Monday 28 May 2012

دجال ۔۔۔ کون؟ کب؟ کہاں؟ اور کیسا؟

دجال کے معنیٰ ہیں حقیقت کو چھپانے والا، سب سے بڑا دھوکے باز اور چالباز۔ دجال کا مادہ دجل ہے جس کے معنیٰ ہیں خلط ملط کر دینا، تلبیس یعنی شیطانی چالوں سے دوسروں کو دھوکے اور التباس میں ڈالنا، ملمع سازی کرنا، حقیقت کو چھپانا، جھوٹ بولنا اور غلط بیانی کرنا۔ گویا دجال میں یہ تمام منفی اوصاف پائے جاتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں دجال سے مراد جھوٹا مسیح (المسیح الدجال) ہے جو قیامت کی اہم نشانیوں میں سے ایک ہے۔ وہ آخری زمانے میں ظاہر ہوگا اور نبوت اور خدائی کا دعویٰ کرے گا۔
خروج دجّال کے متعلق عقیدہ رکھنا کتنا اہم ہے اور فتنۂ دجّال کی کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حدیث کی تمام مستند کتابوں میں اس کا ذکر تواتر سے موجود ہے۔
امام بخاری نے دجّال پر ایک خصوصی باب مختص کیا ہے اور صحیح بخاری میں 51 مرتبہ دجّال کا ذکر آیا ہے۔
صحیح مسلم میں بھی دجّال پر ایک باب قائم ہے اور صحیح مسلم میں لفظ دجّال 65 مرتبہ مذکور ہے۔ 
سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی میں بھی دجّال پر ابواب موجود ہیں اور ان دونوں مجموعہ ہائے احادیث میں لفظ دجّال بالترتیب 28 اور 33 مرتبہ آیا ہے۔
سنن ابن ماجہ میں لفظ دجّال 18 مرتبہ،
مسند احمد میں 206 مرتبہ،
مؤطا امام مالک میں 5 مرتبہ آیا ہے۔
امام ابو یعلیٰ، امام بزار، امام طبری، امام ابن ماجہ، امام ہیثمی رحمہم اللہ کے اپنے اپنے مرتب کردہ مجموعہ ہائے احادیث میں دجّال کا لفظ اتنی بار مذکور ہے کہ اس کی حیثیت ایک ذخیرے کی سی ہے اور ان کا شمار کرنا تقریباً ناممکن امر ہے۔ امام حاکم، امام قرطبی، نعیم بن حماد، ابن کثیر، علامہ برزنجی اور شیخ یوسف مقدسی کے مرتب کردہ مجموعہ ہائے احادیث میں بھی دجّال سے متعلق کثرت سے روایات موجود ہیں۔








چھوٹے دجال کتنے ہوں گے؟
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَيَكُونَ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ، دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، قَرِيبًا مِنْ ثَلاَثِينَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ».
ترجمہ:
قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو گروہ آپس میں نہ لڑیں، دونوں میں بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کے قریب جھوٹے دجال ظاہر نہ ہولیں۔ ہر ایک یہ کہے گا میں اللہ کا رسول ہوں۔
[صحیح بخاری: کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الاسلام، حدیث#3609]







نئی احادیث(باتیں) گھڑنے والے چھوٹے اور جھوٹے دجال:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ. يَأْتُونَكُمْ مِنَ الأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ. فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ. لَا يُضِلُّونَكُمْ وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ۔
ترجمہ:
آخری زمانہ میں ایسےدجل وفریب دینے والے اور جھوٹے لوگ ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے جنہیں نہ تم نے سنا ہوگا اور نہ تمہارے باپوں نے سنا ہوگا لہٰذا ان سے بچو اور ان کو اپنے آپ سے بچاؤ تاکہ وہ تمہیں نہ گمراہ کریں اور نہ فتنہ میں ڈالیں۔
[صحیح مسلم:7-9]
تشریح :

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زہد و تقدس کا پر فریب لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بہکائیں گے، عوام سے کہیں گے کہ ہم علماء اور مشائخ میں سے ہیں اور تمہیں اللہ کے دین کی طرف بلاتے ہیں، نیز جھوٹی حدیث اپنی طرف سے وضع کر کے لوگوں کے سامنے بیان کریں گے، یا پچھلے بزرگوں کی طرف غلط باتیں منسوب کر کے لوگوں کو دھوکا دیں گے، باطل احکام بتلائیں گے اور غلط عقیدوں کا بیج لوگوں میں بوئیں گے(چونکہ وہ احادیث اور ان کی فقہ و تشریح ایسی ہونگی جو ہم تک اسلاف سے مسموع یعنی منقول نہ ہوگی)۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اگر وہ ایسے لوگوں کو پائیں تو ان سے بچیں، ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے مکر و فریب سے نیک لوگوں کو فتنہ میں ڈال دیں یعنی شرک و بدعت میں مبتلا کر دیں۔ اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ دین کے حاصل کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے، نیز بدعتی اور ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنا چاہئے جو ذاتی اغراض اور نفسانی خواہشات کی بنا پر دین و مذہب کی نام پر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان سے ربط و ضبط نہ رکھنا چاہئے چوں بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہر دستے نباید داد دست

دجال اکبر تو ایک ہوگا، جس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر مقام ”لُدّ“ میں قتل کریں گے، مگر ایسا لگتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے دجال پیدا ہوں گے جو امت کو گمراہ کرنے میں دجال اکبر کی نمائندگی کی خدمت انجام دیں گے۔
اسی لئے آنحضرت ﷺ نے امت کو اس بات کی طرف متوجہ فرمایا ہے کہ وہ ایسے ایمان کُش راہ زنوں اور دجالوں سے ہوشیار رہے، کیونکہ قرب قیامت میں شیاطین انسانوں کی شکل میں آکر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے اور وہ اس کامیابی سے اپنی تحریک کو اٹھائیں گے کہ کسی کو ان کے شیطان، دجال یا جھوٹے ہونے کا وہم و گمان بھی نہ گزرے گا۔
چنانچہ علامہ علأ الدین علی متقی  نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف کنزالعمال میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ان انسان نما شیاطین کے دجل و اضلال ،فتنہ پروری کی سازشوں اور دجالی طریقہ کار کا تذکرہ کرتے ہوئے نقل فرمایا ہے کہ:
”‌أنظروا ‌من ‌تجالسون وَعَن من تأخذون عَنهُ دينكُمْ فَإِن الشَّيَاطِين يتصورون فِي آخر الزَّمَان فِي صُورَة الرِّجَال فَيَقُولُونَ حَدثنَا وَأخْبرنَا فَإِذا جلستم إِلَى رجل فأسألوه عَن اسْمه وَاسم أَبِيه وعشيرته فتفقدونه إِذا غَابَ۔“
ترجمہ:
تم لوگ یہ دیکھ لیا کرو کہ کن لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہو؟ اور کن لوگوں سے دین حاصل کررہے ہو؟ کیونکہ آخری زمانہ میں شیاطین انسانوں کی شکل اختیار کرکے ․․․انسانوں کو گمراہ کرنے․․․ آئیں گے․․․ اور اپنی جھوٹی باتوں کو سچا باور کرانے کے لئے من گھڑت سندیں بیان کرکے محدثین کی طرز پر․․․کہیں گے حدثنا واخبرنا․․․․مجھے فلاں نے بیان کیا، مجھے فلاں نے خبر دی وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا جب تم کسی آدمی کے پاس دین سیکھنے کے لئے بیٹھا کرو، تو اس سے اس کا، اس کے باپ کا اور اس کے قبیلہ کا نام پوچھ لیا کرو، اس لئے کہ جب وہ غائب ہوجائے گا تو تم اس کو تلاش کروگے۔“
[تاریخ مستدرک حاکم، مسند فردوس دیلمی:358، جامع الأحاديث-السيوطي:5862، کنزالعمال، ص:۲۱۴،ج:۱۰]

قطع نظر اس روایت کی سند کے، اس کا نفس مضمون صحیح ہے۔ بہرحال اس روایت میں چند اہم باتوں کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے، مثلاً:

۱:… مسلمانوں کو ہر ایرے غیرے اور مجہول انسان کے حلقہ درس میں نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ کسی سے علمی استفادہ کرنے سے قبل اس کی تحقیق کرلینا ضروری ہے کہ یہ آدمی کون ہے؟کیسا ہے؟ کس خاندان اور قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے، اس کے اساتذہ کون سے ہیں؟ کس درس گاہ سے اس نے علم حاصل کیا ہے؟ اس کا علم خودرو اور ذاتی مطالعہ کی پیداوار تو نہیں؟ کسی گمراہ، بے دین، ملحد اور مستشرق اساتذہ کا شاگرد تو نہیں؟
۲:… اس شخص کے اعمال و اخلاق کیسے ہیں؟ اس کے ذاتی اور نجی معاملات کیسے ہیں؟ خاندانی پس منظر کیا ہے؟ نیز یہ شعبدہ باز یا دین کے نام پر دنیا کمانے والا تو نہیں؟
۳:… اس کا سلسلہ سند کیا ہے؟ یہ جھوٹا اور مکار تو نہیں؟ یہ جھوٹی اور من گھڑت سندیں تو بیان نہیں کرتا؟ کیونکہ محض سندیں نقل کرنے اور ”اخبرنا“ و” حدثنا“ کہنے سے کوئی آدمی صحیح عالم ربانی نہیں کہلاسکتا، اس لئے کہ بعض اوقات مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے کافر و ملحد بھی اس طرح کی اصطلاحات استعمال کیا کرتے ہیں۔

لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ ہر مقرر و مدرس ،واعظ یا ”وسیع معلومات“ رکھنے والے ”اسکالر“وڈاکٹر کی بات پر کان دھریں بلکہ اس کے بارہ میں پہلے مکمل تحقیق کرلیا کریں کہ یہ صاحب کون ہیں؟ اور ان کے علم و تحقیق کا حدود اربعہ کیا ہے؟ کہیں یہ منکر حدیث، منکر دین،منکر صحابہ،منکر معجزات، مدعی نبوت یا ان کا چیلہ چانٹا تو نہیں؟ چنانچہ ہمارے دور میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ ریڈیو، ٹی وی یا عام اجتماعات میں ایسے لوگوں کو پذیرائی حاصل ہوجاتی ہے جو اپنی چرب زبانی اور ”وسعت معلومات“ اور تُک بندی کی بنا پر مجمع کو مسحور کرلیتے ہیں،جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ان کے عقیدت مند ہوجاتے ہیں، ان کے بیانات، دروس اور لیکچر زکا اہتمام کرتے ہیں، ان کی آڈیو، ویڈیو کیسٹیں، سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز بنا بناکر دوسروں تک پہنچاتے ہیں، جب ان بے دینوں کا حلقہ بڑھ جاتا ہے اور ان کی شہرت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے تو وہ کھل کر اپنے کفر وضلال اور باطل و گمراہ کن نظریات کا پرچار شروع کردیتے ہیں، تب عقدہ کھلتا ہے کہ یہ تو بے دین، ملحد، بلکہ زندیق اور دھریہ تھا اور ہم نے اس کے باطل و گمراہ کن عقائد و نظریات کی اشاعت و ترویج میں اس کا ساتھ دیا اور جتنا لوگ اس کے دام تزویر میں پھنس کر گمراہ ہوئے ہیں، افسوس ! کہ ان کے گمراہ کرنے میں ہمارا مال و دولت اور محنت و مساعی استعمال ہوئی ہے۔ اس روایت میں یہی بتلایا گیا ہے کہ بعد کے پچھتاوے سے پہلے اس کی تحقیق کرلی جائے کہ ہم جس سے علم اور دین سیکھ رہے ہیں یہ انسان ہے یاشیطان؟مسلمان ہے یاملحد؟موٴمن ہے یامرتد؟ تاکہ خود بھی اور دوسرے بھی ایسے شیاطین کی گمراہی سے بچ سکیں۔






کانے دجالِ اکبر کے پانچ سب سے بڑے فتنے» ایمان سے محروم کرنے کیلئے:
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ أَكْثَرُ خُطْبَتِهِ حَدِيثًا، حَدَّثَنَاهُ عَنِ الدَّجَّالِ، وَحَذَّرَنَاهُ، فَكَانَ مِنْ قَوْلِهِ أَنْ قَالَ: " إِنَّهُ لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ، مُنْذُ ذَرَأَ اللَّهُ ذُرِّيَّةَ آدَمَ، أَعْظَمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا إِلَّا حَذَّرَ أُمَّتَهُ الدَّجَّالَ، وَأَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ، وَهُوَ خَارِجٌ فِيكُمْ لَا مَحَالَةَ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْكُمْ، فَأَنَا حَجِيجٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، وَإِنْ يَخْرُجْ مِنْ بَعْدِي، فَكُلُّ امْرِئٍ حَجِيجُ نَفْسِهِ، وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، وَإِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ، وَالْعِرَاقِ، فَيَعِيثُ يَمِينًا وَيَعِيثُ شِمَالًا، يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا، فَإِنِّي سَأَصِفُهُ لَكُمْ صِفَةً لَمْ يَصِفْهَا إِيَّاهُ نَبِيٌّ قَبْلِي، إِنَّهُ يَبْدَأُ، فَيَقُولُ: أَنَا نَبِيٌّ وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي، ثُمَّ يُثَنِّي فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ وَلَا تَرَوْنَ رَبَّكُمْ حَتَّى تَمُوتُوا، وَإِنَّهُ أَعْوَرُ، وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، وَإِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ، كَاتِبٍ أَوْ غَيْرِ كَاتِبٍ، وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنَّ مَعَهُ جَنَّةً وَنَارًا، فَنَارُهُ جَنَّةٌ، وَجَنَّتُهُ نَارٌ، فَمَنِ ابْتُلِيَ بِنَارِهِ، فَلْيَسْتَغِثْ بِاللَّهِ، وَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ الْكَهْفِ فَتَكُونَ عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلَامًا، كَمَا كَانَتِ النَّارُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَقُولَ لِأَعْرَابِيٍّ: أَرَأَيْتَ إِنْ بَعَثْتُ لَكَ أَبَاكَ وَأُمَّكَ، أَتَشْهَدُ أَنِّي رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيَتَمَثَّلُ لَهُ شَيْطَانَانِ فِي صُورَةِ أَبِيهِ، وَأُمِّهِ، فَيَقُولَانِ: يَا بُنَيَّ، اتَّبِعْهُ، فَإِنَّهُ رَبُّكَ، وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يُسَلَّطَ عَلَى نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، فَيَقْتُلَهَا، وَيَنْشُرَهَا بِالْمِنْشَارِ، حَتَّى يُلْقَى شِقَّتَيْنِ، ثُمَّ يَقُولَ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي هَذَا، فَإِنِّي أَبْعَثُهُ الْآنَ، ثُمَّ يَزْعُمُ أَنَّ لَهُ رَبًّا غَيْرِي، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ، وَيَقُولُ لَهُ الْخَبِيثُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ رَبِّيَ اللَّهُ، وَأَنْتَ عَدُوُّ اللَّهِ، أَنْتَ الدَّجَّالُ، وَاللَّهِ مَا كُنْتُ بَعْدُ أَشَدَّ بَصِيرَةً بِكَ مِنِّي الْيَوْمَ "، قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الطَّنَافِسِيُّ: فَحَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيُّ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَلِكَ الرَّجُلُ أَرْفَعُ أُمَّتِي دَرَجَةً فِي الْجَنَّةِ» . قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: " وَاللَّهِ مَا كُنَّا نُرَى ذَلِكَ الرَّجُلَ إِلَّا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ. قَالَ الْمُحَارِبِيُّ، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى حَدِيثِ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: «وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَأْمُرَ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ، وَيَأْمُرَ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ، وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَمُرَّ بِالْحَيِّ فَيُكَذِّبُونَهُ، فَلَا تَبْقَى لَهُمْ سَائِمَةٌ إِلَّا هَلَكَتْ، وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَمُرَّ بِالْحَيِّ فَيُصَدِّقُونَهُ، فَيَأْمُرَ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ، وَيَأْمُرَ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ، حَتَّى تَرُوحَ مَوَاشِيهِمْ، مِنْ يَوْمِهِمْ ذَلِكَ أَسْمَنَ مَا كَانَتْ وَأَعْظَمَهُ، وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ، وَأَدَرَّهُ ضُرُوعًا، وَإِنَّهُ لَا يَبْقَى شَيْءٌ مِنَ الْأَرْضِ إِلَّا وَطِئَهُ، وَظَهَرَ عَلَيْهِ، إِلَّا مَكَّةَ، وَالْمَدِينَةَ، لَا يَأْتِيهِمَا مِنْ نَقْبٍ مِنْ نِقَابِهِمَا إِلَّا لَقِيَتْهُ الْمَلَائِكَةُ بِالسُّيُوفِ صَلْتَةً، حَتَّى يَنْزِلَ عِنْدَ الظُّرَيْبِ الْأَحْمَرِ، عِنْدَ مُنْقَطَعِ السَّبَخَةِ، فَتَرْجُفُ الْمَدِينَةُ بِأَهْلِهَا ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ، فَلَا يَبْقَى مُنَافِقٌ، وَلَا مُنَافِقَةٌ إِلَّا خَرَجَ إِلَيْهِ، فَتَنْفِي الْخَبَثَ مِنْهَا كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ، خَبَثَ الْحَدِيدِ، وَيُدْعَى ذَلِكَ الْيَوْمُ يَوْمَ الْخَلَاصِ» ، فَقَالَتْ أُمُّ شَرِيكٍ بِنْتُ أَبِي الْعَكَرِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ " هُمْ يَوْمَئِذٍ قَلِيلٌ، وَجُلُّهُمْ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَإِمَامُهُمْ رَجُلٌ صَالِحٌ، فَبَيْنَمَا إِمَامُهُمْ قَدْ تَقَدَّمَ يُصَلِّي بِهِمُ الصُّبْحَ، إِذْ نَزَلَ عَلَيْهِمْ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ الصُّبْحَ، فَرَجَعَ ذَلِكَ الْإِمَامُ يَنْكُصُ، يَمْشِي الْقَهْقَرَى، لِيَتَقَدَّمَ عِيسَى يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَيَضَعُ عِيسَى يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، ثُمَّ يَقُولُ لَهُ: تَقَدَّمْ فَصَلِّ، فَإِنَّهَا لَكَ أُقِيمَتْ، فَيُصَلِّي بِهِمْ إِمَامُهُمْ، فَإِذَا انْصَرَفَ، قَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: افْتَحُوا الْبَابَ، فَيُفْتَحُ، وَوَرَاءَهُ الدَّجَّالُ مَعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ يَهُودِيٍّ، كُلُّهُمْ ذُو سَيْفٍ مُحَلًّى وَسَاجٍ، فَإِذَا نَظَرَ إِلَيْهِ الدَّجَّالُ ذَابَ، كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، وَيَنْطَلِقُ هَارِبًا، وَيَقُولُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: إِنَّ لِي فِيكَ ضَرْبَةً، لَنْ تَسْبِقَنِي بِهَا، فَيُدْرِكُهُ عِنْدَ بَابِ اللُّدِّ الشَّرْقِيِّ، فَيَقْتُلُهُ، فَيَهْزِمُ اللَّهُ الْيَهُودَ، فَلَا يَبْقَى شَيْءٌ مِمَّا خَلَقَ اللَّهُ يَتَوَارَى بِهِ يَهُودِيٌّ إِلَّا أَنْطَقَ اللَّهُ ذَلِكَ الشَّيْءَ، لَا حَجَرَ، وَلَا شَجَرَ، وَلَا حَائِطَ، وَلَا دَابَّةَ، إِلَّا الْغَرْقَدَةَ، فَإِنَّهَا مِنْ شَجَرِهِمْ، لَا تَنْطِقُ، إِلَّا قَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ الْمُسْلِمَ هَذَا يَهُودِيٌّ، فَتَعَالَ اقْتُلْهُ " قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَإِنَّ أَيَّامَهُ أَرْبَعُونَ سَنَةً، السَّنَةُ كَنِصْفِ السَّنَةِ، وَالسَّنَةُ كَالشَّهْرِ، وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ، وَآخِرُ أَيَّامِهِ كَالشَّرَرَةِ، يُصْبِحُ أَحَدُكُمْ عَلَى بَابِ الْمَدِينَةِ، فَلَا يَبْلُغُ بَابَهَا الْآخَرَ حَتَّى يُمْسِيَ» ، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ نُصَلِّي فِي تِلْكَ الْأَيَّامِ الْقِصَارِ؟ قَالَ: «تَقْدُرُونَ فِيهَا الصَّلَاةَ كَمَا تَقْدُرُونَهَا فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ الطِّوَالِ، ثُمَّ صَلُّوا» ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَيَكُونُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي أُمَّتِي حَكَمًا عَدْلًا، وَإِمَامًا مُقْسِطًا، يَدُقُّ الصَّلِيبَ، وَيَذْبَحُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيَتْرُكُ الصَّدَقَةَ، فَلَا يُسْعَى عَلَى شَاةٍ، وَلَا بَعِيرٍ، وَتُرْفَعُ الشَّحْنَاءُ، وَالتَّبَاغُضُ، وَتُنْزَعُ حُمَةُ كُلِّ ذَاتِ حُمَةٍ، حَتَّى يُدْخِلَ الْوَلِيدُ يَدَهُ فِي فِي الْحَيَّةِ، فَلَا تَضُرَّهُ، وَتُفِرَّ الْوَلِيدَةُ الْأَسَدَ، فَلَا يَضُرُّهَا، وَيَكُونَ الذِّئْبُ فِي الْغَنَمِ كَأَنَّهُ كَلْبُهَا، وَتُمْلَأُ الْأَرْضُ مِنَ السِّلْمِ كَمَا يُمْلَأُ الْإِنَاءُ مِنَ الْمَاءِ، وَتَكُونُ الْكَلِمَةُ وَاحِدَةً، فَلَا يُعْبَدُ إِلَّا اللَّهُ، وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا، وَتُسْلَبُ قُرَيْشٌ مُلْكَهَا، وَتَكُونُ الْأَرْضُ كَفَاثُورِ الْفِضَّةِ، تُنْبِتُ نَبَاتَهَا بِعَهْدِ آدَمَ حَتَّى يَجْتَمِعَ النَّفَرُ عَلَى الْقِطْفِ مِنَ الْعِنَبِ فَيُشْبِعَهُمْ، وَيَجْتَمِعَ النَّفَرُ عَلَى الرُّمَّانَةِ فَتُشْبِعَهُمْ، وَيَكُونَ الثَّوْرُ بِكَذَا وَكَذَا مِنَ الْمَالِ، وَتَكُونَ الْفَرَسُ بِالدُّرَيْهِمَاتِ» ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا يُرْخِصُ الْفَرَسَ؟ قَالَ «لَا تُرْكَبُ لِحَرْبٍ أَبَدًا» ، قِيلَ لَهُ: فَمَا يُغْلِي الثَّوْرَ؟ قَالَ «تُحْرَثُ الْأَرْضُ كُلُّهَا، وَإِنَّ قَبْلَ خُرُوجِ الدَّجَّالِ ثَلَاثَ سَنَوَاتٍ شِدَادٍ، يُصِيبُ النَّاسَ فِيهَا جُوعٌ شَدِيدٌ، يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الْأُولَى أَنْ تَحْبِسَ ثُلُثَ مَطَرِهَا، وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا، ثُمَّ يَأْمُرُ السَّمَاءَ، فِي الثَّانِيَةِ فَتَحْبِسُ ثُلُثَيْ مَطَرِهَا، وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ ثُلُثَيْ نَبَاتِهَا، ثُمَّ يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ، فِي السَّنَةِ الثَّالِثَةِ، فَتَحْبِسُ مَطَرَهَا كُلَّهُ، فَلَا تُقْطِرُ قَطْرَةً، وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ، فَتَحْبِسُ نَبَاتَهَا كُلَّهُ، فَلَا تُنْبِتُ خَضْرَاءَ، فَلَا تَبْقَى ذَاتُ ظِلْفٍ إِلَّا هَلَكَتْ، إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ» ، قِيلَ: فَمَا يُعِيشُ النَّاسُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ؟ قَالَ «التَّهْلِيلُ، وَالتَّكْبِيرُ، وَالتَّسْبِيحُ، وَالتَّحْمِيدُ، وَيُجْرَى ذَلِكَ عَلَيْهِمْ مُجْرَى الطَّعَامِ» ،

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ الطَّنَافِسِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيَّ، يَقُولُ: «يَنْبَغِي أَنْ يُدْفَعَ هَذَا الْحَدِيثُ إِلَى الْمُؤَدِّبِ، حَتَّى يُعَلِّمَهُ الصِّبْيَانَ فِي الْكُتَّابِ»

ترجمہ:

حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو خطبہ سنایا تو بڑا خطبہ آپ کا دجال سے متعلق تھا آپ نے دجال کا حال ہم سے بیان کیا اور ہم کو اس سے ڈرایا تو فرمایا: کوئی فتنہ جب سے اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو پیدا کیا زمین دجال کے فتنے سے بڑھ کر نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔ اور میں تمام انبیاء کے آخر میں ہوں اور تم آخر میں ہو سب امتوں سے اور دجال تمہی لوگوں میں ضرور پیدا ہوگا پھر اگر وہ نکلے اور میں تم میں موجود ہوں تو میں ہر مسلمان کی طرف سے حجت کروں گا۔ دجال کا فتنہ ایسا بڑا ہو کہ اگر میرے سامنے نکلے تو مجھ کو اس سے بحث کرنا پڑے گی اور کوئی شخص اس کام کے لیے کافی نہ ہوگا اور اگر میرے بعد نکلے تو ہر شخص اپنی ذات کی طرف سے حجت کرلے اور اللہ میرا خلیفہ ہے ہر مسلمان پر دیکھو دجال نکلے گا خلہ سے جو شام اور عراق کے درمیان ہے (خلہ کہتے ہیں راہ کو) پھر فساد پھیلا دے گا بائیں طرف (ملکوں میں) اے اللہ کے بندو! جمے رہنا ایمان پر کیونکہ میں تم سے اس کی ایسی صفت بیان کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کی (پس اس صفت سے تم خوب اس کو پہچان لوگے) پہلے تو وہ کہے گا میں نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے پھر دوبارہ کہے گا میں تمہارا رب ہوں اور دیکھو تم اپنے رب کو مرنے تک نہیں دیکھ سکتے اور ایک بات اور ہے وہ کانا ہوگا اور تمہارا رب کانا نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہوگا کافر۔ اس کو ہر ایک مومن (بقدر الٰہی) پڑھ لے گا خواہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو اور اس کا فتنہ ہوگا کہ اس کے ساتھ جنت اور دوزخ ہوگی لیکن اس کی جنت دوزخ ہے اور اس کی دوزخ جنت ہے پس جو کوئی اس کی دوزخ میں ڈالا جائے گا (اور وہ سچے مومنوں کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دے گا) وہ اللہ سے فریاد کرے اور سورت الکہف کے شروع کی (دس) آیتیں پڑھے اور وہ دوزخ اللہ کے حکم سے اس پر ٹھنڈی ہوجائے گی اور سلامتی جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ ٹھنڈی ہوگئی اور اس کا فتنہ یہ بھی ہوگا کہ ایک گنوار دیہاتی سے کہے گا دیکھ اگر میں تیرے ماں باپ کو زندہ کروں جب تو مجھ کو اپنا رب کہے گا ؟ وہ کہے گا بیشک پھر وہ شیطان دجال کے حکم سے اس کے ماں باپ کی صورت بن کر آئیں گے اور کہیں گے بیٹا اس کی اطاعت کر یہ تیرا رب ہے (معاذ اللہ)۔ اور ایک فتنہ اس کا یہ بھی ہوگا کہ آدمی پر غالب ہو کر اس کو مار ڈالے گا بلکہ آری سے چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دے گا پھر (اپنے معتقدوں سے) کہے گا دیکھو میں اپنے اس بندے کو اب زندہ کرتا ہوں۔ اب بھی وہ یہ کہے گا کہ میرا رب اور کوئی ہے سوا میرے؟ پھر اللہ تعالیٰ اس کو زندہ کر دے گا۔ اس سے دجال خبیث کہے گا: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہے گا: میرا رب اللہ ہے اور تو اللہ کا دشمن ہے، تو دجال ہے، قسم اللہ کی آج تو مجھے خوب معلوم ہوا کہ تو دجال ہی ہے۔ ابوالحسن علی بن محمد طنافسی نے کہا (جو شیخ ہیں ابن ماجہ کے اس حدیث میں) ہم سے عبیداللہ بن ولید وصافی نے بیان کیا انہوں نے عطیہ سے روایت کی۔ انہوں نے ابوسعید خدری (رض) سے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: اس مرد کا درجہ میری امت میں سب سے بلند ہوگا جنت میں۔ اور ابوسعید نے کہا: قسم اللہ کی ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ یہ مرد جو دجال سے ایسا مقابلہ کریں گے کوئی نہیں ہے سوائے حضرت عمر کے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر گزر گئے۔ محاربی نے کہا اب پھر ہم ابوامامہ کی حدیث کو جس کو ابورافع نے روایت کیا بیان کرتے ہیں (کیونکہ ابوسعید کی حدیث درمیان میں اس مرد کے ذکر پر آگئی تھی۔ اخیر دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ آسمان کو حکم کرے گا پانی برسانے کے لیے تو پانی بر سے گا اور زمین کو حکم کرے غلہ اگانے کا وہ غلہ اگائے گی اور اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ ایک قبیلے پر سے گزرے گا۔ وہ لوگ اس کو سچا کہیں گے تو وہ آسمان کو حکم کرے گا غلہ اور گھاس اگانے کا تو وہ اگ آئے گی یہاں تک ان کے جانور اسی دن شام کو نہایت موٹے اور بڑے اور کھوکھیں بھری ہوئی اور تھن دودھ سے پھولے ہوئے آئیں گے (ایک دن میں یہ سب باتیں ہوجائیں گی پانی بہت برسنا چارہ بہت پیدا ہونا جانوروں کا اس کو کھا کر تیار ہوجانا ان کے تھن دودھ سے بھر جانا معاذ اللہ کیا بڑا فتنہ ہوگا) ۔ غرض دنیا میں کوئی ٹکڑا زمین کا باقی نہ رہے گا جہاں دجال نہ جائے گا اور اس پر غالب نہ ہوگا سوائے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ان دونوں شہر میں جس راہ میں آئے گا اس کو فرشتے ملیں گے ننگی تلواریں لیے ہوئے یہاں تک کہ دجال اتر پڑے گا چھوٹی لال پہاڑی کے پاس جہاں کھاری تر زمین ختم ہوئی ہے اور مدینہ میں تین بار زلزلہ آئے گا (یعنی مدینہ اپنے لوگوں کو لے کر تین بار حرکت کرے گا) تو جو منافق مرد یا منافق عورت مدینہ میں ہوں گے وہ دجال کے پاس چلے جائیں گے اور مدینہ پلیدی کو اپنے میں سے دور کر دے گا جیسے بھٹی لوہے کا میل دور کردیتی ہے اس دن کا نام یوم الخلاص ہوگا (یعنی چھٹکارے کا دن) ام شریک بنت ابوعکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ! عرب کے لوگ اس دن کہاں ہوں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عرب کے لوگ (مومن مخلصین) اس دن کم ہوں گے اور دجال کے ساتھ بیشمار لوگ ہوں گے ان کو لڑنے کی طاقت نہ ہوگی) اور ان عرب (مومنین میں سے اکثر لوگ (اس وقت) بیت المقدس میں ہوں گے انکا امام ایک نیک شخص ہوگا یا آپ کے نائب ایک روز انکا امام آگے بڑھ کر صبح کی نماز پڑھنا چاہے گا اتنے میں حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) صبح کے وقت اتریں گے تو یہ امام ان کو دیکھ کر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے گا تاکہ حضرت عیسیٰ اپنا ہاتھ اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان رکھ دیں گے پھر اس سے کہیں گے تو ہی آگے بڑھ اور نماز پڑھا اس لیے کہ یہ نماز تیرے ہی لیے قائم ہوئی تھی (یعنی تکبیر تیری ہی امانت کی نیت سے ہوئی تھی) خیر وہ امام لوگوں کو نماز پڑھائے گا جب نماز سے فارغ ہوگا حضرت عیسیٰ (مسلمانوں سے) فرمائیں گے (جو قلعہ یا شہر میں محصور ہوں گے اور دجال ان کو گھیرے ہوگا) دروازہ قلعہ کا یا شہر کا کھول دو ۔ دروازہ کھول دیا جائے گا وہاں پر دجال ہوگا ستر ہزار یہودیوں کے ساتھ جن میں سے ہر ایک کے پاس تلوار ہوگی اس کے زیور کے ساتھ اور چادر ہوگی جب دجال حضرت عیسیٰ کو دیکھے گا تو ایسا گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا اور بھاگے گا اور حضرت عیسیٰ فرمائیں گے میری ایک مار تجھ کو کھانا ہے تو اس سے بچ نہ سکے آخر باب لد کے پاس جو مشرق کی طرف ہے اس کو پائیں گے اور اس کو قتل کریں گے پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو شکست دے گا (یہود مردود دجال کے پیدا ہوتے ہی اس کے ساتھ ہوجائیں گے اور کہیں گے یہی سچا مسیح ہے جس کے آنے کا وعدہ اگلے نبیوں نے کیا تھا اور چونکہ یہود مردود حضرت عیسیٰ کے دشمن تھے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس لیے مسلمانوں کی ضد اور عداوت سے بھی اور دجال کے ساتھ ہوجائیں گے دوسری روایت میں ہے کہ اصفہان کے یہود میں سے ستر ہزار یہودی دجال کے پیرو ہوجائیں گے) خیر یہ حال ہوجائے گا کہ یہودی اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے جس چیز کی آڑ میں چھپے گا اس چیز کو اللہ بولنے کی طاقت دے گا پتھر ہو یا درخت یا دیوار یا جانور سو ایک درخت کے جس کو غرقد کہتے ہیں وہ ایک کانٹے دار درخت ہوتا ہے) وہ یہودیوں کا درخت ہے (یہود اس کو بہت لگاتے ہیں اور اس کی تعظیم کرتے ہیں) نہیں بولے گا تو یہ چیز (جس کی آڑ میں یہودی چھپے گا) کہے گی اے اللہ کے مسلمان بندے یہ یہودی ہے تو آ اور اس کو مار ڈال اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دجال ایک چالیس برس تک رہے گا لیکن ایک برس چھ مہینے کے برابر ہوگا اور ایک برس ایک مہینے کے برابر ہوگا اور ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور اخیر دن دجال کے ایسے ہوں گے جیسے چنگاری اڑتی جاتی ہے (ہوا میں) تم میں سے کوئی صبح کو مدینہ کے ایک دروازے پر ہوگا پھر دوسرے دروازہ پر نہ پہنچے گا کہ شام ہوجائے گی۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم ان چھوٹے دنوں میں نماز کیونکر پڑھیں آپ نے فرمایا اندازہ سے نماز پڑھ لینا جیسے لمبے دنوں میں اندازہ کرتے ہو اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت عیسیٰ میری امت میں ایک عادل حاکم اور منصف امام ہوں گے اور صلیب کو جو نصاری لٹکائے رہتے ہیں) توڑ ڈالیں گے۔ اور سور کو مار ڈالیں گے اس کا کھانا بند کرا دیں گے اور جزیہ موقوف کردیں گے (بلکہ کہیں گے کافروں سے یا مسلمان ہوجاؤ یا قتل ہونا قبول کرو اور بعضوں نے کہا جزیہ لینا اس وجہ سے بند کردیں گے کہ کوئی فقیر نہ ہوگا۔ سب مالدار ہوں گے پھر جزیہ کن لوگوں کے واسطے لیا جائے اور بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ جزیہ مقرر کردیں گے سب کافروں پر یعنی لڑائی موقوف ہوجائے گی اور کافر جزئیے پر راضی ہوجائیں گے اور صدقہ (زکوہ لینا) موقوف کردیں گے تو نہ بکریوں پر نہ اونٹوں پر کوئی زکوۃ لینے والا مقرر کریں گے اور آپس میں لوگوں کے کینہ اور بغض اٹھ جائے گا اور ہر ایک زہریلے جانور کا زہر جاتا رہے گا۔ یہاں تک کہ بچہ اپنا ہاتھ سانپ کے منہ میں دے دے گا وہ کچھ نقصان نہ پہنچائے گا اور ایک چھوٹی بچی شیر کو بھگا دے گی وہ اس کو ضرر نہ پہنچائے گا اور بھیڑ یا بکریوں میں اس طرح رہے گا جیسے کتا، جو ان میں رہتا ہے اور زمین صلح سے بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھرجاتا ہے اور سب لوگوں کا کلمہ ایک ہوجائے گا سوائے اللہ کے کسی کی پرستش نہ ہوگی (تو سب کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھیں گے) اور لڑائی اپنے سب سامان ڈال دے گی۔ یعنی ہتھیار اور آلات اتار کر رکھ دیں گے مطلب یہ ہے کہ لڑائی دنیا سے اٹھ جائے گی اور قریش کی سلطنت جاتی رہے گی اور زمین کا یہ حال ہوگا کہ جیسے چاندی کی سینی (طشت) وہ اپنا میوہ ایسے آگائے گی جیسے آدم کے عہد میں اگاتی تھی۔ (یعنی شروع زمانہ میں جب زمین میں بہت قوت تھی) یہاں تک کہ کئی آدمی انگور کے ایک خوشے پر جمع ہوں گے اور سب سیر ہوجائیں گے (اتنے بڑے انگور ہوں گے) اور کئی کئی آدمی انگور کے ایک خوشے پر جمع ہوں گے اور سب سیر ہوجائیں گے اور بیل اس قدر داموں سے بکے گا (کیونکہ لوگوں کی زراعت کی طرف توجہ ہوگی تو بیل مہنگا ہوگا) اور گھوڑا تو چند روپوں میں بکے گا لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھوڑا کیوں سستا ہوگا۔ آپ نے فرمایا اس لیے کہ لڑائی کے لیے کوئی گھوڑے پر سوار نہ ہوگا پھر لوگوں نے عرض کیا بیل کیوں مہنگا ہوگا۔ آپ نے فرمایا ساری زمین میں کھیتی ہوگی اور دجال کے نکلنے سے تین برس پہلے قحط ہوگا ان تینوں سالوں میں لوگ بھوک سے سخت تکلیف اٹھائیں گے پہلے سال میں اللہ تعالیٰ یہ حکم کرے گا آسمان کو کہ دو تہائی بارش روک لے اور زمین کو یہ حکم کرے گا کہ تہائی پیداوار روک لے پھر تیسرے سال میں اللہ تعالیٰ آسمان کو یہ حکم کرے گا کہ بالکل پانی نہ برسائے ایک قطرہ بارش نہ ہوگا اور زمین کو یہ حکم ہوگا کہ ایک دانہ نہ اگائے تو گھاس تک نہ اگے گی نہ کوئی سبزی آخر گھر والا جانور (جیسے گائے بکری) تو کوئی باقی نہ رہے گا سب مرجائیں گے مگر جو اللہ چاہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر لوگ کیسے جئیں گے اس زمانہ میں آپ نے فرمایا جو لوگ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ اور اللَّهُ أَکْبَرُ اور سُبْحَانَ اللَّهِ اور الْحَمْدُ لِلَّهِ کہیں گے ان کو کھانے کی حاجت نہ رہے گی (یہ تسبیح اور تہلیل کھانے کے قائم مقام ہوگی) حافظ ابوعبداللہ ابن ماجہ نے کہا میں نے (اپنے شیخ) ابوالحسن طنافسی سے سنا وہ کہتے تھے میں نے عبدالرحمن محاربی سے سنا وہ کہتے تھے یہ حدیث تو اس لائق ہے کہ مکتب کے استاد کو دے دی جائے وہ بچوں کو مکتب میں سکھلائے۔

[مسلم:2937، ترمذی:2240، ابن ماجه:4077، طبراني:7644، حاكم:8620، رویاني:1239]
[الفتن لنعيم بن حماد:1516، الفتن لحنبل بن اسحاق:37، اخبار الدجال-امام عبد الغني المقدسي(م600ھ)« حدیث#99]









حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ قَاضِي حِمْصَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْکِلَابِيَّ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ ذَکَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّی ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِکَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُکُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَکَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّی ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَقَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْکُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيکُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَکُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيکُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ کَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّی بْنِ قَطَنٍ فَمَنْ أَدْرَکَهُ مِنْکُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْکَهْفِ إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَيْنَ الشَّأْمِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالًا يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ کَسَنَةٍ وَيَوْمٌ کَشَهْرٍ وَيَوْمٌ کَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ کَأَيَّامِکُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَلِکَ الْيَوْمُ الَّذِي کَسَنَةٍ أَتَکْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ لَا اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ کَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ فَيَأْتِي عَلَی الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ فَيَأْمُرُ السَّمَائَ فَتُمْطِرُ وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا کَانَتْ ذُرًا وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْئٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي کُنُوزَکِ فَتَتْبَعُهُ کُنُوزُهَا کَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جَزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ وَيَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَکُ فَبَيْنَمَا هُوَ کَذَلِکَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَائِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا کَفَّيْهِ عَلَی أَجْنِحَةِ مَلَکَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ کَاللُّؤْلُؤِ فَلَا يَحِلُّ لِکَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ فَيَطْلُبُهُ حَتَّی يُدْرِکَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي عِيسَی ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمْ اللَّهُ مِنْهُ فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ فَبَيْنَمَا هُوَ کَذَلِکَ إِذْ أَوْحَی اللَّهُ إِلَی عِيسَی إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَی الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَی بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ کَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَائٌ وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ حَتَّی يَکُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِکُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَی کَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ إِلَی الْأَرْضِ فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ إِلَی اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا کَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَائَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَکُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّی يَتْرُکَهَا کَالزَّلَفَةِ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَکِ وَرُدِّي بَرَکَتَکِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْکُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا وَيُبَارَکُ فِي الرِّسْلِ حَتَّی أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنْ الْإِبِلِ لَتَکْفِي الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْبَقَرِ لَتَکْفِي الْقَبِيلَةَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْغَنَمِ لَتَکْفِي الْفَخِذَ مِنْ النَّاسِ فَبَيْنَمَا هُمْ کَذَلِکَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَکُلِّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَی شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ

ترجمہ:
ابوخیثمہ زہیر بن حرب، ولید بن مسلم، عبدالرحمن بن یزید بن جابر، یحییٰ بن جا رب طائی ؓ حضرت نواس ؓ بن سمعان سے روایت ہے کہ ایک صبح رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے کبھی تحقیر کی (یعنی گھٹایا) اور کبھی بڑا کر کے بیان فرمایا، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے ایک جھنڈ میں ہے، پس جب ہم شام کو آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ہم سے اس بارے میں معلوم کرلیا تو فرمایا: تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے صبح دجال کا ذکر کیا اور اس میں آپ ﷺ نے کبھی تحقیر کی اور کبھی اس فتنہ کو بڑا کر کے بیان کیا، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے ایک جھنڈ میں ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہارے بارے میں دجال کے علاوہ دوسرے فتنوں کا زیادہ خوف کرتا ہوں، اگر وہ میری موجودگی میں ظاہر ہوگیا تو تمہارے بجائے میں اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر میری غیر موجودگی میں ظاہر ہوا تو ہر شخص خود اس سے مقابلہ کرنے والا ہوگا، اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ اور نگہبان ہوگا، بیشک دجال نوجوان گھنگریالے بالوں والا اور پھولی ہوئی آنکھ والا ہوگا، گویا کہ میں اسے عبدالعزی بن قطن کے ساتھ تشبیہ دیتا ہوں، پس تم میں سے جو کوئی اسے پا لے تو چاہئے کہ اس پر سورت کہف کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرے، بیشک اس کا خروج شام اور عراق کے درمیان سے ہوگا، پھر وہ اپنے دائیں اور بائیں جانب فساد برپا کرے گا، اے اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ زمین میں کتنا عرصہ رہے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: چالیس دن اور ایک دن سال کے برابر اور ایک دن مہینہ کے برابر اور ایک دن ہفتہ کے برابر ہوگا اور باقی ایام تمہارے عام دنوں کے برابر ہوں گے۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ دن جو سال کے برابر ہوگا، کیا اس میں ہمارے لئے ایک دن کی نمازیں پڑھنا کافی ہوں گیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم ایک سال کی نمازوں کا اندازہ کرلینا۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس کی زمین میں چلنے کی تیزی کیا ہوگی؟ آپ نے فرمایا: اس بادل کی طرح جسے پیچھے سے ہوا دھکیل رہی ہو پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں دعوت دے گا تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس کی دعوت قبول کرلیں گے پھر وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین سبزہ اگائے گی اور اسے چرنے والے جانور شام کے وقت آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے لمبے تھن بڑے اور کوکھیں تنی ہوئی ہوں گی پھر وہ ایک اور قوم کے پاس جائے گا اور انہیں دعوت دے گا وہ اس کے قول کو رد کردیں گے تو وہ اس سے واپس لوٹ آئے گا پس وہ قحط زدہ ہوجائیں گے کہ ان کے پاس دن کے مالوں میں سے کچھ بھی نہ رہے گا اور اسے کہے گا کہ اپنے خزانے کو نکال دے تو زمین کے خزانے اس کے پاس آئیں گے۔ جیسے شہد کی مکھیاں اپنے سرداروں کے پاس آتی ہیں، پھر وہ ایک کڑیل اور کامل الشباب آدمی کو بلائے گا اور اسے تلوار مار کر اس کے دو ٹکڑے کردے گا اور دونوں ٹکڑوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے ایک تیر کی مسافت پر رکھ دے گا، پھر وہ اس (مردہ) کو آواز دے گا تو وہ زندہ ہو کر چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔ دجال کے اسی افعال کے دوران اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا، وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس زرد رنگ کے حلے پہنے ہوئے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے جب وہ اپنے سر کو جھکائیں گے تو اس سے قطرے گریں گے اور جب اپنے سر کو اٹھائیں گے تو اس سے سفید موتیوں کی طرح قطرے ٹپکیں گے اور جو کافر بھی ان کی خوشبو سونگھے گا وہ مرے بغیر رہ نہ سکے گا اور ان کی خوشبو وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔ پس حضرت مسیح (علیہ السلام) (دجال کو) طلب کریں گے، اسے باب لد پر پائیں گے تو اسے قتل کردیں گے، پھر عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے پاس وہ قوم آئے گی جسے اللہ نے دجال سے محفوظ رکھا تھا، پس عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے چہروں کو صاف کریں گے اور انہیں جنت میں ملنے والے ان کے درجات بتائیں گے۔ پس اسی دوران حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ رب العزت وحی نازل فرمائٰں گے کہ تحقیق میں نے اپنے ایسے بندوں کو نکالا ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں۔ پس آپ میرے بندوں کو حفاظت کے لئے طور کی طرف لے جائیں اور اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر اونچائی سے نکل پڑیں گے، ان کی اگلی جماعتیں بحیرہ طبری پر سے گزریں گی اور اس کا سارا پانی پی جائٰیں گے اور ان کی آخری جماعتیں گزریں گی تو کہیں گی کہ اس جگہ کسی وقت پانی موجود تھا اور اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ محصور ہوجائیں گے، یہاں تک کہ ان میں کسی ایک کے لئے بیل کی سری بھی تم میں سے کسی ایک کے لئے آج کل کے سو دینار سے افضل و بہتر ہوگی۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کرے گا، وہ ایک جان کی موت کی طرح سب کے سب یک لخت مرجائیں گے، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی زمین کی طرف اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت کی جگہ بھی یاجوج ماجوج کی علامات اور بدبو سے انہیں خالی نہ ملے گی۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں کے برابر پرندے بھیجیں گے جو انہیں اٹھا کرلے جائیں گے اور جہاں اللہ چاہے وہ انہیں پھینک دیں گے پھر اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا جس سے ہر مکان خواہ وہ مٹی کا ہو یا بالوں کا آئینہ کی طرح صاف ہوجائے گا اور زمین مثل باغ یا حوض کے دھل جائے گی۔ پھر زمین سے کہا جائے گا: اپنے پھل کو اگا دے اور اپنی برکت کو لوٹا دے، پس ان دنوں ایسی برکت ہوگی کہ ایک انار کو ایک پوری جماعت کھائے گی اور اس کے چھلکے میں سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں اتنی برکت دے دی جائے گی کہ ایک دودھ دینے والی گائے قبیلہ کے لوگوں کے لئے کافی ہوجائے گی اور ایک دودھ دینے والی اونٹنی ایک بڑی جماعت کے لئے کافی ہوگی اور ایک دودھ دینے والی بکری پوری گھرانے کے لئے کفایت کرجائے گی، اسی دوران اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو لوگوں کی بغلوں کے نیچے تک پہنچ جائے گی، پھر ہر مسلمان اور ہر مومن کی روح قبض کرلی جائے گی اور بد لوگ ہی باقی رہ جائیں گے، جو گدھوں کی طرح کھلے بندوں جماع کریں گے، پس انہیں پر قیامت قائم ہوگی۔

[صحیح مسلم
کتاب: فتنوں کا بیان
باب: مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں
حدیث نمبر: 7373]


