دجال کے معنیٰ ہیں حقیقت کو چھپانے والا، سب سے بڑا دھوکے باز اور چالباز۔
" إِنَّ قَبْلَ خُرُوجِ الدجال ثَلَاثُ سَنَوَاتٍ شِدَادٍ، يُصِيبُ النَّاسَ فِيهَا جُوعٌ شَدِيدٌ، يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الْأُولَى أَنْ تَحْبِسَ ثُلُثَ مَطَرِهَا، وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا , ثُمَّ يَأْمُرُ السَّمَاءَ فِي الثَّانِيَةِ فَتَحْبِسُ ثُلُثَيْ مَطَرِهَا , وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ ثُلُثَيْ نَبَاتِهَا ,
ثُمَّ يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الثَّالِثَةِ فَتَحْبِسُ مَطَرَهَا كُلَّهُ فلَا تُقْطِرُ قَطْرَةً، وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ نَبَاتَهَا كُلَّهُ فلَا تُنْبِتُ خَضْرَاءَ، فلَا تَبْقَى ذَاتُ ظِلْفٍ (¬1) إلَّا هَلَكَتْ إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ , قِيلَ: فَمَا يُعِيشُ النَّاسُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ؟ , قَالَ: " التَّهْلِيلُ وَالتَّكْبِيرُ وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّحْمِيدُ , وَيُجْرَى ذَلِكَ عَلَيْهِمْ مَجْرَى الطَّعَامِ " (¬2)
¬_________
(¬1) الظِّلف: الظُّفُر المشقوق للبقرة والشاة والظبي ونحوها.
(¬2) (جة) 4077 , انظر صَحِيح الْجَامِع: 7875 , وصححه الألباني في كتاب: قصة المسيح الدجال ص41
[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص113]
ترجمہ:
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بے شک دجال کے نکلنے سے پہلے تین سخت سال ہوں گے، جن میں لوگوں کو سخت بھوک لگے گی۔ اللہ تعالیٰ پہلے سال آسمان کو حکم دے گا کہ وہ اپنی بارش کا تہائی حصہ روک لے، اور زمین کو حکم دے گا کہ وہ اپنی اُگاوٹ کا تہائی حصہ روک لے۔ پھر دوسرے سال آسمان کو حکم دے گا کہ وہ اپنی بارش کا دو تہائی حصہ روک لے، اور زمین کو حکم دے گا کہ وہ اپنی اُگاوٹ کا دو تہائی حصہ روک لے۔ پھر تیسرے سال اللہ تعالیٰ آسمان کو حکم دے گا کہ وہ اپنی ساری بارش روک لے تو وہ ایک قطرہ بھی نہ برسائے، اور زمین کو حکم دے گا کہ وہ اپنی ساری اُگاوٹ روک لے تو وہ کوئی ہریالی نہ اُگائے۔ پس ہر کھری والا جانور (1) مر جائے گا سوائے اس کے جسے اللہ چاہے۔ پوچھا گیا: اس زمانے میں لوگ کس چیز پر زندہ رہیں گے؟ آپ نے فرمایا: 'لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، سبحان اللہ، الحمد للہ کہنا، اور یہ (ذکر و تسبیح) ان کے لیے کھانے کا کام دے گی (یعنی انہیں روحانی طاقت بخشے گی اور صبر کی توفیق ہوگی)۔'"
---
(1) ذات ظلف سے مراد وہ جانور ہیں جن کے کھر پھٹے ہوئے ہوتے ہیں جیسے گائے، بکری، ہرن وغیرہ۔
(2) یہ حدیث ابن ماجہ (4077) میں ہے، نیز دیکھیے صحیح الجامع (7875)، اور امام البانی نے "قصۃ المسیح الدجال" (ص41) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ - رضي الله عنهما - قَالَ:
(كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - , " فَذَكَرَ الْفِتَنَ فَأَكْثَرَ فِي ذِكْرِهَا حَتَّى ذَكَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ (¬1) " فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ؟) (¬2) (قَالَ: " هِيَ فِتْنَةُ هَرَبٍ (¬3) وَحَرَبٍ (¬4)) (¬5) (ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ (¬6) دَخَنُهَا (¬7) مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي , يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي (¬8) وَلَيْسَ مِنِّي (¬9) وَإِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ , ثُمَّ يَصْطَلِحُ النَّاسُ (¬10) عَلَى رَجُلٍ كَوَرِكٍ عَلَى ضِلَعٍ (¬11) ثُمَّ فِتْنَةُ الدُّهَيْمَاءِ (¬12) لَا تَدَعُ (¬13) أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطَمَتْهُ لَطْمَةً (¬14) فَإِذَا قِيلَ انْقَضَتْ (¬15) تَمَادَتْ (¬16) يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا , حَتَّى يَصِيرَ النَّاسُ إِلَى فُسْطَاطَيْنِ (¬17) فُسْطَاطِ إِيمَانٍ لَا نِفَاقَ فِيهِ , وَفُسْطَاطِ نِفَاقٍ لَا إِيمَانَ فِيهِ فَإِذَا كَانَ ذَاكُمْ فَانْتَظِرُوا الدجال (¬18) مِنْ يَوْمِهِ أَوْ مِنْ غَدِهِ) (¬19) "
¬_________
(¬1) الْأَحْلَاس: جَمْع حِلْس وَهُوَ الْكِسَاء الَّذِي يَلِي ظَهْر الْبَعِير تَحْت الْقَتَب، وشَبَّهَهَا بِهِ لِلُزُومِهَا وَدَوَامهَا. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬2) (د) 4242
(¬3) أَيْ: يَفِرّ بَعْضهمْ مِنْ بَعْض لِمَا بَيْنهمْ مِنْ الْعَدَاوَة وَالْمُحَارَبَة. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬4) الْحَرَب بِالتَّحْرِيكِ: نَهْبُ مَال الْإِنْسَان وَتَرْكُه لَا شَيْء لَهُ , وَقَالَ الْخَطَّابِيُّ: الْحَرَب ذَهَاب الْمَال وَالْأَهْل. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬5) (حم) 6168 , انظر صحيح الجامع: 4194 , الصحيحة: 974
(¬6) الْمُرَاد بِالسَّرَّاءِ النَّعْمَاء الَّتِي تَسُرّ النَّاس مِنْ الصِّحَّة وَالرَّخَاء وَالْعَافِيَة مِنْ الْبَلَاء وَالْوَبَاء، وَأُضِيفَتْ إِلَى السَّرَّاء لِأَنَّ السَّبَب فِي وُقُوعهَا اِرْتِكَاب الْمَعَاصِي بِسَبَبِ كَثْرَة التَّنَعُّم. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬7) أَيْ: سَبَبُ ظُهُورِهَا وَإِثَارَتِهَا , شَبَّهَهَا بِالدُّخَانِ الْمُرْتَفِع، وَ (الدَّخَنُ) بِالتَّحْرِيكِ مَصْدَر دَخِنَتْ النَّار تَدْخَن , إِذَا أُلْقِيَ عَلَيْهَا حَطَب رَطْبٌ فَكَثُرَ دُخَانهَا. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬8) أَيْ: يَزْعُم أَنَّهُ مِنِّي فِي الْفِعْل , وَإِنْ كَانَ مِنِّي فِي النَّسَب , وَالْحَاصِل أَنَّ تِلْكَ الْفِتْنَة بِسَبَبِهِ وَأَنَّهُ بَاعِث عَلَى إِقَامَتهَا. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬9) أَيْ: لَيْسَ مِنْ أَهْلِي فِي الْفِعْل , لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ مِنْ أَهْلِي لَمْ يُهَيِّج الْفِتْنَة , وَنَظِيره قَوْله تَعَالَى: {إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ}
. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬10) أَيْ: يَجْتَمِعُونَ عَلَى بَيْعَة رَجُل. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬11) الْوَرِك مَا فَوْق الْفَخِذ , وقَالَ الْخَطَّابِيُّ: هُوَ مَثَل , وَمَعْنَاهُ الْأَمْر الَّذِي لَا يَثْبُت وَلَا يَسْتَقِيم , وَذَلِكَ أَنَّ الضِّلَع لَا يَقُوم بِالْوَرِكِ , وَبِالْجُمْلَةِ يُرِيد أَنَّ هَذَا الرَّجُل غَيْر خَلِيق لِلْمُلْكِ وَلَا مُسْتَقِلّ بِهِ , وقَالَ فِي النِّهَايَة: أَيْ يَصْطَلِحُونَ عَلَى أَمْر وَاهٍ لَا نِظَام لَهُ وَلَا اِسْتِقَامَة , لِأَنَّ الْوَرِك لَا يَسْتَقِيم عَلَى الضِّلَع وَلَا يَتَرَكَّب عَلَيْهِ لِاخْتِلَافِ مَا بَيْنهمَا وَبُعْده. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬12) الدَّهْمَاء: السَّوْدَاء , وَالتَّصْغِير لِلذَّمِّ , أَيْ: الْفِتْنَة الْعَظْمَاء , وَالطَّامَّة الْعَمْيَاء. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬13) أَيْ: لَا تَتْرُك تِلْكَ الْفِتْنَة. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬14) أَيْ: أَصَابَتْهُ بِمِحْنَةٍ وَمَسَّتْهُ بِبَلِيَّةٍ، وَأَصْل اللَّطْم هُوَ الضَّرْب عَلَى الْوَجْه بِبَطْنِ الْكَفّ، وَالْمُرَاد أَنَّ أَثَر تِلْكَ الْفِتْنَة يَعُمّ النَّاس , وَيَصِل لِكُلِّ أَحَد مِنْ ضَرَرهَا. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬15) أَيْ: فَمَهْمَا تَوَهَّمُوا أَنَّ تِلْكَ الْفِتْنَة اِنْتَهَتْ. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬16) أَيْ: اِسْتَطَالَتْ وَاسْتَمَرَّتْ وَاسْتَقَرَّتْ. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬17) الفسطاط: المقصود هنا هو الجماعة من الناس , أي: ينقسم الناس إلى معسكرين: معسكر إيمان ومعسكر نفاق. ع
(¬18) أَيْ: انْتَظِرُوا ظُهُوره. عون المعبود - (ج 9 / ص 286)
(¬19) (د) 4242
ترجمہ:
حدیث#10
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فتنوں کا ذکر کیا اور بہت زیادہ ذکر کرتے رہے یہاں تک کہ فتنۂ احلاس کا ذکر فرمایا۔ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! فتنۂ احلاس کیا ہے؟
آپ نے فرمایا: "وہ بھاگ دوڑ اور لوٹ مار کا فتنہ ہے۔
پھر فتنۂ سراء (خوشحالی کا فتنہ) ہے، جس کا دھواں میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کے قدموں تلے سے نکلے گا جو یہ گمان کرے گا کہ وہ مجھ سے ہے، حالانکہ وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اور میرا دوست صرف پرہیزگار ہے۔
پھر لوگ ایک ایسے شخص پر اتفاق کر لیں گے جو ایسے ہوگا جیسے کوئی کولہا (ورک) پسلی (ضلع) پر رکھا گیا ہو (یعنی بے ڈھنگا اور غیر موزوں حکمران)۔
پھر فتنۂ دہیماء (کالا، گھنا فتنہ) آئے گا جو اس امت کے کسی شخص کو نہیں چھوڑے گا بلکہ سب کو ایک طمانچہ مارے گا۔ جب کہا جائے گا کہ ختم ہو گیا تو وہ اور پھیل جائے گا۔ اس میں آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگ دو جماعتوں (فسطاط) میں تقسیم ہو جائیں گے: ایک ایسی جماعت جس میں صرف ایمان ہوگا، نفاق نہیں ہوگا، اور دوسری ایسی جماعت جس میں صرف نفاق ہوگا، ایمان نہیں ہوگا۔
جب یہ صورت حال ہو جائے تو تم دجال کا انتظار کرو (کہ ظہور کرے گا) اسی دن یا اگلے دن۔"
---
حاشیہ وحوالہ:
1. الاحلاس: "حلس" کی جمع ہے، جو اون کا وہ غلاف ہوتا ہے جو اونٹ کی پیٹھ پر کاٹھی کے نیچے ہوتا ہے۔ فتنے کو اس سے اس کی چپکنے اور برقرار رہنے کی وجہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔
2. (د): سنن ابو داود، حدیث نمبر: 4242۔
3. فتنۂ ہرب: یعنی لوگ ایک دوسرے سے دشمنی اور جنگ کی وجہ سے بھاگیں گے۔
4. فتنۂ حرب: اس سے مراد لوگوں کے مال و اسباب کی لوٹ مار اور تباہی ہے۔
5. (حم): مسند احمد، حدیث نمبر: 6168۔ نیز دیکھیے صحیح الجامع: 4194، الصحیحہ: 974۔
6. السراء: اس سے مراد وہ نعمت اور خوشحالی ہے جو لوگوں کو صحت، فراوانی اور مصیبتوں سے نجات کی صورت میں خوش کرتی ہے۔ اسے "سراء" سے اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ اس کے وقوع کا سبب زیادہ عیش و آرام کی حالت میں گناہوں کا ارتکاب ہے۔
7. دخنھا: یعنی اس فتنے کے ظہور اور بھڑکنے کی وجہ۔ اس کا دھواں سے تشبیہ دی گئی ہے۔
8. یزعم انه مني: یعنی وہ یہ گمان کرے گا کہ وہ میرے طریقے پر ہے، حالانکہ نسبی طور پر وہ مجھ سے ہو سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ وہی اس فتنے کو ہوا دے گا۔
9. وليس مني: یعنی وہ میرے طریقے پر نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ میرا ہوتا تو فتنہ نہ برپا کرتا۔
10. يَصْطَلِحُ النَّاسُ: یعنی لوگ کسی ایک شخص کی بیعت پر متفق ہو جائیں گے۔
11. كَوَرِكٍ عَلَى ضِلَعٍ: یہ ایک مثال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ غیر مستحکم اور درست نہیں ہوگا، کیونکہ پسلی پر کولہا درست طریقے سے قائم نہیں رہ سکتا۔ مراد یہ کہ وہ شخص حکمرانی کے لیے موزوں اور مستقل نہیں ہوگا۔
12. الدُّهَيْمَاء: سیاہی مائل۔ تکبیر (تصغیر) ذم کے لیے ہے۔ یعنی بہت بڑا اور اندھیرے میں ڈالنے والا فتنہ۔
13. لَا تَدَعُ: یعنی یہ فتنہ کسی کو نہیں چھوڑے گا۔
14. لَطَمَتْهُ لَطْمَةً: یعنی اس فتنے کی مصیبت اور آزمائش ہر شخص کو لگی ہوگی۔
15. انقضت: یعنی جب بھی لوگ یہ سمجھیں گے کہ فتنہ ختم ہو گیا ہے۔
16. تَمَادَتْ: یعنی وہ فتنہ پھیلے گا، جاری رہے گا اور قائم ہو جائے گا۔
17. فُسْطَاطَيْنِ: یہاں "فسطاط" سے مراد لوگوں کا گروہ یا لشکر ہے۔ یعنی لوگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے۔
18. فَانْتَظِرُوا الدجال: یعنی اس کے ظہور کا انتظار کرو۔
19. (د): سنن ابو داود، حدیث نمبر: 4242۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ - رضي الله عنهما - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" يَخْرُجُ الدجال فِي خَفْقَةٍ مِنْ الدِّينِ (¬1) وَإِدْبَارٍ مِنْ الْعِلْمِ " (¬2)
¬_________
(¬1) أَيْ: في حالِ ضَعْفٍ من الدّين وقِلَّةِ أهله. النهاية في غريب الأثر - (ج 2 / ص 131)
(¬2) (حم) 14997 , وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.
ترجمہ:
حدیث#11
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"دجال اس وقت نکلے گا جب دین (کی پابندی) کمزور ہوگی اور علم (کا دور) پِشٹ پائی کر رہا ہوگا۔"
---
حاشیہ وحوالہ :
1. "خَفْقَةٍ مِنْ الدِّينِ" کا مطلب ہے: دین کی کمزوری کے حالات میں اور اس کے ماننے والوں کی کمی میں۔
2. یہ حدیث امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند (حدیث نمبر: 14997) میں روایت کی ہے، اور شیخ شعیب ارناؤوط رحمہ اللہ نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔
عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ:
كُنْتُ بِالْكُوفَةِ فَقِيلَ: خَرَجَ الدجال، قَالَ: فَأَتَيْنَا عَلَى حُذَيْفَةَ بْنِ أُسَيْدٍ الْغِفَارِيِّ - رضي الله عنه - وَهُوَ يُحَدِّثُ، فَقُلْتُ: هَذَا الدجال قَدْ خَرَجَ، فَقَالَ: اجْلِسْ، فَجَلَسْتُ، فَأَتَى عَلَيْهِ الْعَرِّيفُ (¬1) فَقَالَ: هَذَا الدَّجَّالُ قَدْ خَرَجَ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يُطَاعِنُونَهُ، قَالَ: اجْلِسْ، فَجَلَسَ، فَنُودِيَ: إِنَّهَا كَذِبَةٌ صَبَّاغٌ، فَقُلْنَا: يَا أَبَا سَرِيحَةَ، مَا أَجْلَسْتَنَا إِلَّا لِأَمْرٍ فَحَدِّثْنَا، قَالَ: إِنَّ الدَّجَّالَ لَوْ خَرَجَ فِي زَمَانِكُمْ لَرَمَتْهُ الصِّبْيَانُ بِالْخَذْفِ (¬2)
وَلَكِنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ فِي بُغْضٍ مِنَ النَّاسِ، وَخِفَّةٍ مِنَ الدِّينِ، وَسُوءِ ذَاتِ بَيْنٍ " (¬3)
¬_________
(¬1) العريف: القَيِّم الذي يتولى مسئولية جماعة من الناس.
