Monday, 28 May 2012

دجال ۔۔۔ کون؟ کب؟ کہاں؟ اور کیسا؟

دجال کے معنیٰ ہیں حقیقت کو چھپانے والا، سب سے بڑا دھوکے باز اور چالباز۔ دجال کا مادہ دجل ہے جس کے معنیٰ ہیں خلط ملط کر دینا، تلبیس یعنی شیطانی چالوں سے دوسروں کو دھوکے اور التباس میں ڈالنا، ملمع سازی کرنا، حقیقت کو چھپانا، جھوٹ بولنا اور غلط بیانی کرنا۔ گویا دجال میں یہ تمام منفی اوصاف پائے جاتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں دجال سے مراد جھوٹا مسیح (المسیح الدجال) ہے جو قیامت کی اہم نشانیوں میں سے ایک ہے۔ وہ آخری زمانے میں ظاہر ہوگا اور نبوت اور خدائی کا دعویٰ کرے گا۔
خروج دجّال کے متعلق عقیدہ رکھنا کتنا اہم ہے اور فتنۂ دجّال کی کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حدیث کی تمام مستند کتابوں میں اس کا ذکر تواتر سے موجود ہے۔
امام بخاری نے دجّال پر ایک خصوصی باب مختص کیا ہے اور صحیح بخاری میں 51 مرتبہ دجّال کا ذکر آیا ہے۔
صحیح مسلم میں بھی دجّال پر ایک باب قائم ہے اور صحیح مسلم میں لفظ دجّال 65 مرتبہ مذکور ہے۔
سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی میں بھی دجّال پر ابواب موجود ہیں اور ان دونوں مجموعہ ہائے احادیث میں لفظ دجّال بالترتیب 28 اور 33 مرتبہ آیا ہے۔
سنن ابن ماجہ میں لفظ دجّال 18 مرتبہ،
مسند احمد میں 206 مرتبہ،
مؤطا امام مالک میں 5 مرتبہ آیا ہے۔
امام ابو یعلیٰ، امام بزار، امام طبری، امام ابن ماجہ، امام ہیثمی رحمہم اللہ کے اپنے اپنے مرتب کردہ مجموعہ ہائے احادیث میں دجّال کا لفظ اتنی بار مذکور ہے کہ اس کی حیثیت ایک ذخیرے کی سی ہے اور ان کا شمار کرنا تقریباً ناممکن امر ہے۔ امام حاکم، امام قرطبی، نعیم بن حماد، ابن کثیر، علامہ برزنجی اور شیخ یوسف مقدسی کے مرتب کردہ مجموعہ ہائے احادیث میں بھی دجّال سے متعلق کثرت سے روایات موجود ہیں۔







Wednesday, 23 May 2012

حق و باطل میں فرق کی صلاحیت تقوٰی سے ۔۔۔ سورۃ الانفال:29


حق و باطل میں فرق(1) تقویٰ کے ذریعے:
القرآن:
اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کے ساتھ تقویٰ کی روش اختیار کرو گے تو وہ تمہیں (حق و باطل کی) تمیز عطا کردے گا (17) اور تمہاری برائیوں کا کفارہ کردے گا، اور تمہیں مغفرت سے نوازے گا، اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔
[سورۃ الانفال:29]
یعنی تقویٰ کی یہ خاصیت ہے کہ وہ انسان کو ایسی سمجھ عطا کردیتا ہے جو حق اور ناحق میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور گناہ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کی عقل خراب کردیتا ہے جس سے وہ اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔

قرآن پاک کا ایک امتیازی نام ”الفرقان“ ہے۔
وانزل الفرقان
اور اسی نے حق و باطل کو پرکھنے کا معیار نازل کیا۔
[سورة آل عمران:4]
تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ
بڑی شان ہے اس ذات کی جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کا فیصلہ کردینے والی یہ کتاب نازل کی
[سورة الفرقان:1]
فرق کے معنی دو چیزوں کے درمیان فصل کرنا خواہ وہ فصل آنکھوں سے دکھائی دے یا دل سے ادراک کیا جائے [مفردات القرآن] یعنی قرآن مجید بنی آدم کوایسے احکام وتعلیمات سے آگاہ کرتا ہے کہ جن سے ایمان وکفر، حق وباطل اور مطیع وعاصی کے درمیان ایک حد فاصل پیدا ہوجاتا ہے اور اس سے حق یعنی اسلام کا پسندیدہ ومقبول ہونا اور غیراسلام کاباطل ومردود ہونا عیاں ہوجاتا ہے. لیحق الحق ویبطل الباطل اور اُس فرقان پر صحیح عمل کرنے والوں کوایسی شان عطا کرتا ہے جس سے وہ دوسروں سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔




تقویٰ والے(متقی/پرہیزگار)کون؟

القرآن:

جو (1)بےدیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں  (2)اور نماز قائم کرتے ہیں (3)اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 3]

القرآن:

جو خوشحالی میں بھی اور بدحالی میں بھی (اللہ کے لیے) مال خرچ کرتے ہیں، (4)اور جو غصے کو پی جانے اور لوگوں کو معاف کردینے کے عادی ہیں۔ اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 134]

القرآن:

جو دیکھے بغیر اپنے پروردگار سے ڈریں، اور جن کو قیامت کی گھڑی کا خوف لگا ہوا ہو۔

[سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 49]


تقوی کے معنی وحقیقت، فضائل اور تقاضے

https://raahedaleel.blogspot.com/2022/11/blog-post.html




حق و باطل میں فرق(2)دعا کے ذریعے:
 دعائے نبوی ﷺ:
اے میرے الله! ہمیں حق دکھا حق (کرتے/ہوتے) اور اس (حق) کی اتباع کی توفیق عطا فرما، اور باطل دکھا باطل (ہوتے) اور اس (باطل) سے ہمیں بچا، ایسا نہ ہو کہ حق و باطل ہم پر خلط ملط ہوجاۓ اور ہم بھک (گمراہ) جائیں. اے الله! ہمیں متقی (پرہیزگار) لوگوں کا امام بنا.
[تفسیرِ ابنِ کثیر: سورۃ البقرۃ:213]




عبادت کی شرعی معنی ومفہوم اور اقسام

عبادت کسے کہتے ہیں:

لغوي معني:
بطورِ تعظیم معبود کے لئے انکساری و اطاعت بندگی، پرستش، پوجا۔


اطاعت اور عبادت میں فرق:
 قرآنِ حکیم میں: (اَطِيْعُوْا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ) 
’’یعنی اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔
لیکن
اللہ کیلئے اِلٰہ (معبود-خدا) ماننے کی عقیدت ہوتی ہے اور غیراللہ کیلئے نہیں۔

 إِلَه (خدا-معبود) کسے کہتے ہیں؟
إِلَهٌ‌ وہ ہستی ہے جسے (1)غائبانہ مدد کیلئے پکارا جائے اور (2)وہ تکلیف دور کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہو۔
القرآن:
بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بےقرار اسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے، اور تکلیف دور کردیتا ہے اور جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) اللہ کے ساتھ کوئی اور إِلَهٌ‌ ہے؟ نہیں ! بلکہ تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔
[سورۃ النمل، آیت نمبر 62]
 لہٰذا
جب اللہ کے علاوہ کوئی  جو شخص کسی مخلوق کو مدد کیلئے غائبانہ پکارے تو وہ اپنے اس عمل سے اس مخلوق کو خدا مان رہا ہے کیونکہ وہ اس مخلوق کیلئے خدائی والی عقیدت رکھتا ہے کہ وہ پکار سنتا ہے اور تکلیف دور کرنے پر قادر ہے، اور یہ الله کی خاص خوبیوں میں اس مخلوق کو شریک partner بنانا یعنی شرک کرنا ہے۔





اصطلاحي معني:
ہر قول اور فعل ، دعا اور پکار ، ثنا اور تعظیم ، رکوع اور سجود ، قیام اور قعود وغیرہ جو اس اعتقاد اور شعور کے ساتھ ہو کہ معبود کو مافوق الاسباب ہمارے تمام معاملات پر غیبی قبضہ اور تسلط حاصل ہے، اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے، وہ عبادت ہے.
چنانچہ علامہ ابن القیمؒ نے عبادت کی تعریف کو ایک جامع تعبیر سے حسب ذیل عبارت میں بیان فرمایا ہے:
العبادة: (‌عبارة ‌عن ‌الاعتقاد والشعور بأن للمعبود سلطة غيبية في العلم والتصرف فوق الأسباب، يقدر بها على النفع والضر؛ فكل دعاء وثناء وتعظيم ينشأ من هذا الاعتقاد: فهو عبادة)۔
[مدارج السالکین: ١/٤٠ (1/ 318 الناشر: دار الصميعي)]
ترجمہ :
عبادت: اس اعتقاد اور شعور کا نام ہے کہ معبود کو ایک غیبی تسلط حاصل ہے، جس کی وجہ سے وہ نفع نقصان پر قادر ہے، اس لئے ہر تعریف، ہر پکار اور ہر تعظیم جو اس مذکورہ اعتقاد اور شعور کے ساتھ ہو وہ عبادت ہے.
An expression of the belief and perception that the deity has an unseen authority (control, power) in knowledge and control (of the affairs) above the (created) ways and means (asbaab) through which He has power of benefit and harm. So every invocation (du'a), praise and veneration that emanates from this belief is considered ibaadah (worship).