خلاصہ
(1) دجال پہلے نبوت کا اور اس کے بعد خدائی کا دعوا کرے گا.
[ابن ماجہ:4077، حاکم:8620]
(2) اس کے ساتھ غذا کا بہت بڑا ذخیرہ ہوگا۔
[حاکم:8620]
(3) زمین کے پوشیدہ خزانوں کو حکم دے گا تو وہ باہر نکل کر اس کے پیچھے ہوجائیں گے.
[مسلم:2937، ترمذی:2240، ابن ماجہ:4075]
(4) مادر زاد اندھے اور ابرص کو تندرست کردے گا۔
[احمد:20151]
(5) الله تعالیٰ اس کے ساتھ شیاطین بھیجے گا جو لوگوں سے باتیں گریں گے.
[احمد:14954 ، شرح مشكل الآثار-الطحاوي:5694]
(6) چنانچہ وہ (دجال) کسی دیہاتی سے کہے گا کہ اگر میں تیرے ماں باپ کو زندہ کردوں تو مجھے تو اپنا رب مان لے گا؟ دیہاتی وعدہ کرلے گا تو اس کے سامنے وہ شیطان اس کے ماں باپ کی صورت میں آکر کہیں گے کہ بیٹا! تو اس کی اطاعت کر، یہ تیرا رب ہے.
[ابن ماجہ:4077]
(7) نیز دجال کے ساتھ دو فرشتے دو نبیوں کے ہم شکل ہوں گے جو اس کی تکذیب لوگوں کی آزمائش کے لئے اس طرح کریں گے کہ سننے والوں کی تصدیق کرتے ہوۓ معلوم ہوں گے۔
[احمد ، در منثور]
(8) جو شخص اس کی تصدیق کرے گا کافر ہوجاۓ گا اور اس کے تمام پچھلے نیک اعمال باطل و بےکار ہوجائیں گے اور جو اس کی تکذیب کرے گا اس کے سب گناہ معاف گے.
[حاکم ، طبرانی ، فتح الباری]
(9) اس کا ایک عظیم فتنہ یہ ہوگا کہ جو لوگ اس کی بات مان لیں گے اس کی زمینوں میں دجال کے کہنے پر بادلوں سے بارش ہوتی نظر آۓ گی اور اسی کے کہنے پر اس کی زمین نباتات اگاۓ گی ، ان کے مویشی خوب فربہ ہوجائیں گے اور مویشیوں کے تھن دودھ سے بھر جائیں گے اور جو لوگ اس کی بات نہ مانیں گے ان میں قحط پڑے گا اور اس کے سارے مویشی ہلاک ہوجائیں گے.
[مسلم:2937، ترمذی:2240، ابن ماجہ:4075]
(10) غرض اس کی پیروی کرنے والوں کے سوا سب لوگ اس وقت مشقت میں ہوں گے۔
[احمد ، حاکم]
(11) اور حضرت عیسیٰؑ کے سوا کوئی (شخص) بھی اسے قتل کرنے پر قادر نہ ہوگا۔
[الجامع الصغیر للسیوطی، ابوداود طیالسی ، احمد]
(12)  (نہروں اور وادیوں کی صورت میں) اس کے ساتھ ایک جنّت ہوگی اور ایک آگ ، لیکن حقیقت میں آگ جنّت ہوگی اور جنّت آگ.
[مسلم:2937، ترمذی:2240، ابن ماجه:4077، طبراني:7644، حاكم:8620، رویاني:1239 ، ابن ابی شیبہ ، ابن عساکر ، کنز العمال]
(13) جو شخص اس کی آگ میں گرے گا اس کا اجر و ثواب یقینی اور گناہ معاف ہوجائیں گے۔
[ابن ابی شیبہ ، ابن عساکر]
(14) اور جو شخص دجال پر سورہ کہف کی ابتدائی دس (١٠) آیات پڑھ دےگا وہ اس کے فتنہ سے محفوظ رہے گا، حتیٰ کہ اگر دجال اسے اپنی آگ میں بھی ڈال دے تو وہ اس پر ٹھنڈی ہوجاۓ گی.
[مسلم:2937، ترمذی:2240]
(15) دجال تلوار (یا آرے) سے ایک مومن نوجوان کے دو ٹکڑے کرکے الگ الگ ڈال دے گا ، پھر اس کو آواز دے گا ، تو (الله کے حکم سے) وہ زندہ ہوجاۓ گا۔
[مسلم:2937، ترمذی:2240، ابن ماجه:4077، طبراني:7644، حاكم:8508+8620، رویاني:1239]
(16) اور دجال اس سے پوچھے گا کہ بتا تیرا رب کون ہے؟ وہ کہے گا کہ "میرا رب الله ہے" اور تو الله کا دشمن ہے ، مجھے آج پہلے سے زیادہ تیرے دجال ہونے کا یقین ہے.
[ابن ماجه:4077]
(17) دجال کو اس شخص کے علاوہ کسی اور کو مارنا یا زندہ کرنے کی  قدرت نہ دی جاۓ گی۔
[احمد ، حاکم]
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَا يَفْعَلُ بَعْدِي بِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ
[صحیح مسلم:2938(7377)، شرح السنۃ للبغوی:4262]
(18) اس کا فتنہ چالیس (٤٠) روز رہے گا، جن میں سے ایک دن ایک سال کے برابر اور ایک دن ایک ماہ کے برابر اور ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا، باقی ایّام حسب معمول ہونگے.
[مسلم:2937، ترمذی:2240 ، حاکم:8612]
(19) اس زمانہ میں مسلمانوں کے تین (٣) شہر ایسے ہوں گے جن میں سے ایک تو دو سمندروں کے سنگم پر ہوگا، اور دوسرا "حیرہ" (عراق) کے مقام پر اور تیسرا شام میں ، وہ مشرق کے لوگوں کو شکست دے گا اور اس شہر میں سب سے پہلے آۓ گا جو دو سمندروں کے سنگم پر ہے.
[احمد وغیرہ]
(20) (شہر کے) لوگ تین (٣) گروہوں میں بٹ جائیں گے۔
[احمد ، ابن ابی شیبہ ، الدر المنثور]




فتنوں سے سب سے زیادہ نجات پانے والے کون؟ 
حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ سَرْجِسَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أَظَلَّتْکُمُ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ ، أَنْجَی النَّاس فِیہَا صَاحِبُ شَاہِقَۃٍ ، یَأْکُلُ مِنْ رِسْلِ غَنَمِہِ ، أَوْ رَجُلٌ مِنْ وَرَائِ الدَّرْبِ آخِذٌ بِعَنَانِ فَرَسِہِ ، یَأْکُلُ مِنْ فِیء سَیْفِہِ۔ (حاکم ۴۳۲)

ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: تمہارے قریب ہوں گے فتنے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح، ان فتنوں میں لوگوں میں سب سے زیادہ نجات پانے والا (1)پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والا وہ شخص ہے جو اپنی بکریوں کے ریوڑ سے غذا حاصل کرتا ہے، (2)یا وہ شخص جو اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے اپنی تلوار کی غنیمت سے کھاتا ہے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ
کتاب: غزوات کا بیان
باب: جن حضرات کے نزدیک فتنہ میں نکلنا ناپسندیدہ ہے اور انھوں نے س سے پناہ مانگی ہے
حدیث نمبر: 38417]


کانا دجال کب ظاہر ہوگا؟
قال رسول اللہؐ :  لَا يَخْرُجُ الدَّجَّالُ حَتَّى يَذْهَلَ النَّاسُ عَنْ ذِكْرِهِ ، وَحَتَّى تَتْرُكَ الْأَئِمَّةُ ذِكْرَهُ عَلَى الْمَنَابِرِ “۔
ترجمہ…
”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دجال اس وقت تک نہیں نکلے گا جب تک لوگ اس کے تذکرہ سے غافل نہ ہوجائیں یہاں تک کہ ائمہ بھی منبروں پر اس کا تذکرہ کرنا چھوڑدیں“۔ 
[أخرجه ابن قانع (2/8) . وأخرجه أيضا: عبد الله بن أحمد فى زوائده على المسند (4/71، رقم 16718) . وقال الهيثمى (7/335) : رواه عبد الله بن أحمد من رواية بقية عن صفوان بن عمرو وهى صحيحة كما قال ابن معين وبقية رجاله ثقات.
المحدث : ابن السكن | المصدر : تهذيب التهذيب: 4/421 | خلاصة حكم المحدث : صالح الإسناد
المحدث : ابن كثير | المصدر : جامع المسانيد والسنن: 5261 | خلاصة حكم المحدث : لا بأس بإسناده]




دجال کے ظہور کی علامات:
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے گھر میں تھے، آپ نے دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: ”اس سے پہلے تین قسم کے قحط ہوں گے، ایک قحط یہ ہو گا کہ اس میں آسمان تہائی بارش روک لے گا، زمین اپنی تہائی نباتات روک لے گی، دوسرے میں یہ ہو گا کہ آسمان اپنی دو تہائی بارش روک لے گا، زمین اپنی دو تہائی نباتات روک لے گی، اور تیسرے میں آسمان اپنی ساری بارش روک لے گا، اور زمین اپنی تمام نباتات روک لے گی چوپاؤں میں سے کوئی کھر والا باقی بچے گا نہ کوئی کچلی والا، سب ہلاک ہو جائیں گے، اس کا سب سے شدید فتنہ یہ ہو گا کہ وہ اعرابی کے پاس آئے گا تو کہے گا، مجھے بتاؤ اگر میں تمہارے اونٹ کو زندہ کر دوں تو کیا تجھے یقین نہیں آئے گا کہ میں تمہارا رب ہوں؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں، شیطان اس کے لیے اس کے اونٹ کی صورت اختیار کر لے گا، تو اس کے تھن بہترین ہو جائیں گے اور اس کی کوہان بہت بڑی ہو جائے گی۔ “ فرمایا: ”وہ (دجال) دوسرے آدمی کے پاس آئے گا جس کا بھائی اور والد وفات پا چکے ہوں گے، تو وہ (اسے) کہے گا، مجھے بتاؤ اگر میں تمہارے لیے تمہارے والد اور تمہارے بھائی کو زندہ کر دوں تو کیا تجھے یقین نہیں ہو گا کہ میں تمہارا رب ہوں؟ وہ کہے گا، کیوں نہیں، شیطان اس کے لیے اس کے والد اور اس کے بھائی کی صورت اختیار کر لے گا۔ “ اسماء رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی کسی ضرورت کی خاطر تشریف لے گئے، پھر واپس آ گئے، اور لوگ آپ کے بیان کردہ فرمان میں فکر و غم کی کیفیت میں تھے، بیان کرتی ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دروازے کی دہلیز پکڑ کر فرمایا: ”اسماء کیا حال ہے؟“ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ نے دجال کے ذکر سے ہمارے دل نکال کر رکھ دیے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ میری زندگی میں نکل آیا تو میں اس کا مقابلہ کروں گا، ورنہ میرا رب ہر مومن پر میرا خلیفہ ہے۔ “ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم اپنا آٹا گوندھتی ہیں اور روٹی پکا کر ابھی فارغ بھی نہیں ہوتیں کہ پھر بھوک لگ جاتی ہے، تو اس روز مومنوں کی کیا حالت ہو گی؟ فرمایا: ”تسبیح و تقدیس جو آسمان والوں کے لیے کافی ہوتی ہے وہی ان کے لیے کافی ہو گی۔ “
[الجامع - معمر بن راشد:20821، المصنف - عبد الرزاق:21899، مسند أحمد:27579(26342)، المعجم الكبير للطبراني:404، شرح السنة للبغوي:4263، تفسير البغوي:«1850»]
((یُجْزِئُھُمْ مَا یُجْزِئُ اَھْلَ السَّمَآءِ مِنَ التَّسْبِیْحِ وَالتَّقْدِیْسِ))
’’تسبیح و تقدیس جو آسمان والوں کے لیے کافی ہوتی ہے وہی ان کے لئے کافی ہوگی۔‘‘
[الفتن لنعيم بن حماد:1586، طبرانی:405 حسن، ، مشکوۃ المصابیح:5491]






حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ، عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ، عَنْ مُؤْثِرِ بْنِ عَفَازَةَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَقِيتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي إِبْرَاهِيمَ، وَمُوسَى، وَعِيسَى "، قَالَ: " فَتَذَاكَرُوا أَمْرَ السَّاعَةِ، فَرَدُّوا أَمْرَهُمْ إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: لَا عِلْمَ لِي بِهَا، فَرَدُّوا الْأَمْرَ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: لَا عِلْمَ لِي بِهَا، فَرَدُّوا الْأَمْرَ إِلَى عِيسَى، فَقَالَ : أَمَّا وَجْبَتُهَا، فَلَا يَعْلَمُهَا أَحَدٌ إِلَّا اللهُ، ذَلِكَ وَفِيمَا عَهِدَ إِلَيَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنَّ الدَّجَّالَ خَارِجٌ، قَالَ: وَمَعِي قَضِيبَينِ ، فَإِذَا رَآنِي، ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الرَّصَاصُ، قَالَ: فَيُهْلِكُهُ اللهُ، حَتَّى إِنَّ الْحَجَرَ، وَالشَّجَرَ لَيَقُولُ: يَا مُسْلِمُ، إِنَّ تَحْتِي كَافِرًا، فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ، قَالَ: فَيُهْلِكُهُمُ اللهُ، ثُمَّ يَرْجِعُ النَّاسُ إِلَى بِلَادِهِمْ وَأَوْطَانِهِمْ، قَالَ: فَعِنْدَ ذَلِكَ يَخْرُجُ يَأْجُوجُ، وَمَأْجُوجُ، وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ، فَيَطَئُونَ بِلَادَهُمْ، لَا يَأْتُونَ عَلَى شَيْءٍ إِلَّا أَهْلَكُوهُ، وَلَا يَمُرُّونَ عَلَى مَاءٍ إِلَّا شَرِبُوهُ، ثُمَّ يَرْجِعُ النَّاسُ إِلَيَّ فَيَشْكُونَهُمْ، فَأَدْعُو اللهَ عَلَيْهِمْ، فَيُهْلِكُهُمُ اللهُ وَيُمِيتُهُمْ، حَتَّى تَجْوَى الْأَرْضُ مِنْ نَتْنِ رِيحِهِمْ، قَالَ: فَيُنْزِلُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمَطَرَ، فَتَجْرُفُ أَجْسَادَهُمْ حَتَّى يَقْذِفَهُمْ فِي الْبَحْرِ " قَالَ أَبِي: " ذَهَبَ عَلَيَّ هَاهُنَا شَيْءٌ لَمْ أَفْهَمْهُ، كَأَدِيمٍ "، وَقَالَ يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ: " ثُمَّ تُنْسَفُ الْجِبَالُ، وَتُمَدُّ الْأَرْضُ مَدَّ الْأَدِيمِ " ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ هُشَيْمٍ، قَالَ: " فَفِيمَا عَهِدَ إِلَيَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ: أَنَّ ذَلِكَ إِذَا كَانَ كَذَلِكَ، فَإِنَّ السَّاعَةَ كَالْحَامِلِ الْمُتِمِّ، الَّتِي لَا يَدْرِي أَهْلُهَا مَتَى تَفْجَؤُهُمْ بِوِلَادَتِهَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا "۔

ترجمہ:

حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: شب معراج میری ملاقات حضرت ابراہیم، موسی اور عیسی علیہ السلام سے ہوئی، انہوں نے قیامت کا تذکرہ چھیڑ دیا اور یہ معاملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا، انہوں نے فرمایا کہ مجھے تو اس کا کچھ علم نہیں ہے، پھر انہوں نے یہ معاملہ حضرت موسی علیہ السلام کے سامنے پیش کیا، انہوں نے بھی فرمایا کہ مجھے بھی اس کا کچھ علم نہیں ہے، پھر یہ معاملہ حضرت عیسی علیہ السلام کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کا حقیقی علم تو اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، البتہ میرے پروردگار نے مجھے یہ بتا رکھا ہے کہ قیامت کے قریب دجال کا خروج ہوگا، میرے پاس دو شاخیں ہوں گی، دجال مجھے دیکھتے ہی اس طرح پگھلنا شروع ہو جائے گا جیسے قلعی پگھل جاتی ہے، اس کے بعد اللہ اسے ختم کروا دے گا، یہاں تک کہ شجر و حجر پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مسلم! یہ میرے نیچے کافر چھپا ہوا ہے، آکر اسے قتل کر، یوں اللہ ان سب کو بھی ختم کروا دے گا۔ پھر لوگ اپنے شہروں اور وطنوں کو لوٹ جائیں گے، اس وقت یاجوج ماجوج کا خروج ہوگا جو ہر بلندی سے پھسلتے ہوئے محسوس ہوں گے، وہ تمام شہروں کو روند ڈالیں گے، میں اللہ سے ان کے خلاف بد دعاء کروں گا، تو اللہ تعالیٰ ان پر موت کو مسلط کر دے گا یہاں تک کہ ساری زمین ان کی بدبو سے بھر جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ بارش برسائیں گے جو ان کے جسموں کو بہا کر لے جائے گی اور سمندر میں پھینک دے گی، (میرے والد صاحب کہتے ہیں کہ یہاں کچھ رہ گیا ہے جو میں سمجھ نہیں سکا، بہرحال دوسرے راوی کہتے ہیں ) اس کے بعد پہاڑوں کو گرا دیا جائے گا اور زمین کو چمڑے کی طرح کھینچ دیا جائے گا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ جب یہ واقعات پیش آجائیں تو قیامت کی مثال اس امید والی اونٹنی کی ہوگی جس کی مدت حمل پوری ہوچکی ہو اور اس کے مالک کو معلوم نہ ہو کہ کب اچانک ہی اس کے یہاں دن یا رات میں بچہ پیدا ہوجائے۔ 
[مسند احمد (3556) وأخرجه ابن أبي شيبة 15/157-158، وابن ماجه (4081) ، وأبو يعلى (5294) ، والشاشي (845) و (847) و (848) ، والحاكم 4/488-489،  و545-546، من طرق عن يزيد بن هارون، عن العوام، به، موقوفاً، وعندهم قال العوام: فوجدت تصديق ذلك في كتاب الله تعالى: (حتى إذا فتحت يأجوج ومأجوج وهم من كل حَدَب ينسلون) ، قال البوصيري في "مصباح الزجاجة" 4/202: هذا إسناد صحيح رجاله ثقات، مؤثر بن عفازة ذكره ابن حبان في "الثقات"، وباقي رجال الإسناد ثقات، وقال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه، ووافقه الذهبي!
وأخرجه الطبري 17/91 أيضاً من طريق أصبغ بن زيد، عن العوام، به، مرفوعاً.
ويشهد لبعض هذا الحديث وهو إهلاك يأجوج ومأجوج بعد مقتل الدجال ما أخرجه مسلم (2937) (110) من حديث النواس بن سمعان مطولاً في ذكر أشراط الساعة، لكن يخالف ما عند مسلم في الحديث المذكور أن الله يرسل على يأجوج ومأجوج طيراً كأعناق البخت، فتحملهم، فتطرحهم حيث شاء الله.
وقوله بعد ذلك: "ثم تنسف الجبال وتمد الأرض مد الأديم" يخالف ما هو معروف أن ذلك يكون حين قيام الساعة لا قبلها.
قال السندي: قوله: "فردوا أمرهم إلى إبراهيم": لكونه أفضلهم ولأنه أب لهم.
قوله: "أما وجبتها"، أي: وقوعها، بمعنى: أنه متى يكون؟
قضيبين: تثنية قضيب، وهو السيف الدقيق.
فيهلكه الله، أي: ومن معه من الكفرة.
من كل حَدَب: مرتفع من الأرض.
ينسلون: يسرعون.
حتى تجوى الأرض: في "النهاية": يقال: جَوِيَ، يجوى: إذا أنتن.]



حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، قَالَ: أَتَيْنَا عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ لِنَعْرِضَ عَلَيْهِ مُصْحَفًا لَنَا عَلَى مُصْحَفِهِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْجُمُعَةُ أَمَرَنَا فَاغْتَسَلْنَا، ثُمَّ أُتِينَا بِطِيبٍ فَتَطَيَّبْنَا، ثُمَّ جِئْنَا الْمَسْجِدَ، فَجَلَسْنَا إِلَى رَجُلٍ، فَحَدَّثَنَا عَنِ الدَّجَّالِ، ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ، فَقُمْنَا إِلَيْهِ فَجَلَسْنَا، فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَكُونُ لِلْمُسْلِمِينَ ثَلَاثَةُ أَمْصَارٍ: مِصْرٌ بِمُلْتَقَى الْبَحْرَيْنِ، وَمِصْرٌ بِالْحِيرَةِ، وَمِصْرٌ بِالشَّامِ، فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَلَاثَ فَزَعَاتٍ، فَيَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أَعْرَاضِ النَّاسِ، فَيَهْزِمُ مَنْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ، فَأَوَّلُ مِصْرٍ يَرِدُهُ الْمِصْرُ الَّذِي بِمُلْتَقَى الْبَحْرَيْنِ، فَيَصِيرُ أَهْلُهُ ثَلَاثَ فِرَقٍ: فِرْقَةٌ تَقُولُ: نُشَامُّهُ، نَنْظُرُ مَا هُوَ، وَفِرْقَةٌ تَلْحَقُ بالْأَعْرَابِ، وَفِرْقَةٌ تَلْحَقُ بِالْمِصْرِ الَّذِي يَلِيهِمْ، وَمَعَ الدَّجَّالِ سَبْعُونَ أَلْفًا عَلَيْهِمُ السِّيجَانُ، وَأَكْثَرُ تَبَعِهِ الْيَهُودُ وَالنِّسَاءُ، ثُمَّ يَأْتِي الْمِصْرَ الَّذِي يَلِيهِ فَيَصِيرُ أَهْلُهُ ثَلَاثَ فِرَقٍ: فِرْقَةٌ تَقُولُ: نُشَامُّهُ وَنَنْظُرُ مَا هُوَ، وَفِرْقَةٌ تَلْحَقُ بالْأَعْرَابِ، وَفِرْقَةٌ تَلْحَقُ بِالْمِصْرِ الَّذِي يَلِيهِمْ بِغَرْبِيِّ الشَّامِ، وَيَنْحَازُ الْمُسْلِمُونَ إِلَى عَقَبَةِ أَفِيقٍ، فَيَبْعَثُونَ سَرْحًا لَهُمْ، فَيُصَابُ سَرْحُهُمْ، فَيَشْتَدُّ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ، وَتُصِيبُهُمْ مَجَاعَةٌ شَدِيدَةٌ، وَجَهْدٌ شَدِيدٌ، حَتَّى إِنَّ أَحَدَهُمْ لَيُحْرِقُ وَتَرَ قَوْسِهِ فَيَأْكُلُهُ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَادَى مُنَادٍ مِنَ السَّحَرِ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَتَاكُمُ الْغَوْثُ، ثَلَاثًا، فَيَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: إِنَّ هَذَا لَصَوْتُ رَجُلٍ شَبْعَانَ، وَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ، فَيَقُولُ لَهُ أَمِيرُهُمْ: يا رُوحَ اللهِ، تَقَدَّمْ صَلِّ، فَيَقُولُ هَذِهِ الْأُمَّةُ أُمَرَاءُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَيَتَقَدَّمُ أَمِيرُهُمْ فَيُصَلِّي، فَإِذَا قَضَى صَلَاتَهُ، أَخَذَ عِيسَى حَرْبَتَهُ، فَيَذْهَبُ نَحْوَ الدَّجَّالِ، فَإِذَا رَآهُ الدَّجَّالُ، ذَابَ، كَمَا يَذُوبُ الرَّصَاصُ، فَيَضَعُ حَرْبَتَهُ بَيْنَ ثَنْدُوَتِهِ، فَيَقْتُلُهُ وَيَنْهَزِمُ أَصْحَابُهُ، فَلَيْسَ يَوْمَئِذٍ شَيْءٌ يُوَارِي مِنْهُمْ أَحَدًا، حَتَّى إِنَّ الشَّجَرَةَ لَتَقُولُ يَا مُؤْمِنُ، هَذَا كَافِرٌ وَيَقُولُ الْحَجَرُ يَا مُؤْمِنُ هَذَا كَافِرٌ "۔



ترجمہ:

ابو نضرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن ہم لوگ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کے پاس آئے تاکہ مصحف کا ان کے مصحف کے ساتھ تقابل کر سکیں ؟ جب جمعہ کا وقت قریب آیا تو انہوں نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے غسل کیا، پھر ہمارے پاس خوشبو لائی گئی، جو ہم نے لگالی، پھر ہم مسجد میں آکر ایک آدمی کے پاس بیٹھ گئے، اس نے ہمیں دجال کے متعلق حدیث سنانا شروع کر دیں، اسی اثناء میں حضرت عثمان بن ابی العاصؓ بھی آگئے، ہم ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے، انہوں نے ہمیں بیٹھنے کے لئے کہا اور فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمانوں کے تین شہر ہوں گے، ایک شہر دو سمندروں کے سنگم پر واقع ہوگا، ایک حیرہ میں اور ایک شام میں ۔ لوگوں پر تین مرتبہ خوف وہراس کے واقعات پیش آئیں گے، پھر دجال کا خروج ہوجائے گا اور وہ اہل مشرق کو شکست دے دے گا، پھر سب سے پہلے وہ اس شہر پر حملہ کرے گا جو دو سمندروں کے سنگم پر واقع ہوگا، وہاں کے لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے، ایک فرقہ تو کھڑا ہوگا اور کہے گا کہ ہم اس کے پاس جا کر دیکھتے ہیں کہ وہ ہے کیا؟ دوسرا گروہ دیہاتیوں میں جا ملے گا اور تیسرا گروہ قریب کے شہر میں منتقل ہو جائے گا، اس وقت دجال کی معیت میں ستر ہزار افراد ہوں گے جنہوں نے سبز چادریں اوڑھ رکھی ہوں گی اور اس کے اکثر پیروکار یہودی اور عورتیں ہوں گی۔ پھر وہ دوسرے شہر کا رخ کرے گا تو وہاں کے لوگ بھی اسی طرح تین گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے ( جیسا کہ ابھی گذرا) اس طرح مسلمان سمٹ کر افیق نامی گھاٹی میں جمع ہو جائیں گے، پھر وہ اپنا ایک دستہ مقابلہ کے لئے بھیجیں گے لیکن وہ سب شہید ہو جائیں گے، اس وقت مسلمان بڑی سختی کا شکار ہوں گے، انہیں شدید بھوک اور انتہائی پریشانی کا سامنا ہوگا حتی کہ ایک آدمی اپنی کمان کی تانت جلا کر اسے کھانے لگے گا۔ ابھی وہ انہی حالات میں ہوں گے کہ ایک دن صبح کے وقت ایک منادی آواز لگائے گا اے لوگو! تمہارے پاس فریاد رس آپہنچا، لوگ آپس میں کہیں گے کہ یہ تو کسی پیٹ بھرے ہوئے آدمی کی آواز ہے، اسی وقت نماز فجر کے قریب حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا، مسلمانوں کا امیر (امام مہدیؓ) ان سے درخواست کرے گا کہ اے روح اللہ! آگے بڑھ کر نماز پڑھائیے، وہ فرمائیں گے کہ اس امت کے لوگ ہی ایک دوسرے پر امیر ہیں ، لہذا ان کا امیر ہی آگے بڑھ کر نماز پڑھائے۔ جب حضرت عیسی علیہ السلام نماز سے فارغ ہوں گے تو اپنا نیزہ لے کر دجال کی طرف روانہ ہوں گے، دجال جب انہیں دیکھے گا تو سیسے کی طرح پگھلنے لگے گا، حضرت عیسی علیہ السلام اپنا نیزہ اس کی چھاتیوں کے درمیان ماریں گے اور اسے قتل کر ڈالیں گے، اس کے پیروکار (شکست کھا جائیں گے اور اس دن کوئی چیز ایسی نہ ہوگی جو انہیں اپنے پیچھے چھپالے، حتی کہ درخت بھی کہے گا کہ اے مومن! یہ کافر ہے اور پتھر بھی کہیں گے کہ اے مومن! یہ کافر ہے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

[مسند احمد (17900) وأخرجه ابن أبي شيبة 15/136 عن أسود بن عامر، والطبراني في "الكبير" (8392) من طريق محمد بن عبد الله الخزاعي، كلاهما عن حماد بن سلمة، بهذا الإسناد.
وأخرجه الحاكم في "المستدرك" 4/478 من طريق سعيد بن هبيرة، عن حماد بن زيد، عن أيوب السختياني وعلي بن زيد بن جدعان، به. وقال: هذا حديث صحيح الإسناد على شرط مسلم بذكر أيوب السختياني ولم يخرجاه.]








حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ آدَمَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ - يَعْنِي عِيسَى - وَإِنَّهُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ: رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ، بَيْنَ مُمَصَّرَتَيْنِ، كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ، فَيُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَيَدُقُّ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ، وَيُهْلِكُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، ثُمَّ يُتَوَفَّى فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ ".

ترجمہ:

سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمام انبیاء بھائی بھائی ہیں، ان کی مائیں مختلف ہیں مگر ان کا دین ایک ہے، میں عیسی علیہ السلام کا اور لوگوں کی نسبت زیادہ قریبی ہوں، کیونکہ میرے اور ان کے مابین اور کوئی نبی نہیں ہے اور وہ نازل ہونے والے ہیں، تم انہیں دیکھو گے تو پہچان لو گے کہ وہ ایک ایسے شخص ہوں گے جن کا قد درمیانہ اور رنگ سرخ سفیدی مائل ہوگا ، انہوں نے ہلکے زرد رنگ کے دو کپڑے پہن رکھے ہوں گے۔ سر سے یوں محسوس ہوگا جیسے پانی کے قطرے گر رہے ہوں، حالانکہ وہ گیلا نہیں ہوگا، وہ صلیب کو توڑ دیں گے ، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ ختم کردیں گے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے، اللہ تعالی ان کے زمانے میں اسلام کے علاوہ تمام ملتوں کو ہلاک کردے گا۔ اللہ تعالی ان کے زمانے میں مسیح دجال کو بھی ہلاک کردے گا۔ پھر زمین اس قدر پر امن ہوجائے گی کہ شیر اونٹوں کے ساتھ، چیتے گائیوں کے ساتھ اور بھیڑیے بکریوں کےس اتھ مل کر چریں گے اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے ، مگر سانپ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گے، سیدنا عیسی علیہ السلام زمین میں چالیس سال رہیں گے اور پھر فوت ہوجائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔

[مسند احمد: 406/2۔ ح: 9292۔ ابو داؤد، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال: 4324۔ ابن حبان: 6821]



حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنَ الْمَدِينَةِ، مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ، فَإِذَا تَصَافُّوا، قَالَتِ الرُّومُ: خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ، فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ: لَا، وَاللهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا، فَيُقَاتِلُونَهُمْ، فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا، وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ، أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللهِ، وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ، لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ، فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ، قَدْ عَلَّقُوا سُيُوفَهُمْ بِالزَّيْتُونِ، إِذْ صَاحَ فِيهِمِ الشَّيْطَانُ: إِنَّ الْمَسِيحَ قَدْ خَلَفَكُمْ فِي أَهْلِيكُمْ، فَيَخْرُجُونَ، وَذَلِكَ بَاطِلٌ، فَإِذَا جَاءُوا الشَّأْمَ خَرَجَ، فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ، يُسَوُّونَ الصُّفُوفَ، إِذْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَّهُمْ، فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللهِ، ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ، وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللهُ بِيَدِهِ، فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ "۔

ترجمہ:

سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک رومی مقام اعماق یا دابق پر حملہ آور نہ ہوں گے، ان کے مقابلے کے لیے مدینہ سے ایک ایسا لشکر نکلے گا جو اس وقت روئے زمین کے بہترین لوگوں پر مشتمل ہوگا۔ جب وہ ایک دوسرے کے بالمقابل صف آرا ہوں گے تو رومی کہیں گے، ہمیں چھوڑ دو، تاکہ ہم ان لوگوں سے جنگ کریں جنہوں نے ہمارے آدمیوں کو قیدی بنا لیا ہے، مسلمان جواب دیں گے، نہیں اللہ کی قسم۔ ہم تمہیں اپنے بھائیوں سے جنگ نہیں کرنے دیں گے، مگر جب وہ ان سے لڑائی کریں گے تو ان میں سے ایک تہائی پسپائی اختیار کرلیں گے، اللہ تعالی ان لوگوں کی توبہ ہرگز قبول نہیں کرے گا، ایک تہائی شہید ہوجائیں گے جو اللہ تعالی کے نزدیک سب سے افضل شہید ہوں گے اور ایک تہائی فتح یاب ہوجائیں گے اور یہ لوگ آئندہ کھی فتنے میں مبتلا نہیں ہوں گے اور بعد ازاں یہ لوگ قسطنطنیہ فتح کرلیں گے، پھر وہ اپنی غنیمتوں کو تقسیم کر رہے ہوں گے اور انہوں نے زیتون کے ساتھ اپنی تلواروں کو لٹکا رکھا ہوگا کہ اچانک شیطان ان میں چیخ کر کہے گا کہ مسیح (دجال) تمہارے پیچھے تمہارے اہل و عیال میں موجود ہیں، تو سب لوگ واپس جاکر دیکھیں گے مگر یہ بات جھوٹی ہوگی، لیکن جب وہ شام آئیں گے تو مسیح (دجال) کا خروج ہوگا۔ مسلمان لڑائی کے لیے صفوں کو درست کر رہے ہوں گے، تب نماز کھڑی ہوگی تو عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے اور وہ ان کے امام کو امامت کروانے کا کہیں گے، جب اللہ کا دشمن (مسیح دجال) آپ کو دیکھے گا تو وہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے ۔ اگر آپ اسے چھوڑ دیں تو وہ پگھل پگھل کر خود ہی ہلاک ہوجائے ، مگر اللہ تعالی اسے آپ کے ہاتھ سے قتل کرائے گا اور آپ کے نیزے پر اس کا خون دکھائے گا۔

[مسلم، کتاب الفتن، باب فی فتح قسطنطنیہ و خروج الدجال ونزول عیسی ابن مریم علیھما السلام: 2897]


ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول کا ذکر ہے، یہ احادیث رسول اللہ سے متواتر ہیں۔ ان کے راویوں میں سیدنا ابوہریرہ، سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا عثمان بن ابی العاص، سیدنا ابو امامہ، سیدنا نواس بن سمعان، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص اور سیدنا ابوسریحہ حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ ان احادیث میں آپ کے نزول کی صفت اور جگہ کا بیان ہے۔ مسیح کا اپنے جسم کے ساتھ اٹھایا جانا، وہاں ان کا زندہ موجود ہونا، دوبارہ دنیا میں آکر کئی سال رہنا اور دجال کو قتل کرنے کے بعد اپنی طبعی موت مرنا امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ ہے اور اس کی بنیاد قرآنی تصریحات اور ان تفصیلات پر ہے جو احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔ لہذا حیات مسیح کے انکار سے قرآن و حدیث کا انکار لازم آتا ہے، جو سراسر گمراہی ہے۔




دجال کے بارے میں کتب احادیث میں باقاعدہ ابواب موجود ہیں۔ آپ جو بھی حدیث کی کتاب اٹھائیں گے اس میں دجال کا ذکر ضرور آئے گا۔ علامات قیامت میں ذکر آئے گا یا پھر الگ سے باب بھی ہو سکتا ہے۔ چند حوالہ جات درج ذیل ہیں۔

1. بخاری، الصحیح، 6 : 2606، باب ذکر الدجال، دار ابن کثیر الیمامۃ بیروت
2. مسلم، الصحیح، 1 : 154، باب ذکر المسیح بن مریم والمسیح الدجال، دار احیاء التراث العربی بیروت
3. ابی داؤد، السنن، 4 : 115، باب خروج الدجال، دار الفکر
4. ترمذی، السنن، 4 : 507 سے 515، باب ما جاء فی الدجال سے باب ما جاء فی قتل عیسی بن مریم الدجال، دار احیاء التراث العربی بیروت
5. ابن ماجہ، السنن، 2 : 1353، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی بن مریم وخرج یاجوج وماجوج، دار الفکر بیروت
6. عبد الرزاق، المصنف، 11 : 389، باب الدجال، المکتب الاسلامی بیروت

ان کے علاوہ مسند احمد بن حنبل، مؤطا امام مالک، سنن نسائی الکبری، المستدرک علی الصحیحین امام حاکم، صحیح ابن حبان سنن البیھقی الکبری، مسند ابی عوانۃ، مصنف ابن ابی شیبۃ، مسند ابی یعلی، مسند اسحاق بن راہویہ، مسند البزار، مسند ابن ابی شیبۃ، المعجم الکبیر، المعجم الصغیر اور المعجم الاوسط طبرانی میں بھی دجال کے بارے میں احادیث بیان کی گئی ہیں۔

اور ان میں سے اکثر احادیث صحیح ہیں ،جن کا انکار ایک منکر حدیث ہی کر سکتا ہے۔

جن میں اس کے حلیہ، اس کے دعویٰ اور اس کے فتنہ و فساد پھیلانے کی تفصیل ذکر کی گئی ہے، چند احادیث کا خلاصہ درج ذیل ہے:

۱:…رنگ سرخ، جسم بھاری بھرکم، قد پستہ، سر کے بال نہایت خمیدہ الجھے ہوئے، ایک آنکھ بالکل سپاٹ، دوسری عیب دار، پیشانی پر “ک، ف، ر” یعنی “کافر” کا لفظ لکھا ہوگا جسے ہر خواندہ و ناخواندہ موٴمن پڑھ سکے گا۔


۲:…پہلے نبوت کا دعویٰ کرے گا اور پھر ترقی کرکے خدائی کا مدعی ہوگا۔


۳:…اس کا ابتدائی خروج اصفہان خراسان سے ہوگا اور عراق و شام کے درمیان راستہ میں اعلانیہ دعوت دے گا۔


۴:…گدھے پر سوار ہوگا، ستر ہزار یہودی اس کی فوج میں ہوں گے۔


۵:…آندھی کی طرح چلے گا اور مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ اور بیت المقدس کے علاوہ ساری زمین میں گھومے پھرے گا۔


۶:…مدینہ میں جانے کی غرض سے احد پہاڑ کے پیچھے ڈیرہ ڈالے گا، مگر خدا کے فرشتے اسے مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، وہاں سے ملک شام کا رخ کرے گا اور وہاں جاکر ہلاک ہوگا۔


۷:…اس دوران مدینہ طیبہ میں تین زلزلے آئیں گے اور مدینہ طیبہ میں جتنے منافق ہوں گے وہ گھبراکر باہر نکلیں گے اور دجال سے جاملیں گے۔


۸:…جب بیت المقدس کے قریب پہنچے گا تو اہل اسلام اس کے مقابلہ میں نکلیں گے اور دجال کی فوج ان کا محاصرہ کرلے گی۔


۹:…مسلمان بیت المقدس میں محصور ہوجائیں گے اور اس محاصرہ میں ان کو سخت ابتلا پیش آئے گا۔


۱۰:…ایک دن صبح کے وقت آواز آئے گی: “تمہارے پاس مدد آپہنچی!” مسلمان یہ آواز سن کر کہیں گے کہ: “مدد کہاں سے آسکتی ہے؟ یہ کسی پیٹ بھرے کی آواز ہے۔


۱۱:…عین اس وقت جبکہ فجر کی نماز کی اقامت ہوچکی ہوگی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیت المقدس کے شرقی منارہ کے پاس نزول فرمائیں گے۔


۱۲:…ان کی تشریف آوری پر امام مہدی (جو مصلّے پر جاچکے ہوں گے) پیچھے ہٹ جائیں گے اور ان سے امامت کی درخواست کریں گے، مگر آپ امام مہدی کو حکم فرمائیں گے کہ نماز پڑھائیں کیونکہ اس نماز کی اقامت آپ کے لئے ہوئی ہے۔


۱۳:…نماز سے فارغ ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دروازہ کھولنے کا حکم دیں گے، آپ کے ہاتھ میں اس وقت ایک چھوٹا سا نیزہ ہوگا، دجال آپ کو دیکھتے ہی اس طرح پگھلنے لگے گا جس طرح پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔ آپ اس سے فرمائیں گے کہ: اللہ تعالیٰ نے میری ایک ضرب تیرے لئے لکھ رکھی ہے، جس سے تو بچ نہیں سکتا! دجال بھاگنے لگے گا، مگر آپ “بابِ لُدّ” کے پاس اس کو جالیں گے اور نیزے سے اس کو ہلاک کردیں گے اور اس کا نیزے پر لگا ہوا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے۔


۱۴:…اس وقت اہل اسلام اور دجال کی فوج میں مقابلہ ہوگا، دجالی فوج تہہ تیغ ہوجائے گی اور شجر و حجر پکار اٹھیں گے کہ: “اے موٴمن! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، اس کو قتل کر۔”



یہ دجال کا مختصر سا احوال ہے، احادیث شریفہ میں اس کی بہت سی تفصیلات بیان فرمائی گئی ہیں۔





مسیح دجال کا خروج مشرق کی جانب سے ہوگا ، وہ نکلنے کے بعد زمین میں ہر ایک شہر اوربستی میں جاۓ گا لیکن وہ مکہ اور مدینہ اور مسجد اقصی اور مسجد طور میں داخل نہیں ہو سکتا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے ۔

ابو بکر صدیقؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ہمیں حدیث بیان کرتے ہوۓ فرمایا:

(دجال کا ظہور مشرقی جانب کے ایک شہر خراسان سے نکلے گا )
[سنن ترمذی حدیث نمبر 2237]

علامہ البانیؒ نے صحیح ترمذی میں اس حدیث کوصحیح قراردیا ہے ۔

انس بن مالکؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
( مکہ اور مدینہ کے علاوہ کوئ ایسا علاقہ نہیں ہوگا جسے دجال نہ روند سکے ، مکہ اور مدینہ کے ہر راستے پر فرشتے ننگی تلواریں سونتے ہوۓ پہرا دیں گے ، پھر مدینہ اپنے مکینوں کے ساتھ تین مرتبہ ہلے گا تو اللہ تعالی ہر کافر اور منافق کو مدینہ سے نکال دے گا )۔ 
[صحیح بخاری:1881، صحیح مسلم:2943]

اور امام مسلمؒ نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث روایت بیان کی ہے جس میں تمیم داریؓ اور جساسۃ کا قصہ بیان کیا گیا ہے کہ دجال نے انہیں یہ کہا کہ :
( قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت دی جاۓ تو میں نکلنے کے بعد چالیس دن میں کوئ ایسی بستی نہیں ہو گی جس میں داخل نہ ہو جا‎ؤں لیکن مکہ اور طیبہ – یعنی مدینہ – میں داخل نہیں ہوسکوں گا کیونکہ وہ دونوں مجھ پرحرام ہیں ، جب بھی میں ان میں سے کسی ایک میں جانے کی کوشش کروں گا تومیرا استقبال ایک ایسا فرشتہ کرے گا جس نے ھاتھ میں ننگی تلوار سونت رکھی ہوگی اور وہ مجھے اس میں داخل ہونے سے روک دے گا ، اور اس کے ہر راستے پر فرشتے پہرہ دے رہے ہوں گے ۔

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول ﷺ نے اپنی چھڑی منبر پر مارتے ہوۓ فرمایا : کہ یہ طیبہ ہے یہ طیبہ ہے یہ طیبہ ہے یعنی مدینہ ، کیا میں نے تمہیں اس کے متعلق بتایا نہیں تھا ، تو لوگ کہنے لگے جی ہاں ، تو نبی ﷺ نے کہنے لگے مجھے تمیمؓ کی حدیث پسند آئ کہ وہ دجال اور مکہ اور مدینہ کے متعلق جو میں تمہیں بیان کیا کرتا تھا اس کے موافق ہے )
[صحیح مسلم:2942]

اورامام احمدؒ تعالی نے نبی ﷺ سے حدیث روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
(میں نے تمہیں مسیح دجال سے ڈرایا تھا اور وہ خراب پھسی ہوئ آنکھ والا ہے ، راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے بائيں آنکھ کے متعلق کہا ، اور اس کے ساتھ روٹیوں کے پہاڑ اور پانی کی نہریں چل رہی ہوں گی اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ زمین میں چالیس دن رہے گا اورصرف چار مسجدوں کو چھوڑ کر وہ ہر جگہ پر جاۓ گا ، وہ چار مسجدیں یہ ہیں ، مسجد حرام ، مسجد نبوی ، مسجد اقصی ، اور مسجد طور )۔
مسند احمد (23139) اور اس حدیث کو شعیب ارنا‎ؤط نے مسند احمد کی تحقیق میں صحیح کہا ہے ۔

اور احاديث میں اس بات کا حکم آیا ہے کہ جب دجال کا خروج ہو تو اس سے دور ہی رہا جاۓ تاکہ جو کچھ شبہات اور خارق عادت اشیاءاس کےساتھ ہیں ان کی وجہ سے کہیں فتنہ میں نہ پڑ جاۓ ، کیونکہ ایک شخص آۓ گا جو کہ یہ گمان کرتا ہوگا کہ وہ مومن ہے اورایمان پر ثابت قدم ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس کی پیروی کر لے گا ۔

عمران بن حصینؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

( جو بھی دجال کا سنے کہ وہ آ چکا ہے تو اسے چاہۓ کہ وہ اس سے دور ہی رہے ، اللہ تعالی کی قسم بیشک ایک ایسا شخص آۓ گا جو کہ یہ خیال کرتا ہوگا کہ وہ مومن ہے لیکن ان شبہات کی بنا پر جودجال لے کرآ‎ۓ گا وہ اس کی پیروی کرنے لگےگا )
[سنن ابو داود:4319 ، مسند احمد:19888 ) اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح ابوداود میں صحیح کہا ہے ۔

تو یہ حديث اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے فرار ممکن ہے اور نبی اکرم ﷺ نے یہ حکم دیا ہے کہ جو اس پالے وہ دجال پر سورۃ الکہف کی شروع والی آیات پڑھے۔
]صحیح مسلم: 2937]

طیب کا قول ہےکہ : اس کا معنی یہ ہے کہ ان آیا ت کا پڑھنا دجال کے فتنہ سے امن کا باعث ہے ۔

اور ابوداود رحمہ اللہ تعالی نے یہ الفاظ زیادہ ذکر کۓ ہیں ( بیشک یہ آیات اس کے فتنہ سے تمہیں بچانے والی ہیں )
[صحیح ابو داود:3631]

اللہ تعالی سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہميں اس کے شر سے محفوظ رکھے ،اور اس کے فتنہ سے بچاۓ آمین ۔


واللہ تعالی اعلم .














عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ يَوْمًا فَقُلْتُ، وَمَتَى خُرُوجُهُ؟ قَالَ: «إِذَا شُيِّدَ الْبُنْيَانُ وَتَجَبَّرَتِ النِّسَاءُ» قُلْتُ: فَإِذَا كَانَ ذَلَكَ فَمَتَى خُرُوجُهُ؟ قَالَ: «إِذَا كَذَبَ التُّجَّارُ، وَفَجَرَ النَّاسُ» قُلْتُ: فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ فَمَتَى خُرُوجُهُ؟ قَالَ: «إِذَا اسْتَحَلَّتْ أُمَّتِي الْخَمْرَ بِالنَّبِيذِ، وَالزِّنَا بِالنِّكَاحِ فَهُنَالِكَ خُرُوجُ الدَّجَّالِ»

ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن دجال کا ذکر کیا میں نے پوچھا وہ کب نکلے گا؟ آپ نے فرمایا: جب عمارتیں مضبوط و مستحکم بنائی جانے لگیں، اور عورتیں (غیر شوہروں کیلئے) زینت کرنے لگیں۔ میں نے کہا جب ایسا ہوجائے تو پھر کب نکلے گا فرمایا: جب تجارت کرنے والے جھوٹ بولنے لگیں اور لوگ زنا وغیرہ گناہ کرنے لگیں۔ میں نے پوچھا جب ایسا ہوگا تو کب نکلے گا ارشاد فرمایا: جب میری امت نبیذ کے بجائے شراب کو حلال سمجھنے لگے اور زنا کو نکاح کے بدلے حلال سمجھنے لگے اس وقت دجال کا خروج ہوگا۔

[ناسخ الحديث ومنسوخه لابن شاهينحدیث#459]



حَدَّثَنَا قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ، أَنَّ أَبَاهُ، حَدَّثَهُ قَالَ: ذَكَرْنَا الدَّجَّالَ فَسَأَلْنَا عَلِيًّا مَتَى خُرُوجُهُ؟ قَالَ: " لَا يَخْفَى عَلَى مُؤْمِنٍ , عَيْنُهُ الْيُمْنَى مَطْمُوسَةٌ , بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ يَتَهَجَّاهَا لَنَا عَلِيٌّ , قَالَ: فَقُلْنَا: وَمَتَى يَكُونُ ذَلِكَ؟ قَالَ: حِينَ يَفْخَرُ الْجَارُ عَلَى جَارِهِ , وَيَأْكُلُ الشَّدِيدُ الضَّعِيفَ وَتُقْطَعُ الْأَرْحَامُ , وَيَخْتَلِفُونَ اخْتِلَافَ أَصَابِعِي هَؤُلَاءِ وَشَبَّكَهَا وَرَفَعَهَا هَكَذَا , فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: كَيْفَ تَأْمُرُنَا عِنْدَ ذَلِكَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: لَا أَبَا لَكَ , إِنَّكَ لَنْ تُدْرِكَ ذَلِكَ قَالَ: فَطَابَتْ أَنْفُسُنَا۔

ترجمہ:

ابو ظبیان سے روایت ہے فرمایا: ہم نے دجال کا ذکر کیا حضرت علیؓ سے پوچھا: وہ کب نکلے گا؟  فرمایا کسی مومن سے مخفی نہیں ہوگی اس کی داہنی آنکھ سپاٹ، اس کی پیشانی پر کافر لکھا ہوگا، حضرت علیؓ نے ہمارے سامنے اس کے ہجے(ک ف ر)کہے، ہم نے عرض کیا: ایسا کب ہوگا؟ فرمایا: جب پڑوسی پر فخر کرنے لگے، سخت کمزور کو کھانے لگے، ناتے رشتہ ختم کیے جانے لگے اور لوگ آپس میں میری اِن انگلیوں کی طرح اختلاف کرنے لگیں، پھر آپ نے اپنی انگلیاں کھولی اور بند کیں۔ تو ایک شخص آپ سے عرض کرنے لگا؟ اے امیرالمومنین! اس وقت کے متعلق آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟  فرمایا: تیرا باپ نہ رہے، بےشک تو اس زمانہ کو نہیں پائے گا۔ تو ہمارے دل (اس بات سے) خوش ہوگئے۔

[مصنف بن أبي شيبة:37521 - كِتَابُ الْفِتَنِ ، مَا ذُكِرَ فِي فِتْنَةِ الدَّجَّالِ]






دجال کہاں ہلاک کیا جائے گا؟
طاعون اور دجال سے مدینہ منورہ کا محفوظ رہنے کے بیان
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْإِيمَانُ يَمَانٍ، وَالْكُفْرُ قِبَلَ الْمَشْرِقِ، وَالسَّكِينَةُ فِي أَهْلِ الْغَنَمِ، وَالْفَخْرُ وَالرِّيَاءُ فِي الْفَدَّادِينَ، يَأْتِي الْمَسِيحُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَهِمَّتُهُ الْمَدِينَةَ، حَتَّى إِذَا جَاءَ دُبُرَ أُحُدٍ، ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ قِبَلَ الشَّامِ، وَهُنَالِكَ يَهْلِكُ "، وَقَالَ مَرَّةً: " صَرَفَتِ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ "۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایمان (اور حکمت) یمن والوں میں بہت عمدہ ہے کفر مشرقی جانب ہے سکون و اطمینان بکریوں کے مالکوں میں ہوتا ہے جبکہ دلوں کی سختی اونٹوں کے مالکوں میں ہوتی ہے۔ مسیح دجال مشرق کی طرف سے آئے گا اور اس کی منزل مدینہ منورہ ہوگی یہاں تک کہ وہ احد کے پیچھے آکر پڑاؤ ڈالے گا پھر ملائکہ اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہیں وہ ہلاک ہو جائے گا۔
[مسند احمد (9286وأخرجه الترمذي (2243) ، وابن حبان (5774) ، وأبو عوانة 1/59 من طريق عبد العزيز بن محمد الدراوردي، عن العلاء بن عبد الرحمن، بهذا الإسناد. وقال
الترمذي: حسن صحيح. ورواية أبي عوانة مختصرة دون قصة المسيح.
ولقطعة الإيمان، انظر (8846) .
ولقطعة المسيح الدجال، انظر (9166) .
قوله: "ضربت الملائكة وجهه"، قال السندي: من ضرب بمعنى جعل، قال تعالى: (فاضرب لهم طريقاً في البحر) [طه: 77] ، أي: اجعل.]





وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ، وَابْنُ حُجْرٍ، جَمِيعًا عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَأْتِي الْمَسِيحُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، هِمَّتُهُ الْمَدِينَةُ، حَتَّى يَنْزِلَ دُبُرَ أُحُدٍ، ثُمَّ تَصْرِفُ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ قِبَلَ الشَّامِ، وَهُنَالِكَ يَهْلِكُ»
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسیح دجال مشرق کی طرف سے آئے گا اور مدینہ میں داخل ہونے کا ارادہ کرے گا یہاں تک کہ احد پہاڑ کے پچھلی طرف اترے گا پھر فرشتے اس کا منہ وہیں سے شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہ وہیں ہلاک ہو جائے گا۔
[صحیح مسلم :1380، كِتَابُ الْحَجِّ، بَابُ صِيَانَةِ الْمَدِينَةِ مِنْ دُخُولِ الطَّاعُونِ، وَالدَّجَّالِ إِلَيْهَا]
مسند احمد (9166) وأخرجه مسلم (1380) (486) ، وأبو يعلى (6459) ، وابن حبان (6810) ، والبغوي (2023) من طرق عن إسماعيل بن جعفر، بهذا الإسناد.
وأخرجه الترمذي (2243) من طريق عبد العزيز بن محمد الدراوردي، عن العلاء، به.
وسيأتي برقم (9286) و (9895) . وانظر ما سلف برقم (7234) .




فتنہ دجال سے پناہ کی نبوی دعا و تعلیم:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں (تشہد کے بعد) یہ دعا مانگتے تھے :
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ 
(یعنی اے اللہ میں عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور کانے دجال کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور زندگی کے فتنوں اور موت کے فتنوں سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں اے پروردگار ! میں تجھ سے گناہوں سے اور قرض سے پناہ چاہتا ہوں)۔
راوی کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کی یہ دعا سن کر کسی کہنے والے نے کہا کہ" آپ ﷺ قرض سے پناہ مانگنا بڑے تعجب کی بات ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا " جب آدمی قرضدار ہوتا ہے تو باتیں بناتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔"
 (صحیح بخاری و صحیح مسلم )
تشریح :
دجال آخر زمانے میں قیامت کے قریب پیدا ہوگا جو خدائی کا دعویٰ کرے گا اور لوگوں کو اپنے مکر و فریب اور شعبدہ بازیوں سے گمراہ کرے گا۔ اس کا مفصل ذکر انشاء اللہ مشکوٰۃ کے آخری ابواب میں آئے گا۔ دجال کو مسیح کیوں کہتے ہیں : دجال کو مسیح اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک آنکھ ملی ہوئی ہوگی یعنی وہ کانا ہوگا چونکہ ممسوح ہوگا اس لئے اس مناسبت سے اسے مسیح کہا جاتا ہے ۔ ممسوح کا مطلب ہے" تمام بھلائیوں، نیکیوں اور خیر و برکت کی باتوں سے بالکل بعید، نا آشنا اور ایسا کہ جیسے اس پر کبھی ان چیزوں کا سایہ بھی نہ پڑا ہوگا۔" اور ظاہر کہ اتنی بری خصلتوں کا حامل دجال کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے۔؟ حضرت عیسی علیہ السلام کو مسیح کہنے کی وجہ : اسی کے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کا لقب بھی " مسیح" ہے جس کی اصل مسیحا ہے اور مسیحا عبرانی زبان میں " مبارک" کو کہتے ہیں یا یہ کہ مسیح کے معنی ہیں " بہت سیر کرنے والا " چونکہ قرب قیامت حضرت عیسی علیہ السلام اس دنیا میں آسمان سے اتارے جائیں گے اور دنیا سے گمراہی وضلالت اور برائیوں کی جڑ اکھاڑنے اور پھر تمام عالم پر اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے حکمرانی کرنے پر مامور فرمائے جائیں گے اور اس سلسلے میں آپ ﷺ کو امور مملکت کی دیکھ بھال کرنے اور اللہ کے دین کو عالم میں پھیلانے اور کانے دجال کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے تقریبا پوری دنیا میں پھرنا پڑے گا۔ اس لئے اس مناسبت سے مسیح علیہ السلام کا لقب قرار پایا ہے۔ بہر حال لفظ مسیح کا اطلاق حضرت عیسی علیہ السلام اور دجال ملعون دونوں پر ہوتا ہے اور دونوں کے درمیان امتیازی فرق یہ ہے کہ جب صرف " مسیح" لکھا اور بولا جاتا ہے تو اس سے حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات گرامی مراد لی جاتی ہے اور جب دجال ملعون مراد ہوتا ہے تو لفظ مسیح کو دجال کے ساتھ قید کر دیتے ہیں یعنی" مسیح دجال" لکھتے اور بولتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس دعا میں چھ چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی ہے (١) عذاب قبر (٢) فتنہ دجال (٣) فتنہ زندگی (٤) فتنہ موت (٥) گناہ (٦) قرض۔ یہ چھ چیزیں اپنی ہیبت و ہلاکت اور دینی و دنیاوی خسران و نقصان کے باعث بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان چیزوں سے اگر اللہ تعالیٰ نے نجات دی اور اپنا فضل و کرم فرما دیا تو دینی و دنیاوی دونوں زندگیاں کامیابی و کامرانی سے اور رحمت و سعادت کی ہم آغوش ہوگی اور اگر خدانخوستہ کہیں کسی بد نصیب کا ان میں سے کسی ایک سے بھی پالا پڑ گیا تو جانئے کہ اس کی دنیا بھی تباہ و برباد ہو جائے گی اور آخرت کی تمام سہولتیں و آسانیاں اور وہاں کی رحمتیں و سعادتیں بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیں گی اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مسحتق ہوگا اسی لئے رسول اللہ ﷺنے خود ان چیزوں سے پناہ مانگ کر امت کے لئے تعلیم کا دروازہ کھولا ہے کہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے پروردگار سے ان سخت وہیبت ناک چیزوں سے پناہ مانگتا رہے تاکہ پروردگار اس کو ان سے محفوظ و مامون رکھے۔ عذاب قبر اور فتنہ دجال یہ تو بالکل ظاہر ہیں ان کی کسی فائدہ و توضیح کی ضرورت نہیں ہے البتہ " فتنہ زندگی" یہ ہے کہ صبر و رضا کے فقدان کی وجہ سے زندگی کی مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار ہو اور نفس ان چیزوں میں مشغول و مستغرق ہو جائے جو راہ ہدایت اور راہ حق سے ہٹا دیتی ہوں اور زندگی کو گمراہیوں وضلالتوں کی کھائی میں پھینک دیتی ہوں۔ " فتنہ موت" کا مطلب یہ ہے کہ " شیطان لعین حالت نزع میں اپنے مکروفریب کا جال پھینکنے اور مرنے والے کے دل میں وسو اس و شبہات کے بیج بو کر اس کے آخری لمحوں کو جن پر دائمی نجات و عذاب کا دارومدار ہے برائی و گمراہی کی بھینٹ چڑھا دے تاکہ اس دنیا سے رخصت ہونے والا نعوذ باللہ ایمان و یقین کے ساتھ نہیں بلکہ کفر و تشکیک کے ساتھ فوت ہو جائے (العیاذ با اللہ ) اسی طرح منکر و نکیر کے سوالات کی سختی، عذاب قبر کی شدت اور عذاب عقبی میں گرفتاری بھی موت کے فتنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے ہر مسلمان کو محفوظ و مامون رکھے۔ آمین" لفظ" ماثم" یا تو مصدر ہے یعنی گناہ کرنا، یا اس سے مراد وہ چیز ہے جو گناہ کا باعث ہے۔ بہر حال اس کا مطلب یہ ہے کہ ان گناہوں سے اللہ کی پناہ، جس کے نتیجے میں بندہ عذاب آخرت اور اللہ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ یا ان چیزوں سے اللہ کی پناہ جو گناہ صادر ہونے کا ذریعہ ہیں، یا جن کو اختیار کر کے بندہ راہ راست سے ہٹ جاتا ہے اور ضلالت و گمراہی کی راہ پر پڑ جاتا ہے۔ قرض سے پناہ مانگنے کی وجہ : قرض سے پناہ مانگنے پر ایک صحابی کو تعجب ہوا کہ قرض میں ایسی کونسی برائی ہے جس سے پناہ مانگی جا رہی ہے بلکہ اس سے تو بہت سے ضرورت مندوں کے کام پورے ہوتے ہیں اور دنیاوی حالات میں اس سے بڑی حد تک مدد ملتی ہے رسول اللہ ﷺ نے اس کی قباحت اور برائی کی جس کی بنیادی حقیقت کی طرف توجہ دلائی وہ یقینا ایسی ہی ہے کہ اس سے پناہ مانگی جانی چاہئے۔ اول تو دنیاوی اعتبار سے بھی کسی کا قرضدار ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے پھر دین و آخرت کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کی وجہ سے ایسی چیزوں کا ارتکاب ہوتا ہے جو شریعت کی نظر میں نہ صرف یہ کہ معیوب بلکہ عذاب آخرت کا سبب بنتی ہیں۔ مثلاً جب کوئی آدمی کسی سے قرض مانگنے جاتا ہے تو پہلا مرحلہ یہی ہوتا ہے جب وہ گنہگار ہوتا ہے کیونکہ بسا اوقات قرض مانگنے والا سینکڑوں بہانے تراشتا ہے سیکڑوں غلط سلط باتیں بناتا ہے اور مقصد برآری کے لئے بڑے سے بڑا جھوٹ بولنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ قرض کی ادائیگی کا آتا ہے کہ قرض دار قرض لیتے وقت ایک وقت و عرصہ متعین کرتا ہے جس میں وہ قرض کی ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے مگر تجربہ شاہد ہے کہ کوئی ایک آدھ ہی قرضدار ایسا ہوگا جو وقت معینہ پر ادائیگی کر دیتا ہوگا ورنہ اکثر و بیشتر وعدہ خلافی کرتے ہیں اس موقع پر بھی نہ صرف یہ کہ وعدہ خلافی ہوتی ہے بلکہ عدم ادائیگی کے عذر میں ہر طرح کا جھوٹ بولنا پڑتا ہے ۔ اس طرح قرضدار وعدہ خلافی اور جھوٹ کا ارتکاب کر کے گناہ گار ہوتا ہے۔ پھر عدم ادائیگی کا یہ عذر ایک دو مرتبہ ہی پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو بہت دنوں تک چلتا رہتا ہے اس طرح قرضدار مسلسل جھوٹ پر جھوٹ بولتا ہے، ہر مرتبہ وعدہ خلافیاں کرتا ہے اور اس طرح وہ گناہوں کی پوٹ اپنے اوپر لادتا رہتا ہے۔ ظاہر کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور مواخذہ آخرت کا سبب ہیں اس لئے ایسی غلط چیز سے پناہ مانگی گئی ہے۔[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 905 (37474)]

حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " جب تم میں سے کوئی آدمی (نماز میں) آخری تشہد (یعنی التحیات) سے فارغ ہو جائے تو اسے چاہئے کہ وہ چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کا طلب گار (یوں مانگتے) رہے اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ۔ (صحیح مسلم) 
" اے اللہ ! میں دوزخ کے عذاب ، قبر کے عذاب ، زندگی اور موت کے فتنوں اور دجال کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔"
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 906 (37475)]

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم صحابہ اور اہل بیت کو یہ دعا اسی طرح سکھاتے تھے جس طرح آپ ﷺ ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھایا کرتے تھے کہ (کہ دعا اس طرح پڑھو اللہم انی اعوذ بک من عذاب جہنم واعوذبک من عذاب القبر واعوذ بک من فتنۃ المسیح الدجال واعوذبک من فتنۃ المحیا والممات۔
اے اللہ ! میں عذاب جہنم سے تیری پناہ مانگتا ہوں، عذاب قبر سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں، مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ چاہتا ہوں اور زندگی و موت کے فتنہ سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔" (صحیح مسلم)


حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ بارگاہ رب العزت میں یوں عرض کیا کرتے تھے۔ دعا (اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ ، وَالْمَأْثَمِ ، وَالْمَغْرَمِ. اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ ، وَعَذَابِ النَّارِ ، وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ قَلْبِي بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں طاعت میں سستی سے، بڑھاپے کے سبب سے مخبوط الحو اس اور اعضاء کے ناکارہ ہونے سے تاوان یا قرض سے اور گناہ سے ، اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں آگ کے عذاب سے اور عذاب کے فتنہ سے ۔ قبر کے فتنہ اور قبر کے عذاب سے، دولت کے فتنہ سے اور برائی سے، فقر کے فتنہ کی برائی سے اور کانے دجال کے فتنہ سے اے اللہ ۔ برف اور اولے کے پانی سے میرے گناہ دھو دے (یعنی طرح طرح مغفرتوں کے ذریعہ مجھے گناہوں سے پاک کر دے جس طرح برف اور اولے کا پانی میل کچیل کو صاف کرتا ہے اور میرے دل کو برے اخلاق اور برے خیالات سے پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا پانی سے صاف کیا جاتا ہے اور میرے گناہوں کے درمیان اسی طرح بعد پیدا کر دے جس طرح تونے مشرق اور مغرب کے درمیان بعد پیدا کیا ہے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح : " پناہ مانگتاہوں آگ کے عذاب سے " کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میرا شمار ان لوگوں میں ہو جو دوزخی ہیں یا کفار۔ اس موقع پر یہ بات جان لینی چاہئے کہ " عذاب الٰہی " میں صرف کفار ہی مبتلا ہوں گے چنانچہ موحدین جو اپنی بد عملیوں کی سزا آخرت میں پائیں گے اسے عذاب نہیں کہا جاتا بلکہ وہ " تادیب" ہے یعنی اگر ان کو دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا اور ایسا عذاب کے لئے نہیں بلکہ تادیب یعنی ان کے گناہوں کو دھونے اور ختم کرنے کے لئے ہوگا۔ " آگ کے فتنہ " سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آگ اور قبر کے عذاب کا باعث بنتی ہیں یعنی گناہ و معصیت۔ " قبر کے فتنہ " سے مراد ہے منکر و نکیر کے سوالات کا جواب دیتے وقت حو اس باختہ ہونا۔ " قبر کے عذاب " سے مراد ہے، فرشتوں کا، ان لوگوں کو لوہے کے گرزوں سے مارنا اور ان کا عذاب میں مبتلا ہونا۔ جو منکر نکیر کے سوالات کا جواب نہ دے سکیں گے۔ " قبر" سے مراد ہے عالم برزخ چاہے وہ قبر ہو یا کچھ اور ہو دولت کے فتنہ سے مراد ہے تکبر و سرکشی کرنا مال و زر حرام ذرائع سے حاصل کرنا اور ان کو گناہ کی جگہ خرچ کرنا اور مال و جاہ پر بے جا فخر کرنا اسی طرح فخر کے فتنے سے مراد ہے۔ دولت مندوں پر حسد کرنا ، ان کے مال و زر کی ہوس اور طمع رکھنا، اس چیز پر راضی نہ ہونا جو اللہ نے اس کی قسمت میں لکھ دی ہے یعنی فقر اور اسی قسم کی وہ تمام چیزیں جو صبر و توکل اور قناعت کے منافی ہیں۔ اب آخر میں یہ بات بطور خاص ذہن نشین کر لیجئے۔ کہ آنحضرت ﷺ کا ان تمام چیزوں سے پناہ مانگنا اس کے معنی میں نہیں تھا کہ نعوذ باللہ آپ ﷺ ان چیزوں میں مبتلا تھے، یا ان میں مبتلا ہونے کا خوف تھا۔ کیونکہ آپ ﷺ معصوم تھے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو دائمی طور پر ان تمام چیزوں سے امن و حفاظت میں رکھا تھا بلکہ ان چیزوں سے پناہ مانگنا تعلیم امت کے طور پر تھا کہ امت کے لوگ ان چیزوں سے پناہ مانگیں اور ان سے بچیں۔
[مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 991 (39058)]


 سورت الکہف کی پہلی دس آیتوں کو یاد کرلینے کا اثر
حضرت ابودرداءؓ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص سورت الکہف کی پہلی دس آیتیں یاد کرے تو وہ دجال کے شر سے بچایا جائے گا۔ 
[صحیح مسلم:809، سنن ابوداؤد:4323، السنن الكبري للنسائي:10721، المستدرك الحاكم:3391، السنن الکبري للبيهقي:5998، تفسیر القرطبی:10/ 346، ]
تشریح:
دجال سے مراد یا تو وہ دجال ہے جو آخری زمانہ میں قیامت کے قریب پیدا ہو گا اور لوگوں کو اپنے مکر و فریب میں پھانسے گا یا پھر ہر وہ جھوٹا اور فریبی مراد ہے جو اپنے جھوٹ و فریب سے لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ ترمذی کی روایت میں جو آگے دوسری فصل میں آئے گی یہ منقول ہے کہ جس شخص نے سورت کہف کی اول تین آیتیں پڑھیں تو وہ فتنہ دجال سے بچایا جائے گا اگر وہ اس سے ملے گا اور جو شخص تین آیتیں پڑھے گا تو وہ دجال کے فتنہ سے بچایا جائے گا اگر وہ اس سے نہیں ملے گا۔ حاصل یہ کہ دجال کا فتنہ اس کی ملاقات کی صورت میں زیادہ سخت ہو گا بہ نسبت اس فتنہ کے جو عدم ملاقات کی صورت میں ہو گا لہٰذا جو شخص دس آیتیں یاد کرے گا تو وہ فنتہ ملاقات سے محفوظ ہو گا جو شخص تین آیتیں پڑھے گا تو وہ اس فتنہ سے محفوظ رہے گا جس میں لوگ دجال سے ملے بغیر گرفتار ہوں گے۔
[مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 638 (38705)]
درمنثور میں منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص سورت کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرے گا وہ دجال کے فتنہ سے بچایا جائے گا اسی طرح وہ شخص بھی دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا جو اس سورت کی آخری دس آیتیں یاد کرے گا جو شخص سوتے وقت سورت کہف کی دس آیتیں پڑھ لیا کرے گا وہ فتنہ دجال سے بچایا جائے گا و اور جو شخص سوتے وقت اس سورت کا آخری حصہ پڑھے گا تو اس کے لئے قیامت کے دن اس کی قرأت کے نزدیک سے اس کے قدم تک نور ہی نور ہو گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن سورت کہف پڑھتا ہے تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک (کے صغیرہ گناہوں) کا کفارہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایک روایت میں یہ ہے کہ جس گھر میں سورت کہف پڑھی جاتی ہے اس رات کو اس گھر میں شیطان داخل نہیں ہوتا۔
[مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 701 (38768)]









وہ تین باتیں جو ایمان کی جڑ ہیں
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي نُشْبَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ثَلَاثٌ مِنْ أَصْلِ الْإِيمَانِ ، الْكَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَلَا تُكَفِّرُهُ بِذَنْبٍ وَلَا تُخْرِجُهُ مِنَ الْإِسْلَامِ بِعَمَلٍ ، وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللَّهُ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ ، لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ وَالْإِيمَانُ بِالْأَقْدَار " .
ترجمہ : حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! تین باتیں ایمان کی جڑ ہیں (١) جو آدمی لا الہ اللہ کا اقرار کرے اس سے جنگ و مخاصمت ختم کر دینا، اب کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اس پر اسلام سے خارج ہونے کا فتوی لگاؤ (٢) جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے جہاد ہمیشہ کے لئے جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ اس امت کے آخر میں ایک آدمی آکر دجال سے جنگ کرے گا۔ کسی عادل (بادشاہ) کے عدل یا کسی ظالم کے ظلم کا بہانہ لے کر جہاد ختم نہیں کیا جا سکتا (٣) اور تقدیر پر ایمان لانا۔" (ابوداؤد)
تشریح : کسی مسلمان کو کافر کہنے کی ممانعت اس حدیث نے واضح طور پر ثابت کر دی ہے، مطلب یہ ہے جس طرح اچھے کام کرنے والے کافر کو مسلمان کہنا منع ہے تاوقتیکہ وہ توحید و رسالت کا اقرار نہ کرے اسی طرح کسی مسلمان کو صرف اس کی بد اعمالیوں کی بنا پر کافر کہنا بھی سخت جرم ہے جب تک کہ وہ عقیدہ کفریہ کا اعلان نہ کرے پس لَا تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ ( کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو) کے الفاظ ہیں تو " خارجیوں" کی تردید ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ مومن اگر گناہ کا مرتکب ہو جائے خواہ وہ گناہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہو تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور وَلَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِ سْلَامِ بِعَمَلٍ ( اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اسے خارج اسلام قرار دو) کے الفاظ میں (فرقہ معتزلہ) کی تردید ہے جو فرماتے ہیں کہ بندہ گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے خارج از اسلام ہو جاتا ہے اگرچہ کافر نہیں ہوتا۔ مرتکب گناہ کبیرہ کے لئے وہ ایک درمیانی درجہ مانتے ہیں، یعنی نہ تو اس کو مسلمان فرماتے ہیں اور نہ کافر۔ بہرحال خارجیوں اور معتزلہ سے قطع نظر موجودہ دور کے ان مسلمانوں کو بھی اس حدیث کے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے جو کفر سازی کے کارخانے چلاتے ہیں اور اپنے مکتب فکر کے علاوہ دوسرے تمام مسلمانوں کو بے دریغ کافر قرار دیتے ہیں۔ یہ شقی القلب محض ذاتی اغراض اور نفساتی خواہشات کے تحت نہ صرف عام مسلمانوں کو بلکہ علماء حق اور اولیاء اللہ تک کو کافر کہنے سے ذرا نہیں جھجکتے ۔ ان لوگوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیے کہ جب لسان نبوت نے عاصی مسلمان کو بھی کافر کہنے سے سخت منع فرمایا ہے تو پھر ان بزرگان دین اور پیشوا اسلام کا کافر کہنا کہ جن کی زندگیوں کا تمام حصہ مذہب کی خدمت و اشاعت میں گزرتا ہے اور جو ان کو کافر نہ کہے اس کو بھی کافر کہنا احکام شریعت اور فرمان رسالت سے کتنا مضحکہ خیز معاملہ ہے جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور خسران آخرت کے علاوہ اور کچھ نکل سکتا۔ حدیث میں جن باتوں کو ایمان کی جڑ فرمایا گیا ہے ان میں سے پہلی بات تو وہی ہے جس کی وضاحت اوپر ہوئی۔ دوسری بات " جہاد" ہے، اس بارہ میں ارشاد نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب روئے زمین پر دین حق (جو اللہ کا آخری اور کامل دین ہے) کے ظاہر ہو جانے اور رسول اللہ کی رسالت کا اعلان ہو جانے کے بعد سے اس وقت تک کہ آخر میں قیامت کے قریب دجال مارا نہ جائے، یاجوج ماجوج ظاہر ہو کر فنا کے گھاٹ نہ اترجائیں اور یہ روئے زمین دین کے ایک ایک دشمن اور منکر سے پاک نہ ہو جائے، جہاد برابر جاری رہے گا۔ جہاد کی فرضیت اور اہمیت اس صورت میں بھی ختم نہیں ہوگی جب کہ کوئی اسلامی سربراہ مملکت ظالم و جابر ہو اگر دشمنان دین کے خلاف وہ جہاد کا اعلان کر دے تو اس کو ماننا اور اس کے ساتھ جہاد میں شریک ہونا شرعی طور پر ضروری ہوگا۔ یہ نہیں کہ اس کے ظلم و جبر کا بہانہ لے کر جہاد میں شریک اور مددگار بننے سے انکار کر دیا جائے اسی طرح اگر کسی دشمن دین قوم کا سربراہ اور بادشاہ اتفاق سے عادل اور منصف مزاج ہو تو ہر چند کہ بادشاہ کا عدل امن و انصاف کا باعث ہوتا ہے، لیکن اسلام کی شوکت بڑھانے اور دین کا بول بالا کرنے کے لئے اس عادل بادشاہ کی قوم کے خلاف بھی جہاد کو غیر ضروری نہیں دیا جا سکتا۔ تیسری بات تقدیر پر اعتقاد و یقین رکھنا ہے یعنی ایمان کی سلامتی کے لئے یہ یقین رکھنا اشد ضروری ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو بھی حادثات و واقعات پیش آتے ہیں وہ سب قضا و قدر الہٰی کے تحت ہے۔[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 54 (36623)]
حضرت سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جہاد میں ایک دن اور ایک رات کی چوکیداری کی خدمت انجام دینا ایک مہینے کے روزے اور شب بیداری سے بہتر ہے اور اگر وہ چوکیدار (اس خدمت کی انجام دہی کے دوران ) مر جائے تو اس کے اس عمل کا ثواب کہ جس پر وہ (اپنی زندگی میں ) عامل تھا جاری رہتا ہے (یعنی اپنی زندگی میں وہ جس نیک عمل پر عامل تھا اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہے گا ) اور اس کے لئے (جنت کے طعام وشراب سے اس کا رزق کر دیا جاتا ہے اور وہ شیطان یا دجال کے مکروفریب اور قبر میں عذاب کے فرشتے کے ) فتنے سے محفوظ رہتا ہے ۔" ( مسلم) [مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 913 (40291)]