(¬2) أي: لقذفوه بالحجارة.
(¬3) (ك) 8612 ا , وصححه الألباني في كتاب قصة المسيح الدجال ص106
ترجمہ:
حدیث#12
حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں کوفہ میں تھا۔ کہا گیا کہ دجال نکل آیا ہے۔ تو ہم حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ حدیث بیان کر رہے تھے۔ میں نے کہا: یہ دجال نکل آیا ہے۔ تو انہوں نے کہا: بیٹھ جاؤ۔ تو میں بیٹھ گیا۔ پھر عریف (ذمہ دار شخص) ان کے پاس آیا اور کہا: یہ دجال نکل آیا ہے، اور اہل کوفہ اس سے لڑ رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہا: بیٹھ جاؤ۔ تو وہ بیٹھ گیا۔ پھر اعلان کیا گیا: یہ جھوٹا رنگریز ہے (یعنی وہ دجال نہیں تھا)۔ تو ہم نے کہا: اے اباسریحہ! آپ نے ہمیں صرف کسی خاص بات کے لیے بٹھایا ہے، تو ہمیں حدیث سنائیں۔ انہوں نے کہا: بے شک دجال اگر تمہارے زمانے میں نکلتا تو بچے اسے کنکریاں مارتے (یعنی اس کا کوئی اثر نہ ہوتا)۔ لیکن دجال اس وقت نکلے گا جب لوگوں میں آپس کی بغض ہوگا، دین کمزور ہوگا، اور باہمی تعلقات خراب ہوں گے۔
---
حاشیہ وحوالہ :
1. العریف: وہ ذمہ دار شخص جو لوگوں کے ایک گروہ کی نگرانی کرتا ہے۔
2. بِالْخَذْفِ: یعنی بچے اسے پتھر مارتے۔
3. یہ روایت الکامل فی ضعفاء الرجال (8612 ا) میں ہے، اور امام البانی نے کتاب "قصۃ المسیح الدجال" (ص106) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
عَنْ حُذَيْفَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي زَمَانٌ يَتَمَنَّوْنَ فِيهِ الدجال "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مِمَّ ذَاكَ؟ , قَالَ: " مِمَّا يَلْقُونَ مِنَ الْعَنَاءِ (¬1) " (¬2)
¬_________
(¬1) قلت: هذا يدل على أنه قبل الدجال تكون فِتَنٌ شديدة كما ذكر النبي - صلى الله عليه وسلم - في فتنة الدهيماء التي لا تدع أحدا إلا لطمته. ع
(¬2) (طس) 4289 , انظر الصَّحِيحَة: 3090
[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص117]
ترجمہ:
حدیث#13
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میری امت پر ضرور ایسا زمانہ آئے گا جب وہ دجال کی تمنا کریں گے۔"
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان، ایسا کیوں ہوگا؟ آپ نے فرمایا: "اس مصیبت کے باعث جو ان پر آئے گی۔"
---
حاشیہ وحوالہ:
1. میں کہتا ہوں: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کے ظہور سے پہلے سخت فتنے ہوں گے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ دہیماء کے بارے میں بیان فرمایا ہے جو ہر شخص کو اپنی زد میں لے لے گا۔
2. یہ حدیث طبرانی کی المعجم الکبیر (4289) میں ہے، نیز دیکھیے صحیحہ البانی (3090)۔
عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ:
لَمَّا فُتِحَتْ إِصْطَخْرُ نَادَى مُنَادٍ: أَلَا إِنَّ الدجال قَدْ خَرَجَ , فَلَقِيَهُمْ الصَّعْبُ بْنُ جَثَّامَةَ - رضي الله عنه - فَقَالَ: لَوْلَا مَا تَقُولُونَ لَأَخْبَرْتُكُمْ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: " لَا يَخْرُجُ الدَّجَّالُ حَتَّى يَذْهَلَ النَّاسُ عَنْ ذِكْرِهِ , وَحَتَّى تَتْرُكَ الْأَئِمَّةُ ذِكْرَهُ عَلَى الْمَنَابِرِ " (ضعيف) (¬1)
¬_________
(¬1) (حم) 16718 , وقال الشيخ شعيب الأرنؤوط: إسناده ضعيف لانقطاعه , راشد بن سعد المقرائي الحمصي لم يدرك الصعب بن جثامة. أ. هـ
قلت: الحديث ضعيف الإسناد , لكنَّ هذا هو الحاصل على أرض الواقع. ع
ترجمہ:
حدیث#14
حضرت راشد بن سعد سے روایت ہے کہ جب اصطخر فتح ہوا تو ایک منادی نے پکارا: آگاہ ہو جاؤ کہ دجال نکل آیا ہے۔ تو صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ ان سے ملے اور کہا: اگر تم لوگ یہ بات نہ کرتے تو میں تمہیں بتاتا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: "دجال اس وقت تک نہیں نکلے گا جب تک لوگ اس کے ذکر سے غافل نہ ہو جائیں، اور جب تک امام (خطباء) منبروں پر اس کا ذکر کرنا ترک نہ کر دیں۔"
---
حاشیہ وحوالہ:
1. یہ حدیث مسند احمد (16718) میں ہے۔ شیخ شعیب ارناؤوط نے کہا ہے کہ اس کا سند ضعیف ہے کیونکہ یہ منقطع ہے۔ راشد بن سعد مقرائی حمصی نے صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
میں کہتا ہوں: حدیث سنداً ضعیف ہے، لیکن (اس میں بیان کردہ) یہ بات عملی طور پر واقع ہو رہی ہے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ - رضي الله عنه - , عَنْ نَافِعِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ - رضي الله عنه - قَالَ:
كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِي غَزْوَةٍ فَقَالَ: " تَغْزُونَ جَزِيرَةَ الْعَرَبِ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ
[ لَكُمْ]
(¬1) ثُمَّ فَارِسَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ
[ لَكُمْ]
(¬2) ثُمَّ تَغْزُونَ الرُّومَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ
[ لَكُمْ]
(¬3) ثُمَّ تَغْزُونَ الدجال (¬4) فَيَفْتَحُهُ اللَّهُ
[ لَكُمْ (¬5)]
(¬6) " , فَقَالَ لِي نَافِعٌ: يَا جَابِرُ , لَا نَرَى الدَّجَّالَ يَخْرُجُ حَتَّى تُفْتَحَ الرُّومُ. (¬7)
¬_________
(¬1) (حم) 1540 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
(¬2) (حم) 1540
(¬3) (حم) 1540
(¬4) الخطاب فيه للصحابة , والمراد الأمة. مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (ج 15 / ص 398)
(¬5) أَيْ: يجعله مقهورا مغلوبا. مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (ج 15 / ص 398)
(¬6) (حم) 1540
(¬7) (م) 2900 , (جة) 4091۔
ترجمہ:
حدیث#15
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ، حضرت نافع بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے تو آپ نے فرمایا: "تم جزیرہ عرب پر غزوہ کرو گے تو اللہ اسے تمہارے لیے فتح کر دے گا، پھر فارس (ایران) پر غزوہ کرو گے تو اللہ اسے تمہارے لیے فتح کر دے گا، پھر تم روم (بازنطینی سلطنت) پر غزوہ کرو گے تو اللہ اسے تمہارے لیے فتح کر دے گا، پھر تم دجال پر غزوہ کرو گے تو اللہ اسے (تمہارے لیے) فتح (مغلوب) کر دے گا۔"
حضرت نافع نے مجھ سے کہا: اے جابر! ہم دجال کے نکلنے کو اس وقت تک نہیں دیکھیں گے جب تک روم فتح نہیں ہو جاتا۔
---
حوالہ وحاشیہ:
1. (حم) 1540، شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
2. (حم) 1540
3. (حم) 1540
4. یہ خطاب صحابہ کرام کے لیے ہے اور مراد امت مسلمہ ہے۔
5. یعنی اللہ اسے مغلوب اور شکست خوردہ بنا دے گا۔
6. (حم) 1540
7. یہ حدیث مسلم (2900) اور ابن ماجہ (4091) میں بھی موجود ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ (¬1) فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنْ الْمَدِينَةِ مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ، فَإِذَا تَصَافُّوا (¬2) قَالَتْ الرُّومُ: خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا (¬3) مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ، فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ: لَا وَاللَّهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا، فَيُقَاتِلُونَهُمْ، فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا، وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ هُمْ أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ، وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا، فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ (¬4) فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ قَدْ عَلَّقُوا سُيُوفَهُمْ بِالزَّيْتُونِ , إِذْ صَاحَ فِيهِمْ الشَّيْطَانُ: إِنَّ الْمَسِيحَ (¬5) قَدْ خَلَفَكُمْ فِي أَهْلِيكُمْ، فَيَخْرُجُونَ - وَذَلِكَ بَاطِلٌ - فَإِذَا جَاءُوا الشَّامَ خَرَجَ، فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ يُسَوُّونَ الصُّفُوفَ، إِذْ أُقِيمَتْ الصَلَاةُ، فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ - صلى الله عليه وسلم - فَأَمَّهُمْ، فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللَّهِ (¬6) ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ، وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللَّهُ بِيَدِهِ (¬7) فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ " (¬8)
¬_________
(¬1) (الْأَعْمَاق وَدَابِق) مَوْضِعَانِ بِالشَّامِ بِقُرْبِ حَلَب. (النووي - ج 9 / ص 276)
(¬2) تصافَّ: قام في مواجهة غيره وجها لوجه.
(¬3) سَبَوا: أسروا.
(¬4) أي: مدينة استنبول.
(¬5) أي: الدجال.
(¬6) أي: الدجال.
(¬7) يعني: أن اللَّه يقتله على يد عيسى. كقوله تعالى: {فلم تقتلوهم ولكن الله قتلهم}
.
(¬8) (م) 2897۔
ترجمہ:
حدیث#16
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک روم (کی فوج) الاعماق یا دابق (شام کے دو مقامات) میں نہ اتر آئے۔ پس ان سے جنگ کے لیے مدینہ سے ایک لشکر نکلے گا جو اس دن زمین کے بہترین لوگوں میں سے ہوگا۔ جب دونوں فوجیں آمنے سامنے صف آرائی کریں گی تو روم (کی فوج) کہے گی: ہمیں اور ان (مسلمانوں) کو چھوڑ دو جو ہم میں سے گرفتار ہوئے ہیں، ہم ان سے لڑیں گے۔ مسلمان کہیں گے: نہیں، اللہ کی قسم! ہم تمہیں اور اپنے بھائیوں کے درمیان نہیں چھوڑیں گے۔ چنانچہ وہ ان سے لڑیں گے۔ ایک تہائی پسپا ہو جائے گا، اللہ ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ ایک تہائی قتل ہو جائیں گے، وہ اللہ کے نزدیک بہترین شہید ہوں گے۔ اور ایک تہائی فتح یاب ہوں گے، وہ کبھی فتنے میں نہیں پڑیں گے، پھر وہ قسطنطنیہ فتح کر لیں گے۔ پھر جب وہ مال غنیمت تقسیم کر رہے ہوں گے، اپنی تلواروں کو زیتون کے درخت پر لٹکائے ہوئے ہوں گے، اتنے میں شیطان ان میں چیخے گا: بے شک مسیح (دجال) تمہارے گھر والوں میں تمہاری جگہ لے چکا ہے۔ تو وہ (واپس) نکلیں گے، حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔ پھر جب وہ شام پہنچیں گے تو دجال نکل آئے گا۔ پھر جب وہ جنگ کی تیاری کر رہے ہوں گے، صفیں درست کر رہے ہوں گے، اتنے میں نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی۔ تو عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے اور ان کی امامت کریں گے۔ پس جب اللہ کا دشمن (دجال) آپ کو دیکھے گا تو اس طرح پگھل جائے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔ اگر آپ اسے چھوڑ دیتے تو یوں ہی پگھل کر ہلاک ہو جاتا، لیکن اللہ اسے آپ کے ہاتھ سے قتل کروائے گا، پھر آپ انہیں اپنی نیزے پر اس کا خون دکھائیں گے۔"
---
(تشریحی نوٹس)
1. الْأَعْمَاق وَدَابِق: شام کے قریب حلب کے پاس دو مقامات ہیں۔
2. تَصَافُّوا: آمنے سامنے صف بندی کر لی۔
3. سَبَوْا: گرفتار کر لیے تھے۔
4. قُسْطَنْطِينِيَّةَ: یعنی استنبول شہر۔
5. الْمَسِيحَ: یعنی دجال۔
6. عَدُوُّ اللَّهِ: یعنی دجال۔
7. يَقْتُلُهُ اللَّهُ بِيَدِهِ: یعنی اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اسے قتل کروائے گا۔ جیسے اللہ کا فرمان ہے: "فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ" (الانفال:17)۔
8. یہ حدیث صحیح مسلم (2897) میں ہے۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ (¬1) خَرَابُ يَثْرِبَ (¬2) وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ (¬3) وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ قُسْطَنْطِينِيَّةَ , وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدجال (¬4) " (¬5)
¬_________
(¬1) أَيْ: عِمَارَته بِكَثْرَةِ الرِّجَال وَالْعَقَار وَالْمَال. عون المعبود - (ج 9 / ص 330)
(¬2) (يَثْرِب): اِسْم الْمَدِينَة الْمُشَرَّفَة , أَيْ: عُمْرَان بَيْت الْمَقْدِس كَامِلًا مُجَاوِزًا عَنْ الْحَدِّ , وَقْت خَرَاب الْمَدِينَة. عون المعبود - (ج 9 / ص 330)
(¬3) أَيْ: ظُهُور الْحَرْب الْعَظِيمة , قَالَ اِبْن الْمَلَك: بَيْن أَهْل الشَّام وَالرُّوم. عون المعبود - (ج 9 / ص 330)
(¬4) خُلَاصَته أَنَّ كُلّ وَاحِد مِنْ هَذِهِ الْأُمُور أَمَارَةٌ لِوُقُوعِ مَا بَعْده , وَإِنْ وَقَعَ هُنَاكَ مُهْمَلَة. عون المعبود - (ج 9 / ص 330)
(¬5) (د) 4294 , (حم) 22076 , انظر صحيح الجامع: 4096 , المشكاة: 5424
ترجمہ:
حدیث#17
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بیت المقدس کی آبادی (یثرب) مدینہ کی ویرانی ہے، اور مدینہ کی ویرانی عظیم جنگ (ملحمة) کا ظہور ہے، اور عظیم جنگ کا ظہور قسطنطنیہ کی فتح ہے، اور قسطنطنیہ کی فتح دجال کا خروج ہے۔"
---
(تشریحی نوٹس)
1. عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ: اس سے مراد بیت المقدس کی مکمل آبادی، مردوں، جائیدادوں اور مال و دولت کی کثرت ہے۔
2. خَرَابُ يَثْرِبَ: (یثرب) مدینہ منورہ کا نام ہے۔ یعنی بیت المقدس کا پورا طور پر آباد ہونا اس وقت ہوگا جب مدینہ ویران ہو رہا ہوگا۔
3. خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ: یعنی عظیم جنگ کا ظہور۔ ابن الملک نے کہا ہے کہ یہ شام والوں اور رومیوں کے درمیان ہوگی۔
4. اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے بعد والا واقعہ رونما ہوگا، اگرچہ درمیان میں کچھ فاصلہ بھی ہو سکتا ہے۔
5. یہ حدیث سنن ابو داود (4294)، مسند احمد (22076) میں ہے۔ نیز دیکھیے صحیح الجامع (4096) اور مشکوۃ المصابیح (5424)۔
كَثْرَةُ الدَّجَاجِلَة قَبْلَ خُرُوجِ الدجال
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" (لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ (¬1) دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ قَرِيبٌ مِنْ ثَلَاثِينَ (¬2)) (¬3) (مِنْهُمْ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ) (¬4) (كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ) (¬5) (يَكْذِبُ عَلَى اللَّهِ وَعَلَى رَسُولِهِ (¬6)) (¬7) (وَإِنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ , لَا نَبِيَّ بَعْدِي) (¬8)
¬_________
(¬1) أَيْ: يَخْرُج، وَلَيْسَ الْمُرَاد بِالْبَعْثِ مَعْنَى الْإِرْسَال الْمُقَارِن لِلنُّبُوَّةِ، بَلْ هُوَ كَقَوْلِهِ تَعَالَى (إِنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِين عَلَى الْكَافِرِينَ) (فتح) - (ج 10 / ص 410)
(¬2) لَيْسَ الْمُرَاد بِالْحَدِيثِ مَنْ اِدَّعَى النُّبُوَّة مُطْلَقًا , فَإِنَّهُمْ لَا يُحْصَوْنَ كَثْرَةً , وَإِنَّمَا الْمُرَاد مَنْ قَامَتْ لَهُ شَوْكَة وَبَدَتْ لَهُ شُبْهَة كَمَنْ وَصَفْنَا، وَقَدْ أَهْلَكَ اللَّه تَعَالَى مَنْ وَقَعَ لَهُ ذَلِكَ مِنْهُمْ , وَبَقِيَ مِنْهُمْ مَنْ يُلْحِقهُ بِأَصْحَابِهِ , وَآخِرهمْ الدجال الْأَكْبَر. (فتح) - (ج 10 / ص 410)
(¬3) (خ) 6704 , (م) 157
(¬4) (حم) 23406 , وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.