قرآن مجید میں عربی لفظ ((دون یعنی سوا) اور ((غير یعنی علاوہ)) سے مخلوق کو ((إله یعنی معبود-خدا)) ٹھہراتے ہوئے اپنے ((زعم یعنی بغیر حکم محض اپنے خیال و گمان)) سے جو جو عقیدہ یا عمل  ((أخذ-جعل یعنی خود پکڑتے-بناتے)) شرک کرتے رہے ہیں، ان میں:
(1)سورج کو سجدہ کرتے  {27:24}،
(2)چاند تاروں کو رب(رزاق) مان لیتے{6: 76-78}،
(3)جِن کی عبادت کرتے {34:41} شیطان کو پکارتے{4:117}،
(4)فرشتوں کو (اللہ کی بیٹیاں-جُزء قرار دیتے) عبادت کرتے{34:40}،
(5)عیسیٰ نبی اور ان کی ماں مریم کو خدا بناتے{5:116}
عزیر اور عیسیٰ نبی کو خدا کا بیٹا قرار دیتے{9:30}
(6)اللہ ہی کے بندوں کو ولی (رکھوالا) بناتے{18:102}پیر-پرستی کرتے
مردہ اولیاء کے بت بناتے{71:23}پتھروں کی یادگاروں کو پوجتے تھے{21:98}
نفع نقصان اور شفاعت کی امید رکھتے پوجتے ہیں{10:18}
اللہ کے بندوں کو اللہ کا جزء(حصہ/ٹکڑا) خود بناتے{43:15}
اور انہیں غائبانہ حاجات میں پکارتے رہتے، اور یہ سب وہ بلادلیل (بغیرخداوندی حکم و اجازت) کے محض اپنے زعم سے کرتے، اور عقیدت میں ان کو ولی (رکھوالا) اور نصیر (مددگار)  ، رب (تربیت وحکم والا) ، رزاق ، شفیع (سفارش کرنے والا) ، نفع و نقصان کی ملکیت و اختیار رکھنے والا مالک مانتے تھے، تاکہ وہ الله کے ہاں قربت (نزدیکی) دلوانے  {39:3} کا وسیلہ (ذریعہ) {17:57} ہیں۔


الله پاک کے ساتھ محبّت میں شرک کی دلیل:
القرآن:
اور بعضے لوگ وہ ہیں جو بناتے ہیں اللہ کے برابر اوروں کو، انکی محبت ایسی رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ کی، اور ایمان والوں کو سب سے زیادہ ہے محبت اللہ کی، اور اگر دیکھ لیں یہ ظالم اس وقت کو جبکہ دیکھیں گے عذاب کہ قوۃ ساری اللہ ہی کے لئے ہے اور یہ کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔
[سورۃ البقرۃ:165]



قُل إِن كانَ ءاباؤُكُم وَأَبناؤُكُم وَإِخوٰنُكُم وَأَزوٰجُكُم وَعَشيرَتُكُم وَأَموٰلٌ اقتَرَفتُموها وَتِجٰرَةٌ تَخشَونَ كَسادَها وَمَسٰكِنُ تَرضَونَها أَحَبَّ إِلَيكُم مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ وَجِهادٍ فى سَبيلِهِ فَتَرَبَّصوا حَتّىٰ يَأتِىَ اللَّهُ بِأَمرِهِ ۗ وَاللَّهُ لا يَهدِى القَومَ الفٰسِقينَ
{9:24}
کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ محبوب ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔



تشریح:
کسی سے محبت عموما اس کے (1) جمال، (2) کمال اور (2) نوال کے سبب نفع کی امید اور نقصان کے خوف سے ہوتی اور بڑھتی ہے۔ کسی کی محبت میں اندھا بہرا ہوجانا یعنی اس کے سوا کسی کی بات نہ ماننا کسی کی پروا نہ کرنا یہ صورت وحالت عبادت کی ہے جو صرف سب کے خالق ومالک اللہ کا حق ہے۔ مخلوق کے ساتھ ایسی اشد محبت حرام وشرک ہے۔







1) مدد کے لئے (غائبانہ حاجات میں) "پکارنا" عبادت ہے:

وَالَّذينَ لا يَدعونَ مَعَ اللَّهِ إِلٰهًا ءاخَرَ وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ يَلقَ أَثامًا {25:68} 

اور وہ لوگ کہ نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ دوسرے حاکم کو اور نہیں خون کرتے جان کا جو منع کر دی اللہ نے مگر جہاں چاہئے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو کوئی کرے یہ کام وہ جا پڑ اگناہ میں

یعنی بڑا سخت گناہ کیا جس کی سزا مل کر رہے گی۔ بعض روایات میں آیا کہ “ آثام” جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں بہت ہی ہولناک عذاب بیان کئے گئے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہا 



مثلاً قتل عمد کے بدلہ قتل کرنا، یا بدکاری کی سزا میں زانی محصن کو سنگسار کرنا، یا جو شخص دین چھوڑ کر جماعت سے علیحدہ ہو جائے، اس کو مار ڈالنا، یہ سب صورتیں { اِلَّا بِالْحَقِّ } میں شامل ہیں۔ کما ورد فی الحدیث۔






فَلا تَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلٰهًا ءاخَرَ فَتَكونَ مِنَ المُعَذَّبينَ {26:213} 

سو تو مت پکار اللہ کے ساتھ دوسرا معبود کو پھر تو پڑے عذاب میں



یہ فرمایا رسول کو اور سنایا اوروں کو یعنی جب یہ کتاب بلا شک و شبہ خدا کی اتاری ہوئی ہے، شیطان کا اس میں ذرہ بھر دخل نہیں تو چاہئے کہ اس کی تعلیم پر چلو جس میں اصل اصول توحید ہے۔ شرک و کفر اور تکذیب کی شیطانی راہ اختیار مت کرو۔ ورنہ عذاب الہٰی سے رستگاری کی کوئی سبیل نہیں۔





وَلا تَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلٰهًا ءاخَرَ ۘ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيءٍ هالِكٌ إِلّا وَجهَهُ ۚ لَهُ الحُكمُ وَإِلَيهِ تُرجَعونَ {28:88}
اور مت پکار اللہ کے ساتھ دوسرا معبود کو، کسی کی بندگی نہیں اسکے سوائے، ہر چیز فنا ہے مگر اس کا منہ اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف پھر جاؤ گے [۱۲۹]

یعنی مت بناؤ اس (الله) کے سوا کسی غیر کو وکیل (کارساز) اپنے کاموں میں اور نہ ہی اعتماد رکھو اس کے سوا کسی پر، کیونکہ نفع و نقصان ، منع و عطا اسی کے اختیار میں ہے لہذا مصائب و مشکلات اور حاجات و بلیات میں غائبانہ صرف اسی کو پکارو.



تفسير مفاتيح الغيب ، التفسير الكبير/ الرازي (ت 606 هـ) :
ويجوز أن يكون المعنى لا تعتمد على غير الله ولا تتخذ غيره وكيلاً في أمورك، فإن من وثق بغير الله تعالى فكأنه لم يكمل طريقه في التوحيد، ثم بين أنه لا إله إلا هو، أي لا نافع ولا ضار ولا معطي ولا مانع إلا هو، كقوله:
{ رَّبُّ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ لاَ إِلَـٰهَ إِلاَّ هُوَ فَٱتَّخِذْهُ وَكِيلاً }[المزمل: 9]


یعنی سب کو اس کی عدالت میں حاضر ہونا ہے جہاں تنہا اسی کا حکم چلے گا۔ صورۃً و ظاہرًا بھی کسی کا حکم و اقتدار باقی نہ رہے گا۔ اے اللہ اس وقت اس گنہگار بندہ پر رحم فرمایئے اور اپنے غضب سے پناہ دیجئے۔ تم سورۃ القصص وللہ الحمد والمنۃ۔ 

یعنی ہر چیز اپنی ذات سےمعدوم ہے اور تقریبًا تمام چیزوں کو فنا ہونا ہے، خواہ کبھی ہو۔ مگر اس کا منہ یعنی وہ آپ کبھی معدوم تھا، نہ کبھی فنا ہو سکتا ہے۔ سچ ہے؎ { اَلَا کُلُّ شیءٍ مَا خَلَا اللہ بَاطِلٌ }۔ قال تعالیٰ { کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ} اور بعض سلف نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ سارے کام مٹ جانے والے اور فنا ہو جانے والے ہیں بجز اس کام کے جو خالصًا لوجہ اللہ کیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ 

یہ آپ کو خطاب کر کے دوسروں کو سنایا۔ اوپر کی آیتوں میں بھی بعض مفسرین ایسا ہی لکھتے ہیں۔




وَأَنَّ المَسٰجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدعوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا {72:18}
اور یہ کہ مسجدیں اللہ کی یاد کے واسطے ہیں سو مت پکارو اللہ کے ساتھ کسی کو 

یعنی یوں تو الله کی ساری زمین اس امّت کے لئے مسجد بنادی گئ ہے۔ لیکن خصوصیت سے وہ مکانات جو مسجدوں کے نام سے خاص عبادت الہٰی کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ ان کو اور زیادہ امتیاز حاصل ہے۔ وہاں جا کر اللہ کے سوا کسی ہستی کو پکارنا ظلم عظیم اور شرک کی بدترین صورت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خالص خدائے واحد کی طرف آؤ اور اس کا شریک کر کے کسی کو کہیں بھی مت پکارو خصوصًا مساجد میں جو اللہ کے نام پر تنہا اسی کی عبادت کے لئے بنائی گئ ہیں۔ بعض مفسّرین نے "مساجد" سے مراد وہ اعضاء لئے ہیں جو سجدہ کے وقت زمین پر رکھے جاتے ہیں۔ اس وقت مطلب یہ ہو گا کہ یہ الله  کے دیئے ہوئے اور اس کے بنائے ہوئے اعضاء ہیں۔ جائز نہیں کہ ان کو اس مالک و خالق کے سوا کسی دوسرے کے سامنے جھکاؤ۔



حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنْ يُسَيْعٍ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ " ، ثُمَّ قَرَأَ : وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ سورة غافر آية 60 . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ، وَقَدْ رَوَاهُ مَنْصُورٌ ، وَالْأَعْمَشُ ، عَنْ ذَرٍّ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ذَرٍّ هُوَ ذَرُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ ثِقَةٌ وَالِدُ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ .

حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ دعا ہی تو عبادت ہے، پھر یہ آیت پڑھی:وَقالَ رَبُّكُمُ ادعونى أَستَجِب لَكُم ۚ إِنَّ الَّذينَ يَستَكبِرونَ عَن عِبادَتى سَيَدخُلونَ جَهَنَّمَ داخِرينَ {40:60}
 یعنی "اور کہتا ہے تمہارا رب مجھ کو پکارو کہ پہنچوں تمہاری پکار کو بے شک جو لوگ تکبر کرتے ہیں میری بندگی سے اب داخل ہوں گے دوزخ میں ذلیل ہو کر"۔
[حديث النعمان بن بشير: أخرجه أحمد (4/271، رقم 18415) ، وابن أبى شيبة (6/21، رقم 29167) ، والبخارى فى الأدب المفرد (1/249، رقم 714) ، وأبو داود (2/76، رقم 1479) ، والترمذى (5/211، رقم 2969) وقال: حسن صحيح. والنسائى فى الكبرى (6/450، رقم 11464) ، وابن ماجه (2/1258، رقم 3828) ، وابن حبان
(3/172، رقم 890) ، والحاكم (1/667، رقم 1802) وقال: صحيح الإسناد. والبيهقى فى شعب الإيمان (2/37، رقم 1105م) . وأخرجه أيضًا: الطبرانى فى الصغير (2/208، رقم 1041) ، والقضاعى (1/51، رقم 29) .
حديث البراء بن عازب: أخرجه أبو يعلى (1/262، رقم 328) . وأخرجه أيضًا: الخطيب (12/279) .]


یعنی میری ہی بندگی کرو کہ اس کی جزا دوں گا اور مجھ ہی سے مانگو کہ تمہارا مانگنا خالی نہ جائے گا۔بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگنا۔ نہ مانگنا غرور ہے۔ اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ بندوں کی پکار کو پہنچتا ہے۔ یہ بات تو بیشک برحق ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر بندے کی ہر دعا قبول کیا کرے۔ دعا کی فضیلت: یعنی جو مانگے وہ ہی چیز دے دے۔ نہیں اس کی اجابت کے بہت سے رنگ ہیں جو احادیث میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ کوئی چیز دینا اس کی مشیت پر موقوف اور حکمت کے تابع ہے۔ کما قال فی موضع آخر { فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ شَآءَ } (انعام رکوع۴) بہرحال بندہ کا کام ہے مانگنا اور یہ مانگنا خود ایک عبادت بلکہ مغز عبادت ہے۔






حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ شَقِيقٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَةً ، وَقُلْتُ أُخْرَى ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ مَاتَ وَهْوَ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ " , وَقُلْتُ : أَنَا مَنْ مَاتَ وَهْوَ لَا يَدْعُو لِلَّهِ نِدًّا دَخَلَ الْجَنَّةَ .


حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "جو شخص اس حالت میں مرے کہ وہ پکارتا ہو(غائبانہ حاجات میں) اللہ کے سوا کسی اور کو بھی تو وہ داخل ہوگا جھنم میں"۔ اور میں کہتا ہوں: کہ جو مرے اس حال میں کہ وہ نہ پکارتا ہو اللہ کے سوا  کسی اور کو وہ داخل ہوگا جنت میں۔







2) "سجدہ" کے عبادت ہونے کی دلیل:
القرآن : جَدتُها وَقَومَها يَسجُدونَ لِلشَّمسِ مِن دونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيطٰنُ أَعمٰلَهُم فَصَدَّهُم عَنِ السَّبيلِ فَهُم لا يَهتَدونَ {27:24}
ترجمه: میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم الله کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آئے. 

حضرت عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَىؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

( اگرمیں کسی کو اللہ تعالی کے علاوہ کسی اورکے لیے سجدہ کرنے کاحکم دیتا توعورت کوحکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کوسجدہ کرے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے جب تک عورت اپنے خاوند کے حق ادا نہیں کرتی وہ اس وقت تک اپنے رب کے حقوق بھی ادا نہیں کرسکتی ، اوراگرخاوند اس سے اس کا نفس مانگے اوروہ کجاوہ پر ہو تو اسے نہیں روکنا چاہیے۔
[حديث أبى هريرة: أخرجه الترمذى (3/465، رقم 1159) ، وقال: حسن غريب.
حديث بريدة: أخرجه الدارمى (1/406، رقم 1464) ، والحاكم (4/190، رقم 7327) وقال: صحيح الإسناد.
حديث معاذ: أخرجه أحمد (4/381، رقم 19422) . قال الهيثمى (4/310) : رواه البزار، والطبرانى فى الكبير والأوسط، وأحد إسنادى الطبرانى رجاله رجال الصحيح خلا صدقة بن عبد الله السمين، وثقه أبو حاتم وجماعة، وضعفه البخارى وجماعة.
حديث سراقة: أخرجه الطبرانى (7/129، رقم 6590) . قال الهيثمى (4/310) : رواه الطبرانى من طريق وهب بن على عن أبيه، ولم أعرفهما، وبقية رجاله ثقات.
حديث صهيب: أخرجه الطبرانى (8/31، رقم 7294) . قال الهيثمى (4/310) : رواه البزار، والطبرانى، وفيه النهاس بن فهم، وهو ضعيف.
حديث غيلان بن سلمة: أخرجه الطبرانى (18/263، رقم 660) . قال الهيثمى (4/311) : فيه شبيب بن شيبة، والأكثرون على تضعيفه، وقد وثقه صالح جزرة وغيره.]


اور ایک دفعہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 یہود اور نصاریٰ پر الله کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔

[حديث أسامة بن زيد: أخرجه أحمد (5/203، رقم 21822) ، والطبرانى (1/164، رقم 393) ، والضياء (4/141، رقم 1355) .
حديث عائشة وابن عباس معا: أخرجه أحمد (1/218، رقم 1884) ، والبخارى (1/168، رقم 425) ، ومسلم (1/377، رقم 531) ، والنسائى (2/40، رقم 703) .
حديث أبى هريرة: أخرجه مسلم (1/377، رقم 530) .]


حدیث : میری قبر کو بت نہ ماننا
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي إِسْرَائِيلَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا تَجْعَلُنَّ قَبْرِي وَثَنًا ، لَعَنَ اللَّهُ قَوْمًا اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ " .
[مسند أبي يعلى الموصلي » تَابِعُ مُسْنَدِ أَبِي هُرَيْرَةَ ...رقم الحديث: 6641]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مت بنانا میری قبر کو بت ، لعنت ہو الله کی اس قوم پر جو اپنے انبیاء کی قبر کو سجدہ گاہ بناۓ.



حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا ، لَعَنَ اللَّهُ قَوْمًا اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » بَاقِي مُسْنَد المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ... رقم الحديث: 7184]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (یعنی یہ دعا فرمائی) اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِی وَثَنًا یُعْبَدُ یعنی : اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا کہ لوگ اس کی عبادت کرنے لگیں۔ (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)  لعنت ہو الله کی اس قوم پر جو اپنے انبیاء کی قبر کو سجدہ گاہ بناۓ.
[مسند احمد:7358، إسناده قوي، حمزة بن المغيرة: هو ابن نشيط المخزومي الكوفي، قال ابن معين: ليس به بأس، وذكره ابن حبان في "الثقات"، وباقي رجاله ثقات رجال الصحيح.
وأخرجه الحميدي (1025) ، وابن سعد 2/241-242، وابن عبد البر في "التمهيد" 5/43 و44 من طريق سفيان بن عيينة، بهذا الإسناد - وفي الموضع الأول عند ابن عبد البر الشطر الأول من الحديث فقط.
وأورد هذا الشطر منه البخاري في "التاريخ الكبير" 3/47 من طريق سفيان، به. وانظر ما سيأتي برقم (8804) .
والشطر الثاني، سيأتي نحوه في "المسند" برقم (7826) من طريق سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة.
وفي الباب عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار مرسلا، عن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عند مالك في "الموطأ" 1/172، ومن طريقه ابن سعد 2/240-241. ووصله البزار (440- كشف الأستار) ، ومن طريقه ابن عبد البر 5/42-43 عن سليمان بن سيف، عن محمد بن سليمان بن أبي داود الحراني، عن عمر بن صهبان، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد الخدري، عن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وفي سنده عمر بن صهبان، ويقال: عمر بن محمد بن صهبان المدني، وهو ضعيف باتفاقهم، والتبس أمره على أبي عمر ابن عبد البر فظنّه عمر بن محمد -وهو ابن زيد بن عبد الله بن عمر بن الخظاب- الثقة!
قال أبو عمر ابن عبد البر 5/45: الوثن: الصنم، وهو الصورة من ذهب كان أو من فضة، أو غير ذلك من التمثال، وكل ما يعبد من دون الله فهو وثن، صنما كان أو غير صنم؛ وكانت العرب تصلي إلى الأصنام وتعبدها، فخشي رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ على أمته أن تصنع كما صنع بعض من مضى من الأمم: كانوا إذا مات لهم نبي عكفوا حول قبره كما يصنع بالصنم، فقال صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللهم لا تجعل قبري وثنا يصلى إليه، ويسجد نحوه ويعبد فقد اشتد غضب الله على من فعل ذلك"، وكان رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يحذر أصحابه وسائرته من سوء صنيع الأمم قبله، الذين صلوا إلى قبور أنبيائهم، واتخذوها قبلة ومسجدا كما صنعت الوثنية بالأوثان التي كانوا يسجدون إليها ويعظمونها وذلك الشرك الأكبر فكان النبيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يخبرهم بما في ذلك من سخط الله وغضبه، وأنه مما لا يرضاه خشية عليهم امتثال طرقهم.]






3) "خوف" کے عبادت ہونے کی دلیل:

خوف بھی عبادت، دل کا اعتقادی عمل اور اللہ کا حق ہے۔ خوف کے معنیٰ نہ صرف ڈرنا ہے بلکہ اندیشہ اور خطرہ بھی ہے۔ لہٰذا جب ڈرنے کے معنیٰ میں استعمال ہو تو وہ اللہ ہے کیلئے ہوگا۔


إِنَّما ذٰلِكُمُ الشَّيطٰنُ يُخَوِّفُ أَولِياءَهُ فَلا تَخافوهُم وَخافونِ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ 0
[سورۃ آل عمران:175]
یہ جو ہے سو شیطان ہے کہ ڈراتا ہے اپنے اولیاء(دوستوں) سے سو تم ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو.
It is only that the Satan frighteth you of his friends, wherefore fear them not, but fear Me, if ye are believers.
یعنی جو ادھر سے آ کر مرعوب کن خبریں پھیلاتا ہے وہ شیطان ہے یا شیطان کے اغواء سے ایسا کر رہا ہے جس کی غرض یہ ہے کہ اپنے چیلے چانٹوں اور بھائی بندوں کا رعب تم پربٹھلا کر خوفزدہ کر دے، سو تم اگر ایمان رکھتے وہ (اور ضرور رکھتے ہو جس کا ثبوت عملًا دے چکے) تو ان شیطانوں سے اصلًا مت ڈرو صرف مجھ سے ڈرتے رہو کہ ؂
 ہر کہ تر سید از حق و تقویٰ گزید تر سید ازو جن و انس و ہر کہ دید۔



يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا مَن يَرتَدَّ مِنكُم عَن دينِهِ فَسَوفَ يَأتِى اللَّهُ بِقَومٍ يُحِبُّهُم وَيُحِبّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى المُؤمِنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الكٰفِرينَ يُجٰهِدونَ فى سَبيلِ اللَّهِ وَلا يَخافونَ لَومَةَ لائِمٍ ۚ ذٰلِكَ فَضلُ اللَّهِ يُؤتيهِ مَن يَشاءُ ۚ وَاللَّهُ وٰسِعٌ عَليمٌ {5:54}
اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈریں یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور الله بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے۔




وَحاجَّهُ قَومُهُ ۚ قالَ أَتُحٰجّونّى فِى اللَّهِ وَقَد هَدىٰنِ ۚ وَلا أَخافُ ما تُشرِكونَ بِهِ إِلّا أَن يَشاءَ رَبّى شَيـًٔا ۗ وَسِعَ رَبّى كُلَّ شَيءٍ عِلمًا ۗ أَفَلا تَتَذَكَّرونَ {6:80}
اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے اللہ کے بارے میں (کیا) بحث کرتے ہو اس نے تو مجھے سیدھا رستہ دکھا دیا ہے۔ اور جن چیزوں کو تم اس کا شریک بناتے ہو میں ان سے نہیں ڈرتا۔ ہاں جو میرا پروردگار چاہے۔ میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ کیا تم خیال نہیں کرتے۔