امت میں حق پر جہاد کرنے والی جماعت ہمیشہ دجال کے آنے تک رہے گی۔
حضرت عمران ابن حصینؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری امت کی کوئی نہ کوئی جماعت ہمیشہ حق کی حمایت وحفاظت کے لئے برسر جنگ رہے گی اور جو بھی شخص اس جماعت سے دشمنی کرے گا وہ اس پر غالب رہے گی ، یہاں تک کہ اس امت کے آخری لوگ مسیح دجال سے جنگ کریں گے ۔" (ابو داؤد)
تشریح : اس ارشاد گرامی سے جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ امت کسی بھی زمانے میں ایسے سرفروشوں اور جانبازوں سے خالی نہیں رہے گی جو دین کی سربلندی حق کی حمایت وحفاظت اور ملت کے تحفظ کے لئے جان ومال کی قربانی پیش کریں گے اور دشمنان اسلام کا دعویٰ سرنگوں کریں گے وہیں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ مجاہدین اسلام کے مقابلہ پر آنے والے کو آخر کار ہزمیت اور شکست کی رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا خواہ وہ کوئی فرد ہو یا کوئی جماعتی طاقت ہو سکتا ہے کہ وقت نزاکت اور حالات کی رفتار کسی مرحلہ پر مسلمانوں کے لئے بظاہر کسی پسپائی کا موقعہ پیدا کر دے لیکن آخر کار فتح وکامرانی مسلمانوں کا ہی نصیب بنے گی ۔ اس امت کے آخری لوگ سے : حضرت امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے تابعین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو قرب قیامت میں دجال کے ذریات سے جنگ کریں گے ۔ اور آخر کار حضرت عیسیٰ اس کو فنا کے گھاٹ اتاریں گے ، دجال کے قتل کے بعد پھر کوئی جہاد نہیں ہوگا ۔ کیونکہ یا جوج ماجوج کے خلاف تو جہاد اس لئے نہیں ہوگا کہ ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی کو حاصل نہیں ہوگی اور جب اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کر دے گا تو پھر جب تک عیسی علیہ السلام اس دنیا میں موجود رہیں گے روئے زمین پر کوئی کافر باقی نہیں رہے گا آخر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد بعض لوگ کافر ہو جائیں گے اور اس وقت تمام مسلمان ایک پاکیزہ ہوا کے ذریعہ وفات پا جائیں گے اور دنیا میں صرف کافر ہی رہ جائیں گے اس طرح جب قیامت آئے گی تو اس وقت روئے زمین پر کوئی بھی اللہ کا نام لیوا باقی موجود نہیں ہوگا ۔ اس اعتبار سے بعض احادیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ (لا تزال طائفہ من امتی ظاہرین علی الحق حتی تقوم الساعۃ) یعنی میری امت کی کوئی نہ کوئی جماعت ہمیشہ حق کی حمایت وحفاظت کرتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت قائم ہو تو یہ قرب قیامت پر محمول ہے کہ قرب قیامت تک اس روئے زمین پر حق کی حفاظت کرنے والی کوئی نہ کوئی جماعت موجود رہے گی چنانچہ حق کی حمایت میں حق والوں کا آخری معرکہ دجال سے ہوگا اور دجال کا خروج علامات قیامت میں سے ہے ۔
[مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 938 (40316)]



مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان 
حضرت شریک ابن شہاب تابعی کہتے ہیں کہ میری ایک یہ بڑی آرزو تھی کہ میں نبی کریم ﷺم کہ کسی صحابی سے ملاقات کی سعادت حاصل کروں اور ان سے خوارج کے بارے میں پوچھوں کہ آج کل جو خوارج پیدا ہو رہے ہیں کیا آنحضرت ﷺ نے ان کے متعلق کوئی پیشین گوئی کی تھی ؟ چنانچہ میں ایک صحابی حضرت ابوبرزہ سے عید کے دن ان کے دوستوں کی موجودگی میں ملا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول کریم ﷺ کو خوارج کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں ! میں نے اپنے کانوں سے رسول کریم ﷺ کو خوارج کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے اور اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ بھی دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں کچھ مال لایا گیا ، آپ ﷺ نے اس مال کو حاضرین مجلس میں اس طرح تقسیم فرمایا کہ جو لوگ آپ کی داہنی جانب بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیا اور جو لوگ بائیں جانب بیٹھے تھے ان کو دیا لیکن جو لوگ آپ کے پیچھے تھے ان کو کچھ نہیں دیا ۔ چنانچہ آپ ﷺکے پیچھے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد ﷺ آپ ﷺ نے تقسیم میں انصاف نہیں کیا ۔ وہ شخص کالے رنگ کا تھا ، اس کے سر کے بال منڈے ہوئے تھے اور دو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا ۔ (اسکی بات سن کر ) رسول کریم ﷺ سخت غضبناک ہوگئے اور فرمایا کہ " اللہ کی قسم " ! تم میرے بعد کسی شخص کو مجھ سے زیادہ انصاف کرنے والا نہیں پاؤ گے اور پھر فرمایا کہ آخر زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہوگا اور یہ شخص گویا اسی گروہ کا ایک فرد ہے اس گروہ کے لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کا پڑھنا ان کے حلق سے آگے نہیں جائے گا اور وہ لوگ امام وقت کے خلاف خروج وسرکشی کے ذریعہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے ان لوگوں کی علامت یہ ہے کہ ان کے سرمنڈے ہوئے ہوں گے اس گروہ کے لوگ ہر زمانہ میں پائے جائیں گے اور ہمیشہ خروج کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری شخص مسیح دجال یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف خروج کرے گا جب کہ وہ قیامت کے قریب دنیا میں نازل ہوں گے ، لہٰذا جب بھی تمہارا ان سے سامنا ہو جائے ان کو قتل کر ڈالو، وہ لوگ آدمیوں اور جانوروں میں بد ترین مخلوق ہیں۔" (نسائی )[مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 710 (40088)]


وَلَو بَسَطَ اللَّهُ الرِّزقَ لِعِبادِهِ لَبَغَوا فِى الأَرضِ وَلٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ ما يَشاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبادِهِ خَبيرٌ بَصيرٌ {42:27}
اور اگر پھیلا دے اللہ روزی اپنے بندوں کو تو دھوم اٹھا دیں ملک میں ولیکن اتارتا ہے ماپ کر جتنی چاہتا ہے بیشک وہ اپنے بندوں کی خبر رکھتا ہے دیکھتا ہے [۳۹]
غنا کو عام نہ کرنے کی حکمت:خدا کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اگر چاہے تو اپنے تمام بندوں کو غنی اور تونگر بنا دے۔ لیکن اسکی حکمت مقتضی نہیں کہ سب کو بے اندازہ روزی دیکر خوش عیش رکھا جائے۔ ایسا کیا جاتا تو عمومًا لوگ طغیان و تمرد اختیار کر کے دنیا میں اودھم مچا دیتے۔ نہ خدا کے سامنے جھکتے نہ اسکی مخلوق کو خاطر میں لاتے، جو سامان دیا جاتا کوئی اس پرقناعت نہ کرتا حرص اور زیادہ بڑھ جاتی جیسا کہ ہم بحالت موجودہ بھی عمومًا مرفّہ الحال لوگوں میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ جتنا آ جائے اس سے زیادہ کے طالب رہتے ہیں، کوشش اور تمنا یہ ہوتی ہے کہ سب کے گھر خالی کر کے اپنا گھر بھر لیں ظاہر ہے کہ ان جذبات کے ماتحت غِنا اور خوشحالی کی صورت میں کیسا عام اور زبردست تصادم ہوتا اور کسی کو کسی سے دبنے کی کوئی وجہ نہ رہتی۔ ہاں دنیا کے عام مذاق اور رجحان کے خلاف فرض کیجئے کسی وقت غیر معمولی طور پر کسی مصلح اعظم اور مامور من اللہ کی نگرانی میں عام خوشحالی اور فارغ البالی کے باوجود باہمی آویزش اور طغیان و سرکشی کی نوبت نہ آئے اور زمانہ کے انقلاب عظیم سے دنیا کی طبائع ہی میں انقلاب پیدا کر دیا جائے وہ اس عادی اور اکثری قاعدہ سے مستثنٰی ہو گا۔ بہرحال دنیا کو بحالت موجودہ جس نظام پرچلانا ہے اس کا مقتضی یہ ہی ہے کہ غنا عام نہ کیا جائے بلکہ ہر ایک کو اسکی استعداد و احوال کی رعایت سے جتنا مناسب ہو جانچ تول کر دیا جائے۔ اور یہ خدا ہی کو خبر ہے کس کے حق میں کیا صورت اصلح ہے۔ کیونکہ سب کے اگلے اور پچھلے حالات اسی کے سامنے ہیں۔

غنیمت کے موقعوں سے فائدہ نہ اٹھانا اپنے نقصان وخسران کا انتظار کرنا ہے
حضرت ابوہریرہؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ " تم میں سے کوئی شخص تونگری کا انتظار کرتا رہتا ہے جو گنہگار کرنے والی اور امرونہی کی حدود سے متجاوز کرنے والی ہے یا فقر وافلاس کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ جو طاعت حق کو بھلا دینے والا ہے (یعنی فقروافلاس میں مبتلاہونے والا شخص بھوک وبرہنگی کے مصائب میں گرفتار ہو کر اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے چکر میں پھنس کر اللہ کی عبادت وطاعت سے غافل ہوجاتا ہے، بیماری کا انتظار کرتا رہتا ہے جو (اپنی سختی وشدت کی وجہ سے) بدن کو (یا کمزور یاسستی کے سبب دینی زندگی کو) تباہ کردینے والی ہے، یا سخت بڑھاپے کا انتطار کرتا رہتا ہے جو بے عقل و بدحو اس اور بے ہودہ گو بنا دیتا ہے، یا موت کا انتظار کرتا ہے جو ناگہا کام تمام کردیتی ہے (کہ بعض وقت توبہ کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی) یا دجال کا انتظار کیا جاتا ہے اور وہ آخر زمانہ میں ظاہر ہوگا، یا وہ قیامت کا انتظار کرتا رہتا ہے جو حوادث، آفات میں سب سے زیادہ سخت وشدید ہے" ۔ (ترمذی، نسائی)
تشریح : حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو فرصت وفراغت اور کچھ کرلینے کا موقع نصیب ہوتا ہے وہ اس کو غنیمت نہیں جانتا اور اس طرح گویا وہ اس وقت کا منتظر رہتا ہے جب وہ موقع ہاتھ سے نکل جائے اور ایسی صورت حال پیش آجائے جو اس کو ان بھلائیوں اور سعادتوں سے محروم کردے جن سے وہ بس اسی گزرے ہوئے زمانہ میں بہرہ مند ہوسکتا ہے، مثلاً اگر کوئی شخص فقروافلاس میں مبتلا ہوتا ہے تو چاہئے تو یہ کہ وہ اس حالت کو اپنے لئے غنیمت جانے اور یہ سمجھے کہ مال ودولت کی وجہ سے جو خرابیاں اور برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں ان سے اللہ نے بچا رکھا ہے اور اس وقت یہ موقع نصیب ہوتا ہے کہ اپنی موجودہ حالت پر صبر و استقامت کی راہ اختیار کر کے اللہ کا صابر بندہ بن جاؤں، لیکن اس کے بجائے وہ اپنی حالت فقر کا شاکی ہو کر مال ومتاع کا طلبگار ہوتا ہے اس کا نفس اس کو تونگری ومالداری کے پیچھے کھینچے کھینچے پھرتا ہے اور وہ گویا اس مال ودولت کی خواہش رکھتا ہے جس کا نشہ سرکشی میں مبتلا اور راہ راست سے دور کردیتا ہے، اسی طرح جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال ودولت سے نوازتا ہے وہ اپنی اس مالداری کی حالت میں ادائیگی شکر سے بے پروا ہوتا ہے اور اس مال ودولت کو بھلائیوں کے کاموں میں خرچ کرنے کے بجائے ادھرادھر لٹا کر اللہ کی اتنی بڑی نعمت کی بے قدری کرتا ہے اور اپنے اس طرز عمل سے گویا فقروافلاس کی طرف جانا چاہتا ہے جو معاشی تفکرات وپریشانیوں میں مبتلا کر کے عبادات وطاعت سے غافل کردیتا ہے۔ اسی پر حدیث کے دوسرے جملوں کے مطلب کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ الفاظ " انتظار کرتا رہتا ہے" دراصل ان لوگوں کے حق میں تنبیہ وسرزنش کے طور پر ہیں جو دین کے کاموں میں غفلت وسستی اور عبادات وطاعات میں تقصیر و کوتاہی کرتے ہیں، گویا ان کو متنبہ فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت واطاعت اور اپنے دین کی خدمت کی راہ آخر کب اختیار کرو گے؟ اگر تم نے دین کی خدمت اور اپنے رب کی عبادت وطاعت اس وقت نہیں کی جب تمہیں قلت مشاغل وفراغت وقت اور جسمانی طاقت وتوانائی کی صورت میں اس کا بہترین موقع نصیب ہے تو پھر اس وقت کس طرح کر پاؤ گے جب یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا؟ اور کثرت مشاغل اور ضعف بدن وخرابی صحت کی وجہ سے تم اس پر پوری طرح قادر نہیں رہو گے؟ تو کیا تم فائدہ کا موقع چھوڑ کر ٹوٹے کے وقت کے منتظر ہو اور اپنے نقصان وخسران کی راہ دیکھ رہے ہو۔[مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1101 (41635)]



عذابِ قبر کے ثبوت کا بیان
حضرت زید بن ثابت ( زید بن ثابت انصاری خزرجی ہیں آپ کاتب وحی ہیں۔ آپ کی وفات ٤٢ھ یا ٤٥ میں ہوئی)۔ راوی ہیں کہ (ایک روز) جب کہ رسول اللہ ﷺ بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھے کہ اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ ﷺ کو گرادے، ناگہاں پانچ چھ قبریں نظر آئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان قبر والوں کو کوئی جانتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا، " میں جانتا ہوں!" آپ ﷺ نے فرمایا۔ یہ کب مرے ہیں؟ (یعنی حالت کفر میں مرے ہیں یا ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں) اس آدمی نے عرض کیا۔ یہ تو شرک کی حالت میں مرے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے (یعنی ان لوگوں پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے) اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر (کی اس آواز ) کو سنا دے جس کو میں سن رہا ہوں، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا: قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں! آپ ﷺنے فرمایا: ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ ہم دجال کے فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔" (صحیح مسلم)
تشریح : نبی کا احساس و شعور اور اس کی قوت ادراک دنیا کے تمام لوگوں سے بہت زیادہ قوی ہوتی ہے چونکہ اس کے احساس ظاہری و باطنی میں وہ قدرتی طاقت ہوتی ہے جس کی بناء پر وہ اس دنیا سے بھی آگے عالم غیب کی چیزوں کا ادراک کر لیتا ہے اس لئے اس کی ظاہری آنکھوں کے ساتھ ساتھ باطنی آنکھیں بھی اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ غیب کی ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اسے دکھانا چاہتا ہے۔ چانچہ سرکار دو عالم ﷺ کہیں سفر میں جا رہے تھے جب آپ ﷺ کا گزر ایک قبرستان پر ہوا تو وہاں آپ کی چشم بصیرت نے ادراک کر لیا کہ قبروں میں مردوں پر عذاب ہو رہا ہے اور پھر آپ ﷺ نے صحابہ کو تلقین کی کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں عذاب قبر کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اگر تمہاری آنکھیں اس کا مشاہدہ کر لیں اور تمہارے کان اس کو سن لیں تو تم اپنی عقل و دماغ سے ہاتھ دھو بیٹھو اور تم اس کی شدت و سختی کا محض احساس ہی کر کے بے ہوش ہو جاؤ گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس خوف و ہر اس کی وجہ سے مردوں کو دفن کرنا بھی چھوڑ دو گے اگر مجھے اس کا خدشہ نہ ہوتا تو میں یقینا تمہیں اس عذاب کا مشاہدہ بھی کر ادیتا اور تمہیں سنوا بھی دتیا۔
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 126 (36695)]

قبر و دجال کا فتنہ و آزمائش:
حضرت اسماء بنت ابی بکر راوی ہیں کہ ایک دن سرکار دو عالم ﷺ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور قبر کے فتنہ کا ذکر فرمایا جس میں انسانوں کو مبتلا کیا جاتا ہے چنانچہ اس ذکر سے مسلمان (خوف زدہ ہو کر روتے) اور چلاتے رہے، [یہ روایت صحیح البخاری کی ہے اور سنن نسائی نے اتنا اور زیادہ بیان کیا ہے کہ (خوف و دہشت کی وجہ سے ) مسلمانوں کے چیخنے اور چلانے کے سبب میں رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کو نہ سن سکی، جب یہ چیخنا چلانا بند ہوا تو میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے پوچها، الله تمهیں برکت عطا فرمائے (یعنی تمهارے علم و حلم میں زیادتی هو، آخر میں آپ ﷺ نے کیا فرمایا؟) اس آدمی نے کها آپ ﷺ نے فرمایا مجھ پر یہ وحی آئی ہے کہ تم قبروں کے اندر فتنہ میں ڈالے جاؤ گے یعنی تم کو آزمایا جائے گا اور یہ آزمائش و امتحان فتنہ دجال کے قریب قریب ہوگا۔"
فائدہ : مطلب یہ ہے کہ جس طرح فتنہ دجال اپنی تباہی و بربادی اور نقصان و خسران کی بناء پر سخت ہلاکت آفریں اور تباہ کن ہوگا، اسی طرح فتنہ قبر بھی ہول و دہشت اور اپنی شدت و سختی کی بناپر بہت زیادہ خوفناک ہوگا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے کہ وہ ایسے سخت و نازک وقت میں اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور اس امتحان و آزمائش میں ثابت قدم رکھے۔[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 134 (36703)]



مدینہ میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوگا
حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مدینہ کے راستوں یا اس کے دروازوں پر بطور نگہبان فرشتے متعین ہیں، نہ تو مدینہ میں طاعون کی بیماری داخل ہو گی نہ دجال داخل ہو گا (بخاری ومسلم)
 تشریح:  " طاعون" وبا کے علاوہ ایک خاص بیماری کو بھی کہتے ہیں چنانچہ یہاں حدیث میں اسی خاص بیماری کے بارہ میں فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی دعا کی برکت سے یہ بیماری مدینہ میں داخل نہیں ہو گی، گویا یہ آنحضرت ﷺ کا ایک صریح معجزہ ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب میں طاعون کا ترجمہ " وباء" ہی کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مدینہ میں وباء کا داخل نہ ہونا یا تو دجال کے ظاہر ہونے کے وقت ہو گا یا یہ کہ اس کا تعلق ہر زمانہ سے ہے۔[مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 1291 (39358)]

حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا مکہ اور مدینہ کے علاوہ ایسا کوئی شہر نہیں ہے جسے دجال نہ روندے گا اور مدینہ، یا مکہ اور مدینہ میں سے ہر ایک کے راستوں میں ایسا کوئی راستہ نہیں ہے جس پر صف باندھے ہوئے فرشتے نہ کھڑے ہوں جو اس شہر کی نگہبانی کرتے ہیں چنانچہ جب دجال مدینہ سے باہر زمین شور میں نمودار ہوگا تو مدینہ اپنے باشندوں کے ساتھ زلزلہ کی صورت میں تین مرتبہ ہلے گا جس کے نتیجہ میں ہی کافر و منافق مدینہ سے نکل پڑے گا اور دجال کے پاس چلا جائے گا۔ (بخاری ومسلم)
[مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 1292 (39359)]

حضرت ابوبکرہؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا " مدینہ میں کانے دجال کا خوف (بھی) داخل نہیں ہوگا، اس دن (جب کہ کانا دجال نمودار ہو گا) مدینہ کے سات دروازے (یعنی سات راستے ) ہوں گے اور ہر دروازہ یعنی ہر راستہ پر دائیں بائیں دو فرشتے (مدینہ کی حفاظت پر مامور ) ہوں گے۔ (بخاری) [مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 1303 (39370)]





ریا کاری دجال کے فتنہ سے زیادہ خطرناک ہے
حضرت ابوسعیدؓ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ آپس میں مسیح دجال کے فتنوں اور اس کے ابتلاء کا ذکر کر رہے تھے۔ کہ رسول کریم ﷺ آ کر ہمارے درمیان تشریف فرما ہو گئے اور پھر ہماری بات چیت سن کر فرمانے لگے کہ کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتلاؤں جو میرے نزدیک (یعنی میری شرعیت اور میرے طریق میں) تمہارے حق میں مسیح دجال کے فتنہ سے بھی زیادہ خوفناک ہے اور اس اعتبار سے اس کا لحاظ رکھنا اور اس سے اجتناب کرنا تمہارے لئے نہایت ضروری ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! اس چیز کے بارے میں ہمیں ضرور بتائیے. آپ ﷺ نے فرمایا: وہ چیز شرک خفی ہے اور شرک خفی اس چیز کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور نماز پڑھتا ہے اور اس نماز کے تمام ارکان یا بعض ارکان میں کیفیت یا کمیت کے اعتبار سے غلو اور زیادتی کرتا ہے، محض اس لئے کہ کوئی شخص اس کو نماز پڑھتے دیکھ رہا ہے۔ (ابن ماجہ)
تشریح :
ریاء کاری کی برائی کو دجال کے فتنہ سے زیادہ خوفناک اور پر خطر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ دجال کے جھوٹے ہونے اور اس کی فتنہ انگیزیوں کو ظاہر کرنے کی نشانیاں اور علامتیں بہت ہیں اور بالکل کھلی ہوئی ہیں، جو صاحب صدق وایمان کی اس سے محفوظ رکھنے کے لئے کافی ہوں گی۔ جب کہ ریاء کاری کا معاملہ نہایت پوشیدہ ہے اور جس کی برائی وفتنہ انگیزی میں ہر عمل میں ہر وقت اور ہر طرح سے معلوم نہیں ہو سکتی اور یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھے لوگ بھی اس کے جال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔[مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1262 (41797)]