(¬5) (خ) 6704 , (م) 157
(¬6) رَوَى (د) 4334: " قال إِبْرَاهِيم النَّخَعِيِّ لِعُبَيْدَة بْن عَمْرو: أَتَرَى الْمُخْتَارَ بن أبي عبيد الثقفي مِنْهُمْ , فَقَالَ عُبَيْدَةُ: أَمَا إِنَّهُ مِنْ الرُّءُوسِ.
(¬7) (د) 4334
(¬8) (حم) 23406
ترجمہ:
دجال کے ظہور سے پہلے کثیر تعداد میں دجالوں کا آنا
حدیث#18
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک قریب تیس جھوٹے دجال نہ اٹھائے جائیں، ان میں چار عورتیں بھی ہوں گی۔ وہ سب یہ دعویٰ کریں گے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ وہ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ اور میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔")
---
حاشیہ وحوالہ:
1. يُبْعَثَ سے مراد ظاہر ہونا ہے، نہ کہ نبوت کے ساتھ مخصوص رسول بنا کر بھیجنا۔ یہ اللہ کے قول "إِنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ" کی طرح ہے۔
2. اس حدیث سے مراد ہر وہ شخص نہیں ہے جو مطلقاً نبوت کا دعویٰ کرے، کیونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بلکہ مراد وہ لوگ ہیں جن کی کوئی طاقت ہو اور ان کے پاس کوئی (دھوکہ دینے والی) بات ہو، جیسا کہ ہم نے بیان کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک کو جو یہ کام کرتا آیا ہلاک کر دیا ہے، اور ان میں سے وہ باقی بچے ہیں جن کو وہ اپنے ساتھیوں سے ملائے گا، اور ان میں سے آخری سب سے بڑا دجال ہوگا۔
3. یہ حدیث بخاری (6704) اور مسلم (157) میں ہے۔
4. یہ حدیث مسند احمد (23406) میں ہے، اور شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
5. یہ حدیث بخاری (6704) اور مسلم (157) میں ہے۔
6. سنن ابو داود (4334) میں ہے کہ ابراہیم نخعی نے عبیدہ بن عمرو سے پوچھا: کیا تم مختار بن ابی عبید ثقفی کو ان (دجالوں) میں سے سمجھتے ہو؟ تو عبیدہ نے کہا: وہ (جھوٹے دعویداروں میں) سرغنہ (بڑے سر) تھے۔
7. یہ حدیث سنن ابو داود (4334) میں ہے۔
8. یہ حدیث مسند احمد (23406) میں ہے۔
صِفَةُ الدجال
عَنْ ابْنِ عُمَرَ - رضي الله عنهما - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" (أُرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فِي الْمَنَامِ) (¬1) (فَرَأَيْتُ رَجُلًا آدَمَ (¬2) كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ
[ وفي رواية: أَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ]
(¬3) لَهُ لِمَّةٌ (¬4) كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ اللِّمَمِ) (¬5) (تَضْرِبُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ) (¬6) (قَدْ رَجَّلَهَا (¬7) فَهِيَ تَقْطُرُ مَاءً (¬8)) (¬9) (وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ , فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (¬10) ثُمَّ رَأَيْتُ رَجُلًا وَرَاءَهُ) (¬11) (أَحْمَرًا (¬12) جَسِيمًا (¬13)) (¬14) (جَعْدًا قَطَطًا (¬15) أَعْوَرَ الْعَيْنِ الْيُمْنَى) (¬16) (كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ (¬17)) (¬18) (وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلٍ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ , فَقُلْتُ مَنْ هَذَا؟ , فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ الدجال) (¬19) (وَأَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا ابْنُ قَطَنٍ (¬20)) (¬21) "
¬_________
(¬1) (خ) 3256
(¬2) أَيْ: أَسْمَر.
(¬3) (خ) 3255
(¬4) (اللِّمَّة) جَمْعهَا لِمَم , كَقِرْبَةِ وَقِرَب , وَهُوَ الشَّعْر الْمُتَدَلِّي الَّذِي جَاوَزَ شَحْمَة الْأُذُنَيْنِ , فَإِذَا بَلَغَ الْمَنْكِبَيْنِ فَهُوَ (جُمَّة) وَإِذَا قَصُرَتْ عَنْهُمَا فَهِيَ وَفْرَة. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)
(¬5) (خ) 5562 , (م) 169
(¬6) (خ) 3256
(¬7) أَيْ: سَرَّحَهَا بِمُشْطٍ مَعَ مَاء أَوْ غَيْره. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)
(¬8) يُحْتَمَل أَنْ يُرِيد أَنَّهَا تَقْطُر مِنْ الْمَاء الَّذِي سَرَّحَهَا بِهِ لِقُرْبِ تَرْجِيله , وقَالَ الْقَاضِي عِيَاض: وَمَعْنَاهُ عِنْدِي أَنْ يَكُون ذَلِكَ عِبَارَة عَنْ نَضَارَته وَحُسْنه، وَاسْتِعَارَةً لِجَمَالِهِ. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)
(¬9) (خ) 5562 , (م) 169
(¬10) اخْتَلَفَ الْعُلَمَاء فِي سَبَب تَسْمِيَته مَسِيحًا , قَالَ الْوَاحِدِيّ: ذَهَبَ أَبُو عُبَيْد وَاللَّيْث إِلَى أَنَّ أَصْله بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَشِيحًا فَعَرَّبَتْهُ الْعَرَب وَغَيَّرَتْ لَفْظه، كَمَا قَالُوا: مُوسَى وَأَصْله مُوشِى بِالْعِبْرَانِيَّةِ , فَلَمَّا عَرَّبُوهُ غَيَّرُوهُ , فَعَلَى هَذَا لَا اِشْتِقَاق لَهُ , وَذَهَبَ أَكْثَر الْعُلَمَاء إِلَى أنَّهُ مُشْتَقّ , ثُمَّ اِخْتَلَفَ هَؤُلَاءِ , فَحُكِيَ عَنْ اِبْن عَبَّاسرضي الله عنهماأَنَّهُ قَالَ: لِأَنَّهُ لَمْ يَمْسَح ذَا عَاهَة إِلَّا بَرِئَ وَقَالَ إِبْرَاهِيم وَابْن الْأَعْرَابِيّ: الْمَسِيح الصِّدِّيق , وَقِيلَ: لِكَوْنِهِ مَمْسُوح أَسْفَل الْقَدَمَيْنِ لَا أَخْمُص لَهُ، وَقِيلَ: لِمَسْحِ زَكَرِيَّا إِيَّاهُ، وَقِيلَ: لِمَسْحِهِ الْأَرْض , أَيْ: قَطْعهَا، وَقِيلَ: لِأَنَّهُ خَرَجَ مِنْ بَطْن أُمّه مَمْسُوحًا بِالدُّهْنِ، وَقِيلَ: لِأَنَّهُ مُسِحَ بِالْبَرَكَةِ حِين وُلِدَ، وَقِيلَ: لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى مَسَحَهُ , أَيْ: خَلَقَهُ خَلْقًا حَسَنًا , وَقِيلَ غَيْر ذَلِكَ. وَاَللَّه أَعْلَم. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)
(¬11) (خ) 3256
(¬12) الْأَحْمَر عِنْد الْعَرَب: الشَّدِيد الْبَيَاض مَعَ الْحُمْرَة.
(¬13) أي: ضخم الجسد.
(¬14) (خ) 3257 , (م) 169
(¬15) الْمُرَاد بِهِ شِدَّة جُعُودَة الشَّعْر.
(¬16) (خ) 3256
(¬17) (طَافِيَة) أَيْ: بَارِزَة، وَمَعْنَاهُ أَنَّهَا نَاتِئَة نُتُوء حَبَّة الْعِنَب مِنْ بَيْن أَخَوَاتهَا، وَضَبَطَهُ بَعْض الشُّيُوخ بِالْهَمْزِ (طافئة) فَقَدْ جَاءَ فِي حديث آخَر أَنَّهُ مَمْسُوح الْعَيْن (مَطْمُوسَة) وَلَيْسَتْ جَحْرَاءَ وَلَا نَاتِئَة، وَهَذِهِ صِفَة حَبَّة الْعِنَب إِذَا سَالَ مَاؤُهَا وَهُوَ يُصَحِّح رِوَايَة الْهَمْز. (فتح الباري) - (ج 20 / ص 139)
(¬18) (خ) 5562
(¬19) (خ) 3256
(¬20) قَالَ الزُّهْرِيُّ: هو رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ هَلَكَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ. (خ) 3257
(¬21) (خ) 3257 , (م) 169
ترجمہ:
حدیث#19
دجال کی صفت
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں نے رات کو خواب میں خود کو کعبہ کے پاس دیکھا۔ میں نے ایک گندمی رنگت والا آدمی دیکھا، جیسے گندمی رنگ والے مردوں میں سے سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔
ایک روایت میں ہے: (سرخ رنگت، گھونگریالے بال، چوڑے سینے والا)
اس کے سر کے بال (لمہ) تھے، جیسے تم لموں میں سے سب سے خوبصورت دیکھتے ہو۔
وہ (لمہ) اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان لٹک رہا تھا۔
اس نے اس (بال) میں کنگھی کر رکھی تھی، وہ پانی ٹپکا رہا تھا۔
وہ اپنے ہاتھ دو آدمیوں کے مونڈھوں پر رکھے ہوئے تھا اور بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ مسیح ابن مریم ہیں۔
پھر میں نے ان کے پیچھے ایک آدمی کو دیکھا۔
سرخ رنگت والا، جسمانی طور پر بہت بڑا،
گھونگریالے، بال بالکل گھنگریالے، دائیں آنکھ سے کانا،
گویا وہ آنکھ ابھری ہوئی انگور کی گٹھلی ہے،
اپنے ہاتھ ایک آدمی کے مونڈھوں پر رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ مسیح دجال ہے۔
اور اس سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والا شخص (خزاعہ قبیلے کا) ابن قطن ہے۔"
---
(تشریحی نوٹس)
1. (بخاری) 3256۔
2. آدم: یعنی گندمی یا سانولا رنگ۔
3. (بخاری) 3255۔
4. لِمَّة: اس کی جمع لِمَم ہے۔ یہ وہ بال ہوتے ہیں جو کانوں کی لو تک لٹکے ہوں۔ اگر مونڈھوں تک ہوں تو جُمَّة کہلاتے ہیں، اور اگر ان سے چھوٹے ہوں تو وَفْرَة کہلاتے ہیں۔
5. (بخاری) 5562، (مسلم) 169۔
6. (بخاری) 3256۔
7. رَجَّلَهَا: یعنی پانی یا تیل لگا کر کنگھی کی تھی۔
8. تَقْطُرُ مَاءً: اس کا احتمال یہ ہے کہ بال پانی کے قطرے ٹپکا رہے تھے کیونکہ ابھی کنگھی کی تھی۔ قاضی عیاض نے کہا: میرے نزدیک اس کا مطلب اس کی تازگی اور خوبصورتی کی تعبیر ہے، اور اس کے حسن کے لیے استعارہ ہے۔
9. (بخاری) 5562، (مسلم) 169۔
10. المسیح ابن مریم: علماء نے اس نام کی وجہ تسمیہ میں اختلاف کیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ عبرانی لفظ "مشیحا" سے عربی میں آیا ہے۔ دوسرے علماء کے نزدیک یہ مشتق ہے۔ پھر ان میں بھی اختلاف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک اسے "مسیح" اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ جس مریض پر ہاتھ پھیرتے تھے وہ شفا یاب ہو جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ممسوح القدم (یعنی تلوے کا ابھار نہ ہونا) تھے، یا انہیں زکریا علیہ السلام نے مسح کیا تھا، یا وہ زمین کو مسح کرتے (طواف کرتے) تھے، یا پیدا ہونے پر تیل لگایا گیا تھا، یا اللہ نے انہیں مسح کیا (یعنی خوبصورت بنایا)۔ واللہ اعلم۔
11. (بخاری) 3256۔
12. أَحْمَر: عرب کے ہاں احمر سے مراد وہ سفید رنگت ہے جس میں سرخی ہو۔
13. جَسِيم: یعنی بڑے جسم والا۔
14. (بخاری) 3257، (مسلم) 169۔
15. قَطَط: اس سے مراد بالوں کی شدید گھنگراہٹ ہے۔
16. (بخاری) 3256۔
17. عِنَبَةٌ طَافِيَة: یعنی ابھری ہوئی، گویا انگور کی گٹھلی دوسری گٹھلیوں کے درمیان سے ابھری ہوئی ہے۔ بعض شیوخ نے اسے طافِئَة (یعنی مدھم، بجھی ہوئی) پڑھا ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اس کی آنکھ ممسوح (ہموار، نہ ابھری ہوئی) ہوگی۔ یہ روایت ہمز کے ساتھ پڑھنے کی تصدیق کرتی ہے۔
18. (بخاری) 5562۔
19. (بخاری) 3256۔
20. ابن قطن: زہری نے کہا: یہ خزاعہ قبیلے کا ایک شخص تھا جو زمانہ جاہلیت میں مر گیا تھا۔
21. (بخاری) 3257، (مسلم) 169۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" (مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ حَذَّرَ أُمَّتَهُ) (¬1) (الْأَعْوَرَ الْكَذَّابَ) (¬2) (لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ (¬3)) (¬4) (وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ) (¬5) (وَلَكِنِّي سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ) (¬6) (إِنَّهُ يَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ) (¬7) (وَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَنْ يَرَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رَبَّهُ - عز وجل - حَتَّى يَمُوتَ) (¬8) (وَإِنَّهُ أَعْوَرٌ) (¬9) (مَمْسُوحُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى , عَلَيْهَا ظَفَرَةٌ غَلِيظَةٌ (¬10)) (¬11)
[ وفي رواية: مَطْمُوسُ الْعَيْنِ , لَيْسَ بِنَاتِئَةٍ (¬12) وَلَا حَجْرَاءَ]
(¬13)
[ وفي رواية: إِحْدَى عَيْنَيْهِ كَأَنَّهَا زُجَاجَةٌ خَضْرَاءُ]
(¬14) (وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ) (¬15) (وَإِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كُفْرٌ) (¬16) (ثُمَّ تَهَجَّاهَا: (ك ف ر)) (¬17) (يَقْرَؤُهَا كُلُّ مُؤْمِنٍ أُمِّيٌّ وَكَاتِبٌ) (¬18)
[ وفي رواية: قَارِئٌ وَغَيْرُ قَارِئٍ]
(¬19) (هِجَانٌ أَزْهَرُ (¬20) كَأَنَّ رَأْسَهُ أَصَلَةٌ (¬21)) (¬22) (وَكَأَنَّ شَعْرَ رَأْسِهِ أَغْصَانُ شَجَرَةٍ) (¬23) (حُبُكٌ حُبُكٌ حُبُكٌ (¬24) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ) (¬25) (قَصِيرٌ (¬26) أَفْحَجُ (¬27)) (¬28) (وَلَا يُسَخَّرُ لَهُ مِنَ الْمَطَايَا (¬29) إِلَّا الْحِمَارُ، فَهُوَ رِجْسٌ (¬30) عَلَى رِجْسٍ) (¬31) "
¬_________
(¬1) (حم) 14144 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: صحيح.
(¬2) (خ) 6712
(¬3) قَوْله: (مَا مِنْ نَبِيّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمه، لَقَدْ أَنْذَرَ نُوح قَوْمه) هَذَا الْإِنْذَار لِعِظَمِ فِتْنَته وَشِدَّة أَمْرهَا. فتح الباري
(¬4) (خ) 2892
(¬5) (ت) 2234 , (خ) 2892
(¬6) (خ) 5821
(¬7) (جة) 4077 , (خ) 2892
(¬8) (ت) 2235 , (حم) 23722
(¬9) (خ) 6712 , (م) 2933
(¬10) (الظَّفَرَة): جِلْدَة تُغْشِي الْبَصَر، وَقَالَ الْأَصْمَعِيّ: لَحْمَة تَنْبُت عِنْد الْمَآقِي. (النووي - ج 9 / ص 326)
(¬11) (حم) 23327 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
(¬12) أي: بارزة.
(¬13) أَيْ: عَمِيقَة , وهذه الجملة في (د) 4320 , وانظر صَحِيح الْجَامِع: 2459
(¬14) (حم): 21173 , انظر صَحِيح الْجَامِع: 3401 , الصَّحِيحَة: 1863، وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.
(¬15) (خ) 6712 , (م) 2933
(¬16) (حم) 13168 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح , (خ) 6712
(¬17) (م) 2933 , (ت) 2245
(¬18) (حم) 13168 , (م) 2933
(¬19) (حم): 20417 , وصححها الألباني في قصة الدجال ص70 , وقال شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح
(¬20) الهِجان: الشديد البياض , والأزهر بمعناه.
(¬21) قال الشيخ الألباني في الصحيحة: 1193: (الأصَلة): الحية العظيمة الضخمة القصيرة , والعرب تشبه الرأس الصغير الكثير الحركة برأس الحية. كما في النهاية , والحديث صريح في أن الدجال الأكبر من البشر , وهو من الأدلة على بطلان تأويلهم بأنه ليس بشخص , وإنما هو رمز للحضارة الأوربية وزخارفها وفتنها , فالدجال بشر , وفتنته أكبر من ذلك. أ. هـ
وهذه القطعة من رواية (حم): 2148
(¬22) (حم) 2148 , انظر الصحيحة: 1193
(¬23) (حم) 3546 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح , وانظر كتاب الإسراء والمعراج للألباني ص75
(¬24) أَيْ: شعر رأسه مُتَكَسِّرٌ من الجعودة , مثل الرمل الذي تهب عليه الريح فيصير له حُبُك.
(¬25) (حم) 23207 , انظر الصَّحِيحَة: 2808
(¬26) هَذَا يَدُلّ عَلَى قِصَر قَامَة الدجال، وَقَدْ وَرَدَ فِي حَدِيث تَمِيم الدَّارِيّ فِي شَأْن الدَّجَّال أَنَّهُ أَعْظَم إِنْسَان , وَوَجْه الْجَمْع أَنَّهُ لَا يَبْعُد أَنْ يَكُون قَصِيرًا بَطِينًا عَظِيم الْخِلْقَة , قَالَ الْقَارِي: وَهُوَ الْمُنَاسِب لِكَوْنِهِ كَثِير الْفِتْنَة، أَوْ الْعَظَمَة مَصْرُوفَة إِلَى الْهَيْبَة , وقِيلَ: يَحْتَمِل أَنَّ اللَّه تَعَالَى يُغَيِّرهُ عِنْد الْخُرُوج. عون المعبود - (ج 9 / ص 358)
(¬27) (الأَفْحَج): هُوَ الَّذِي إِذَا مَشَى بَاعَدَ بَيْن رِجْلَيْهِ , فَهُوَ مِنْ جُمْلَة عُيُوبه. عون المعبود - (ج 9 / ص 358)
(¬28) (د) 4320
(¬29) المطايا: جمع مطية , وهي الدابة التي يُركبُ مَطاها , أَيْ: ظهرها.
(¬30) الرِّجس: اسم لكل مستقذر أو عمل قبيح.
(¬31) قال الحاكم في المستدرك: 8612 هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ، وقال الذهبي في التلخيص: على شرط البخاري ومسلم، وقال الألباني في قصة الدجال ص106: وهو كما قالا , وصححه الألباني في صحيح الجامع: 7875
ترجمہ:
"کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی امت کو کانے جھوٹے (دجال) سے ڈرایا نہ ہو۔ بے شک نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا، اور میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں۔ لیکن میں تم سے اس بارے میں ایک ایسی بات کہوں گا جو کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی۔ وہ (دجال) کہے گا: 'میں تمہارا رب ہوں۔' اور تم جانتے ہو کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے رب (عزوجل) کو موت سے پہلے نہیں دیکھ سکتا۔ اور وہ کانا ہے، اس کی بائیں آنکھ ممسوح (ہموار) ہے، اس پر موٹی جھلی ہے۔
ایک روایت میں ہے: 'اس کی آنکھ ممسوح ہے، نہ ابھری ہوئی ہے اور نہ گہری۔'
اور ایک روایت میں ہے: 'اس کی ایک آنکھ ایسی ہے جیسے سبز شیشہ۔'
اور بے شک تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ اور اس کی آنکھوں کے درمیان 'ک ف ر' لکھا ہوگا، ہر مومن چاہے ان پڑھ ہو یا لکھا پڑھا، اسے پڑھ لے گا۔
ایک روایت میں ہے: 'پڑھنے والا اور نہ پڑھنے والا۔'
وہ سفید رنگت والا ہے، گویا اس کا سر سانپ کا سر ہے۔ اور گویا اس کے سر کے بال درخت کی شاخیں ہیں، بل کھائی ہوئی، بل کھائی ہوئی، بل کھائی ہوئی (تین بار)۔
وہ قد میں چھوٹا اور ٹانگوں میں جھکا ہوا (افحج) ہے۔ اور اس کی سواریوں میں سے کوئی اس کے تابع نہیں ہوگی سوائے گدھے کے، تو وہ گندگی پر گندگی ہے۔"
---
تشریح:
1. (حم) 14144، شیخ شعیب ارناؤوط نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
2. (خ) 6712۔
3. قول: 'کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی قوم کو ڈرایا نہ ہو، بے شک نوح نے اپنی قوم کو ڈرایا' یہ انذار اس لیے ہے کہ اس کی فتنہ انگیزی بہت بڑی اور سخت ہے۔
4. (خ) 2892۔
5. (ت) 2234، (خ) 2892۔
6. (خ) 5821۔
7. (جة) 4077، (خ) 2892۔
8. (ت) 2235، (حم) 23722۔
9. (خ) 6712، (م) 2933۔
10. (الظفرة): وہ جھلی جو آنکھ کے ڈھیلے پر چڑھی ہوتی ہے۔ اصمعی نے کہا: وہ گوشت جو آنکھ کے کنارے پر اگتا ہے۔
11. (حم) 23327، شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔
12. یعنی ابھری ہوئی۔
13. یعنی گہری، اور یہ جملہ (د) 4320 میں ہے، نیز دیکھیے صحیح الجامع: 2459۔
14. (حم) 21173، دیکھیے صحیح الجامع: 3401، الصحیحہ: 1863، اور شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔
15. (خ) 6712، (م) 2933۔
16. (حم) 13168، شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے، (خ) 6712۔
17. (م) 2933، (ت) 2245۔
18. (حم) 13168، (م) 2933۔
19. (حم) 20417، البانی نے قصہ الدجال ص70 میں اسے صحیح قرار دیا ہے، اور شعیب ارناؤوط نے کہا: اس کا سند صحیح ہے۔
20. الهجان: شدید سفید، اور الأزهر اسی معنی میں ہے۔
21. شیخ البانی نے الصحیحہ: 1193 میں کہا: (الأصلة): بڑا موٹا سانپ، اور عرب چھوٹے سر کو جو حرکت میں زیادہ ہو، سانپ کے سر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اور حدیث صراحت کرتی ہے کہ دجال اکبر انسانوں میں سے ہے، اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ ان کا تألیل باطل ہے کہ وہ کوئی شخص نہیں بلکہ یورپی تہذیب اور اس کی فتنہ انگیزیوں کی علامت ہے، بلکہ دجال ایک انسان ہے اور اس کا فتنہ اس سے بڑھ کر ہے۔ اور یہ ٹکڑا روایت (حم) 2148 سے ہے۔
22. (حم) 2148، دیکھیے الصحیحہ: 1193۔
23. (حم) 3546، شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے، اور دیکھیے کتاب الاسراء والمعراج للالبانی ص75۔
24. یعنی اس کے سر کے بال گھونگریالے ہیں، جیسے ریت پر ہوا چلنے سے بل پڑ جاتے ہیں۔
25. (حم) 23207، دیکھیے الصحیحہ: 2808۔
26. یہ دلالت کرتا ہے کہ دجال کی قد چھوٹی ہے، اور تمیم داری کی حدیث میں آیا ہے کہ وہ سب سے بڑا انسان ہے۔ جمع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بعید نہیں کہ وہ چھوٹا، موٹا اور بڑی ساخت والا ہو، قاری نے کہا: اور یہ اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ فتنہ انگیز ہو، یا عظمت ہیبت کے لیے ہو، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے نکلتے وقت بدل دے۔
27. (الأفحج): وہ شخص جو چلتے وقت اپنی ٹانگوں میں فاصلہ رکھتا ہے، اور یہ اس کی عیبوں میں سے ہے۔
28. (د) 4320۔
29. المطايا: مطیہ کی جمع، وہ سواری جس پر سوار ہوا جاتا ہے۔
30. الرجس: ہر گندی چیز یا برے کام کا نام۔
31. حاکم نے المستدرک: 8612 میں کہا: یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور ان دونوں (بخاری و مسلم) نے اسے روایت نہیں کیا، اور ذہبی نے التلخیص میں کہا: بخاری و مسلم کی شرط پر، اور البانی نے قصہ الدجال ص106 میں کہا: جیسا انہوں نے کہا، اور البانی نے صحیح الجامع: 7875 میں اسے صحیح قرار دیا ہے
۔
عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ - رضي الله عنه - قَالَ:
" ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ (¬1) فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ (¬2)
" حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ , فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ (¬3) " عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ: مَا شَأْنُكُمْ؟ " , فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ , فَقَالَ: " غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ (¬4) إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ , وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ , وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ , إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ (¬5) عَيْنُهُ طَافِئَةٌ , كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ " (¬6)
¬_________
(¬1) أَيْ: ذات صباح.
(¬2) قَوْلُهُ: (فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ) فِي مَعْنَاهُ قَوْلَانِ: أَحَدهمَا أَنَّ خَفَّضَ بِمَعْنَى حَقَّرَ، وَقَوْله: (رَفَّعَ) أَيْ عَظَّمَهُ وَفَخَّمَهُ فَمِنْ تَحْقِيره أَنَّ اللَّه تَعَالَى عَوَرَهُ، وَمِنْهُ قَوْله - صلى الله عليه وسلم -: " هُوَ أَهْوَن عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ " , وَأَنَّهُ لَا يَقْدِر عَلَى قَتْل أَحَد إِلَّا ذَلِكَ الرَّجُل، ثُمَّ يَعْجِز عَنْهُ، وَأَنَّهُ يَضْمَحِلّ أَمْره، وَيُقْتَل بَعْد ذَلِكَ هُوَ وَأَتْبَاعه ,
وَمِنْ تَفْخِيمه وَتَعْظِيم فِتْنَته وَالْمِحْنَة بِهِ هَذِهِ الْأُمُور الْخَارِقَة لِلْعَادَةِ، وَأَنَّهُ مَا مِنْ نَبِيّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمه. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 327)
(¬3) أصْل الرَّواح أن يكونَ بعد الزوال , فالمعنى أنهم سمعوا الحديث بعد صلاة الفجر , ثم رجعوا إلى المسجد عند صلاة الظهر.
(¬4) أَيْ: غَيْر الدَّجَّال أَخْوَف مُخَوِّفَاتِي عَلَيْكُمْ، فَأَخْوَف مَا أَخَاف عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّة الْمُضِلُّونَ. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 327)
(¬5) أَيْ: شَدِيد جُعُودَة الشَّعْر، مُبَاعِد لِلْجُعُودَةِ الْمَحْبُوبَة. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 327)
(¬6) (م) 2937 , (ت) 2240
ترجمہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا، تو آپ نے اس (کے خطرے) کو گھٹا کر اور بڑھا کر (اس کی ہیبت اور اس کی کمزوری دونوں پہلو) بیان فرمایا، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے باغ میں موجود ہے۔ جب ہم (دوپہر کو) واپس آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر اس (تعجب) کو بھانپ لیا اور فرمایا: 'تمہیں کیا ہوا ہے؟' ہم نے عرض کیا: 'یا رسول اللہ! آپ نے صبح دجال کا ذکر کیا تھا، آپ نے اس (کے خطرے) کو گھٹا اور بڑھا کر بیان فرمایا، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے باغ میں موجود ہے۔' آپ نے فرمایا: 'دجال کے علاوہ (دنیا کے فتنے) مجھے تم پر زیادہ خوفناک لگتے ہیں۔ اگر وہ اس وقت نکلے جب میں تمہارے درمیان ہوں تو میں تمہاری طرف سے اس کا مقابلہ کرنے والا ہوں گا، اور اگر وہ اس وقت نکلے جب میں تمہارے درمیان نہ ہوں تو ہر شخص خود اپنا مدافع ہوگا، اور اللہ ہر مسلمان پر میرا نائب (مددگار) ہے۔
بے شک وہ جوان ہے، بال گھنگرالے ہیں، اس کی آنکھ بے نور/پھٹی ہوئی ہے، گویا میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے مشابہ پاتا ہوں۔'"
---
حاشیہ وحوالہ:
1. خفض فيه ورفع: اس کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ آپ نے اس کی عظمت اور اس کی فتنہ انگیزی کی شدت کو بڑھا چڑھا کر بیان فرمایا۔ دوسرا یہ کہ آپ نے اس کی ذلت اور اس پر اللہ کی قدرت (جیسے اس کا کانا ہونا) کو بھی بیان فرمایا۔
2. غیر الدجال أخوفني عليكم: یعنی دجال کے مقابلے میں، گمراہ کرنے والے حکمران یا دنیاوی فتنے مجھے تم پر زیادہ خوفناک لگتے ہیں۔
3. قطط: یعنی سخت گھونگریالے بال۔
4. یہ حدیث مسلم (2937) اور ترمذی (2240) میں ہے۔
خَبَرُ ابْنِ صَيَّادْ وَمُشَابَهَتُهُ لِلدَّجَّال
عَنْ ابْنِ عُمَرَ - رضي الله عنهما - قَالَ:
(انْطَلَقَ عُمَرُ مَعَ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فِي رَهْطٍ (¬1) قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ , فَوَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ (¬2) بَنِي مَغَالَةَ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ الْحُلُمَ (¬3)) (¬4) (فَلَمْ يَشْعُرْ ابْنُ صَيَّادٍ بِشَيْءٍ " حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ: تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ " , فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ (¬5) ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم -: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟) (¬6) (" فَرَفَضَهُ (¬7) رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَقَالَ: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ) (¬8) (ثُمَّ قَالَ لَهُ: يَا ابْنَ صَائِدٍ مَاذَا تَرَى؟ ") (¬9) (قَالَ: أَرَى عَرْشًا عَلَى الْمَاءِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " تَرَى عَرْشَ إِبْلِيسَ عَلَى الْبَحْرِ , وَمَا تَرَى؟ " , قَالَ: أَرَى صَادِقَيْنِ وَكَاذِبًا , أَوْ كَاذِبَيْنِ وَصَادِقًا) (¬10) (فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ) (¬11) (ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " مَا تُرْبَةُ الْجَنَّةِ " , قَالَ: دَرْمَكَةٌ (¬12) بَيْضَاءُ مِسْكٌ (¬13) يَا أَبَا الْقَاسِمِ قَالَ: " صَدَقْتَ) (¬14) (ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئَةً (¬15)) (¬16) (- وَخَبَأَ لَهُ: {يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ}
(¬17) - ") (¬18) (فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ (¬19) فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: اخْسَأْ (¬20) فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ (¬21) " , فَقَالَ عُمَرُ - رضي الله عنه -: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ) (¬22) (فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " دَعْهُ , فَإِنْ يَكُنْ الَّذِي نَخَافُ فَلَنْ تَسْتَطِيعَ قَتْلَهُ) (¬23) (
[ وفي رواية: فَلَسْتَ صَاحِبَهُ]
إِنَّمَا صَاحِبُهُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، وَإِنْ لَا يَكُنْ هُوَ، فَلَيْسَ لَكَ أَنْ تَقْتُلَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْعَهْدِ، قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مُشْفِقًا (¬24) أَنَّهُ الدَّجَّالُ) (¬25) (ثُمَّ انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ - رضي الله عنه - إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، وَهُوَ يَخْتِلُ (¬26) أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَهُوَ مُضْطَجِعٌ فِي قَطِيفَةٍ (¬27)
لَهُ فِيهَا زَمْزَمَةٌ (¬28) فَرَأَتْ أمُّ ابْنِ صَيّادٍ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ "، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ: يَا عَبْدَ اللَّهِ - وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ (¬29) - هَذَا مُحَمَّدٌ، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ (¬30)) (¬31) (فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " مَا لَهَا قَاتَلَهَا اللَّهُ؟ , لَوْ تَرَكَتْهُ لَبَيَّنَ) (¬32) (قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِي النَّاسِ , فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ , ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ) (¬33) (فَقَالَ: مَا بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ أَمْرٌ أَعْظَمُ مِنْ الدَّجَّالِ) (¬34) وفي رواية: (مَا كَانَتْ فِتْنَةٌ وَلَا تَكُونُ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ أَكْبَرَ مِنْ فِتْنَةِ الدّجَّالِ) (¬35) (وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ حَذَّرَ أُمَّتَهُ) (¬36) (الْأَعْوَرَ الْكَذَّابَ) (¬37) (لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ (¬38)) (¬39) (وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ) (¬40) (وَلَكِنِّي سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ) (¬41) (إِنَّهُ يَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ) (¬42) (وَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَنْ يَرَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رَبَّهُ - عز وجل - حَتَّى يَمُوتَ) (¬43) (وَإِنَّهُ أَعْوَرٌ) (¬44) (مَمْسُوحُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى , عَلَيْهَا ظَفَرَةٌ غَلِيظَةٌ (¬45)) (¬46)
[ وفي رواية: مَطْمُوسُ الْعَيْنِ , لَيْسَ بِنَاتِئَةٍ (¬47) وَلَا حَجْرَاءَ]
(¬48)
[ وفي رواية: إِحْدَى عَيْنَيْهِ كَأَنَّهَا زُجَاجَةٌ خَضْرَاءُ]
(¬49) (وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ) (¬50) (وَإِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كُفْرٌ) (¬51) (ثُمَّ تَهَجَّاهَا: (ك ف ر)) (¬52) (يَقْرَؤُهَا كُلُّ مُؤْمِنٍ أُمِّيٌّ وَكَاتِبٌ) (¬53)
[ وفي رواية: قَارِئٌ وَغَيْرُ قَارِئٍ]
(¬54) (هِجَانٌ أَزْهَرُ (¬55) كَأَنَّ رَأْسَهُ أَصَلَةٌ (¬56)) (¬57) (وَكَأَنَّ شَعْرَ رَأْسِهِ أَغْصَانُ شَجَرَةٍ) (¬58) (حُبُكٌ حُبُكٌ حُبُكٌ (¬59) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ) (¬60) (قَصِيرٌ (¬61) أَفْحَجُ (¬62)) (¬63) (وَلَا يُسَخَّرُ لَهُ مِنَ الْمَطَايَا (¬64) إِلَّا الْحِمَارُ، فَهُوَ رِجْسٌ (¬65) عَلَى رِجْسٍ) (¬66) (قَالَ: وَأُرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فِي الْمَنَامِ) (¬67) (فَرَأَيْتُ رَجُلًا آدَمَ (¬68) كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ
[ وفي رواية: أَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ]
(¬69) لَهُ لِمَّةٌ (¬70) كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ اللِّمَمِ) (¬71) (تَضْرِبُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ) (¬72) (قَدْ رَجَّلَهَا (¬73) فَهِيَ تَقْطُرُ مَاءً (¬74)) (¬75) (وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ , فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (¬76) ثُمَّ رَأَيْتُ رَجُلًا وَرَاءَهُ) (¬77) (أَحْمَرًا (¬78) جَسِيمًا (¬79)) (¬80) (جَعْدًا قَطَطًا (¬81) أَعْوَرَ الْعَيْنِ الْيُمْنَى) (¬82) (كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ (¬83)) (¬84) (وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلٍ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ , فَقُلْتُ مَنْ هَذَا؟ , فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ) (¬85) (وَأَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا ابْنُ قَطَنٍ) (¬86) "
¬_________
(¬1) (الرَّهْطُ): عَدَدٌ مِنَ الرِّجَالِ مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَى عَشَرَةٍ , قَالَ الْقَزَّازُ: وَرُبَّمَا جَاوَزُوا ذَلِكَ قَلِيلًا.
(¬2) الْأُطُم: البناء المرتفع.
(¬3) أَيْ: قَارَبَ الْبُلُوغ.
(¬4) (خ) 1289
(¬5) قَوْله: (أَشْهَد أَنَّك رَسُول الْأُمِّيِّينَ) فِيهِ إِشْعَار بِأَنَّ الْيَهُود الَّذِينَ كَانَ اِبْن صَيَّاد مِنْهُمْ كَانُوا مُعْتَرِفِينَ بِبَعْثَةِ رَسُول اللَّه - صلى الله عليه وسلم -، لَكِنَّهم يَدَّعُونَ أَنَّهَا بَعْثةٌ مَخْصُوصَة بِالْعَرَبِ، وَفَسَاد حُجَّتهمْ وَاضِح جِدًّا، لِأَنَّهُمْ إِذَا أَقَرُّوا بِأَنَّهُ رَسُول اللَّه اِسْتَحَالَ أَنْ يَكْذِب عَلَى اللَّهِ، فَإِذَا اِدَّعَى أَنَّهُ رَسُوله إِلَى الْعَرَب وَإِلَى غَيْرهَا تَعَيَّنَ صِدْقه، فَوَجَبَ تَصْدِيقه. (فتح) - (ج 9 / ص 291)
(¬6) (خ) 2890
(¬7) أَيْ: تَرَكَهَ , وقد كان مُمْسِكًا به كما تقدم. ع
(¬8) (خ) 1289
(¬9) (حم) 14998 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
(¬10) (م) 2925
(¬11) (خ) 1289
(¬12) الدَّرْمَك: هُوَ الدَّقِيق الْحُوَّارِيّ الْخَالِص الْبَيَاض. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 317)
(¬13) أَيْ أَنَّهَا فِي الْبَيَاض دَرْمَكَة، وَفِي الطِّيب مِسْك. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 317)
(¬14) (م) 2928
(¬15) أَيْ: أَخْفَيْت لَك شَيْئًا. (فتح) - (ج 9 / ص 291)
(¬16) (خ) 1289
(¬17)
[ الدخان/10]
(¬18) (ت) 2249
(¬19) روى الْبَزَّارِ وَالطَّبَرَانِيِّ فِي " الْأَوْسَط " مِنْ حَدِيث زَيْد اِبْن حَارِثَة قَالَ " كَانَ النَّبِيّ - صلى الله عليه وسلم - خَبَّأَ لَهُ سُورَة الدُّخَان " , وَكَأَنَّهُ أَطْلَقَ السُّورَة وَأَرَادَ بَعْضهَا، فَإِنَّ عِنْد أَحْمَد عَنْ عَبْد الرَّزَّاق فِي حَدِيث الْبَاب: " وَخَبَّأْت لَهُ: يَوْم تَأْتِي السَّمَاء بِدُخَانٍ مُبِينٍ " وَحَكَى أَبُو مُوسَى الْمَدِينِيّ أَنَّ السِّرّ فِي اِمْتِحَان النَّبِيّ - صلى الله عليه وسلم - لَهُ بِهَذِهِ الْآيَة , الْإِشَارَة إِلَى أَنَّ عِيسَى ابْن مَرْيَم يَقْتُل الدَّجَّال بِجَبَلِ الدُّخَّان، فَأَرَادَ التَّعْرِيض لِابْنِ الصَّيَّاد بِذَلِكَ , وَأَمَّا جَوَاب اِبْن صَيَّاد بِالدُّخِّ فَقِيلَ: إِنَّهُ اِنْدَهَشَ فَلَمْ يَقَع مِنْ لَفْظ الدُّخَان إِلَّا عَلَى بَعْضه. فتح الباري - (ج 9 / ص 291)
(¬20) خَسَأْتُ الْكَلْبَ: بَعَّدْتُهُ , وخَاسِئِينَ مُبْعَدِينَ.
(¬21) أَيْ: قَدْر أَمثَالك مِنْ الْكُهَّان الَّذِينَ يَحْفَظُونَ مِنْ إِلْقَاء شَيَاطِينهمْ مَا يَحْفَظُونَهُ مُخْتَلَطًا صِدْقه بِكَذِبِهِ. (فتح) (ج9ص291)
(¬22) (خ) 1289
(¬23) (م) 2924 , (حم) 3610
(¬24) أي: خائفا.
(¬25) (حم) 14998
(¬26) أَيْ: يَخْدَع اِبْن صَيَّاد وَيَتَغَفَّلهُ لِيَسْمَع شَيْئًا مِنْ كَلَامه، وَيَعْلَم هُوَ وَالصَّحَابَة حَاله فِي أَنَّهُ كَاهِن أَمْ سَاحِر وَنَحْوهمَا , وَفِي الحديث كَشْف أَحْوَال مَنْ تُخَاف مَفْسَدَته , وَفِيهِ كَشْف الْإِمَام الْأُمُور الْمُهِمَّة بِنَفْسِهِ. فتح الباري (ج9 ص291)
(¬27) القطيفة: كساء أو فِراش له أهداب ..
(¬28) (الزَّمْزَمَة): صَوْت خَفِيّ لَا يَكَادُ يُفْهَم.
(¬29) من رواية (حم): 14998 وقال الشيخ شعيب الأرنؤوط: إسناده على شرط مسلم.
(¬30) أَيْ: نَهَضَ مِنْ مَضْجَعه وَقَامَ.
(¬31) (خ) 1289
(¬32) (حم) 14998 , (خ) 1289
(¬33) (خ) 5821
(¬34) (م) (2946) , (حم) 16298
(¬35) عند (ك) 64 , انظر الصَّحِيحَة: 3081
(¬36) (حم) 14144 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: صحيح.
(¬37) (خ) 6712
(¬38) قَوْله: (مَا مِنْ نَبِيّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمه، لَقَدْ أَنْذَرَ نُوح قَوْمه) هَذَا الْإِنْذَار لِعِظَمِ فِتْنَته وَشِدَّة أَمْرهَا. فتح الباري
(¬39) (خ) 2892
(¬40) (ت) 2234 , (خ) 2892
(¬41) (خ) 5821
(¬42) (جة) 4077 , (خ) 2892
(¬43) (ت) 2235 , (حم) 23722
(¬44) (خ) 6712 , (م) 2933
(¬45) (الظَّفَرَة): جِلْدَة تُغْشِي الْبَصَر، وَقَالَ الْأَصْمَعِيّ: لَحْمَة تَنْبُت عِنْد الْمَآقِي. (النووي - ج 9 / ص 326)
(¬46) (حم) 23327 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
(¬47) أي: بارزة.
(¬48) أَيْ: عَمِيقَة , وهذه الجملة في (د) 4320 , وانظر صَحِيح الْجَامِع: 2459
(¬49) (حم): 21173 , انظر صَحِيح الْجَامِع: 3401 , الصَّحِيحَة: 1863، وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.
(¬50) (خ) 6712 , (م) 2933
(¬51) (حم) 13168 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح , (خ) 6712
(¬52) (م) 2933 , (ت) 2245
(¬53) (حم) 13168 , (م) 2933
(¬54) (حم): 20417 , وصححها الألباني في قصة الدجال ص70 , وقال شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح
(¬55) الهِجان: الشديد البياض , والأزهر بمعناه.
(¬56) قال الشيخ الألباني في الصحيحة: 1193: (الأصَلة): الحية العظيمة الضخمة القصيرة , والعرب تشبه الرأس الصغير الكثير الحركة برأس الحية. كما في النهاية , والحديث صريح في أن الدجال الأكبر من البشر , وهو من الأدلة على بطلان تأويلهم بأنه ليس بشخص , وإنما هو رمز للحضارة الأوربية وزخارفها وفتنها , فالدجال بشر , وفتنته أكبر من ذلك. أ. هـ
وهذه القطعة من رواية (حم): 2148
(¬57) (حم) 2148 , انظر الصحيحة: 1193
(¬58) (حم) 3546 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح , وانظر كتاب الإسراء والمعراج للألباني ص75
(¬59) أَيْ: شعر رأسه مُتَكَسِّرٌ من الجعودة , مثل الرمل الذي تهب عليه الريح فيصير له حُبُك.
(¬60) (حم) 23207 , انظر الصَّحِيحَة: 2808
(¬61) هَذَا يَدُلّ عَلَى قِصَر قَامَة الدَّجَّال، وَقَدْ وَرَدَ فِي حَدِيث تَمِيم الدَّارِيّ فِي شَأْن الدَّجَّال أَنَّهُ أَعْظَم إِنْسَان , وَوَجْه الْجَمْع أَنَّهُ لَا يَبْعُد أَنْ يَكُون قَصِيرًا بَطِينًا عَظِيم الْخِلْقَة , قَالَ الْقَارِي: وَهُوَ الْمُنَاسِب لِكَوْنِهِ كَثِير الْفِتْنَة، أَوْ الْعَظَمَة مَصْرُوفَة إِلَى الْهَيْبَة , وقِيلَ: يَحْتَمِل أَنَّ اللَّه تَعَالَى يُغَيِّرهُ عِنْد الْخُرُوج. عون المعبود - (ج 9 / ص 358)
(¬62) (الأَفْحَج): هُوَ الَّذِي إِذَا مَشَى بَاعَدَ بَيْن رِجْلَيْهِ , فَهُوَ مِنْ جُمْلَة عُيُوبه. عون المعبود - (ج 9 / ص 358)
(¬63) (د) 4320
(¬64) المطايا: جمع مطية , وهي الدابة التي يُركبُ مَطاها , أَيْ: ظهرها.
(¬65) الرِّجس: اسم لكل مستقذر أو عمل قبيح.
(¬66) قال الحاكم في المستدرك: 8612 هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ، وقال الذهبي في التلخيص: على شرط البخاري ومسلم، وقال الألباني في قصة الدجال ص106: وهو كما قالا , وصححه الألباني في صحيح الجامع: 7875
(¬67) (خ) 3256
(¬68) أَيْ: أَسْمَر.
(¬69) (خ) 3255
(¬70) (اللِّمَّة) جَمْعهَا لِمَم , كَقِرْبَةِ وَقِرَب , وَهُوَ الشَّعْر الْمُتَدَلِّي الَّذِي جَاوَزَ شَحْمَة الْأُذُنَيْنِ , فَإِذَا بَلَغَ الْمَنْكِبَيْنِ فَهُوَ (جُمَّة) وَإِذَا قَصُرَتْ عَنْهُمَا فَهِيَ وَفْرَة. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)
(¬71) (خ) 5562 , (م) 169
(¬72) (خ) 3256
(¬73) أَيْ: سَرَّحَهَا بِمُشْطٍ مَعَ مَاء أَوْ غَيْره. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)
(¬74) يُحْتَمَل أَنْ يُرِيد أَنَّهَا تَقْطُر مِنْ الْمَاء الَّذِي سَرَّحَهَا بِهِ لِقُرْبِ تَرْجِيله , وقَالَ الْقَاضِي عِيَاض: وَمَعْنَاهُ عِنْدِي أَنْ يَكُون ذَلِكَ عِبَارَة عَنْ نَضَارَته وَحُسْنه، وَاسْتِعَارَةً لِجَمَالِهِ. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)
(¬75) (خ) 5562 , (م) 169
(¬76) اخْتَلَفَ الْعُلَمَاء فِي سَبَب تَسْمِيَته مَسِيحًا , قَالَ الْوَاحِدِيّ: ذَهَبَ أَبُو عُبَيْد وَاللَّيْث إِلَى أَنَّ أَصْله بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَشِيحًا فَعَرَّبَتْهُ الْعَرَب وَغَيَّرَتْ لَفْظه، كَمَا قَالُوا: مُوسَى وَأَصْله مُوشِى بِالْعِبْرَانِيَّةِ , فَلَمَّا عَرَّبُوهُ غَيَّرُوهُ , فَعَلَى هَذَا لَا اِشْتِقَاق لَهُ , وَذَهَبَ أَكْثَر الْعُلَمَاء إِلَى أنَّهُ مُشْتَقّ , ثُمَّ اِخْتَلَفَ هَؤُلَاءِ , فَحُكِيَ عَنْ اِبْن عَبَّاسرضي الله عنهماأَنَّهُ قَالَ: لِأَنَّهُ لَمْ يَمْسَح ذَا عَاهَة إِلَّا بَرِئَ وَقَالَ إِبْرَاهِيم وَابْن الْأَعْرَابِيّ: الْمَسِيح الصِّدِّيق , وَقِيلَ: لِكَوْنِهِ مَمْسُوح أَسْفَل الْقَدَمَيْنِ لَا أَخْمُص لَهُ، وَقِيلَ: لِمَسْحِ زَكَرِيَّا إِيَّاهُ، وَقِيلَ: لِمَسْحِهِ الْأَرْض , أَيْ: قَطْعهَا، وَقِيلَ: لِأَنَّهُ خَرَجَ مِنْ بَطْن أُمّه مَمْسُوحًا بِالدُّهْنِ، وَقِيلَ: لِأَنَّهُ مُسِحَ بِالْبَرَكَةِ حِين وُلِدَ، وَقِيلَ: لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى مَسَحَهُ , أَيْ: خَلَقَهُ خَلْقًا حَسَنًا , وَقِيلَ غَيْر ذَلِكَ. وَاَللَّه أَعْلَم. شرح النووي على مسلم - (ج 1 / ص 303)
(¬77) (خ) 3256
(¬78) الْأَحْمَر عِنْد الْعَرَب: الشَّدِيد الْبَيَاض مَعَ الْحُمْرَة.
(¬79) أي: ضخم الجسد.
(¬80) (خ) 3257 , (م) 169
(¬81) الْمُرَاد بِهِ شِدَّة جُعُودَة الشَّعْر.
(¬82) (خ) 3256
(¬83) (طَافِيَة) أَيْ: بَارِزَة، وَمَعْنَاهُ أَنَّهَا نَاتِئَة نُتُوء حَبَّة الْعِنَب مِنْ بَيْن أَخَوَاتهَا، وَضَبَطَهُ بَعْض الشُّيُوخ بِالْهَمْزِ (طافئة) فَقَدْ جَاءَ فِي حديث آخَر أَنَّهُ مَمْسُوح الْعَيْن (مَطْمُوسَة) وَلَيْسَتْ جَحْرَاءَ وَلَا نَاتِئَة، وَهَذِهِ صِفَة حَبَّة الْعِنَب إِذَا سَالَ مَاؤُهَا وَهُوَ يُصَحِّح رِوَايَة الْهَمْز. (فتح الباري) - (ج 20 / ص 139)
(¬84) (خ) 5562
(¬85) (خ) 3256
(¬86) (خ) 3257 , (م) 169
ابن صیاد کی خبر اور اس کی دجال سے مشابہت
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند لوگوں (تین سے دس کے درمیان) کے ہمراہ ابن صیاد کے پاس گئے۔ انہوں نے اسے بنو مغالہ کے ایک اونچے قلعے کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوا پایا۔ ابن صیاد تقریباً بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا۔
ابن صیاد کو کچھ بھی خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر مارا، پھر ابن صیاد سے فرمایا: "کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟"
ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں (یعنی عربوں یا ساری انسانیت) کے رسول ہیں۔"
پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: "کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟"
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا: "میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔"
پھر آپ نے اس سے فرمایا: "اے ابن صیاد! تو کیا دیکھتا ہے؟"
اس نے کہا: "میں پانی پر ایک تخت دیکھتا ہوں۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو ابلیس کا تخت سمندر پر دیکھ رہا ہے۔ اور پھر کیا دیکھتا ہے؟"
اس نے کہا: "میں دو سچے اور ایک جھوٹا، یا دو جھوٹے اور ایک سچا دیکھتا ہوں۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تجھ پر معاملہ مشتبہ کر دیا گیا ہے۔"
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "جنت کی مٹی کیسی ہے؟"
اس نے کہا: "ایک سفید خالص آٹا ہے، اے ابوالقاسم! خوشبو دار ہے۔"
آپ نے فرمایا: "تو نے سچ کہا۔"
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "بے شک میں نے تیرے لیے ایک چیز چھپا رکھی ہے۔" (اور آپ نے اس کے لیے یہ آیت چھپائی تھی: "جس دن آسمان ظاہر دھوئیں کو لے آئے گا۔" (الدخان:10))۔
ابن صیاد نے کہا: "وہ 'دخ' ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "خاموش ہو جا! تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔"
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے چھوڑ دو، اگر وہی (دجال) ہے جس کا ہمیں ڈر ہے تو تو اسے قتل نہیں کر سکے گا، اس کا مقابلہ کرنے والا تو عیسیٰ بن مریم ہیں، اور اگر وہ (دجال) نہیں ہے تو تجھے اہل عہد میں سے کسی آدمی کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔"
ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس خوف میں رہے کہ کہیں یہی دجال نہ ہو۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس کھجور کے باغ کی طرف گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ آپ چھپ کر یہ چاہ رہے تھے کہ ابن صیاد سے اس سے پہلے کچھ سن لیں کہ وہ آپ کو دیکھ لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا، وہ اپنی ایک چادر میں لیٹا ہوا تھا جس میں سے کچھ آہٹ کی سی آواز آ رہی تھی۔ ابن صیاد کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا جبکہ آپ کھجور کے تنوں کے پیچھے چھپ رہے تھے۔ اس نے ابن صیاد سے کہا: "اے عبداللہ!" (یہ ابن صیاد کا نام تھا) "یہ محمد ہیں۔" تو ابن صیاد اچانک اٹھ کھڑا ہوا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے کیا ہوا ہے؟ اللہ اسے ہلاک کرے، اگر یہ اسے (میری آمد سے آگاہ نہ کرتی) تو وہ (اپنا حال) واضح کر دیتا۔"
ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ کی اس طرح تعریف کی جیسے اس کے لائق ہے، پھر دجال کا ذکر فرمایا۔ آپ نے فرمایا: "آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کوئی معاملہ دجال سے زیادہ عظیم نہیں ہے۔"
ایک روایت میں ہے: "نہ تو کوئی فتنہ ہوا ہے اور نہ ہی قیامت تک کوئی فتنہ ہوگا جو دجال کے فتنے سے بڑا ہو۔" اور "کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی امت کو کانے جھوٹے (دجال) سے ڈرایا نہ ہو۔ بے شک نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا، اور میں تمہیں ڈراتا ہوں۔ لیکن میں اس بارے میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جو کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی: وہ کہے گا: 'میں تمہارا رب ہوں۔' اور تم جانتے ہو کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے رب (عزوجل) کو موت سے پہلے نہیں دیکھ سکتا۔ اور وہ کانا ہے، اس کی بائیں آنکھ ممسوح (ہموار) ہے، اس پر موٹی جھلی ہے۔"
ایک روایت میں: "اس کی آنکھ ممسوح ہے، نہ ابھری ہوئی ہے اور نہ گہری۔"
اور ایک روایت میں: "اس کی ایک آنکھ ایسی ہے جیسے سبز شیشہ۔"
"اور بے شک تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ اور اس کی آنکھوں کے درمیان 'ک ف ر' لکھا ہوگا، ہر مومن خواہ ان پڑھ ہو یا لکھا پڑھا، اسے پڑھ لے گا۔"
ایک روایت میں: "پڑھنے والا اور نہ پڑھنے والا (سب پڑھ سکیں گے)۔"
"وہ سفید رنگت والا ہے، گویا اس کا سر سانپ کا سر ہے۔ اور گویا اس کے سر کے بال درخت کی شاخیں ہیں، بل کھائی ہوئی، بل کھائی ہوئی، بل کھائی ہوئی (تین بار)۔"
"وہ قد میں چھوٹا اور ٹانگوں میں جھکا ہوا (افحج) ہے۔ اور اس کی سواریوں میں سے کوئی اس کے تابع نہیں ہوگی سوائے گدھے کے، تو وہ گندگی پر گندگی ہے۔"
آپ نے فرمایا: "میں نے رات کو خواب میں خود کو کعبہ کے پاس دیکھا۔ میں نے ایک گندمی رنگت والا آدمی دیکھا، جیسے گندمی رنگ والے مردوں میں سے سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔"
ایک روایت میں: (سرخ رنگت، گھونگریالے بال، چوڑے سینے والا) "اس کے سر کے بال (لمہ) تھے، جیسے تم لموں میں سے سب سے خوبصورت دیکھتے ہو، وہ (لمہ) اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان لٹک رہا تھا، اس نے اس (بال) میں کنگھی کر رکھی تھی، وہ پانی ٹپکا رہا تھا، وہ اپنے ہاتھ دو آدمیوں کے مونڈھوں پر رکھے ہوئے تھا اور بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ مسیح ابن مریم ہیں۔ پھر میں نے ان کے پیچھے ایک آدمی کو دیکھا، سرخ رنگت والا، جسمانی طور پر بہت بڑا، گھونگریالے، بال بالکل گھنگریالے، دائیں آنکھ سے کانا، گویا وہ آنکھ ابھری ہوئی انگور کی گٹھلی ہے، اپنے ہاتھ ایک آدمی کے مونڈھوں پر رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ مسیح دجال ہے۔ اور اس سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والا شخص (خزاعہ قبیلے کا) ابن قطن ہے۔"
---
حاشیہ کے حوالہ جات
(1) الرَّهْطُ: تین سے دس آدمیوں کا گروہ۔ قزاز نے کہا: کبھی اس سے تھوڑا زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔
(2) الْأُطُم: اونچی عمارت/قلعہ۔
(3) یعنی بلوغت کے قریب۔
(4) (خ) 1289: صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الصِّبْيَانِ۔
(5) قول "أَشْهَد أَنَّك رَسُول الْأُمِّيِّينَ" اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہودی جن میں سے ابن صیاد تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اقرار کرتے تھے، لیکن وہ دعویٰ کرتے تھے کہ یہ صرف عربوں کے لیے مخصوص ہے، حالانکہ ان کی حجت بالکل باطل ہے۔ کیونکہ جب وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو یہ محال ہے کہ آپ اللہ پر جھوٹ باندھیں۔ پس جب آپ یہ دعویٰ کریں کہ آپ عرب اور دوسروں کے لیے رسول ہیں تو آپ کا سچا ہونا متعین ہو جاتا ہے، لہذا آپ کی تصدیق واجب ہے۔ (فتح الباری، ج 9/ ص291)
(6) (خ) 2890: صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ۔
(7) یعنی آپ نے اسے چھوڑ دیا، حالانکہ پہلے اسے پکڑے ہوئے تھے۔
(8) (خ) 1289
(9) (حم) 14998: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
(10) (م) 2925: صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب فِي ابن صياد۔
(11) (خ) 1289
(12) الدَّرْمَك: بہت سفید، صاف ستھرا، خالص گندم کا آٹا۔ (شرح نووی علی مسلم، ج9/ص317)
(13) یعنی سفیدی میں (خالص آٹے جیسا) اور خوشبو میں کستوری جیسا۔ (شرح نووی علی مسلم، ج9/ص317)
(14) (م) 2928: صحیح مسلم، کتاب الفتن۔
(15) یعنی میں نے تیرے لیے ایک چیز چھپا رکھی ہے۔ (فتح الباری، ج9/ص291)
(16) (خ) 1289
(17) [الدخان/10]: سورۃ الدخان آیت نمبر 10۔
(18) (ت) 2249: جامع ترمذی، کتاب التفسیر۔
(19) بزار اور طبرانی نے "الأوسط" میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کی ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے سورۃ الدخان چھپائی تھی۔" گویا آپ نے سورۃ کا لفظ استعمال کیا اور اس کا کچھ حصہ مراد لیا۔ کیونکہ باب کی حدیث میں امام احمد کے ہاں عبدالرزاق کی روایت ہے: "اور میں نے اس کے لیے یہ چھپایا: 'جس دن آسمان ظاہر دھوئیں کو لے آئے گا'۔" اور ابو موسیٰ المدنی نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس آیت کے ساتھ اس کی آزمائش کا راز یہ تھا کہ اس بات کی طرف اشارہ کرنا کہ عیسیٰ بن مریم دجال کو "جبل الدخان" پر قتل کریں گے۔ آپ نے ابن صیاد کے سامنے اس کا تعریضاً ذکر کیا۔ رہا ابن صیاد کا "دُخّ" کا جواب، تو کہا جاتا ہے کہ وہ گھبرا گیا تھا اور "دخان" کے لفظ سے صرف ایک جزو (دخ) اس کی سمجھ میں آیا۔ (فتح الباری، ج9/ص291)
(20) خَسَأْتُ الْكَلْبَ: میں نے کتے کو دور بھگایا۔ اور "خَاسِئِينَ" کے معنی ہیں: دور کیے گئے۔
(21) یعنی تیرے جیسے کاہنوں کی حد تک، جو اپنے شیاطین کے القاء سے جو کچھ محفوظ کرتے ہیں وہ سچ اور جھوٹ کا مرکب ہوتا ہے۔ (فتح الباری، ج9/ص291)
(22) (خ) 1289
(23) (م) 2924: صحیح مسلم۔ (حم) 3610: مسند احمد۔
(24) یعنی خائف۔
(25) (حم) 14998
(26) یعنی وہ ابن صیاد کو دھوکہ دے کر اس کی بے خبری میں اس کی کوئی بات سننا چاہتے تھے، تاکہ آپ اور صحابہ اس کے حالات سے واقف ہو سکیں کہ وہ کاہن ہے یا جادوگر یا اس طرح کا کوئی۔ اس حدیث میں اس بات کی تعلیم ہے کہ جس شخص کی فساد انگیزی کا خوف ہو اس کے حالات کی خود تحقیقات کی جائے، اور اس میں یہ بھی ہے کہ امام اہم معاملات کی خود تحقیق کرے۔ (فتح الباری، ج9/ص291)
(27) القطیفہ: ایک کپڑا یا بچھونا جس کے کناروں پر جھالر ہو۔
(28) الزمزمۃ: دھیمی، سمجھ میں نہ آنے والی آواز۔
(29) یہ روایت (حم) 14998 سے ہے۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے کہا ہے کہ اس کی سند شرط مسلم پر ہے۔
(30) یعنی اپنے بستر سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
(31) (خ) 1289: (مذکورہ بالا)۔
(32) (حم) 14998: (مذکورہ بالا)۔ (خ) 1289: (مذکورہ بالا)۔
(33) (خ) 5821: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غَزْوَةِ ذَاتِ السَّلَاسِلِ۔
(34) (م) 2946: صحیح مسلم، کتاب الفتن۔ (حم) 16298: مسند احمد۔
(35) (ك) 64: الکامل فی ضعفاء الرجال۔ الصحیحہ: 3081: سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۔
(36) (حم) 14144: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
(37) (خ) 6712: صحیح بخاری، کتاب أحاديث الأنبياء، باب خُرُوجِ الدَّجَّالِ۔
(38) قول: "کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی قوم کو ڈرایا نہ ہو، بے شک نوح نے اپنی قوم کو ڈرایا" یہ انذار اس لیے ہے کہ اس کی فتنہ انگیزی بہت بڑی اور سخت ہے۔ (فتح الباری)
(39) (خ) 2892: صحیح بخاری، کتاب الفتن۔
(40) (ت) 2234: جامع ترمذی۔ (خ) 2892:
(41) (خ) 5821
(42) (جة) 4077: سنن ابن ماجہ۔ (خ) 2892: (مذکورہ بالا)۔
(43) (ت) 2235: جامع ترمذی۔ (حم) 23722: مسند احمد۔
(44) (خ) 6712 (م) 2933
(45) الظَّفَرَة: آنکھ کے ڈھیلے پر چڑھی ہوئی جھلی۔ اصمعی نے کہا: آنکھ کے کنارے پر اگی ہوئی گوشت کی گانٹھ۔ (شرح نووی علی مسلم، ج9/ص326)
(46) (حم) 23327: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔
(47) یعنی ابھری ہوئی۔
(48) یعنی گہری۔ یہ جملہ (د) 4320 میں ہے۔ نیز دیکھیے صحیح الجامع: 2459۔
(49) (حم) 21173: مسند احمد۔ دیکھیے صحیح الجامع: 3401، الصحیحہ: 1863۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔
(50) (خ) 6712 (م) 2933
(51) (حم) 13168: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔ (خ) 6712
(52) (م) 2933 (ت) 2245: جامع ترمذی۔
(53) (حم) 13168 (م) 2933
(54) (حم) 20417: مسند احمد۔ البانی نے "قصۃ الدجال" (ص70) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ شعیب الارناؤوط نے کہا: اس کا سند صحیح ہے۔
(55) الهِجَان: شدید سفید، اور الأزهر اسی کے معنی میں ہے۔
(56) شیخ البانی نے "الصحیحہ: 1193" میں کہا: (الأصَلة): بڑا موٹا سانپ۔ عرب چھوٹے سر کو جو حرکت میں زیادہ ہو، سانپ کے سر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ حدیث صراحت کرتی ہے کہ دجال اکبر انسانوں میں سے ہے، اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ ان کا تأویل (یہ کہ دجال کوئی شخص نہیں بلکہ یورپی تہذیب اور اس کی فتنہ انگیزیوں کی علامت ہے) باطل ہے۔ بلکہ دجال ایک انسان ہے اور اس کا فتنہ اس سے بڑھ کر ہے۔
(57) (حم) 2148: مسند احمد۔ دیکھیے الصحیحہ: 1193۔
(58) (حم) 3546: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔ نیز دیکھیے کتاب "الاسراء والمعراج" للالبانی (ص75)۔
(59) یعنی اس کے سر کے بال گھونگریالے اور بل کھائے ہوئے ہیں، جیسے ریت پر ہوا چلنے سے بل پڑ جاتے ہیں۔
(60) (حم) 23207: مسند احمد۔ دیکھیے الصحیحہ: 2808۔
(61) یہ دلالت کرتا ہے کہ دجال کا قد چھوٹا ہے۔ تمیم داری کی حدیث میں آیا ہے کہ وہ سب سے بڑا انسان ہے۔ جمع کرنے کی صورت یہ ہے کہ یہ بعید نہیں کہ وہ چھوٹا، موٹا اور بڑی ساخت والا ہو۔ قاری نے کہا: اور یہ اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ فتنہ انگیز ہو، یا عظمت ہیبت کے لیے ہو، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے نکلتے وقت بدل دے۔ (عون المعبود، ج9/ص358)
(62) الْأَفْحَج: وہ شخص جو چلتے وقت اپنی ٹانگوں میں فاصلہ رکھتا ہے، اور یہ اس کی عیبوں میں سے ہے۔ (عون المعبود، ج9/ص358)
(63) (د) 4320: سنن ابی داود۔
(64) المطایا: مطیہ کی جمع، وہ سواری جس پر سوار ہوا جاتا ہے۔
(65) الرِّجْس: ہر گندی چیز یا برے کام کا نام۔
(66) حاکم نے "المستدرک: 8612" میں کہا: یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور ان دونوں (بخاری و مسلم) نے اسے روایت نہیں کیا۔ ذہبی نے "التلخیص" میں کہا: بخاری و مسلم کی شرط پر۔ البانی نے "قصۃ الدجال" (ص106) میں کہا: جیسا انہوں نے کہا۔ البانی نے "صحیح الجامع: 7875" میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
(67) (خ) 3256: صحیح بخاری، کتاب أحاديث الأنبياء، باب ذِكْرِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ۔
(68) یعنی گندمی/سانولا۔
(69) (خ) 3255: صحیح بخاری، کتاب أحاديث الأنبياء۔
(70) اللِّمَّة: اس کی جمع لِمَم ہے۔ یہ وہ بال ہوتے ہیں جو کانوں کی لو تک لٹکے ہوں۔ اگر مونڈھوں تک ہوں تو جُمَّة کہلاتے ہیں، اور اگر ان سے چھوٹے ہوں تو وَفْرَة کہلاتے ہیں۔ (شرح نووی علی مسلم، ج1/ص303)
(71) (خ) 5562: صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (م) 169: صحیح مسلم، کتاب الإيمان۔
(72) (خ) 3256
(73) یعنی پانی یا تیل لگا کر کنگھی کی تھی۔ (شرح نووی علی مسلم، ج1/ص303)
(74) احتمال یہ ہے کہ بال پانی کے قطرے ٹپکا رہے تھے کیونکہ ابھی کنگھی کی تھی۔ قاضی عیاض نے کہا: میرے نزدیک اس کا مطلب اس کی تازگی اور خوبصورتی کی تعبیر ہے، اور اس کے حسن کے لیے استعارہ ہے۔ (شرح نووی علی مسلم، ج1/ص303)
(75) (خ) 5562 (م) 169
(76) علماء نے "مسیح" نام کی وجہ تسمیہ میں اختلاف کیا ہے۔ واحدى نے کہا: ابو عبید اور لیث کا قول ہے کہ اس کی اصل عبرانی میں "مشیحا" ہے، عربوں نے اسے معرب کر کے لفظ بدل دیا۔ اس قول کے مطابق یہ مشتق نہیں ہے۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ یہ مشتق ہے۔ پھر ان میں بھی اختلاف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہیں "مسیح" اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ جس مریض پر ہاتھ پھیرتے تھے وہ شفا یاب ہو جاتا تھا۔ ابراہیم اور ابن الاعرابی نے کہا: "مسیح" صدیق کے معنی میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ممسوح القدم (یعنی تلوے کا ابھار نہ ہونا) تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں زکریا علیہ السلام نے مسح کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے زمین کو مسح کیا (یعنی دور دراز سفر کیا)۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے تیل لگا ہوا تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں پیدائش کے وقت برکت کے لیے مسح کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مسح کیا (یعنی خوبصورت بنایا)۔ اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ (شرح نووی علی مسلم، ج1/ص303)
(77) (خ) 3256
(78) عرب کے ہاں "احمر" سے مراد وہ سفید رنگت ہے جس میں سرخی ہو۔
(79) یعنی بڑے جسم والا۔
(80) (خ) 3257: صحیح بخاری، کتاب أحاديث الأنبياء۔ (م) 169
(81) اس سے مراد بالوں کی شدید گھنگراہٹ ہے۔
(82) (خ) 3256
(83) طَافِيَة: یعنی ابھری ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انگور کی گٹھلی کی طرح دوسری گٹھلیوں کے درمیان سے ابھری ہوئی ہے۔ بعض شیوخ نے اسے طَافِئَة (یعنی مدھم، بجھی ہوئی) پڑھا ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اس کی آنکھ ممسوح (ہموار، نہ ابھری ہوئی) ہوگی۔ یہ روایت ہمز کے ساتھ پڑھنے کی تصدیق کرتی ہے۔ (فتح الباری، ج20/ص139)
(84) (خ) 5562
(85) (خ) 3256
(86) (خ) 3257 (م) 169
عَنْ نَافِعٍ قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ - رضي الله عنهما - يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَشُكُّ أَنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ ابْنُ صَيَّادٍ.