وَكَيفَ أَخافُ ما أَشرَكتُم وَلا تَخافونَ أَنَّكُم أَشرَكتُم بِاللَّهِ ما لَم يُنَزِّل بِهِ عَلَيكُم سُلطٰنًا ۚ فَأَىُّ الفَريقَينِ أَحَقُّ بِالأَمنِ ۖ إِن كُنتُم تَعلَمونَ {6:81}
بھلا میں ان چیزوں سے جن کو تم (اللہ کا) شریک بناتے ہو کیونکرڈروں جب کہ تم اس سے نہیں ڈرتے کہ اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہو جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی۔ اب دونوں فرقوں میں سے کون سا فریق امن (اور جمعیت خاطر) کا مستحق ہے۔ اگر سمجھ رکھتے ہو (تو بتاؤ)؟
أَلَيسَ اللَّهُ بِكافٍ عَبدَهُ ۖ وَيُخَوِّفونَكَ بِالَّذينَ مِن دونِهِ ۚ وَمَن يُضلِلِ اللَّهُ فَما لَهُ مِن هادٍ {39:36}
کیا اللہ اپنے بندوں کو کافی نہیں۔ اور یہ تم کو ان لوگوں سے جو اس کے سوا ہیں (یعنی غیر اللہ سے) ڈراتے ہیں۔ اور جس کو اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔




4) "امید اور رجاء" کے عبادت ہونے کی دلیل:


قُل إِنَّما أَنا۠ بَشَرٌ مِثلُكُم يوحىٰ إِلَىَّ أَنَّما إِلٰهُكُم إِلٰهٌ وٰحِدٌ ۖ فَمَن كانَ يَرجوا لِقاءَ رَبِّهِ فَليَعمَل عَمَلًا صٰلِحًا وَلا يُشرِك بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا {18:110}

تو کہہ میں بھی ایک آدمی ہوں جیسے تم حکم آتا ہے مجھ کو کہ معبود تمہارا ایک معبود ہے سو پھر جس کو امید ہو ملنے کی اپنے رب سے سوہ وہ کرے کچھ کام نیک اور شریک نہ کرے اپنے رب کی بندگی میں کسی کو۔
Say thou: I am but a human being like yourselves; revealed unto me is that your God is One God. Whosoever then hopeth for the meeting with his Lord, let him work righteous work, and let him not associate in the worship of his Lord anyone.
یعنی میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں ، الله نہیں ، جو خود بخود ذاتی طور پر تمام علوم و کمالات حاصل ہوں ، ہاں اللہ تعالیٰ علوم حقہ اور معارف قدسیہ میری طرف وحی کرتا ہے جن میں اصل اصول علم توحید ہے ، اسی کی طرف میں سب کو دعوت دیتا ہوں۔ جس کسی کو اللہ تعالیٰ سے ملنے کا شوق یا اس کے سامنے حاضر کئے جانے کا خوف ہو اسے چاہئے کہ کچھ بھلے کام شریعت کے موافق کر جائے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی میں ظاہرًا و باطنًا کسی کو کسی درجہ میں بھی شریک نہ کرے۔ یعنی شرک جلی کی طرح ریا وغیرہ شرک خفی سے بھی بچتا رہے کیونکہ جس عبادت میں غیر اللہ کی شرکت ہو وہ عابد کے منہ پر ماری جائے گی۔ { اَللّٰھُمَّ اَعِذْنَا مِنْ شرُوْرِ اَنْفُسِنَا } اس آیت میں اشارہ کر دیا کہ نبی کا علم بھی متناہی اور عطائی ہے ، علم خداوندی کی طرح ذاتی اور غیر متناہی نہیں۔ تم سورۃ الکہف بفضل اللہ تعالیٰ و منہ وللہ الحمد اولاً و آخرًا۔





إِنَّ الَّذينَ لا يَرجونَ لِقاءَنا وَرَضوا بِالحَيوٰةِ الدُّنيا وَاطمَأَنّوا بِها وَالَّذينَ هُم عَن ءايٰتِنا غٰفِلونَ {10:7}
جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اسی پر مطئمن ہو بیٹھے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو رہے ہیں۔

وَلَو يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنّاسِ الشَّرَّ استِعجالَهُم بِالخَيرِ لَقُضِىَ إِلَيهِم أَجَلُهُم ۖ فَنَذَرُ الَّذينَ لا يَرجونَ لِقاءَنا فى طُغيٰنِهِم يَعمَهونَ {10:11}
اور اگر خدا لوگوں کی برائی میں جلدی کرتا جس طرح وہ طلب خیر میں جلدی کرتے ہیں۔ تو ان کی (عمر کی) میعاد پوری ہوچکی ہوتی سو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں انہیں ہم چھوڑے رکھتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں۔


وَإِذا تُتلىٰ عَلَيهِم ءاياتُنا بَيِّنٰتٍ ۙ قالَ الَّذينَ لا يَرجونَ لِقاءَنَا ائتِ بِقُرءانٍ غَيرِ هٰذا أَو بَدِّلهُ ۚ قُل ما يَكونُ لى أَن أُبَدِّلَهُ مِن تِلقائِ نَفسى ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ ۖ إِنّى أَخافُ إِن عَصَيتُ رَبّى عَذابَ يَومٍ عَظيمٍ {10:15}
اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی امید نہیں وہ کہتے ہیں کہ (یا تو) اس کے سوا کوئی اور قرآن (بنا) لاؤ یا اس کو بدل دو۔ کہہ دو کہ مجھ کو اختیار نہیں ہے کہ اسے اپنی طرف سے بدل دو۔ میں تو اسی حکم کا تابع ہوں جو میری طرف آتا ہے۔ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے (سخت) دن کے عذاب سے خوف آتا ہے۔


أُولٰئِكَ الَّذينَ يَدعونَ يَبتَغونَ إِلىٰ رَبِّهِمُ الوَسيلَةَ أَيُّهُم أَقرَبُ وَيَرجونَ رَحمَتَهُ وَيَخافونَ عَذابَهُ ۚ إِنَّ عَذابَ رَبِّكَ كانَ مَحذورًا {17:57}
یہ لوگ جن کو (اللہ کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہ (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (اللہ کا) زیادہ مقرب ہوتا ہے اور اس کی رحمت کے امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بےشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔


وَقالَ الَّذينَ لا يَرجونَ لِقاءَنا لَولا أُنزِلَ عَلَينَا المَلٰئِكَةُ أَو نَرىٰ رَبَّنا ۗ لَقَدِ استَكبَروا فى أَنفُسِهِم وَعَتَو عُتُوًّا كَبيرًا {25:21}
اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے۔ کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہ نازل کئے گئے۔ یا ہم اپنی آنکھ سے اپنے پروردگار کو دیکھ لیں۔ یہ اپنے خیال میں بڑائی رکھتے ہیں اور (اسی بنا پر) بڑے سرکش ہو رہے ہیں۔


وَإِلىٰ مَديَنَ أَخاهُم شُعَيبًا فَقالَ يٰقَومِ اعبُدُوا اللَّهَ وَارجُوا اليَومَ الءاخِرَ وَلا تَعثَوا فِى الأَرضِ مُفسِدينَ {29:36}
اور مدین کی طرف اُن کے بھائی شعیب کو (بھیجا) تو اُنہوں نے کہا (اے قوم) اللہ کی عبادت کرو اور پچھلے دن کے آنے کی اُمید رکھو اور ملک میں فساد نہ مچاؤ۔








5) "توکل" کے عبادت ہونے کی دلیل:

توکل، و ک ل سے مشتق ہے، یعنی حوالہ کرنا، بھروسہ رکھنا۔ اور وکیل کہتے ہیں کام بنانے کیلئے جس کے حوالہ کیا جاۓ۔
توکل بھی ایک عبادت اور اللہ کا حق ہے، جس میں الله کی توحید کے مطابق کسی (نبی/ولی) کو شریک کرنا خلافِ تعلیم نبوت ہے۔
دلائل:
توکل کے قابل الله ہی کیوں؟
القرآن: اللہ تمہاری مدد کرے گا تو کوئی تم پر غالب نہ ہو سکے گا اور اگر مدد نہ کرے تمہاری تو پھر ایسا کون ہے جو مدد کرسکے تمہاری اس کے بعد اور اللہ ہی پر توکل(بھروسہ) چاہئیے مسلمانوں کو۔
[سورۃ آل عمران:160]

توکل کے قابل وہ ہے جو کافی ہو:
اور بھروسہ رکھ اللہ پر اور اللہ کافی ہے کام بنانے والا۔
[سورۃ النساء:81، 132، 171 سورۃ الأحزاب:3، 48]

توکل کے قابل مولا ہے:
تو کہہ دے ہم کو ہرگز نہ پہنچے گا مگر وہی جو لکھ دیا اللہ نے ہمارے لیے وہی ہے مولا(مددگار) ہمارا، اور اللہ ہی پر چاہیے کہ توکل(بھروسہ) کریں مسلمان.
[سورۃ التوبۃ:51]

توکل کے قابل معبود، مالک عرش عظیم ہے:
پھر بھی اگر منہ پھیریں تو کہہ دے کہ کافی ہے مجھ کو اللہ، نہیں ہے کوئی عبادت کے قابل سوا اس کے،(لہذا) اسی پر میں نے توکل(بھروسہ) کیا اور وہی مالک ہے عرش عظیم کا۔
[سورۃ التوبۃ:129]

توکل کے قابل رب ہے:
میں نے بھروسہ کیا اللہ پر جو رب ہے میرا اور تمہارا کوئی نہیں زمین پر پاؤں دھرنے والا مگر اللہ کے ہاتھ میں ہے چوٹی اس کی بیشک میرا رب ہے سیدھی راہ پر۔
[سورۃ ھود:56]
۔۔۔وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ۔
اور(کام کا)بن آنا ہے اللہ کی مدد سے اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے.
[سورۃ ھود:88]

توکل کے قابل غیب والا ہے:
اور اللہ کے پاس چھپی ہے بات آسمانوں کی اور زمین کی اور اسی کی طرف رجوع ہے سب کام کا سو اسی کی بندگی کر اور اسی پر بھروسہ رکھ اور تیرا رب بیخبر نہیں جو کام تم کرتے ہو۔
[سورۃ ھود:123]

توکل کے قابل وہ جس کے حکم کے سامنے کوئی نبی بھی غنی نہ ہو:
۔۔۔اور میں(یعقوب نبی بھی) نہیں غنی(بچا)سکتا تم کو اللہ کی کسی بات سے، حکم کسی کا نہیں سوائے اللہ کے اسی پر مجھ کو بھروسہ ہے اور اسی پر بھروسہ چاہیے بھروسہ کرنے والوں کو۔
[سورۃ یوسف:67]

توکل کے قابل معبود ہے:
۔۔۔تو کہہ وہی رب میرا ہے کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف آتا ہوں رجوع کر کے۔
[سورۃ الرعد:30] التغابن:13

توکل کے قابل وہ ہے جس کی اجازت کے سوا کوئی نبی بھی معجزہ نہ لاسکے:
ان کو کہا ان کے رسولوں نے ہم تو یہی بشر(آدمی) ہیں جیسے تم لیکن اللہ(وحی بھیج کر) احسان کرتا ہے اپنے بندوں میں جس پر چاہے، اور ہمارا کام نہیں کہ لے آئیں تمہارے پاس سند(معجزہ) مگر اللہ کے حکم سے اور(لہٰذا) اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے ایمان والوں کو.
[سورۃ ابراھیم:11]