آنے والے زمانوں کے بارے میں پیشگوئی
حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا اس خیر کے بعد شر پیدا ہوگا جیسا کہ اب سے پہلے شر کا دور دورہ تھا (یعنی جس طرح آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے کفر و شرک اور برائیوں کا اندھیرا پھیلا ہوا تھا اور پھر آپ ﷺ کے نور نبوت نے بدی وبرائی کی تاریکی کو ختم کر کے نیکی اور بھلائی کا اجالا پھیلایا، اسی طرح کیا خیر و بھلائی کے اس زمانے کے بعد شر و برائی کا زمانہ بھی آئے گا) آپ ﷺ نے فرمایا ہاں (اس کے بعد پھر بدی وبرائی کا زمانہ بھی آئے گا) میں نے عرض کیا کہ پھر اس وقت بچنے کی کیا سبیل ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ تلوار (یعنی اس فتنہ سے حفاظت، تلوار آزمائی کے ذریعے حاصل ہوگی یا یہ مراد ہے کہ اس فتنہ سے بچنے کا راستہ یہی ہوگا کہ تم اس فتنہ کو پیدا کرنے والے لوگوں کو سر تلوار سے اڑا دو) میں نے عرض کیا کہ پھر اس تلوار کے بعد اہل اسلام باقی رہیں (یعنی جب مسلمان بدی اور برائی کی طاقتوں کو ختم کرنے کے لئے تلوار اٹھائیں گے اور قتل وقتال کریں گے تو کیا اس کے بعد اس زمانے کے مسلمانوں میں اتنی طاقت واجتماعیت باقی رہ جائے گی کہ وہ امانت ودیانت کے ساتھ اپنی سرداری وحاکمیت قائم کر لیں اور لوگ اس کی قیادت وامارت پر اتفاق کر لیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں! امارت یعنی حکومت وسلطنت تو قائم ہو جائے گی لیکن اس کی بنیاد فساد پر ہوگی اور صلح کی بنیاد کدورت پر ہوگی۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس کے بعد گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوں گے ۔ اگر اس وقت زمین پر کوئی خلیفہ یعنی امیر وبادشاہ ہو تو خواہ وہ تیری پیٹھ پر مارے ہی کیوں نہ اور تیرا مال کیوں نہ لے لے (یعنی وہ امیر بادشاہ اگرچہ تمہیں ناحق ستائے تم پر ظلم وستم ڈھائے اور تمہارا مال واسباب چھین لے لیکن تم اس کی اطاعت سے منہ نہ پھیرنا تاوقتیکہ وہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول ۡ کے خلاف کوئی کام کرنے کو نہ کہے اور حکم اس لئے دیا گیا ہے تاکہ دین وملت میں افتراق وانتشار اور مملکت میں بدامنی وفساد پیدا نہ ہو۔ اور اگر کوئی خلیفہ یعنی امیر وبادشاہ نہ ہو تو تمہاری موت ایسی حالت میں آنی چاہئے کہ تم کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس کے بعد دنیا اور زیادہ فتنہ وانتشار اور برائیوں کی طرف بڑھتی رہے گی اور مسلمان بتدریج دینی وملی طور پر اور دنیاوی اعتبار سے بھی زوال پذیر ہوتے رہیں گے، یہاں تک کہ حضرت مہدی کے زمانہ میں دجال کا ظہور ہوگا جس کے ساتھ پانی کی نہر ہوگی اور آگ کی خندق پس جو شخص اس کی نہر میں پڑے گا اس کا گناہ اس کے لئے باردوش بنے گا اور اس کا اجر جو اس نے اچھے عمل کر کے حاصل کئے ہوں گے جاتا رہے گا۔ حضرت حذیفہﷺ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ گھوڑے کا بچہ جنوایا جائے گا اور وہ سواری نہیں دینے پائے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔ اور ایک روایت میں (امارت تو قائم ہو جائے گی لیکن اس کی بنیاد فساد پر ہوگی الخ) کے بجائے یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کدورت پر صلح ہوگی یعنی اس وقت لوگ ظاہر میں تو صلح صفائی کا راستہ اختیار کریں گے لیکن ان کے باطن میں کدورت ہوگی۔ اور وہ کسی معاہدہ وفیصلہ پر دلوں کی ناخوشی اور بخشش کے ساتھ متفق ومجتمع ہوں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کدورت پر صلح سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے دل اس حالت پر نہیں ہوں گے جس پر پہلے تھے (یعنی جس طرح اسلام کے ابتدائی زمانے میں لوگوں کے دل بغض وکینہ سے صاف رہا کرتے تھے ، وہ جو بات کہا کرتے یا جو معاملہ کرتے تھے اس میں صدق دلی شامل ہوتی تھی۔ اس طرح کے پاک وصاف دل اس وقت لوگوں کے نہیں ہوں گے کہ زبان سے کچھ کہیں گے معاملہ کچھ کریں گے اور دل میں کچھ اور رکھیں گے۔ یا یہ مراد ہے کہ لوگوں میں باہمی صلح وصفائی ہو جانے کے باوجود ، ان کے دل اس طرح پاک وصاف نہیں ہوں گے جس طرح ایک دوسرے کے خلاف بغض وعناد میں مبتلا ہونے اور کدورت پیدا ہونے سے پہلے تھے ۔ میں نے عرض کیا کہ کیا اس بھلائی کے بعد کہ جو آپس کے نفاق کدورت کے بعد مذکورہ باہمی مصالحت ومفاہمت کی صورت میں ظاہر ہوگی اور جو اگرچہ برائی کی آمیزش سے پوری طرح صاف نہیں ہوگی کسی اور برائی کا ظہور ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں، اس کے بعد پھر برائی کا ظہور ہوگا اور وہ ایک ایسے بڑے فتنہ کی صورت میں ہوگا جو اندھا اور بہرا ہوگا (یعنی وہ فتنہ لوگوں کی عقل وخرد اور نیکی وبد کی قوت تمیز پر اس طرح اثر انداز ہو جائے کہ وہ حق اور سچائی کو نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے ۔ گویا فتنہ کی طرف اندھے پن اور بہرے پن کی نسبت مجازاً ہے اصل مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ لوگ اس فتنہ میں مبتلا ہو کر بدی اور برائی کی انتہائی حدوں تک پہنچ جائیں گے اور اس کا نتیجہ ، جیسا کہ آگے فرمایا جا رہا ہے، یہ ہوگا کہ اس فتنہ کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہو جائیں گے یعنی لوگ محض اس فتنہ میں مبتلا ہی نہیں ہوں گے بلکہ ایک ایسی جماعت بھی پیدا ہو جائے گی جو اس فتنہ کو ہوا دے گی اور دوسروں کے اس فتنہ میں مبتلا ہونے کا باعث بنے گی اور اس جماعت کے لوگوں کا یہ عمل ایسا ظاہر کرے گا جیسے کہ وہ دوزخ پر کھڑے ہو کر مخلوق کو اس دوزخ کی طرف بلا رہے ہیں چنانچہ بلانے والے اور ان کے بلاوے کو قبول کرنے والے سب ہی دوزخ میں جائیں گے۔ پس اے حذیفہ اس وقت تمہاری موت اگر اس حالت میں آئے کہ تم کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ تم اہل فتنہ میں سے کسی کی اتباع وپیروی کرو۔
تشریح:
قتادہﷺ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے جس فتنہ سے بچاؤ کا ذریعہ تلوار کو قرار دیا تھا اس کا مصداق وہ لوگ ہیں جو حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانہ خلاف میں اسلام سے پھر گئے تھے اور اپنے ارتداد وبغاوت کے ذریعہ ایک بڑے فتنہ کا باعث بننے والے تھے لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نہایت تدبر وہوشیاری کے ساتھ ان کی سرکوبی کی اور طاقت کے ذریعے ان کو دبایا۔ " اقذاء" اصل میں قذی کی جمع ہے اور قذاۃ کا معنی اس کیچڑ اور تنکے کے ہیں جو آنکھ میں یا پانی وشربت وغیرہ میں پڑ جائے۔ پس حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت امارت وحکومت تو قائم ہو جائے گی اور مسلمانوں کا امیر و خلیفہ بھی ہوگا لیکن لوگ اخلاص وحسن نیت کے ساتھ اپنی اس امارت وحکومت کے تئیں وفاداری نہ رکھیں گے بلکہ ان کے دلوں میں بغض وعداوت، عدم وفاداری اور مخالفت ومخاصمت کے جذبات ہوں گے ، جیسا کہ اگر کسی کی آنکھ میں کوئی ریزہ یا تنکا پڑ جائے تو گو وہ باہر سے اچھی بچھی معلوم ہوتی ہو مگر اس کے اندر سخت شوزش اور دکھن ہوتی ہے اسی طرح وہ لوگ گو ظاہر میں اپنی امارت وحکومت کے وفادار و بہی خواہ نظر آئیں گے مگر ان کے اندر غیر وفاداری اور مخالفت وعداوت بھری ہوگی اور قاضی نے اس کے دوسرے معنی بیان کئے ہیں اور وہ یہ کہ اس وقت مسلمانوں کی حکومت وامارت تو قائم ہوگی لیکن وہ امارت وحکومت، بعض بدعتوں اور دین مخالف کاروائیوں کے ذریعے اپنی حیثیت کو بگاڑے رکھے گی۔ " ہدنۃ" مصالحت کے مفہوم میں ہے اور اصل میں اس کے معنی سکون و آرام اور فراغت کے ہیں اور دخن دخان کے مفہوم میں ہے جس کے معنی ہیں " دھواں" اس جملے " ہدنۃ علی دخن" (صلح کی بنیاد کدور پر ہوگی) کا مطلب بھی وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اس وقت باہم مخاصمت ومخالفت رکھنے والے فریقوں کے درمیان جو مصالحت ہوگی وہ فریب ونفاق اور بد نیتی کے ساتھ ہوگی کہ اس اعتبار سے یہ جملہ ماقبل کے جملہ کو مؤ کدہ کرنے کے لئے ہے ۔ اور شارحین حدیث نے بیان کیا ہے کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مصداق وہ مصالحت ومفاہمت ہے جو حضرت امام حسنؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے سپرد کر دی تھی اور انہوں نے یعنی امیر معاویہؓ نے اپنی امرت وسیادت کو مستحکم کر لیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض حضرات خصوصا مورخین نے جو یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امیر معاویہ ، حضرت امام حسن سے صلح وصفائی کر لینے کے بعد خلیفہ ہوئے تھے۔ اس معنی میں صحیح نہیں ہے کہ امام حسن واقعۃ حضرت امیر معاویہؓ کو خلافت کا اپنے سے زیادہ مستحق واہل جانتے تھے اس لئے انہوں نے صلح کر کے ان کے حق میں خلاف سے دستبرداری دے دی تھی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے سیاسی عناصر نے حضرت امام حسن کے خلاف جس طرح کا ماحول بنا دیا تھا اور ان دونوں عظیم المرتبت شخصیتوں کی باہمی آویزش کی وجہ سے دین وملت کو جو نقصان پہنچنے والا تھا، حضرت امام موصوف نے اس سے بچنے کے لئے بادل نخواستہ مصالحت کی اور اپنی خلافت وحکومت کو دین وملت کے وسیع تر مفاد پر ترجیح دینے کی بجائے اس سے دستبرداری ہی کو بہتر سمجھا۔ " گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوں گے" کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے امراء اور ارباب حکومت میں سے ایسے لوگوں کی جماعت پیدا ہوگی جو لوگوں کو بدعت و گناہ کی طرف مائل کرے گی اور برائی کے راستے پر لگائے گی۔ " کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو " کے ذریعے اس امر کی تلقین کرنا مقصود ہے کہ اپنے نازک حالات اور اس طرح کے سخت دین مخالف ماحول میں تمہیں چاہئے کہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے کہیں گوشہ نشین ہو جاؤ اور اپنے آپ کو فتنہ وفساد سے بچا کر اپنی باقی زندگی کو کسی ایسی جگہ گزار دو جہاں تک اس فتنہ کے برے اثرات تم تک نہ پہنچ سکیں یہاں تک کہ اگر تمہیں ان نازک حالات اور اس پر فتن ماحول سے دور رہنے کے لئے کہیں دور جنگل میں جا کر کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے اور وہاں اتنی سخت اور صبر آزما زندگی گزارنی پڑے کہ گھاس پھوس اور لکڑی چبانے تک کی نوبت آ جائے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ والا فمت کا تعلق واطعہ سے ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اس امیر وبادشاہ کی طرف سے تمہارے حق میں کتنے ہی سخت حالات پیدا کر دئیے جائیں تم اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے منہ نہ پھیرنا، کیونکہ اگر تم اس امیر وبادشاہ کی اطاعت نہیں کرو گے تو پھر تمہیں اور زیادہ شدید حالات میں اور کہیں زیادہ سخت اذیت کے ساتھ مرنا پڑے گا۔ نیز بعض نسخوں میں فمت کی بجائے قمت کا لفظ ہے جو لفظ قیام سے ماضی کا صیغہ ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایسا نہ ہو یعنی تم اس امیر وبادشاہ کے ظلم وستم کی وجہ سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے سے معذور ہو تو پھر نکل کھڑے ہو اور کہیں دور جنگل میں جا کر کسی درخت کی جڑ میں پناہ لے لو۔ (یعنی اس امیر وبادشاہ کے زیر حکومت علاقہ سے نکل جاؤ اور کہیں دوسری جگہ جا کر پناہ گزیں ہو جاؤ۔ " جس کے ساتھ پانی کی نہر ہوگی اور آگ کی خندق " کے بارے میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ دونوں چیزیں حقیقی نہیں بلکہ محض خیالی ہوں گی اور ان کا تعلق سحر و طلسم سے ہوگا یعنی بظاہر نظر تو ایسا آئے گا کہ وہ دجال اپنے ساتھ پانی کی نہر اور آگ کی خندق لئے پھر رہا ہے لیکن حقیقت ان کے علاوہ کچھ اور ہوگی، جیسا کہ شعبدہ باز نظر بندی کر کے کچھ کا کچھ دکھا دیتے ہیں، چنانچہ آگے کی عبارت فمن وقع فی فارۃ میں دجال کی طرف آگ کی نسبت سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں چیزیں محض جادوئی اور طلسماتی ہوں گی۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس کے ساتھ پانی کی جو نہر ہوگی وہ نتیجہ وحقیقت کے اعتبار سے آگ ہوگی اور آگ کی خندق ہوگی وہ نتیجہ وحقیقت کے اعتبار سے پانی ثابت ہوگا۔ اور حضرت شیخ عبدالحق نے اس جملے کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات تو یہی ہے کہ یہ عبارت حقیقی معنی پر محمول ہے، یعنی اس کے ساتھ واقعۃ پانی کی نہر اور آگ کی خندق ہوگی، لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ ان چیزوں سے مراد لطف وقہر اور وعدہ وعید ہو، یعنی پانی کی نہر سے مراد تو یہ ہے کہ اس کے پاس اپنے متعلقین کے لئے زبردست ترغیبات و لالچ اور آسائش و راحت کے سامان ہوں گے اور آگ کی خندق سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین ومنکرین کے لئے ڈرانے ، دھمکانے اور مصیبت واذیت میں مبتلا کرنے کے ذرائع رکھے گا،" پس جو شخص اس کی آگ میں پڑے گا الخ" کا مطلب یہ ہے کہ دجال کی موافقت وتابعداری نہیں کرے گا وہ اس کو آگ میں ڈالے گا اور طرح طرح کی سختیوں اور آلام میں مبتلا کرے گا) اور جو شخص اس کی آگ میں پڑے گا وہ اللہ کے دین پر ثابت قدم رہنے اور اللہ کی رضاء کی خاطر ہر مصیبت پر صبر کرنے کی وجہ سے بڑے بڑے اجر پائے گا اور اس نے پہلے جو گناہ کئے ہوں گے وہ دھل جائیں گے، اسی طرح جو شخص دجال کی موافقت وتابعداری کرے گا اس کو وہ اپنی میں ڈالے گا (یعنی اس کو طرح طرح کی آسائش اور راحت زیادہ سے زیادہ دنیاوی فائدے پہنچائے گا، چنانچہ جو شخص اس کے پانی میں جائے گا وہ دنیاوی آسائش وراحت اور یہاں کی زندگانی کی محبت کے سبب اس پر ایمان لانے ، اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی وجہ سخت وبال مول لے لے گا اور اس نے پہلے جو اچھے کام کئے ہوں گے ان سب کا اجر ضائع ہو جائے گا۔ " ثم ینتج المہر الخ" میں لفظ ینتج انتج کا صیغہ مجہول ہے نہ کہ یہ انتاج سے ہے اور نتج کے معنی ہیں حاملہ کی خبر گیری کرنا یہاں تک کہ وہ جنے۔ جب کہ انتاج کے معنی ہیں ولادت کا وقت آ جانا۔ پس علماء نے لکھا ہے کہ یہاں نتج اصل میں تولید کے معنی استعمال ہوا ہے یعنی لوگ اپنی گھوڑیوں کے ہاں بچہ ہونے کی تدابیر اختیار کریں گے اور بچہ جننے کے وقت گھوڑیوں کی دیکھ بھال اور خدمت کریں گے جیسا کہ دایہ کسی عورت کے ہاں ولادت کے وقت خدمت انجام دیتی ہے اور " مہر" کے معنی بچھڑنے کے ہیں اور اگر یہ لفظ " ۃ" کے ساتھ یعنی " مہرۃ" ہو تو اس کے معنی بچھڑی کے ہوتے ہیں۔ نیز " یرکب" کے معنی ہیں سواری دینے کی عمر کو پہنچ جانا یا سواری کے قابل ہو جانا۔ بہرحال جو یہ فرمایا گیا ہے کہ لوگ اپنی گھوڑیوں سے بچے جنوانے کی تدابیر کریں گے تاکہ ان کو سواری کے کام میں لا سکیں لیکن جب ان کی گھوڑیاں بچے جنیں گی تو وہ بچے ابھی سواری کے قابل بھی نہیں ہونے پائیں گے کہ قیامت آ جائے گی، تو اس سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے کی طرف اشارہ کرنا ہے، کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول سے قیامت کے دن تک گھوڑوں کی سواری کا موقع ہی نہیں آئے گا اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ اس زمانے میں کفار کا وجود ہی نہیں ہوگا کہ جن سے جنگ کرنے کے لئے گھوڑوں کی سواری کی ضرورت پیش آئے لیکن یہ مراد لینا اور مذکورہ تاویل کرنا اس زمانے تو صحیح تھا جب کہ گھوڑوں کی سوار صرف میدان جنگ تک محدود رہتی تھی اور گھوڑے کا اصل مصرف کفار کے مقابلے پر لڑنے کے لئے ان کو استعمال کرنا سمجھا جاتا تھا ، ظاہر ہے کہ موجودہ حالت میں یہ بات کچھ زیادہ وزن دار معلوم نہیں ہوتی۔ یا اس جملے کے ذریعے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ دجال کے ظاہر ہو جانے کے بعد سے قیامت آنے تک کا زمانہ طویل نہیں ہوگا، بہت مختصر ہوگا، گویا اس وقت سے قیامت آنے تک میں بس اتنا عرصہ رہ جائے گا ایک بچھڑے کے پیدا ہونے کے وقت سے اس سواری کے قابل ہونے تک کے درمیان لگتا ہے۔ یہ وضاحت نہ صرف یہ کہ زیادہ صاف اور قرین قیاس ہے بلکہ ان احادیث کے مفہوم کے مطابق بھی ہے جو اس سلسلے میں منقول ہیں۔
[مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1328 (41862)]

************************************
دجال کا فتنہ بہت بڑا فتنہ ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت تک برپا ہونے والے فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ دجال کا ہوگا، رسول اللہﷺ ہر نماز میں اس سے پناہ مانگتے تھے آپ اس طرح دعا کرتے:
‘‘اے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور تیری پناہ لیتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری  پناہ لیتا ہوں کانے دجال کے فتنے سے اور تیری پناہ لیتا ہوں زندگی اور موت کے فتنے سے۔’’
(سنن ابن ماجہ،الدعاء:3840)
اس فتنے کا اندازہ اس امر سے لگایا جاتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کررسول اللہﷺ تک آنے والے ہر نبی نے اپنی قوم کو اس دجال سے خبردار کیا ہے۔ کیونکہ یہ بہت ہولناک فتنہ ہے، اس دجال اکبر سے پہلے چھوٹے چھوٹے دجال پیدا ہوں گے جو اس دجال اکبر کے لیے زمین ہموار کریں گے اور فضا کو سازگار کریں گے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘اگر دجال اکبر میری موجودگی میں برآمد ہوا تو تمہارے بجائے میں خود اس سے نمٹ لوں گا اور اگر میری عدم موجودگی میں آیا تو پھر ہر آدمی اپنی طرف سے خود اس کا مقابلہ کرے گا اور ہر مسلمان پر میری طرف سے اللہ نگہبان ہے۔’’ (صحیح مسلم ،الفتن:2937)



سب سے بڑا فتنہ
حضرت عمران بن حصینؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لیکر قیامت آنے تک دجال سے زیادہ بڑا اور کوئی فتنہ نہیں ہے ۔(مسلم)
دجال کے شعبدے
حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دجال بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اس کے جسم پر بہت گھنے بال ہوں گے اور اس کے ساتھ اس کی جنت اور دوزخ بھی ہو گی لیکن جو اس کی جنت نظر آئے گی در اصل وہ اس کی دوزخ ہو گی اور جو دوزخ نظر آئے گی وہ اصل میں جنت ہوگی (لہٰذا جس کو وہ جنت بخشے گا وہ دوزخی ہو گا او جس کو اپنی دوزخ میں ڈالے گا وہ جنتی ہو گا۔(مسلم شریف)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو دجال کے متعلق ایسی بات نہ بتا دوں جو حضرت نوحؑ سے لیکر آج تک کسی نبی نے اپنی امت کو نہ بتائی ہو دیکھو وہ کانا ہو گا اور اس کے ساتھ جنت او ردوزخ کے نام سے دو شعبدے بھی ہوں گے تو جس کو وہ جنت کہے گا وہ درحقیقت دوزخ ہو گی دیکھو دجال سے میں بھی تم کو اسی طرح ڈراتا ہوں جیسا کہ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا تھا۔( متفق علیہ)
دجال سے دور رہو
عمران بن حصینؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دیکھو جو شخص دجال کی خبر سنے اس کوچاہئے کہ وہ اس سے دور ہی رہے بخدا کہ ایک شخص کو اپنے دل میں یہ خیال ہو گا کہ وہ مو من آدمی ہے لیکن ان عجائبات کو دیکھ کر جو اسکے ساتھ ہوںگے وہ بھی اس کے پیچھے لگ جائے گا ( ابو داد )


دجال کا حلیہ
عبادہ بن صامتؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا میں نے دجال کے متعلق کچھ تفصیلات تم لوگوں سے بیان کیں لیکن مجھ کو خطرہ ہے کہ کہیں تم پورے طور پر اس کو نہ سمجھے ہو دیکھو مسیح دجال کا قد ٹھنگنا ہو گا اس کے دو نوں پیر ٹیڑھے ، سر کے بال شدید خمیدہ ، ایک چشم مگر ایک آنکھ بالکل پٹ صاف نہ اوپر کو ابھری ہوئی نہ اندر کو دھنسی ہوئی اگر اب بھی تم کو شبہ رہے تو یہ بات یاد رکھنا کہ تمھارا رب یقیناً کانا نہیں ہے ۔(ابو داد)


ہر نبی نے دجال سے ڈرایا
ابو عبیدہ بن جراحؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ نوح علیہ السلام کے بعد جو نبی آیا ہے اس نے اپنی قوم کو دجال سے ضرور ڈرایا ہے اور میں بھی تم کو اس سے ڈراتا ہوں اس کے بعد آپ نے اس کی صورت وغیرہ بیان فرمائی اور کہا ممکن ہے جنہوں نے مجھ کو دیکھا ہے یا میرا کلام سنا ہو ۔اس میں کوئی ایسا نکل آئے جو اس کا زمانہ پاسکے انہوں نے پوچھا اس دن ہمارے دلوں کا حال کیسا ہو گا آپ ﷺ نے فرمایا ایسا ہی جیسا آج ہے یا اور بھی بہتر۔(ترمذی و ابو داد)


دجال کے ظہور کی علامات:
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے گھر میں تھے، آپ نے دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: ”اس سے پہلے تین قسم کے قحط ہوں گے، ایک قحط یہ ہو گا کہ اس میں آسمان تہائی بارش روک لے گا، زمین اپنی تہائی نباتات روک لے گی، دوسرے میں یہ ہو گا کہ آسمان اپنی دو تہائی بارش روک لے گا، زمین اپنی دو تہائی نباتات روک لے گی، اور تیسرے میں آسمان اپنی ساری بارش روک لے گا، اور زمین اپنی تمام نباتات روک لے گی چوپاؤں میں سے کوئی کھر والا باقی بچے گا نہ کوئی کچلی والا، سب ہلاک ہو جائیں گے، اس کا سب سے شدید فتنہ یہ ہو گا کہ وہ اعرابی کے پاس آئے گا تو کہے گا، مجھے بتاؤ اگر میں تمہارے اونٹ کو زندہ کر دوں تو کیا تجھے یقین نہیں آئے گا کہ میں تمہارا رب ہوں؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں، شیطان اس کے لیے اس کے اونٹ کی صورت اختیار کر لے گا، تو اس کے تھن بہترین ہو جائیں گے اور اس کی کوہان بہت بڑی ہو جائے گی۔ “ فرمایا: ”وہ (دجال) دوسرے آدمی کے پاس آئے گا جس کا بھائی اور والد وفات پا چکے ہوں گے، تو وہ (اسے) کہے گا، مجھے بتاؤ اگر میں تمہارے لیے تمہارے والد اور تمہارے بھائی کو زندہ کر دوں تو کیا تجھے یقین نہیں ہو گا کہ میں تمہارا رب ہوں؟ وہ کہے گا، کیوں نہیں، شیطان اس کے لیے اس کے والد اور اس کے بھائی کی صورت اختیار کر لے گا۔ “ اسماء رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی کسی ضرورت کی خاطر تشریف لے گئے، پھر واپس آ گئے، اور لوگ آپ کے بیان کردہ فرمان میں فکر و غم کی کیفیت میں تھے، بیان کرتی ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دروازے کی دہلیز پکڑ کر فرمایا: ”اسماء کیا حال ہے؟“ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ نے دجال کے ذکر سے ہمارے دل نکال کر رکھ دیے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ میری زندگی میں نکل آیا تو میں اس کا مقابلہ کروں گا، ورنہ میرا رب ہر مومن پر میرا خلیفہ ہے۔ “ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم اپنا آٹا گوندھتی ہیں اور روٹی پکا کر ابھی فارغ بھی نہیں ہوتیں کہ پھر بھوک لگ جاتی ہے، تو اس روز مومنوں کی کیا حالت ہو گی؟ فرمایا: ”تسبیح و تقدیس جو آسمان والوں کے لیے کافی ہوتی ہے وہی ان کے لیے کافی ہو گی۔ “
[الجامع - معمر بن راشد:20821، المصنف - عبد الرزاق:21899، مسند أحمد:27579(26342)، المعجم الكبير للطبراني:404، شرح السنة للبغوي:4263، تفسير البغوي:«1850»]
((یُجْزِئُھُمْ مَا یُجْزِئُ اَھْلَ السَّمَآءِ مِنَ التَّسْبِیْحِ وَالتَّقْدِیْسِ))
’’تسبیح و تقدیس جو آسمان والوں کے لیے کافی ہوتی ہے وہی ان کے لئے کافی ہوگی۔‘‘
[الفتن لنعيم بن حماد:1586، طبرانی:405 حسن، ، مشکوۃ المصابیح:5491]



دجال کی بدخلقی
دجال قوم یہود میں سے ہو گا عوام میں اس کا لقب مسیح ہو گا دائیں آنکھ میں پھلی ہو گی ۔گھونگر دار بال ہوں گے ۔سواری میں ایک بڑا گدھا ہو گا اولاً اس کا ظہور ملک عراق و شام کے درمیان ہو گا۔جہاں نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتا ہو گا پھر وہاں سے اصفہان چلاجائے گا یہاں اس کے ہمراہ ستر ہزار یہودی ہوں گے یہیںسے خدائی دعویٰ کرکے چاروں طرف فساد برپا کرے گا۔اور زمین کے اکثر مقامات پر گشت کرکے لوگوں سے اپنے تئیں خدا کہلوائے گا ۔


دجال کی جادو گریاں اور مو منوں کی آزمائش
لوگوں کی آزمائش کیلئے خداوند کریم اس سے بڑے خرق عادات ظاہر کرائے گا اس کی پیشانی پر لفظ (ک،ف،ر)لکھا ہوگا جس کی شناخت صرف اہل ایمان کر سکیں گے اس کے ساتھ ایک آگ ہو گی جس کو دوزخ سے تعبیر کرے گا اور ایک باغ جو جنت کے نام سے موسوم ہو گا مخالفین کو آگ میں موافقین کو جنت میں ڈالے گا مگر وہ آگ درحقیقت باغ کے مانند ہو گی اور باغ آگ کی خاصیت رکھتا ہو گا نیز اس کے پاس اشیائے خوردنی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہو گا جس کو چاہے گا دے گا جب کوئی فرقہ اس کی الوہیت کو تسلیم کریگا تو اس کیلئے اس کے حکم سے بارش ہو گی انا ج پیدا ہوگا درخت پھلدار مویشی موٹے تازے اور شیردار ہو جائیں گے ۔جو فرقہ اس کی مخالفت کرے گا تو اس سے اشیائے مذکورہ بند کردے گا اور اسی قسم کی بہت سی ایذائیں مسلمانوں کو پہنچائے گا مگر خدا کے فضل سے مسلمانوں کو تسبیح و تہلیل کھانے پینے کا کام دے گی اس کے خروج کے بیشتر دو سال تک قحط رہ چکا ہوگا تیسرے سال دوران قحط ہی میں اس کا ظہور ہوگا زمین کے مدفون خزانے اس کے حکم سے اس کے ہمراہ ہو جائیں گے بعض آدمیوں سے کہے گا کہ میں تمھارے مردہ ماں باپوں کو زندہ کرتا ہوں تاکہ تم اس قدرت کو دیکھ کر میری خدائی کا یقین کر لو پس شیاطین کو حکم دے گا کہ زمین میں سے ان کے ماں باپوں کے ہم شکل ہو کر نکلوچنانچہ وہ ایساہی کرینگے۔