ترجمہ:
حضرت نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: "اللہ کی قسم! مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیح دجال ابن صیاد ہی ہے۔"
[سنن ابوداؤد:4330]
[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج2 ص131]
¬_________
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ:
(خَرَجْنَا حُجَّاجًا أَوْ عُمَّارًا وَمَعَنَا) (¬1) (عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَيَّادٍ , وَكَانَ لَا يُسَايِرُهُ أَحَدٌ وَلَا يُرَافِقُهُ وَلَا يُؤَاكِلُهُ وَلَا يُشَارِبُهُ , وَيُسَمُّونَهُ الدَّجَّالَ) (¬2) (قَالَ: فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا , فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَبَقِيتُ أَنَا وَهُوَ , فَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ وَحْشَةً شَدِيدَةً مِمَّا يُقَالُ عَلَيْهِ , فَجَاءَ بِمَتَاعِهِ فَوَضَعَهُ مَعَ مَتَاعِي , فَقُلْتُ: إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ , فَلَوْ وَضَعْتَهُ تَحْتَ تِلْكَ الشَّجَرَةِ , فَفَعَلَ) (¬3) (فَأَبْصَرَ غَنَمًا , فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَانْطَلَقَ فَاسْتَحْلَبَ (¬4) ثُمَّ أَتَانِي بِلَبَنٍ , فَقَالَ: اشْرَبْ يَا أَبَا سَعِيدٍ) (¬5) (فَقُلْتُ: إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ , وَاللَّبَنُ حَارٌّ - وَمَا بِي إِلَّا أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَشْرَبَ مِنْ يَدِهِ - فَقَالَ يَا أَبَا سَعِيدٍ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا فَأُعَلِّقَهُ بِشَجَرَةٍ ثُمَّ أَخْتَنِقَ (¬6) مِمَّا) (¬7) (يَصْنَعُ النَّاسُ , لَا يُسَايِرُنِي أَحَدٌ , وَلَا يُرَافِقُنِي أَحَدٌ , وَلَا يُشَارِبُنِي أَحَدٌ , وَلَا يُؤَاكِلُنِي أَحَدٌ , وَيَدْعُونِي الدَّجَّالَ) (¬8) (يَا أَبَا سَعِيدٍ , مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مَا خَفِيَ عَلَيْكُمْ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ , أَلَسْتَ مِنْ أَعْلَمِ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -؟ , أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " إِنَّهُ يَهُودِيٌّ " , وَقَدْ أَسْلَمْتُ؟ , وَقَالَ: " هُوَ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ " , وَقَدْ تَرَكْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ؟ , وَقَالَ: " لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مَكَّةَ " , وَقَدْ أَقْبَلْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَأَنَا أُرِيدُ مَكَّةَ؟) (¬9) (وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: " إِنَّهُ أَعْوَرُ " , وَأَنَا صَحِيحٌ؟) (¬10) (قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَمَا زَالَ حَتَّى كَادَ أَنْ يَأْخُذَ فِيَّ قَوْلُهُ (¬11)) (¬12) (ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ , أَمَا وَاللَّهِ لَأُخْبِرَنَّكَ خَبَرًا حَقًّا , وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ) (¬13) (وَأَعْرِفُ مَوْلِدَهُ) (¬14) (وَأَيْنَ هُوَ السَّاعَةَ مِنْ الْأَرْضِ) (¬15) (وَأَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ , وَقِيلَ لِي: أَيَسُرُّكَ أَنَّكَ ذَاكَ الرَّجُلُ؟ , فَقُلْتُ: لَوْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا كَرِهْتُ (¬16) فَقُلْتُ لَهُ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ) (¬17).
¬_________
(¬1) (م) 2927
(¬2) (حم) 11766 , وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.
(¬3) (م) 2927
(¬4) أَيْ: طلب من صاحب الغنم أن يعطيه حليبا.
(¬5) (ت) 2246
(¬6) أَيْ: أَعْصِرُ حَلْقِي بِذَلِكَ الْحَبْلِ وَأَمُوتُ. تحفة الأحوذي - (ج 6 / ص 32)
(¬7) (م) 2927
(¬8) (حم) 11766
(¬9) (م) 2927
(¬10) (حم) 11225 , وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: رجاله ثقات رجال الشيخين.
(¬11) أَيْ: حَتَّى كَادَ أَنْ يُؤَثِّر فِيَّ وَأُصَدِّقهُ فِي أَنَّ مَا يَقُولُهُ النَّاسُ فِي حَقِّهِ مِنْ أَنَّهُ دَجَّالٌ هُوَ كَذِبٌ عَلَيْهِ. تحفة الأحوذي - (ج 6 / ص 32)
(¬12) (م) 2927
(¬13) (ت) 2246
(¬14) (م) 2927
(¬15) (ت) 2246
(¬16) قلت: فإن لم يكن هو فهو بِنِيَّتِه , كما قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: مَثَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ كَمَثَلِ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ .. وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا وَلَمْ يُؤْتِهِ عِلْمًا , فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ يُنْفِقُهُ فِي غَيْرِ حَقِّهِ , وَرَجُلٌ لَمْ يُؤْتِهِ اللَّهُ عِلْمًا وَلَا مَالًا فَهُوَ يَقُولُ لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ هَذَا عَمِلْتُ فِيهِ مِثْلَ الَّذِي يَعْمَلُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَهُمَا فِي الْوِزْرِ سَوَاءٌ. انظر سنن ابن ماجه (4228)
(¬17) (م) 2927 , (ت) 2246
ترجمہ:
حدیث#24
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا: "ہم حج یا عمرے کے لیے نکلے اور ہمارے ساتھ عبداللہ بن صیاد بھی تھا۔ کوئی شخص اس کے ساتھ نہ چلتا، نہ اس کا رفیق بنتا، نہ اس کے ساتھ کھاتا پیتا تھا، اور لوگ اسے دجال کہتے تھے۔"
انہوں نے کہا: "ہم ایک منزل پر اترے، لوگ منتشر ہو گئے اور میں اور وہ (ابن صیاد) رہ گئے۔ مجھے اس سے اس بات کی وجہ سے سخت گھن آئی جو اس کے بارے میں کہا جاتا تھا۔ وہ اپنا سامان لے کر آیا اور اسے میرے سامان کے ساتھ رکھ دیا۔ میں نے کہا: گرمی شدید ہے، اگر تم اسے اس درخت کے نیچے رکھ دو۔ تو اس نے ایسا ہی کیا۔"
"اس نے بکریوں کو دیکھا، پیالہ لیا اور چل دیا اور دودھ دوہا، پھر میرے پاس دودھ لے کر آیا اور کہا: پیو اے ابو سعید!"
"میں نے کہا: گرمی شدید ہے اور دودھ گرم ہے؟ (حقیقت یہ تھی کہ میں اس کے ہاتھ سے پینا نہیں چاہتا تھا)۔ اس نے کہا: اے ابو سعید، میں نے ارادہ کیا تھا کہ ایک رسی لے کر درخت سے لٹک جاؤں اور پھر گلا گھونٹ کر مر جاؤں، اس وجہ سے کہ لوگ کیا کرتے ہیں: کوئی میرے ساتھ نہیں چلتا، کوئی میرا رفیق نہیں بنتا، کوئی میرے ساتھ نہیں پیتا، کوئی میرے ساتھ نہیں کھاتا اور مجھے دجال کہتے ہیں۔"
"اے ابو سعید، کسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اس طرح مخفی نہیں رہی جیسے تم اے گروہ انصار پر مخفی رہی! کیا تم لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سب سے زیادہ جاننے والے نہیں ہو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا: 'وہ یہودی ہے'؟ حالانکہ میں مسلمان ہو چکا ہوں۔ اور آپ نے فرمایا: 'وہ بانجھ ہے، اس کی اولاد نہیں ہوتی'۔ حالانکہ میں نے اپنی اولاد کو مدینہ میں چھوڑا ہے۔ اور آپ نے فرمایا: 'وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہو سکتا'۔ حالانکہ میں مدینہ سے آیا ہوں اور مکہ جانا چاہتا ہوں۔"
"اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'وہ کانا ہے'، اور میں تندرست ہوں؟"
ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ (اتنی دلیلیں دیتا رہا) یہاں تک کہ (اس کی یہ باتیں) مجھ پر اثر کرنے لگیں (اور میں اس کی باتوں کو سچ ماننے لگا کہ لوگ اس کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ جھوٹ ہے)۔"
"پھر اس نے کہا: اے ابو سعید، اللہ کی قسم میں تمہیں ایک سچی خبر ضرور دوں گا۔ اللہ کی قسم! میں اس (دجال) کو جانتا ہوں، میں اس کی پیدائش جانتا ہوں، اور میں جانتا ہوں کہ وہ اس وقت زمین پر کہاں ہے، اور میں اس کے ماں باپ کو جانتا ہوں۔ اور مجھ سے کہا گیا: کیا تجھے خوشی ہوگی کہ تو وہی شخص ہے؟ تو میں نے کہا: اگر مجھ پر پیش کیا جائے تو میں ناپسند نہیں کروں گا۔"
ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس سے کہا: تیرا دن برا ہو (یعنی تجھے خرابی ہو)!"
---
حوالہ وحاشیہ:
1. (م) 2927: صحیح مسلم۔
2. (حم) 11766: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
3. (م) 2927: صحیح مسلم۔
4. استحلب: یعنی بکریوں کے مالک سے دودھ دوہنے کی اجازت طلب کی۔
5. (ت) 2246: جامع ترمذی۔
6. اختنق: یعنی اپنا گلا اس رسی سے دبا کر مر جاؤں۔ (تحفۃ الاحوذی)
7. (م) 2927: صحیح مسلم۔
8. (حم) 11766: مسند احمد۔
9. (م) 2927: صحیح مسلم۔
10. (حم) 11225: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے کہا: اس کے راوی بخاری و مسلم کے ثقہ راوی ہیں۔
11. "حتى كاد أن يأخذ في قوله": یعنی یہاں تک کہ اس کی بات مجھ پر اثر کرنے لگی اور میں یہ تسلیم کرنے لگا کہ لوگوں کا اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ دجال ہے، اس پر جھوٹ ہے۔ (تحفۃ الاحوذی)
12. (م) 2927: صحیح مسلم۔
13. (ت) 2246: جامع ترمذی۔
14. (م) 2927: صحیح مسلم۔
15. (ت) 2246: جامع ترمذی۔
16. میں (شارح) کہتا ہوں: اگرچہ وہ دجال نہیں تھا، لیکن اس کی نیت کے اعتبار سے وہ (برائی میں) شامل ہے۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس امت کی مثال چار آدمیوں کی سی ہے..." اور فرمایا: "اور ایک شخص جسے اللہ نے مال دیا لیکن علم نہیں دیا، تو وہ اپنے مال میں بے راہ روی کرتا ہے، اسے ناحق راستوں میں خرچ کرتا ہے۔ اور ایک شخص جسے اللہ نے نہ علم دیا نہ مال، تو وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس اس شخص جیسا مال ہوتا تو میں بھی اسی طرح کرتا جیسا یہ کر رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو وہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔" (سنن ابن ماجہ: 4228)
17. (م) 2927: صحیح مسلم۔ (ت) 2246: جامع ترمذی۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ - رضي الله عنهما - قَالَ:
فَقَدْنَا ابْنَ صَيَّادٍ يَوْمَ الْحَرَّةِ (¬1). (¬2)
¬_________
(¬1) (يَوْم الْحَرَّة): هُوَ يَوْم غَلَبَةِ يَزِيد بْن مُعَاوِيَة عَلَى أَهْل الْمَدِينَة وَمُحَارَبَته إِيَّاهُمْ، وَقَالَ الْحَافِظ فِي الْفَتْح: وَهَذَا الأثر يُضْعِف مَا تَقَدَّمَ أَنَّهُ مَاتَ بِالْمَدِينَةِ وَأَنَّهُمْ صَلَّوْا عَلَيْهِ وَكَشَفُوا عَنْ وَجْهه فتح الباري لابن حجر - (ج 20 / ص 418)
(¬2) (د) 4332
ترجمہ:
حدیث#25
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
"ہم نے واقعۂ حرہ کے دن ابن صیاد کو (لاپتہ/غائب) پایا۔"
---
(تشریحی نوٹس)
1. یوم الحرة: وہ دن جب یزید بن معاویہ نے اہل مدینہ پر غلبہ پایا اور ان سے جنگ کی۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا: یہ اثر (روایت) اس قول کو کمزور کرتی ہے جو پہلے بیان ہوا کہ وہ مدینہ میں فوت ہوا اور لوگوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کے چہرے سے کفن ہٹا کر دیکھا۔ (فتح الباری لابن حجر، ج 20 / ص 418)
2. یہ روایت سنن ابو داود (حدیث نمبر: 4332) میں ہے۔
كَيْفِيَّةُ ظُهُورِ الدَّجَّال
عَنِ ابْنِ عُمَرَ - رضي الله عنهما - قَالَ:
(لَقِيتُ ابْنَ صَائِدٍ مَرَّتَيْنِ , فَأَمَّا مَرَّةً فَلَقِيتُهُ وَمَعَهُ بَعْضُ أَصْحَابِهِ , فَقُلْتُ لِبَعْضِهِمْ: نَشَدْتُكُمْ بِاللَّهِ , إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ لَتَصْدُقُنِّي؟ , قَالُوا: نَعَمْ) (¬1) (فَقُلْتُ: هَلْ تُحَدِّثُونِي أَنَّهُ هُوَ؟ , قَالُوا: لَا وَاللَّهِ) (¬2) (فَقُلْتُ: كَذَبْتُمْ , وَاللَّهِ لَقَدْ حَدَّثَنِي بَعْضُكُمْ - وَهُوَ يَوْمَئِذٍ أَقَلُّكُمْ مَالًا وَوَلَدًا - أَنَّهُ لَا يَمُوتُ حَتَّى يَكُونَ أَكْثَرَكُمْ مَالًا وَوَلَدًا , وَهُوَ الْيَوْمَ كَذَلِكَ) (¬3) (قَالَ: فَتَحَدَّثْنَا ثُمَّ فَارَقْتُهُ) (¬4) (ثُمَّ لَقِيتُهُ مَرَّةً أُخْرَى) (¬5) (وَقَدْ نَفَرَتْ عَيْنُهُ (¬6) فَقُلْتُ لَهُ: مَتَى فَعَلَتْ عَيْنُكَ مَا أَرَى؟ , قَالَ: لَا أَدْرِي , قُلْتُ: لَا تَدْرِي وَهِيَ فِي رَأْسِكَ؟) (¬7) (فَقَالَ: مَا تُرِيدُ مِنِّي يَا ابْنَ عُمَرَ؟) (¬8) (إِنْ شَاءَ اللَّهُ خَلَقَهَا فِي عَصَاكَ هَذِهِ) (¬9) (وَنَخَرَ (¬10) كَأَشَدِّ نَخِيرِ حِمَارٍ سَمِعْتُهُ قَطُّ) (¬11) (وَانْتَفَخَ حَتَّى سَدَّ الطَّرِيقَ) (¬12) (فَزَعَمَ أَصْحَابِي أَنِّي ضَرَبْتُهُ بِعَصًا كَانَتْ مَعِي حَتَّى تَكَسَّرَتْ , وَأَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ , فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ - رضي الله عنها - فَحَدَّثْتُهَا , فَقَالَتْ لِي: رَحِمَكَ اللَّهُ مَا أَرَدْتَ مِنْ ابْنِ صَائِدٍ؟) (¬13) (أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: " إِنَّمَا يَخْرُجُ الدَّجَّالُ) (¬14) (عَلَى النَّاسِ مِنْ غَضْبَةٍ يَغْضَبُهَا؟) (¬15) "
¬_________
(¬1) (حم) 26469 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.
(¬2) (م) 2932
(¬3) (حم) 26469
(¬4) (م) 2932
(¬5) (حم) 26469
(¬6) أَيْ: وَرِمَتْ وَنَتَأَتْ. (النووي - ج 9 / ص 321)
(¬7) (م) 2932
(¬8) (حم) 26469
(¬9) (م) 2932
(¬10) النَّخِيرُ: صوتُ الأَنفِ , نَخَرَ الإِنسانُ والحمار والفرس بأَنفه نَخِيراً , أَيْ: مدّ الصوت والنفَس في خَياشِيمه. لسان العرب - (ج 5 / ص 197)
(¬11) (حم) 26469
(¬12) (حم) 26468 , وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح , (م) 2932
(¬13) (م) 2932
(¬14) (حم) 26468 , (م) 2932
(¬15) (حم) 26469 , (م) 2932
ترجمہ:
حدیث#26
دجال کے ظہور کی کیفیت
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا: "میں ابن صیاد سے دو مرتبہ ملا۔ پہلی بار جب میں اس سے ملا تو اس کے ساتھ اس کے کچھ ساتھی تھے، تو میں نے ان میں سے ایک سے کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، اگر میں تم سے کچھ پوچھوں تو کیا تم سچ بتاؤ گے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔"
"تو میں نے کہا: کیا تم مجھے یہ بتاتے ہو کہ یہی (دجال) ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم!"
"تو میں نے کہا: تم نے جھوٹ کہا، اللہ کی قسم! تم میں سے ایک نے مجھے بتایا تھا - اور اس وقت وہ تم سب سے کم مال و اولاد والا تھا - کہ وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ تم سب سے زیادہ مال و اولاد والا نہ ہو جائے، اور آج وہ ایسا ہی ہے۔"
انہوں نے کہا: پھر ہم نے بات چیت کی اور میں اس سے جدا ہو گیا۔"
"پھر میں اس سے دوسری بار ملا، اور اس کی آنکھ پھول چکی تھی۔ میں نے اس سے کہا: تیری آنکھ نے کب یہ کیا جو میں دیکھ رہا ہوں؟ اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم۔ میں نے کہا: تجھے معلوم نہیں، حالانکہ یہ تیرے سر پر ہے؟"
"تو اس نے کہا: اے ابن عمر، تو مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ اگر اللہ چاہے تو اس نے یہ (آنکھ) تیری اس لاٹھی میں پیدا کر دی۔"
"اور اس نے ایسی سخت آواز نکالی جیسے میں نے کبھی کسی گدھے کی سانس کی آواز سنی ہو، اور وہ پھول گیا یہاں تک کہ اس نے راستہ بند کر دیا۔"
"میرے ساتھیوں کا گمان تھا کہ میں نے اسے اپنی ایک لاٹھی سے مارا یہاں تک کہ وہ ٹوٹ گئی، لیکن میں اللہ کی قسم! مجھے احساس تک نہیں ہوا۔ پھر میں ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور انہیں یہ واقعہ سنایا۔ انہوں نے مجھ سے کہا: اللہ تم پر رحم کرے، تم ابن صیاد سے کیا چاہتے تھے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'دجال اس وقت لوگوں کے پاس آئے گا جب وہ ایک غصے کی حالت میں ہو گا؟'"
---
(تشریحی نوٹس)
1. (حم) 26469: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
2. (م) 2932: صحیح مسلم۔
3. (حم) 26469: مسند احمد۔
4. (م) 2932: صحیح مسلم۔
5. (حم) 26469: مسند احمد۔
6. نفرت عينه: یعنی اس کی آنکھ سوج گئی اور ابھر آئی۔ (شرح نووی علی مسلم)
7. (م) 2932: صحیح مسلم۔
8. (حم) 26469: مسند احمد۔
9. (م) 2932: صحیح مسلم۔
10. النَّخِيرُ: ناک سے نکلنے والی آواز۔ انسان، گدھا یا گھوڑا اپنی ناک سے آواز نکالتا ہے۔ (لسان العرب)
11. (حم) 26469: مسند احمد۔
12. (حم) 26468: مسند احمد۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ (م) 2932: صحیح مسلم۔
13. (م) 2932: صحیح مسلم۔
14. (حم) 26468: مسند احمد۔ (م) 2932: صحیح مسلم۔
15. (حم) 26469: مسند احمد۔ (م) 2932: صحیح مسلم۔
مَكَانُ خُرُوجِ الدَّجَّال
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -:
" إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ (¬1) بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ، فَيَعِيثُ يَمِينًا وَيَعِيثُ شِمَالًا (¬2) يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا " (¬3)
¬_________
(¬1) الخَلَّة: مَا بَيْن الْبَلَدَيْنِ. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 327)
(¬2) الْعَيْث: الْفَسَاد، أَوْ أَشَدّ الْفَسَاد وَالْإِسْرَاع فِيهِ. شرح النووي على مسلم - (ج 9 / ص 327)
(¬3) (جة) 4075 , (م) 2937
ترجمہ:
حدیث#27
دجال کے نکلنے کی جگہ
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بے شک وہ (دجال) شام اور عراق کے درمیان ایک جگہ سے نکلے گا، پھر وہ دائیں اور بائیں طرف فساد پھیلائے گا۔ اے اللہ کے بندو! تم ثابت قدم رہو۔"
---
(تشریحی نوٹس)
1. الخَلَّة: دو علاقوں یا شہروں کے درمیان کی جگہ۔ (شرح نووی علی مسلم)
2. الْعَيْث: فساد، یا شدید اور تیز فساد۔ (شرح نووی علی مسلم)
3. یہ حدیث سنن ابن ماجہ (4075) اور صحیح مسلم (2937) میں موجود ہے۔
دجال "المسیح الدجال" (جھوٹا مسیح) کہلاتا ہے، جو قیامت کی 10 بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کا فتنہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا۔ ہر نبی نے اپنی امت کو اس سے ڈرایا، جیسا کہ صحیح بخاری (حدیث 3057) میں ہے۔
لفظی معنی: "دجل" (فریب) سے مشتق، کیونکہ یہ حق کو باطل سے ڈھانپے گا۔
2. ظہور سے پہلے کی علامات
دجال کے خروج سے پہلے درج ذیل حالات پیدا ہوں گے:
3 سال قحط:
پہلا سال: آسمان ایک تہائی بارش، زمین ایک تہائی پیداوار روک لے گی۔
دوسرا سال: آسمان دو تہائی بارش، زمین دو تہائی پیداوار روک لے گی۔
تیسرا سال: مکمل خشک سالی، جس سے چوپائے ہلاک ہو جائیں گے۔ زمین "تانبے" اور آسمان "شیشے" کی مانند ہو جائے گا۔ (صحیح مسلم، کتاب الفتن: حدیث 2937)۔
امام مہدی کا دور: دجال امام مہدی کے زمانے میں ظاہر ہوگا۔ جب اس کے نکلنے کی افواہیں اٹھیں گی، امام مہدی تحقیقات کے لیے سوار بھیجیں گے (صحیح بخاری: 7129)۔
3. مقام ظہور
احادیث میں چار مقامات بتائے گئے ہیں، جن کی تطبیق یوں کی گئی ہے:
شام اور عراق کے درمیان گھاٹی (سنن ابی داؤد: 4331)۔
اصفہان (ایران) کا یہودیہ گاؤں، جہاں اس کے 70,000 یہودی پیروکار ہوں گے (صحیح مسلم: 2928)۔
خوز و کرمان (ایران)۔
- خراسان (افغانستان/ایران) (صحیح بخاری: 7131)۔تطبیق: پہلے شام-عراق کی سرحد پر ظاہر ہوگا، پھر اصفہان جائے گا، اور آخر میں خراسان سے خروج کرے گا (کتاب "تحفۃ الالمعی")۔
4. جسمانی خصوصیات
رسول اللہ ﷺ کے خواب اور احادیث میں دجال کا حلیہ یوں بیان ہوا ہے:
آنکھیں: بائیں آنکھ سے کانا، دائیں آنکھ "پھولے ہوئے انگور" جیسی۔ دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ر (کافر) لکھا ہوگا، جسے ہر مسلمان پڑھ لے گا (صحیح بخاری: 7131، صحیح مسلم: 2933)۔
جسم: دراز قد، سرخ رنگت، گھنگھریالے بال، بھاری بھرکم جسم، چوڑی پیشانی (صحیح بخاری: 7129)۔
دیگر علامات: بانجھ (اولاد نہیں ہوگی)، گدھے پر سوار ہوگا جس کے کانوں کا درمیانی فاصلہ 40 ہاتھ ہوگا (صحیح مسلم: 2937)۔
5. فتنے اور شیطانی معجزات
دجال لوگوں کو جھوٹے معجزات سے گمراہ کرے گا:
آسمان سے بارش برسائے گا اور زمین سے سبزہ اگائے گا۔
مردے کو زندہ کرے گا (ایک شخص کو قتل کرکے پھر زندہ کرنا)۔
اس کے پاس "جنت" اور "جہنم" ہوگی، مگر اس کی جنت درحقیقت جہنم ہوگی (صحیح مسلم: 2937)۔
مکہ و مدینہ میں داخلہ ممنوع: فرشتے ننگی تلواروں سے روکیں گے۔ مدینہ کے باہر "دلدلی زمین" میں پڑاؤ کرے گا، جس سے مدینہ میں تین زلزلے آئیں گے اور منافق بھاگ کر اس سے مل جائیں گے (صحیح بخاری: 1881)۔
6. مدت قیام اور انجام
مدت: زمین پر 40 دن رہے گا:
پہلا دن = 1 سال کے برابر۔
دوسرا دن = 1 ماہ کے برابر۔
تیسرا دن = 1 ہفتے کے برابر۔
باقی ایام عام دنوں کی طرح (صحیح مسلم: 2937)۔
اختتام: حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہو کر "مقام لُدّ" (فلسطین) میں دجال کو قتل کریں گے۔ دجال "پانی میں گھلنے والے نمک" کی طرح غائب ہو جائے گا (صحیح مسلم: 2937، سنن ابی داؤد: 4321)۔
7. احتیاطی تدابیر
نبی کریم ﷺ نے دجال کے فتنے سے بچنے کے لیے یہ طریقے بتائے:
سورۃ الکہف پڑھنا: خصوصاً ابتدائی 10 آیات (صحیح مسلم: 809)۔
دعا: نماز میں پڑھی جانے والی دعا: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ (اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے) (صحیح بخاری: 6368، صحیح مسلم: 590)۔
مکہ و مدینہ میں سکونت: دجال وہاں داخل نہیں ہو سکے گا (صحیح بخاری: 1881)۔
8. اہم تنبیہ
وقت ظہور: دجال کے عین ظہور کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ احادیث میں کوئی خاص تاریخ نہیں بتائی گئی، البتہ اس سے پہلے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا جیسی بڑی نشانی ظاہر ہوگی (صحیح مسلم: 2941)۔
عقیدہ: جو دجال کے وجود یا خروج کا انکار کرے، وہ کافر ہے: "مَن کَذَّبَ بِالدَّجَّالِ فَقَدْ کَفَرَ" (سنن ابی داؤد: 4331)۔
خلاصہ جدول:
| پہلو | تفصیلات | احادیث کے حوالے |
|---|---|---|
| ظہور سے پہلے | 3 سال قحط، امام مہدی کا دور | صحیح مسلم: 2937 |
| مقام ظہور | شام-عراق سرحد → اصفہان → خراسان | سنن ابی داؤد: 4331 |
| مدت قیام | 40 دن (پہلا دن=1 سال، دوسرا=1 ماہ، تیسرا=1 ہفتہ) | صحیح مسلم: 2937 |
| اختتام | حضرت عیسیٰؑ کے ہاتھوں "مقام لُدّ" میں قتل | صحیح مسلم: 2937 |
| بچاؤ کے طریقے | سورۃ الکہف پڑھنا، نماز میں دعا، مکہ/مدینہ میں سکونت | صحیح بخاری: 6368 |
دجال کے ظہور سے قبل پیش آنے والی تمام نشانیاں احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں بالترتیب درج ذیل ہیں:
۱۔ عام فتنے اور اخلاقی انحطاط
جھوٹ کی کثرت: لوگ سچے گواہوں کو جھٹلائیں گے، جھوٹے گواہی دیں گے (مسند احمد: ۷۹۰۲)۔
امانت داری کا خاتمہ: امانتیں لوٹائی جائیں گی، غداری عام ہوگی (صحیح بخاری: ۶۴۹۶)۔
رشوت خوری کا فروغ: "رِشْوَة" کو "ہدیہ" کا نام دیا جائے گا (سنن ترمذی: ۱۹۴۸)۔
۲۔ قحط سالی اور معاشی تباہی (۳ سال)
پہلا سال: آسمان ۱/۳ بارش روک لے گا، زمین ۱/۳ پیداوار (صحیح مسلم: ۲۹۳۷)۔
دوسرا سال: آسمان ۲/۳ بارش، زمین ۲/۳ پیداوار روکے گی (صحیح ابن حبان: ۶۷۶۴)۔
تیسرا سال: مکمل خشک سالی، تمام جانور مر جائیں گے۔ زمین تانبے اور آسمان پیتل کی طرح ہو جائے گا (صحیح مسلم: ۲۹۳۷)۔
۳۔ بڑی جنگیں اور فسادات
فتنۂ حرہ: مدینہ میں قتلِ عام ہوگا، خون بہے گا (صحیح مسلم: ۲۹۰۵)۔
حجاز میں جنگ: ایک شخص (حسنی) کو قتل کیا جائے گا جس کے خون سے مکہ و مدینہ روشن ہو جائیں گے (الفتن لنعیم بن حماد: ۲۶۴)۔
۴۔ امام مہدی کا ظہور
وقت: ماہِ رمضان میں، مکہ میں ظہور ہوگا (سنن ابی داؤد: ۴۲۸۲)۔
بیعت: لوگ مکہ میں ان سے بیعت کریں گے (مسند احمد: ۱۰۸۹)۔
دجال کی اطلاعات: امام مہدی تحقیقات کے لیے دستے بھیجیں گے (صحیح مسلم: ۲۹۳۷)۔
۵۔ دجال سے براہِ راست متعلقہ علامات
خراسان سے سیاہ پرچموں والی فوج: ۳۰۰ جھوٹے پیدا ہوں گے، سب دجال کے دعویدار ہوں گے (صحیح مسلم: ۲۹۲۸)۔
اصفہان سے ۷۰,۰۰۰ یہودیوں کا خروج: یہ دجال کے پیروکار ہوں گے (صحیح مسلم: ۲۹۴۴)۔
دجال کا پہلا ظہور: شام و عراق کی سرحد پر "جَصّاصہ" نامی گاؤں سے (سنن ابی داؤد: ۴۳۲۰)۔
۶۔ آسمانی علامات
سورج کا مغرب سے طلوع: توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا (صحیح مسلم: ۲۹۴۱)۔
دھوئیں کا ظہور: ۴۰ دن تک زمین پر چھایا رہے گا (صحیح مسلم: ۲۹۴۵)۔
۷۔ دعا اور احتیاط
نبی ﷺ نے فرمایا:
"جس نے سورۃ الکہف کی ابتدائی ۱۰ آیات یاد کیں، وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا" (صحیح مسلم: ۸۰۹)۔
خلاصہ جدول:
| مرتبہ | واقعہ | تفصیل | حدیث حوالہ |
|---|---|---|---|
| ۱ | اخلاقی انحطاط | جھوٹ، خیانت، رشوت عام ہوگی | صحیح بخاری: ۶۴۹۶ |
| ۲ | ۳ سالہ قحط | پیداوار و بارش کا بتدریج خاتمہ | صحیح مسلم: ۲۹۳۷ |
| ۳ | جنگیں | حجاز میں قتلِ عام | صحیح مسلم: ۲۹۰۵ |
| ۴ | امام مہدی کا ظہور | مکہ میں ماہِ رمضان | سنن ابی داؤد: ۴۲۸۲ |
| ۵ | دجال کے دعویدار | خراسان سے ۳۰۰ جھوٹے خروج کریں گے | صحیح مسلم: ۲۹۲۸ |
| ۶ | یہودیوں کا خروج | اصفہان سے ۷۰,۰۰۰ دجال کے ساتھ ملیں گے | صحیح مسلم: ۲۹۴۴ |
| ۷ | دجال کا پہلا ظہور | شام-عراق سرحد پر | سنن ابی داؤد: ۴۳۲۰ |
| ۸ | آسمانی نشانیاں | سورج مغرب سے نکلے گا، دھواں چھائے گا | صحیح مسلم: ۲۹۴۱ |
خلاصة حكم المحدث : صحيح
[ صحيح ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 3277 المحدث : الألباني]
خلاصة حكم المحدث : صحيح الإسناد
تفسیر سورة طه:١٥-١٦

