(آیت)
وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ
[سورۃ النحل:125]
اور بحث کر ان سے اس طریق سے جو بہتر ہو۔
لفظ
جادل ، مجادلہ سے مشتق ہے اس جگہ مجادلہ سے مراد بحث ومناظرہ ہے اور بالَّتِيْ
هِىَ اَحْسَنُ ۭ سے مراد یہ ہے کہ اگر دعوت میں کہیں بحث ومناظرہ کی ضرورت پیش آ
جائے تو وہ مباحثۃ بھی اچھے طریقہ سے ہونا چاہئے روح المعانی میں ہے کہ اچھے طریقہ
سے یہ مراد ہے کہ گفتگو میں لطف اور نرمی اختیار کی جائے دلائل ایسے پیش کئے جائیں
جو مخاطب آسانی سے سمجھ سے دلیل میں یہ مقدمات پیش کئے جائیں جو مشہور ومعروف ہوں
تاکہ مخاطب کے شکوک دور ہوں اور وہ ہٹ دھرمی کے راستہ پر نہ جائے اور قرآن کریم کی
دوسری آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہ احسان فی المجادلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص
نہیں اہل کتاب کے بارے میں تو خصوصیت کے ساتھ قرآن کا ارشاد ہے (آیت) وَلَا
تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ اور دوسری آیت میں
حضرت موسیٰ وھارون علیہما السلام کو (آیت) فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا۔ کی
ہدایت دے کر یہ بھی بتلا دیا کہ فرعون جیسے سرکش کافر کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا
ہے۔
القرآن:
اور (اسی طرح) دو قسمیں ہیں اونٹ میں (بھی) اور دو قسمیں ہیں گائے میں (بھی) آپ کہیے کہ (اللہ نے) آیا دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادوں کو یا اس (بچہ) کو جسے دونوں مادہ اپنے رحموں میں لئے ہوئے ہیں ۔ کیا تم اس وقت حاضر تھے جب اللہ نے تم کو اس کا حکم دیا تھا؟
[سورۃ الانعام:144]
اشیاء کی تحلیل و تحریم اللہ کا کام ہے:
اشیاء کی تحلیل و تحریم محض خدا کے حکم سے ہو سکتی ہے اور خدا کا حکم یا بواسطہ انبیاء پہنچے گا یا بلاواسطہ حق تعالیٰ کسی کو مخاطب فرمائے تو اسے معلوم ہو۔ یہاں دونوں صورتیں منفی ہیں۔ پہلی شق کے انتفاء پر نَبِّئُوْنِیْ بِعِلْمٍ الخ میں اور دوسری کی نفی پر اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآءَ اِذْ وَصّٰکُمُ الخ میں متنبہ فرمایا ہے۔ پھر مشرکین کےدعاوی میں افتراء و اضلال کےسواء اور کیا چیز باقی رہ گئ۔ بلاشبہ اس سے زیادہ ظالم کوئی نہیں ہو سکتا جو خدا پر بہتان باندھے اور علم و تحقیق سے تہی دست ہونے کے باوجود لوگوں کو باطل اور غلط مسائل بیان کر کے گمراہ کرتا پھرے۔ جس شخص نے اس قدر ڈھٹائی اختیار کر لی اور ایسے ظلم عظیم پر کمر باندھ لی، اس کے ہدایت پانے کی توقع رکھنا فضول ہے۔
اصولیین نے آیت سے تحقیق میں مناظرہ کا حکم نکالا ہے ۔ چنانچہ یہاں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخالفین سے مناظرہ کا حکم مل رہا ہے اور آیت سے قیاس واستنباط کا بھی اثبات ہورہا ہے ۔ قال العلماء الایۃ دلت علی اثبات المناظرۃ فی العلم لان اللہ تعالیٰ امر نبیہ (علیہ السلام) بان یناظرھم ویبین لھم فساد قولھم وفیھا اثبات القول بالنظر والقیاس (قرطبی) [تفسیر ماجدی]
تاتاری شہزادی اور ایک عالم دین کا مناظرہ:
يٌحكى أن ابنة هولاكو زعيمِ التتار كانت تطوف في بغداد فرأت جمعاً من الناس يلتفـون على رجل منهم، فسألت عنه… فإذا هو عالم من علماء المسلمين، فأمرت بإحضاره، فلما مثُل بين يديها سألته: ألستم المؤمنين بالله؟
قال : بلى.
قالت: ألا تزعمون أن الله يُؤيد بنصره من يشاء؟
قال : بلى.
قالت: ألم ينصرنا الله عليكم؟
قال: بلى.
قالت: أفلا يعني ذلك أننا أحب إلى الله منكم؟
قال: لا.
قالت: لِمَ؟!
قال: ألا تعرفين راعي الغنم؟
قالت: بلى.
قال: ألا يكون مع قطيعه بعض الكلاب؟
قالت: بلى.
قال: ما يفعل الرَّاعي إذا شردت بعض أغنامه، وخرجت عن سلطانه؟
قالت: يُرسل عليها كلابه لتعيدها إلى سلطانه.
قال: كم تستمر في مُطاردة الخراف؟
قالت: ما دامت شاردة.
قال: فأنتم أيها التتار كلاب الله في أرضه وطالما بقينا شاردين عن منهج الله وطاعته فستبقون وراءنا حتى نعود إليه جل وعلا.
تاتاری شہزادی اور ایک عالم دین کا مناظرہ:
بغداد پر تاتاریوں کی فتح کے بعد ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں گشت کر رہی تھی کہ ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔ پوچھا کہ لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟ جواب آیا: ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔ ہلاکو خان کی بیٹی نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ عالم کو تاتاری شہزادی کے سامنے لا حاضر کیا گیا۔
شہزادی مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی: کیا تم لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے؟
عالم: یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں۔
شہزادی: کیا تمہارا ایمان نہیں کہ خدا جسے چاہے، غالب کرتا ہے؟
عالم: یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
شہزادی: تو کیا خدا نے آج ہمیں تم لوگوں پر غالب نہیں کر دیا ہے؟
عالم: یقیناً کردیا ہے۔
شہزادی: تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
عالم: نہیں۔
شہزادی: وہ کیسے؟
عالم: تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
شہزادی: ہاں دیکھا ہے۔
عالم: کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے اپنے کچھ کتے بھی رکھ چھوڑے ہوتے ہیں؟
شہزادی: ہاں رکھے ہوتے ہیں۔
عالم: اچھا تو اگر کچھ بھیڑیں چرواہے کو چھوڑ کو کسی طرف کو نکل کھڑی ہوں اور چرواہے کی سن کر دینے کو تیار ہی نہ ہوں، تو چرواہا کیا کرتا ہے؟
شہزادی: وہ ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتا ہے تاکہ وہ ان کو واپس اس کی کمان میں لے آئیں۔
عالم: وہ کتے کب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں؟
شہزادی: جب تک وہ فرار رہیں اور چرواہے کے اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔
عالم: تو آپ تاتاری لوگ زمین میں ہم مسلمانوں کے حق میں خدا کے چھوڑے ہوئے کتے ہیں، جب تک ہم خدا کے در سے بھاگے رہیں گے اور اس کی اطاعت اور اس کے منہج پر نہیں آجائیں گے، تب تک خدا تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا، تب تک ہمارا امن چین تم ہم پر حرام کئے رکھو گے۔ ہاں جب ہم خدا کے در پر واپس آجائیں گے، اس دن تمہارا کام ختم ہو جائے گا۔
[روض الریاحین فی حکایت الصالحین-امام عبداللہ بن سعد یافعیؒ(م768ھ)، اردو ترجمہ بزمِ اولیاء صفحہ 330]
ربوبیتِ الہٰی پر
حضرت ابراہیم کا نمرود سے مناظرہ
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْ حَآجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رِبِّہِ أَنْ آتَاہُ اللّہُ الْمُلْکَ إِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ قَالَ أَنَا أُحْیِیْ وَأُمِیْتُ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ فَإِنَّ اللّہَ یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ ﴾․
[سورہ البقرہ، آیت:258]
کیا نہ دیکھا تو نے اس شخص کو جس نے جھگڑا کیا ابراہیم سے اس کے رب کی بابت؟ اسی وجہ سے کہ دی تھی الله نے اس کو سلطنت، جب کہا ابراہیم نے میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، وہ بولا میں بھی جِلاتا اور مارتا ہوں، کہا ابراہیم نے کہ بے شک الله تو لاتا ہے سورج کو مشرق سے، اب تو لے آ اس کو مغرب کی طرف سے!! تب حیران رہ گیا وہ کافر اور الله سیدھی راہ نہیں دکھاتا بے انصافوں کو۔
ابن المنذر نے ابن جریج کے طریق سے ابن عباس (رض) سے لفظ آیت ’’ الم تر الی الذی حاج ابرہم ‘‘ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ نمرود بن کنعان تھا جس نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ مناظرہ کیا تھا۔ لوگ گمان کرتے تھے کہ یہ پہلا آدمی تھا جو زمین میں بادشاہ بنا تھا۔ اس کے پاس دو آدمی لائے گئے ان میں سے ایک کو قتل کردیا گیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا گیا۔ اور کہنے لگا میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ اور اس نے کہا کہ میں اس طرح زندہ کرتا ہوں یعنی جس کو چاہتا ہوں قتل کردیتا ہوں۔
[تفسیر الدر المنثور: سورۃ البقرۃ، آیت؍258]
امام نسفیؒ فرماتے ہیں:
اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ علم کلام میں بات کرنا اور مناظرہ کرنا مباح ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔ الم ترا لی الذی حاج ابراہیم فی ربہ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں وہ شخص جس نے ابراہیم ( علیہ السلام) سے جھگڑا کیا۔ ان کے رب کے متعلق۔
حآجّ باب مفاعلہ سے ہے اور وہ دو کے مابین ہوتا ہے۔ جیسے مقاتلہ۔ پس اس سے خود یہ نکل آیا کہ ابراہیم ( علیہ السلام) نے بھی اس سے مناظرہ کیا۔ اگر یہ جائز نہ ہوتا۔ تو ابراہیم (علیہ السلام) اس کو بذات خود نہ کرتے۔ کیونکہ انبیاء (علیہ السلام) ارتکاب حرام سے معصوم ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں کفار کو ایمان باللہ اور توحید باری تعالیٰ کی طرف بلانے کا حکم دیا گیا۔ جب ہم ان کو دعوت دیں گے تو لازماً وہ ہم سے اس پر دلیل طلب کرینگے۔ اور یہ مناظرہ کے بعد ہوگی۔ (انظر شرح التاویلات)
[تفسیر المدارک، لامام النسفی]
امام نسفیؒ فرماتے ہیں:
اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ علم کلام میں بات کرنا اور مناظرہ کرنا مباح ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔ الم ترا لی الذی حاج ابراہیم فی ربہ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں وہ شخص جس نے ابراہیم ( علیہ السلام) سے جھگڑا کیا۔ ان کے رب کے متعلق۔
حآجّ باب مفاعلہ سے ہے اور وہ دو کے مابین ہوتا ہے۔ جیسے مقاتلہ۔ پس اس سے خود یہ نکل آیا کہ ابراہیم ( علیہ السلام) نے بھی اس سے مناظرہ کیا۔ اگر یہ جائز نہ ہوتا۔ تو ابراہیم (علیہ السلام) اس کو بذات خود نہ کرتے۔ کیونکہ انبیاء (علیہ السلام) ارتکاب حرام سے معصوم ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں کفار کو ایمان باللہ اور توحید باری تعالیٰ کی طرف بلانے کا حکم دیا گیا۔ جب ہم ان کو دعوت دیں گے تو لازماً وہ ہم سے اس پر دلیل طلب کرینگے۔ اور یہ مناظرہ کے بعد ہوگی۔ (انظر شرح التاویلات)
[تفسیر المدارک، لامام النسفی]
اس آیت میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے مناظرہ کا ذکر ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے رب ہونے کی دلیل دی کہ وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ یعنی عدم سے وجود میں لاتا ہے، نمرود نے کہا کسی کو زندہ کرنا اور مارنا یہ تو میں بھی کر سکتا ہوں، چنانچہ اس نے دو قیدی منگوا کر بے قصور کو مار ڈالا اور قصور وار کو چھوڑ دیا اور کہا کہ دیکھا میں جس کو چاہوں مارتا ہوں اور جسے چاہوں زندگی دے دیتا ہوں۔
ربط:
اس آیت کریمہ سے دو واقعے بیان کرکے بتلایا جارہا ہے کہ الله تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو گم راہی کی اندھیر نگی میں بھٹکتا ہوا نہیں چھوڑتا، بلکہ انہیں ہدایت کی روشن راہوں پہ لے آتا ہے، اس کے برعکس طاغوت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہمیشہ ضلالت کے اندھیروں میں سرگرداں رہتے ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ کا بادشاہِ وقت سے مناظرہ:
حضرت ابراہیم عليه السلام نے بت پرست خاندان اور ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں، ایسے معاشرے میں ہمیشہ بادشاہِ وقت کو جھوٹے خداؤں کا مظہر اور اوتار سمجھا جاتا ہے، اس دور کے بادشاہ نمرود کو بھی یہی دعویٰ خدائی تھا اور غرور سطلنت کے نشے میں لوگوں سے اپنے لیے سجدے کراتا تھا، حضرت ابراہیم عليه السلام نے سجدہ کرنے سے انکار کیا، جس پر اس نے حضرت ابراہیم عليه السلام سے پہلا سوال یہ کیا۔ میرے علاوہ کس کو رب مانتے ہو؟ آپ عليه السلام نے فرمایا ”میرا رب وہ ہے جوزندہ کرتا ہے او رموت دیتا ہے۔ “ حضرت ابراہیم عليه السلام کا یہ جواب بالکل واضح تھا، کسی تشریح کا محتاج نہیں ہے ،بے جان چیز میں جان ڈالنے کا نام ”زندہ کرنا“ اور جان نکالنے کا نام ” مردہ کرنا“ ہے۔ یہ ذات باری تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ، لیکن کوڑھ مغز نمرود اس حقیقت کو نہ بھانپ سکا اور کہنے لگا یہ عمل تو میں بھی کر سکتا ہوں ، بادشاہ ہونے کے ناطے اپنے فیصلے کے نفاذ پر مکمل اختیار رکھتاہوں، جس کا چاہوں سر قلم کرا دوں، جسے چاہوں جان بخشی کا پروانہ دے دوں۔ حضرت ابراہیم عليه السلام جان گئے یہ میرے مدعا کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا،یا سمجھ چکا ہے، لیکن بحث کو طول دے کر الجھانا چاہتا ہے ، اس لیے آپ عليه السلام نے باری تعالیٰ کی دوسری صفت بیان فرمائی کہ میرا رب وہ ہے جو مشرق سے سورج نکالتا ہے، تم ذرا مغرب سے نکال کر دکھاؤ، نمرود حجّتِ ابراہیمی کا یہ وار سن کر بوکھلا گیا ،چیلنج کا جواب دینے سے عاجز آگیا، اگر وہ چاہتا تو الٹا یہ چیلنج حضرت ابراہیم عليه السلام کو دے سکتا تھا کہ مشرق سے سورج تو میں نکالتا ہوں، تم اپنے رب سے کہو مغرب سے نکال کر دکھائے، لیکن یہ جرأت بھی نہ ہوئی، کیوں کہ اسے یقین تھا اگر یہ چیلنج حضرت ابراہیم عليه السلام کو دیا تو ان کا رب سورج کو مغرب سے نکال دے گا، جس سے میرے جھوٹے دعوؤں کے تار پول کھل جائیں گے اور جھوٹی خدائی کے سارے سہارے ٹوٹ جائیں گے، اس لیے نہ چیلنج قبول کرنے کی ہمت اور نہ دینے کی جرات ، توحیدِ باری تعالیٰ روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی، لیکن اقتدار کے گھمنڈ نے قبولِ حق کی توفیق نہیں دی۔
ربوبیتِ الہٰی پر
حضرت موسیٰ اور فرعون کا مناظرہ
فرعون نے دوران گفتگو میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جویہ طعن کیا تھا کہ تو نے ہمارے یہاں تربیت پائی ہے اور میں تیرا مربی ہوں تو اس کے معنیٰ صرف اسی قدر نہیں تھے بلکہ اس کی تہہ میں وہ عقیدہ کام کررہا تھا جس کی شکست وریخت کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام مبعوث کئے گئے تھے یعنی سلطنت مصر کا بادشاہ صرف بادشاہ ہی نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ’’ راع‘‘(سورج) کا اوتار مانا جاتا تھا اور اس لئے فرعون کے لقب سے ملقب تھا، مصریوں کے عقیدہ میں تربیت کائنات کا معاملہ’’ راع‘‘ دیوتا کے سپرد تھا اور دنیا میں اس کا صحیح مظہر (فرعون) تھا، اب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب خدائے واحد کی پرستش اور دیوتائوں کی پوجا کے خلاف آواز بلند کی اور فرمایا: انی رسول من رب العلمین (کہ میں بھیجا ہوا ہوں رب العالمین کا) تو اول اس نے اپنی اور اپنے باپ دادا کی ربوبیت کو اس طرح ثابت کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت پر اس کا بوجھ پڑے اور جب اس طرح اصل مسئلہ کو حل ہوتے نہ دیکھا تو اب مسئلہ کو زیادہ عریاں کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مناظرہ پر آمادہ ہوگیا اور کہنے لگا: موسیٰ ! یہ تو نئی بات کیا سناتا ہے کیا میرے علاوہ بھی کوئی رب ہے کہ جس کو تو رب العلمین کہتا ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو اس کی حقیقت بیان کر، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اگر تجھ میں یقین اور ایمان صحیح کی گنجائش ہے تو تجھ کو سمجھنا چاہئے کہ میں جس ہستی کو رب العلمین کہتا ہوں وہ ذات اقدس ہے جس کے قبضۂ قدرت میں آسمان، زمین اور ان دونوں کے درمیان کی کل مخلوقات کی ربوبیت ہے، فرعون! کیا تو دعویٰ کر سکتا ہے کہ ان آسمانوں، زمینوں اور ان کے درمیان تمام مخلوقات کو تو نے پیدا کیا ہے؟ یا ان کی ربوبیت کا کارخانہ تیرے ید قدرت میں ہے؟ اگر نہیں اور بلاشبہ نہیں! تو پھر رب العلمین کی ربوبیت عام سے انکار کیوں؟ فرعون نے یہ سنا تو درباریوں کی جانب مخاطب ہو کر تعجب اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگا: الا تستمعون کیا تم سنتے ہو؟ یہ کیسی عجیب بات کہہ رہا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کے درباریوں کے اس تعجب اورحیرانی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اور اپنے سلسلہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:’’ رب العلمین ‘‘ وہ ہستی ہے جس کی ربوبیت کے اثر سے تیرا اور تیرے باپ کا وجود بھی خالی نہیں ہے یعنی جس وقت تو عالم وجود میں نہ آیا تھا تو تجھ کو پیدا اور تیری تربیت کی اور اسی طرح وہ تجھ سے پہلے تیرے آباء واجداد کو عالم وجود میں لایا اور ان کو اپنی ربوبیت سے نوازا۔ فرعون نے جب اس مسکت اور زبردست دلیل کو سنا اور کوئی جواب نہ بن پڑا تو درباریوں سے کہنے لگا: مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو خود کو تمہارا پیغمبر اور رسول کہتا ہے، مجنون اور پاگل ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ اس سے اب کوئی جواب نہیں بن پڑتا تو سوچا یہ بہتر ہے کہ اور زیادہ دل نشین پیرایہ بیان میں خدا کی ربوبیت کو واضح کیا جائے اس لئے فرمایا: یہ جو مشرق و مغرب اور اس کے درمیان ساری کائنات نظر آتی ہے اس کی ربوبیت جس کے یدِ قدرت میں ہے اسی کو میں’’ رب العلمین ‘‘ کہتا ہوں تم اگر ذرا بھی عقل وسمجھ سے کام لو تو بآسانی اس حقیقت کو پاسکتے ہو۔
غرض حضرت موسیٰ اللہ رب العلمین کے حکم کے مطابق برابر شیریں کلامی، نرم گفتاری اور رفق و لطف کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کو راہ حق دکھاتے اور رسالت کا فرض ادا فرماتے رہے اور فرعون کی تحقیر و توہین اور مجنون جیسے سخت الفاظ کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے اس کی رشد وہدایت کے لئے بہترین دلائل اور مسکت جوابات دیتے رہے۔
’’بولا فرعون کیا معنی ہیں پروردگارعالم کے ؟ کہا پروردگار آسمان اور زمین کا اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے، اگر تم یقین کرو۔ بولا اپنے گردوالوں سے کیا تم نہیں سنتے ہو؟کہا پروردگار تمہارااور پروردگار تمہارے اگلے باپ دادوں کا بولا تمہارا پیغام لانے والا جو تمہاری طرف بھیجا گیا ضرور بائولا ہے کہا پر وردگار مشرق کا اور مغرب کا اور جو کچھ ان کے بیچ میں موجود ہے اگرتم سمجھ رکھتے ہو۔‘‘(شعرائ)
ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو یاددلایا کہ جو راستہ تونے اختیار کیا ہے یہ صحیح نہیں ہے بلکہ رب العٰلمین ہی وہ ذات ہے جو لائق پر ستش ہے اور اس کے مقابلہ میں کسی انسان کا دعوائے ربوبیت کھلا ہوا شرک ہے۔ اے فرعون ! تو اس سے باز آکیونکہ اس ہستی نے جس کو میں رب العٰلمین کہہ رہا ہوں ہم پر یہ وحی نازل کی ہے کہ جو شخص اس قول حق کی خلاف ورزی اور تکذیب کرے گا اور اس سے منہ موڑے گا وہ خدا کے عذاب کامستحق ٹھہرے گا۔
انا قد اوحی الینا ان العذاب علی من کذب وتولیٰ
جو کوئی اور سرتابی کرے تو ہم پر وحی اترچکی کہ اس کے لیے عذاب کا پیام ہے۔
فرعون نے پھر وہی پہلا سوال دہرادیا:’’ اے موسیٰ ! تم دونوں کا رب کون ہے؟‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے جواب میں ایسی لاجواب بات کہی کہ فرعون حیران رہ گیا اور پہلو بدل کر بات کا رخ دوسری جانب پھیرنے کی اس طرح سعی کرنے لگا جس طرح باطل کوش مناظرین کا قاعدہ ہے کہ جب صحیح جواب نہ بن پڑے اور حقیقت حال صاف سامنے آجائے تو پھر اس کو دبانے کے لئے کج روی کے ساتھ بات کا رخ دوسری جانب پھیر دیا کرتے ہیں۔
[ماخوذ از - قصص القرآن: مولانا حفظ الرحمٰن سیو ہارویؒ]
اُلوہیتِ مسیح کا رد:
نجران کے ساٹھ عیسائیوں کا ایک موقر ومعزز وفد نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس میں تین شخص عبد المسیح عاقب بحیثیت امارت وسیادت کے ، ایہم السید بلحاظ رائے و تدبیر کے اور ابو حارثہ بن علقمہ باعتبار سب سے بڑے مذہبی عالم اور لاٹ پادری ہونے کے عام شہرت اور امتیاز رکھتے تھے، یہ تیسرا شخص اصل میں عرب کے مشہور قبیلہ’’بنی بکر بن وائل‘‘ سے تعلق رکھتا تھا، پھر پکا نصرانی بن گیا۔ سلاطین روم نے ان کی مذہبی صلابت اور مجدد شرف کو دیکھتے ہوئے بڑی تعظیم و تکریم کی۔ علاوہ بیش قرار مالی امداد کے اس کے لئے گرجے تعمیر کئے اور امور مذہبی کے اعلیٰ منصب پر مامور کیا۔ یہ وفد بارگاہ رسالت میں بڑی آن بان سے حاضر ہوا اور متنازع فیہ مسائل میں حضورﷺ سے گفتگو کی جس کی پوری تفصیل محمد بن اسحاق کی سیرۃ میں منقول ہے۔ سورئہ ’’آل عمران‘‘ کا ابتدائی حصہ تقریباً اسی نوے آیات تک اسی واقعہ میں نازل ہوا۔ عیسائیوںکا پہلا اور بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام بعینہٖ خدایا خدا کے بیٹے یا تین خدائوں میں کے ایک ہیں۔ سورئہ ہذا کی پہلی آیت میں توحید خالص کا دعویٰ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی جو صفات’’حی قیوم‘‘ بیان کی گئیں وہ عیسائیوں کے اس دعوے کو صاف طور پر باطل ٹھہراتی ہیں ۔چنانچہ حضورﷺ نے دوران مناظرہ میں ان سے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ حیّ( زندہ) ہے جس پر کبھی موت طاری نہیں ہوسکتی۔ اسی نے تمام مخلوقات کو وجود عطاء کیا اور سامان بقاء پیدا کر کے ان کو اپنی قدرت کاملہ سے تھام رکھا ہے۔ برخلاف اس کے عیسیٰ علیہ السلام پر یقینا موت وفنا آکر رہے گی اور ظاہر ہے جو شخص خود اپنی ہستی کو برقرار نہ رکھ سکے دوسری مخلوقات کی ہستی کیا برقرار رکھ سکتا ہے، ’’نصاریٰ‘‘ نے سن کر اقرار کیا۔( کہ بیشک صحیح ہے)[تفسیر عثمانی ص ۱۷۲]
***********************
رسول اللہ ﷺ کا نصاری کے ساتھ مناظرہ و مباہلہ
انبیاء کی زندگی میں دیکھنے کی بات یہی نہیں کہ وہ کیا کیا معجزات کر گئے ہیں بلکہ دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ وہ انسانی زندگی پر کس حد تک اثر انداز ہو کر گئے ہیں اور انسانی فکر و عمل کو کونسی ایسی سمتیں دے گئے ہیں جو نہایت دور رس اثرات کی حامل ہوں۔ اس پہلو سے غیر مسلم مؤلفین تک نے محمدﷺ کے تاریخ انسانی پر اثرات کے حوالے سے جو جو کچھ لکھا ہے اس سے عقل والوں کو دنگ کر کے رکھ دیا ہے۔
’محمدﷺ کی تلوار‘ کے عیب جوؤں کو کچھ جواب ہم دے چکے۔ محمدﷺ کے ”جہاد“ بمعنیٰ ”قتال“ کی بابت اِس سے زیادہ گفتگو کی یہاں گنجائش نہیں۔ ”دلیل“ کی قوت درحقیقت ایک نبی کے ”جدال“ کے اندر بولتی ہے۔ فکر و شعور اور عقل و منطق کی دنیا میں باطل کو نیست و نابود کر دینے پر بہترین مثال قرآنی اندازِ خطاب خود ہے۔ اِس کی عملی تصویر کسی کو دیکھنا ہو تو وہ محمدﷺ کا معرکۂ حجت و بیان دیکھے۔
اِس کی بے شمار مثالیں آپ کے عہد مکی و مدنی سے پیش کی جا سکتی ہیں مگر ایک مختصر منظر ہم اِن لوگوں کو اہل کتاب کے ساتھ ہونے والے جدال ہی کا دکھائیں گے۔ بائبل کے عہد جدید میں اِنہوں نے مخالفوں کے روبرو مسیح علیہ السلام کا بھی اعتماد دیکھا ہے، جوکہ ایک سچے آدمی کا خاصہ ہوا ہی کرتا ہے۔ ”دلیل“ کی قوت آدمی میں جب بولتی ہے تو اس کا کیا رعب ہوتا ہے، اِس کا اندازہ یقینا مسیح ؑ کی زندگی کو دیکھ کر ہوتا ہے کیونکہ وہ اللہ کا سچا نبی تھا اور ”ایمان بالغیب“ کے داعیِ اولین کو ایک ایسا ہی غیر متزلزل یقین دکھانا ہوتا ہے! وجہ یہ کہ یہ معرکہ ہے ہی ”ایمان بالغیب“ کا جس میں کچھ پردے حائل رکھے جانا ”پلان“ کا حصہ ہے ورنہ بات اگر ”ایمان بالشہادۃ“ کی ہوتی تو اِس ”شدتِ یقین“ کو سامنے لایا جانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ایک ”غیر متزلزل یقین“ جس سے منکر دہل کر رہ جائیں، اِس کی ایک نہایت مختصر جھلکی یہ نبیِ خاتم المرسلینﷺ کی شخصیت میں بھی دیکھیں، کہ یہ جھگڑا، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، ہے ہی ”ایمان بالغیب“ کا:
عرب میں سب سے بڑا کلیسا نجران کے اندر پایا جاتا تھا۔ رومن ایمپائر اِس پر بے تحاشا خرچ کرتی اور اِسے مال ودولت اور وسائل کی کوئی کمی نہ آنے دیتی تھی۔ جزیرۂ عرب میں نجران کے گرجا کو کعبۂ مکہ کے بعد بطورِ عبادت گاہ سب سے نمایاں مقام حاصل تھا۔ بلکہ مقابلے میں لاکر اِس کو ’کعبۂ نجران‘ تک کہا جاتا تھا۔ عرب کا مشہور شاعر، الاعشیٰ یہاں سے ایک بھاری عطیہ پا کر اِس کا قصیدہ کہہ چکا ہے اور وہ آج بھی عربی ادب کا حصہ ہے۔
۹ ہجری میں اِس کلیسا کے اسقفِ اعظم Chief Bishop حارثہ بن علقمہ کو نبیِ آخر الزمان کی جانب سے نامۂ مبارک جاتا ہے کہ ہدایت قبول کریں اور اگر قبول نہ ہو تو جزیہ دے کر مملکتِ اسلام کے زیر نگیں ہوں۔ عرب کی یہ سب سے بڑی عیسائی مذہبی شخصیت تب نجران کی دو چوٹی کی شخصیتوں کو لے کر، کہ جو مشترکہ طور پر امورِ مملکت انجام دیتے تھے ایک عبد المسیح جس کا لقب عاقب تھا اور دوسرا اَیہم یا شرحبیل جس کا لقب سید تھا، بمع 24 سردارانِ نجران مدینہ پہنچتی ہے، جبکہ وفد کی کل تعداد ساٹھ ہے۔ سورۃ آلِ عمران کا ابتدائی حصہ اِسی موقعہ پر نازل ہوا، لہٰذا بقیہ واقعہ ہم تفسیر کے مشہور نام ابن کثیرؒ، اور سیرت کے مشہور نام زاد المعاد از ابن قیمؒ سے اپنے الفاظ میں مختصر طور پر نقل کریں گے:
نجران کے اِس وفد کو اعزاز واکرام کے ساتھ مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا۔ نجران کے ساٹھ عیسائی نمائندے بشمول عرب کا سب سے بڑا عیسائی عالم اور بشپ مسجدِ نبوی کے مہمان! اِن نصاریٰ کے اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھنے کا وقت ہو جاتا ہے اور وہ مسجدِ نبوی کے اندر ہی اپنی نماز پڑھنے لگتے ہیں۔ مسجد نبوی کے اندر نصاریٰ کی نماز! لوگ انہیں روکنے کیلئے بھاگتے ہیں، مگر نبی آخر الزمانﷺ روکنے والوں کو روک دیتے ہیں کہ دَعُو ´ہُم ´ ”اِن کو چھوڑ دو“۔ تب یہ لوگ مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔
آخر نبیﷺ کی ان کے ساتھ مجلس ہوئی۔ دو چوٹی کے عیسائی عالم وفد نجران کی جانب سے گفتگو کر رہے تھے۔
نبیﷺ نے ان دونوں کو مخاطب کر کے فرمایا: اسلِمَا یعنی ”خدا کے فرماں بردار بندے بن جاؤ“۔
دونوں نے جواب دیا:اَسلَمنَا ’ہم خدا کے فرماں بردار ہیں‘۔
آپ نے فرمایا: اَنَّکُمَا لَم تُسلِمَا فَاَسلِمَا ”تم خدا کے فرماں بردار نہیں ہو، یکسو ہوکر خدا کے فرماں بردار بن جاؤ“۔
وہ بولے: بلَیٰ قَد اَسلَمنَا قبلکَ ’کیوں نہیں، ہم آپ سے پہلے کے فرماں بردار ہیں‘۔
فرمایا: کَذِبتُمَا، یَمنَعُکُمَا مِنَ الاَسلامِ ادّعَاؤکُمَا لِلّٰہِ وَلَدًا وَعِبَادَتُکُمَا الصَلِیبَ وَ اَکلُکُمَا الخِنزِیرَ ”غلط کہتے ہو۔ خدا کی (یکسو) بندگی کیسی جب تمہارا دعویٰ ہے کہ خدا کا بچہ ہے، جب تم صلیب کو پوجتے ہو اور خنزیر کھاتے ہو“۔
تب وہ دونوں بولے: ’تو پھر اے محمد! مسیح ؑکا باپ کون ہے‘؟ اِس کا جواب آپ نے فوری نہ دیا، کہ اِس کا جواب قرآن کو خود دینا تھا۔ تب سورۂ آل عمران کی ابتدا کی اَسی سے اوپر آیتیں نازل ہوئیں (جن میں مسیح ؑ کی حقیقت ہی نہایت تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے)۔ یہ آیات ان کو پڑھ کر سنا دی گئیں۔ خاص طور اس سلسلۂ آیات کا یہ حصہ:
” عیسیٰ ؑ کی مثال خدا کے ہاں ایسی ہی تو ہے جیسی آدم ؑ کی، جسے اُس نے مٹی سے بنا ڈالا تھا اور پھر کہا تھا ’ہوجا‘ سو وہ ہو گیا! حق تیرے رب کی طرف سے ہے، پس تو شک میں پڑنے والوں میں نہ ہو۔ تو پھر اب بھی جو شخص تجھ سے اِس معاملہ میں جھگڑنے پر (مصر) ہے، جبکہ یقینی علم تیرے پاس پہنچ چکا ہے، تو پھر کہہ دے: ’آجاؤ، ہم بلا لاتے ہیں اپنے اپنے فرزندوں کو اور اپنی اپنی عورتوں کو اور خود اپنے آپ کو، پھر ہم (مل کر) مباہلہ کرتے ہیں اور باطل بات کرنے والوں پر خدا کی لعنت بھیج ڈالتے ہیں‘۔ یہی ہے حق کا ٹھیک ٹھیک بیان، اور نہیں ہے کوئی الٰہ مگر ایک خدا ہی، اور بے شک اللہ ہی طاقتور ہے اور حکمت کا مالک“۔(آل عمران: ۹۵-۲۶)
اِسی سلسلۂ آیات میں وہ مشہور آیت تھی جو اہل کتاب کو دعوت دی جانے کی بنیاد ہے، اور جسے آپ نے ملوکِ نصاریٰ کو اپنے خطوط میں بھی لکھ کر بھیجا تھا:
”اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے، یہ کہ نہ عبادت کریں ہم مگر ایک اللہ کی، اور نہ شریک کریں اُس کے ساتھ کسی چیز کو، اور نہ پکڑیں ہم اپنے میں سے کسی کو اللہ کے ماسوا، رب۔ تو اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم لوگ کہہ دو کہ پھر گواہ رہو، ہم تو صرف اللہ ہی کو اپنا رخ بندگی سونپ دینے والے ہیں“(آل عمران: ۴۶)
اسی دوران، نجران کے نصاریٰ کا سن کر احبارِ یہود بھی آ پہنچے۔ اب یہود اور نصاریٰ کے مابین بھی بحثیں ہونے لگیں۔ نصاریٰ اور یہود دونوں ابراہیم ؑ پر اپنا حق جتا رہے تھے۔ اِس پر ان دونوں کو قرآن کی آیت سنائی گئی:
”اے اہل کتاب! تم کیوں حجت کرتے ہو ابراہیم ؑ کے بارہ میں، حالانکہ نہیں نازل کی گئی تھی تورات اور نہ انجیل مگر ابراہیم ؑ کے بہت بعد، تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟ (آل عمران: ۵۶)
اور اس سے ذرا بعد:
”ابراہیم نہ کبھی یہودی تھا اور نہ عیسائی، وہ تو تھا خدا کا یکسو فرماں بردار۔ اور نہ تھا وہ مشرکین میں سے۔ ابراہیم ؑ پر سب سے بڑھ کر حق تو ان کا ہے جو اس کی پیروی کر کے دکھائیں۔۔۔۔“ (آل عمران: ۵۶)
یہ بھی مذکور ہے کہ اِس موقعہ پر یہود اور نصاریٰ دونوں کے مجمعے نبیﷺ کو مخاطب کر کے کہنے لگے: ’تو اے محمد صاحب! کیا آپ کی چاہت ہے کہ مسیح ؑ کو چھوڑیں اور آپ کو پوجنے لگیں؟‘
آپ کا جواب تھا: ”اللہ کی پناہ کہ ہم اللہ کے ماسوا کسی کو پوجیں یا اُس کے ماسوا کسی کو پوجنے کی دعوت دیں۔ اُس نے مجھے اِس چیز کے ساتھ مبعوث نہیں کیا نہ مجھے یہ مشن سونپا ہے!“۔ اور پھر سورۂ آل عمران کے اسی سلسلۂ آیات کا یہ حصہ سنایا گیا:
”کسی بشر سے کبھی یہ بات نہیں ہو سکتی ہے کہ اللہ اُسے کتاب اور فہم اور نبوت عطا فرمائے اور پھر وہ لوگوں سے کہنے لگے: خدا کو چھوڑ تم میرے ہی بندے بن جاؤ، وہ تو یہی کہے گا کہ تم اللہ والے بنو۔۔۔۔“(آل عمران: ۹۷)
غرض معاملہ کو آخری حد تک واضح کر دیا گیا کہ مسئلہ خدا کی کبریائی اور مسیح ؑ کی عبدیت کا ہے۔ مسیح ؑ خدا کی برگزیدہ مخلوق ہے مگر خدا کا شریک کوئی نہیں۔ خدا کی کبریائی محمدﷺ اور امتِ محمدﷺ کا سب سے بڑا موضوع ہے۔
مباہلہ :
پھر مباہلہ کی نوبت آئی اور مباہلہ کی آیت نجران کے بشپ اور علمائے نصاریٰ کو سنا دی گئی۔
آیت :فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ۣ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ 61﴾ ( آل عمران)
ترجمہ: ”پھر اگر کوئی شخص علم (وحی)آجانے کے بعد اس بارے میں جھگڑا کرے تو آپ اسے کہیے :آؤ ہم اور تم اپنے اپنے بچوں کو اور بیویوں کو بلالیں اور خود بھی حاضر ہوکر اللہ سے گڑ گڑا کر دعا کریں کہ ”جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو ۔”
ان کو سوچنے کیلئے پورا ایک دن دے دیا گیا۔ سارا دن وہ ان آیات اور اس جدال پر غور و فکر کرتے رہے۔ اگلی صبح نبیﷺ نکلے، اپنے ساتھ اپنے نواسوں حسنؓ اور حسینؓ اور چچیرے بھائی علیؓ کو لیا، پیچھے پیچھے نبی کی صاحبزادی فاطمہؓ چل رہی تھیں۔ یوں اپنا یہ خانوادہ ساتھ لئے آپ مباہلہ کیلئے تیار ہو کر نکل آئے۔ اب مسیح ؑ کو خدا کا بیٹا کہنے والے بشپ اور دیگر علمائے نصاریٰ کی باری تھی کہ مقابلے پر نکلیں اور اپنے اس عقیدہ پر کہ ’خدا کی کوئی اولاد ہوئی ہے‘ باطل بات کہنے والے فریق پر خدا کی لعنت ہو جانے کی دعا میں شامل ہوں۔ نبیﷺ نکل چکے تھے اور اساقفۂ نصاریٰ کے منتظر تھے۔ وفد نے خدا کی وحدانیت کے موضوع پر نبیﷺ کو اِس قدر سنجیدہ اور مباہلہ کیلئے اس قدر تیار دیکھاتو عاقب اور سید ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی کرنے لگے: تم جانتے ہو جس قوم نے بھی کسی نبی سے مباہلہ کیا نہ ان کا کوئی بڑا بچا اور نہ ان کے کسی چھوٹے نے نشو و نما پائی۔ اگر مباہلہ کر لیتے ہیں تو اپنا کچھ بھی نہ بچے گا۔ اپنے دین پہ قائم ہی رہنا ہے تو اِس کے ساتھ صلح کی شروط طے کر لو اور واپس اپنے گھر چلے جاؤ۔ تب انہوں نے مباہلہ سے انکار کیا اور اپنے دین پر قرار رہتے ہوئے جزیہ تسلیم کر کے واپسی کا عزم کیا۔
بشپ کے اپنے بھائی کرز بن علقمہ نے نبیﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ واپسی سے کچھ ہی دیر بعد عاقب اور سید بھی مسلمان ہو چکے تھے۔ اپنی جانب سے افسرِ مجاز کے طور پر نبی ﷺ نے پہلے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ اور بعد ازاں حضرت علی بن ابی طالبؓ کو نجران بھیجا، جن کی تعلیم اور حسن تعامل کے زیر اثر، کچھ ہی دیر میں نجران سے آنے والا ’جزیہ‘ ”زکات“ میں بدلنے لگا، یعنی نجران مسلمان ہو گیا۔۔۔۔ جبکہ اہل نجران کو اپنے دین پر باقی رہنے کی آزادی دینے کیلئے جو وثیقہ لکھ کر دیا گیا تھا وہ بھی خاص طور پر حق رکھتا ہے کہ ’محمدﷺ کی تلوار‘ کا چرچا کرنے والے اسے بغور پڑھیں:
ِ ”شروع اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے۔ نبی محمدﷺ کی طرف سے برائے بشپ ابو الحارث ودیگر اساقفۂ نجران، علاوہ ازیں وہاں کے کاہنوں، راہبوں، گرجا گھروں کے لوگوں، ان کے خدام، ان کے اہل ملت اور ان کے گلی کوچوں کے لوگوں کیلئے۔ ہر وہ چیز جو ان کے ہاتھ میں ہے چاہے کم ہے چاہے زیادہ اس پر ان کو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تحفظ حاصل ہوگا۔ ان کا کوئی بشپ نہ بدلا جائے گا۔ ان کا کوئی راہب اور کوئی کاہن نہ بدلا جائے گا۔ ان کے حقوق میں سے کوئی حق موقوف نہ کیا جائے گا اور نہ ان کے افسران میں سے کوئی تبدیل کیا جائے گا۔ وہ جس طریقے پر رہتے آئے ہیں ان کو اس سے ہٹایا نہ جائے گا۔ اِس پر اُن کو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے حاصل تحفظ برقرار رہے گا جب تک کہ وہ اخلاص اور بہتری کی راہ پر قائم رہیں، نہ کسی ظالم کے ساتھ مل کر پھریں اور نہ خود ظلم کی راہ پر چلنے لگیں“(از زاد المعاد، مؤلفہ ابن القیم)
کیا یہ اہل کتاب بھی اپنی تاریخ سے عدل اور انصاف اور احسان پر مبنی ایسا کوئی وثیقہ لا کر دکھا سکتے ہیں جس طرح کے وثیقے محمدﷺ کی طرف سے صلح پر آمادہ قوموں کو جاری کر کے دیے جاتے تھے؟ ؟؟
آج جو لوگ ’محمدﷺ کی تلوار‘ کو بنیاد بنا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں، کون نہیں جانتا ان کو اصل تکلیف ’محمدﷺ کی تلوار‘ سے نہیں بلکہ ان کی اصل تکلیف یہ ہے کہ اِنکے سامنے ایک ایسا حق ہے جسے نہ یہ قبول کرنے کیلئے تیار ہیں اور نہ زمین میں اُسکا راستہ چھوڑ دینے پر۔البتہ یہ ایک ایسا حق ہے جس کے مقابلے پرآنے کی یہ ہمت بھی نہیں رکھتے! ”محمدﷺ کی دلیل“ کے بارے میں تو یہ اپنا اظہارِ تکلیف کرنے سے رہے، لے دے کر ’تلوار‘ بچ جاتی ہے اسی کے خلاف بول بول کر دل کا غم تو ہلکا کیا جاسکتا ہے!
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِيُّ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ عَنْ حَكِيمِ بْنِ شَرِيكٍ الْهُذَلِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَيْمُونٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُجَالِسُوا أَهْلَ الْقَدَرِ وَلَا تُفَاتِحُوهُمْ۔[ابوداود]
ترجمہ:
عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بن خطاب نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "قدریوں (تقدیر کا انکار کرنے والوں) کو اپنے پاس نہ بٹھاؤ (ان کی مجلس میں نہ آؤ جاؤ) اور نہ ہی ان سے فیصلے کراؤ یا ان سے مناظرہ وغیرہ کرنے میں پہل کرو"۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِحْتَجَّ اٰدَمُ وَمُوْسٰی عِنْدَ رَبِّھِمَا فَحَجَّ اٰدَمُ مُوْسٰی قَالَ مُوْسٰی اَنْتَ اٰدَمُ الَّذِیْ خَلَقَکَ اللّٰہُ بِےَدِہٖ وَنَفَخَ فِےْکَ مِنْ رُّوْحِہٖ وَاَسْجَدَ لَکَ مَلٰئِکَتَہُ وَاَسْکَنَکَ فِیْ جَنَّتِہٖ ثُمَّ اَھْبَطْتَّ النَّاسَ بِخَطِےْئَتِکَ اِلَی الْاَرْضِ قَالَ اٰدَمُ اَنْتَ مُوْسٰی الَّذِی اصْطَفَاکَ اللّٰہُ بِرِسَالَتِہٖ وَبِکَلَامِہٖ وَاَعْطَاکَ الْاَلْوَاحَ فِےْھَا تِبْےَانُ کُلِّ شَیْءٍ وَقَرَّ بَکَ نَجِّےًا فَبِکَمْ وَجَدتَّ اللّٰہَ کَتَبَ التَّورٰۃَ قَبْلَ اَنْ اُخْلَقَ قَالَ مُوْسٰی بِاَرْبَعِےْنَ عَامًا قَالَ اٰدَمُ فَھَلْ وَجَدْتَّ فِےْھَا وَعَصٰی اٰدَمُ رَبَّہُ فَغَوٰی قَالَ نَعَمْ قَالَ اَفتَلُوْمُنِی عَلٰی اَنْ عَمِلْتُ عَمَلًا کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیَّ اَنْ اَعْمَلَہُ قَبْلَ اَنْ ےَّخْلُقَنِیْ بِاَرْبَعِےْنَ سَنَۃً قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَحَجَّ اٰدَمُ مُوْسَی۔(صحیح مسلم)
ترجمہ:
" اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا (عالم رواح میں) آدم و موسیٰ علیہما السلام نے اپنے پروردگار کے سامنے مناظرہ کیا اور حضرت آدم علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام پر غالب آگئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ وہی آدم ہیں جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا آپ میں اپنی روح پھونکی تھی، فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا تھا اور اپنی جنت میں آپ کو رکھا تھا اور پھر آپ نے اپنی خطاء سے لوگوں کو زمین پر اتروا دیا تھا (یعنی اگر آپ خطا نہ کرتے تو یہاں زمین پر نہ اتارے جاتے اور آپ کی اولاد اس دنیا میں نہ پھیلتی بلکہ جنت میں رہتی) آدم علیہ السلام نے کہا تم وہی موسیٰ ہو جن کو اللہ نے اپنے منصب رسالت سے نواز کر برگزیدہ کیا اور ہم کلامی کے شرف سے مشرف فرمایا تھا اور تم کو وہ تختیاں دی تھیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا اور پھر تم کو سر گوشی کے لئے تقرب کی عزت بخشی تھی اور کیا تم جانتے ہو اللہ نے میری پیدائش سے کتنے عرصہ پہلے تورات کو لکھ دیا تھا؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا " چالیس سال پہلے! آدم علیہ االسلام نے پوچھا " کیا تم نے تورات میں یہ لکھے ہوئے الفاظ نہیں پائے (ا یت وعصی آدم ربہ فغوی) (یعنی آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور گمراہ ہوگیا۔ موسی علیہ السلام نے کہاں ہاں۔ آدم علیہ السلام نے کہا پھر تم مجھ کو میرے اس عمل پر کیوں ملامت کرتے ہو جس کو اللہ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میرے لئے لکھ دیا تھا،" رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا " اس دلیل سے ) آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غائب آگئے۔" (صحیح مسلم)
تشریح
حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جو دلیل پیش کی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے چونکہ میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے یہ لکھ دیا تھا کہ میں شیطان کے گمراہ کرنے کی وجہ سے بہک جاؤں گا اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے شجر ممنوع کا استعمال کرلوں گا۔ لہٰذا اس میں میرے کسب و اختیار کو کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ گمراہی میرے مقدر میں لکھی گئی تھی اس لئے اس کا مجھ سے صادر ہونا لازم و ضروری تھا لہٰذا میں مورد الزام نہیں ٹھہر سکتا۔
علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس گمراہی کو میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لئے لوح محفوظ میں مقدر فرما دیا تھا جس کا ملطب یہ تھا کہ وہ ضرور بروقت وقوع پذیر ہوگی، لہٰذا جب وقت مقدر آپہنچا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ امر مقدر اور اللہ تعالیٰ کے علم کے خلاف دہ عمل ممنوع سر زد نہ ہوتا چنانچہ تم مجھ پر یہ الزام تو ڈال رہے ہو اور تمہیں سبب ظاہری یعنی میرا کسب و اختیار تو یاد رہا لیکن اصل چیز یعنی مقدر سے تم صرف نظر کر گئے۔
حضرت آدم و موسیٰ علیہما السلام کا مناظرہ اس عالم دنیا میں نہیں ہوا جہاں اسباب سے قطع نظر درست نہیں ہے بلکہ یہ مناظرہ عالم بالا میں ان دونوں کی روجوں کے درمیان ہوا تھا۔ اسی لئے یہاں یہ بات بطور خاص ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر کوئی عاصی و گناہ گار اس قسم کی دلیل کا سہارا لینے لگے تو وہ اس کے لئے کار آمد نہیں ہوگی، کیونکہ حضرت آدم کا معاملہ اس جہاں میں تھا جہاں وہ اسباب کے مکلف نہیں تھے اور پھر ان کی یہ خطاء بارگارہ الوہیت سے معاف بھی کر دی گئی تھی، لہٰذا یہاں تو کسب و اختیار اور ابواب کی بنا پر مواخذہ ہوگا کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ پر جو تختیاں اتری تھیں وہ زمرد کی تھیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ستر اونٹوں پر لادی جاتی تھیں، ان تختیوں میں ان کی قوم کے لئے اللہ کی جانب سے احکام و مسائل لکھے ہوئے تھے، ان تختیوں میں جو مضامین مذکور تھے وہ قدیم ہیں لہٰذا چالیس سال کی تحدید ان مضامین کے بارہ میں نہیں ہوگی بلکہ یہ کہا جائے گا کہ وہ مضامین جو ان تختیوں پر لکھے گئے تھے، ان کے لکھنے کی مدت آدم کی پیدائش سے چالیس سال قبل ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عِيَاضِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِيِّ قَالَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَنَحْنُ عِنْدَهَا جُلُوسٌ مَرْجِعَهُ مِنْ الْعِرَاقِ لَيَالِيَ قُتِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَتْ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ هَلْ أَنْتَ صَادِقِي عَمَّا أَسْأَلُكَ عَنْهُ تُحَدِّثُنِي عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَمَا لِي لَا أَصْدُقُكِ قَالَتْ فَحَدِّثْنِي عَنْ قِصَّتِهِمْ قَالَ فَإِنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ وَحَكَمَ الْحَكَمَانِ خَرَجَ عَلَيْهِ ثَمَانِيَةُ آلَافٍ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ فَنَزَلُوا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا حَرُورَاءُ مِنْ جَانِبِ الْكُوفَةِ وَإِنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا انْسَلَخْتَ مِنْ قَمِيصٍ أَلْبَسَكَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَاسْمٍ سَمَّاكَ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ ثُمَّ انْطَلَقْتَ فَحَكَّمْتَ فِي دِينِ اللَّهِ فَلَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ تَعَالَى فَلَمَّا أَنْ بَلَغَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا عَتَبُوا عَلَيْهِ وَفَارَقُوهُ عَلَيْهِ فَأَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَّا رَجُلٌ قَدْ حَمَلَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا أَنْ امْتَلَأَتْ الدَّارُ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ دَعَا بِمُصْحَفٍ إِمَامٍ عَظِيمٍ فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَصُكُّهُ بِيَدِهِ وَيَقُولُ أَيُّهَا الْمُصْحَفُ حَدِّثْ النَّاسَ فَنَادَاهُ النَّاسُ فَقَالُوا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا تَسْأَلُ عَنْهُ إِنَّمَا هُوَ مِدَادٌ فِي وَرَقٍ وَنَحْنُ نَتَكَلَّمُ بِمَا رُوِينَا مِنْهُ فَمَاذَا تُرِيدُ قَالَ أَصْحَابُكُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ خَرَجُوا بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ كِتَابُ اللَّهِ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فِي امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقْ اللَّهُ بَيْنَهُمَا فَأُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ دَمًا وَحُرْمَةً مِنْ امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ وَنَقَمُوا عَلَيَّ أَنْ كَاتَبْتُ مُعَاوِيَةَ كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَقَدْ جَاءَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ حِينَ صَالَحَ قَوْمَهُ قُرَيْشًا فَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ سُهَيْلٌ لَا تَكْتُبْ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ كَيْفَ نَكْتُبُ فَقَالَ اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ أُخَالِفْكَ فَكَتَبَ هَذَا مَا صَالَحَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قُرَيْشًا يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ عَلِيٌّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَخَرَجْتُ مَعَهُ حَتَّى إِذَا تَوَسَّطْنَا عَسْكَرَهُمْ قَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ يَخْطُبُ النَّاسَ فَقَالَ يَا حَمَلَةَ الْقُرْآنِ إِنَّ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُهُ فَأَنَا أُعَرِّفُهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا يَعْرِفُهُ بِهِ هَذَا مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ وَفِي قَوْمِهِ قَوْمٌ خَصِمُونَ فَرُدُّوهُ إِلَى صَاحِبِهِ وَلَا تُوَاضِعُوهُ كِتَابَ اللَّهِ فَقَامَ خُطَبَاؤُهُمْ فَقَالُوا وَاللَّهِ لَنُوَاضِعَنَّهُ كِتَابَ اللَّهِ فَإِنْ جَاءَ بِحَقٍّ نَعْرِفُهُ لَنَتَّبِعَنَّهُ وَإِنْ جَاءَ بِبَاطِلٍ لَنُبَكِّتَنَّهُ بِبَاطِلِهِ فَوَاضَعُوا عَبْدَ اللَّهِ الْكِتَابَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَرَجَعَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ آلَافٍ كُلُّهُمْ تَائِبٌ فِيهِمْ ابْنُ الْكَوَّاءِ حَتَّى أَدْخَلَهُمْ عَلَى عَلِيٍّ الْكُوفَةَ فَبَعَثَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى بَقِيَّتِهِمْ فَقَالَ قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِنَا وَأَمْرِ النَّاسِ مَا قَدْ رَأَيْتُمْ فَقِفُوا حَيْثُ شِئْتُمْ حَتَّى تَجْتَمِعَ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا تَسْفِكُوا دَمًا حَرَامًا أَوْ تَقْطَعُوا سَبِيلًا أَوْ تَظْلِمُوا ذِمَّةً فَإِنَّكُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ فَقَدْ نَبَذْنَا إِلَيْكُمْ الْحَرْبَ عَلَى سَوَاءٍ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا يَا ابْنَ شَدَّادٍ فَقَدْ قَتَلَهُمْ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا بَعَثَ إِلَيْهِمْ حَتَّى قَطَعُوا السَّبِيلَ وَسَفَكُوا الدَّمَ وَاسْتَحَلُّوا أَهْلَ الذِّمَّةِ فَقَالَتْ أَاللَّهِ قَالَ أَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كَانَ قَالَتْ فَمَا شَيْءٌ بَلَغَنِي عَنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ يَتَحَدَّثُونَهُ يَقُولُونَ ذُو الثُّدَيِّ وَذُو الثُّدَيِّ قَالَ قَدْ رَأَيْتُهُ وَقُمْتُ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَيْهِ فِي الْقَتْلَى فَدَعَا النَّاسَ فَقَالَ أَتَعْرِفُونَ هَذَا فَمَا أَكْثَرَ مَنْ جَاءَ يَقُولُ قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي وَرَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي وَلَمْ يَأْتُوا فِيهِ بِثَبَتٍ يُعْرَفُ إِلَّا ذَلِكَ قَالَتْ فَمَا قَوْلُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ قَامَ عَلَيْهِ كَمَا يَزْعُمُ أَهْلُ الْعِرَاقِ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَتْ هَلْ سَمِعْتَ مِنْهُ أَنَّهُ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالَ اللَّهُمَّ لَا قَالَتْ أَجَلْ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ يَرْحَمُ اللَّهُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّهُ كَانَ مِنْ كَلَامِهِ لَا يَرَى شَيْئًا يُعْجِبُهُ إِلَّا قَالَ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ فَيَذْهَبُ أَهْلُ الْعِرَاقِ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ وَيَزِيدُونَ عَلَيْهِ فِي الْحَدِيثِ
ترجمہ:
عبیداللہ بن عیاض کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چند روز بعد حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ عراق سے واپس آکر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت ہم لوگ حضرت عائشہ ؓ کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا عبداللہ! میں تم سے جو پوچھوں گی، اس کا صحیح جواب دوگے؟ کیا تم مجھے ان لوگوں کے بارے بتا سکتے ہو جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوشہید کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے سچ کیوں نہیں بولوں گا، فرمایا کہ پھر مجھے ان کا قصہ سناؤ۔
حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت شروع کی اور دونوں ثالثوں نے اپنا اپنا فیصلہ سنادیا، تو آٹھ ہزار لوگ جنہیں قراء کہا جاتا تھا ، نکل کر کوفہ کے ایک طرف حروراء نامی علاقے میں چلے گئے، وہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوگئے تھے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ اللہ نے آپ کو جو قمیص پہنائی تھی، آپ نے اسے اتار دیا اور اللہ نے آپ کو جو نام عطاء کیا تھا آپ نے اسے اپنے آپ سے دور کردیا، پھر آپ نے جاکر دین کے معاملے ثالث کو قبول کرلیا، حالانکہ حکم تو صرف اللہ کا ہی چلتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ لوگ ان سے ناراض ہو کر جدا ہوگئے ہیں تو انہوں نے منادی کو یہ نداء لگانے کا حکم دیا کہ امیرالمومنین کے پاس صرف وہی شخص آئے جس نے قرآن کریم اٹھا رکھا ہو، جب ان کا گھر قرآن پڑھنے والوں سے بھر گیا تو انہوں نے قرآن کریم کا ایک بڑا نسخہ منگوا کر اپنے سامنے رکھا اور اسے اپنے ہاتھ سے ہلاتے ہوئے کہنے لگے اے قرآن! لوگوں کو بتا، یہ دیکھ کر لوگ کہنے لگے امیرالمومنین! آپ اس نسخے سے کیا پوچھ رہے ہیں ؟ یہ تو کاغذ میں روشنائی ہے، ہاں ! اس کے حوالے ہم تک جو احکام پہنچے ہیں وہ ہم ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں، آپ کا اس سے مقصد کیا ہے؟ فرمایا تمہارے یہ ساتھی جو ہم سے جدا ہو کر چلے گئے ہیں ، میرے اور ان کے درمیان قرآن کریم ہی فیصلہ کرے گا، اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں میاں بیوی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک ثالث مرد کی طرف سے اور ایک ثالث عورت کے اہل خانہ کی طرف سے بھیجو، اگر ان کی نیت محض اصلاح کی ہوئی تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، میرا خیال ہے کہ ایک آدمی اور ایک عورت کی نسبت پوری امت کا خون اور حرمت زیادہ اہم ہے (اس لئے اگر میں نے اس معاملہ میں ثالثی کو قبول کیا تو کونسا گناہ کیا؟) اور انہیں اس بات پر جو غصہ ہے کہ میں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خط و کتاب کی ہے ( تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو پھر مسلمان اور صحابی ہیں) جب ہم نبی ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں تھے اور سہیل بن عمرو ہمارے پاس آیا تھا اور نبی ﷺ نے اپنی قوم قریش سے صلح کی تھی تو اس وقت نبی ﷺ نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا ، بسم اللہ الرحمن الرحیم، اس پر سہیل نے کہا کہ آپ اس طرح مت لکھوائیے؟ نی ﷺ نے فرمایا پھر کس طرح لکھوائیں؟ اس نے کہا کہ آپ باسمک اللہم لکھیں ۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے اپنا نام محمد رسول اللہ لکھوایا تو اس نے کہا کہ اگر میں آپ کو اللہ کا پیغمبر مانتا تو کبھی آپ کی مخالفت نہ کرتا، چنانچہ نبی ﷺ نے یہ الفاظ لکھوائے
ہذا ماصالح محمد بن عبداللہ قریشا
اور اللہ فرماتا ہے کہ پیغمبر اللہ ﷺ کی ذات میں تمہارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے (میں نے تو اس نمونے کی پیروی کی ہے)
اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس سمجھانے کے لئے بھیجا، راوی کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ گیا تھا، جب ہم ان کے وسط لشکر میں پہنچے تو ابن الکواء نامی ایک شخص لوگوں کے سامنے تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے حاملین قرآن! یہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آئے ہیں، جو شخص انہیں نہ جانتا ہو، میں اس کے سامنے ان کا تعارف قرآن کریم سے پیش کر دیتاہوں، یہ وہی ہیں کہ ان کے اور ان کی قوم کے بارے میں قرآن کریم میں قوم خصمون، یعنی جھگڑالو قوم کا لفظ وارد ہوا ہے، اس لئے انہیں ان کے ساتھی یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس واپس بھیج دو اور کتاب اللہ کو ان کے سامنے مت بچھاؤ۔ یہ سن کر ان کے خطباء کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ بخدا! ہم تو ان کے سامنے کتاب اللہ کو پیش کریں گے، اگر یہ حق بات لے کر آئے ہیں تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور اگر یہ باطل لے کر آئے ہیں تو ہم اس باطل کو خاموش کرا دیں گے، چنانچہ تین دن تک وہ لوگ کتاب اللہ کو سامنے رکھ کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مناظرہ کرتے رہے، جس کے نتیجے میں ان میں سے چار ہزار لوگ اپنے عقائد سے رجوع کر کے توبہ تائب ہو کر واپس آگئے، جن میں خود ابن الکواء بھی شامل تھا اور یہ سب کے سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بقیہ افراد کی طرف قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوا دیا کہ ہمارا اور ان لوگوں کا جو معاملہ ہوا وہ تم نے دیکھ لیا، اب تم جہاں چاہو ٹھہرو، تاآنکہ امت مسلمہ متفق ہوجائے، ہمارے اور تمہارے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ تم ناحق کسی کا خون نہ بہاؤ، ڈاکے نہ ڈالو اور ذمیوں پر ظلم وستم نہ ڈھاؤ، اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تم پر جنگ مسلط کر دیں گے کیونکہ اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔
یہ ساری روئیداد سن کر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ابن شداد! کیا انہوں نے پھر قتال کیا ان لوگوں سے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس وقت تک ان کے پاس اپنا کوئی لشکر نہیں بھیجا جب تک انہوں نے مذکورہ معاہدے کو ختم نہ کر دیا انہوں نے ڈاکے دالے، لوگوں کا خون ناحق بہایا اور ذمیوں پر دست درازی کو حلال سمجھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کیا بخدا! ایسا ہی ہوا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! اس اللہ کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، ایسا ہی ہوا ہے۔ پھر حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا کہ اس بات کی کیا حقیقت ہے جو مجھ تک اہل عراق کے ذریعے پہنچی ہے کہ ذوالثدی نامی کوئی شخص تھا؟ حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے خود اس شخص کو دیکھا ہے اور مقتولین میں اس کی لاش پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا بھی ہوا ہوں اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بلا کر پوچھا تھا کیا تم اس شخص کو جانتے ہو؟ اکثر لوگوں نے یہی کہا کہ میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، کوئی مضبوط بات جس سے اس کی پہچان ہوسکتی، وہ لوگ نہ بتاسکے۔ حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کی لاش کے پاس کھڑے تھے تو انہوں نے کیا وہی بات کہی تھی جو اہل عراق بیان کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا: حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آپ نے اس کے علاوہ بھی ان کے منہ سے کوئی بات سنی؟ انہوں نے کہا بخدا! نہیں، فرمایا اچھا ٹھیک ہے، اللہ علی پر رحم فرمائے، یہ ان کا تکیہ کلام ہے، یہی وجہ ہے کہ انہیں جب بھی کوئی چیز اچھی یا تعجب خیز معلوم ہوتی ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا اور اہل عراق ان کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا شروع کردیتے ہیں اور اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ۔
***************************************
ان الحمدللہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ و اشھدأن لا إلٰہ إلا اللہ و أشھد أن محمد اًعبدہ و رسولہ۔ اما بعد !
