عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد.
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہمارے حکم (دین) میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے.
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2537 (2537) - صلح کا بیان : اگر لوگ ظلم کی بات پر صلح کر لیں تو وہ صلح مقبول نہیں ہے۔
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1999 (11625) - فیصلوں کا بیان : احکام باطلہ کو ختم کرنے اور رسومات و بدعات کو رد کر نے کے بیان میں]
أخبرتني عاشة أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد.
ترجمہ : عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ نامقبول ہے۔
[صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 2000 (11626) - فیصلوں کا بیان : احکام باطلہ کو ختم کرنے اور رسومات و بدعات کو رد کر نے کے بیان میں]
فائدہ : مومن و مسلمان ہونے کا ملطب یہ ہے کہ اس کا اعتقاد و ایمان پختہ اور کامل ہو کہ قرآن و سنت نے جو راستہ بتا دیا ہے اس پر پورے یقین کے ساتھ چلنا اور شریعت نے جو حدود قائم کر دی ہیں ان کے اندر پورے اعتقاد کے ساتھ رہنا ہی عین فلاح و سعادت سمجھے، اپنی طرف سے ایسے راستے پیدا کرنا جو سراسر منشاء شریعت کے خلاف ہوں، یا ایسے طریقے اختیار کرنا جو قرآن و سنت کے صحیح راستے سے الگ ہوں نہ صرف یہ کہ ایمان و اعتقاد کی سب سے بڑی کمزوری ہے بلکہ دعویٰ اسلام کے برخلاف بھی ہے۔
چنانچہ اس حدیث میں ان لوگوں کو مردود قرار دیا جارہا ہے جو محض اپنی نفسانی خواہشات اور ذاتی اغراض کی بنا پر دین و شریعت میں نئے نئے طریقے رائج کرتے ہیں اور ایسی غلط باتوں کا انتساب شریعت کی طرف کرتے ہیں جن کا اسلام میں سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔
مثلا کوئی آدمی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور اپنی فہم کے مطابق اسلام میں ایسی نئی چیزیں پیدا کرتا ہے جس کا ثبوت نہ تو قرآن و سنت سے ظاہرا ہے اور نہ معنا اور نہ اس کی سند کسی اسلامی نظریہ سے مستنبط ہے تو اسے مردود قرار دیا جائے گا۔ ہاں حدیث کے الفاظ مالیس منہ نے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ایسی چیزیں پیدا کرنا، یا ایسے نظریے قائم کرنا جو کتاب سنت کی منشاء کے خلاف اور ان کے برعکس نہ ہوں ان پر کوئی مواخذہ نہیں ہے اور نہ ان پر کوئی نکیر قائم کی جاسکتی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ رُؤَيْبَةَ ، قَالَ : رَأَى بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ رَافِعًا يَدَيْهِ ، فَقَالَ قَبَّحَ اللَّهُ هَاتَيْنِ الْيَدَيْنِ ، " لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَزِيدُ عَلَى أَنْ يَقُولَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ الْمُسَبِّحَةِ " . وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : " رَأَيْتُ بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ يَوْمَ جُمُعَةٍ يَرْفَعُ يَدَيْهِ " ، فَقَالَ عُمَارَةُ بْنُ رُؤَيْبَةَ : فَذَكَرَ نَحْوَهُ .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْجُمُعَةِ » بَاب تَخْفِيفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ ... رقم الحديث: 1449]
آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمارہ رضی اللہ عنہ تینوں جلیل القدر صحابی ہیں اور وہ ایسے امور کا سختی سے رد فرمارہے ہیں جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔۔۔۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ دعا میں سجع کرنے سے صرف اس لئے منع کرتے ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا۔
بدعت کی برائی:
غیر-دین کو دین بنانا ، کسی کام کو اچھا یا برا خود قرار دینا ایک طرح سے خود کو خدا بنانا ہے. دین کو نامکمل اور نبی پر پورا دین نہ پہنچانے یا چھپانے کا الزام لگانا اور خود کو خدا کا پیغام(دین) پہنچانے والا نبی ہونے کا خفیہ دعوا کرنا بدعت کی سب سے خطرناک برائی اور تلبیس ابلیس ہے.
قرآن : أَفَرَءَيتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰهَهُ هَوىٰهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ وَخَتَمَ عَلىٰ سَمعِهِ وَقَلبِهِ وَجَعَلَ عَلىٰ بَصَرِهِ غِشٰوَةً فَمَن يَهديهِ مِن بَعدِ اللَّهِ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {45:23}
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) خدا نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب خدا کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟
... قُل إِنَّ الأَمرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ... {3:154}
... تم کہہ دو کہ بےشک سب باتیں خدا ہی کے اختیار میں ہیں ...
أَلا يَعلَمُ مَن خَلَقَ وَهُوَ اللَّطيفُ الخَبيرُ {67:14}
بھلا وہ نہ جانے جس نے بنایا اور وہی ہے بھید جاننے والا خبردار
====================
وَما هُوَ عَلَى الغَيبِ بِضَنينٍ {81:24}
اور وہ پوشیدہ باتوں (کے ظاہر کرنے) میں بخیل نہیں
یعنی یہ پیغمبر ہر قسم کے غیوب کی خبر دیتا ہے ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے۔ یا اللہ کے اسماء و صفات سے یا احکام شرعیہ سے یا مذاہب کی حقیقت و بطلان سے یا جنت ودوزخ کے احوال سے یا واقعات بعدالموت سے اور ان چیزوں کے بتلانے میں ذرا بخل نہیں کرتا نہ اُجرت مانگتا ہے۔ نہ نذرانہ، نہ بخشش، پھر کاہن کا لقب اُس پر کیسے چسپاں ہو سکتا ہے، کاہن محض ایک جزئی اور نامکمل بات غیب کی سو جھوٹ ملا کربیان کرتا ہے اور اُس کے بتلانے میں بھی اس قدر بخیل ہے کہ بدون مٹھائی یا نذرانہ وغیرہ وصول کیے ایک حرف زبان سے نہیں نکالتا۔ پیغمبروں کی سیرت سے کاہنوں کی پوزیشن کو کیا نسبت۔
... اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلٰمَ دينًا ۚ ... {5:3}
... آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا.
ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلٰكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّۦنَ ۗ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمًا {33:40}
محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے.
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1999 (11625) - فیصلوں کا بیان : احکام باطلہ کو ختم کرنے اور رسومات و بدعات کو رد کر نے کے بیان میں]
أخبرتني عاشة أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد.
ترجمہ : عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ نامقبول ہے۔
[صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 2000 (11626) - فیصلوں کا بیان : احکام باطلہ کو ختم کرنے اور رسومات و بدعات کو رد کر نے کے بیان میں]
فائدہ : مومن و مسلمان ہونے کا ملطب یہ ہے کہ اس کا اعتقاد و ایمان پختہ اور کامل ہو کہ قرآن و سنت نے جو راستہ بتا دیا ہے اس پر پورے یقین کے ساتھ چلنا اور شریعت نے جو حدود قائم کر دی ہیں ان کے اندر پورے اعتقاد کے ساتھ رہنا ہی عین فلاح و سعادت سمجھے، اپنی طرف سے ایسے راستے پیدا کرنا جو سراسر منشاء شریعت کے خلاف ہوں، یا ایسے طریقے اختیار کرنا جو قرآن و سنت کے صحیح راستے سے الگ ہوں نہ صرف یہ کہ ایمان و اعتقاد کی سب سے بڑی کمزوری ہے بلکہ دعویٰ اسلام کے برخلاف بھی ہے۔
چنانچہ اس حدیث میں ان لوگوں کو مردود قرار دیا جارہا ہے جو محض اپنی نفسانی خواہشات اور ذاتی اغراض کی بنا پر دین و شریعت میں نئے نئے طریقے رائج کرتے ہیں اور ایسی غلط باتوں کا انتساب شریعت کی طرف کرتے ہیں جن کا اسلام میں سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔
مثلا کوئی آدمی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور اپنی فہم کے مطابق اسلام میں ایسی نئی چیزیں پیدا کرتا ہے جس کا ثبوت نہ تو قرآن و سنت سے ظاہرا ہے اور نہ معنا اور نہ اس کی سند کسی اسلامی نظریہ سے مستنبط ہے تو اسے مردود قرار دیا جائے گا۔ ہاں حدیث کے الفاظ مالیس منہ نے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ایسی چیزیں پیدا کرنا، یا ایسے نظریے قائم کرنا جو کتاب سنت کی منشاء کے خلاف اور ان کے برعکس نہ ہوں ان پر کوئی مواخذہ نہیں ہے اور نہ ان پر کوئی نکیر قائم کی جاسکتی ہے۔
جو دین/نیکی کا کام/طریقہ/حالت، نبوی سنّت اور جماعت_صحابہ سے ثابت نہ ہو تو وہ بدعت(دین میں نئی بات)ہے.
بدعت کا لغوی معنی
مشہور امام لغت ابو الفتح ناصر بن عبد السید المطرازی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 616 ھ )لکھتے ہیں کہ :
بدعت ابتداع کا اسم ہے جس کے معنی یہ ہے کہ کوئی نئی چیز ایجاد کی جائے ،رفعت ارتفاع کا اور خلفت اختلاف کا اسم ہے ۔لیکن پھر بدعت کا لفظ ایسی چیز پر غالب آگیا جو دین میں زیادہ یا کم کردی جائے"(مغرب ج 1 ص 30)
علامہ راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 503 ھ) لکھتے ہیں کہ " مذہب میں بدعت کا اطلاق ایسے قول پر ہوتا ہے جس کا قائل یا فاعل صاحب شریعت کے نقش قدم پر نہ چلا ہو ۔اور شریعت کی سابق مثالوں اور اس کے محکم اصولوں پر وہ گامزن نہ ہوا ہو"(مفرادت القرآن ص 37)
بدعت کا شرعی معنی
حافظ بدرالدین عینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 855 ھ) لکھتے ہیں کہ " بدعت اصل میں ایسی نو ایجاد چیز کو کہتے ہیں جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھی (عمدۃ القاری ج 5 ص 356)
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدعت اصل میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جو بغیر کسی سابق مثال اور نمونہ کے ایجاد کی گئی ہو ۔اور شریعت میں بدعت کا اطلاق سنت کے مقابلہ میں ہوتا ہے لہذا مذموم ہی ہوگی "(فتح الباری ج 4 ص 219)
حافظ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدعت سے مراد وہ چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو جو اس پر دلالت کرے ،اور بہرحال وہ چیز جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو جو اس پر دال ہے تو شرعا بدعت نہیں ہے اگر چہ لغۃ بدعت ہوگی"(جامع العلوم و الحکم ص 193)
اور بعینہ ان الفاظ سے بدعت کی تعریف علامہ معین بن صفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 889 ھ ) نے شرح اربعین نووی میں کی ہے (الجنہ ص 159
نیز حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدیع السمٰوت " کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے بغیر کسی سابق مثال اور نمونہ کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔اور لغت میں ہر نئی چیز کو بدعت کہا جاتا ہے اور بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔(اول)بدعت شرعی جس کے متعلق جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ"کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ۔۔۔(دوم)کبھی بدعت لغوی ہوئی ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے مل کے تراویح پڑھنے کے متعلق فرمایا "نعمت البدعۃ ھٰذا"یہ کیا ہی اچھی نو ایجاد ہے"۔۔۔۔پھر آگے لکھتے ہیں کہ اور اسی طرح ہر وہ قول جس کو پہلے کسی نے نہ کیا ہو ،اہل عرب ایسے کام کو بدعت کہتے ہیں "(تفیسر ابن کثیر ج 1 ص 161)
اس سے قبل کے ہم بعت سیئہ اور بدعت حسنہ کی وضاحت کریں مناسب ہے کہ ایک اہم نکتہ کی وضاحت آپ حضرات کے سامنے پیش کردی جائے۔
اہل بدعت کا یہ کہنا کہ جس چیز کی نہیں کتاب و سنت میں موجود نہ ہو اس کا نکالنا اور کرنا برا نہیں ۔۔۔۔ سراسر باطل اور قطعا مردود ہے اور محدثین عظام اور فقہائے کرام کے صریح ضوابط کے خلاف ہے ۔۔علماء اسلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ جیسے عزائم سے خدا تعالیٰ کی بندگی اور عبادت و خشنودی کی جاتی ہے اسی طرح رخصتوں سے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی متعلق ہے اور جس طرح جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو کرنا سنت ہی طرح کسی کام کا چھوڑنا بھی سنت ہے ۔ لہذا آپ کے ترک فعل کی اتباع بھی سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے ۔۔۔چناچہ ملاعلی قاری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ایک حدیث شریف یوں پیش فرماتے ہیں :
"اللہ تعالیٰ جیسے عزائم کی ادائیگی کو پسند کرتا ہے اسی طرح وہ اس کو بھی پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر بھی عمل کیا جائے (مرقات ج 2 ص 15)(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 12
نیز حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ مشکوۃ شریف کی پہلی حدیث "انما الاعمال بالنیات"کی شرح میں یہ نقل کرتے ہیں کہ "متابعت جیسے فعل میں ہوتی ہے اسی طرح ترک میں بھی متابعت ہوتی ہے ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ بدعتی ہے"(مرقات ج 1 ص 41)
اور اسی موقع پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " اتباع جیسے فعل میں واجب ہے اسی طرح ترک میں بھی اتباع ہوگی ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا وہ بدعتی ہوگا ۔اسی طرح محدثین کرام نے فرمایا ہے "(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 20)
شرح مسند امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ میں ہے "اتباع جیسے فعل میں ہے اسی طرح ترک میں بھی ہے سو جس نے ایسے فعل پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ مبتدع ہوگا ۔کیوں کہ اس کو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ قول شامل ہے کہ جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا ثبوت نہیں تو وہ مردود ہوگا"(انتہی)(مواہب لطیفہ شرح مسند ابی حنیفہ بحث تلفظ بالنیۃ)
ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ باوجود محرک اور سبب کے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو نہ کرنا ایسا ہی سنت ہے جیسا کہ آپ کو کسی کام کو کرنا سنّت ہے ۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص آپ کی اس سنت پر عمل نہیں کرتا ،وہ محدثین کرام کی تصریح کے مطابق بدعتی ہوگا۔۔اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ وہ تمام کام جو اہل بدعت کرتے ہیں اس کے داعی اور محرکات آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی موجود تھے مگر آپ نے ان کو ترک فرمایا اور آپ کا ان کو ترک فرمانا سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ : " إِنَّ رَفْعَكُمْ أَيْدِيَكُمْ بِدْعَةٌ ، مَا زَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا " ، يَعْنِي : إِلَى الصَّدْرِ .
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ : " إِنَّ رَفْعَكُمْ أَيْدِيَكُمْ بِدْعَةٌ ، مَا زَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا " ، يَعْنِي : إِلَى الصَّدْرِ .
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ " تمہارے (اس طرح ) ہاتھ اٹھانے بدعت ہیں کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سینہ مبارک سے اوپر ہاتھ نہیں اٹھائے "(مسند احمد ج 2 ص 61)
المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 7/163 / خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن
تخريج الحديث
|
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ رُؤَيْبَةَ ، قَالَ : رَأَى بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ رَافِعًا يَدَيْهِ ، فَقَالَ قَبَّحَ اللَّهُ هَاتَيْنِ الْيَدَيْنِ ، " لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَزِيدُ عَلَى أَنْ يَقُولَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ الْمُسَبِّحَةِ " . وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : " رَأَيْتُ بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ يَوْمَ جُمُعَةٍ يَرْفَعُ يَدَيْهِ " ، فَقَالَ عُمَارَةُ بْنُ رُؤَيْبَةَ : فَذَكَرَ نَحْوَهُ .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْجُمُعَةِ » بَاب تَخْفِيفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ ... رقم الحديث: 1449]
حضرت عمارہ بن رویبہ نے بشر بن مروان کو منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو سخت لہجہ میں یوں ارشاد فرمایا کہ " اللہ تعالیٰ ان دونوں چھوٹے ہاتھوں کا ناس کرے میں نے تو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اشارہ کی انگلی سے زیادہ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا(اور یہ دونوں ہاتھ اٹھا رہے ہیں) )(مسلم ج 1 ص 287)
فَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَاءِ فَاجْتَنِبْهُ ، فَإِنِّي عَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ " ، يَعْنِي لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ الِاجْتِنَابَ.
تخريج الحديث
|
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
دعا میں سجع (قافیہ آرائی) سے بچو کیوں کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام دعا میں سجع نہیں کیا کرتےتھے
(صحیح بخاری ج 2 ص 93)
الصفحة أو الرقم: 1/196 / خلاصة حكم المحدث : رجاله رجال الصحيح
الشواهد
|
آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمارہ رضی اللہ عنہ تینوں جلیل القدر صحابی ہیں اور وہ ایسے امور کا سختی سے رد فرمارہے ہیں جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔۔۔۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ دعا میں سجع کرنے سے صرف اس لئے منع کرتے ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا۔
علامہ سدید الدین کاشغری الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "رات کے وقت آٹھ رکعت سے زیادہ اور دن کے وقت چار رکعت سے زیادہ ایک سلام کے ساتھ نفلی نماز پڑھنا آئمہ احناف کے اجماع سے مکروہ ہے"(منیۃ المصلیٰ ص 102)
اور نہرالفائق میں اس کی تصریح موجود ہے کہ مکروہ تحریمی ہے ۔۔۔حضرات فقہائے احناف نے اس کی دلیل یہ پیش کی ہے "لعدم وردود الاثربہ" اس لئے مکروہ ہے کہ اس کے لئے کوئی اثر اور دلیل موجود نہیں ہے
اور علامہ علاوالدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 587ھ) بعض فقہائے کرام سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "اس لئے مکروہ ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے اس سے زیادہ مروی نہیں ہے"(البدائع والصنائع ج 1 ص 295)
ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ حضرات فقہائے کرام نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام کے عدم فعل کو ایک مستقل قاعدہ اور ضابطہ سمجھ کر متعدد مقامات میں اس سے استدلال کیا ہے
صاحب ہدایہ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ "اور عید گاہ میں نماز عید سے پہلے نماز نہ پڑھی جائے کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے باوجود نماز پر حریص ہونے کے ایسا نہیں کیا پھر اس میں اختلاف ہے کہ یہ کراہت عیدہ گاہ کے ساتھ خاص ہے ،یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں کراہت ہوگی کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں نماز نہیں پڑھی"(ہدایہ ج 1 ص 153)
آپ نے ملاحظ فرمایا کہ صاحب ہدایہ نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے عدم فعل کو حجت اور دلیل کو طور پر پیش کیا حالانکہ صراحتہ مرفوع حدیث سے نہی اس پر پیش کرنا ایک دشوار امر ہے کہ آپ نے عید گاہ میں یا عید کے دن کسی دوسری جگہ نفل پڑھنے سے علی الخصوص منع کیا ہے ۔۔۔ تو پھر اہل بدعت کے نزدیک اس فعل کو برا اور مکروہ نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی نہی اس پر موجود نہیں
علامہ ابراہیم حلبی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 956ھ) نے صلوۃ رغائب(جو رجب میں پڑھی جاتی ہے)وغیرہ کے بدعت اور مکروہ ہونے کی یہ دلیل پیش کی ہے "حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام اور بعد کے آئمہ مجتہدین سے یہ منقول نہیں ہے"(کبیری ص 433)
اور مشہور حنفی امام احمد بن محمد رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 446ھ ) ایک مسئلہ کی تحقیق میں یوں ارقام ہیں "یہ بدعت ہے حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام سے منقول نہیں ہے"(الواقعات)
بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔۔۔۔لغوی بدعت اور شرعی بدعت
لغوی بدعت ہر اُس نو ایجاد کا نام ہے جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیدا ہوئی ۔۔عام اس سے وہ عبادت ہو یا عادت ۔۔۔۔ اور اس کی پانچ قسمیں ہیں ۔واجب ،مندوب ،حرام ،مکروہ ،مباح ۔۔۔۔ اور شرعی بدعت وہ ہے جو قرون ثلاثہ کے بعد پیدا ہوئی اور اُس پر قولا” فعلا”،صراحۃ” اور اشارۃ” کسی طرح بھی شارع کی طرف سے اجازت موجود نہ ہو ۔۔یہی وہ بدعت ہے جس کو بدعت ضلالۃ اور بدعت قبیحہ اور بدعت سیئہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور علماء نے اس کی تصریح کی ہے۔۔ملاحظہ فرمائیں:
بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔ایک لغوی بدعت ،اور دوسری شرعی بدعت ۔۔لغوی بدعت ہر نو ایجاد کا نام ہے جو عبادت یا عادت ،اور اسی بدعت کی پانچ قسمیں کی جاتیں ہیں ۔اور دوسری وہ بدعت ہے جو طاعت کی مد میں کسی مشروع امر پر زیادت (یا کمی) کی جائے مگر ہو قرون ثلاثہ کے ختم ہونے کے بعد اور یہ زیادتی شارع کے اذن سے نہ ہو ،اس پر شارع کا قول موجود ہو اور نہ فعل نہ صراحت اور نہ اشارہ اور بدعت ضلالہ سے یہی مراد ہے"(ترویج الجنان ۔۔والجنہ ص 161)
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :
"والتحقیق انھا ان کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرح فھی مستقبحۃ والافھی من قسم المباح وقد تنقسم الی الاحکام الخمسۃ(فتح الباری ج 4 ص 219)
یعنی تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت ،شریعت کی کسی پسندیدہ دلیل کے تحت داخل ہے تو وہ بدعت حسنہ ہوگی اور اگر وہ شریعت کی کسی غیر پسندیدہ دلیل کے تحت داخل ہے تو وہ بدعت قبیحہ ہوگی ،ورنہ مباح ہوگی اور بدعت پانچ اقسام کی طرف منسقم ہے
اس کے قریب قریب عبارت علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے (ملاحظہ ہو عمدۃالقاری ج 5 ص 356)
اب اس بات پر غور کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ "مستحسن فی الشرع" کیا ہے اور "مستقبح فی الشرع" کیا ہے?
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 204 ھ )فرماتے ہیں کہ
"بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک وہ بدعت جو کتاب سنت یا اجماع یا کسی صحابی کے اثر کے مخالف ہو ایسی بدعت گمراہی ہے اور دوسری وہ بدعت ہے جو ان میں سے کسی ایک کے مخالف نہ ہو تو ایسی بدعت کبھی اچھی ہوتی ہے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا ہی اچھی نو ایجاد اور بدعت ہے"(موافقہ صریح المعقول الصحیح المنقول لابن تیمیہ علیٰ منہاج السنۃ ج 2 ص 12
اس کی پوری تحقیق آپ حضرات ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ مخالفت جیسے قول میں ہوتی ہے اسی طرح فعل میں بھی مخالفت ہوتی ہے۔۔۔جو کام آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے باوجود داعی و اسباب کے ترک کیا اور خیرالقرون نے بھی اُسے ترک کیا تو وہ یقینا بدعت اور ضلالت ہوگا۔۔۔کیوں کہ وہ کتاب و سنت اور اجماع خیر القرون اور قیاس صحیح کے مخالف ہے۔۔۔ اور جو ان میں سے کسی دلیل میں داخل ہو تو وہ کبھی اچھا ہوگا جس پر ثواب ملے گا اور کبھی مباح ہوگا جس پر نہ ثواب ہوگا یا عقاب۔
اس بحث کو مد نظر رکھتے ہوئے بدعت حسنہ اور سیئہ کی تعریف یوں ہوگی ۔۔۔بدعت حسنہ وہ دینی کام جس کا مانع آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بعد زائل ہوگیا ہو ۔۔۔یا اس کا داعیہ یا محرک اور سبب بعد کو پیش آیا ہو اور کتاب و سنت اور اجماع و قیاس سے اس پر روشنی پڑتی ہو اور ان میں سے کسی دلیل سے اس کا ثبوت ملتا ہو تو وہ بدعت حسنہ اور باالفاظ دیگر لغوی بدعت ہوگی جو مذموم نہیں ہے علامہ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کی عبارتیں بھی پیش کی جاچکیں ہیں جو اس پر صراحت سے دلالت کرتیں ہیں ۔۔۔۔اور جس چیز کا محرک اور داعیہ اور سبب آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں موجود تھا مگر وہ دینی کام آپ نے نہیں کیا اور حضرات صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کرام نے بھی باوجود کمال عشق و محبت اور محرکات و اسباب کے نہیں کیا تو وہ کام بدعت قبیحہ اور بدعت سیئہ اور بدعت شرعیہ کہلائے گا جو ہر حالت میں مذموم اور ضلالت و گمراہی ہوگا۔۔۔باقی غیر مجتہد کا اجتہاد خصوصا اس زمانہ میں ہرگز کسی بدعت کا حسنہ نہیں قرار دے سکتا ۔۔۔چناچہ حضرات فقہائے کرام نے اس کی تصریح کی ہے کہ "نصاب الفقہ میں ہے کہ بدعت حسنہ وہ ہے جس کو حضرات مجتہدین نے بدعت حسنہ قرار دیا ہو ۔۔۔اور اگر کوئی شخص اس زمانہ میں کسی چیز کو بدعت حسنہ قرار دے گا تو وہ حق کے خلاف ہے کیوں کہ مصفی میں ہے کہ ہمارے زمانہ میں ہر بدعت گمراہی ہے"(انتہی)(فتاوی جامع الروایات)(والجنہ ص 60)
اسی عبارت سے صراحت کے ساتھ یہ بات واضح ہوگئی کہ بدعت حسنہ صرف وہی ہوگی جس میں حضرات مجتہدین کا اجتہاد کا فرما ہوگا ،اور اجتہاد اور قیاس صرف اُن احکام و مسائل میں ہی ہوسکتا ہے جو غیر منصوص ہوں اور ان کے دواعی اور اسباب آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور خیرالقرون میں موجود نہ ہوں بلکہ بعد میں ظہور پذیر ہوئے ہوں ۔۔۔اس نئی تہذیب کے زمانے میں جو شخص بدعت کو حسنہ قرار دیتا ہے اس کا قول سراسر باطل اور مردود ہے۔
کیا ہر نئی چیز بدعت ہے؟
احادیث میں جس بدعت کی مذمت آئی ہے اس سے وہ بدعت مراد ہے جسے شرعی اعتبار سے بدعت کہا جائے، اس لئے ہر نئی بات کو بدعت ممنوعہ نہیں کہا جاسکتا، بلکہ جو عمل "فی الدین"یعنی دین (میں) کے اندر بطور اضافہ اور کمی بیشی کے ہو اور اسے دین قرار دے کر اور عبادات وغیرہ دینی امور کی طرح ثواب اور رضائے الہی کا ذریعہ سمجھ کر کیا جائے ، حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو ، نہ قرآن و سنت (نبوی و خلفاء_راشدین) سے، اور نہ قیاس و اجتہاد سے (دینی ضرورت کے سبب جیسے عربی علوم الصرف و النحو کا سیکھنا وغیرہ)؛ تو (وہ دین میں) بدعت ہے۔ جیسے عیدین کی نماز میں اذان اور اقامت کا اضافہ وغیرہ وغیرہ (کیونکہ اس کا نہ تو حکم ہے اور نہ ہی کوئی دین کا کوئی نقصان اس پر موقوف ہے جو ضرورت ہو).
اور جو نیا کام "للدین"ہو یعنی دین کے (استحکام و مضبوطی اور دینی مقاصد کی تکمیل و تحصیل کے) لئے ہو اسے بدعت ممنوعہ نہیں کہا جاسکتا جیسے جمع قرآن کا مسئلہ، قرآن میں اعراب لگانا،کتب احادیث کی تالیف اور ان کی شرحیں لکھنا اور ان کتابوں کا صحیح بخاری ،صحیح مسلم وغیرہ نام رکھنا، (اور حفاظت کے لیے محدثین کا اپنے اجتہاد سے اصول_حدیث بنانا) اور اسی طرح احکام فقہ کا مدون کرنا اور ان کو مرتب کرنا اور مذاہب اربعہ کی تعیین اور ان کا حنفی ، شافعی ،مالکی اور حنبلی نام رکھنا ، مدارس مکاتب اور خانقاہیں بنانا،ان تمام امور کو بدعت نہیں کہا جاسکتا،اسی طرح آج کل کی نو ایجاد چیزیں ،سفر کے جدید ذرائع ، ریل موٹر ہوائی جہاز وغیرہ وغیرہ ،ان چیزوں کو بھی بدعت نہیں کہا جائےگا ،اس لئے کہ ان کو دین اور ثواب اور رضائے الہی کا کام سمجھ کر استعمال نہیں کیا جاتا، لہٰذا جو لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب ہر نئی چیز بدعت ہے تو یہ تمام نو ایجاد اشیاء بھی بدعت ہونا چاہئے اور ان کو استعمال نہ کرنا چاہئےیہ صریح جہالت ہے یا عوام کو دھوکہ دینا ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۱۹۰/۲)
بدعت کی برائی:
غیر-دین کو دین بنانا ، کسی کام کو اچھا یا برا خود قرار دینا ایک طرح سے خود کو خدا بنانا ہے. دین کو نامکمل اور نبی پر پورا دین نہ پہنچانے یا چھپانے کا الزام لگانا اور خود کو خدا کا پیغام(دین) پہنچانے والا نبی ہونے کا خفیہ دعوا کرنا بدعت کی سب سے خطرناک برائی اور تلبیس ابلیس ہے.
قرآن : أَفَرَءَيتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰهَهُ هَوىٰهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ وَخَتَمَ عَلىٰ سَمعِهِ وَقَلبِهِ وَجَعَلَ عَلىٰ بَصَرِهِ غِشٰوَةً فَمَن يَهديهِ مِن بَعدِ اللَّهِ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {45:23}
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) خدا نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب خدا کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟
... قُل إِنَّ الأَمرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ... {3:154}
... تم کہہ دو کہ بےشک سب باتیں خدا ہی کے اختیار میں ہیں ...
أَلا يَعلَمُ مَن خَلَقَ وَهُوَ اللَّطيفُ الخَبيرُ {67:14}
بھلا وہ نہ جانے جس نے بنایا اور وہی ہے بھید جاننے والا خبردار
====================
وَما هُوَ عَلَى الغَيبِ بِضَنينٍ {81:24}
اور وہ پوشیدہ باتوں (کے ظاہر کرنے) میں بخیل نہیں
یعنی یہ پیغمبر ہر قسم کے غیوب کی خبر دیتا ہے ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے۔ یا اللہ کے اسماء و صفات سے یا احکام شرعیہ سے یا مذاہب کی حقیقت و بطلان سے یا جنت ودوزخ کے احوال سے یا واقعات بعدالموت سے اور ان چیزوں کے بتلانے میں ذرا بخل نہیں کرتا نہ اُجرت مانگتا ہے۔ نہ نذرانہ، نہ بخشش، پھر کاہن کا لقب اُس پر کیسے چسپاں ہو سکتا ہے، کاہن محض ایک جزئی اور نامکمل بات غیب کی سو جھوٹ ملا کربیان کرتا ہے اور اُس کے بتلانے میں بھی اس قدر بخیل ہے کہ بدون مٹھائی یا نذرانہ وغیرہ وصول کیے ایک حرف زبان سے نہیں نکالتا۔ پیغمبروں کی سیرت سے کاہنوں کی پوزیشن کو کیا نسبت۔
... اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلٰمَ دينًا ۚ ... {5:3}
... آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا.
ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلٰكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّۦنَ ۗ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمًا {33:40}
محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے.
اختلاف کے دور میں کون سی راہ پر چلیں؟
سنّت و بدعت
اور
:حکم و وصیت_نبوی صلی الله عالیہ وسلم
القرآن : ...وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ (الحشر : ٧)؛
ترجمة : اور جو دے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا ١٠٣ۭ
کہہ دو کہ ہم تمہیں بتائیں جو عملوں کے لحاظ سے بڑے نقصان میں ہیں
وہ لوگ جن کی سعی دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں
:التفسیر
حضرت علی رضی الله عنہ وغیرہ (حضرت سفیان الثوری رح نے "اخسرین أعمالا" کی تفسیر) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حروراء والے (خارجی) ہیں (تفسیر قرطبی : ١٨/١٢٧، بحوالہ تفسیر ابن کثیر) یہ سب سے پہلا فرقہ تھا جس نے صحابہ کرام رضی علان عنھم) اور رفقاء_صحابہ (رحمھم الله) کے خلاف بغاوت کی اور بغاوت کو حق سمجھا. (تفسیر مظہری : ٧/١٧٣) مطلب یہ ہے کہ جیسے یہ آیت یہود و نصاریٰ وغیرہ کفّار کو شامل ہے، اسی طرح خارجیوں کا حکم بھی اس میں شامل ہے، کیونکہ آیت عام ہے. جو بھی الله کی عبادت و اطاعت اس طریقے سے بجا لاۓ جو طریقہ الله کو پسند نہیں تو گو وہ اپنے اپنے اعمال سے "خوش" ہو اور "سمجھ" رہا ہو کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کرلیا ہے، میرے نیک اعمال الله کے پسندیدہ ہیں اور مجھے ان پر اجر و ثواب ضرور ملے گا لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے. اس کے اعمال مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں اور وہ غلط گمان شخص ہے. (تفسیر ابن کثیر)؛
حدیث # ١
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیتے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے جیسے کہ اس کا حق ہے۔ پھر فرماتے جیسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ یقین رکھو سب سے سچی کتاب اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) نئی چیز پیدا کرنا ہے اور ہر نئی چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہیی جہنم میں لے جائے گی۔ پھر فرماتے میں اور قیامت اتنی قریب ہیں جتنی یہ دو انگلیاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب قیامت کا ذکر کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک سرخ ہوجاتے آواز بلند ہوجاتی اور غصہ تیز ہوجاتا جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی لشکر کو ڈرا رہے ہوں کہ صبح یا شام کے وقت تم لوگوں کو لشکر لوٹ لے گا۔ جو شخص مال چھوڑ کر مرے گا وہ اس کے ورثاء کا ہے اور جو شخص قرض یا بچے چھوڑ کر مرے گا اس کا قرض اور بچوں کی پرورش کا میں ذمہ دار ہوں کیونکہ کہ میں مسلمانوں کا ولی ہوں۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1583 (21514) , عیدین سے متعلقہ احادیث کی کتاب : خطبہ کیسے پڑھا جائے؟]
حدیث # ٢
حضرت عرباض بن ساریہ (رضی الله عنہ) نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں ایک بلیغ اور نصیحت بھرا وعظ فرمایا کہ جسے سن کر آنکھیں بہنے لگے اور قلوب اس سے ڈر گئے تو ایک کہنے والے نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گویا کہ یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔ تو آپ ہمارے لیے کیا مقرر فرماتے ہیں فرمایا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور سننے کی اور ماننے کی اگرچہ ایک حبشی غلام تمہارا امیر ہو پس جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور خلفائے راشدین میں جو ہدایت یافتہ ہیں کی سنت کو پکڑے رہو اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔[سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ١٢١٩، سنت کا بیان :سنت کو لازم پکڑنے کا بیان]
اس حدیث پاک سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے بعد زندہ رہنے والا بہت کثرت سے اختلاف دیکھے گا۔
سارے اختلافوں میں دو باتیں معلوم کی جائیں ،۱۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ کیا تھا،۲۔ خلفائے راشدین یعنی حضرت ابوبکر، عمر، عثمان وعلی رضی الله تعالی عنہم کا طریقہ کیا تھا؟ ان پر عمل کیا جائے او راس کے علاوہ دوسرے طریقے خواہ کتنے خو ش نما معلوم ہوں انہیں چھوڑ دیا جائے۔
اگر چیز بظاہر یوں نظر آرہی ہے کہ وہ خلفائے راشدین کے دور میں شروع ہوئی ، تو اس بدعت نہیں بلکہ سنت ہی قرار دیا جائے گا، کیوں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو خلفائے راشدین رضی الله تعالی عنہم کے طرز عمل پر اس قدر اطمینان تھا کہ اس کی پیروی کا حکم بھی دیا اور خلفائے راشدین رضی الله تعالیٰ عنہم کو مہدیین یعنی ہدایت یافتہ بھی قرار دیا، اب خلفائے راشدین رضی الله تعالی عنہم کے طریقہ پر عمل بھی درحقیقت اس حدیث پاک پر عمل کرنا ہے ۔
صحابہؓ کے اعمال پر بدعت کا اطلاق نہیں
شاہ عبدالحق محدث دھلوی رح (المتوفی:١٠٥٢ھ) اس کی شرح میں لکھتے ہیں؛
ترجمہ : جس چیز کے بارے میں حضرات_خلفاء_راشدین نے حکم دیا ہے، اگرچہ وہ ان کے قیاس و اجتہاد سے صادر ہوا ہو، وہ بھی سنّت کے موافق ہے اور اس پر بدعت کا اطلاق ہرگز صحیح نہیں جیسا کہ گمراہ فرقہ کرتا ہے.[أشعة اللمعات: ١/١٣٠]
پس ہرچہ خلفائے راشدین بداں حکم کردہ باشند....اطلاق بدعت برآں نتواں کرد۔
ترجمہ : جس چیز کے بارے میں حضرات_خلفاء_راشدین نے حکم دیا ہے، اگرچہ وہ ان کے قیاس و اجتہاد سے صادر ہوا ہو، وہ بھی سنّت کے موافق ہے اور اس پر بدعت کا اطلاق ہرگز صحیح نہیں جیسا کہ گمراہ فرقہ کرتا ہے.[أشعة اللمعات: ١/١٣٠]
شیخ عبد القادر جیلانی (حنبلي) رح نے فرمایا:"ہر مومن کو سنت اور جماعت (اہل_سنّت-والجماعت) کی پیروی کرنا واجب ہے، سنّت اس طریقے کو کہتے ہیں جس پر آپ )صلے الله علیہ وسلم) چلتے "رہے" اور جماعت اسے کہتے ہیں جس پر چاروں خلفاء_راشدین نے اپنے خلافت کے زمانے میں "اتفاق(اجماع)" کیا، یہ لوگ سیدھی راہ دکھانے-والے تھے، کیوں کہ انھیں سیدھی راہ دکھائی گئی تھی."[غنية الطالبين: صفحة # ١٨٥]
حضرت شیخ کا یہ فیصلہ اہل سنت والجماعت کے اس بنیادی اصول کے تحت ہے کہ بدعت کی حدیں صحابہ کے بعد سے شروع ہوتی ہیں حافظ بن کثیرؒ(۷۷۴ھ)لکھتے ہیں:
"وأماأهل السنةوالجماعة فيقولون في كل فعل وقول لم يثبت عن الصحابة: هوبدعة؛ لأنه لو كان خيرا لسبقونا إليه، لأنهم لم يتركوا خصلة من خصال الخير إلا وقد بادروا إليها"۔
(تفسیر ابن کثیر۔تفسیر الاحقاف:۱۱،شاملہ)
ترجمہ:اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ہر وہ قول وفعل جو حضورﷺ کے صحابہ سے ثابت نہ ہو بدعت ہے کیوں کہ اس(دینی کام)میں کوئی خیر ہوتی تو صحابہ کرام ہم سے پہلے اس کام کی طرف رخ کرتے انہوں نے نیکی کی کسی بات کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہ اس کی طرف دوڑتے تھے۔
صحابہ کرام خود بھی اس بات کو جانتے تھے کہ ان کی نیکی کا ہر عمل شرعی سند رکھتا ہے وہ نصاً ہو یااجتہاداً سب کے سب قولاً اورعملاًترجمان شریعت تھے، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ(۳۶ھ)فرماتے ہیں:
"کل عبادۃ لم یتعبد ھااصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا"۔
(الاعتصام:۱/۵۴)
ترجمہ:دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔
بدعت کا مبدا ہویٰ اور نفسانی خواہشات ہوتی ہیں؛ سو جن حضرات کے دل تزکیہ وطہارت کی دولت پاچکے تھے ان سے بدعت کا صدور قریب قریب ناممکن ہوگیا تھا، یہ صحیح ہے کہ وہ انسان تھے اور نفوس انسانی رکھتے تھے؛ لیکن حضورﷺ کی نظر کامل سے تزکیہ قلب کا فیض اس قدر لے چکے تھے کہ دوسرے رواۃ حدیث کی طرح ان پر جرح کی اجازت نہ ہوگی،جرح کا منشاءعدم رضا ہے، سوجن سے خدا راضی ہوچکا اور وہ خدا سے راضی ہوچکے ان پر جرح کیسے ہوسکے، ان پر جرح تو خدا سے عدم رضا کا اظہار ہوا(معاذاللہ)سو! ان حضرات قدسی صفات پر نہ جرح کی اجازت ہے نہ ان سے اتصال سند کا مطالبہ ہے اوروں کی روایت کثرت رواۃ سے قوت پائے گی ؛یہاں ایک صحا بی بھی کوئی بات کہہ دے تو اب اور کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں، یہاں تک کہ اپنے ہر مسئلہ میں کسی ایک صحابی کو مرکز علم بنالیا جائے اور ہر مسئلے میں اس کی طرف رجوع کیا جائے تو یہ بالکل درست ہوگا۔
ہدایت-یافتہ خلفاء کی سنّت:
1. حضرت عمر کے مشورے سے حضرت ابو بکر کا حضرت زید بن ثابت (رضی الله عنہم) کو حکم دیکر قرآن مجید کا جمع کرنا اور اس کی سورتوں کو (موجودہ ترتیب کے ساتھ) مرتب کرنا،
2. حضرت عمر (رضی الله عنہ) کا "پورا" رمضان "مسجد" میں ٢٠ رکعت تراویح کی جماعت"ایک امام" کی اقتدا میں جاری کرانا، ایک مجلس میں دی گئی طلاق_بتہ(جس کا معنا ایک یا تین ہیں) کو تین (٣) قرار دینا
3. حضرت عثمان کا نماز_جمعہ کے واسطے پہلی اذاں مقرر کرنا جو آج بھی مکّہ و مدینہ بلکہ دنیا کی لاکھوں مسجدوں میں ہوتی ہے.
4. حضرت علی رضی الله عنہ (اس امت کے قاضی یعنی جج) کا (اور بقیہ صحابہ_کرام رضی الله عنہم کا) ان سے پہلے کے خلفاء کے اجتہادی فیصلوں اور طریقوں پر اتفاق کرتے جاری و ساری رکھنا یعنی ان فیصلوں پر ان کا اتفاق و اجماع قائم رہنا. جس پر چاروں (٤) ائمہ_کرام رحمہم الله کا بھی اتفاق و اجماع ہے.
إختلاف كا حل = جو دینی-کام نبی صلے الله علیہ وسلم اور خلفا کی سنّت سے ثابت نہ ہو وہ دین میں "بدعت" ہے.
میلاد/شادی کی رسمیں اور ماتم/فوتگی کی رسمیں، اذاں سے پہلے صلات و سلام، سبز پگڑی، (اذاں میں) ذکر_نبی صلے الله علیہ وسلم پر انگوٹھوں کے ناخون چومنا سنّت سے ثابت نہیں. یہ دین میں نکالی گئی نئی باتیں "بدعات" ہیں.
Meri Sunnat & Hidayt-yafta Khulafa ki Sunnat:100 Shawaahid-Ahadees
:سنّت ہی اچھا طریقہ ہے، اور بدعت ہی برا طریقہ ہے
اہل سنّت و الجماعت (سنّت_نبوی اور جماعت_صحابہ کی پیروی کرنے-والوں) کا عقیدہ ہے کہ جو قول و فعل صحابہ_رسول (صلے الله علیہ وسلم) سے ثابت نہ ہو، وہ بدعت ہے. اس لئے کہ اگر اس میں بہتری(نیکی/بھلائی) ہوتی تو وہ پاک جماعت جو کسی چیز (نیکی) میں پیچھے رہنے والی نہ تھی وہ اسے ترک نہ کرتی.[تفسیر_ابن_کثیر: سورہ احقاف، آیت # ١١]؛
وضاحت : اس سے ہم مروجہ بدعات سالانہ محرم کا نیاز یا رجب کے کونڈے بنام خیرات، اور بنام خیرات یا ایصال_ثواب کے, فوتگی کے مقرر و قید-شدہ دنوں کے تیجے، دسویں، باروہیں، چالیسوہیں، عرس-میلا، سالانہ-تیسری-عید(میلاد النبی صلے الله علیہ وسلم) کی نمازیں اور برتھ-ڈے منانا (جبکہ نفل عبادت میں اسلام نے کوئی قید-و-پابندی دن،وقت یا جگہ کی نہیں لگائی)، آذان سے پہلے درود کا پڑھنا اور وہ درود بھی خاص، آذان میں نام_محمّد (صلے الله علیہ وسلم) پر انگوٹھے چومتے آنکھوں سے لگانا، رجب کے کونڈے، سفید یا سیاہ کو چھوڑکر "سبز" عمامہ کو لازم کرلینا، بیس(٢٠) کے بجاتے آٹھ (٨) رکعت تراویح پڑھنا، ایک مجلس کی اکٹھی دی گئی تین (٣) طلاقوں کو تین (٣) نہ ماننا وغیرہ وغیرہ
****************************************************
اگر بدعات کی دو قسمیں ہیں ایک حسنہ اور دوسری سیئہ ، ایسے تو ہر ایک اپنی بدعتوں کو حسنہ کہے گا اور دوسروں کی بدعتوں کو سیئہ کہے گا، تو پھر یہ فیصلہ کس طرح کیا جائے کہ کون سی بدعت حسنہ ہے اور کون سی بدعت سیئہ ہے؟ حدیث میں تو آتا ہے کہ ساری بدعتیں گمراہی ہیں، ظاہر بات ہے کہ حدیث میں تو اصطلاحی بدعت کے بارے میں کہا گیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بدعت اصطلاحی ہوتی ہے صرف سیئہ ہے۔ مہربانی کر کے تفصیلی مدلل جواب دیں۔
جس فعل شرعی کا سبب اور محرک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود نہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو نہ صحابہٴ کرام کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہو۔ اور نہ ترغیب دی ہو، دین سمجھ کر ایسا کام کرنا بدعت ہے، جیسے مروجہ میلاد کا سبب (حضور کے زمانہ میں) موجود تھا۔ اور صحابہٴ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا عشق اور عقیدتو محبت تھی اس کے باوجود کسی نے آپ کا یوم ولادت منایا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔
(۲) شریعت نے جو چیز مطلق رکھی ہے اس میں اپنی طرف سے قیودات لگانا بدعت ہے، جیسا کہ زیارت کے لیے وقت مقرر کرنا، ایصالِ ثواب کے لیے وقت متعین کرنا، مثلاً سیوم، چہلم۔
(۳) جو کام بذاتِ خود مستحب و مندوب ہے، مگر اس کا ایسا التزام کرنا کہ رفتہ رفتہ اس کو ضروری سمجھا جانے لگے اور اس کے تارک کی ملامت کی جانے لگے تو وہ کام مستحب کے بجائے بدعت بن جاتا ہے۔ مثلاً نماز جمعہ، پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں ہل اتاک حدیث الغاشیة پڑھنا مسنون ہے، مگر اس کا التزام کرنا کہ لوگ اس کو ضروری سمجھنے لگیں، بدعت ہے۔
(۴) جو کام فی نفسہ جائز ہے اگر اس کو کرنے میں کفار و فجار اور گمراہ لوگوں کی مشابہت لازم ہو تو اس کا کرنا ناجائز ہے، اس قاعدہ سے معلوم کہ تمام وہ اعمال جو اہل بدعت کا شعار بن جائیں، اس کا ترک لازم ہے۔ مزید تفصیل کے لیے الاعتصام (للعلامة الشاطبی) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
بدعت سب ہی مذموم اور قابل ترک ہیں جو کسی نے اسے حسنہ سے تعبیر کردیا تو اس سے لغوی معنی مراد ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
سنّت و بدعت کو پہچاننے کا قاعدہ
خیر القرون (بہترین زمانوں) یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے دور (٢٢٠ ہجری تک) کے بعد جو چیزیں ایجاد کی گئی، ان کی دو قسمیں ہیں: (١) ایک تو وہ ہیں جن کا سبب داعی بھی جدید ہے اور ان پر ایک حکم کو پورا کرنا بھی موقوف ہے کہ بغیر اس کے اس حکم پر عمل نہیں ہو سکتا، جیسے: کتب_دینیہ کی تصنیف و تدوین، مدرسہ و خانقاہوں کی تعمیر کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانوں میں اس میں سے کوئی شے نہ تھی. اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ دین کی حفاظت سب کے ذمہ ضروری ہے لیکن خیر القرون (بہترین زمانوں) میں ان مذکورہ جدید ذرائع و واسطوں کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی برکت سے انھیں تعلق مع الله حاصل تھا اور قوت_حافظہ اس قدر تھا کہ جو کچھ سنتے تھے وہ سب نقش کالحجر (پتھر کی طرح) ہوجاتا تھا، فہم عالی تھا اور پرہیزگاری و دینداری بھی غالب تھی. پھر وہ زمانہ آیا جس میں (اکثر) قوتیں کمزور ہونے لگیں، اہل هوى (خواھش پرستوں) اور عقل پرستوں کا غلبہ ہونے لگا اور دینداری مغلوب ہونے لگی. پس اس وقت علماء امت کو دین کے ضایع ہونے کا قوی اندیشہ ہوا اور دین کی حفاظت کی خاطر ضروری ہوا کہ دین کی تمام باتوں کی تدوین کی جاۓ، چناچہ: حدیث، اصول_حدیث، فقہ، اصول_فقہ، تفسیر و عقائد میں کتابیں تصنیف ہوئیں اور ان کی تدریس کے لئے مدارس تعمیر کِیے گئے، پس یہ چیزیں وہ ہیں جن کا "سبب" خیر القرون میں نہ تھا بلکہ بعد میں پیدا ہوا اور دین کی حفاظت کا حکم ان پر موقوف (بندھا ہوا) ہے. غرض یہ چیزیں اگرچہ جدید (بحیثیت_عمومی و لغوی معنی کے بدعت) ہیں لیکن واقع میں بدعت (شرعی) نہیں. بلکہ حسب_قاعدہ: مقدمة الواجب واجب (وہ شے جس پر کوئی واجب موقوف ہو، خود بھی واجب ہوجاتی ہے)، یہ چیزیں بھی واجب ہیں.
(٢) دوسری قسم وہ چیزیں ہیں جن کا سبب قدیم ہے، جیسے: مروجہ محفل میلاد، تیجا، دسواں، چہلم وغیرہ کہ ان کا "سبب" قدیم ہے. مَثَلاً : مجلس میلاد منعقد کرنے کا سبب ولادت_نبویہ پر خوشی کرنا ہے اور یہ سبب زمانہ_نبوی میں بھی موجود تھا، لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم یا صحابہ_کرام رضی الله عنھم نے مجلس میلاد مروج نہیں کی. ایسی چیزوں کا حکم یہ ہے کہ وہ صورت و معنی دونوں کے اعتبار سے اس حدیث میں داخل ہوکر واجب الرد ہیں؛
حدیث : "من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد" (بخاری و مسلم)
یعنی جو شخص کوئی نئی بات ایجاد کرے جس پر ہمارا (دینی) حکم نہ ہو، تو وہ (نئی بات) مردود ہے؛
{{{یعنی دنیا کی کوئی نئی بات بدعت نہیں، جس نئے کام کو حکم (دین و ثواب کا) سمجھ کر کیا جاۓ، جس پر ہمارا حکم (سنّت_نبوی، سنّت_خلفاء اور بقیہ صحابہ کی جماعت کے طریقہ سے) ثابت نہ ہو تو وہ (بدعت مقبول نہیں بلکہ) مردود ہے}}}؛
کیا باجماعت نماز تراویح بدعت ہے؟
بدعات کا جواز ثابت کرنے کے لیے کچھ لوگوںنے مشہور کر رکھا ہے کہ نماز تراویح کی جماعت سب سے پہلے عمر رضی اللہ عنہ نے شروع کرائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے زمانے میں اس کا رواج نہ تھا۔ لیکن صحیح اور ثابت شدہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے خود جماعت کے ساتھ نماز تراویح ادا فرمائی ہے۔
اپنے فرمان مبارک سے باجماعت تراویح کی فضیلت بیان کی۔
اور جو صحابہ نماز تراویح باجماعت ادا کرتے تھے ان کی تعریف کی اور اس سے منع نہیں فرمایا۔
یعنی سنت کی تعریف کے مطابق قولی، فعلی اور تقریری ہر لحاظ سے اس کا سنت ہونا شک و شبہ سے بالا تر ہے۔
اب اللہ کی توفیق سے اس بات کے دلائل اور تفصیل عرض کرتا ہوں۔
نماز تراویح کے فعلی سنت ہونے کی دلیل
اہل سنت و الجماعت کی معتبر ترین کتابوں میں سے ایک یعنی صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ ثُمَّ صَلَّى مِنْ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنْ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ قَالَ وَذَلِكَ فِي رَمَضَان
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے خود جماعت کے ساتھ نماز تراویح ادا فرمائی ہے۔
اپنے فرمان مبارک سے باجماعت تراویح کی فضیلت بیان کی۔
اور جو صحابہ نماز تراویح باجماعت ادا کرتے تھے ان کی تعریف کی اور اس سے منع نہیں فرمایا۔
یعنی سنت کی تعریف کے مطابق قولی، فعلی اور تقریری ہر لحاظ سے اس کا سنت ہونا شک و شبہ سے بالا تر ہے۔
اب اللہ کی توفیق سے اس بات کے دلائل اور تفصیل عرض کرتا ہوں۔
نماز تراویح کے فعلی سنت ہونے کی دلیل
اہل سنت و الجماعت کی معتبر ترین کتابوں میں سے ایک یعنی صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ ثُمَّ صَلَّى مِنْ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنْ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ قَالَ وَذَلِكَ فِي رَمَضَان
(صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الترغیب فی قیام رمضان و ھو التراویح)
"ایمان والوں کی ماں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز(تراویح) پڑھی تو کچھ لوگ نے ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اقتداء میں نماز پڑھنی شروع کر دی۔ پھر دوسری شب نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہو گئے، پھر تیسری یا چوتھی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تشریف نہیں لائے۔ پھر جب صبح ہوئی تو فرمایا “میں نے دیکھا جو تم کر رہے تھے، مجھے تمہارے پاس آنے سے صرف یہ خوف مانع تھا کہ کہیں تم پر (نماز تراویح) فرض نہ ہو جائے۔ اور یہ رمضان کا واقعہ تھا۔
صحیح مسلم کی احادیث کے صحیح ہونے پر تمام اہل سنت و الجماعت کا اتفاق ہے اس لیے مزید کوئی حوالہ پیش کرنے کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن قارئین کی تسلی کے لیے دوسرے محدثین کی فہرست بھی پیش کی جارہی ہے جنہوں نے اس حدیث کو روایت کیا۔
صحیح البخاری کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان
سنن ابی داؤد باب الصلاۃ کتاب فی قیام شھر رمضان۔
صحیح ابن خزیمہ جلد سوم ص 338۔ حدیث نمبر 2206
موطا امام مالک کتاب الندا للصلاۃ باب الترغیب فی الصلاۃ فی رمضان
مصنف عبدالرزاق باب الصلاۃ کتاب الضجعۃ بعد الوتر و باب النافلۃ
مسند احمد میں “باقی مسند الانصار” باقی المسند السابق
صحیح ابن حبان باب کتاب الایمان باب التکلیف
المعجم الاوسط للطبرانی حدیث نمبر 5439
السنن الکبری للبیہقی جلد 2 صفحہ 493
سنن النسائی الصغرٰی کتاب قیام اللیل و تطوع النھار باب قیام شھر رمضان
مستخرج ابی عوانہ کتاب مبتدا کتاب الصیام باب الترغیب فی قیام اللیل و الصلاۃ فی شھر رمضان و ثوابہ
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے باجماعت تراویح کے بارے میں مندرجہ ذیل حدیث صحیح سند کے ساتھ بیان کی ہے:
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ زِيَادٍ أَبُو طَلْحَةَ الْأَنْمَارِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ عَلَى مِنْبَرِ حِمْصَ قُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ ثُمَّ قُمْنَا مَعَهُ لَيْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ ثُمَّ قَامَ بِنَا لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ لَا نُدْرِكَ الْفَلَاحَ قَالَ وَكُنَّا نَدْعُو السُّحُورَ الْفَلَاحَ
(مسند احمد بن حنبل، مسند الکوفیین حدیث نعمان بن بشیر عن النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)
"نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر بیان کیا کہ “ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ رمضان کی تئیسویں کو رات کے پہلے ایک تہائی حصہ تک قیام کیا۔ پھر پچیسویں کو آدھی رات تک قیام کیا۔ پھر ستائیسویں کو ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسل) نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ہم “فلاح” کو نہیں پا سکیں گے اور ہم لوگ سحری کو “فلاح” کہا کرتے تھے”
باجماعت نماز تروایح قولی سنت بھی ہے:
سنن ابی داؤد کی ایک صحیح حدیث دیکھتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ اس کا سنت ہونا فرمان رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بھی ثابت ہے :
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ
صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتْ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتْ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ قَالَ فَقَالَ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ قَالَ فَلَمَّا كَانَتْ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ فَلَمَّا كَانَتْ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ قَالَ قُلْتُ وَمَا الْفَلَاحُ قَالَ السُّحُورُ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِقِيَّةَ الشَّهْرِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی قیام شھر رمضان)
"ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے تو ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمارے ساتھ کچھ قیام نہ کیا حتٰی کہ (رمضان ختم ہونے میں) سات دن رہ گئے (یعنی تئیسویں رمضان کی رات کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز تراویح پڑھی)۔ یہاں تک کہ رات کا ایک تہائی حصہ گزر گیا۔ پھر جب چھٹی رات تھی (یعنی رمضان ختم ہونے میں چھے دن رہ گئے) تو ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا۔ پھر جب پانچویں رات تھی ( پانچ دن باقی رہ گئے )تو ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ میں نے عرض کیا “اے اللہ کے رسول ! کاش ، آپ اس رات ہمیں اور بھی نفل پڑھاتے۔ فرمایا “جب آدمی امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے پوری رات کے قیام کا ثواب شمار کیا جاتا ہے۔ پھر چوتھی رات کو قیام نہیں کیا۔ پھر جب تیسری رات تھی (یعنی رمضان کی ستائیسویں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے گھر والوں ، ازواج مطہرات اور دوسرے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں نماز پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں فلاح کے فوت ہونے کا ڈر پیدا ہو گیا۔ جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا “فلاح کیا چیز ہے” تو انہوں نے فرمایا “سحری”۔ پھر اس کے بعد کی راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے (جماعت کےساتھ) قیام نہیں کیا۔
اس حدیث کو امام دارمی نے بھی اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ دیکھیے سنن دارمی کتاب “و من باب الصوم” باب فی قیام رمضان۔
باجماعت نماز تروایح تقریری سنت بھی ہے
تقریر سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے کوئی کام کیا گیا ہو اور ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی ہو اور اس سے منع نہ فرمایا ہو۔ قول و فعل کی طرح تقریر بھی کسی عمل کے سنت ہونے کی دلیل ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے تراویح کی جماعت تو کرائی لیکن اس پر ہمیشگی اختیار نہیں کی اس خوف سے کہ کہیں امت پر فرض نہ کر دی جائے۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے طور پر مسجد نبوی میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں منع نہیں کیا۔ اس بات کی تفصیل امام احمد بن حنبل نے صحیح سند کے ساتھ یوں بیان کی ہے:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ أَوْزَاعًا يَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ شَيْءٌ مِنْ الْقُرْآنِ فَيَكُونُ مَعَهُ النَّفَرُ الْخَمْسَةُ أَوْ السِّتَّةُ أَوْ أَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرُ فَيُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ (مسند احمد بن حنبل مسند باقی الانصار، باقی المسند السابق)
"نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ “رمضان کی راتوں میں لوگ مسجدنبوی میں الگ الگ گروہوں کی صورت میں نماز پڑھتے تھے۔ ہوتا یوں تھا کہ کسی آدمی کو قرآن کا کچھ حصہ یاد ہوتا تو پانچ چھے یا اس سے کم و بیش آدمی اس کے ساتھ ہو جاتے اور اس کی اقتدا میں نماز ادا کرتے”
یہ ایک لمبی حدیث کا ابتدائی حصہ ہے۔
- امید ہے اس گفتگو سے غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی باذن اللہ۔ اور واضح ہو گا کہ صحیح بخاری میں عمر رضی اللہ عنہ کا باجماعت نماز تراویح کو بدعت کہنے کے بارے جو قول ہے اس میں بدعت کا لغوی مطلب مراد ہے نہ کہ شرعی۔
"ایمان والوں کی ماں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز(تراویح) پڑھی تو کچھ لوگ نے ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اقتداء میں نماز پڑھنی شروع کر دی۔ پھر دوسری شب نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہو گئے، پھر تیسری یا چوتھی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تشریف نہیں لائے۔ پھر جب صبح ہوئی تو فرمایا “میں نے دیکھا جو تم کر رہے تھے، مجھے تمہارے پاس آنے سے صرف یہ خوف مانع تھا کہ کہیں تم پر (نماز تراویح) فرض نہ ہو جائے۔ اور یہ رمضان کا واقعہ تھا۔
صحیح مسلم کی احادیث کے صحیح ہونے پر تمام اہل سنت و الجماعت کا اتفاق ہے اس لیے مزید کوئی حوالہ پیش کرنے کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن قارئین کی تسلی کے لیے دوسرے محدثین کی فہرست بھی پیش کی جارہی ہے جنہوں نے اس حدیث کو روایت کیا۔
صحیح البخاری کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان
سنن ابی داؤد باب الصلاۃ کتاب فی قیام شھر رمضان۔
صحیح ابن خزیمہ جلد سوم ص 338۔ حدیث نمبر 2206
موطا امام مالک کتاب الندا للصلاۃ باب الترغیب فی الصلاۃ فی رمضان
مصنف عبدالرزاق باب الصلاۃ کتاب الضجعۃ بعد الوتر و باب النافلۃ
