Thursday 13 September 2012

جہاد کے مقاصد - The objectives of jihad


Why to do Jihad?
1. For the elimination of FITNA:

وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَلَا عُدۡوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ.
[القرآن، سورۃ البقرۃ:193]

اور تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہوجائے (123) پھر اگر وہ باز آجائیں تو (سمجھ لو کہ) تشدد سوائے ظالموں کے کسی پر نہیں ہونا چاہیے۔

(123) یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جہاد کا اصل مقصد کسی کو اسلام پر مجبور کرنا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں کوئی شخص کفر پر اصرار کرے تب بھی جزیہ کے ذریعے اسلامی حکومت کے قوانین کی اطاعت کرکے اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے، لیکن جزیرۂ عرب کا حکم مختلف ہے، یہ وہ ملک ہے جہاں رسول کریم ﷺ کو براہ راست بھیجا گیا اور جہاں کے لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور آپ ﷺ کی تعلیمات براہ راست سنیں، ایسے لوگ اگر ایمان نہ لائیں تو پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کے زمانوں میں انہیں عذاب عام کے ذریعے ہلاک کیا گیا، آنحضرت ﷺ کے زمانے میں عذاب عام موقوف فرما دیا گیا، لیکن یہ حکم دیا گیا کہ جزیرۂ عرب میں کوئی کافر مستقل شہری کی حیثیت میں نہیں رہ سکتا، یہاں اس کے لئے تین ہی راستے ہیں یا اسلام لائے یا جزیرۂ عرب سے باہر چلا جائے یا جنگ میں قتل ہوجائے۔

یعنی کافروں سے لڑائی اسی واسطے ہے کہ ظلم موقوف ہو اور کسی کو دین سے گمراہ نہ کر سکیں اور خاص اللہ ہی کا حکم جاری رہے سو وہ جب شرک سے باز آ جائیں تو زیادتی سوائے ظالموں کے اور کسی پر نہیں یعنی جو بدی سے باز آ گئے وہ اب ظالم نہ رہے تو اب ان پر زیادتی بھی مت کرو ہاں جو فتنہ سے باز نہ رہیں ان کو شوق سے قتل کرو۔




جہاد کے آداب:
القرآن:
اور ان لوگوں سے اللہ کے راستے میں جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، یقین جانو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.
[سورة البقرة، آیت نمبر 190]

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْفِزْرِ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ، وَلَا تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِيرًا وَلَا امْرَأَةً وَلَا تَغُلُّوا وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ " .

[سنن أبي داود » كِتَاب الْجِهَاد » بَاب فِي دُعَاءِ الْمُشْرِكِينَ ... رقم الحديث: 2250]
حضرت انس بن مالک ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (مجاہدین کو بھیجتے وقت) فرمایا: روانہ ہو جاؤ اللہ کا نام لے کر اللہ کی تائید و توفیق کے ساتھ اور آپ ﷺ کے دین پر۔ (دیکھو) قتل نہ کرنا بوڑھے آدمی کو نہ چھوٹے بچے کو اور نہ عورت کو اور تم مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا بلکہ مال غنیمت کو جمع کرنا اور اپنے احوال کی اصلاح کرنا اور بھلائی کرنا۔ بیشک اللہ نیکی اور بھلائی کرنیوالوں کو پسند فرماتا ہے۔ 
Narrated Anas ibn Malik: 
The Prophet (peace_be_upon_him) said: Go in Allah's name, trusting in Allah, and adhering to the religion of Allah's Apostle. Do not kill a decrepit old man, o a young infant, or a child, or a woman; do not be dishonest about booty, but collect your spoils, do right and act well, for Allah loves those who do well.


تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا ولا صغيرا ولا امرأة ولا تغلوا وضموا غنائمكم وأصلحوا وأحسنوا إن الله يحب المحسنينأنس بن مالكسنن أبي داود22502614أبو داود السجستاني275
2لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا ولا صغيرا ولا امرأة ولا تغلوا وضموا غنائمكم وأصلحوا وأحسنوا إن الله يحب المحسنينأنس بن مالكالسنن الكبرى للبيهقي166989 : 89البيهقي458
3انطلقوا بسم الله وبالله وعلى سنة رسول الله قاتلوا أعداء الله في سبيل الله قتلاكم أحياء مرزقون في الجنان وقتلاهم في سبيل الله لا تقتلن شيخا فانيا ولا طفلا صغيرا ولا امرأة ولا تغلوا غنائمكم وأصلحوا وأحسنوا إن الله يحب المحسنينأنس بن مالكمعرفة السنن والآثار للبيهقي47585419البيهقي458
4لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا صغيرا ولا امرأة ولا تغلواأنس بن مالكمصنف ابن أبي شيبة3241633664ابن ابي شيبة235
5لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا صغيرا ولا امرأة ولا تغلوا وضموا غنائمكم وأصلحوا وأحسنوا إن الله يحب المحسنينأنس بن مالكفوائد تمام الرازي190200تمام بن محمد الرازي414
6انطلقوا بسم الله وبالله وعلى ملة رسول الله لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا ولا صغيرا ولا امرأة ولا تغلوا وضموا غنائمكم وأصلحوا وأحسنوا إن الله يحب المحسنينأنس بن مالكالتمهيد لابن عبد البر461724 : 233ابن عبد البر القرطبي463
7لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا صغيرا ولا امرأة ولا تغلواأنس بن مالكالاستذكار516---ابن عبد البر القرطبي463
8انطلقوا بسم الله وفي سبيل الله تقاتلون أعداء الله في سبيل الله لا تقتلوا شيخا فانيا ولا طفلا صغيرا ولا امرأة ولا تغلواأنس بن مالكتهذيب الكمال للمزي718---يوسف المزي742

































------------------------------------
2. For the dominance of Islam:

اور (مسلمانو) ان کافروں سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے۔ (24) پھر اگر یہ باز آجائیں تو ان کے اعمال کو اللہ خوب دیکھ رہا ہے۔ (25)
[سورۃ الانفال:39]

(24) جیسا کے آگے سورة توبہ میں آئے گا، جزیرہ عرب کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کا مرکز بنایا ہے، اس لئے یہاں حکم یہ ہے کہ کوئی کافر یا مشرک مستقل طور پر نہیں رہ سکتا، یا اسلام لائے یا کہیں اور چلا جائے، اس لئے جزیرہ عرب میں کافروں سے اس وقت تک جنگ کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ ان دو باتوں میں سے کوئی ایک بات اختیار نہ کرلیں، البتہ جزیرہ عرب سے باہر کا حکم مختلف ہے وہاں غیر مسلموں کے ساتھ مختلف قسم کے معاہدے ہوسکتے ہیں، آیت کے تقریباً یہی الفاظ سورة بقرہ (آیت193) میں بھی گزرے ہیں۔
یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جہاد کا اصل مقصد کسی کو اسلام پر مجبور کرنا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں کوئی شخص کفر پر اصرار کرے تب بھی جزیہ کے ذریعے اسلامی حکومت کے قوانین کی اطاعت کرکے اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے، لیکن جزیرۂ عرب کا حکم مختلف ہے، یہ وہ ملک ہے جہاں رسول کریم ﷺ کو براہ راست بھیجا گیا اور جہاں کے لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور آپ ﷺ کی تعلیمات براہ راست سنیں، ایسے لوگ اگر ایمان نہ لائیں تو پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کے زمانوں میں انہیں عذاب عام کے ذریعے ہلاک کیا گیا، آنحضرت ﷺ کے زمانے میں عذاب عام موقوف فرما دیا گیا، لیکن یہ حکم دیا گیا کہ جزیرۂ عرب میں کوئی کافر مستقل شہری کی حیثیت میں نہیں رہ سکتا، یہاں اس کے لئے تین ہی راستے ہیں یا اسلام لائے یا جزیرۂ عرب سے باہر چلا جائے یا جنگ میں قتل ہوجائے۔
(25) اور اگر کوئی کافر ظاہری طور پر اسلام لے آئے تو مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ وہ اسے مسلمان سمجھیں اور دل کو ٹٹولنے کی کوشش نہ کریں ؛ کیونکہ دل کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا وہی ان کے اعمال کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے اور آخرت میں اسی کے مطابق فیصلہ کرے گا۔


جہاد کے مقاصد:
یعنی کافروں کا زور نہ رہے کہ ایمان سے روک سکیں یا مذہب حق کو موت کی دھمکی دے سکیں جیسا کہ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی کفار کو غلبہ ہوا مسلمانوں کا ایمان اور مذہب خطرہ میں پڑ گیا۔ اسپین کی مثال دنیا کے سامنے ہے کہ کس طرح قوت اور موقع ہاتھ آنے پر مسلمانوں کو تباہ کیا گیا یا مرتد بنایا گیا۔ بہرحال جہاد و قتال کا اولین مقصد یہ ہے کہ اہل اسلام مامون و مطمئن ہو کر خدا کی عبادت کر سکیں اور دولت ایمان و توحید کفار کے ہاتھوں سے محفوظ ہو۔ (چنانچہ فتنہ کی یہ ہی تفسیر ابن عمر وغیرہ رضی اللہ عنہم سے کتب حدیث میں منقول ہے)یہ جہاد کا آخری مقصد ہے کہ کفر کی شوکت نہ رہے۔ حکم اکیلے خدا کا چلے۔ دین حق سب ادیان پر غالب آ جائے لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ (التوبہ۔۳۳) خواہ دوسرے باطل ادیان کی موجودگی میں جیسے خلفائے راشدین وغیرہ ہم کے عہد میں ہوا، یا سب باطل مذاہب کو ختم کر کے جیسے نزول مسیحؑ کے وقت ہو گا۔ بہرحال یہ آیت اس کی واضح دلیل ہے کہ جہاد و قتال خواہ ہجومی ہو یا دفاعی مسلمانوں کے حق میں اس وقت تک برابر مشروع ہے جب تک یہ دونوں مقصد حاصل نہ ہو جائیں۔ اسی لئے حدیث میں آ گیا۔ اَلْجِہَادُ مَاضٍ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃ (جہاد کے احکام و شرائط کی تفصیل کتب فقہ میں ملاحظہ کی جائے)یعنی جو ظاہر میں اپنی شرارت اور کفر سے باز آ جائیں ان سےقتال نہیں۔ ان کے دلوں کا حال اور مستبقل کی کیفیات کو خدا کے سپرد کیا جائے گا۔ جیسا کام وہ کریں گے خدا کی آنکھ سے غائب ہو کر نہیں کر سکتے مسلمان صرف ظاہر حال کے موافق عمل کرنے کے مکلف ہیں۔ وفی الحدیث اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْالَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ فَاِذَا قَالُوْھَا عَصِمُوْا مِنِّی دِمَاءَ ھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِّھَا وَحِسَابُھُمْ عَلٰی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ

























3. To force the disbelievers to pay Jizya (9:29)
4. To help the weak & appressesd (4:75)
5. To seek revenge for the murder (2:178)

اے ایمان والو ! جو لوگ (جان بوجھ کر ناحق) قتل کر دئیے جائیں ان کے بارے میں تم پر قصاص (کا حکم) فرض کردیا گیا ہے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت (ہی کو قتل کیا جائے) (109) ، پھر اگر قاتل کو اس کے بھائی) یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے (110) تو معروف طریقے کے مطابق (خوں بہا کا) مطالبہ کرنا (وارث کا) حق ہے، اور اسے خوش اسلوبی سے ادا کرنا (قاتل کا) فرض ہے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک آسانی پیدا کی گئی ہے اور ایک رحمت ہے، اس کے بعد بھی کوئی زیادتی کرے تو وہ دردناک عذاب کا مستحق ہے (111)
[سورۃ البقرۃ:178]

109: قصاص کا مطلب ہے برابر کا بدلہ لینا، اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کو جان بوجھ کر ناحق قتل کردیا جائے اور قاتل کا جرم ثابت ہوجائے تو مقتول کے وارث کو حق حاصل ہے کہ وہ قاتل سے قصاص کا مطالبہ کرے، جاہلیت کے زمانے میں اگرچہ قصاص تو لیا جاتا تھا لیکن اس میں ناانصافی یہ تھی کہ انہوں نے محتلف انسانوں کے جو درجے اپنے خیال میں مقرر کر رکھے تھے ان کے لحاظ سے اگر نچلے درجے کے کسی شخص نے اونچے درجے کے کسی آدمی کو قتل کردیا تو ورثاء کا مطالبہ یہ ہوتا تھا کہ قاتل کے بجائے اس کے قبیلے کے کسی دوسرے آدمی کو قتل کیا جائے جو رتبے میں مقتول کے برابر ہو، چنانچہ اگر ایک غلام نے کسی آزاد آدمی کو قتل کردیا ہو تو مطالبہ میں یہ ہوتا تھا کہ ہم قاتل غلام کے بجائے کسی آزاد آدمی کو قتل کریں گے، اسی طرح اگر قاتل عورت ہو اور مقتول مرد تو کہا جاتا تھا کہ قاتل عورت کے بجائے قبیلے کا کوئی مرد قتل کیا جائے، اس کے برعکس اگر قاتل مقتول سے اوپر کے درجے کا ہو مثلاً قاتل مرد ہو اور مقتول عورت تو قاتل کا قبیلہ کہتا تھا کہ ہماری کسی عورت کو قتل کردو قاتل مرد سے قصاص نہیں لیا جائے گا، اس آیت نے جاہلیت کی اس ظالمانہ رسم کو ختم فرمادیا اور اعلان کیا کہ جان ہر ایک کی برابر ہے اور قصاص ہر صورت میں قاتل ہی سے لیا جائے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت غلام ہو یا آزاد۔ 110: بنی اسرائیل کے قانون میں قصاص تو تھا لیکن دیت یا خوں بہا کا کوئی تصور نہیں تھا، اس آیت نے مقتول کے ورثاء کو یہ حق دیا کہ اگر وہ چاہیں تو مقتول کا قصاص معاف کرکے خوں بہا کے طور پر کچھ رقم کا مطالبہ کریں، ایسی صورت میں ان کو چاہیے کہ رقم کی مقدار معقولیت کی حد میں رکھیں اور قاتل کو چاہیے کہ خوش اسلوبی سے اس کی ادئیگی کرے۔ اگر خوں بہا لے کر وارثوں نے قصاص معاف کردیا ہو تو اب ان کے لئے قاتل کی جان لینا جائز نہیں ہے، اگر وہ ایسا کریں گے تو یہ زیادتی ہوگی جس کی بنا پر دنیا و آخرتدونوں میں سزا کے مستحق ہوں گے۔ 111: مطلب یہ ہے کہ اگر خوں بہا لے کر وارثوں نے قصاص معاف کردیا ہو تو اب ان کے لیے قاتل کی جان لینا جائز نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کریں تو یہ زیادتی ہوگی جس کی بنا پر وہ دنیا اور آخرت دونوں میں سزا کے مستحق ہوں گے۔

قصاص میں برابری کا حکم:
زمانہ جاہلیت میں یہود اور اہل عرب نے یہ دستور کر رکھا تھا کہ شریف النسب لوگوں کے غلام کے بدلے رذیل لوگوں کے آزاد کو اور عورت کے بدلے مرد کو اور ایک آزاد کے بدلے دو کو قصاص میں قتل کرتے تھے حق تعالیٰ نے اس آیہ میں حکم دیا کہ اے ایمان والو ہم نے تم پر مقتولین میں برابری اور مساوات کو فرض کر دیا قصاص کے معنی لغت میں برابری اور مساوات کے ہیں تم نے یہ دستور نکالا ہے کہ شریف اور رذیل میں امتیاز کرتے ہو یہ لغو ہے جانیں سب کی برابر ہیں غریب ہو یا امیر شریف ہو یا رذیل عالم و فاضل ہو یا جاہل جوان ہو یا بوڑھا اور بچہ تندرست ہو یا بیمار قریب المرگ صحیح الاعضا ہو یا اندھا لنگڑا ۔ فائدہ پہلی آیہ میں نیکی اور برّ کے اصول مذکور تھے جن پر مدار ہدایت و مغفرت تھا اور اس طرف بھی اشارہ تھا کہ اہل کتاب ان خوبیوں سے بےبہرہ ہیں اور بالتصریح فرما دیا تھا کہ دین میں سچا اور متقی بدون ان خوبیوں کے کوئی نہیں ہو سکتا تو اب اہل اسلام کے سوا نہ اہل کتاب اس کے مصداق بن سکتے ہیں نہ جہال عرب، اس لئے اب سب سے اعراض فرما کر خاص اہل ایمان کو مخاطب بنایا جاتا ہے اور نیکی و برّ کے مختلف فروع عبادات جانی و مالی اور معاملات مختلفہ ان کو بتلاتے ہیں کہ ان فروع کو وہی کر سکتا ہے جو اصول مذکورہ سابقہ پر پختہ ہو گویا اور لوگ اس خطاب کے قابل بھی نہ سمجھے گئے جو ان کو سخت عار کا باعث ہونا چاہئے اب جو احکام فروعی بالتفصیل بیان کئے جاتے ہیں ۔ درحقیقت تو ان سے اہل ایمان کی ہدایت اور تعلیم مقصود ہے مگر ضمنًا کہیں صاف کہیں تعریضًا دوسروں کی خرابی پر بھی متنبہ کیا جائے گا مثلًا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ یہود وغیرہ نے جو قصاص میں دستور کر لیا ہے یہ ان کا ایجاد بے بنیاد خلاف حکم الہٰی ہے جس سے ظاہر ہو گیا کہ اصول فرمودہ سابقہ میں سے نہ ان کو ایمان بالکتاب صحیح طور سے حاصل ہے نہ ایمان بالانبیاء نہ عہد خداوندی کو انہوں نے وفا کیا اور نہ سختی اور مصیبت کی حالت میں انہوں نے صبر سے کام لیا ورنہ اپنے کسی عزیز و قریب کے مقتول ہو نے پر اس قدر بےصبری اور نفسانیت نہ کرتے کہ فرمان خداوندی اور ارشاد انبیاء اور حکم کتاب سب کو چھوڑ کر بےگناہوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے۔

قصاص کے احکام:
یہ توضیح ہے اس برابری کی جس کا حکم ہوا مطلب یہ ہے کہ ہر مرد آزاد کے قصاص میں صرف وہی ایک آزاد مرد قتل کیا جا سکتا ہے جو اس کا قاتل ہے یہ نہیں کہ ایک کے عوض قاتل کے قبیلہ سے کیف ما اتفق دو کو یا زیادہ کو قتل کرنے لگو۔

یعنی ہر غلام کے بدلے میں وہی غلام قتل کیا جائے گا جو قاتل ہے یہ نہ ہوگا کہ کسی شریف کے غلام کے قصاص میں قاتل کو جو کہ غلام ہے اس کو چھوڑ کر ان رذیل لوگوں میں سے کہ جن کے غلام نے قتل کیا ہے کسی آزاد کو قتل کیا جائے۔

یعنی ہر ایک عورت کے قصاص میں صرف وہی عورت قتل کی جاسکتی ہے جس نے اس کو قتل کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ شریف النسب عورت کے قصاص میں رذیل عورت کو چھوڑ کر جو کہ قاتلہ ہے کسی مرد کو ان میں سے قتل کرنے لگیں ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ہر آزاد دوسرے آزاد کے اور ہر غلام دوسرے غلام کے برابر ہے سو حکم قصاص میں مساوات چاہیئے اور تعدی جو اہل کتاب اور جہال عرب کرتے تھے ممنوع ہے۔ فائدہ اب باقی رہا یہ امر کہ آزاد کسی غلام کو یا مرد کسی عورت کو قتل کر دے تو قصاص لیا جائے گا یا نہیں سو یہ آیہ کریمہ اس سے ساکت ہے اور ائمہ کا اس میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہؒ آیہ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ اور حدیث المسلمون تتکا فؤاد ماءھم سے اس کے قائل ہیں کہ ہر دو صورت مذکورہ میں قصاص ہو گا اور جیسے قوی اور ضعیف صحیح اور مریض معذور اور غیر معذور وغیرہ حکم قصاص میں برابر ہیں ایسے ہی آزاد اور غلام مرد اور عورت کو امام ابو حنیفہؒ قصاص میں برابر فرماتے ہیں بشرطیکہ غلام مقتول قاتل کا غلام نہ ہو کہ وہ حکم قصاص سے ان کے نزدیک مستثنٰی ہے اور اگر کوئی مسلمان کافر ذمی کو قتل کر ڈالے تو اس پر بھی قصاص ہو گا ۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک البتہ مسلمان اور کافر حربی میں کوئی قصاص کا قائل نہیں۔

یعنی مقتول کے وارثوں میں سے اگر بعض بھی خون کو معاف کر دیں تو اب قاتل کو قصاص میں قتل تو نہیں کر سکتے بلکہ دیکھیں گے کہ ان وارثوں نے معاف کس طرح پر کیا ہے بلا معاوضہ مالی محض ثواب کی غرض سے معاف کیا ہے یا دیت شرعی اور بطور مصالحت کسی مقدار مال پر راضی ہو کر صرف قصاص سے دست برداری کی ہے اول صورت میں قاتل ان وارثوں کے مطالبہ سے بالکل سبکدوش ہو جائے گا اور دوسری صورت میں قاتل کو چاہیئے کہ وہ معاوضہ اچھی طرح ممونیت اور خوشدلی کے ساتھ ادا کرے۔

یہ اجازت کہ قتل عمد میں چاہو تو قصاص لو چاہو دیت لو چاہو معاف کر دو اللہ کی طرف سے سہولت اور مہربانی ہے قاتل اور وارثان مقتول دونوں پر جو پہلے لوگوں پر نہ ہوئی تھی کہ یہود پر خاص قصاص اور نصاریٰ پر دیت یا عفو مقرر تھا۔


6. Fight to defend yourself:

اور ان لوگوں سے اللہ کے راستے میں جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، یقین جانو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، (121)
[سورۃ البقرۃ:190]

121: یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب مکہ کے مشرکین نے آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کو صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ ادا کرنے سے روک دیا تھا اور یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ اگلے سال آکر عمرہ کریں گے، جب اگلے سال عمرہ کا ارادہ کیا گیا تو کچھ صحابہ کو یہ خطرہ ہوا کہ کہیں مشرکین مکہ عہد شکنی کرکے ہم سے لڑائی شروع نہ کردیں اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کو یہ مشکل پیش آئے گی کے حدود حرم میں اور خاص طور پر ذیقعدہ کے مہینے میں لڑائی کیسے کریں جبکہ اس مہینے میں جنگ ناجائز ہے، ان آیات نے وضاحت فرمائی کہ اپنی طرف سے تو جنگ نہ کی جائے، البتہ اگر کفار معاہدہ توڑ کر جنگ شروع کردیں تو ایسی صورت میں مسلمانوں کے لئے جنگ جائز ہے اور اگر وہ حدود حرم اور محترم مہینے کی حرمت کا لحاظ کئے بغیر حملہ آور ہوجائیں تو مسلمانوں کے لئے بھی ان کی زیادتی کا بدلہ لینا درست ہے۔

حرم میں قتال کا حکم:
حضرت ابراہیمؑ کے وقت سے مکہ دارالامن تھا،کوئی اپنے دشمن کو بھی مکہ میں پاتا تو کچھ نہ کہتا اور اشہر حرام یعنی ذی القعدہ اور ذی الحجہ اور محرم اور رجب یہ چار مہینے بھی امن کے تھے ان میں تمام ملک عرب میں لڑائی موقوف ہو جاتی اور کوئی کسی کو کچھ نہ کہتا ذی القعدہ ۰۶ ہجری میں حضرت ﷺ جماعت صحابہ کے ہمراہ عمرہ کے قصد سے مکہ کی زیارت کو تشریف لائے جب آپ مکہ کے نزدیک پہنچے تو مشرکین جمع ہو کر لڑنے کو تیار ہو گئے اور مسلمانوں کو روک دیا آخر کو اس پر صلح ہوئی کہ اب تو بدون زیارت واپس ہو جائیں اور اگلے برس آن کر عمرہ کریں اور تین روز اطمینان سے مکہ میں رہیں جب دوسرے برس ذی القعدہ ۰۷ ہجری میں آپ ﷺ نے مکہ کا قصد فرمایا تو آپ ﷺ کے اصحاب کو یہ اندیشہ تھا کہ اہل مکہ اگر اب بھی وعدہ خلافی کر کے لڑنے بھڑنے کو تیار ہو گئے تو پھر ہم کیا کریں گے لڑیں تو شہر حرام اور حرم مکہ میں کیونکر لڑیں اور نہ لڑیں تو عمرہ کیسے کریں اس پر حکم الہٰی آیا کہ اگر وہ اس مہینہ حرام خلاف عہد تم سے لڑیں تو تم بھی بلاتامل ان سے لڑو ہاں تمہاری طرف سے ابتداء اور زیادتی نہ ہونی چاہیئے۔ حج کے ذیل میں عمرہ حدیبیہ کی مناسبت سے قتال کفار کا ذکر آیا اس لئے جہاد کے بعض احکام و آداب مناسب مقام مذکور فرمائے جاتے ہیں اس کے بعد پھر حج کے احکام بیان ہوں گے۔
زیادتی مت کرو اس کے معنی یہ کہ لڑائی میں لڑکے اور عورتیں اور بوڑھے قصدًا نہ مارے جائیں اور حرم کے اندر اپنی طرف سے لڑائی شروع نہ کی جائے۔





7. To recapture the occupied territory"

اور تم ان لوگوں کو جہاں پاؤ قتل کرو، اور انہیں اس جگہ سے نکال باہر کرو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا، اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین برائی ہے، (122) اور تم ان سے مسجد حرام کے پاس اس وقت تک لڑائی نہ کرو جب تک وہ خود اس میں تم سے لڑائی شروع نہ کریں، ہاں اگر وہ تم سے اس میں لڑائی شروع کردیں تو تم ان کو قتل کرسکتے ہو، ایسے کافروں کی سزا یہی ہے۔
[سورۃ البقرۃ:191]


122: لفظ“ فتنہ ”قرآن کریم میں مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے جن میں سے ایک معنی ظلم اور تشدد کے بھی ہیں اور شاید یہاں یہی معنی مراد ہوں، مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل سے روکنے کے لئے بدترین تشدد روا رکھا ہوا تھا، لہذا بظاہر یہاں مقصد یہ ہے کہ اگرچہ کسی کو قتل کرنا اپنی ذات میں کوئی اچھی بات نہیں ہے لیکن فتنہ اس کے مقابلے میں زیادہ سخت برائی ہے اور جہاں فتنے کا سد باب قتل کے بغیر ممکن نہ ہو وہاں قتل کے سوا چارہ نہیں ہے۔

حرم میں قتال کا حکم:
جس جگہ پاؤ یعنی حرم میں ہوں خواہ غیر حرم میں جہاں سے تم کو نکالا یعنی مکہ سے۔

فتنہ پھیلانا قتل سے بڑا گناہ ہے:
یعنی دین سے پھر جانا یا دوسرے کو پھرانا مہینہ حرام کے اندر مار ڈالنے سے بہت بڑا گناہ ہے مطلب یہ کہ حرم مکہ میں کفار کا شرک کرنا اور کرانا زیادہ قبیح ہے حرم میں مقاتلہ کرنے سے تو اب اے مسلمانو تم کچھ اندیشہ نہ کرو اور جواب ترکی بہ ترکی دو۔
یعنی مکہ ضرور جائے امن ہے لیکن جب انہوں نے ابتداء کی اور تم پر ظلم کیا اور ایمان لانے پر دشمنی کرنے لگے کہ یہ بات مار ڈالنے سے بھی سخت ہے تو اب ان کو امان نہ رہی جہاں پاؤ مارو آخر جب مکہ فتح ہوا تو آپ نے یہی فرما دیا کہ جو ہتھیار سامنے کرے اسی کو مارو اور باقی سب کو امن دیا۔



8. To punish those who voilate their oaths:

اور اگر ان لوگوں نے اپنا عہد دے دینے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالی ہوں اور تمہارے دین کو طعنے دئیے ہوں، تو ایسے کفر کے سربراہوں سے اس نیت سے جنگ کرو کہ وہ باز آجائیں۔ (11) کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی قسموں کی کوئی حقیقت نہیں۔
[سورۃ التوبۃ:12]

11۔ پچھلی آیت کی روشنی میں قسمیں توڑنے سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہوجائیں، جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد بعض قبائل مرتد ہوئے، اور حضرت صدیق اکبر ؓ نے ان سے جہاد کیا اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں سے تمہارا معاہدہ تھا اور وہ پہلے ہی عہد توڑ چکے یا جن سے معاہدہ نو مہینے تک باقی ہے وہ اس دوران معاہدہ توڑیں، ان سے جہاد کرو اور یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اس نیت سے جنگ کرو کہ وہ باز آجائیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری طرف سے جنگ کا مقصد ملک گیری کے بجائے یہ ہونا چاہیے کہ تمہارا دشمن اپنے کفر اور ظلم سے باز آجائے۔


بد عہد کفار سے قتال:
یعنی اگر عہد و پیمان توڑ ڈالا (جیسے بنی بکر نے خلاف عہد خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے حملہ آوروں کی مدد کی) اور کفر سے باز نہ آئے بلکہ دین حق کے متعلق طعنہ زنی اور گستاخانہ عیب جوئی کرتے رہے تو سمجھ لو کہ اس طرح کے لوگ "ائمۃ الکفر" (کفر کے سردار اور امام) ہیں ۔ کیونکہ ان کی حرکات دیکھ کر اور باتیں سن کر بہت سے کجرو اور بیوقوف پیچھے ہو لیتے ہیں ۔ ایسے سرغنوں سے پورا مقابلہ کرو۔ کیونکہ ان کا کوئی قول و قسم اور عہد و پیمان باقی نہیں رہا۔ ممکن ہے تمہارے ہاتھوں سے کچھ سزا پا کر اپنی شرارت و سرکشی سے باز آ جائیں۔
















Croseed: war between all world forces against Muslims.

dear friends as you know this topic is not familiure to every one but in all means it is going on and we all are the part of this war although we are willing are not and the time is going towords making the world clean and harmless.


 Why to do Jihad?

1. To seek revenge for the murder (2:178)
O you who believe, prescribed, made obligatory, for you is retaliation, on equal terms, regarding the slain, both in the attributes [of the one slain] and in the action involved; a free man, is killed, for a free man, and not for a slave; and a slave for a slave, and a female for a female. The Sunna makes it clear that a male may be killed [in retaliation] for a female, and that religious affiliation should be taken into account also, so that a Muslim cannot be killed in return for an disbeliever, even if the former be a slave and the latter a free man. But if anything, of the blood, is pardoned any one, of those who have slain, in relation to his brother, the one slain, so that the retaliation is waived (the use of the indefinite shay’un, ‘anything’, here implies the waiving of retaliation through a partial pardon by the inheritors [of the slain]; the mention of akhīh [‘his brother’] is intended as a conciliatory entreaty to pardon and a declaration that killing should not sever the bonds of religious brotherhood; the particle man, ‘any one’, is the subject of a conditional or a relative clause, of which the predicate is [the following, fa’ittibā‘un]) let the pursuing, that is, the action of the one who has pardoned in pursuing the killer, be honourable, demanding the blood money without force. The fact that the ‘pursuing’ results from the ‘pardoning’ implies that one of the two [actions] is a duty, which is one of al-Shāfi‘ī’s two opinions here. The other [opinion] is that retaliation is the duty, whereas the blood money is merely compensation [for non-retaliation], so that if one were to pardon but not name his blood money, then nothing [happens]; and this [latter] is the preferred [opinion]. And let the payment, of the blood money by the slayer, to him, the pardoner, that is, the one inheriting [from the slain], be with kindliness, without procrastination or fraud; that, stipulation mentioned here about the possibility of retaliation and the forgoing of this in return for blood money, is an alleviation, a facilitation, given, to you, by your Lord, and a mercy, for you, for He has given you latitude in this matter and has not categorically demanded that one [of the said options] be followed through, in the way that He made it obligatory for Jews to retaliate and for Christians to [pardon and] accept blood money; and for him who commits aggression, by being unjust towards the killer and slaying him, after that, that is, [after] pardoning — his is a painful chastisement, of the Fire in the Hereafter, or of being killed in this world.




2. Fight to defend yourself (2:190)
After the Prophet (s) was prevented from [visiting] the House in the year of the battle of Hudaybiyya, he made a pact with the disbelievers that he would be allowed to return the following year, at which time they would vacate Mecca for three days. Having prepared to depart for the Visitation [‘umra], [he and] the believers were concerned that Quraysh would not keep to the agreement and instigate fighting. The Muslims were averse to becoming engaged in fighting while in a state of pilgrimage inviolability in the Sacred Enclosure [al-haram] and during the sacred months, and so the following was revealed: And fight in the way of God, to elevate His religion, with those who fight against you, the disbelievers, but aggress not, against them by initiating the fighting; God loves not the aggressors, the ones that overstep the bounds which God has set for them: this stipulation was abrogated by the verse of barā’a, ‘immunity’ [Q. 9:1], or by His saying [below]:
3. To recapture the occupied territory (2:191)

And slay them wherever you come upon them, and expel them from where they expelled you, that is, from Mecca, and this was done after the Conquest of Mecca; sedition, their idolatry, is more grievous, more serious, than slaying, them in the Sacred Enclosure or while in a state of pilgrimage inviolability, the thing that you greatly feared. But fight them not by the Sacred Mosque, that is, in the Sacred Enclosure, until they should fight you there; then if they fight you, there, slay them, there (a variant reading drops the alif in the three verbs [sc. wa-lā taqtilūhum, hattā yaqtulūkum, fa-in qatalūkum, so that the sense is ‘slaying’ in all three, and not just ‘fighting’]) — such, killing and expulsion, is the requital of disbelievers.
4. For the elimination of FITNA (Quran=2:193)
Fight them till there is no sedition, no idolatry, and the religion, all worship, is for God, alone and none are worshipped apart from Him; then if they desist, from idolatry, do not aggress against them. This is indicated by the following words, there shall be no enmity, no aggression through slaying or otherwise, save against evildoers. Those that desist, however, are not evildoers and should not be shown any enmity.

5. To help the weak & appressesd (4:75)
What is wrong with you, that you do not fight: this is an interrogative of rebuke, in other words, there is nothing to prevent you from fighting, in the way of God, and for, the deliverance of, the oppressed men, women, and children, whom the disbelievers persecuted and prevented from emigrating. Ibn ‘Abbās, may God be pleased with him and his father, said, ‘My mother and I were among them’; who say, supplicating, ‘O, our Lord, bring us forth from this town, Mecca, whose people are evildoers, through unbelief, and appoint for us a protector from You, to take charge of our affair, and appoint for us from You a helper’, to defend us against them. God responded to their supplication and facilitated escape for some of them, while others remained behind until Mecca was conquered — in charge of them the Prophet (s) placed ‘Attāb b. Asīd, who proceeded to seek justice for the wronged from those that had wronged them.

6. For the dominance of Islam (8:39)
And fight them until sedition, idolatry, is, exists, no more and religion is all for God, alone, none other being worshipped; then if they desist, from unbelief, surely God sees what they do, and will requite them for it.

7. To punish those who voilate their oaths (9:12)
But if they break, [if] they violate, their oaths, their covenants, after [making] their pact and assail your religion, slander it, then fight the leaders of unbelief, its heads (here an overt noun [‘the leaders of unbelief’] has replaced the [third person] pronominalisation) — verily they have no [binding] oaths, [no] pacts (a variant reading [for aymān, ‘oaths’] has the kasra inflection [for the alif, sc. īmān, ‘[no] faith’]) — so that they might desist, from unbelief.

8. To force the disbelievers to pay Jizya (9:29)
Fight those who do not believe in God, nor in the Last Day, for, otherwise, they would have believed in the Prophet (s), and who do not forbid what God and His Messenger have forbidden, such as wine, nor do they practise the religion of truth, the firm one, the one that abrogated other religions, namely, the religion of Islam — from among of those who (min, ‘from’, explains [the previous] alladhīna, ‘those who’) have been given the Scripture, namely, the Jews and the Christians, until they pay the jizya tribute, the annual tax imposed them, readily (‘an yadin is a circumstantial qualifier, meaning, ‘compliantly’, or ‘by their own hands’, not delegating it [to others to pay]), being subdued, [being made] submissive and compliant to the authority of Islam.

No comments:

Post a Comment