دجال مکہ و مدینہ میں داخل نہ ہو سکے گا
اس کیفیت سے بہت سے ممالک پر اس کا گزر ہو گا یہاں تک کہ وہ جب سرحد یمن میں پہنچے گا اور بددین لوگ بکثرت اس کے ساتھ ہو جائیں گے تو وہاں سے لوٹ کر مکہ معظمہ کے قریب مقیم ہو جائے گا مگر بسبب محافظت فرشتوں کے مکہ معظمہ میں داخل نہ ہو سکے گا پس وہاں سے مدینہ منورہ کا قصد کرے گا اس وقت مدینہ کے سات دروازے ہوں گے ہر دروازے کی محافظت کیلئے خداوند کریم دو دو فرشتے متعین فرمائے گا جن کے ڈر سے دجال کی فوج داخل شہر نہ ہو سکے گی نیز مدینہ منورہ میںتین مرتبہ زلزلہ آئے گا جس کی وجہ سے بدعقیدے و منافق لوگ خائف ہو کر شہر سے نکل کر دجال کے پھندے میں گرفتار ہو جائیں گے ۔

************************************
مدینہ کے ایک بزرگ کے ہاتھوں دجال کی رسوائی
اس وقت مدینہ منورہ میں ایک بزرگ ہوں گے جو دجال سے مناظرہ کرنے کیلئے نکلیں گے دجال کی فوج کے قریب پہنچ کر ان سے پوچھیں گے کہ دجال کہاں ہے وہ اس کی گفتگو کو خلاف ادب سمجھ کر قتل کرنے کاقصد کریں گے مگر بعض ان میں قتل سے مانع ہوں گے اور کہیں گے کیا تم کو معلوم نہیں کہ ہمارے اور تمھارے خدا ( دجال) نے منع کیا ہے کہ کسی کو بغیر اجازت کے قتل نہ کرنا ۔
پس وہ دجال کے سامنے جاکر بیان کریں گے کہ ایک گستاخ شخص آیا ہے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے دجال ان کو اپنے پاس بلائے گا جب وہ بزرگ دجال کے چہرے کو دیکھیں گے تو فرمائیں گے میں نے تجھے پہچان لیا تو وہی ملعون ہے جس کی پیغمبر خدا ﷺ نے خبر دی تھی اور تیری گمرائی کی حقیقت بیان فرمائی تھی دجال غصہ میں آ کر کہے گا کہ اس کو آرے سے چیر دو بس وہ آپکو ٹکڑے کرکے دائیں بائیں جانب ڈال دیں گے پھر دجال خود ان دونوں ٹکڑوں کو جمع کرکے زندہ ہونے کا حکم دے گا چنانچہ وہ خدائے قدوس کی حکمت وارادے سے زندہ ہو کر کہیں گے کہ اب تو مجھ کو پورا یقین ہوگیا تووہی مردود دجال ہے کہ جس کی ملعونیت کی خبر پیغمبرخدا ﷺ نے دی تھی ۔دجال جھنجھلا کراپنے معتقدین کو حکم دے گا کہ اس کو ذبح کر دو پس وہ آپ کے حلق پرچھری پھیریںگے مگر اس سے آپ کو کوئی ضرر نہ پہنچے گا ۔دجال شرمندہ ہو کر ان بزرگ کو اپنی دوزخ میں جس کا ذکر اوپر گزر چکا ڈال دے گا مگر خدا وند کریم کی قدرت سے وہ آپ کے حق میں بردو سلام ہو جائیگی اس کے بعد دجال کسی مردہ کے زندہ کرنے پر قدرت نہ پائے گا اور یہاں سے ملک شام کی جانب روانہ ہو جائے گا۔

حضرت عیسٰی علیہ السلام کا نزول
دجال کے دمشق پہنچنے سے پہلے حضر ت امام مہدی علیہ السلام دمشق آ چکے ہوں گے اور جنگ کی پوری تیاری و ترتیب فوج کر چکے ہوں گے جنگ کا سازو سامان و آلات تقسیم ہوں گے کہ موذن فجر کی اذان دے گا لوگ نماز کی تیاری ہی میں ہوں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو فرشتوں کے کاندھوں پر تکیہ کئے آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے شرقی منارہ پر جلوہ افروز ہو کر آواز دیںگے کہ سیڑھی لے آو � پس سیڑھی حاضرکر دی جائے گی۔

حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی کی ملاقات
آپ اس کے ذریعہ سے نیچے اتر کر امام مہدی سے ملاقات فرمائیں گے ۔امام مہدی نہایت تواضع و خوش خلقی کے ساتھ آپ سے پیش آئیں گے او ر فرمائیں گے یا نبی اللہ امامت کیجئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ارشاد فرمائیں گے کہ امامت تم ہی کرو کیونکہ تمھارے بعض بعض کے لئے امام ہیں اور یہ عزت اس امت کوخدانے دی ہے پس امام مہدی نماز پڑھائیں گے حضرت عیسیٰ اقتدا کریں گے۔


حضرت تمیم داریؓ کا عجیب و غریب واقعہ
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے اعلان کرنے والے کو سنا وہ اعلان کر رہا تھا چلو نماز ہونے والی ہے میں نماز کے لئے نکلی او ر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی آ پ ﷺ نماز سے فارغ ہو کر منبر پر بیٹھ گئے اور آپ کے چہرے پر اس وقت مسکراہٹ تھی آپ ﷺ نے فرمایا ہر شخص اپنی اپنی جگہ بیٹھا رہے اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا جانتے ہو میں نے تم کو کیوں جمع کیا ہے انہوں نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم ہے آپ نے فرمایا بخدا میں نے تم کو نہ تو مال وغیرہ تقسیم کیلئے جمع کیا ہے نہ کسی جہاد کی تیاری کیلئے بس صرف اس بات کیلئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری پہلے نصرانی تھا وہ آیا ہے اور مسلمان ہو گیا ہے اور مجھ سے ایک قصہ بیان کرتا ہے جس سے تم کو میرے اس بیان کی تصدیق ہو جائے گی جو میں نے کبھی دجال کے متعلق تمھارے سامنے ذکر کیاتھاوہ کہتا ہے کہ وہ ایک بڑی کشتی پر سوا ر ہو ا جس پر سمندر میں سفر کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ قبیلہ لخم اور جذام کے تیس آدمی اور تھے سمندر کا طوفان ایک ماہ تک ان کا تماشا بناتا رہا۔آخر مغربی جانب ان کو ایک جزیرہ نظر پڑا جس کو دیکھ کر وہ بہت مسرور ہوئے اور چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر اس جزیرہ پر اتر گئے سامنے سے ان کو جانور کی شکل کی ایک چیز نظر پڑی جس کے سارے جسم پر بال ہی بال تھے کہ اس میں اس کے اعضائے مستورہ تک کچھ نظر نہ آتے تھے لوگوں نے اس سے کہا کمبخت تو کیا بلاہے ؟وہ بولی میں دجال کی جاسوس ہوں چلو اس گرجے چلو وہاں ایک شخص ہے جس کو تمھارا بڑا انتظار لگ رہا ہے یہ کہتے ہیں کہ جب اس نے ایک آدمی کا ذکر کیا تو اب ہم کو ڈر لگا کہ کہیں وہ جن نہ ہو ہم لپک کر اسے گرجے میں پہنچے تو ہم نے ایک بڑا قوی ہیکل شخص دیکھا کہ اس سے قبل ہم نے ویسا کوئی شخص نہیں دیکھا تھا اس کے ہاتھ گردن سے ملا کر اور اس کے پیر گھٹنوں سے لیکر ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے نہایت مضبوطی سے جکڑے ہوئے تھے ہم نے اس سے کہا تیرا ناس ہو تو کون ہے ؟وہ بولاتم کو تو میرا پتہ کچھ نہ کچھ لگ ہی گیا اب تم بتاﺅ تم کون لوگ ہو انہوں نے کہا کہ ہم عرب کے باشندے ہیں ہم ایک بڑی کشتی میں سفر کررہے تھے سمندر میں طوفان آیا اور ایک ماہ تک رہا اس کے بعد ہم اس جزیرہ میں آئے تو یہاں ہمیں ایک جانور نظر پڑا جس کے تمام جسم پر بال ہی بال تھے اس نے کہا میں جساسہ ( جاسوس ۔خبر رساں ) ہوں چلو اس شخص کی طرف چلو جو اس گرجے میں ہے اس لئے ہم جلدی جلدی تیرے پاس آ گئے اس نے کہا مجھے یہ بتا کہ بیسان ( شام میں ایک بستی کا نام ہے ) کی کھجوروں میں پھل آتا ہے یا نہیں ۔ہم نے کہا ہاں آتا ہے ۔اس نے کہا وہ وقت قریب ہے جب اسمیں پھل نہ آئیں پھر اس نے پوچھا اچھا بحیرہ طبریہ کے متعلق بتا اسمیں پانی ہے یانہیں؟ ہم نے کہا بہت ہے اس نے کہا وہ زمانہ قریب ہے جبکہ اس میں پانی نہ رہے گاپھر اس نے پوچھا زغر(شام میں ایک بستی ) کے چشمہ کے متعلق بتا اس میں پانی ہے یانہیں اوراس بستی والے اس کے پانی سے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں ہم نے کہا اس میں بھی بہت پانی ہے اور لوگ اسی کے پانی ہے اور لوگ اسی کے پانی سے کھیتوںکو سیراب کرتے ہیں پھر اس نے کہا اچھانبی الامیین کاکچھ حال سنا ۔ ہم نے کہا وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے ہیں اس نے پوچھا عرب کے لوگوں نے اس کے ساتھ جنگ کی ہے ہم نے کہا ہاں اس نے پوچھا اچھا پھر کیا نتیجہ رہا ہم نے بتایا کہ وہ اپنے گرد و نوا ح پرتو غالب آ چکے ہیں اور لوگ ان کی اطاعت قبول کر چکے ہیں اس نے کہا سن لو ان کے حق میں یہی بہتر تھا کہ ان کی اطاعت کرلیں اور اب میں تم کو اپنے متعلق بتاتاہوں میںمسیح دجال ہوں او روہ وقت قریب ہے جبکہ مجھ کو یہاں سے باہر نکلنے کی اجازت مل جائے گی میں باہر نکل کر تمام زمین گھوم جاں گا اور چالیس دن کے اندر اندر کوئی بستی ایسی نہ رہ جائے گی جس میں میں داخل نہ ہوں بجز مکہ اور طیبہ کے ان دونوں مقامات میں میرا داخلہ ممنوع ہے جب میں ان دونوں میں سے کسی بستی پر داخل ہونے کا ارادہ کروں گا اس وقت ایک فرشتہ ہاتھ میں ننگی تلوار لئے سامنے سے آ کر مجھ کو داخل ہونے سے روک دیگااوران مقامات (مقدسہ) کے جتنے راستے ہیں ان سب پر فرشتے ہوںگے کہ وہ ان کی حفاظت کررہے ہوں گے رسول اللہ ﷺ نے اپنی لکڑی منبر پر مار کرفرمایا کہ وہ طیبہ یہی مدینہ ہے یہ جملہ تین بار فرمایا ۔ دیکھو کیا یہی بات میں نے تم سے بیان نہیں کی تھی لوگوں نے کہا جی ہاں آپ نے بیان فرمائی تھی اس کے بعد فرمایا دیکھو وہ بحرشام یا بحریمن (راوی کو شک ہے) بلکہ مشرق کی جانب ہے او اسی طرف ہاتھ سے اشارہ فرمایا ۔(مسلم)

*****************************
دجال کا ساتھی اور دجال کا قتل
حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے دیکھا تو میں رو رہی تھی آپ ﷺ نے پوچھا کیوں رو رہی ہو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے دجال کا ذکر اس طرح فرمایا کہ اس غم میں مجھ کو بے ساختہ رونا آگیا آپ ﷺ نے فرمایا اگر وہ نکلا اور میں اس وقت موجود ہوا تو تمھاری طرف سے میں اس سے نمٹ لونگا اور اگر وہ میرے بعد نکلاتو پھر یہ بات یاد رکھنا کہ تمھارا پرورد گار کانا نہیں ہے (اور وہ کانا ہو گا) جب وہ نکلے گا تو اس کے ساتھی اصفہان کے یہود ہوںگے یہاں تک کہ جب مدینہ آئے گا تووہاں ایک طرف آ کر اترے گا اس وقت مدینہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازہ پر دو دو فرشتے نگران ہوں گے ( جو اس کے اندر آنے سے مانع ہوںگے ) مدینہ میں جو بداعمال آباد ہیں وہ نکل کر خود اس کے پاس چلے جائیں گے اس کے بعد وہ فلسطین میں باب لد پر آئے گا ۔عیسیٰ علیہ السلام نزول فرما چکے ہوں گے اوریہاں وہ اسکوقتل کریں گے پھر عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک ایک منصف امام کی حیثیت سے زمین پر زندہ رہیں گے۔( مسند احمد )


آگ پانی اور پانی آگ
ربعی بن حراشؓ سے روایت ہے کہ عقبہ بن عمرو نے حذیفہؓ سے کہا کہ آپ نے دجال کے متعلق جو بات آنحضرت ﷺ سے سنی تھی وہ ہم کو بھی سنا دیجئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ کو یہ فرماتے خود سنا ہے کہ دجال جب ظاہر ہو گا تو اس کے ساتھ پانی ا ور آگ دونوں ہوں گے مگر لوگوں کو جو آگ نظر آئے گی وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور جس کو لوگ ٹھنڈا پانی سمجھیں گے وہ جھلسا دینے والی آگ ہو گی لہٰذا تم میں جس کو بھی یہ زمانہ ملے اس کو چاہئے کہ جو آگ معلوم ہو رہی ہو اس میں داخل ہو جائے کیونکہ درحقیقت وہ آب خنک ہو گا۔( بخاری شریف) یہاں مسلم کی روایت میں اتنا اضافہ اور ہے کہ دجال کی ایک آنکھ میں موٹا سا ناخونہ ہو گا اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر کے حروف علیحدہ علیحدہ لکھے ہوئے ہوں گے جس کو ہر مومن پڑھ لے گا چاہے وہ خواندہ ہو یا ناخواندہ اور ایک روایت میں ہے کہ اس کی آنکھوں کے درمیان ک، ف، ر اور ایک روایت میں کاف، الف، را ہو گا۔


حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ کامل کر
دجال کی فوج سے لڑنا اور دجال کو قتل کرنا
پھر حضرت عیسیٰ سے کہیں گے یا نبی اللہ اب لشکر کا انتظام آپ کے سپرد ہے جس طرح چاہیں انجام دیں وہ فرمائیں گے نہیں یہ کام بدستور آپ ہی کے تحت میں رہے گا میں تو صرف قتل دجال کے واسطے آیا ہوں جس کا مارا جانا میرے ہی ہاتھ سے مقدر ہے رات امن و امان کے ساتھ بسر کرکے امام مہدی فوج ظفر موج کو لے کر میدان کارزار میں تشریف لائیں گے ۔حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کہ میرے لئے گھوڑا اور نیزہ لا تاکہ اس ملعون کے شر سے زمین کو پاک کر دوں پس حضرت عیسیٰ دجال پر اور اسلامی فوج اس کے لشکر پر حملہ آور ہو گی نہایت خوفناک اورگھمسان کی لڑائی شروع ہو جائے گی اس وقت دم عیسوی کی یہ خاصیت ہو گی کہ جہاں تک آپ کی نظر کی رسائی ہو گی وہیں تک یہ بھی پہنچے گا اورجس کافر تک آپ کا سانس پہنچے گا تو وہ نیست و نابود ہوجایا کرے گا۔


دجال کافرار
دجال آپ کے مقابلہ سے بھاگے گا آپ اس کا تعاقب کرتے کرتے مقام لد میں جالیں گے اور نیزے سے اس کا کام تمام کرکے لوگوں پر اس کی ہلاکت کا اظہار کریں گے کہتے ہیں کہ اگر حضرت عیسیٰ اس کے قتل میں عجلت نہ کرتے تو بھی وہ آپ کے سانس سے اس طرح پگھل جاتا جیسے پانی میں نمک ۔ اسلامی فوج دجال کے لشکر کے قتل و غارت کرنے میں مشغول ہو جائے گی یہودیوں کو جو اسکے لشکر میں ہونگے کوئی چیز پناہ نہ دیگی یہاں تک کہ اگر بوقت شب کسی پتھر یا درخت کی آڑ میں ان میں سے کوئی پناہ گزین ہو تو وہ بھی آواز دیگا اے خدا کے بندے دیکھ اس یہودی کو پکڑ اور قتل کر ۔مگر درخت غر قدان کو پناہ دیکر اخفائے حال کریگا۔


دجالی فتنہ کے چالیس روز
زمین پر دجال کے شر و فساد کا زمانہ چالیس روز تک رہے گا کہ جن میں سے ایک دن ایک سال کے ایک ایک مہینہ کے اور ایک ایک ہفتہ کے برابر ہو گا باقی ماندہ ایام معمولی دنوں کے برابر ہوں گے بعض روایتوں میں ہے کہ دنوں کی درازی بھی دجال کے استدراج کی وجہ سے ہوگی کیونکہ وہ ملعون آفتاب کوحبس کرنا چاہے گا خداوند کریم اپنی قدرت کاملہ سے اس کی حسب مرضی آفتاب کو روک دے گا اصحاب کرامؓ نے جناب پیغمبر خدا ﷺ سے پوچھا کہ جو روز ایک سال کے برابر ہو گا اس میں ایک دن کی نماز پڑھنی چاہئے یا سال بھر کی؟آپ نے فرمایا ہ اندازہ و تخمینہ کرکے ایک سال ہی کی نماز ادا کرنی چاہئے شیخ محی الدین ابن عربی ؒجو ارباب کشف و شہود کے محققین میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ اس دن کی تصویر دل میں یوں آتی ہے کہ آسمان پر ایک ابر محیط طاری ہو گا اور ضعیف و خفیف روشنی جو عموماًایسے ایام میں ہوا کرتی ہے تاریکی محض سے مبدل نہ ہو گی او رآفتاب بھی نمایاں نہ ہو گا پس لوگ بموجب شرع اندازہ تخمینہ سے اوقات نماز کے مکلف ہوںگے ۔واللہ اعلم بالصواب


دجالی شرانگیزیوں سے متاثرہ شہروں کی تعمیر نو اور روئے زمین پر انصاف کا قیام
دجال کے فتنہ کے خاتمہ پر حضرت امام مہدی و حضرت عیسیٰ ان شہروں میں کہ جن کو دجال نے تاخت و تاراج کر دیا ہو گادورہ فرمائیںگے دجال سے تکلیف اٹھائے ہوئے لوگوں کو خدا کے یہاں اجر عظیم ملنے کی خوشخبری دیکر دلاسا و تسلی دیں گے اور اپنی عنایات و نوازشات عامہ سے ان کے دنیاوی نقصانات کی تلافی کریں گے ۔حضرت عیسیٰ قتل خنزیر شکست صلیب اور کفار سے جزیہ قبول کرنے کے احکام صادر فرما کر تمام کفار کو اسلام کی طرف مدعو کریںگے خدا کے فضل و کرم سے کوئی کافر بلاد اسلام میں نہ رہے گا تمام زمین حضرت مہدی کے عدل و انصاف کے چمکاروں سے منور وروشن ہو جائے گی ظلم و بے انصافی کی بیخ کنی ہو گی تمام لوگ عبادت و اطاعت الہٰی میں سرگرم و مشغول ہوںگے آپ کی خلافت کی میعاد سات ،آٹھ یا نو سال ہو گی
واضح رہے کہ سات سال عیسائیوں کے فتنہ اور ملک کے انتظام میں آٹھواں سال دجال کے ساتھ جنگ و جدال میں اور نواں سال حضرت عیسیٰ کی معیت میں گزرے گا اس حساب سے آپ کی عمر49 سال ہو گی۔


دجالی فتنہ اور سورہ کہف
اب رہا یہ سوال کہ پھر سورہ کہف کے اور اس فتنہ سے تحفظ کے درمیان ربط کیا ہے کہ اسی کی تلاوت کو اس سے تحفظ کو سبب قرار دیا گیا ہے تو اولاً اصولاً یہ سمجھ لیجئے کہ خوارق جس طرح خود سببیت اور مسببیت کے علاقہ سے باہر نظر آتے ہیں اسی طرح جو افعال ان کے قابل ہیں وہ بھی سببیت کے علاقہ سے بالاتر ہوتے ہیں مثلاً نظر کا لگنا سب جانتے ہیں کہ یہ صحیح حقیقت ہے اور گو علماءنے اس کی معقولیت کے اسباب بھی لکھے ہیں مگر بظاہر اس کا کوئی سبب معلوم نہیں ہوتا اس لئے بہت سے اشخاص تو اب تک اس کے قائل ہی نہیں اور اس کو صرف ایک وہم پرستی اور تخیل سمجھتے ہیں لیکن اس کے دفعیہ کے لئے جو صورتیں مجرب ہیں وہ بھی اکثر اسی طرح غیر قیاسی ہیں اسی طرح سمی جانوروں کے کاٹنے کے جومنتر اور افسوں ہیں وہ اکثر یا تو بے معنی ہیں اور جن کے معنی کچھ مفہوم ہیں بھی ان میں سمیت دفع کرنے کا کوئی سبب ظاہر نہیں ہوتا۔ حدیثوں میں بہت سی سورتوں کے خواص مذکور ہیں مثلاً سورہ فاتحہ کہ وہ بہت سے لا علاج امراض کے لئے شفاہے اب یہاں ہر جگہ اس مرض اور اس سورت کے مضامین میں مناسبت پیدا کرنے کیلئے زمین و آسمان کے قلابے ملانا بیکار کی سعی ہے۔ پھر اس قسم کی ذہنی مناسبات انسانی دماغ ہر جگہ نکال سکتا ہے اس لئے ہمارے نزدیک اس کاوش میں پڑنا مفت کی درد سری ہے۔ لیکن باایں ہمہ اگر سورہ � کہف اور دجالی فتنہ کے درمیان کوئی تناسب معلوم کرنا ہی ناگزیر ہو تو پھر بالکل صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ اصحاب کہف بھی کفروارتداد کے ایک زبردست فتنہ میں مبتلا ہوئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ان کے دل مضبوط رکھے اور اسلام پر ان کو ثابت قدم رکھا جیسا کہ اس سورت کے شروع ہی میں ارشاد ہے۔
وربطنا علیٰ قلوبھم اذقاموا فقالواربنا رب السمٰوات والارض لن ندعو من دونہ الٰھاً لقد قلنا اذًا شططاً
پس جس طرح صرف اللہ تعالیٰ کی مدد سے وہ محفوظ رہے تھے اسی طرح جب دجال کا سب سے زبردست ارتداد کفر کا فتنہ نمودار ہو گا تو اس وقت بھی صرف امداد الٰہی ہی سے لوگوں کے ایمان مضبوط رہیں گے۔



*********************************






تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ ہر دور میں اہل حق باطل قوتوں کے ساتھ برسرپیکار رہے ہیں ۔ جلد یا بدیر فتح اہل حق کا مقدر ٹھہری ہے ۔تاریخ کے صفحات میں بدر وحنین ، موتہ وتبوک، قادسیہ و یرموک ،ایران و روم ، افغانستان و ہندستان ،شام وعراق ،فلسطین وبیت المقدس کی فتوحات کے زریں نمونے آج بھی موجود ہیں ۔حق وباطل کا یہ معرکہ قیامت تک یونہی چلتا رہےگا۔اور خروج دجال انہی معرکوں کے تناظر میں ہوگا۔گزشتہ کچھ دہائیوں سے خروج دجال کے بارےمیں مختلف قسم کی آرا سامنے آئی ہیں ۔حتی کہ بعض مفکرین اور ریسرچ سکالرز نے موجودہ دور کی سپر پاور امریکہ کو ہی دجال سے تعبیر کردیا ہے۔ان کا کہنا کہ امریکہ کی تہذیب اور طاقت سب کچھ دجالیت ہی ہے۔ دجال کے بارے میں مسیحی اور یہودی تعلیمات کا بھی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔تاکہ دجال کے بارے میں تمام قسم کی اراوتعلیمات سامنے رکھ کر ایک درست مؤقف اپنانا ممکن ہو۔














































*********************************
دجال کے حمایتی اور ساتھی:
۔۔۔ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلَامِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ، لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُونَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ المَسِيْحِ الدَّجَّالِ، فَإِذَا لَقِيْتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ ۔۔۔
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ أحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ. 
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ [الحاکم في المستدرک، 2 / 160، الرقم : 2647]. وَ رِجَالُهُ رِجَالُ الصحيح کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ. 
"قرآنِ مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے اس طرح خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ان کی نشانی یہ ہے کثرت سے ٹنڈ کروائیں گے، یہ نکلتے رہیں گے حتی کہ ان کا آخری طبقہ دجال کا ساتھی ہوگا، تمھیں جہاں بھی ملیں انھیں قتل کردو، یہ مخلوق کے بد ترین لوگ ہوں گے۔


















































































1 comment: