص326)

(46) (حم) 23327: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔

(47) یعنی ابھری ہوئی۔

(48) یعنی گہری۔ یہ جملہ (د) 4320 میں ہے۔ نیز دیکھیے صحیح الجامع: 2459۔

(49) (حم) 21173: مسند احمد۔ دیکھیے صحیح الجامع: 3401، الصحیحہ: 1863۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔

(50) (خ) 6712 (م) 2933

(51) (حم) 13168: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔ (خ) 6712

(52) (م) 2933 (ت) 2245: جامع ترمذی۔

(53) (حم) 13168 (م) 2933

(54) (حم) 20417: مسند احمد۔ البانی نے "قصۃ الدجال" (ص70) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ شعیب الارناؤوط نے کہا: اس کا سند صحیح ہے۔

(55) الهِجَان: شدید سفید، اور الأزهر اسی کے معنی میں ہے۔

(56) شیخ البانی نے "الصحیحہ: 1193" میں کہا: (الأصَلة): بڑا موٹا سانپ۔ عرب چھوٹے سر کو جو حرکت میں زیادہ ہو، سانپ کے سر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ حدیث صراحت کرتی ہے کہ دجال اکبر انسانوں میں سے ہے، اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ ان کا تأویل (یہ کہ دجال کوئی شخص نہیں بلکہ یورپی تہذیب اور اس کی فتنہ انگیزیوں کی علامت ہے) باطل ہے۔ بلکہ دجال ایک انسان ہے اور اس کا فتنہ اس سے بڑھ کر ہے۔

(57) (حم) 2148: مسند احمد۔ دیکھیے الصحیحہ: 1193۔

(58) (حم) 3546: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔ نیز دیکھیے کتاب "الاسراء والمعراج" للالبانی (ص75)۔

(59) یعنی اس کے سر کے بال گھونگریالے اور بل کھائے ہوئے ہیں، جیسے ریت پر ہوا چلنے سے بل پڑ جاتے ہیں۔

(60) (حم) 23207: مسند احمد۔ دیکھیے الصحیحہ: 2808۔

(61) یہ دلالت کرتا ہے کہ دجال کا قد چھوٹا ہے۔ تمیم داری کی حدیث میں آیا ہے کہ وہ سب سے بڑا انسان ہے۔ جمع کرنے کی صورت یہ ہے کہ یہ بعید نہیں کہ وہ چھوٹا، موٹا اور بڑی ساخت والا ہو۔ قاری نے کہا: اور یہ اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ فتنہ انگیز ہو، یا عظمت ہیبت کے لیے ہو، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے نکلتے وقت بدل دے۔ (عون المعبود، ج9/ص358)

(62) الْأَفْحَج: وہ شخص جو چلتے وقت اپنی ٹانگوں میں فاصلہ رکھتا ہے، اور یہ اس کی عیبوں میں سے ہے۔ (عون المعبود، ج9/ص358)

(63) (د) 4320: سنن ابی داود۔

(64) المطایا: مطیہ کی جمع، وہ سواری جس پر سوار ہوا جاتا ہے۔

(65) الرِّجْس: ہر گندی چیز یا برے کام کا نام۔

(66) حاکم نے "المستدرک: 8612" میں کہا: یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور ان دونوں (بخاری و مسلم) نے اسے روایت نہیں کیا۔ ذہبی نے "التلخیص" میں کہا: بخاری و مسلم کی شرط پر۔ البانی نے "قصۃ الدجال" (ص106) میں کہا: جیسا انہوں نے کہا۔ البانی نے "صحیح الجامع: 7875" میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

(67) (خ) 3256: صحیح بخاری، کتاب أحاديث الأنبياء، باب ذِكْرِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ۔

(68) یعنی گندمی/سانولا۔

(69) (خ) 3255: صحیح بخاری، کتاب أحاديث الأنبياء۔

(70) اللِّمَّة: اس کی جمع لِمَم ہے۔ یہ وہ بال ہوتے ہیں جو کانوں کی لو تک لٹکے ہوں۔ اگر مونڈھوں تک ہوں تو جُمَّة کہلاتے ہیں، اور اگر ان سے چھوٹے ہوں تو وَفْرَة کہلاتے ہیں۔ (شرح نووی علی مسلم، ج1/ص303)

(71) (خ) 5562: صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (م) 169: صحیح مسلم، کتاب الإيمان۔

(72) (خ) 3256

(73) یعنی پانی یا تیل لگا کر کنگھی کی تھی۔ (شرح نووی علی مسلم، ج1/ص303)

(74) احتمال یہ ہے کہ بال پانی کے قطرے ٹپکا رہے تھے کیونکہ ابھی کنگھی کی تھی۔ قاضی عیاض نے کہا: میرے نزدیک اس کا مطلب اس کی تازگی اور خوبصورتی کی تعبیر ہے، اور اس کے حسن کے لیے استعارہ ہے۔ (شرح نووی علی مسلم، ج1/ص303)

(75) (خ) 5562 (م) 169

(76) علماء نے "مسیح" نام کی وجہ تسمیہ میں اختلاف کیا ہے۔ واحدى نے کہا: ابو عبید اور لیث کا قول ہے کہ اس کی اصل عبرانی میں "مشیحا" ہے، عربوں نے اسے معرب کر کے لفظ بدل دیا۔ اس قول کے مطابق یہ مشتق نہیں ہے۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ یہ مشتق ہے۔ پھر ان میں بھی اختلاف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہیں "مسیح" اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ جس مریض پر ہاتھ پھیرتے تھے وہ شفا یاب ہو جاتا تھا۔ ابراہیم اور ابن الاعرابی نے کہا: "مسیح" صدیق کے معنی میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ممسوح القدم (یعنی تلوے کا ابھار نہ ہونا) تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں زکریا علیہ السلام نے مسح کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے زمین کو مسح کیا (یعنی دور دراز سفر کیا)۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے تیل لگا ہوا تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں پیدائش کے وقت برکت کے لیے مسح کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مسح کیا (یعنی خوبصورت بنایا)۔ اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ (شرح نووی علی مسلم، ج1/ص303)

(77) (خ) 3256

(78) عرب کے ہاں "احمر" سے مراد وہ سفید رنگت ہے جس میں سرخی ہو۔

(79) یعنی بڑے جسم والا۔

(80) (خ) 3257: صحیح بخاری، کتاب أحاديث الأنبياء۔ (م) 169

(81) اس سے مراد بالوں کی شدید گھنگراہٹ ہے۔

(82) (خ) 3256

(83) طَافِيَة: یعنی ابھری ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انگور کی گٹھلی کی طرح دوسری گٹھلیوں کے درمیان سے ابھری ہوئی ہے۔ بعض شیوخ نے اسے طَافِئَة (یعنی مدھم، بجھی ہوئی) پڑھا ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اس کی آنکھ ممسوح (ہموار، نہ ابھری ہوئی) ہوگی۔ یہ روایت ہمز کے ساتھ پڑھنے کی تصدیق کرتی ہے۔ (فتح الباری، ج20/ص139)

(84) (خ) 5562

(85) (خ) 3256

(86) (خ) 3257 (م) 169





حدیث#23

عَنْ نَافِعٍ قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ - رضي الله عنهما - يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَشُكُّ أَنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ ابْنُ صَيَّادٍ.

ترجمہ:

حضرت نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: "اللہ کی قسم! مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیح دجال ابن صیاد ہی ہے۔"

[سنن ابوداؤد:4330]

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص131]

¬_________




عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ:

(خَرَجْنَا حُجَّاجًا أَوْ عُمَّارًا وَمَعَنَا) (¬1) (عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَيَّادٍ , وَكَانَ لَا يُسَايِرُهُ أَحَدٌ وَلَا يُرَافِقُهُ وَلَا يُؤَاكِلُهُ وَلَا يُشَارِبُهُ , وَيُسَمُّونَهُ الدَّجَّالَ) (¬2) (قَالَ: فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا , فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَبَقِيتُ أَنَا وَهُوَ , فَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ وَحْشَةً شَدِيدَةً مِمَّا يُقَالُ عَلَيْهِ , فَجَاءَ بِمَتَاعِهِ فَوَضَعَهُ مَعَ مَتَاعِي , فَقُلْتُ: إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ , فَلَوْ وَضَعْتَهُ تَحْتَ تِلْكَ الشَّجَرَةِ , فَفَعَلَ) (¬3) (فَأَبْصَرَ غَنَمًا , فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَانْطَلَقَ فَاسْتَحْلَبَ (¬4) ثُمَّ أَتَانِي بِلَبَنٍ , فَقَالَ: اشْرَبْ يَا أَبَا سَعِيدٍ) (¬5) (فَقُلْتُ: إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ , وَاللَّبَنُ حَارٌّ - وَمَا بِي إِلَّا أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَشْرَبَ مِنْ يَدِهِ - فَقَالَ يَا أَبَا سَعِيدٍ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا فَأُعَلِّقَهُ بِشَجَرَةٍ ثُمَّ أَخْتَنِقَ (¬6) مِمَّا) (¬7) (يَصْنَعُ النَّاسُ , لَا يُسَايِرُنِي أَحَدٌ , وَلَا يُرَافِقُنِي أَحَدٌ , وَلَا يُشَارِبُنِي أَحَدٌ , وَلَا يُؤَاكِلُنِي أَحَدٌ , وَيَدْعُونِي الدَّجَّالَ) (¬8) (يَا أَبَا سَعِيدٍ , مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مَا خَفِيَ عَلَيْكُمْ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ , أَلَسْتَ مِنْ أَعْلَمِ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -؟ , أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " إِنَّهُ يَهُودِيٌّ " , وَقَدْ أَسْلَمْتُ؟ , وَقَالَ: " هُوَ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ " , وَقَدْ تَرَكْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ؟ , وَقَالَ: " لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مَكَّةَ " , وَقَدْ أَقْبَلْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَأَنَا أُرِيدُ مَكَّةَ؟) (¬9) (وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " إِنَّهُ أَعْوَرُ " , وَأَنَا صَحِيحٌ؟) (¬10) (قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَمَا زَالَ حَتَّى كَادَ أَنْ يَأْخُذَ فِيَّ قَوْلُهُ (¬11)) (¬12) (ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ , أَمَا وَاللَّهِ لَأُخْبِرَنَّكَ خَبَرًا حَقًّا , وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ) (¬13) (وَأَعْرِفُ مَوْلِدَهُ) (¬14) (وَأَيْنَ هُوَ السَّاعَةَ مِنْ الْأَرْضِ) (¬15) (وَأَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ , وَقِيلَ لِي: أَيَسُرُّكَ أَنَّكَ ذَاكَ الرَّجُلُ؟ , فَقُلْتُ: لَوْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا كَرِهْتُ (¬16) فَقُلْتُ لَهُ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ) (¬17).

¬_________

(¬1) (م) 2927

(¬2) (حم) 11766 , وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.

(¬3) (م) 2927

(¬4) أَيْ: طلب من صاحب الغنم أن يعطيه حليبا.

(¬5) (ت) 2246

(¬6) أَيْ: أَعْصِرُ حَلْقِي بِذَلِكَ الْحَبْلِ وَأَمُوتُ. تحفة الأحوذي - (ج 6 / ص 32)

(¬7) (م) 2927

(¬8) (حم) 11766

(¬9) (م) 2927

(¬10) (حم) 11225 , وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: رجاله ثقات رجال الشيخين.

(¬11) أَيْ: حَتَّى كَادَ أَنْ يُؤَثِّر فِيَّ وَأُصَدِّقهُ فِي أَنَّ مَا يَقُولُهُ النَّاسُ فِي حَقِّهِ مِنْ أَنَّهُ دَجَّالٌ هُوَ كَذِبٌ عَلَيْهِ. تحفة الأحوذي - (ج 6 / ص 32)

(¬12) (م) 2927

(¬13) (ت) 2246

(¬14) (م) 2927

(¬15) (ت) 2246

(¬16) قلت: فإن لم يكن هو فهو بِنِيَّتِه , كما قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: مَثَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ كَمَثَلِ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ .. وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا وَلَمْ يُؤْتِهِ عِلْمًا , فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ يُنْفِقُهُ فِي غَيْرِ حَقِّهِ , وَرَجُلٌ لَمْ يُؤْتِهِ اللَّهُ عِلْمًا وَلَا مَالًا فَهُوَ يَقُولُ لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ هَذَا عَمِلْتُ فِيهِ مِثْلَ الَّذِي يَعْمَلُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَهُمَا فِي الْوِزْرِ سَوَاءٌ. انظر سنن ابن ماجه (4228)

(¬17) (م) 2927 , (ت) 2246

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص132]

ترجمہ:


حدیث#24

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا: "ہم حج یا عمرے کے لیے نکلے اور ہمارے ساتھ عبداللہ بن صیاد بھی تھا۔ کوئی شخص اس کے ساتھ نہ چلتا، نہ اس کا رفیق بنتا، نہ اس کے ساتھ کھاتا پیتا تھا، اور لوگ اسے دجال کہتے تھے۔"

انہوں نے کہا: "ہم ایک منزل پر اترے، لوگ منتشر ہو گئے اور میں اور وہ (ابن صیاد) رہ گئے۔ مجھے اس سے اس بات کی وجہ سے سخت گھن آئی جو اس کے بارے میں کہا جاتا تھا۔ وہ اپنا سامان لے کر آیا اور اسے میرے سامان کے ساتھ رکھ دیا۔ میں نے کہا: گرمی شدید ہے، اگر تم اسے اس درخت کے نیچے رکھ دو۔ تو اس نے ایسا ہی کیا۔"

"اس نے بکریوں کو دیکھا، پیالہ لیا اور چل دیا اور دودھ دوہا، پھر میرے پاس دودھ لے کر آیا اور کہا: پیو اے ابو سعید!"