توکل کے قابل رب ہے:
۔۔۔اور وہ اپنے رب پر ہی توکل(بھروسہ)کرتے ہیں۔
[سورۃ النحل:42، 99، العنکبوت:59 الشوریٰ:10، 36]

توکل کے قابل وہ ہے جسے موت نہ آئے:
اور بھروسہ کر اوپر اس زندہ کے جو نہیں مرتا، اور یاد کر اس کی خوبیاں اور وہ کافی ہے اپنے بندوں کے گناہوں سے خبردار۔
[سورۃ الفرقان:58]


توکل کے قابل وہ ہے جس کی اجازت کے سوا کوئی نقصان نہ پہنچا سکے:
یہ جو ہے کانا پھوسی سو شیطان کا کام ہے تاکہ دل گیر کرے ایمان والوں کو اور وہ ان کا کچھ نہ بگاڑے گا بدون اللہ کے حکم کے اور اللہ پر چاہیے کہ بھروسہ کریں ایمان والے۔
[سورۃ المجادلۃ:10]

توکل کے قابل وہ ذات ہے جس کی بخشش کے سوا کسی شیء کا نبی بھی مالک(اختیار والا)نہ ہو:
مگر ایک کہنا ابراہیم کا اپنے باپ کو کہ میں مانگوں کا معافی تیرے لیے اور مالک نہیں میں تیرے نفع کا اللہ کے ہاتھ سے کسی چیز کا، اے رب ہمارے! ہم نے تجھ پر توکل کیا اور تیری طرف رجوع ہوئے اور تیری طرف ہے سب کو پھر آنا۔
[سورۃ الممتحنۃ:4]

توکل کے قابل وہ ہے جو رزق دینے والا ہر شیء کا قدر(تقدیر واندازہ)طے کرنے والا ہو:
اور روزی دے اس کو جہاں سے اس کو خیال بھی نہ ہو ف ٩ اور جو کوئی بھروسہ رکھے اللہ پر تو وہ اس کو کافی ہے تحقیق اللہ پورا کرلیتا ہے اپنا کام اللہ نے رکھا ہے ہر چیز کا اندازہ۔
[سورۃ الطلاق:3]

توکل کے قابل رحمان ہے:
تو کہہ وہی رحمان ہے ہم نے اس کو مانا اور اسی پر بھروسہ کیا سو جلد تم جان لو گے کون پڑا ہے صریح بہکائے میں۔
[سورۃ الملک:29]


6) "رغبت و رہبت اور خشوع" کے عبادت ہونے کی دلیل:

 إِنَّهُم كانوا يُسٰرِعونَ فِى الخَيرٰتِ وَيَدعونَنا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكانوا لَنا خٰشِعينَ {21:90}
وہ لوگ دوڑتے تھے بھلائیوں پر اور پکارتے تھے ہم کو توقع سے اور ڈر سے اور تھے ہمارے آگے عاجز
 Verily they Were wont to vie with one anot her in good deeds and to call upon us with longing and dread, and they were ever before us meek.




7) "خشیت" کے عبادت ہونے کی دلیل:

 فَلا تَخشَوهُم وَاخشَونى  {2:150}
ان سے [یعنی انکے اعتراضوں سے] مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو
so fear them not, but fear Me




8) "انابت و رجوع" کے عبادت ہونے کی دلیل:

وَأَنيبوا إِلىٰ رَبِّكُم وَأَسلِموا لَهُ {39:54}
اور رجوع ہو جاؤ اپنے رب کی طرف اور اسکی حکمبرداری کرو
And turn penitently Unto your Lord and submit Unto Him
مغفرت کی امید دلا کر یہاں سے توبہ کی طرف متوجہ فرمایا۔ یعنی گذشتہ غلطیوں پر نادم ہو کر اللہ کے بے پایاں جودوکرم سے شرما کر کفر و عصیان کی راہ چھوڑو، اور اس رب کریم کی طرف رجوع ہو کر اپنے کو بالکلیہ اسی کے سپرد کر دو۔ اس کے احکام کے سامنے نہایت عجز و اخلاص کے ساتھ گردن ڈالدو۔ اور خوب سمجھ لو کہ حقیقت میں نجات محض اسکے فضل سے ممکن ہے۔ ہمارا رجوع و انابت بھی بدون اس کے فضل و کرم کے میسر نہیں ہو سکتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کیا۔ جو کفار دشمنی میں لگے رہے تھے سمجھے کہ لاریب اس طرف اللہ ہے۔ یہ سمجھ کر اپنی غلطیوں پر پچتائے لیکن شرمندگی سے مسلمان نہ ہوئے کہ اب ہماری مسلمانی کیا قبول ہو گی۔ دشمنی کی، لڑائیاں لڑے اور کتنے خدا پرستوں کے خون کئے تب اللہ نے یہ فرمایا کہ ایسا گناہ کوئی نہیں جس کی توبہ اللہ قبول نہ کرے، ناامید مت ہو، توبہ کرو اور رجوع ہو، بخشے جاؤ گے مگر جب سر پر عذاب آیا یا موت نظر آنے لگی اس وقت کی توبہ قبول نہیں۔ نہ اس وقت کوئی مدد کو پہنچ سکتا ہے۔


9) "استعانت یعنی (غائبانہ حاجات میں) مدد مانگنا" کے عبادت ہونے کی دلیل:
إِيّاكَ نَعبُدُ وَإِيّاكَ نَستَعينُ {1:5} 
تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں [۵] 
Thee alone do we worship and of Thee alone do we seek help,  
اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی "ذات پاک" کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے، ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض "واسطہ رحمت الہٰی" اور "غیر مستقل" سمجھ کر استعانت "ظاہری" اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ہی سے استعانت ہے۔



عبادات مقاصد ہیں - یا ذرائع؟


 

تمہید:

آج مسلمانوں کی اکثریت جہاں زندگی کے دیگر معاملات میں افراط و تفریط کا شکار ہیں وہیں عبادات کے سلسلے میں بھی وہ اعتدال و توازن سے دور ہیں، ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ عبادات ہی کامل دین ہیں، جس نے نماز ادا کرلی، روزہ رکھ لیا اور مال دارہونے کی صورت میں زکوٰة ادا کردی اور حج کیا اس نے گویا مکمل دین پر عمل کرلیا؛ حالانکہ قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادات مقاصد بھی ہیں اور ذرائع بھی، کسی ایک چیز کے مقصداور ذریعہ ہونے کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے،بعض حیثیتوں سے ایک چیز مقصود ہوسکتی ہے اور وہی چیز بعض دوسری حیثیتوں سے ذریعہ بن سکتی ہے۔

عبادت کی تعریف:

عبادت کے لغوی معنی کسی کی تعظیم کی غرض سے تواضع و انکساری اختیار کرنا ہے اور یہ صرف اللہ کے لیے ہے، کبھی عبادت کو طاعت و فرماں برداری کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔(۱)

اصطلاحی معنی کئی ایک ہیں: (۱) خضوع کے آخری درجہ کو اللہ کے لیے اختیار کرنا، (۲) رب کی تعظیم کے لیے اپنے نفس کے خلاف کام کرنا، (۳) ایسا فعل جس سے صرف اللہ کی تعظیم ہوتی ہو، ہر اس امر کو بجالانا جس سے اللہ راضی ہوتا ہو۔(۲)

عبادت کا مفہوم:

عبادت کا لفظ تین معانی پر مشتمل ہے: (۱) پرستش، (۲) غلامی، (۳) اطاعت، خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکرگزار ہو، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے عقیدت و محبت سے سر جھکائے، یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے۔ انسان خدا کا بندہ و غلام بن کر رہے، اس کے مقابلے میں خود مختارانہ رویہ نہ اختیار کرے اوراس کے سوا کسی اور کی غلامی قبول نہ کرے یہ عبادت کا دوسرا مفہوم ہے، انسان خدا کے حکم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپنا حکمراں بنے اوراس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے۔(۳)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

”یٰأیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمُ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ“(۴)

اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کروجس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (م: ۷۲۸ھ) سے ایک فعہ کسی شخص نے پوچھا کہ : ”یایہا الناس اعبدوا ربکم“ میں جس عبادت کا حکم دیاگیا ہے، اس کا کیا مفہوم ہے؟ آپ نے اس مسئلہ پر مفصل تقریر فرمائی جو رسالہ ”العبودیہ“ کی شکل میں موجود ہے، یہ رسالہ عبادات کی حقیقت و مقاصد پر روشنی ڈالتا ہے، اس کی ابتدا میں ابن تیمیہ نے لکھا ہے:

”عبادت ایک ایسا جامع لفظ ہے اس کے اندر وہ تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال داخل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور اس کی خوشنودی کا باعث ہیں مثلاً: نماز، روزہ، زکوٰة، حج، راست گوئی، امانت داری، اطاعت والدین،ایفائے عہد، امربالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد فی سبیل اللہ، پڑوسیوں، مسکینوں اور ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک، جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ، دعاء، ذکر الٰہی، تلاوت قرآن اوراس قسم کے تمام اعمال صالحہ عبادات کے اجزاء ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی محبت، رحمت خداوندی کی امیدوار اور عذاب الٰہی کا خوف، خشیت، انابت، اخلاص، صبر و شکر، توکل اور تسلیم و رضا وغیرہ ساری اچھی صفات عبادات میں شامل ہیں۔“(۵)

دین میں عبادات کا مقام:

دین میں عبادات کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہیں، عبادات کے بغیر دین کو صحیح صورت پہ باقی رکھنا ممکن نہیں، اگرچہ دین کے تمام احکام کی تعمیل لوجہ اللہ عبادت ہے مگر عام طور پر مشہور عبادتیں: نماز، روزہ، زکوٰة اور حج کے اندر جو ملأ اعلیٰ سے ربط اور مناسبت پیدا کرنے کی تاثیر اور انسان کے روحانی اور ملکوتی پہلو کی ترقی اور تکمیل کی خاصیت ہے وہ کسی دوسرے عمل میں نہیں، ان کو عبادات میں وہی مقام حاصل ہے جو اعضاء جسم میں قلب و دماغ کو ہے اسی بنا پر ان کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور ان پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”بني الاسلام علی خمس شہادة أن لا الٰہ الا للّٰہ وان محمدًا عبدہ ورسولہ واقام الصلاة، وایتاء الزکاة والحج والصوم“(۶)

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰة اداکرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ یہ بنیادی عبادات ہیں؛ لیکن ان کا دائرہ محدود نہیں ہے؛ بلکہ بے حد وسیع ہے، انسان کے لیے ضروری ہے کہ اہم عبادات کے ذریعے اپنی ساری زندگی کو کامیاب بنائے اور پھر اصل مقصود جو رضاء الٰہی ہے وہ حاصل کرے، بقول آزاد قرآن کہتا ہے: ”اصل دین خدا پرستی اور نیک عمل ہے۔“(۷)