خوارج کا فتنہ کوئی نیا نہیں کہ اسکی پہچان مشکل ہو یا اس سے تنبیہ کرنے والے کم ہوں ۔ یہ فتنہ صحابہ کرام کے دور سے اٹھا اور قیامت تک کسی نہ کسی شکل میں اپنا وجود برقرار رکھے گا، جیسا کہ صحیح احادیث میں مذکور ہے۔اسلام کے اس اولین دور میں خوارج پر شیطان نے جو تلبیسات کر کے انکو گمراہ کیا تھا ، اس کے توڑ کے لئے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہ جنہیں نبی ﷺ نے مفسر قرآن کا خطاب دیا تھا، یعنی ان سے بہتر قرآن کی تفسیر و تشریح کوئی نہیں جانتا تھا،میدان مناظرہ میں کودے تھے۔انہوں نے خوارج کے پیش کردہ قرآنی استدلالات کا موعظ حسنہ سے درست معنی و تفسیر پیش کر کے ان گمراہ فکر لوگوں کو لاجواب کر دیا تھا۔
یہاں ہم خوارج اور مفسر قرآن کے مابین اس مذاکرے کا منظر پیش کر رہے ہیں تاکہ سب جان سکیں کہ خوارج کی ہمیشہ سے بنیاد کیا رہی اور اور انکی افراط و تفریط کس درجہ تک انکی اصلاح کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی ہے۔ اللہ ہمیں ہمیشہ صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور خوارج کی گمراہ کن فکر سےمحفوظ فرمائے۔آمین
امام معمر بن راشد نے اپنی کتاب «الجامع لمعمر بن راشد: یہ کتاب مصنف عبدالرزاق میں ہی موجود ہے، اس کی حدیث نمبر: 18678» میں لکھتے ہیں کہ ہمیں عبد الرزاق نے عکرمہ بن عمار سے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو زمیل حنفی، جو کہ نجدہ خارجی ([1]) کا عقیدت مند تھا، نے بیان کیا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’جب حروری ([2])علیحدہ ہوئے اور اور انہوں نے ایک خاص نظریہ اپنایا ، تب ان کی تعداد چھ ہزار(6000) تھی ۔ یہ لوگ سیدنا علی بن ابی طالب اور ان کے ساتھی صحابہ کرام کے خلاف بغاوت پر متفق تھے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آتے اور انہیں کہتے: ’’امیر المؤمنین! خارجی آپ کے خلاف بغاوت کرنے کےلیے پَر تول رہے ہیں۔ ‘‘
سیدنا علی رضی اللہ عنہ جواب دیتے: ’’انہیں خروج کرنے تک کچھ نہ کہو کیونکہ میں ان سے اس وقت تک جہاد نہیں کروں گا جب تک وہ لڑائی کا آغاز نہ کریں اور عنقریب وہ ضرور ایسا کریں گے۔‘‘
اس وقت خوارج مسلمانوں سے علیحدہ ہوکر ایک گھر میں جمع تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ظہر کے وقت گیا اور انہیں کہا: ’’امیر المؤمنین! نماز کو تھوڑا تاخیر سے پڑھائیے گا تاکہ میری جماعت چھوٹ نہ جائے۔ میں ان لوگوں سے بات چیت کرنے کےلیے جارہا ہوں۔ ‘‘
علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’مجھے خطرہ ہے کہ کہیں وہ آپ کو نقصان نہ پہنچائیں۔‘‘ ([3])
میں نے کہا: ’’ان شاء اللہ، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔‘‘
میں اچھے اخلاق کا مالک تھا، کسی کو تکلیف نہ دیتا تھا۔
چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھے جانے کی اجازت دے دی ۔ میں نے بقدر استطاعت سب سے اچھا یمنی سوٹ پہنا اور بال سنوارے۔
ابو زمیل راوی کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بہت خوب رو اور وجیہہ انسان تھے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں ان کے پاس پہنچا تو کچھ لوگ کھانا کھا رہے تھے اور کچھ قیلولہ کررہے تھے۔ یہ عین دوپہر کا وقت تھا۔ میں نے عبادت الٰہی میں ان سے زیادہ محنتی کوئی قوم کبھی نہیں دیکھی۔ان کے ہاتھوں اور گھٹنوں پر اونٹ کے زمین پر لگنے والے اعضاء کی طرح گٹھے پڑے ہوئے تھے اور ماتھے پر سجدوں کی کثرت کی وجہ سے محرابیں بنی ہوئی تھیں۔ ان کی قمیضیں پسینہ سے تَر بتر، شلواریں ٹخنوں سے اوپر اور چہرے سے شب بیداری کے آثار نمایاں تھے۔([4])
میں نے پہنچ کر سلام کیا۔
انہوں نے کہا: ’’ابن عباس، خوش آمدید! کس لیے تشریف لائے ہیں اور یہ خوبصورت سوٹ کیوں پہن رکھا ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’اس سوٹ کی وجہ سے مجھ پر اعتراض کررہے ہو؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تو اس سے بھی اچھے سوٹ پہنے دیکھا ہے۔ اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ([5])
‹قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَۃَ اللہِ الَّتِيْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ۰ۭ›
آپﷺ ان سے پوچھئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو زینت اور کھانے کی پاکیزہ چیزیں پیدا کی ہیں، انہیں کس نے حرام کردیا ؟ [الأعراف: 32]
کہنے لگے: ’’اچھا، یہ فرمائیے کہ کیونکر تشریف آوری ہوئی؟‘‘
میں نے کہا: ’’میں مہاجرین وانصار اور دامادِ رسول کی طرف سے آیا ہوں اور تمہیں اصحاب رسول ﷺ کے بارے میں بتانے آیا ہوں کہ وہ کیسی عظیم ہستیاں ہیں کہ ان کی موجودگی میں وحی نازل ہوئی ، انہی کے بارے میں ہوئی اور وہ اس کی تفسیر کو تم سے زیادہ جانتے ہیں۔ تمہارے اندر ان میں سے کوئی نہیں ہے۔ میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں تاکہ ان کا پیغام تم تک پہنچاؤں اور تمہارا پیغام ان تک پہنچاؤں۔ ‘‘
یہ سن کر بعض حاضرین ِ مجلس وہاں سے چل دیے۔ کچھ کہنے لگے:’’قریشیوں سے نہ جھگڑو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ‹بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ۵۸› ’’بلکہ یہ تو ہیں ہی جھگڑالو قوم۔‘‘ [الزخرف: 58] لہٰذا ان سے بات ہی نہ کرو۔‘‘
لیکن ان میں سے ایک گروہ میرے پاس آیا اور ان میں سے دو تین آدمی کہنے لگے: ’’اللہ کی قسم! ہم ضرور اس سے بات کریں گے اور اس کی کہی ہوئی باتوں پر غور وفکر کریں گے۔‘‘
میں نےپوچھا: ’’بتاؤ رسول اللہﷺ کے چچا زاد، داماد اور آپﷺ پر سب سے پہلے اسلام لانے والے پر تمہیں کیا اعتراض ہے؟ حالانکہ نبی کریمﷺ کے تمام مہاجرین وانصار صحابہ انہی کے ساتھ ہیں۔‘‘
کہنے لگے: ’’ہم ان پر تین اعتراض ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’بتاؤ کون کون سے ہیں؟‘‘
کہنے لگے:
1 انہوں نے دین کے معاملہ میں انسانوں کو ثالث مانا حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‹ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ›
حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے۔ [الأنعام: 57]
اللہ کے اس فرمان کے بعد لوگوں کا فیصلہ سے کیا تعلق؟!
2 انہوں نے لڑائی کی اور قتل کیا لیکن نہ کسی کو قیدی بنایا، نہ مال غنیمت حاصل کیا۔ اگر مخالفین کفار تھے تو انہیں قید کرنا اور ان کا مال لوٹنا حلال تھا ۔ اور اگر وہ مؤمن تھے تو ان سے لڑنا ہی حرام تھا۔‘‘ایک روایت کے مطابق انہوں نے کہا: ’’اگر وہ مؤمن تھے تو پھرہمارے لیے ان سے لڑنا اور مارنا حلال اور قیدی بنانا حرام کیوں کیا؟‘‘
3 اپنے آپ کو امیر المؤمنین کہلوانے سے روک دیا۔([6]) اگر وہ مؤمنوں کے امیر نہیں ہیں تو پھر لا محالہ کافروں کے امیر ہیں۔ ‘‘
میں نے پوچھا: ’’اور بھی کوئی اعتراض ہے؟‘‘
کہنے لگے: ’’اتنے ہی کافی ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’اچھا، یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہارے سامنے قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھوں یا نبی کریم ﷺ کی سنت تمہیں بتاؤں، جو تمہارے ان اعتراضات کو باطل کردے، تو تسلیم کرلو گے اور اپنے موقف سے رجوع کرلو گے؟‘‘
کہنے لگے: ’’کیوں نہیں! رجوع کیوں نہیں کریں گے بھلا؟!‘‘
میں نے کہا: ’’جہاں تک تمہارے پہلے اعتراض کا تعلق ہے کہ ’’دین کے معاملہ میں لوگوں کو ثالث مانا ‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے ایک خرگوش کی قیمت یعنی چوتھائی درہم کے معاملہ میں بھی لوگوں کو ثالث مقرر فرمایا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
‹ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ۰ۭ وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَــزَاۗءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ›
اے ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ مارو۔ اور جس نے جان بوجھ کر شکار مارا تو اس کا بدلہ مویشیوں میں سے اسی شکار کے ہم پلہ جانور ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں۔ [المائدۃ: 95]
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے بارے میں فرمایا:
‹ وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَحَكَمًا مِّنْ اَھْلِھَا۰ۚ›
اور اگر تمہیں زوجین کے باہمی تعلقات بگڑ جانے کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کر لو۔ [النساء: 35]
مذکورہ بالا آیات بینات میں اللہ تعالیٰ لوگوں کے فیصلہ کو جائز قرار دیا ہے اور اسے محفوظ اور جاری وساری طریقہ بنایا ہے۔
میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: بتاؤ! لوگوں کی جانیں بچانے اور ان کی آپس میں صلح کے وقت لوگوں کے فیصلے کی زیادہ ضرورت ہے یا چوتھائی درہم کی قیمت رکھنے والے خرگوش اور عورت کے شادی بیاہ اور طلاق کے معاملات میں ؟ کس کو افضل سمجھتے ہو؟
کہنے لگے: ’’یقیناً لوگوں کی جانوں کو بچانا اور آپس میں صلح کروانا ہی افضل ہے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’پہلے اعتراض کا تسلی بخش جواب مل گیا؟‘‘
کہنے لگے: ’’بےشک۔‘‘
میں نے کہا: ’’جہاں تک تمہارے دوسرے اعتراض کا تعلق ہے کہ ’’مخالفین سے لڑائی تو کی لیکن نہ قیدی بنایا، نہ مال غنیمت حاصل کیا۔‘‘([7]) تو بتاؤ! کیا اپنی والدہ عائشہ کو قیدی بنانا پسند کرتے ہو؟ کیا اسے بھی ایسے ہی لونڈی بنا کر رکھنا جائز سمجھتے ہو جیسے دوسری لونڈیوں کو؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو تم کافر ہو۔
اگر یہ سمجھتے ہو کہ وہ مؤمنوں کی ماں نہیں ہے تو تب بھی تم کافر ہو اور دائرہ اسلام سے خارج ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
‹ اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ۰ۭ›
بلاشبہ نبی ﷺ مومنوں کے لئے ان کی اپنی ذات سے بھی مقدم ہیں اور آپ ﷺ کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں ۔ [الأحزاب: 6]
اب تم دو گمراہیوں کے درمیان لٹکے ہوئے ہو۔ جس کو چاہو، اختیار کرلو۔ تم لوگ گمراہی کے گہرے غار میں دھنس چکے ہو۔ جاؤ نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کرو۔
تمہارا یہ اعتراض بھی ختم ہوا؟‘‘
وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کر کہنے لگے: ’’جی ہاں!‘‘
میں نے کہا: ’’جہاں تک تمہارے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ ’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نام کے ساتھ امیر المؤمنین نہیں لکھوایا‘‘ تو آؤ! میں تمہیں تمہاری پسندیدہ شخصیت کا حوالہ دیتا ہوں۔
دیکھو رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر قریش سے اس بات پر صلح کی کہ ان کے درمیان ایک معاہدہ ہوجائے۔ سہیل بن عمرو اور ابو سفیان نے یہ معاہدہ لکھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لکھو: ’’یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے۔‘‘
وہ کہنے لگے: ’’اگر ہم یہ مانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو کبھی بھی آپ کو بیت اللہ سے روکتے، نہ آپ سے لڑائی کرتے۔ لہٰذا محمد بن عبد اللہ لکھوائیں۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! یقیناً میں اللہ کا سچا رسول ہوں، اگرچہ تم مجھے جھٹلاتے ہو، لیکن خیر!