"میں نے کہا: گرمی شدید ہے اور دودھ گرم ہے؟ (حقیقت یہ تھی کہ میں اس کے ہاتھ سے پینا نہیں چاہتا تھا)۔ اس نے کہا: اے ابو سعید، میں نے ارادہ کیا تھا کہ ایک رسی لے کر درخت سے لٹک جاؤں اور پھر گلا گھونٹ کر مر جاؤں، اس وجہ سے کہ لوگ کیا کرتے ہیں: کوئی میرے ساتھ نہیں چلتا، کوئی میرا رفیق نہیں بنتا، کوئی میرے ساتھ نہیں پیتا، کوئی میرے ساتھ نہیں کھاتا اور مجھے دجال کہتے ہیں۔"

"اے ابو سعید، کسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اس طرح مخفی نہیں رہی جیسے تم اے گروہ انصار پر مخفی رہی! کیا تم لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سب سے زیادہ جاننے والے نہیں ہو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا: 'وہ یہودی ہے'؟ حالانکہ میں مسلمان ہو چکا ہوں۔ اور آپ نے فرمایا: 'وہ بانجھ ہے، اس کی اولاد نہیں ہوتی'۔ حالانکہ میں نے اپنی اولاد کو مدینہ میں چھوڑا ہے۔ اور آپ نے فرمایا: 'وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہو سکتا'۔ حالانکہ میں مدینہ سے آیا ہوں اور مکہ جانا چاہتا ہوں۔"

"اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'وہ کانا ہے'، اور میں تندرست ہوں؟"

ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ (اتنی دلیلیں دیتا رہا) یہاں تک کہ (اس کی یہ باتیں) مجھ پر اثر کرنے لگیں (اور میں اس کی باتوں کو سچ ماننے لگا کہ لوگ اس کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ جھوٹ ہے)۔"

"پھر اس نے کہا: اے ابو سعید، اللہ کی قسم میں تمہیں ایک سچی خبر ضرور دوں گا۔ اللہ کی قسم! میں اس (دجال) کو جانتا ہوں، میں اس کی پیدائش جانتا ہوں، اور میں جانتا ہوں کہ وہ اس وقت زمین پر کہاں ہے، اور میں اس کے ماں باپ کو جانتا ہوں۔ اور مجھ سے کہا گیا: کیا تجھے خوشی ہوگی کہ تو وہی شخص ہے؟ تو میں نے کہا: اگر مجھ پر پیش کیا جائے تو میں ناپسند نہیں کروں گا۔"

ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس سے کہا: تیرا دن برا ہو (یعنی تجھے خرابی ہو)!"

---

حوالہ وحاشیہ:

1. (م) 2927: صحیح مسلم۔

2. (حم) 11766: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

3. (م) 2927: صحیح مسلم۔

4. استحلب: یعنی بکریوں کے مالک سے دودھ دوہنے کی اجازت طلب کی۔

5. (ت) 2246: جامع ترمذی۔

6. اختنق: یعنی اپنا گلا اس رسی سے دبا کر مر جاؤں۔ (تحفۃ الاحوذی)

7. (م) 2927: صحیح مسلم۔

8. (حم) 11766: مسند احمد۔

9. (م) 2927: صحیح مسلم۔

10. (حم) 11225: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے کہا: اس کے راوی بخاری و مسلم کے ثقہ راوی ہیں۔

11. "حتى كاد أن يأخذ في قوله": یعنی یہاں تک کہ اس کی بات مجھ پر اثر کرنے لگی اور میں یہ تسلیم کرنے لگا کہ لوگوں کا اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ دجال ہے، اس پر جھوٹ ہے۔ (تحفۃ الاحوذی)

12. (م) 2927: صحیح مسلم۔

13. (ت) 2246: جامع ترمذی۔

14. (م) 2927: صحیح مسلم۔

15. (ت) 2246: جامع ترمذی۔

16. میں (شارح) کہتا ہوں: اگرچہ وہ دجال نہیں تھا، لیکن اس کی نیت کے اعتبار سے وہ (برائی میں) شامل ہے۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس امت کی مثال چار آدمیوں کی سی ہے..." اور فرمایا: "اور ایک شخص جسے اللہ نے مال دیا لیکن علم نہیں دیا، تو وہ اپنے مال میں بے راہ روی کرتا ہے، اسے ناحق راستوں میں خرچ کرتا ہے۔ اور ایک شخص جسے اللہ نے نہ علم دیا نہ مال، تو وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس اس شخص جیسا مال ہوتا تو میں بھی اسی طرح کرتا جیسا یہ کر رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو وہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔" (سنن ابن ماجہ: 4228)

17. (م) 2927: صحیح مسلم۔ (ت) 2246: جامع ترمذی۔





عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ - رضي الله عنهما - قَالَ:

فَقَدْنَا ابْنَ صَيَّادٍ يَوْمَ الْحَرَّةِ (¬1). (¬2)

¬_________

(¬1) (يَوْم الْحَرَّة): هُوَ يَوْم غَلَبَةِ يَزِيد بْن مُعَاوِيَة عَلَى أَهْل الْمَدِينَة وَمُحَارَبَته إِيَّاهُمْ، وَقَالَ الْحَافِظ فِي الْفَتْح: وَهَذَا الأثر يُضْعِف مَا تَقَدَّمَ أَنَّهُ مَاتَ بِالْمَدِينَةِ وَأَنَّهُمْ صَلَّوْا عَلَيْهِ وَكَشَفُوا عَنْ وَجْهه فتح الباري لابن حجر - (ج 20 / ص 418)

(¬2) (د) 4332

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص133]

ترجمہ:


حدیث#25

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:

"ہم نے واقعۂ حرہ کے دن ابن صیاد کو (لاپتہ/غائب) پایا۔"

---

(تشریحی نوٹس)


1. یوم الحرة: وہ دن جب یزید بن معاویہ نے اہل مدینہ پر غلبہ پایا اور ان سے جنگ کی۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا: یہ اثر (روایت) اس قول کو کمزور کرتی ہے جو پہلے بیان ہوا کہ وہ مدینہ میں فوت ہوا اور لوگوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کے چہرے سے کفن ہٹا کر دیکھا۔ (فتح الباری لابن حجر، ج 20 / ص 418)

2. یہ روایت سنن ابو داود (حدیث نمبر: 4332) میں ہے۔





كَيْفِيَّةُ ظُهُورِ الدَّجَّال


عَنِ ابْنِ عُمَرَ - رضي الله عنهما - قَالَ:

(لَقِيتُ ابْنَ صَائِدٍ مَرَّتَيْنِ , فَأَمَّا مَرَّةً فَلَقِيتُهُ وَمَعَهُ بَعْضُ أَصْحَابِهِ , فَقُلْتُ لِبَعْضِهِمْ: نَشَدْتُكُمْ بِاللَّهِ , إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ لَتَصْدُقُنِّي؟ , قَالُوا: نَعَمْ) (¬1) (فَقُلْتُ: هَلْ تُحَدِّثُونِي أَنَّهُ هُوَ؟ , قَالُوا: لَا وَاللَّهِ) (¬2) (فَقُلْتُ: كَذَبْتُمْ , وَاللَّهِ لَقَدْ حَدَّثَنِي بَعْضُكُمْ - وَهُوَ يَوْمَئِذٍ أَقَلُّكُمْ مَالًا وَوَلَدًا - أَنَّهُ لَا يَمُوتُ حَتَّى يَكُونَ أَكْثَرَكُمْ مَالًا وَوَلَدًا , وَهُوَ الْيَوْمَ كَذَلِكَ) (¬3) (قَالَ: فَتَحَدَّثْنَا ثُمَّ فَارَقْتُهُ) (¬4) (ثُمَّ لَقِيتُهُ مَرَّةً أُخْرَى) (¬5) (وَقَدْ نَفَرَتْ عَيْنُهُ (¬6) فَقُلْتُ لَهُ: مَتَى فَعَلَتْ عَيْنُكَ مَا أَرَى؟ , قَالَ: لَا أَدْرِي , قُلْتُ: لَا تَدْرِي وَهِيَ فِي رَأْسِكَ؟) (¬7) (فَقَالَ: مَا تُرِيدُ مِنِّي يَا ابْنَ عُمَرَ؟) (¬8) (إِنْ شَاءَ اللَّهُ خَلَقَهَا فِي عَصَاكَ هَذِهِ) (¬9) (وَنَخَرَ (¬10) كَأَشَدِّ نَخِيرِ حِمَارٍ سَمِعْتُهُ قَطُّ) (¬11) (وَانْتَفَخَ حَتَّى سَدَّ الطَّرِيقَ) (¬12) (فَزَعَمَ أَصْحَابِي أَنِّي ضَرَبْتُهُ بِعَصًا كَانَتْ مَعِي حَتَّى تَكَسَّرَتْ , وَأَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ , فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ - رضي الله عنها - فَحَدَّثْتُهَا , فَقَالَتْ لِي: رَحِمَكَ اللَّهُ مَا أَرَدْتَ مِنْ ابْنِ صَائِدٍ؟) (¬13) (أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: " إِنَّمَا يَخْرُجُ الدَّجَّالُ) (¬14) (عَلَى النَّاسِ مِنْ غَضْبَةٍ يَغْضَبُهَا؟) (¬15) "

¬_________

(¬1) (حم) 26469 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.

(¬2) (م) 2932

(¬3) (حم) 26469

(¬4) (م) 2932

(¬5) (حم) 26469

(¬6) أَيْ: وَرِمَتْ وَنَتَأَتْ. (النووي - ج 9 / ص 321)

(¬7) (م) 2932

(¬8) (حم) 26469

(¬9) (م) 2932

(¬10) النَّخِيرُ: صوتُ الأَنفِ , نَخَرَ الإِنسانُ والحمار والفرس بأَنفه نَخِيراً , أَيْ: مدّ الصوت والنفَس في خَياشِيمه. لسان العرب - (ج 5 / ص 197)

(¬11) (حم) 26469

(¬12) (حم) 26468 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح , (م) 2932

(¬13) (م) 2932

(¬14) (حم) 26468 , (م) 2932

(¬15) (حم) 26469 , (م) 2932

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص135]

ترجمہ:


حدیث#26

دجال کے ظہور کی کیفیت

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا: "میں ابن صیاد سے دو مرتبہ ملا۔ پہلی بار جب میں اس سے ملا تو اس کے ساتھ اس کے کچھ ساتھی تھے، تو میں نے ان میں سے ایک سے کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، اگر میں تم سے کچھ پوچھوں تو کیا تم سچ بتاؤ گے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔"

"تو میں نے کہا: کیا تم مجھے یہ بتاتے ہو کہ یہی (دجال) ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم!"

"تو میں نے کہا: تم نے جھوٹ کہا، اللہ کی قسم! تم میں سے ایک نے مجھے بتایا تھا - اور اس وقت وہ تم سب سے کم مال و اولاد والا تھا - کہ وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ تم سب سے زیادہ مال و اولاد والا نہ ہو جائے، اور آج وہ ایسا ہی ہے۔"

انہوں نے کہا: پھر ہم نے بات چیت کی اور میں اس سے جدا ہو گیا۔"

"پھر میں اس سے دوسری بار ملا، اور اس کی آنکھ پھول چکی تھی۔ میں نے اس سے کہا: تیری آنکھ نے کب یہ کیا جو میں دیکھ رہا ہوں؟ اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم۔ میں نے کہا: تجھے معلوم نہیں، حالانکہ یہ تیرے سر پر ہے؟"

"تو اس نے کہا: اے ابن عمر، تو مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ اگر اللہ چاہے تو اس نے یہ (آنکھ) تیری اس لاٹھی میں پیدا کر دی۔"

"اور اس نے ایسی سخت آواز نکالی جیسے میں نے کبھی کسی گدھے کی سانس کی آواز سنی ہو، اور وہ پھول گیا یہاں تک کہ اس نے راستہ بند کر دیا۔"

"میرے ساتھیوں کا گمان تھا کہ میں نے اسے اپنی ایک لاٹھی سے مارا یہاں تک کہ وہ ٹوٹ گئی، لیکن میں اللہ کی قسم! مجھے احساس تک نہیں ہوا۔ پھر میں ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور انہیں یہ واقعہ سنایا۔ انہوں نے مجھ سے کہا: اللہ تم پر رحم کرے، تم ابن صیاد سے کیا چاہتے تھے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'دجال اس وقت لوگوں کے پاس آئے گا جب وہ ایک غصے کی حالت میں ہو گا؟'"


---


(تشریحی نوٹس)


1. (حم) 26469: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

2. (م) 2932: صحیح مسلم۔

3. (حم) 26469: مسند احمد۔

4. (م) 2932: صحیح مسلم۔

5. (حم) 26469: مسند احمد۔

6. نفرت عينه: یعنی اس کی آنکھ سوج گئی اور ابھر آئی۔ (شرح نووی علی مسلم)

7. (م) 2932: صحیح مسلم۔

8. (حم) 26469: مسند احمد۔

9. (م) 2932: صحیح مسلم۔

10. النَّخِيرُ: ناک سے نکلنے والی آواز۔ انسان، گدھا یا گھوڑا اپنی ناک سے آواز نکالتا ہے۔ (لسان العرب)

11. (حم) 26469: مسند احمد۔

12. (حم) 26468: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ (م) 2932: صحیح مسلم۔

13. (م) 2932: صحیح مسلم۔

14. (حم) 26468: مسند احمد۔ (م) 2932: صحیح مسلم۔

15. (حم) 26469: مسند احمد۔ (م) 2932: صحیح مسلم۔





مَكَانُ خُرُوجِ الدَّجَّال


عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:

" إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ (¬1) بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ، فَيَعِيثُ يَمِينًا وَيَعِيثُ شِمَالًا (¬2) يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا " (¬3)

¬_________

(¬1) الخَلَّة: مَا بَيْن الْبَلَدَيْنِ. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 327)

(¬2) الْعَيْث: الْفَسَاد، أَوْ أَشَدّ الْفَسَاد وَالْإِسْرَاع فِيهِ. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 327)

(¬3) (جة) 4075 , (م) 2937

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص137]

ترجمہ:


حدیث#27

دجال کے نکلنے کی جگہ

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"بے شک وہ (دجال) شام اور عراق کے درمیان ایک جگہ سے نکلے گا، پھر وہ دائیں اور بائیں طرف فساد پھیلائے گا۔ اے اللہ کے بندو! تم ثابت قدم رہو۔"


---


(تشریحی نوٹس)


1. الخَلَّة: دو علاقوں یا شہروں کے درمیان کی جگہ۔ (شرح نووی علی مسلم)