اسلام میں عبادات کا ایک رخ داخلی و قلبی ہے اور دوسرا خارجی و جسمانی و مجلسی۔ ان دونوں رخوں کے بارے میں قرآن وحدیث اور کتب فقہ میں مفصل احکام موجود ہیں۔ اسلام میں عبادات صرف وہی نہیں جو خدا سے مناجات و مکالمے کا روپ دھارتی ہے؛ بلکہ وہ بھی ہے جو اندر کی طہارت کے ذریعے خارجی اجتماعی افعال واعمال انسانی کے بارے میں بھی صدق و اخلاص، حسن نیت اورحسن عمل کے اوصاف پیدا کرتی ہے، داخلی عبادات کے بغیر عبادت کے ظاہری رخ ناقص رہتے ہیں۔ شریعت کے ظاہری اعمال بھی اسی لیے ہیں کہ یہ مقصد حاصل ہو۔ پس ہمیں پوری زندگی کو عبادت کے سانچے میں ڈالنا چاہیے، جس کی صورت یہ ہے کہ ہم اپنے تمام ظاہری اور باطنی اعمال و اقوال جو اللہ کو پسند ہیں، اس کی خوشنودی کا ذریعہ ہیں انھیں پورے خلوص و دیانت داری کے ساتھ اداکریں۔

عبادت کا ناقص تصور:

آج ہمارے یہاں عبادت کا حلیہ بگڑا ہواہے،اس کا سب سے زیادہ نمایاں مظہر یہ ہے کہ ہم نے عبادات کو صرف چند اعمال اور مراسم عبودیت کے ساتھ خاص کرلیا ہے اور یہ سمجھ لیا کہ بس ان کی ادائیگی پر عبادت منحصر ہے، بقیہ زندگی اس سے بالکل خالی ہے، نماز کو ہم عبادت سمجھتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں، روزہ عبادت ہے، زکوة عبادت ہے، حج عبادت ہے۔ بلا شبہ یہ سب عبادات ہیں، لیکن جب دین کو ان میں منحصر کرلیا جائے اور یہ تصور قائم کرلیا جائے کہ بس ان کو بجالانے سے ہم حق عبودیت سے عہدہ برآ ہوگئے یہ بالکل غلط تصور ہوگا، چونکہ بقول ڈاکٹر اسرار احمد ”اگر ان عبادات کے متعلق یہ سمجھ لیا جائے کہ بس ان کو ادا کرنے سے عبادت کا حق ادا ہوگیا، تو تصور دین محدود ہی نہیں؛ بلکہ مسخ ہوجائے گا“(۸)

عبادت پوری زندگی میں خدا کے سامنے بچھ جانے کانام ہے؛ زندگی کے ہر معاملے اورہر گوشے کو اللہ کے حکم کا مطیع بنادینا اور اپنی آزادی، اپنی خود مختاری، اپنی پسند اور ناپسند کو اللہ کی مرضی کے تابع بنادینا اسی رویہ اور طرز عمل پر کاربند ہونا، زندگی کے تمام افعال و اعمال میں سر تسلیم خم کرنا ہی عبادت ہے۔

عبادات مقصود بالذات ہیں:

ارکان اربعہ: نماز، روزہ، زکوٰة و حج کے فرض اور مقصود بالذات ہونے کے دلائل اتنے واضح اور قطعی ہیں کہ تمام علمائے امت اس بات پر متفق ہیں، مفسرین و محدثین، ائمہ فقہ اور دیگر معتمد علیہ علمائے دین میں سے کسی نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔ علمائے امت کا یہ اجماع عبادات کے مقصود بالذات ہونے کی ایک بڑی دلیل ہے۔ اس سلسلے میں سطور ذیل میں قرآن کریم اور احادیث رسول سے چند نصوص کو پیش کیا جارہا ہے۔

جن و انس کی تخلیق کا مقصد:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ والانسَ الاَّ لِیَعْبُدُوْن“(۹)

جب خالق نے خود ہی بتادیا کہ مقصد تخلیق صرف اس کی عبادت ہے، تو عبادات کے مقصود بالذات ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا، آیت مذکورہ میں لفظ عبادت اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے، یعنی رب کی بندگی اوراس کی اطاعت و فرماں برداری؛ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پرستش لفظ عبادت کا اولین اوراس کے معانی میں سب سے نمایاں معنی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ فقہی اصطلاح میں جن چیزوں کو عبادات کہا جاتاہے انھیں ادا کرنا مقصد تخلیق کی تکمیل کا اولین مرحلہ ہے انھیں ادا کیئے بغیر مقصد زندگی کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، انسان اللہ کے سوا کسی اور کے احکام کی اطاعت و فرماں برداری کے لیے نہیں پیدا کیاگیا،اس کا کام کسی اور کے آگے جھکنا، اس کے احکام بجالانا، کسی اور کے بنائے ہوئے دین کی پیروی کرنا، کسی دوسرے کو اپنی قسمت کا بنانے والا یا بگاڑنے والا سمجھنا، اسی طرح دوسروں سے مرادیں طلب کرنا نہیں ہے۔

وہ صرف اللہ کی پرستش کرے، صرف اسی کی اطاعت و فرماں برداری کرے اس کے بھیجے ہوئے دین کی پیروی کرے، یہی اس کے تخلیق کا مقصد ہے۔

اسی طرح ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

”وَمَا جَعَلْنَا عَلَی الأرضِ زِیْنَةً لَّہَا لِنَبْلُوَکُمْ أیُّکُمْ أحْسنُ عملاً“(۱۰)

ایک دوسری آیت میں ہے:

”اَلَّذي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أیُّکُمْ أحْسَنُ عَمَلاً“(۱۱)

ان دونوں آیتوں میں زمین کی نعمتوں اور موت و حیات کی تخلیق کا مقصد یہ بتایاگیا ہے کہ انسانوں کی آزمائش کی جائے، حسن عمل یا عمل صالح مقصد تخلیق کی دوسری تعبیر ہے جو ”عبادت“ سے مختلف اور متضاد نہیں، اب یہاں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اچھے اعمال کے وہ ستون کیا ہیں جس کے بغیر کسی کے اسلام کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اچھے اعمال کی بنیادیں کیا ہیں جن سے تمام دوسرے اعمال کی شاخیں پھوٹتی ہیں، کتاب و سنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے اعمال کے ستون نماز، روزہ، زکوٰة اور حج ہیں۔ انھیں چاروں پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہوئی ہے مقصد تخلیق کی اس تعبیر سے بھی معلوم ہوا کہ عبادات مقصود بالذات ہیں؛ کیوں کہ ان کے بغیر کوئی بھی شخص امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

بعض روایات میں ہے کہ : ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! اچھے اعمال والے لوگ کون ہیں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”أحسنکم عقلاً، وأورعکم عن محارم اللّٰہ وأسرعکم في طاعتہ“(۱۲) جس کی سمجھ سب سے اچھی ہو، جو حرام سے سب سے زیادہ پرہیز کرے اور خدا کی فرماں برداری کی طرف لپکنے میں سب سے زیادہ جلدی دکھائے۔

قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں اقامت صلاة اور ایتاء زکاة یا انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کیاگیا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اوراس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:

”ایمان محض کسی تصور کانام نہیں ہے؛ بلکہ اس کی اصل حقیقت وہ تصدیق ہے جو دل کی گہرائیوں میں اترتی ہوئی ہوتی ہے اور جو آدمی کے ارادے کوحرکت میں لاتی ہے یہ ارادہ آدمی کو بہت سے کاموں کے کرنے اور بہت سی چیزوں کے چھوڑنے پر آمادہ کرتا ہے یہاں کرنے کے کاموں میں سے صرف دو ہی کا ذکر کیاگیا ہے، ایک نماز قائم کرنے کا دوسرے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا،اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں کام تمام نیکیوں کی جڑ اور تمام بھلائیوں کی بنیادہیں۔“(۱۳)

صرف نماز کے تدبر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کی بنیادی نیکیوں کی حیثیت نماز اور زکوٰة کو حاصل ہے، دوسری نیکیاں انھی دو بڑی نیکیوں کے تحت ہیں؛ بلکہ انھیں سے پیدا ہوتی ہیں؛ چنانچہ قرآن کے بے شمار مقامات میں ان دونوں کا ذکر اس طرح آیا ہے کہ ان کا ذکر آگیا تو گویا سب کاذکر آگیا مثلاً : ”فانْ تَابُوْا واقامُوا الصَّلاةَ وآتوا الزکوٰة فاخْوَانُکُمْ فِي الدِّدیْنِ“(۱۴)

(اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں تو تمہارے دینی بھائی بن گئے)

حضرت اسماعیل کی تعریف میں فرمایا گیا: ”کانَ یَأْمُرُ أہْلہ بِالصَّلاَةِ والزَّکاَةِ وکانَ أمرُہ عِنْدَ رَبِّہ مَرْضِیًا“(۱۵) (اور وہ اپنے کنبہ کو نماز اور زکوٰة کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھا)۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی منقول ہے: ”وَاَوْصِیْنِيْ بِالصَّلاَةِ والزَّکاَةِ مَادُمْتُ حیًا“(۱۶) (اور اسی نے مجھے نماز اور زکوة کی ہدایت کی جب تک میں زندہ رہوں) (۱۷)

مذکورہ بالا آیات میں اگرچہ نماز اور زکوة کا ذکر ہے؛ لیکن ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ صرف یہی دو چیزیں مراد نہیں ہیں؛ بلکہ دوسری نیکیاں بھی مراد ہیں؛ لیکن ان ساری نیکیوں کی جڑیں دونوں چیزیں ہیں تو جب ان کا ذکر آگیا تو شاخوں کاذکر خود بخود ہوگیا، ان دونوں چیزوں کی حقیقت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ فی الواقع دین میں ان کی حیثیت بھی یہی ہونی چاہئے، ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ کا ٹھیک بندہ بننے کے لیے آخر کس چیز کی ضرورت ہے اسی کی کہ ایک طرف وہ اپنے رب سے ٹھیک ٹھیک جڑجائے اور دوسری طرف خلق سے اس کا تعلق صحیح طور پر ہوجائے نماز انسان کو خدا سے صحیح طور پر جوڑدیتی ہے اور زکاة سے انسان کے ساتھ اس کا تعلق صحیح بنیاد پر قائم ہوجاتا ہے، ایک شخص اگر اپنے رب کے حقوق کو ادا کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کی مخلوق کے حقوق کو بھی بجالاتا ہے تو وہ تمام نیکیوں کی کلید پاگیا۔ انہی دو کی مدد سے وہ دوسری نیکیوں کے دروازے بھی کھول لے گا۔