مسند احمد میں “باقی مسند الانصار” باقی المسند السابق
صحیح ابن حبان باب کتاب الایمان باب التکلیف
المعجم الاوسط للطبرانی حدیث نمبر 5439
السنن الکبری للبیہقی جلد 2 صفحہ 493
سنن النسائی الصغرٰی کتاب قیام اللیل و تطوع النھار باب قیام شھر رمضان
مستخرج ابی عوانہ کتاب مبتدا کتاب الصیام باب الترغیب فی قیام اللیل و الصلاۃ فی شھر رمضان و ثوابہ
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے باجماعت تراویح کے بارے میں مندرجہ ذیل حدیث صحیح سند کے ساتھ بیان کی ہے:
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ زِيَادٍ أَبُو طَلْحَةَ الْأَنْمَارِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ عَلَى مِنْبَرِ حِمْصَ قُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ ثُمَّ قُمْنَا مَعَهُ لَيْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ ثُمَّ قَامَ بِنَا لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ لَا نُدْرِكَ الْفَلَاحَ قَالَ وَكُنَّا نَدْعُو السُّحُورَ الْفَلَاحَ
(مسند احمد بن حنبل، مسند الکوفیین حدیث نعمان بن بشیر عن النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)
"نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر بیان کیا کہ “ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ رمضان کی تئیسویں کو رات کے پہلے ایک تہائی حصہ تک قیام کیا۔ پھر پچیسویں کو آدھی رات تک قیام کیا۔ پھر ستائیسویں کو ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسل) نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ہم “فلاح” کو نہیں پا سکیں گے اور ہم لوگ سحری کو “فلاح” کہا کرتے تھے”
باجماعت نماز تروایح قولی سنت بھی ہے:
سنن ابی داؤد کی ایک صحیح حدیث دیکھتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ اس کا سنت ہونا فرمان رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بھی ثابت ہے :
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ
صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتْ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتْ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ قَالَ فَقَالَ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ قَالَ فَلَمَّا كَانَتْ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ فَلَمَّا كَانَتْ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ قَالَ قُلْتُ وَمَا الْفَلَاحُ قَالَ السُّحُورُ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِقِيَّةَ الشَّهْرِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی قیام شھر رمضان)
"ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے تو ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمارے ساتھ کچھ قیام نہ کیا حتٰی کہ (رمضان ختم ہونے میں) سات دن رہ گئے (یعنی تئیسویں رمضان کی رات کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز تراویح پڑھی)۔ یہاں تک کہ رات کا ایک تہائی حصہ گزر گیا۔ پھر جب چھٹی رات تھی (یعنی رمضان ختم ہونے میں چھے دن رہ گئے) تو ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا۔ پھر جب پانچویں رات تھی ( پانچ دن باقی رہ گئے )تو ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ میں نے عرض کیا “اے اللہ کے رسول ! کاش ، آپ اس رات ہمیں اور بھی نفل پڑھاتے۔ فرمایا “جب آدمی امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے پوری رات کے قیام کا ثواب شمار کیا جاتا ہے۔ پھر چوتھی رات کو قیام نہیں کیا۔ پھر جب تیسری رات تھی (یعنی رمضان کی ستائیسویں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے گھر والوں ، ازواج مطہرات اور دوسرے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں نماز پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں فلاح کے فوت ہونے کا ڈر پیدا ہو گیا۔ جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا “فلاح کیا چیز ہے” تو انہوں نے فرمایا “سحری”۔ پھر اس کے بعد کی راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے (جماعت کےساتھ) قیام نہیں کیا۔
اس حدیث کو امام دارمی نے بھی اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ دیکھیے سنن دارمی کتاب “و من باب الصوم” باب فی قیام رمضان۔
باجماعت نماز تروایح تقریری سنت بھی ہے
تقریر سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے کوئی کام کیا گیا ہو اور ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی ہو اور اس سے منع نہ فرمایا ہو۔ قول و فعل کی طرح تقریر بھی کسی عمل کے سنت ہونے کی دلیل ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے تراویح کی جماعت تو کرائی لیکن اس پر ہمیشگی اختیار نہیں کی اس خوف سے کہ کہیں امت پر فرض نہ کر دی جائے۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے طور پر مسجد نبوی میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں منع نہیں کیا۔ اس بات کی تفصیل امام احمد بن حنبل نے صحیح سند کے ساتھ یوں بیان کی ہے:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ أَوْزَاعًا يَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ شَيْءٌ مِنْ الْقُرْآنِ فَيَكُونُ مَعَهُ النَّفَرُ الْخَمْسَةُ أَوْ السِّتَّةُ أَوْ أَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرُ فَيُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ (مسند احمد بن حنبل مسند باقی الانصار، باقی المسند السابق)
"نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ “رمضان کی راتوں میں لوگ مسجدنبوی میں الگ الگ گروہوں کی صورت میں نماز پڑھتے تھے۔ ہوتا یوں تھا کہ کسی آدمی کو قرآن کا کچھ حصہ یاد ہوتا تو پانچ چھے یا اس سے کم و بیش آدمی اس کے ساتھ ہو جاتے اور اس کی اقتدا میں نماز ادا کرتے”
یہ ایک لمبی حدیث کا ابتدائی حصہ ہے۔
- امید ہے اس گفتگو سے غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی باذن اللہ۔ اور واضح ہو گا کہ صحیح بخاری میں عمر رضی اللہ عنہ کا باجماعت نماز تراویح کو بدعت کہنے کے بارے جو قول ہے اس میں بدعت کا لغوی مطلب مراد ہے نہ کہ شرعی۔
بدعت سب ہی مذموم اور قابل ترک ہیں جو کسی نے اسے حسنہ سے تعبیر کردیا تو اس سے لغوی معنی مراد ہیں۔
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھ) امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔
إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي
’’اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا
لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی
ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔‘‘[ابن تيميه، منهاج السنة، 4 : 224]؛
علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقاً أو اعتقاداً زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم لم يذکره وما خالف النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمي بدعة قال الشافعي رحمه اﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه (1) هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح في المدخل(2) ؛
’’اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے۔
إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي
’’اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا
لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی
ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔‘‘[ابن تيميه، منهاج السنة، 4 : 224]؛
علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقاً أو اعتقاداً زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم لم يذکره وما خالف النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمي بدعة قال الشافعي رحمه اﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه (1) هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح في المدخل(2) ؛
’’اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے۔
(١) امام محمد بن اِدریس بن عباس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 204ھ)
امام بیہقی (المتوفی 458 ھ) نے اپنی سند کے ساتھ ’’مناقبِ شافعی‘‘ میں روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ (المتوفی 204ھ) علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(١) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (٢)
’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور یعنی نئے کام محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے یعنی یہ ایک ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘
علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم : 1 / 266‘‘ میں تقسیمِ بدعت کے تناظر میں اِمام شافعی کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں :
وقد روي الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراهيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعي يقول : البدعة بدعتان : بدعة محمودة و بدعة مذمومة، فما وافق السنة فهو محمود، وما خالف السنة فهو مذموم. واحتجّ بقول عمر رضي الله عنه : نعمت البدعة هي. (1) و مراد الشافعي رضي الله عنه ما ذکرناه من قبل أن أصل البدعة المذمومة ما ليس لها أصل في الشريعة ترجع إليه و هي البدعة في إطلاق الشرع. وأما البدعة المحمودة فما وافق السنة : يعني ما کان لها أصل من السنة ترجع إليه، و إنما هي بدعة لغة لا شرعا لموافقتها السنة. وقد روي عن الشافعي کلام آخر يفسر هذا و أنه قال : المحدثات ضربان : ما أحدث مما يخالف کتابا أو سنة أو أثرا أو إجماعا فهذه البدعة الضلالة، وما أحدث فيه من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا و هذه محدثة غير مذمومة، و کثير من الأمور التي أحدثت ولم يکن قد اختلف العلماء في أنها بدعة حسنة حتي ترجع إلي السنة أم لا. فمنها کتابة الحديث نهي عنه عمر وطائفة من الصحابة و رخص فيها الأکثرون واستدلوا له بأحاديث من السنة. ومنها کتابة تفسير الحديث والقرآن کرهه قوم من العلماء و رخص فيه کثير منهم. وکذلک اختلافهم في کتابة الرأي في الحلال والحرام و نحوه. و في توسعة الکلام في المعاملات و أعمال القلوب التي لم تنقل عن الصحابة والتابعين. (2)؛
’’حافظ ابو نعیم نے ابراہیم بن جنید کی سند سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔
١) بدعت محمودہ
٢) بدعت مذمومۃ
جو بدعت سنت کے مطابق و موافق ہو وہ محمودہ ہے اور جو سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے اور انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول (نعمت البدعۃ ھذہ) کو دلیل بنایا ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد بھی یہی ہے جو ہم نے اس سے پہلے بیان کی ہے بے شک بدعت مذمومہ وہ ہے جس کی کوئی اصل اور دلیل شریعت میں نہ ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہے اور اسی پر بدعت شرعی کا اطلاق ہوتا ہے اور بدعت محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے موافق ہے یعنی اس کی شریعت میں اصل ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہو اور یہی بدعت لغوی ہے شرعی نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری دلیل اس کی وضاحت پر یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ محدثات کی دو اقسام ہیں پہلی وہ بدعت جو کتاب و سنت، اثر صحابہ اور اجماع اُمت کے خلاف ہو یہ بدعت ضلالہ ہے اور ایسی ایجاد جس میں خیر ہو اور وہ ان چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اثر اور اجماع) میں سے کسی کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعتِ غیر مذمومہ ہے اور بہت سارے امور ایسے ہیں جو ایجاد ہوئے جو کہ پہلے نہ تھے جن میں علماء نے اختلاف کیا کہ کیا یہ بدعت حسنہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ سنت کی طرف لوٹے یا نہ لوٹے اور ان میں سے کتابت حدیث ہے جس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے ایک گروہ نے منع کیا ہے اور اکثر نے اس کی اجازت دی اور استدلال کے لیے انہوں نے کچھ احادیث سنت سے پیش کی ہیں اور اسی میں سے قرآن اور حدیث کی تفسیر کرنا جس کو قوم کے کچھ علماء نے ناپسند کیا ہے اور ان میں سے کثیر علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور اسی طرح حلال و حرام اور اس جیسے معاملات میں اپنی رائے سے لکھنے میں علماء کا اختلاف ہے اور اسی طرح معاملات اور دل کی باتیں جو کہ صحابہ اور تابعین سے صادر نہ ہوئی ہوں ان کے بارے میں گفتگو کرنے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔‘‘
----------------------------------------------------------------------
(١) مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : ٢٥٠
بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340
(٢) بيهقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 206
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21
==============================================
امام شاطبی اپنی کتاب "الاعتصام"میں لکھتے ہیں
وتبين ذلك بالنظر في الأمثلة التي مثل لها بصلاة التراويح في رمضان جماعة في المسجد ، فقد قام بها النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد ، واجتمع الناس خلفه .۔ ۔ ۔لكنه عليه السلام لما خاف افتراضه على الأمة; أمسك عن ذلك۔ ۔ ۔ ۔۔فتأملوا; ففي هذا الحديث ما يدل على كونها سنة; فإن قيامه أولا بهم دليل على صحة القيام في المسجد جماعة في رمضان ، وامتناعه بعد ذلك من الخروج خشية الافتراض لا يدل على امتناعه مطلقا; لأن زمانه كان زمان وحي وتشريع ، فيمكن أن يوحى إليه إذا عمل به الناس بالإلزام ، فلما زالت علة التشريع بموت رسول الله صلى الله عليه وسلم; رجع الأمر إلى أصله ، وقد ثبت الجواز فلا ناسخ له .وإنما لم يقم ذلك أبو بكر رضي الله عنه لأحد أمرين : إما لأنه رأى أن قيام الناس آخر الليل وما هم به عليه كان أفضل عنده من جمعهم على إمام أول الليل ، ذكره الطرطوشي ، وإما لضيق زمانه رضي الله عنه عن النظر في هذه الفروع ، مع شغله بأهل الردة وغير ذلك مما هو آكد من صلاة التراويح .فإن قيل : فقد سماها عمر رضي الله عنه بدعة وحسنها بقوله : نعمت البدعة هذه ، وإذا ثبتت بدعة مستحسنة في الشرع; ثبت مطلق الاستحسان في البدع .۔ ۔ ۔فالجواب : إنما سماها بدعة باعتبار ظاهر الحال; من حيث تركها رسول الله صلى الله عليه وسلم واتفق أن لم تقع في زمان أبي بكر رضي الله عنه ، لا أنها بدعة في المعنى ، فمن سماها بدعة بهذا الاعتبار; فلا مشاحة في الأسامي ، وعند ذلك فلا يجوز أن يستدل بها على جواز الابتداع بالمعنى المتكلم فيه; لأنه نوع من تحريف الكلم عن مواضعه[الاعتصام للامام الشاطبی: الجزء رقم : 14، الصفحة رقم: 194]؛
نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے رمضان میں جماعت کے ساتھ لوگوں کو تراویح کی نماز پڑھائی تھی۔ ۔ لیکن جب انہیں یہ ڈر ہوا کہ کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہو جائے تو (ایک امام کے پیچھے تراویح کی جماعت کا) یہ سسلسلہ روک دیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔خوب سمجھ لو کہ اس حدیث میں (ایک امام کے پیچھے تروایح کی جماعت) کے سنت ہونے کی دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا رمضان صحابہ کرام کو قیام کروانا مسجد میں جماعت کی دلیل ہے، اور بعد میں فرض ہو جانے کے خوف سے جماعت نہ کرانا مطلق ممانعت کی دلیل نہیں ہے۔ وہ زمانہ وحی اور تشریع کا زمانہ تھا۔ عین ممکن تھا اگر لوگ باجماعت تراویح پر عمل کرتے رہتے تو وہ فرض ہو جاتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی وفات کے بعد جب یہ علت ختم ہو گئی تو اس کا حکم اپنی اصل کی طرف پلٹ گیا اور اس کا جواز بغیر کسی نسخ کے ثابت ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت (جس میں دو دفعہ رمضان آیا) میں اسے یا تو اس لیے شروع نہیں کیا کہ ان کے نزدیک رات کے آخری حصے کا قیام پہلے حصے میں امام کے پیچھے قیام کرنے سے افضل تھا، یا پھر اس وقت کے حالات کی تنگی اور مرتدین وغیرہ کے ساتھ (جنگوں)جیسی اہم تر مصروفیات نے انہیں اس طرف توجہ کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
اگر کوئی کہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ( ایک امام کے پیچھے باجماعت نماز تراویح)کو بدعت سے موسوم فرمایا اور "نعمت البدعۃ ھذہ" کہتے ہوئے اس کی تحسین کی تھی لہٰذا اس سے شرع میں بدعت حسنہ کا جواز ثابت ہوتا ہے(تو اس کی بات غلط ہے)۔ ۔ ۔ ۔اور اسکی بات کا جواب یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نےاسے (شرعی معنوں میں نہیں بلکہ) محض ظاہری حال کی وجہ سے نیا کام کہا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے (فرض ہو جانے کے خوف سے) چھوڑا تھا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس پر عمل نہیں ہوا تھا (اس لیے اس وقت کے لحاظ سے وہ ایک نیا کام ہی تھا)۔ ۔ ۔ ۔چنانچہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے اس قول سے بدعت نکالنے کے جواز پر استدلال کرے، اگر کوئی شخص ایسا استدلال کرتا ہے تو وہ معنوی تحریف کا مرتکب ہے"
نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے رمضان میں جماعت کے ساتھ لوگوں کو تراویح کی نماز پڑھائی تھی۔ ۔ لیکن جب انہیں یہ ڈر ہوا کہ کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہو جائے تو (ایک امام کے پیچھے تراویح کی جماعت کا) یہ سسلسلہ روک دیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔خوب سمجھ لو کہ اس حدیث میں (ایک امام کے پیچھے تروایح کی جماعت) کے سنت ہونے کی دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا رمضان صحابہ کرام کو قیام کروانا مسجد میں جماعت کی دلیل ہے، اور بعد میں فرض ہو جانے کے خوف سے جماعت نہ کرانا مطلق ممانعت کی دلیل نہیں ہے۔ وہ زمانہ وحی اور تشریع کا زمانہ تھا۔ عین ممکن تھا اگر لوگ باجماعت تراویح پر عمل کرتے رہتے تو وہ فرض ہو جاتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی وفات کے بعد جب یہ علت ختم ہو گئی تو اس کا حکم اپنی اصل کی طرف پلٹ گیا اور اس کا جواز بغیر کسی نسخ کے ثابت ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت (جس میں دو دفعہ رمضان آیا) میں اسے یا تو اس لیے شروع نہیں کیا کہ ان کے نزدیک رات کے آخری حصے کا قیام پہلے حصے میں امام کے پیچھے قیام کرنے سے افضل تھا، یا پھر اس وقت کے حالات کی تنگی اور مرتدین وغیرہ کے ساتھ (جنگوں)جیسی اہم تر مصروفیات نے انہیں اس طرف توجہ کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
اگر کوئی کہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ( ایک امام کے پیچھے باجماعت نماز تراویح)کو بدعت سے موسوم فرمایا اور "نعمت البدعۃ ھذہ" کہتے ہوئے اس کی تحسین کی تھی لہٰذا اس سے شرع میں بدعت حسنہ کا جواز ثابت ہوتا ہے(تو اس کی بات غلط ہے)۔ ۔ ۔ ۔اور اسکی بات کا جواب یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نےاسے (شرعی معنوں میں نہیں بلکہ) محض ظاہری حال کی وجہ سے نیا کام کہا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے (فرض ہو جانے کے خوف سے) چھوڑا تھا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس پر عمل نہیں ہوا تھا (اس لیے اس وقت کے لحاظ سے وہ ایک نیا کام ہی تھا)۔ ۔ ۔ ۔چنانچہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے اس قول سے بدعت نکالنے کے جواز پر استدلال کرے، اگر کوئی شخص ایسا استدلال کرتا ہے تو وہ معنوی تحریف کا مرتکب ہے"
================================================
سوال : اگر بدعات کی دو قسمیں ہیں ایک حسنہ اور دوسری سیئہ ، ایسے تو ہر ایک اپنی بدعتوں کو حسنہ کہے گا اور دوسروں کی بدعتوں کو سیئہ کہے گا، تو پھر یہ فیصلہ کس طرح کیا جائے کہ کون سی بدعت حسنہ ہے اور کون سی بدعت سیئہ ہے؟ حدیث میں تو آتا ہے کہ ساری بدعتیں گمراہی ہیں، ظاہر بات ہے کہ حدیث میں تو اصطلاحی بدعت کے بارے میں کہا گیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بدعت اصطلاحی ہوتی ہے صرف سیئہ ہے۔ مہربانی کر کے تفصیلی مدلل جواب دیں۔
جواب : جس فعل شرعی کا سبب اور محرک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود نہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو نہ صحابہٴ کرام کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہو۔ اور نہ ترغیب دی ہو، دین سمجھ کر ایسا کام کرنا بدعت ہے، جیسے مروجہ میلاد کا سبب (حضور کے زمانہ میں) موجود تھا۔ اور صحابہٴ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا عشق اور عقیدتو محبت تھی اس کے باوجود کسی نے آپ کا یوم ولادت منایا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔
(۲) شریعت نے جو چیز مطلق رکھی ہے اس میں اپنی طرف سے قیودات لگانا بدعت ہے، جیسا کہ زیارت کے لیے وقت مقرر کرنا، ایصالِ ثواب کے لیے وقت متعین کرنا، مثلاً سیوم، چہلم۔
(۳) جو کام بذاتِ خود مستحب و مندوب ہے، مگر اس کا ایسا التزام کرنا کہ رفتہ رفتہ اس کو ضروری سمجھا جانے لگے اور اس کے تارک کی ملامت کی جانے لگے تو وہ کام مستحب کے بجائے بدعت بن جاتا ہے۔ مثلاً نماز جمعہ، پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں ہل اتاک حدیث الغاشیة پڑھنا مسنون ہے، مگر اس کا التزام کرنا کہ لوگ اس کو ضروری سمجھنے لگیں، بدعت ہے۔
(۴) جو کام فی نفسہ جائز ہے اگر اس کو کرنے میں کفار و فجار اور گمراہ لوگوں کی مشابہت لازم ہو تو اس کا کرنا ناجائز ہے، اس قاعدہ سے معلوم ہوا کہ تمام وہ اعمال جو اہل بدعت کا شعار بن جائیں، اس کا ترک لازم ہے۔ مزید تفصیل کے لیے (الاعتصام للعلامة الشاطبی) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
بدعت سب ہی مذموم اور قابل ترک ہیں جو کسی نے اسے حسنہ سے تعبیر کردیا تو اس سے لغوی معنی مراد ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
جواب : جس فعل شرعی کا سبب اور محرک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود نہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو نہ صحابہٴ کرام کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہو۔ اور نہ ترغیب دی ہو، دین سمجھ کر ایسا کام کرنا بدعت ہے، جیسے مروجہ میلاد کا سبب (حضور کے زمانہ میں) موجود تھا۔ اور صحابہٴ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا عشق اور عقیدتو محبت تھی اس کے باوجود کسی نے آپ کا یوم ولادت منایا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔
(۲) شریعت نے جو چیز مطلق رکھی ہے اس میں اپنی طرف سے قیودات لگانا بدعت ہے، جیسا کہ زیارت کے لیے وقت مقرر کرنا، ایصالِ ثواب کے لیے وقت متعین کرنا، مثلاً سیوم، چہلم۔
(۳) جو کام بذاتِ خود مستحب و مندوب ہے، مگر اس کا ایسا التزام کرنا کہ رفتہ رفتہ اس کو ضروری سمجھا جانے لگے اور اس کے تارک کی ملامت کی جانے لگے تو وہ کام مستحب کے بجائے بدعت بن جاتا ہے۔ مثلاً نماز جمعہ، پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں ہل اتاک حدیث الغاشیة پڑھنا مسنون ہے، مگر اس کا التزام کرنا کہ لوگ اس کو ضروری سمجھنے لگیں، بدعت ہے۔
(۴) جو کام فی نفسہ جائز ہے اگر اس کو کرنے میں کفار و فجار اور گمراہ لوگوں کی مشابہت لازم ہو تو اس کا کرنا ناجائز ہے، اس قاعدہ سے معلوم ہوا کہ تمام وہ اعمال جو اہل بدعت کا شعار بن جائیں، اس کا ترک لازم ہے۔ مزید تفصیل کے لیے (الاعتصام للعلامة الشاطبی) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
بدعت سب ہی مذموم اور قابل ترک ہیں جو کسی نے اسے حسنہ سے تعبیر کردیا تو اس سے لغوی معنی مراد ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
No comments:
Post a Comment