2. الْعَيْث: فساد، یا شدید اور تیز فساد۔ (شرح نووی علی مسلم)

3. یہ حدیث سنن ابن ماجہ (4075) اور صحیح مسلم (2937) میں موجود ہے۔




عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" الدَّجَّالُ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ يُقَالُ لَهَا: خُرَاسَانُ (¬1) يَتْبَعُهُ أَقْوَامٌ كَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الْمَجَانُّ (¬2) الْمُطْرَقَةُ (¬3) " (¬4)
¬_________
(¬1) هِيَ بِلَادٌ مَعْرُوفَةٌ بَيْنَ بِلَادِ مَا وَرَاءَ النَّهْرِ وَبُلْدَانِ الْعِرَاقِ , مُعْظَمُهَا الْآنَ بَلْدَةُ هِرَاةَ (في أفغانستان). تحفة الأحوذي - (ج 6 / ص 22)
(¬2) (الْمَجَانُّ): جَمْعُ الْمِجَنِّ بِكَسْرِ الْمِيمِ , وَهُوَ التُّرْسُ. تحفة الأحوذي - (ج 6 / ص 22)
(¬3) الطِّرَاقُ بِكَسْرِ الطَّاءِ: الْجِلْدُ الَّذِي يُقْطَعُ عَلَى مِقْدَارِ التُّرْسِ فَيُلْصَقُ عَلَى ظَهْرِهِ، وَالْمَعْنَى: أَنَّ وُجُوهَهُمْ عَرِيضَةٌ , وَوَجَنَاتُهُمْ مُرْتَفِعَةٌ كَالْمِجَنَّةِ، وَهَذَا الْوَصْفُ إِنَّمَا يُوجَدُ فِي طَائِفَةِ التَّرْكِ وَالْأُزْبَكِ مَا وَرَاءَ النَّهْرِ. تحفة الأحوذي (ج6ص22)
(¬4) (ت) 2237 , (جة) 4072

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص138]

ترجمہ:


حدیث#28
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"دجال مشرق میں واقع ایک ایسی سرزمین سے نکلے گا جسے خراسان کہا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے ایسے لوگ ہوں گے جن کے چہرے ڈھالوں کی طرح ہوں گے جو چمڑے سے ڈھکے ہوئے ہیں (یعنی چوڑے چپٹے چہرے والے)۔"

---

(تشریحی نوٹس)

1. خراسان: یہ ایک معروف علاقہ ہے جو ماوراء النہر (دریائے جیحون کے پار کے علاقے) اور عراق کے ممالک کے درمیان واقع ہے۔ اس کا بیشتر حصہ آج کل ہرات (افغانستان میں) ہے۔ (تحفۃ الاحوذی)
2. الْمَجَانُّ: "مِجَنّ" (ترس/ڈھال) کی جمع ہے۔ (تحفۃ الاحوذی)
3. الْمُطْرَقَةُ: وہ چمڑا جو ڈھال کے حجم کے مطابق کاٹا جاتا ہے اور اس کی پشت پر چپکا دیا جاتا ہے۔ معنی یہ ہے کہ ان کے چہرے چوڑے اور ان کے گال اٹھے ہوئے (ابھرے ہوئے) ہوں گے، گویا ڈھال ہیں۔ یہ صفت ترک اور ازبک قوم میں پائی جاتی ہے جو ماوراء النہر میں رہتے ہیں۔ (تحفۃ الاحوذی:6/22)
4. یہ حدیث جامع ترمذی (2237) اور سنن ابن ماجہ (4072) میں موجود ہے۔





أَتْبَاعُ الدَّجَّال
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" يَتْبَعُ الدَّجَّالَ مِنْ يَهُودِ أَصْبَهَانَ (¬1) سَبْعُونَ أَلْفًا عَلَيْهِمْ الطَّيَالِسَةُ (¬2) 
[ وفي رواية: عَلَى كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ سَاجٌ (¬3) وَسَيْفٌ مُحَلًّى] 
(¬4) "
¬_________
(¬1) أصبهان: إحدى محافظات إيران.
(¬2) (م) 2944 , والطيالسة: جمع طيلسان , وهو غطاء للرأس يلبسه اليهود عند صلاتهم , يشبه الشماغ في شكله , ويشبهه في طريقة ارتدائه , إِلَّا أن طيلسان اليهود أبيض مذيل بخَطَّين أزرقين. ع
(¬3) السِّيجانُ: الطيالسة السُّودُ , واحدها ساجٌ.
(¬4) (حم) 14144 , انظر الصَّحِيحَة: 3081

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص140]


ترجمہ:
حدیث#29
دجال کے پیروکار

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"دجال کے پیچھے اصفہان کے ستر ہزار یہودی ہوں گے جن پر طیالسی (لمبے چوغے یا عمامے) ہوں گے۔"
ایک روایت میں ہے: "ان میں سے ہر ایک آدمی پر سیاہ طیلسان اور چمکتی ہوئی تلوار ہوگی۔"
---
(تشریحی نوٹس)

1. اصبهان: ایران کا ایک صوبہ ہے۔
2. الطَّيَالِسَة: طیلسان کی جمع ہے۔ یہ یہودیوں کے سر کا ایک کپڑا ہے جو وہ نماز میں پہنتے ہیں، اس کی شکل شماغ (عربوں کا سر کا کپڑا) سے ملتی جلتی ہے، لیکن یہودیوں کا طیلسان سفید ہوتا ہے جس پر دو نیلی لکیریں ہوتی ہیں۔
3. السَّاج: سیاہ طیلسان۔
4. یہ حدیث صحیح مسلم (2944) اور مسند احمد (14144) میں ہے۔ نیز دیکھیے صحیحہ البانی (3081)۔





الْأَشْيَاءُ الَّتِي يَفْتِنُ بِهَا الدَّجَّالُ النَّاس
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ - رضي الله عنهما - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" لِلدَّجَّالِ حِمَارٌ يَرْكَبُهُ، عَرْضُ مَا بَيْنَ أُذُنَيْهِ أَرْبَعُونَ ذِرَاعًا) (¬1) (يَسِيرُ مَعَهُ جِبَالُ الْخُبْزِ وَأَنْهَارُ الْمَاءِ) (¬2) (وَالنَّاسُ فِي جَهْدٍ (¬3) إِلَّا مَنْ تَبِعَهُ) (¬4) (وَمَعَهُ نَهْرَانِ يَجْرِيَانِ) (¬5) (- أَنَا أَعْلَمُ بِهِمَا مِنْهُ - نَهَرٌ يَقُولُ: الْجَنَّةُ، وَنَهَرٌ يَقُولُ: النَّارُ) (¬6) (أَحَدُهُمَا رَأْيَ الْعَيْنِ مَاءٌ أَبْيَضُ , وَالْآخَرُ رَأْيَ الْعَيْنِ نَارٌ تَأَجَّجُ) (¬7) (فَأَمَّا الَّذِي يَرَى النَّاسُ أَنَّهَا النَّارُ , فَمَاءٌ بَارِدٌ) (¬8) (عَذْبٌ) (¬9) (وَأَمَّا الَّذِي يَرَى النَّاسُ أَنَّهُ مَاءٌ بَارِدٌ , فَنَارٌ تُحْرِقُ) (¬10) (فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِك مِنْكُمْ) (¬11) (فلَا يَهْلَكَنَّ بِهِ) (¬12) (فَلْيَأْتِ النَّهْرَ الَّذِي يَرَاهُ نَارًا وَلْيُغَمِّضْ) (¬13) (عَيْنَيْهِ) (¬14) (ثُمَّ لْيُطَأْطِئْ رَأْسَهُ فَيَشْرَبَ مِنْهُ , فَإِنَّهُ مَاءٌ بَارِدٌ) (¬15) وفي رواية: (فَمَنْ أُدْخِلَ الَّذِي يُسَمِّيهِ الْجَنَّةَ فَهُوَ النَّارُ، وَمَنْ أُدْخِلَ الَّذِي يُسَمِّيهِ النَّارَ فَهُوَ الْجَنَّةُ) (¬16) (فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ) (¬17) (قَالَ: وَيَبْعَثُ اللَّهُ مَعَهُ شَيَاطِينَ تُكَلِّمُ النَّاسَ) (¬18) (فَيَقُولَ لِأَعْرَابِيٍّ: أَرَأَيْتَ إِنْ بَعَثْتُ لَكَ أَبَاكَ وَأُمَّكَ، أَتَشْهَدُ أَنِّي رَبُّكَ؟ , فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيَتَمَثَّلُ لَهُ شَيْطَانَانِ فِي صُورَةِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: يَا بُنَيَّ اتَّبِعْهُ فَإِنَّهُ رَبُّكَ) (¬19) (وَيَأْتِي عَلَى الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ (¬20) فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ) (¬21) (فَيَأْمُرَ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ , وَيَأْمُرَ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ) (¬22) (حَتَّى تَرُوحَ مَوَاشِيهِمْ (¬23) مِنْ يَوْمِهِمْ ذَلِكَ أَسْمَنَ مَا كَانَتْ، وَأَعْظَمَهُ وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ (¬24) وَأَدَرَّهُ (¬25) ضُرُوعًا (¬26)) (¬27) (ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيُكَذِّبُونَهُ وَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ (¬28)) (¬29) (فَلَا تَبْقَى لَهُمْ سَائِمَةٌ (¬30) إلَّا هَلَكَتْ) (¬31) (وَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَتَتْبَعُهُ أَمْوَالُهُمْ) (¬32) (فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ (¬33) لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ (¬34) وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ (¬35) فَيَقُولُ لَهَا: أَخْرِجِي كُنُوزَكِ (¬36)) (¬37) (وَيَنْطَلِقُ) (¬38) (فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ (¬39) ثُمَّ يَدْعُو (¬40) رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ (¬41) فَيَقْطَعُهُ جَزْلَتَيْنِ (¬42) ثُمَّ يَدْعُوهُ , فَيُقْبِلُ (¬43) إِلَيْهِ يَتَهَلَّلُ (¬44) وَجْهُهُ يَضْحَكُ (¬45)) (¬46) وفي رواية (¬47): (وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يُسَلَّطَ عَلَى نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، فَيَقْتُلَهَا وَيَنْشُرَهَا بِالْمِنْشَارِ حَتَّى يُلْقَى شِقَّتَيْنِ، ثُمَّ يَقُولَ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي هَذَا، فَإِنِّي أَبْعَثُهُ الْآنَ، ثُمَّ يَزْعُمُ أَنَّ لَهُ رَبًّا غَيْرِي، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ، وَيَقُولُ لَهُ الْخَبِيثُ مَنْ رَبُّكَ؟ , فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، وَأَنْتَ عَدُوُّ اللَّهِ، أَنْتَ الدَّجَّالُ، وَاللَّهِ مَا كُنْتُ بَعْدُ أَشَدَّ بَصِيرَةً بِكَ مِنِّي الْيَوْمَ) (¬48) (فَيَقُولُ: أَيُّهَا النَّاسُ، هَلْ يَفْعَلُ مِثْلَ هَذَا إِلَّا الرَّبُّ؟) (¬49) "
¬_________
حاشیہ
(¬1) (حم) 14997 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
(¬2) (حم) 23139 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
(¬3) الجَهد: المشقة.
(¬4) (حم) 14997
(¬5) (م) 2934
(¬6) (حم) 14997
(¬7) (م) 2934
(¬8) (خ) 3266
(¬9) (م) 2934
(¬10) (خ) 3266
(¬11) (م) 2934
(¬12) (حم) 23386 , وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.
(¬13) (م) 2934
(¬14) (حم) 23386
(¬15) (م) 2934
(¬16) (حم) 14997
(¬17) (م) 2934
(¬18) (حم) 14997
(¬19) (جة) 4077 , انظر صحيح الجامع: 7875 , وقصة الدجال ص134
(¬20) أي: يدعوهم لعبادته.
(¬21) (م) 2937
(¬22) (ت) 2240 , وقصة الدجال ص135
(¬23) أَيْ: فَتَرْجِعُ إِلَيْهِمْ مَاشِيَتُهُمْ الَّتِي تَذْهَبُ بِالْغَدْوَةِ إِلَى مَرَاعِيهَا بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ. تحفة الأحوذي (ج6ص25)
(¬24) (خَوَاصِرَ) جَمْعُ خَاصِرَةٍ، وَهِيَ مَا تَحْتَ الْجَنْبِ، وَمَدُّهَا كِنَايَةٌ عَنْ الِامْتِلَاءِ وَكَثْرَةِ الْأَكْلِ. تحفة الأحوذي (ج6ص25)
(¬25) هو اسم تَفْضِيلٍ مِنْ الدَّرِّ، وَهُوَ اللَّبَنُ.
(¬26) (الضُّرُوع) جَمْعُ ضَرْعٍ: وَهُوَ الثَّدْيُ , كِنَايَةً عَنْ كَثْرَةِ اللَّبَنِ.
(¬27) (جة) 4077 , (م) 2937
(¬28) أَيْ: لَا يَقْبَلُونَهُ.
(¬29) (ت) 2240 , (م) 2937
(¬30) أي: ماشية.
(¬31) (جة) 4077 , انظر قصة الدجال ص135
(¬32) (ت) 2240 , (م) 2937
(¬33) أَيْ: مُجْدِبِينَ.
(¬34) (م) 2937
(¬35) أَيْ: يَأْتِي الْأَرْضَ الْخَرِبَةَ.
(¬36) أَيْ: أَخْرِجِي مَدْفُونَك أَوْ مَعَادِنَك.
(¬37) (م) 2937 , (ت) 2240
(¬38) (جة) 4075
(¬39) أَيْ: كَمَا يَتْبَعُ النَّحْلُ الْيَعْسُوبَ , وَالْيَعْسُوبُ: أَمِيرُ النَّحْلِ , وَذَكَرُهَا الرَّئِيسُ الْكَبِيرُ. تحفة الأحوذي (ج6ص25)
(¬40) أَيْ: يَطْلُبُ.
(¬41) أَيْ: أَنَّهُ يُصِيبَهُ إِصَابَةَ رَمْيَةِ الْغَرَضِ (الْهَدَفِ) فَيَقْطَعَهُ جَزْلَتَيْنِ. تحفة الأحوذي - (ج 6 / ص 25)
(¬42) أَيْ: قِطْعَتَيْنِ.
(¬43) أَيْ: الرَّجُلُ الشَّابُّ عَلَى الدَّجَّالِ.
(¬44) أَيْ: يَتَلَأْلَأُ وَيُضِيءُ.
(¬45) أَيْ: يُقْبِلُ ضَاحِكًا فَيَقُولُ: كَيْفَ يَصْلُحُ هَذَا إِلَهًا؟ , انظر (م) 5228
(¬46) (م) 2937 , (ت) 2240
(¬47) (جة) 4077 , انظر قصة الدجال ص134
(¬48) (جة) 4077
(¬49) (حم) 14997