ظاہر ہے کہ جن چیزوں پر پورے دین و شریعت کا دارومدار ہو، ان کا مقصود بالذات ہونا ایک ایسی بات ہے جس میں شک و ریب کی یکسر گنجائش نہیں۔

سورہ توبہ کی آیت نمبر ۵ میں بیان کیاگیا ہے: ”فان تَابُوْا وأقَامُوْا الصَّلوٰةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ“ (پھر اگر وہ توبہ کریں اور قائم رکھیں نماز اور دیا کریں زکوٰة تو انھیں چھوڑ دو) (شیخ الہند)

اس آیت کے تحت مولانا مودودی نے لکھا ہے:

”یعنی کفر و شرک سے محض توبہ کرلینے پر معاملہ ختم نہ ہوگا؛ بلکہ انھیں عملاً نماز قائم کرنی اور زکوٰة دینی ہوگی،اس کے بغیر یہ نہیں مانا جائیگا کہ انھوں نے کفر چھوڑ کر اسلام اختیار کرلیا ہے، اسی آیت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فتنہٴ ارتداد کے زمانے میں استدلال کیا، نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے فتنہ برپا کیا تھا انہی میں سے ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم منکرین اسلام نہیں ہیں، نماز پڑھنے کے لیے تیار ہیں؛ مگر زکوٰة نہیں دیں گے، صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بالعموم پریشانی لاحق تھی کہ آخر ایسے لوگوں کے خلاف تلوار کیسے اٹھائی جائے؛ مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کا حوالہ دے کر ان سے جہاد کیا۔“(۱۸)

اسی سورہ کی آیت نمبر ۱۱ میں پھر فرمایا: ”فانْ تَابُوْا وأقَامُو الصَّلوٰة وآتوا الزکوٰة فاخوانُکُمْ في الدین“

(ترجمہ: سو اگر وہ توبہ کرلیں اور قائم رکھیں نماز اور دیتے رہیں زکوٰة تو تمہارے بھائی ہیں حکم شریعت میں) (شیخ الہند)

ظاہر ہے کہ جن چیزوں کو دین میں یہ مقام حاصل ہو وہ خود مقصود نہ ہوں؛ بلکہ محض ذریعہ ہوں یہ کیسے ممکن ہے ۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اس کی رضا کا حصول مومن کا آخری مقصود ہے یہ گوہر مقصود نماز میں مل جاتا ہے، قرآن میں ہے: ”وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ“(۱۹) (اور سجدہ کرو اور نزدیک ہو) یعنی جہاں چاہو شوق سے عبادت کرو اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر بیش از بیش قربت حاصل کرو، حدیث میں آیا ہے کہ ”بندہ سب حالتوں سے زیادہ سجدہ میں اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتا ہے۔ (مسلم)

اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز اور سجدئہ نماز بذات خود قرب الٰہی ہے، نماز میں کھڑے ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں پہنچ گئے اس کے آگے سجدہ ریز ہوئے اور اس سے قریب تر ہوگئے نماز کے مقصود بالذات ہونے کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوگی؟ نماز ایمان سے اس قدر قریب ہے اور اس کی اتنی بڑی علامت ہے کہ سورة البقرة آیت ۱۴۳ میں نماز کے لیے ایمان کا لفظ استعمال کیاگیا ہے: ”مَاکَانَ اللّٰہُ لیُضِیْعَ اِیمانکم“(۲۰) (اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کرے تمہارا ایمان) یہاں ایمان سے مراد وہ نمازیں ہیں جو تحویل قبلہ سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی تھیں، بعض مسلمانوں کو شبہ ہوا کہ بیت المقدس جب قبلہٴ اصلی نہ تھا تو جو مسلمان اسی حالت میں مرگئے ان کے ثواب میں نقصان رہا، باقی زندہ رہنے والے تو آئندہ کو مکافات اوراس کا تدارک کرلیں گے اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی کہ جب تم نے بیت المقدس کی طرف نماز مقتضاء ایمانی اور اطاعتِ حکم خداوندی کے سبب پڑھی تو تمہارے اجر و ثواب میں کسی طرح کا نقصان نہ ڈالا جائے گا۔(۲۱)

عبادات ذرائع بھی ہیں:

عبادات مقصود بالذات ہونے کے ساتھ اصلاح و تربیت کے بہترین ذرائع بھی ہیں۔ قرآن کریم میں عبادات کے جو اغراض ومقاصد بیان کیے گئے ہیں اور ان کے بارے میں بعض دوسرے جو احکام دئیے گئے ہیں وہ اس بات کے واضح دلائل ہیں۔

نماز اور صبر مدد کاذریعہ :

سورة البقرة میں دو بار نماز اور صبر کے ذریعہ مدد چاہنے کا حکم دیاگیا ہے ۔ ایک بار بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاگیا: ”وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰةِ“(۲۲) (صبر اور نماز کے ذریعہ مدد لو)

دوسری بار مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ”یٰأیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰةِ“(۲۳) (اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)

کسی چیز سے مدد کسی خاص مقصد کے لیے حاصل کی جاتی ہے اسی طرح جس چیز سے مدد لی جاتی ہے وہ خاص مقصد کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے، وہ خاص مقصد کیا ہے جس کے لیے صبر اور نماز سے مدد لینے کا حکم دیاگیا ہے؟

 علامہ شبیر احمدعثمانی فرماتے ہیں:

”علمائے اہل کتاب جو وضوح حق کے بعد بھی آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان نہ لائے تھے اس کی بڑی وجہ حب جاہ اور حب مال تھی اللہ تعالیٰ نے دونوں کا علاج بتادیا، صبر سے مال کی محبت اور طلب جائے گی اور نماز سے عبودیت اور تذلل آئے گا“(۲۴)

مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی آیت نمبر ۴۵ اور آیت ۵۳ کی بہت مفصل اور ایمان افروز تشریح کی ہے، پہلے اجمالاً انھوں نے یہ لکھا ہے:

”اوپر عہد الٰہی کو استوار کرنے کے لیے بنی اسرائیل کو جن باتوں کا حکم دیا ہے جن جن چیزوں سے روکا ہے ان کا اختیار کرنا یا ان سے بچنا نفس کیلئے نہایت شاق ہے اس وجہ سے وہ نسخہ بھی بتادیا جو اس مشکل کو آسان بناسکتا ہے۔ یہ نسخہ صبر اور نماز دو چیزوں پر مشتمل ہے ان دو چیزوں کے اختیار کرنے سے نفس کے لئے یہ چڑھائی آسان ہوجاتی ہے صبر کا تعلق اخلاق و کردار سے ہے اور نماز کا تعلق عبادات سے، انسان اگر مشکلات و موانع کے علی الرغم کسی صحیح موقف پر ڈٹے رہنے کی خصلت انسان میں آسانی سے پیدا نہیں ہوتی؛ بلکہ ریاضت سے پیدا ہوتی ہے جس کا طریقہ نماز ہے آدمی اگر صحیح راہ پر چلنے کا عزم کرلے اور اس پر چل کھڑا ہو اور ساتھ ہی برابر اپنے رب کو یاد رکھے اوراس سے مدد مانگتا رہے (جس کی بہترین شکل نماز ہے) تو اس کے عزم کی قوت ہزار گنی بڑھ جاتی ہے کوئی مشکل سے مشکل حالت بھی اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا ہونے نہیں دیتی،اگرحالات کی نزاکت سے آدمی کے پاؤں لڑکھڑانے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اس کا وہ تعلق جو نماز سے پیدا ہوتا ہے اس کو گرنے سے بچالیتا ہے۔“(۲۵)

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہاں صبر کا جوحکم دیا ہے وہ اس لیے دیا ہے کہ اس وصف کو پیدا کیئے بغیر کوئی قوم اللہ کے عہد پر قائم نہیں رہ سکتی اور نماز کا حکم اس لیے دیا ہے کہ یہی چیز صبر کے پیدا کرنے اس کو ترقی دینے اور اس کو درجہٴ کمال تک پہنچانے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے۔

سورة البقرة آیت ۱۵۳ کے تحت لکھتے ہیں:

”مشکلات و مصائب میں جس نماز کا سہارا حاصل کرنے کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد ان پانچ وقتوں کی نمازیں ہی نہیں؛ بلکہ تہجد اور نفل نمازیں بھی ہیں؛ اس لیے کہ یہی نمازیں مومن کے اندر وہ روح اور زندگی پیدا کرتی ہیں جو راہِ حق میں پیش آنے والی مشکلات پر فتح یاب ہوتی ہیں، انہی کی مدد سے وہ مضبوط تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے جو کسی سخت آزمائش میں بھی شکست نہیں کھاتا اور انہی سے وہ مقام قرب حاصل ہوتا ہے جو خدا کی معیت کا ضامن ہے جس کا اس آیت میں صابرین کے لیے وعدہ فرمایاگیا ہے۔(۲۶)

          نماز سے استعانت دراصل اللہ سے استعانت ہے وہ پوری کائنات اور تمام ہنگامہٴ ہست و بود کا معبود و مقصود بھی ہے اور تمام ذرائع و وسائل کا سرچشمہ بھی اس کی مدد کامیابیوں اور کامرانیوں کے حصول کا اصل ذریعہ اور وسیلہ ہے، اس کی مدد کے بغیر اس کے حضور ایک سجدہ بھی ادا نہیں کیاجاسکتا۔ ”ایَّاکَ نَعْبُدُ وایَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“(۲۷) (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) آیت کریمہ اس حقیقت کی گواہ ہے۔

نماز یادِ الٰہی کا ذریعہ:

عبادتِ رب اور اطاعتِ خالق میں سب سے بڑی رکاوٹ جوانسان کی راہ میں پیش آتی ہے وہ ہے غفلت اس سے نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نماز پنجگانہ فرض کیا تاکہ وہ ہروقت اللہ کے حضور میں کھڑے ہوکر اپنے عہد و میثاق کی تجدید کرتا رہے، نماز ہی کے بارے میں سورہ طہٰ آیت ۱۴ میں فرمایا گیا: ”وأقِمِ الصَّلوٰةَ لِذِکْرِيْ“(۲۸) (اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر) اس آیت سے معلوم ہوا اللہ کی یاد کا بہترین ذریعہ نماز ہے، قرآن کریم میں ان کے علاوہ اور آیتیں بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو راہِ حق پر قائم رکھنے اور اس کی زندگی کو سدھارنے اور سنوارنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔

روزہ حصولِ تقویٰ کا ذریعہ:

تقویٰ اللہ کے خاص بندوں کی ایک عظیم صفت ہے جو اللہ کو بہت ہی محبوب ہے پسندیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کی اہمیت کو بتلایا ہے اوراس کو اختیار کرنے کا حکم دیاہے، تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ دراصل نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خداترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہرپہلو میں ظہور کرتی ہے حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو عبدیت کا شعور ہو، وہ انسانی زندگی میں بھی صریح ممنوعات تو درکنار مشتبہ امور سے بھی اپنے آپ کو بچائے رکھے۔

ظاہر ہے کہ اتنی پسندیدہ چیز بغیر نفس کشی اور مجاہدہ کے حاصل نہیں ہوسکتی؛ اس لیے اللہ تعالیٰ نے بندوں پر رمضان کا روزہ فرض کیا؛ تاکہ وہ نفس کو رذائل سے پاک کرکے تقویٰ سے متصف ہوجائے اور اپنی آئندہ کی زندگی کو اسی روشنی میں گزارے۔ قرآن کریم میں روزہ کی فرضیت کا حکم دینے کے بعداس کی حکمت بھی واضح کی گئی ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ“ (تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حصولِ تقویٰ کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد ترجمان القرآن میں رقم طراز ہیں:

”روزے کے حکم سے یہ مقصود نہیں ہے کہ انسان کا فاقہ کرنا اور اپنے جسم کو تکلیف اور مشقت میں ڈالنا کوئی ایسی بات ہے جس میں پاکی و نیکی ہے؛ بلکہ تمام تر مقصود نفس انسانی کی اصلاح و تہذیب ہے ۔ روزہ رکھنے سے تم میں پرہیزگاری کی قوت پیدا ہوگی اور نفسانی خواہشوں کو قابو میں رکھنے کا سبق سیکھ لوگے۔“(۲۹)

زکوٰة ذریعہٴ تزکیہ:

اللہ کی یاد اور اس کے احکام کی اطاعت میں جو سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی راہ میں پیش آتی ہے وہ مال کی محبت ہے یہ چیز انسان کے پیر کی بیڑی بن جاتی ہے، حبِّ دنیا کا سب سے بڑا مظہر مال ہے؛ اس لیے کہ مال ہی کے ذریعے انسان ظاہری شہرت حاصل کرتا ہے اور نفس جو بے راہ روی کی طرف لپکنے والا ہے مال ہی کے افراط سے بے اعتدالی کا شکار ہوتا ہے، اس کو حد اعتدال میں رہنے کے لیے اورمال کی محبت کو دل سے کھرچنے اور پاکیزہ بننے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰة فرض کیا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ”خُذْ مِنْ أمْوَالِہِمْ صَدَقَةً تُطَہِّرُہُمْ وتُزَکِّیْہِمْ بِہَا“(۳۰) (تم ان کے مالوں کا صدقہ قبول کرو اس سے تم ان کو پاکیزہ بناؤگے اور ان کا تزکیہ کیا کروگے)

حج ذکر و شکر اور تقویٰ کا ذریعہ:

حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، اس کی ادائیگی میں مالی صرفہ بھی ہے اور جانی مشقت بھی، اس میں نفس کے تقاضوں کو ضبط میں رکھنے کی بھی مشقتیں ہیں؛ چنانچہ حج انتہائی جامع عبادت ہے اور اس میں تمام طاعات شامل ہوتی ہیں، سورة البقرة آیت ۱۹۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی طرح حج بھی تقویٰ کے حصول، اللہ تعالیٰ کی شکرگذاری اوراس کے ذکر کی مشق کا ذریعہ ہے، حالتِ احرام میں خصوصیت کے ساتھ ہر قسم کی شہوانی گفتگو ہر طرح کی بدکاری و بے راہ روی اور ہر قسم کے جھگڑے لڑائی کی ممانعت، نیز تقویٰ کو بہترین زادِ راہ قرار دینے اور آیت ”فَاتَّقُوْنِ یٰاُولي الألْبَابِ“(۳۱) (اے ہوشمندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو) پر ختم کرنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ فریضہٴ حج میں حصولِ تقویٰ کا پہلو غالب ہے، اسی طرح حج میں شعائر اللہ کی تعظیم کے احکام دئیے گئے ہیں اوراس کی تعظیم و احترام کو تقویٰ القلوب (دلوں کا تقویٰ) قرار دیاگیا ہے، قربانی کا حکم دیاگیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا کہ اللہ تک گوشت اور خون نہیں پہنچتا؛ بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ حج مجموعی حیثیت سے تقویٰ اور ذکر الٰہی کاذریعہ ہے۔

ارکان اربعہ کے بعد یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں باریابی و تقرب کے لیے عبادات و طاعات، اذکار و ادعیہ اور تمام نیکیوں کو وسیلہ قرار دیا ہے۔ سورة المائدة آیت ۳۵ میں بیان فرمایا ہے:

”یٰأیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَابْتَغُوا الَیْہِ الْوَسِیْلَةَ وَجَاہِدُوْا فِي سَبِیْلِہ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ“(۳۲) (اے ایمان والو! ڈرتے رہو اللہ سے اور ڈھونڈو اس تک وسیلہ اور جہاد کرواس کی راہ میں تاکہ تمہارا بھلا ہو) (ترجمہ شیخ الہند)

وسیلہ کی تفسیر ابن عباس، مجاہد، ابووائل، حسن وغیرہم اکابر سلف نے قربت سے کی ہے تو وسیلہ ڈھونڈنے کے یہ معنی ہوں گے کہ اس کا قرب ووصول تلاش کرو، قتادہ نے کہا: ”اَيْ تقرّبُوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ“ خدا کی نزدیکی حاصل کرو اس کی فرماں برداری اور پسندیدہ عمل کے ذریعہ سے۔(۳۳)

اس سے معلوم ہوا کہ تمام عبادتیں، طاعتیں، نیکیاں، اذکار و دعائیں رضائے الٰہی کے حصول اور اس کی بارگاہ میں تقرب کے ذرائع ہیں، عبادات کا بذاتِ خود مقصود ہونا اور ساتھ ہی کسی دوسری چیز کے لیے ان کا ذریعہ ہونا باہم اسی طرح پیوستہ ہے کہ ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیاجاسکتا ہے۔

اسلامی عبادات، انفرادی اصلاح و تربیت کے ذرائع بھی ہیں اور ان سے اجتماعی تربیت بھی حاصل ہوتی ہے، ان عبادات کو ادا کرنے میں شریعت نے اجتماعیت پیدا کرکے ان کو ہمہ جہتی ذریعہٴ اصلاح بنادیا ہے اب ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ عبادات سے جو مقاصد ہیں وہ ہمیں حاصل ہورہے ہیں یا نہیں مثلاً نماز کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے: ”انَّ الصَّلوٰةَ تَنْہیٰ عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالمُنْکَرِ“(۳۴) (بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بری بات سے) (ترجمہ شیخ الہند)

اس آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ: ”نماز کا برائیوں سے روکنا دو معنی میں ہوسکتا ہے، ایک بطریق تسبب (ذریعہ) یعنی نماز میں اللہ تعالیٰ نے وہ خاصیت و تاثیر رکھی ہے جو نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے۔ جیسے دوا کا استعمال کرنا بخار وغیرہ امراض کو دور کرتا ہے، اس صورت میں یاد رکھنا چاہیے کہ دوا کے لیے ضروری نہیں کہ اس کی ایک ہی خوراک بیماری کو روکنے کے لیے کافی ہوجائے، بعض دوائیں خاص مقدار میں مدت تک التزام کے ساتھ کھائی جاتی ہیں اس وقت اس کا نمایاں اثر ظاہر ہوتا ہے بشرطیکہ مریض کسی ایسی چیز کا استعمال نہ کرے جو اس دواء کی خاصیت کے منافی ہو پس نماز بھی بلاشبہ بڑی قوی التاثیر دوا ہے جو روحانی بیماریوں کو روکنے میں اکسیر کا حکم رکھتی ہے“(۳۵)

نماز کے علاوہ بھی جو دیگر عبادات ہیں اور ان کے جو مقاصد اوپر بیان کیے گئے ان کے بارے میں ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ان کے جو مقاصد ہیں وہ ہمیں حاصل ہورہے ہیں - یا نہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔

                                                                                                                                          $$$

ماخذ و حوالہ جات

(۱)     الموسوعة الفقہیہ: وزارة الاوقاف والشئون الاسلامیہ ، الکویت، ص․ ب․ ۱۳، ص:۲۵۶، ج:۲۹۔

(۲)    حوالہ بالا، ص: ۲۵۷۔

(۳)    مودودی: سید ابوالاعلیٰ، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی، بارسوم: ۲۶۴/۲۔

(۴)    سورة البقرة: ۲۱۔

(۵)    ابن تیمیہ (م: ۷۲۸ھ) العبودیة، المطبعة الحسینیہ المصریة ۲۳۳۲ھ۔

(۶)    بخاری و مسلم: کتاب الایمان حدیث نمبر :

(۷)    آزاد: ابوالکلام ، ترجمان القرآن: ساہتیہ اکادمی ۱۳۳/۲۔

(۸)    ڈاکٹر اسرار احمد : مطالبات دین، مکتبہ تنظیم اسلامی ۳۶/ کے ماڈل ٹاؤن لاہور، ص: ۲۹۔

(۹)    ذاریات : ۵۶۔

(۱۰)   الکہف : ۷۔

(۱۱)    الملک : ۳۔

(۱۲)   قرطبی: الجامع لاحکام القرآن: الہیئة المصریة العامة للکتاب: ۲۰۷/۱۸۔

(۱۳)   اصلاحی: امین احسن ، تدبر قرآن، لاہور : ۵۰/۱۔

(۱۴)   توبہ: ۱۱۔

(۱۵)   مریم : ۵۵۔

(۱۶)   مریم : ۳۱۔

(۱۷)  شیخ الہند

(۱۸)   مودودی: سید ابوالاعلیٰ ، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی: ۱۷۷/ ۱ ملخصاً۔

(۱۹)   العلق : ۱۹۔

(۲۰)  البقرة : ۱۴۳۔

(۲۱)   عثمانی: علامہ شبیر احمد : ترجمہ شیخ الہند، ص: ۲۸۔

(۲۲)  بقرة : ۴۵ ۔

(۲۳)  بقرة : ۱۵۳۔

(۲۴)  عثمانی : علامہ شبیر احمد ۔ ترجمہ شیخ الہند، ص: ۱۰۔

(۲۵)  اصلاحی : امین احسن ، تدبر قرآن، لاہور: ۱۴۵/۱۔

(۲۶)  بحوالہ بالا: ۳۳۵/۱۔

(۲۷)  فاتحہ : ۵۔

(۲۸)  طہٰ : ۱۴

(۲۹)  آزاد،ابوالکلام، ترجمان القرآن: ساہتیہ اکاڈمی : ۱۳۹/۲۔

(۳۰)  توبہ: ۱۰۳۔

(۳۱)   حج : ۱۹۷۔

(۳۲)  مائدة : ۳۵۔

(۳۳)  عثمانی: شبیر احمد ، شیخ الہند، قرطبی: الجامع للاحکام القرآن: ۱۵۹/۶۔

(۳۴)  عنکبوت : ۴۵۔

(۳۵)  عثمانی: شبیر احمد، شیخ الہند، آیت: ۴۵ کے تحت۔

$ $ $

______________________________