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص142]


ترجمہ:


حدیث#30
وہ چیزیں جن کے ذریعے دجال لوگوں کو فریب دے گا۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"دجال کے پاس ایک گدھا ہوگا جس پر وہ سوار ہوگا، اس کے دونوں کانوں کے درمیان چالیس ہاتھ کا فاصلہ ہوگا۔(¬1) اس کے ساتھ روٹی کے پہاڑ اور پانی کی ندیاں چلیں گی۔(¬2) اور لوگ سخت تکلیف میں ہوں گے(¬3) سوائے اس کے جو اس کی پیروی کرے گا۔(¬4) اور اس کے ساتھ دو ندیاں بہتی ہوں گی(¬5) (میں ان دونوں کو اس سے بہتر جانتا ہوں)، ایک ندی جسے وہ جنت کہے گا اور دوسری جسے وہ دوزخ کہے گا۔(¬6) ان میں سے ایک آنکھوں کے سامنے سفید پانی ہے اور دوسری آنکھوں کے سامنے بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔(¬7) پس وہ (ندیاں) جو لوگوں کو آگ نظر آتی ہیں وہ ٹھنڈا میٹھا پانی ہے،(¬8) اور جو لوگوں کو ٹھنڈا پانی نظر آتا ہے وہ جلانے والی آگ ہے۔(¬10) پس تم میں سے جو کوئی اس موقع کو پائے(¬11) تو اس سے ہرگز ہلاک نہ ہو۔(¬12) اسے چاہیے کہ اس ندی کے پاس آئے جو اسے آگ نظر آتی ہے،(¬13) پھر اپنی آنکھیں بند کرلے،(¬14) پھر اپنا سر جھکا کر اس میں سے پی لے، کیونکہ وہ ٹھنڈا پانی ہے۔"(¬15) ایک روایت میں ہے: "جو شخص اس (ندی) میں داخل ہوگا جسے وہ جنت کہتا ہے تو وہ درحقیقت دوزخ ہوگی، اور جو شخص اس (ندی) میں داخل ہوگا جسے وہ دوزخ کہتا ہے تو وہ درحقیقت جنت ہوگی۔(¬16) پس اس کی آگ جنت ہے اور اس کی جنت آگ ہے۔"(¬17)

آپ نے فرمایا: "اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ شیاطین بھیجے گا جو لوگوں سے بات کریں گے۔(¬18) وہ ایک دیہاتی سے کہے گا: 'بتاؤ اگر میں تیرے لیے تیرے ماں باپ کو زندہ کر دوں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں تیرا رب ہوں؟' وہ کہے گا: 'ہاں'۔ تو اس کے سامنے دو شیطان اس کے ماں باپ کی شکل میں ظاہر ہوں گے اور اس سے کہیں گے: 'اے بیٹے! اس کی پیروی کر کیونکہ وہی تیرا رب ہے۔'"(¬19)

"اور وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں (اپنی عبادت کی) دعوت دے گا(¬20) تو وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی بات مان لیں گے۔(¬21) تو وہ آسمان کو حکم دے گا کہ بارش برسائے تو وہ بارش برسائے گا، اور زمین کو حکم دے گا کہ اگائے تو وہ اگائے گی۔(¬22) یہاں تک کہ اس دن شام کو ان کے مویشی(¬23) جتنے موٹے تازہ، بڑے اور ان کے پیٹ بھرے ہوئے(¬24) اور ان کے تھن(¬25) دودھ سے بھرے ہوئے ہوں گے(¬26) (اس سے پہلے) کبھی نہیں تھے۔(¬27) پھر وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں دعوت دے گا تو وہ اسے جھٹلائیں گے اور اس کی بات کو رد کر دیں گے۔(¬28)) (¬29) تو ان کی چرنے والی مویشی کوئی باقی نہیں بچے گی(¬30) سوائے اس کے کہ ہلاک ہو جائے گی۔(¬31) اور وہ ان سے رخصت ہوگا تو ان کا مال (بھی ختم ہو جائے گا) اور ان کے پیچھے چل پڑے گا۔(¬32) تو وہ صبح کو محروم ہو کر اٹھیں گے،(¬33) ان کے ہاتھ میں ان کے مال میں سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔"(¬34)

"اور وہ ایک ویران جگہ سے گزرے گا(¬35) تو اس سے کہے گا: 'اپنے خزانے نکال'(¬36)(¬37) اور وہ چل پڑے گا(¬38) تو اس کے خزانے شہد کی مکھیوں کے چھتے کی طرح اس کے پیچھے چل پڑیں گے۔(¬39) پھر وہ ایک جوان بھرے ہوئے آدمی کو بلائے گا(¬40) اور اسے تیر کے نشانے کی طرح تلوار سے مارے گا(¬41) تو اسے دو ٹکڑے کر دے گا،(¬42) پھر اسے بلائے گا(¬43) تو وہ اس کی طرف مسکراتا ہوا،(¬44) اس کا چہرہ چمکتا ہوا آئے گا۔"(¬45)(¬46)

ایک روایت میں ہے:(¬47)
"اور بے شک اس کی فتنہ انگیزیوں میں سے یہ ہے کہ اسے ایک شخص پر قابو دیا جائے گا، تو وہ اسے قتل کر دے گا اور اسے آرے سے چیر کر دو حصوں میں ڈال دے گا، پھر کہے گا: 'میرے اس بندے کو دیکھو، میں اسے اب زندہ کرتا ہوں، پھر وہ یہ دعویٰ کرے گا کہ اس کا کوئی اور رب بھی ہے؟' تو اللہ اسے زندہ کر دے گا، اور وہ شریر (دجال) اس سے پوچھے گا: 'تیرا رب کون ہے؟' وہ کہے گا: 'میرا رب اللہ ہے، اور تو اللہ کا دشمن ہے، تو دجال ہے، اور اللہ کی قسم! میں آج کے دن تجھے پہچاننے میں اس سے پہلے کبھی اتنا پختہ یقین نہیں رکھتا تھا۔'(¬48) تو (دجال) کہے گا: 'اے لوگو! کیا رب کے سوا کوئی ایسا کر سکتا ہے؟'"(¬49)

---

حواشی اور حوالہ جات:

(1)(حم)مسند احمد:14997، شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
(2)(حم)مسند احمد:23139، شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
(3)الجَهد: مشقت۔
(4)(حم)مسند احمد:14997
(5)(م)صحیح مسلم:2934
(6)(حم)مسند احمد:14997
(7)(م)صحیح مسلم:2934
(8)(خ)صحیح بخاری:3266
(9)(م)صحیح مسلم:2934
(10)(خ)صحیح بخاری:3266
(11)(م)صحیح مسلم:2934
(12)(حم)مسند احمد:23386، شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
(13)(م)صحیح مسلم:2934
(14)(حم)مسند احمد:23386
(15)(م)صحیح مسلم:2934
(16)(حم)مسند احمد:14997
(17)(م)صحیح مسلم:2934
(18)(حم)مسند احمد:14997
(19)(جة)سنن ابن ماجہ:4077، صحیح الجامع: 7875، اور قصۃ الدجال ص134 دیکھیں۔
(20)یعنی وہ انہیں اپنی عبادت کی دعوت دے گا۔
(21)(م)صحیح مسلم:2937
(22)(ت)سنن ترمذی:2240، اور قصۃ الدجال ص135۔
(23)یعنی دوپہر کے بعد ان کی وہ مویشی جو چراگاہ میں چرنے گئی تھیں واپس آئیں گی۔ (تحفۃ الاحوذی:ج6ص25)
(24)(خَوَاصِرَ) خاصرہ کی جمع ہے، جو پسلی کے نیچے کا حصہ ہوتا ہے، اور اس کا لمبا ہونا کثرتِ طعام کی کنایت ہے۔ (تحفۃ الاحوذی:ج6ص25)
(25)یہ در (دودھ دوہنا) کے تفصیل کا صیغہ ہے۔
(26)(الضُّرُوع) ضَرع (تھن) کی جمع ہے، دودھ کی کثرت کی کنایت۔
(27)(جة)سنن ابن ماجہ:4077، (م)صحیح مسلم:2937
(28)یعنی وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔
(29)(ت)سنن ترمذی:2240، (م)صحیح مسلم:2937
(30)یعنی چرنے والی مویشی۔
(31)(جة)سنن ابن ماجہ:4077، قصۃ الدجال ص135 دیکھیں۔
(32)(ت)سنن ترمذی:2240، (م)صحیح مسلم:2937
(33)یعنی قحط زدہ۔
(34)(م)صحیح مسلم:2937
(35)یعنی وہ ویران زمین پر آئے گا۔
(36)یعنی اپنے دفن شدہ خزانے یا معادن نکال۔
(37)(م)صحیح مسلم:2937، (ت)سنن ترمذی:2240
(38)(جة)سنن ابن ماجہ:4075
(39)یعنی جیسے شہد کی مکھیاں اپنے سردار (یعسوب) کے پیچھے چلتی ہیں، اور یعسوب مکھیوں کا بڑا سردار ہوتا ہے۔ (تحفۃ الاحوذی:ج6ص25)
(40)یعنی طلب کرے گا۔
(41)یعنی وہ اسے ہدف کی طرح نشانہ بنائے گا اور اس کے دو ٹکڑے کر دے گا۔ (تحفۃ الاحوذی: ج 6 / ص 25)
(42)یعنی دو ٹکڑے۔
(43)یعنی وہ نوجوان دجال کی طرف۔
(44)یعنی چمکے گا اور روشن ہوگا۔
(45)یعنی وہ مسکراتا ہوا آئے گا، اور کہے گا: یہ کیسے معبود ہو سکتا ہے؟ دیکھیں (م)صحیح مسلم:5228۔
(46)(م)صحیح مسلم:2937، (ت)سنن ترمذی:2240
(47)(جة)سنن ابن ماجہ:4077، قصۃ الدجال ص134 دیکھیں۔
(48)(جة)سنن ابن ماجہ:4077
(49)(حم)مسند احمد:14997







عَنْ الْمُغِيرَةَ بْنِ شُعْبَةَ - رضي الله عنه - قَالَ:
(مَا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - أَحَدٌ عَنْ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ , فَقَالَ لِي: " وَمَا يُنْصِبُكَ مِنْهُ (¬1)؟ " فَقُلْتُ: إِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ مَعَهُ أَنْهَارَ الْمَاءِ) (¬2) (وَجِبَالًا مِنْ خُبْزٍ وَلَحْمٍ , فَقَالَ: " هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ (¬3)) (¬4) "
¬_________
(¬1) أَيْ: مَا يَشُقّ عَلَيْك وَيُتْعِبك مِنْهُ؟. شرح النووي على مسلم - (ج 7 / ص 277)
(¬2) (م) 2152 , (خ) 6705
(¬3) أَيْ: هُوَ أَهْوَن مِنْ أَنْ يَجْعَل مَا يَخْلُقهُ عَلَى يَدَيْهِ مُضِلًّا لِلْمُؤْمِنِينَ وَمُشَكِّكًا لِقُلُوبِ الْمُوقِنِينَ، بَلْ لِيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا , وَيَرْتَاب الَّذِينَ فِي قُلُوبهمْ مَرَض , فَهُوَ مِثْل قَوْل الَّذِي يَقْتُلهُ (مَا كُنْت أَشَدّ بَصِيرَةً مِنِّي فِيك)، لَا أَنَّ قَوْله " هُوَ أَهْوَن عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ " أَنَّهُ لَا يُجْعَل عَلَى يَدَيْهِ شَيْئٌ مِنْ ذَلِكَ، بَلْ الْمُرَاد: هُوَ أَهْوَن مِنْ أَنْ يَجْعَل شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ آيَة عَلَى صِدْقه، وَلَا سِيَّمَا وَقَدْ جَعَلَ فِيهِ آيَة ظَاهِرَة فِي كَذِبه وَكُفْره يَقْرَأهَا مَنْ قَرَأَ وَمَنْ لَا يَقْرَأ , زَائِدَةً عَلَى شَوَاهِد كَذِبه مَنْ حَدَثه وَنَقْصه. (فتح) - (ج 20 / ص 133)
(¬4) (م) 2939 , (خ) 6705

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص143]


ترجمہ:


حدیث#31
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:
"کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دجال کے بارے میں اتنا نہیں پوچھا جتنا میں نے پوچھا۔ تو آپ نے مجھ سے فرمایا: 'اس (کے بارے میں پوچھنے) سے تجھے کیا تکلیف ہوتی ہے؟' میں نے کہا: لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ پانی کی ندیاں اور روٹی و گوشت کے پہاڑ ہوں گے۔ تو آپ نے فرمایا: 'وہ (دجال) اللہ کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ حقیر ہے۔'"

---

(تشریحی نوٹس)

1. وَمَا يُنْصِبُكَ مِنْهُ؟ یعنی اس (کے بارے میں پوچھنے) سے تجھے کیا تکلیف اور تھکاوٹ ہوتی ہے؟ (شرح نووی علی مسلم)
2. یہ حدیث صحیح مسلم (2152) اور صحیح بخاری (6705) میں بھی ہے۔
3. اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ (دجال) اللہ کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ حقیر ہے کہ وہ جو کچھ بھی اس کے ہاتھ پر پیدا کرے وہ مومنوں کو گمراہ کرنے اور یقین رکھنے والوں کے دلوں میں شک ڈالنے کا ذریعہ بن جائے۔ بلکہ (اس فتنے کا مقصد یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ ایمان میں اور زیادہ ہوں، اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ شک میں پڑ جائیں۔ یہ اس شخص کی بات کی مانند ہے جسے دجال قتل کرے گا (وہ کہے گا: میں تجھے پہچاننے میں آج سے پہلے کبھی اتنا پختہ یقین نہیں رکھتا تھا)۔ آپ کے فرمان "هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ" کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے ہاتھ پر ایسی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ اس بات سے کہیں زیادہ آسان ہے کہ وہ اس قسم کی کوئی چیز اس کی سچائی کی نشانی بنائے۔ خصوصاً جبکہ اس (دجال) میں اس کے جھوٹ اور کفر کی ایک ظاہر نشانی (یعنی پیشانی پر کافِر لکھا ہونا) رکھ دی ہے جسے پڑھنے والا اور نہ پڑھنے والا سب پڑھ لیں گے، اور اس کے جھوٹ کے اور بھی بہت سے شواہد ہیں جیسے کانا ہونا اور اس کے دیگر عیوب۔ (فتح الباری)
4. یہ حدیث صحیح مسلم (2939) اور صحیح بخاری (6705) میں ہے۔





الْعِصْمَةُ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّال
عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" إِنَّ مِنْ بَعْدِكُمْ الْكَذَّابَ الْمُضِلَّ , وَإِنَّهُ سَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ , فَمَنْ قَالَ: لَسْتَ رَبَّنَا , لَكِنَّ رَبَّنَا اللَّهُ , عَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْهِ أَنَبْنَا , نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكَ , لَمْ يَكُنْ لَهُ عَلَيْهِ سُلْطَانٌ " (¬1)
¬_________
(¬1) (حم) 23207 , انظر الصَّحِيحَة: 2808 , وقال الشيخ شعيب الأرنؤوط: إسناده صحيح.

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص145]

ترجمہ:


حدیث#32
دجال کے فتنے سے بچاؤ کا ذکر
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تمھارے بعد (ایک زمانے میں) جھوٹا اور گمراہ کرنے والا (دجال) آئے گا، اور وہ کہے گا: 'میں تمھارا رب ہوں'۔ پس جو شخص (اسے جواب دے کر) کہے: 'تو ہمارا رب نہیں، بلکہ ہمارا رب تو اللہ ہے، ہم اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں، ہم تیرے شر سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں'، تو اس پر دجال کی کوئی قدرت نہ ہوگی۔"

حوالہ:
مسند احمد(23207)، صحیحہ البانی (2808)۔ شیخ شعیب الأرنؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔





عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْف , 
[ وفي رواية: مِنْ آخِرِ الْكَهْفِ] 
(¬1) عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ " (¬2)
¬_________
(¬1) (م) 809 , (د) 4323 , انظر الصَّحِيحَة: 2651
(¬2) (د) 4323 , (م) 809

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص146]

ترجمہ:


حدیث#33
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے سورۃ الکہف کی پہلی دس آیات یاد کیں[اور ایک روایت میں ہے: سورۃ الکہف کی آخری (دس) آیاتتو وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔"

حوالہ:
مسلم(809)، ابو داؤد (4323)، صحیحہ البانی (2651)۔




عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" (مَنْ سَمِعَ بِالدَّجَّالِ فَلْيَنْأَ عَنْهُ (¬1) فَوَاللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَأْتِيهِ وَهُوَ يَحْسِبُ أَنَّهُ مُؤْمِنٌ) (¬2) (فلَا يَزَالُ بِهِ حَتَّى يَتَّبِعَهُ) (¬3) (لِمَا يَبْعَثُ بِهِ مِنْ الشُّبُهَاتِ) (¬4) " (¬5)
¬_________
(¬1) أَيْ: فَلْيَبْتَعِدْ عنه.
(¬2) (د) 4319
(¬3) (حم) 19888 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
(¬4) (د) 4319
(¬5) صَحِيح الْجَامِع: 6301 , المشكاة: 5488

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص147]


ترجمہ:


حدیث#34
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے دجال(کے ظہور) کا سننا ہو تو وہ اس سے دور رہے (یعنی بچ کر رہے)۔ اللہ کی قسم! بے شک کوئی شخص اس کے پاس اس حال میں آئے گا کہ وہ سمجھ رہا ہوگا کہ وہ پکا مومن ہے، (مگر) دجال اسے (اپنے فتنے میں) اسی طرح ڈالتا رہے گا یہاں تک کہ وہ اس کی پیروی کرنے لگے گا، اس لیے کہ وہ جو شبہات (اور فریب) پیدا کرے گا۔"

حوالہ اور تشریح:

· أبو داود (4319)، مسند أحمد (19888)۔ شیخ شعیب الأرناؤط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
· صحیح الجامع (6301)، المشکاۃ (5488)۔
· (1) یعنی اس سے دور رہے اور بچ کر رہے۔
· (2،4) أبو داود (4319)۔
· (3) مسند أحمد (19888)۔





عَنْ أُمِّ شَرِيكٍ - رضي الله عنها - قَالَتْ:
(سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: " لَيَفِرَّنَّ (¬1) النَّاسُ (¬2) مِنْ الدَّجَّالِ حَتَّى يَلْحَقُوا بِالْجِبَالِ " , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ (¬3)؟) (¬4) (قَالَ: " هُمْ يَوْمَئِذٍ قَلِيلٌ) (¬5) "
¬_________
(¬1) أَيْ: لَيَهْرُبَنَّ.
(¬2) أي: الْمُؤْمِنُونَ.
(¬3) أَيْ: إِذَا كَانَ هَذَا حَالُ النَّاسِ، فَأَيْنَ الْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , الذَّابُّونَ عَنْ حَرِيمِ الْإِسْلَامِ الْمَانِعُونَ عَنْ أَهْلِهِ صَوْلَةَ أَعْدَاءِ اللَّهِ , فَكُنِّي عَنْهُمْ بِهَا. تحفة الأحوذي - (ج 9 / ص 376)
(¬4) (ت) 3930 , (م) 2945
(¬5) (جة) 4077 , (م) 2945

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص148]

ترجمہ:


حدیث#35

حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "لوگ (یعنی مومن) دجال سے ضرور بھاگیں گے یہاں تک کہ پہاڑوں میں جا چھپیں گے"۔ تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس وقت عرب کہاں ہوں گے (یعنی اسلام کے مدافع اور مجاہدین کہاں ہوں گے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس وقت وہ (یعنی حقیقی عرب/مجاہدین) بہت تھوڑے ہوں گے۔"

حوالہ اور تشریح:

· ترمذی (3930)، مسلم (2945)، ابن ماجہ (4077)۔
· (1) یعنی ضرور بھاگیں گے۔
· (2) یعنی مومن۔
· (3) یعنی جب لوگوں کی یہ حالت ہوگی تو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے، اسلام کی حرمت کی حفاظت کرنے والے اور اللہ کے دشمنوں کے حملے سے اہل اسلام کو بچانے والے کہاں ہوں گے؟ پس لفظ "عرب" سے یہی مراد لی گئی ہے۔ (تحفة الأحوذي - ج 9 / ص 376)





(م ك) , عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ - رضي الله عنه - قَالَ:
" (ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ (¬1) " , فَقُلْنَا: وَمَا لَبْثُهُ (¬2) فِي الْأَرْضِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " أَرْبَعُونَ يَوْمًا: يَوْمٌ كَسَنَةٍ , وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ , وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ , ثُمَّ سَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ " , فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ , أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ؟ , قَالَ: " لَا , اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ (¬3) " , فَقُلْنَا: وَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ , قَالَ: " كَالْغَيْثِ (¬4) اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ (¬5)) (¬6) (وَتُطْوَى لَهُ الْأَرْضُ طَيَّ فَرْوَةِ الْكَبْشِ) (¬7) "
¬_________
(¬1) أي: صباحاً.
(¬2) أَيْ: مَا مُدَّةُ فِتْنَتِه.
(¬3) أَيْ: إِذَا مَضَى بَعْد طُلُوع الْفَجْر قَدْر مَا يَكُون بَيْنه وَبَيْن الظُّهْر كُلّ يَوْم فَصَلُّوا الظُّهْر، ثُمَّ إِذَا مَضَى بَعْده قَدْر مَا يَكُون بَيْنهَا وَبَيْن الْعَصْر فَصَلُّوا الْعَصْر، وَإِذَا مَضَى بَعْد هَذَا قَدْر مَا يَكُون بَيْنهَا وَبَيْن الْمَغْرِب فَصَلُّوا الْمَغْرِب، وَكَذَا الْعِشَاء وَالصُّبْح، ثُمَّ الظُّهْر، ثُمَّ الْعَصْر، ثُمَّ الْمَغْرِب، وَهَكَذَا حَتَّى يَنْقَضِي ذَلِكَ الْيَوْم , وَأَمَّا الثَّانِي الَّذِي كَشَهْرٍ وَالثَّالِث الَّذِي كَجُمْعَةٍ، فَقِيَاس الْيَوْم الْأَوَّل أَنْ يُقَدَّر لَهُمَا كَالْيَوْمِ الْأَوَّل عَلَى مَا ذَكَرْنَاهُ، وَاَللَّه أَعْلَم. (النووي ج9ص327)
(¬4) (الْغَيْثِ) الْمُرَادُ بِهِ هُنَا الْغَيْمُ , أَيْ: يُسْرِعُ فِي الْأَرْضِ إِسْرَاعَ الْغَيْمِ. تحفة الأحوذي - (ج 6 / ص 25)
(¬5) أي أن مقدار سرعته كسرعة الغيم المصحوب بكتلة هوائية , فهي تنقله من بلد إلى آخر خلال يوم أو يومين , قلت: وهذا مُشاهد في عصرنا , فأنت إذا استمعت إلى النشرة الجوية في فصل الشتاء , تجدهم يقولون بأن هناك منخَفَضا جويا يتمركز فوق قبرص (مثلا) وسيبدأ تأثيره على بلادنا (أي الشام) غدا , ثم بعد ذلك سينتقل المنخفَض إلى العراق , ثم يتجه شرقًا نحو كذا .. وتشاهد أحيانا ذلك المنخفَض كيف يتحرك من بلد إلى بلد على شاشة التلفاز , فإذا تخيلت هذا المثال استطعت أن تفهم إلى حد كبير كيفية انتقال الدجال من بلد إلى آخر , سيما والنبي - صلى الله عليه وسلم - يقول: " لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ، إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ ". ع
(¬6) (م) 2937 , (ت) 2240
(¬7) (ك) 8612 , انظر قصة الدجال ص135 , والكبش: هو الذكر أو الفحل من الضأن.

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص149-150]


ترجمہ:


حدیث#36
دجال کے فتنے کی مدت

حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر فرمایا"،تو ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ زمین میں کتنی مدت رہے گا؟ آپ نے فرمایا: "چالیس دن: ایک دن ایک سال کے برابر، ایک دن ایک مہینے کے برابر، ایک دن ایک ہفتے کے برابر، پھر اس کے باقی دن تمہارے عام دنوں کی طرح ہوں گے"۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ دن جو ایک سال کے برابر ہوگا، کیا اس میں ایک دن کی نماز ہمیں کافی ہوگی؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، بلکہ تم اس (دن) کا (وقت) خود (حساب سے) مقرر کرو"۔ ہم نے عرض کیا: اور اے اللہ کے رسول! وہ زمین میں کتنی تیزی سے سفر کرے گا؟ آپ نے فرمایا: "بادلوں کی طرح جسے ہوا اڑا لے جائے (یعنی اس کی رفتار بہت تیز ہوگی)، اور زمین اس کے لیے اس طرح سمیٹی جائے گی جیسے بکری کی کھال سکیڑی جاتی ہے۔"

---

(1) یعنی صبح کے وقت۔
(2) یعنی اس کے فتنے کی مدت کیا ہوگی۔
(3) یعنی جب صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد اتنا وقت گزر جائے جو عام دنوں میں ظہر تک ہوتا ہے تو ظہر کی نماز پڑھو، پھر جب اس کے بعد اتنا وقت گزرے جو عام دنوں میں عصر تک ہوتا ہے تو عصر پڑھو، اور پھر جب اس کے بعد اتنا وقت گزرے جو عام دنوں میں مغرب تک ہوتا ہے تو مغرب پڑھو، اسی طرح عشاء اور پھر فجر، پھر ظہر، پھر عصر... یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا یہاں تک کہ وہ دن گزر جائے۔ اور جو دن مہینے کے برابر ہوگا اور جو دن ہفتے کے برابر ہوگا، ان کے لیے بھی اسی طرح وقت کا حساب مقرر کیا جائے گا جیسا کہ پہلے دن کے بارے میں بیان کیا گیا۔
(4) یہاں (الْغَيْثِ) سے مراد بادل ہے، یعنی وہ زمین میں بادلوں کی طرح تیزی سے سفر کرے گا۔
(5) یعنی اس کی رفتار اس بادل کی مانند ہوگی جسے ہوا ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہے۔
(6) مسلم (2937)، ترمذی (2240)۔
(7) ابن ماجہ (8612) نیز دیکھیں: قصۃ الدجال ص135۔ "الْكَبْش" سے مراد دنبے یا بھیڑ کا نر ہے۔






حِصَارُ الدَّجَّالِ لِمَدِينَةِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم -

عَنْ ابْنِ عُمَرَ - رضي الله عنهما - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" يُوشِكُ الْمُسْلِمُونَ أَنْ يُحَاصَرُوا إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى يَكُونَ أَبْعَدَ مَسَالِحِهِمْ (¬1) سَلَاحِ (¬2) " (¬3)
¬_________
(¬1) الْمَسَالِح: جَمْع الْمَسْلَح , وَالْمَسْلَحَة الْقَوْم الَّذِينَ يَحْفَظُونَ الثُّغُور مِنْ الْعَدُوّ، وَسُمُّوا مَسْلَحَة لِأَنَّهُمْ يَكُونُونَ ذَوِي سِلَاح , أَوْ لِأَنَّهُمْ يَسْكُنُونَ الْمَسْلَحَة , وَهِيَ كَالثَّغْرِ وَالْمَرْقَب , يَكُون فِيهِ أَقْوَام يَرْقُبُونَ الْعَدُوّ لِئَلَّا يَطْرُقهُمْ عَلَى غَفْلَة , فَإِذَا رَأَوْهُ أَعْلَمُوا أَصْحَابهمْ لِيَتَأَهَّبُوا لَهُ , وَفِي الْمِصْبَاح الْمُنِير: الْمَسْلَح: الثَّغْر مِنْ الْبِلَاد , وهو الْمَوْضِع الَّذِي يُخَاف مِنْهُ هُجُوم الْعَدُوّ , فَهُوَ كَالثُّلْمَةِ فِي الْحَائِط , يُخَاف هُجُوم السَّارِق مِنْهَا، أَيْ: أَبْعَد ثُغُورهمْ هَذَا الْمَوْضِع الْقَرِيب مِنْ خَيْبَر , الْقَرِيب مِنْ الْمَدِينَة عَلَى عِدَّة مَرَاحِل , وَهَذَا يَدُلّ عَلَى كَمَال التَّضْيِيق عَلَيْهِمْ وَإِحَاطَة الْكُفَّار حَوَالَيْهِمْ. عون المعبود - (ج 9 / ص 291)
(¬2) (سَلَاح): مَوْضِع أَسْفَل خَيْبَر.
(¬3) (د) 4250 , (حب) 6771 , انظر صَحِيح الْجَامِع: 8181 , والمشكاة: 5427


[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص151-152]


ترجمہ:



حدیث#37
دجال کا مدینہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا محاصرہ

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عنقریب مسلمان مدینہ میں محصور ہو جائیں گے یہاں تک کہ ان کا دور دراز ترین چوکیوں والا علاقہ"سلاح" ہوگا۔"

حوالہ اور تشریح:

· أبو داود (4250)، مسند أحمد (6771)۔ صحیح الجامع (8181)، المشکاۃ (5427)۔
· (1) "الْمَسَالِح" جمع ہے "الْمَسْلَح" کی، اور "الْمَسْلَحَة" وہ لوگ ہیں جو دشمن سے سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ لوگ "مسلحہ" اس لیے کہلاتے ہیں کہ وہ ہتھیار بند ہوتے ہیں، یا اس لیے کہ وہ چوکی پر رہتے ہیں جو سرحد یا نگہبانی کی جگہ ہوتی ہے جہاں لوگ دشمن پر نظر رکھتے ہیں۔ (عون المعبود - ج 9 / ص 291)
· (2) "سلاح": خیبر کے نیچے ایک مقام کا نام ہے۔
  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان پر کس قدر تنگی ہوگی اور کفار ان کے گرد گھیرا ڈالیں گے۔




عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ - رضي الله عنهما - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" يَبْلُغُ سُلْطَانُهُ (¬1) كُلَّ مَنْهَلٍ (¬2) 
[ وفي رواية: يَرِدُ كُلَّ مَاءٍ وَمَنْهَلٍ] 
, وَلَا يَقْرَبُ أَرْبَعَةَ مَسَاجِدَ: مَسْجِدَ الْحَرَامِ , وَمَسْجِدَ الْمَدِينَةِ , وَالْمَسْجِدَ الْأَقْصَى , وَمَسْجِدَ الطُّورِ " (¬3)
¬_________
(¬1) أَيْ: الدجال.
(¬2) يُقال: مَنْهَل بَني فُلان , أي: مَشْرَبُهم ومَوْضِع نَهَلهم.
(¬3) (حم) 23733 , انظر الصَّحِيحَة: 2934 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص153]


ترجمہ:
حدیث#38
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"دجال کی حکومت ہر پانی اور آبشخور تک پہنچ جائے گی[ایک روایت میں ہے: وہ ہر پانی اور آبشخور پر آئے گا]، لیکن وہ چار مساجد کے قریب نہیں آئے گا: مسجد حرام (مکہ)، مسجد مدینہ (نبوی)، مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) اور مسجد طور (طور سینا)۔"

حوالہ اور تشریح:

· مسند أحمد (23733)، الصَّحِيحَة للالبانی (2934)۔ شیخ شعیب الأرناؤط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
· (1) یعنی دجال۔
· (2) "مَنْهَل" کہا جاتا ہے جیسے "مَنْهَل بَني فُلان" یعنی ان کی پینے کی جگہ اور ان کے وہم کی جگہ۔





عَنْ أَبِي بَكْرَةَ نُفَيْعِ بْنِ الْحَارِثِ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ رُعْبُ (¬1) الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ , وَلَهَا يَوْمَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ , عَلَى كُلِّ بَابٍ مَلَكَانِ (¬2) " (¬3)
¬_________
(¬1) الرُّعْب: هُوَ الْخَوْف وَالْفَزَع , فَلَا يَحْصُل لِأَحَدٍ فِيهَا بِسَبَبِ نُزُوله قُرْبَهَا شَيْء مِنْهُ. فتح الباري (ج 20 / ص 135)
(¬2) قَالَ الْقَاضِي اِبْن الْعَرَبِيّ: ضَلَّ قَوْم فَرَوَوْهُ الْمَسِيخ بِالْخَاءِ الْمُعْجَمَة، لِيُفَرِّقُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْمَسِيح عِيسَى بْن مَرْيَم بِزَعْمِهِمْ , وَقَدْ فَرَّقَ النَّبِيّ - صلى الله عليه وسلم - بَيْنَهُمَا بِقَوْلِهِ فِي الدَّجَّال " مَسِيح الضَّلَالَة " , فَدَلَّ عَلَى أَنَّ عِيسَى مَسِيح الْهُدَى، فَأَرَادَ هَؤُلَاءِ تَعْظِيم عِيسَى فَحَرَّفُوا الْحَدِيث. (فتح) - (ج 20 / ص 136)
(¬3) (خ) 6707 , (حم) 20493

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص154]


ترجمہ:

حدیث#39
حضرت ابو بکرہ نفيع بن الحارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مدینہ میں مسیح دجال کا رعب(دہشت) داخل نہیں ہوگا، اور اس دن اس کے سات دروازے ہوں گے، ہر دروازے پر دو فرشتے (محافظ) ہوں گے۔"

حوالہ اور تشریح:

· بخاری (6707)، مسند أحمد (20493)۔
· (1) "الرُّعْب" خوف اور دہشت کو کہتے ہیں۔ پس دجال کے قریب اترنے کی وجہ سے کسی کو مدینہ میں خوف نہیں ہوگا۔ (فتح الباري - ج 20 / ص 135)
· (2) قاضی ابن العربی فرماتے ہیں: بعض لوگ غلطی میں پڑ گئے اور اسے "المَسِيخ" (خ کے ساتھ) روایت کرنے لگے تاکہ اسے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے الگ کر دیں، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے درمیان فرق کر دیا ہے دجال کو "مسیح الضلالة" کہہ کر، جو ظاہر کرتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام مسیح ہدایت ہیں۔ (فتح الباري - ج 20 / ص 136)

---

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" (لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ، إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ , لَيْسَ لَهُ مِنْ نِقَابِهَا نَقْبٌ (¬1) إِلَّا عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ صَافِّينَ يَحْرُسُونَهَا) (¬2) (فلَا يَقْرَبُهَا الدَّجَّالُ وَلَا الطَّاعُونُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ) (¬3) "
¬_________
(¬1) النَّقْب: الطريق بين الجبلين، والمراد: طرق المدينة وحدودها.
(¬2) (خ) 1782
(¬3) (خ) 7035 , (ت) 2242

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص155]


ترجمہ:

حدیث#40
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کوئی بھی بستی ایسی نہیں جس پر دجال(قدم) نہ رکھے گا، سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ مدینہ کے تمام راستوں (حدود) پر فرشتے صف بستہ ہو کر اس کی حفاظت کریں گے، پس دجال اور طاعون اس کے قریب نہیں آئے گا ان شاء اللہ۔"

حوالہ اور تشریح:

· بخاری (1782)، بخاری (7035)، ترمذی (2242)۔
· (1) "النَّقْب" دو پہاڑوں کے درمیان راستے کو کہتے ہیں۔ مراد مدینہ کے راستے اور اس کی سرحدیں ہیں۔





عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" (يَأْتِي الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَهِمَّتُهُ الْمَدِينَةُ) (¬1) (وَقَامَتْ الْمَلَائِكَةُ بِأَبْوَابِهَا) (¬2) (- وَلَهَا يَوْمَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ - عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَكَانِ) (¬3) (فلَا يَأْتِيهَا مِنْ نَقْبٍ مِنْ نِقَابِهَا إِلَّا لَقِيَتْهُ الْمَلَائِكَةُ بِالسُّيُوفِ صَلْتَةً (¬4)) (¬5) (حَتَّى يَنْزِلَ دُبُرَ أُحُدٍ (¬6)) (¬7) (
[ وفي رواية: فَيَأْتِي سَبْخَةَ الْجُرُفِ] 
(¬8) فَيَضْرِبُ رِوَاقَهُ (¬9)) (¬10) (ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِينَةُ بِأَهْلِهَا ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ (¬11) فَيُخْرِجُ اللَّهُ كُلَّ كَافِرٍ وَمُنَافِقٍ) (¬12) (ثُمَّ تَصْرِفُ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ قِبَلَ الشَّامِ , وَهُنَالِكَ يَهْلِكُ) (¬13) وفي رواية: (ثُمَّ يَسِيرُ حَتَّى يَأْتِيَ الشَّامَ , فَيُهْلِكُهُ اللَّهُ - عز وجل - عِنْدَ عَقَبَةِ أَفِيقَ (¬14)) (¬15) "
¬_________
(¬1) (م) 1380 , (حم) 9155
(¬2) (حم) 14997 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
(¬3) (حم) 24511 , وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده حسن.
(¬4) أَيْ: مُجَرَّدَة من أَغمادها.
(¬5) (جة) 4077
(¬6) أَيْ: خَلْفَ أُحُدٍ , وَهُوَ جَبَلٌ مَعْرُوفٌ , بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْمَدِينَةِ أَقَلُّ مِنْ فَرْسَخٍ. تحفة الأحوذي - (ج 6 / ص 28)
(¬7) (م) 1380
(¬8) السبخة: الأرض المالحة التي لَا تُنبِت.
(¬9) أَيْ: فُسْطاطه وقُبَّته وموضعَ جلوسه.
(¬10) (م) 2943
(¬11) الْجَمْع بَيْنَ قَوْله " تَرْجُف ثَلَاث رَجَفَات " وَبَيْنَ قَوْله فِي الْحَدِيث " لَا يَدْخُل الْمَدِينَة رُعْب الْمَسِيح الدَّجَّال " أَنَّ الرُّعْب الْمَنْفِيّ هُوَ الْخَوْف وَالْفَزَع , حَتَّى لَا يَحْصُل لِأَحَدٍ فِيهَا بِسَبَبِ نُزُوله قُرْبَهَا شَيْء مِنْهُ، أَوْ هُوَ عِبَارَة عَنْ غَايَته , وَهُوَ غَلَبَته عَلَيْهَا، وَالْمُرَاد بِالرَّجْفَةِ إِشَاعَة مَجِيئِهِ , وَأَنَّهُ لَا طَاقَة لِأَحَدٍ بِهِ، فَيُسَارِع حِينَئِذٍ إِلَيْهِ مَنْ كَانَ يَتَّصِف بِالنِّفَاقِ أَوْ الْفِسْق، فَيَظْهَر حِينَئِذٍ تَمَام أَنَّهَا تَنْفِي خَبَثهَا. فتح الباري لابن حجر - (ج 20 / ص 135)
(¬12) (خ) 1782
(¬13) (م) 1380 , (حم) 9155
(¬14) عقبة أفيق: قرية من حوران، وحوران كورة واسعة من أعمال دمشق.
(¬15) (حم) 21979 , وحسنها الألباني في قصة الدجال ص74 , 143

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص156]


ترجمہ:

حدیث#41
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مسیح دجال مشرق کی طرف سے آئے گا اور اس کی توجہ کا مرکز مدینہ ہوگا۔اور فرشتے اس کے دروازوں پر کھڑے ہوں گے - اور اس دن اس کے سات دروازے ہوں گے - اس کی ہر گھاٹی پر دو فرشتے ہوں گے۔ پس اس کی کسی بھی گھاٹی سے وہ (دجال) اس کی طرف آئے گا تو فرشتے ننگی تلواریں لے کر اس سے ملیں گے، یہاں تک کہ وہ اُحد کے پیچھے اترے گا [ایک روایت میں ہے: وہ "سَبْخَةَ الْجُرُف" آئے گا] اور اپنا خیمہ (ٹھکانہ) نصب کرے گا۔ پھر مدینہ اپنے باشندوں سمیت تین بار زلزلے میں آئے گا، پھر اللہ تعالیٰ ہر کافر اور منافق کو باہر نکال دے گا۔ پھر فرشتے اس (دجال) کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہیں اس کا خاتمہ ہوگا۔ [ایک روایت میں ہے: پھر وہ چلے گا یہاں تک کہ شام آئے گا، پھر اللہ تعالیٰ اسے "عقبة أفيق" کے مقام پر ہلاک کر دے گا]۔"

حوالہ اور تشریح:

· مسلم (1380)، مسند أحمد (9155)، مسند أحمد (14997)، مسند أحمد (24511)، ابن ماجہ (4077)، مسلم (2943)، مسلم (1380)، بخاری (1782)، مسند أحمد (9155)، مسند أحمد (21979)۔ البانی نے "قصۃ الدجال" (ص74، 143) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
· (4) یعنی نیام سے نکلی ہوئی۔
· (6) یعنی اُحد کے پیچھے، اور یہ ایک معروف پہاڑ ہے جو مدینہ سے ایک فرسخ سے بھی کم فاصلے پر ہے۔
· (8) "السبخة" وہ نمکین زمین جس میں کچھ نہیں اگتا۔
· (9) یعنی اس کا خیمہ، اس کی کوٹھڑی اور اس کے بیٹھنے کی جگہ۔
· (11) اس حدیث میں "تین زلزلے" کا ذکر اور دوسری حدیث میں "دجال کا رعب مدینہ میں داخل نہ ہونے" کا ذکر کرنے میں یہ جمع کیا گیا ہے کہ رعب سے مراد وہ خوف اور دہشت ہے جو نہیں ہوگی، اور زلزلے سے مراد اس کے آنے کی خبر کا پھیلنا اور یہ احساس کہ کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، پس اس وقت ہر منافق اور فاسق اس کی طرف دوڑ پڑے گا اور اس طرح مدینہ اپنی نجاست کو پوری طرح باہر نکال دے گا۔ (فتح الباري - ج 20 / ص 135)
· (14) "عقبة أفيق": حوران کی ایک بستی ہے اور حوران دمشق کے علاقے میں ایک وسیع کونہ (ضلع) ہے۔





أَعْظَمُ النَّاسِ شَهَادَةً عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِين

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" يَأْتِي الدَّجَّالُ بَعْضَ السِّبَاخِ (¬1) الَّتِي تَلِي الْمَدِينَة , وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ , هُوَ خَيْرُ النَّاسِ , أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ , فَتَلْقَاهُ مَسَالِحُ (¬2) الدَّجَّالِ , فَيَقُولُونَ لَهُ: أَيْنَ تَعْمِدُ (¬3)؟ , فَيَقُولُ: أَعْمِدُ إِلَى هَذَا الَّذِي خَرَجَ فَيَقُولُونَ لَهُ: أَوَمَا تُؤْمِنُ بِرَبِّنَا؟ , فَيَقُولُ: مَا بِرَبِّنَا خَفَاءٌ , فَيَقُولُونَ: اقْتُلُوهُ , فَيَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَلَيْسَ قَدْ نَهَاكُمْ رَبُّكُمْ أَنْ تَقْتُلُوا أَحَدًا دُونَهُ؟ , قَالَ: فَيَنْطَلِقُونَ بِهِ إِلَى الدَّجَّالِ , فَإِذَا رَآهُ الْمُؤْمِنُ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ , هَذَا الدَّجَّالُ الَّذِي ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - , فَيَأْمُرُ الدَّجَّالُ بِهِ فَيُشَبَّحُ (¬4) فَيَقُولُ: خُذُوهُ َشُجُّوهُ (¬5) فَيُوسَعُ ظَهْرُهُ وَبَطْنُهُ ضَرْبًا , فَيَقُولُ: أَوَمَا تُؤْمِنُ بِي؟ , فَيَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا عَنْكَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - حَدِيثَهُ , فَيَقُولُ الدَّجَّالُ: أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ هَلْ تَشُكُّونَ فِي الْأَمْرِ؟ , فَيَقُولُونَ: لَا , فَيُؤْمَرُ بِهِ فَيُنْشَرُ بِالْمِنْشَارِ مِنْ مَفْرِقِهِ حَتَّى يُفَرَّقَ بَيْنَ رِجْلَيْهِ , ثُمَّ يَمْشِي الدَّجَّالُ بَيْنَ الْقِطْعَتَيْنِ , ثُمَّ يَقُولُ لَهُ: قُمْ , فَيَسْتَوِي قَائِمًا ثُمَّ يَقُولُ لَهُ: أَتُؤْمِنُ بِي؟ , فَيَقُولُ: وَاللَّهِ مَا ازْدَدْتُ فِيكَ إِلَّا بَصِيرَةً , ثُمَّ يَقُولُ (¬6): يَا أَيُّهَا النَّاسُ , إِنَّهُ (¬7) لَا يَفْعَلُ بَعْدِي بِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ , قَالَ: فَيَأْخُذُهُ الدَّجَّالُ لِيَذْبَحَهُ , فَيُجْعَلُ مَا بَيْنَ رَقَبَتِهِ إِلَى تَرْقُوَتِهِ (¬8) نُحَاسًا , فلَا يَسْتَطِيعُ إِلَيْهِ سَبِيلًا , فَيَأْخُذُ بِيَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ فَيَقْذِفُ بِهِ , فَيَحْسِبُ النَّاسُ أَنَّمَا قَذَفَهُ إِلَى النَّارِ , وَإِنَّمَا أُلْقِيَ فِي الْجَنَّةِ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: فَهَذَا أَعْظَمُ النَّاسِ شَهَادَةً عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ " (¬9)
¬_________
(¬1) السبخة: هي الأرض المالحة التي لَا تُنبِت.
(¬2) (الْمَسَالِح): قَوْم مَعَهُمْ سِلَاح يُرَتَّبُونَ فِي الْمَرَاكِز كَالْخُفَرَاءِ , سُمُّوا بِذَلِكَ لِحَمْلِهِمْ السِّلَاح.
شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 329)
(¬3) أي: أين تريد.
(¬4) الشَّبْح: مَدُّكَ الشيءَ بين أوتادٍ كالْجِلْد والحَبْل.
(¬5) الشَّجّ: الْجَرْح فِي الرَّأْس.
(¬6) أي: ذلك الشاب.
(¬7) أي: الدجال.
(¬8) التَرْقُوَة: عظمة مشرفة بين ثغرة النحر والعاتق , وهما ترقوتان.
(¬9) (م) 2938 , (خ) 6713

[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص158]

ترجمہ:



حدیث#42
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑے شہادت والے شخص کا بیان

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"دجال مدینہ سے ملحق کچھ نمکین زمینوں(ریگستانوں) میں آئے گا، اور اس پر مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہونا حرام ہوگا۔ اس دن مؤمنین میں سے ایک شخص اس کی طرف نکلا گا جو بہترین انسان یا بہترین انسانوں میں سے ہوگا۔ اسے دجال کے محافظ (فوجی) مل جائیں گے اور کہیں گے: تم کہاں کا ارادہ رکھتے ہو؟ وہ کہے گا: میں اس شخص کے پاس جانا چاہتا ہوں جو (دجال کی صورت میں) نکلا ہے۔ وہ اس سے کہیں گے: کیا تم ہمارے رب پر ایمان نہیں رکھتے؟ وہ کہے گا: ہمارے رب کے بارے میں کوئی پردہ/پوشیدگی نہیں ہے (یعنی میں اسے خوب پہچانتا ہوں)۔ وہ کہیں گے: اسے قتل کر دو۔ پھر وہ آپس میں کہیں گے: کیا تمہارے رب نے تمہیں یہ منع نہیں کیا تھا کہ اس کے سوا کسی اور کو قتل کرو؟ پھر وہ اسے دجال کے پاس لے جائیں گے۔ جب وہ مومن دجال کو دیکھے گا تو کہے گا: اے لوگو! یہی وہ دجال ہے جس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ پھر دجال حکم دے گا تو اسے پھیلا کر باندھ دیا جائے گا۔ پھر کہے گا: اسے پکڑو اور اسے زخمی کرو۔ پس اس کی پیٹھ اور پیٹ خوب مارا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا: کیا تم مجھ پر ایمان نہیں رکھتے؟ وہ کہے گا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم وہی دجال ہو جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیث بیان فرمائی تھی۔ پھر دجال کہے گا: تم لوگ دیکھو، اگر میں اسے قتل کر دوں پھر زندہ کر دوں، تو کیا تمہیں معاملے میں کوئی شک رہ جائے گا؟ وہ کہیں گے: نہیں۔ پھر اس (مومن) کے بارے میں حکم ہوگا تو اسے آری سے اس کے سر کی چوٹی سے کریدا جائے گا یہاں تک کہ اس کے دو ٹکڑے کر دیے جائیں گے۔ پھر دجال ان دو ٹکڑوں کے درمیان چلے گا۔ پھر اس سے کہے گا: کھڑے ہو جاؤ۔ تو وہ سیدھا کھڑا ہو جائے گا۔ پھر اس سے کہے گا: کیا تم مجھ پر ایمان رکھتے ہو؟ وہ کہے گا: اللہ کی قسم! مجھے تمہاری حقیقت پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو گئی ہے۔ پھر وہ (نوجوان) کہے گا: اے لوگو! یہ (دجال) میرے بعد کسی انسان کے ساتھ ایسا (معجزہ) نہیں کر پائے گا۔ (یعنی میں آخری ہوں جسے وہ قتل کر کے زندہ کرے گا)۔ راوی کہتے ہیں: پھر دجال اسے ذبح کرنے کے لیے پکڑے گا، تو اس کی گردن سے لے کر ہنسلی کی ہڈی تک (کا حصہ) پیتل بنا دیا جائے گا، پس دجال اس تک کوئی راستہ نہ پا سکے گا۔ پھر وہ اس کے ہاتھوں اور پیروں کو پکڑ کر پھینک دے گا۔ لوگ سمجھیں گے کہ اسے آگ میں پھینکا گیا ہے، حالانکہ اسے جنت میں ڈال دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہی شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑے شہادت والے لوگوں میں سے ہوگا۔"**

حواشی اور تشریحات:

· مسلم (2938)، بخاری (6713)۔
· (1) "السبخة": وہ نمکین زمین جس میں کچھ نہیں اگتا۔
· (2) "الْمَسَالِح": وہ لوگ جن کے پاس ہتھیار ہوں اور چوکیوں پر تعینات ہوں، محافظوں کی طرح، انہیں اس لیے مسالح کہا جاتا ہے کہ وہ ہتھیار رکھتے ہیں۔ (شرح النووي على مسلم)
· (3) یعنی تم کہاں جانا چاہتے ہو؟
· (4) "الشَّبْح": کسی چیز کو کھمبوں کے درمیان کھینچ کر باندھنا جیسے چمڑا یا رسی۔
· (5) "الشَّجّ": سر میں زخم لگانا۔
· (6) یعنی وہ نوجوان (مومن)۔
· (7) یعنی دجال۔
· (8) "التَرْقُوَة": ہنسلی کی ہڈی، یہ گھنٹی (حلق) اور کندھے کے درمیان کی ابھری ہوئی ہڈی ہوتی ہے، اور یہ دو ہوتی ہیں۔
. (9)صحیح مسلم:2938، صحیح بخاری:6713








  • دجال "المسیح الدجال" (جھوٹا مسیح) کہلاتا ہے، جو قیامت کی 10 بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کا فتنہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا۔ ہر نبی نے اپنی امت کو اس سے ڈرایا، جیسا کہ صحیح بخاری (حدیث 3057) میں ہے۔

  • لفظی معنی: "دجل" (فریب) سے مشتق، کیونکہ یہ حق کو باطل سے ڈھانپے گا۔


2. ظہور سے پہلے کی علامات

دجال کے خروج سے پہلے درج ذیل حالات پیدا ہوں گے:

  • 3 سال قحط:

    • پہلا سال: آسمان ایک تہائی بارش، زمین ایک تہائی پیداوار روک لے گی۔

    • دوسرا سال: آسمان دو تہائی بارش، زمین دو تہائی پیداوار روک لے گی۔

    • تیسرا سال: مکمل خشک سالی، جس سے چوپائے ہلاک ہو جائیں گے۔ زمین "تانبے" اور آسمان "شیشے" کی مانند ہو جائے گا۔ (صحیح مسلم، کتاب الفتن: حدیث 2937)۔

  • امام مہدی کا دور: دجال امام مہدی کے زمانے میں ظاہر ہوگا۔ جب اس کے نکلنے کی افواہیں اٹھیں گی، امام مہدی تحقیقات کے لیے سوار بھیجیں گے (صحیح بخاری: 7129)۔


3. مقام ظہور

احادیث میں چار مقامات بتائے گئے ہیں، جن کی تطبیق یوں کی گئی ہے:

  1. شام اور عراق کے درمیان گھاٹی (سنن ابی داؤد: 4331)۔

  2. اصفہان (ایران) کا یہودیہ گاؤں، جہاں اس کے 70,000 یہودی پیروکار ہوں گے (صحیح مسلم: 2928)۔

  3. خوز و کرمان (ایران)۔

  4. خراسان (افغانستان/ایران) (صحیح بخاری: 7131)۔
    تطبیق: پہلے شام-عراق کی سرحد پر ظاہر ہوگا، پھر اصفہان جائے گا، اور آخر میں خراسان سے خروج کرے گا (کتاب "تحفۃ الالمعی")۔


4. جسمانی خصوصیات

رسول اللہ ﷺ کے خواب اور احادیث میں دجال کا حلیہ یوں بیان ہوا ہے:

  • آنکھیں: بائیں آنکھ سے کانا، دائیں آنکھ "پھولے ہوئے انگور" جیسی۔ دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ر (کافر) لکھا ہوگا، جسے ہر مسلمان پڑھ لے گا (صحیح بخاری: 7131، صحیح مسلم: 2933)۔

  • جسم: دراز قد، سرخ رنگت، گھنگھریالے بال، بھاری بھرکم جسم، چوڑی پیشانی (صحیح بخاری: 7129)۔

  • دیگر علامات: بانجھ (اولاد نہیں ہوگی)، گدھے پر سوار ہوگا جس کے کانوں کا درمیانی فاصلہ 40 ہاتھ ہوگا (صحیح مسلم: 2937)۔


5. فتنے اور شیطانی معجزات

دجال لوگوں کو جھوٹے معجزات سے گمراہ کرے گا:

  • آسمان سے بارش برسائے گا اور زمین سے سبزہ اگائے گا۔

  • مردے کو زندہ کرے گا (ایک شخص کو قتل کرکے پھر زندہ کرنا)۔

  • اس کے پاس "جنت" اور "جہنم" ہوگی، مگر اس کی جنت درحقیقت جہنم ہوگی (صحیح مسلم: 2937)۔

  • مکہ و مدینہ میں داخلہ ممنوع: فرشتے ننگی تلواروں سے روکیں گے۔ مدینہ کے باہر "دلدلی زمین" میں پڑاؤ کرے گا، جس سے مدینہ میں تین زلزلے آئیں گے اور منافق بھاگ کر اس سے مل جائیں گے (صحیح بخاری: 1881)۔


6. مدت قیام اور انجام

  • مدت: زمین پر 40 دن رہے گا:

    • پہلا دن = 1 سال کے برابر۔

    • دوسرا دن = 1 ماہ کے برابر۔

    • تیسرا دن = 1 ہفتے کے برابر۔

    • باقی ایام عام دنوں کی طرح (صحیح مسلم: 2937)۔

  • اختتام: حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہو کر "مقام لُدّ" (فلسطین) میں دجال کو قتل کریں گے۔ دجال "پانی میں گھلنے والے نمک" کی طرح غائب ہو جائے گا (صحیح مسلم: 2937، سنن ابی داؤد: 4321)۔


7. احتیاطی تدابیر

نبی کریم ﷺ نے دجال کے فتنے سے بچنے کے لیے یہ طریقے بتائے:

  • سورۃ الکہف پڑھنا: خصوصاً ابتدائی 10 آیات (صحیح مسلم: 809)۔

  • دعا: نماز میں پڑھی جانے والی دعا: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ (اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے) (صحیح بخاری: 6368، صحیح مسلم: 590)۔

  • مکہ و مدینہ میں سکونت: دجال وہاں داخل نہیں ہو سکے گا (صحیح بخاری: 1881)۔

8. اہم تنبیہ

  • وقت ظہور: دجال کے عین ظہور کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ احادیث میں کوئی خاص تاریخ نہیں بتائی گئی، البتہ اس سے پہلے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا جیسی بڑی نشانی ظاہر ہوگی (صحیح مسلم: 2941)۔

  • عقیدہ: جو دجال کے وجود یا خروج کا انکار کرے، وہ کافر ہے: "مَن کَذَّبَ بِالدَّجَّالِ فَقَدْ کَفَرَ" (سنن ابی داؤد: 4331)۔

خلاصہ جدول:

پہلوتفصیلاتاحادیث کے حوالے
ظہور سے پہلے3 سال قحط، امام مہدی کا دورصحیح مسلم: 2937 
مقام ظہورشام-عراق سرحد → اصفہان → خراسانسنن ابی داؤد: 4331 
مدت قیام40 دن (پہلا دن=1 سال، دوسرا=1 ماہ، تیسرا=1 ہفتہ)صحیح مسلم: 2937 
اختتامحضرت عیسیٰؑ کے ہاتھوں "مقام لُدّ" میں قتلصحیح مسلم: 2937 
بچاؤ کے طریقےسورۃ الکہف پڑھنا، نماز میں دعا، مکہ/مدینہ میں سکونتصحیح بخاری: 6368 

دجال کے ظہور سے قبل پیش آنے والی تمام نشانیاں احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں بالترتیب درج ذیل ہیں:

۱۔ عام فتنے اور اخلاقی انحطاط

  • جھوٹ کی کثرت: لوگ سچے گواہوں کو جھٹلائیں گے، جھوٹے گواہی دیں گے (مسند احمد: ۷۹۰۲)۔

  • امانت داری کا خاتمہ: امانتیں لوٹائی جائیں گی، غداری عام ہوگی (صحیح بخاری: ۶۴۹۶)۔

  • رشوت خوری کا فروغ: "رِشْوَة" کو "ہدیہ" کا نام دیا جائے گا (سنن ترمذی: ۱۹۴۸)۔

۲۔ قحط سالی اور معاشی تباہی (۳ سال)

  • پہلا سال: آسمان ۱/۳ بارش روک لے گا، زمین ۱/۳ پیداوار (صحیح مسلم: ۲۹۳۷)۔

  • دوسرا سال: آسمان ۲/۳ بارش، زمین ۲/۳ پیداوار روکے گی (صحیح ابن حبان: ۶۷۶۴)۔

  • تیسرا سال: مکمل خشک سالی، تمام جانور مر جائیں گے۔ زمین تانبے اور آسمان پیتل کی طرح ہو جائے گا (صحیح مسلم: ۲۹۳۷)۔

۳۔ بڑی جنگیں اور فسادات

  • فتنۂ حرہ: مدینہ میں قتلِ عام ہوگا، خون بہے گا (صحیح مسلم: ۲۹۰۵)۔

  • حجاز میں جنگ: ایک شخص (حسنی) کو قتل کیا جائے گا جس کے خون سے مکہ و مدینہ روشن ہو جائیں گے (الفتن لنعیم بن حماد: ۲۶۴)۔

۴۔ امام مہدی کا ظہور

  • وقت: ماہِ رمضان میں، مکہ میں ظہور ہوگا (سنن ابی داؤد: ۴۲۸۲)۔

  • بیعت: لوگ مکہ میں ان سے بیعت کریں گے (مسند احمد: ۱۰۸۹)۔

  • دجال کی اطلاعات: امام مہدی تحقیقات کے لیے دستے بھیجیں گے (صحیح مسلم: ۲۹۳۷)۔

۵۔ دجال سے براہِ راست متعلقہ علامات

  • خراسان سے سیاہ پرچموں والی فوج: ۳۰۰ جھوٹے پیدا ہوں گے، سب دجال کے دعویدار ہوں گے (صحیح مسلم: ۲۹۲۸)۔

  • اصفہان سے ۷۰,۰۰۰ یہودیوں کا خروج: یہ دجال کے پیروکار ہوں گے (صحیح مسلم: ۲۹۴۴)۔

  • دجال کا پہلا ظہور: شام و عراق کی سرحد پر "جَصّاصہ" نامی گاؤں سے (سنن ابی داؤد: ۴۳۲۰)۔

۶۔ آسمانی علامات

  • سورج کا مغرب سے طلوع: توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا (صحیح مسلم: ۲۹۴۱)۔

  • دھوئیں کا ظہور: ۴۰ دن تک زمین پر چھایا رہے گا (صحیح مسلم: ۲۹۴۵)۔

۷۔ دعا اور احتیاط

نبی ﷺ نے فرمایا:

"جس نے سورۃ الکہف کی ابتدائی ۱۰ آیات یاد کیں، وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا" (صحیح مسلم: ۸۰۹)۔

خلاصہ جدول:

مرتبہواقعہتفصیلحدیث حوالہ
۱اخلاقی انحطاطجھوٹ، خیانت، رشوت عام ہوگیصحیح بخاری: ۶۴۹۶
۲۳ سالہ قحطپیداوار و بارش کا بتدریج خاتمہصحیح مسلم: ۲۹۳۷
۳جنگیںحجاز میں قتلِ عامصحیح مسلم: ۲۹۰۵
۴امام مہدی کا ظہورمکہ میں ماہِ رمضانسنن ابی داؤد: ۴۲۸۲
۵دجال کے دعویدارخراسان سے ۳۰۰ جھوٹے خروج کریں گےصحیح مسلم: ۲۹۲۸
۶یہودیوں کا خروجاصفہان سے ۷۰,۰۰۰ دجال کے ساتھ ملیں گےصحیح مسلم: ۲۹۴۴
۷دجال کا پہلا ظہورشام-عراق سرحد پرسنن ابی داؤد: ۴۳۲۰
۸آسمانی نشانیاںسورج مغرب سے نکلے گا، دھواں چھائے گاصحیح مسلم: ۲۹۴۱

اہم تنبیہ:
دجال کا ظہور قیامت کی دوسری بڑی نشانی ہے۔ پہلی نشانی امام مہدی کا ظہور، تیسری سورج کا مغرب سے طلوع ہے۔ تمام نشانیوں کی زمانی ترتیب صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔









دھوکہ کے سال
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
«يَكُونُ قَبْلَ خُرُوجِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ سَنَوَاتُ خُدْعَةٍ، يُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ، وَيُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ، وَيُؤْتَمَنْ فِيهَا الْخَائِنُ، وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ، وَيَتَكَلَّمُ الرُّوَيْبِضَةُ الْوَضِيعُ مِنَ النَّاسِ»
ترجمہ:
مسیح دجال کے نکلنے سے پہلے کچھ دھوکے کے سال آئیں گے، کہ ان میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور اس زمانہ میں رویبضہ بولے گا۔ پوچھا گیا: رویبضہ کون ہے؟ فرمایا: وہ آدمی جو عوامی معاملات کے بارے میں حقیر (نااہل) آدمی بات چیت کرے گا۔ 
[مسند أحمد:7912+8459+13298، مسند البزار:2740، مسند أبي يعلى:3715، مسند الروياني:588+593]

تشریح:

حقیر آدمی یعنی معمولی، سادہ، کم علم۔
[حاشية السندي على سنن ابن ماجه:4036 (2 /494)]
یعنی جو اہل نہیں عوامی اجتماعی معاملات میں گفتگو کرنے کے، پھر بھی کلام کرے۔
[الاعتصام للشاطبي ت الهلالي: 2 / 681]
کیونکہ وہ اپنی چرب زبانی(مہارت) سے سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا، امانتدار کو خائن اور خائن کو امانتدار قرار دیکر (غیرماہر) عوام کو دھوکہ میں ڈالے گا۔

دوسری روایت میں یہ فرمان منقول ہے:
«‌السَّفِيهُ ‌يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ»۔
بے وقوف عام انتظاما میں بولے گا۔
[مسند أحمد:7912، المستدرك على الصحيحين للحاكم:8564]

اور حضرت انس بن مالکؓ کی روایت سے یہ فرمان پہنچا ہے:
«‌الْفَاسِقُ يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ ‌الْعَامَّةِ»۔
نافرمان کلام کرے گا عوامی معاملات میں۔‌
[جامع المسانيد لابن الجوزي:474، مجمع الزوائد:12226]
یا فرامایا:
«‌الْفُوَيْسِقُ ‌يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ»۔
[مسند أحمد:13298، مسند أبي يعلى:3715، شرح مشكل الآثار-الطحاوي:465]

اور حضرت عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ سے روایت ہے:
«‌مَنْ ‌لَا ‌يُؤْبَهُ ‌لَهُ»۔
"جو اس (کی حساسیت) کی پرواہ نہیں کرتا۔"
[مسند الروياني:588، شرح مشكل الآثار-الطحاوي:464، المعجم الكبير للطبراني:125، مجمع الزوائد:12469]

القرآن:
اب کیا یہ (کافر) لوگ قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ یکایک ان پر آن پڑے ؟ (اگر ایسا ہے) تو اس کی علامتیں تو آچکی ہیں۔ پھر جب وہ آہی جائے گی تو اس وقت ان کے لیے نصیحت ماننے کا موقع کہاں سے آئے گا ؟
[سورۃ محمد:18][الدر المنثور في التفسير بالمأثور-السيوطي:7 /474]

القرآن:
اور نہ ملاؤ حق کو جھوٹ سے
[سورۃ البقرۃ:42]



فقہی نکتے:

‌‌(1) قیامت کی (چھوٹی) نشانیاں
[الجامع - معمر بن راشد:20803، المصنف - عبد الرزاق:21880]

(2)‌‌دجال کے ظہور سے پہلے کی نشانیاں۔
[الفتن لنعيم بن حماد:1470]

(3)فتنوں کے بابت کتاب، مصیبت پر صبر کرنے-وقت کی شدت کا باب۔
[سنن ابن ماجه:4036]

(4)الرویبضہ، جس کا ذکر دجال سے پہلے کے سالوں کی تفصیل میں کیا گیا ہے، لوگوں میں سے کون ہوں گے؟
[شرح مشكل الآثار-الطحاوي:464+466]

(5)امانت(یعنی راز، عہدے، وعدے وغیرہ) کی حفاظت اور خیانت کی مذمت کا بیان
[مكارم الأخلاق للخرائطي:183]

(6)اللہ بلند وبرتر نے اپنے پیغمبر ﷺ کو انکی امت پر کچھ باتوں کی اطلاع دی جو قیامت تک ہونے والی ہیں۔
[شرح السنة للبربهاري: صفحہ 94]

(7)‌‌آخری زمانہ، اور قیامت کی (چھوٹی) نشانیوں وغیرہ کا ذکر
[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:2731+2777+2818]

(8)اس پہلو کی وضاحت میں جس میں (دینی ودنیاوی دشمنوں سے غافل رہنے کے سبب) فساد عام مسلمانوں میں داخل ہوں گے۔
[الحوادث والبدع-الطرطوشي: صفحہ 79]

(9)وہ باتیں جن سے پہلے قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ واقع نہ ہو جائیں، بشمول جو کچھ ہو چکا ہے، اور کچھ جو ابھی نہیں ہوئی ہیں۔
[البداية والنهاية-ابن كثير:19 / 277]

(10)نبوی پیشن گوئی کا اشارہ کہ اسلامی امت(قوم) میں جہنم کی طرف بلانے والے لوگ(جاسوس-منافق) ہوں گے۔
[النهاية في الفتن والملاحم-ابن كثير:1 /103]

(11)بہت سارے فتنے، حادثات اور فریب کے سالوں کا آنا۔
[صفات رب العالمين - ابن المحب الصامت - ناقص:5 /72 ]

(12)مخالفت کے اسباب میں:-نظریات میں غلط (بغیرعلم ودلیل محض اٹکلوں اور خوہشات پر مبنی) دعوے کرنا ہے۔
[الاعتصام للشاطبي ت الهلالي: 2 / 680]

(13)سچے کا انکار کرنا اور جھوٹے کو ماننا
[المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي:1831]

(14)اسلام کا اجنبی ہوگا:- اصاغر(یعنی چھوٹوں-بعد والوں)سے علم حاصل کرنے(کے سبب)۔
[غربة الإسلام-التويجري:1 /87]

(15)رسول کریم ﷺ کے بہترین اخلاق میں انعامات کی تازگی ہے:-
بداخلاقی سے اچھے اخلاق کی طرف:-
(1)خیانت کے مقابلے امانت اختیار کرنا
[نضرة النعيم في مكارم أخلاق الرسول الكريم:10 /4489]
(2)بیوقوفی کے بجائے عقلمندی اختیار کرنا۔
[نضرة النعيم في مكارم أخلاق الرسول الكريم:10 /4640]

‌‌(16)ایمانیات:- قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں سے امانت دار کی خیانت اور خیانت کرنے والے کی حفاظت ہے۔
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار: 2 / 365]

(17)معاملہ کسی ایسے شخص کو سونپنا جو اس کا مستحق نہ ہو۔
[الدار الآخرة - محمد حسان: 17 / 17]

ہر فن میں ان کے ماہرین کی رائے ہی معتبر ہے۔ جیسے میڈیکل میں ڈاکٹرز کی، دین میں علماء کی وغیرہ


خلاصة حكم المحدث : صحيح
[ صحيح ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 3277 المحدث : الألباني]
خلاصة حكم المحدث : صحيح الإسناد
[المستدرك الصفحة أو الرقم: 5/659]
خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن ومتنه صحيح
[مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 15/37 (16/194) المحدث : أحمد شاكر]
تفسیر سورة طه:١٥-١٦