اے علی! محمد بن عبد اللہ لکھو۔‘‘
تو رسول اللہ ﷺ تو علی رضی اللہ عنہ سے کئی درجے بہتر ہیں۔ آپ ﷺ نے جب ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ نہ لکھوایا تو ایسا ہرگز نہیں ہوا کہ نعوذ باللہ آپﷺ نبی نہ رہے ہوں۔
یہ اعتراض بھی ختم ہوا؟‘‘
کہنے لگے: ’’جی ہاں۔‘‘
یہ گفتگو سن کر بیس ہزار خارجیوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا اور مسلمانوں کی صفوں میں آگئے۔ باقی چار ہزار رہ گئے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف خروج کیا اور سبھی اسی گمراہی میں مارے گئے۔ مہاجرین وانصار نے انہیں جہنم واصل کیا۔([8])
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مناظرہ کے مصادر:
السنن الکبریٰ للنسائی: 8522، الجلیس الصالح للمعافی النہروانی: 1/181، المعجم الکبیر للطبراني: 10598، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبھاني: 1/318، جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر: 1834، المستدرك للحاکم: 2656، السنن الکبریٰ للبیہقي: 16740، المعرفۃ والتاریخ للفسوي: 1/522، الأحادیث المختارۃ للضیاء المقدسي: 437، تلبیس إبلیس لابن الجوزي، ص: 837، المنتظم في تاریخ الملوك والأمم لابن الجوزي: 8/530، مناقب علي لخطیب خوارزم: 244، بطریق عکرمہ بن عمار از ابو زمیل از ابن عباس رضی اللہ عنہ۔ ابن زَنْجُویَہ نے اپنی کتاب الأموال: 655، میں اس کے کچھ حصہ بیان کیے ہیں۔
اس کے علاوہ امام احمد نے اپنی مسند: 3187، اور امام ابو داؤد نے اپنی سنن: 4037، میں ابتدائی باتوں کو مختصراً بیان کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب منہاج السنہ: 8/530 پر اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم دین اسلام کو صحیح سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ زندہ رکھے تو دین اسلام پر ثابت قدم ، موت دے تو شہادت جیسی عظیم موت کو ہمارے نصیب کرے آمین ۔ اسی میں کامیابی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی مذمت میں بہت سی احادیث اور آثار ملتے ہیں جو صحابہ اور بعد کے لوگوں سے مروی ہیں۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب البدایہ والنہایہ: 10/592 میں ان کے بارے میں منقول بہت سا مواد جمع کردیا ہے۔ مزید دیکھیے: شرح سنن ابن ماجہ للعلامۃ مغلطاي: 1/873 والأنساب للسمعاني: 4/13۔
خوارج کے بارےمیں لکھنے والے مصنفین کے بارے میں جاننے کےلیے دیکھیے: فتح الباري لابن حجر: 12/285
علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں ان لوگوں کا رد ہے جو عمدہ لباس پہننے سے اجتناب کو تقویٰ سمجھتے ہیں۔‘‘ (الإکلیل في استنباط التنزیل، ص: 128)
***************************************
ایاس بن معاویہؒ
ایاس بایں ہمہ ذہانت عقائد میں جدت، اختراع اور موشگافیوں کو سخت ناپسند کرتے تھے اوران کی ذہانت اس کی تردید میں صرف ہوتی تھی،وہ مبتدعین خصوصا قدریوں سے مناظرہ کیا کرتے تھے،قدریہ کا عقیدہ ہے کہ خدا عادل ہے،یہاں تک تو بالکل صحیح ہے؛لیکن اس اصول کے نتیجہ میں وہ ان افعال کو بظاہر ظلم معلوم ہوتے ہیں،خدا کی جانب منسوب نہیں کرتے اوراس میں یہاں تک شدت برتتے ہیں کہ خدا کی قدرت مسلوب ہوجاتی ہے ایک مرتبہ ان میں اور قدریوں میں مناظرہ ہوا انہوں نے قدریہ سے پوچھا ظلم کسے کہتے ہیں،انہوں نے کہا کسی کا ایسی چیز کو لے لینا جو اس کی نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ خدا کی تو تمام چیزیں ہیں،یعنی جب وہ تمام چیزوں کا مالک ہوا تو پھر اس کے کسی فعل پر ظلم کا اطلاق صحیح نہیں ہے۔
(تہذیب التہذیب :۱/۳۹۱)
امام اوزاعیؒ کا ایک قدریہ سے مناظرہ
امام اوزاعیؒ بحث ومباحثہ اور مناظرہ ومجادلہ سے دور رہتےتھے؛ مگر جب اس کی ضرورت آجاتی تھی تواثبات حق کے لیے مناظرہ بھی کرلیا کرتے تھے، پہلی صدی کے آخر میں یونانی فلسفہ کے اثر سے بہت سے فرقے پیدا ہوگئے تھے، ان میں ایک فرقہ قدریہ بھی تھا، دوسری صدی کی ابتداء میں اس کا بڑا زور تھا، ان کا خیال تھا کہ قدیر کوئی چیز نہیں، خدا پیدا کردینے کے بعد پھرا سمیں کوئی تبدیلی پیدا کرنے پرقادر نہیں ہے، انسان بالکل مختارِ مطلق ہے، وہ جوچاہیے کرے، اس کے لیے محض اس کی مشیت اور اس کا اراداہ کافی ہے۔
ہشام بن عبدالملک متوفی سنہ۱۲۵ھ سے لوگوں نے ایک قدری کی شکایت کی اس نے اس کوبلوایا اور کہا کیا بات ہے کہ تمہارے بارے میں لو گ چہ می گوئیاں کررہے ہیں، بولا کہ اگرلوگ میری شکایت کرتے ہیں تواس کا فیصلہ تواسی وقت ہوسکتا ہے جب مجھے کوئی قائل کردے کہ میں جوکچھ کہتا ہوں وہ غلط ہے؛ اگرکوئی مجھے قائل کردیتا ہے توآپ کومیری طرف سے پوری اجازت ہے کہ میرا سرقلم کردیں، ہشام نے کہا بات معقول ہے، ہشام نے امام اوزاعی رحمہ اللہ کوبلواکر عرض کیا کہ آپ ہماری طرف سے اس سے گفتگو کیجئے، امام اوزاعی رحمہ اللہ نے قدری سے فرمایا کہ تین یاچار باتیں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں، تم ان میں انتخاب کرلو! اس نے کہا آپ تین سوال کرسکتے ہیں، فرمایا:ہل قضى الله على ما نهى؟ کیا خدا نے جس چیز سے روکا ہے اس کے خلاف بھی فیصلہ کرتا ہے؟ بولا کہ اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں؛ پھرپوچھا کہ خدا نے جوحکم دیا ہے، اس کے درمیان خود حائل بھی ہوجاتا ہے، بولا یہ توپہلے سوال سے بھی زیادہ سخت ہے، اس کا بھی میرے پاس کوئی جواب نہیں؛ پھرسوال کیا کہ جن چیزوں کواس نے حرام کیا ہے، اس کے استعمال کی بھی اجازت دیتا ہے؟ کہا یہ اور بھی مشکل ہے، امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: امیرالمؤمنین! میں نے تین باتیں پوچھیں، تینوں کے جواب سے عاجز رہا، آپ خود فیصلہ کرلیں، ہشام نے اس کووہی سزادی جس کا وہ مستحق تھا؛ پھرالگ سے ہشام نے امام اوزاعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اگروہ ایک ہی سوال کی اجازت دیتا توآپ اس سے کیا پوچھتے؟ فرمایا: میں اس سے پوچھتا کہ تمہاری اور خدا کی مشیت برابر درجہ کی چیز ہے یاکم درجہ کی، اس کا وہ جوجواب دیتا، اس کے عقیدہ کے خلاف ہوتا؛ پھرانہوں نے اپنے سوالات کی تفصیل بتائی۔
***************************************
امام ابو حنیفہؒ کے علمی واقعات
(1) امام اوزاعیؒ ملک شام کے فقہ کے امام تھے۔ یہ مکہ معظمہ میں امام ابوحنیفہؒ سے ملے اور آپ سے کہا:
مجھے عراق والوں پر حیرت تھی۔ یہ لوگ رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے جب کہ میں نے امام زہریؒ سے اور انہوں نے حضرت سالم ؒ بن عبداللہ اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان موقعوں پر رفع یدین کیا کرتے تھے۔ اب آپ بتائیں۔ آپ کے پاس رفع یدین نہ کرنے کی کیادلیل ہے؟
حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا:
حضرت حمادؒ نے حضرت ابراہیم نخعی ؒ سے اور حضرت ابراہیم نخعیؒ نے حضرت علمقہؒ سے اور حضرت علقمہؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان موقعوں پر رفع ریدین نہیں فرماتے تھے۔
اس پر امام اوزاعیؒ نے کہا:
’سبحان اللہ! میں تو زہری ٗ سالم اور حضرت عبداللہؓ کے ذریعے حدیث بیان کرتا ہوں ٗ آپ ان کے مقابلے میں حماد ٗ نخعی اور علقمہ کا نام لیتے ہیں۔
جواب میں حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا:
میرے راوی آپ کے راویوں سے زیادہ فقیہ ہیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا رتبہ اور مقام تو آپ کو معلوم ہی ہے ٗ اس لئے ان کی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔
اس مناظرے کا حال امام رازیؒ نے اپنی کتاب مناقب الشافعی میں نقل کیا ہے
اس مسئلے کی وضاحت میں امام محمدؒ نے لکھا ہے:
ہماری روایت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ تک جاتی ہے جب کہ امام اوزاعیؒ والی روایت حضرت عبداللہ بن عمرؓ تک جاتی ہے۔ اس لئے بحث اس پر ہے کہ کون سی روایت کو ترجیح دی جائے۔ اس سلسلے میں بات یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضور نبی کریم ﷺ کے زمانے میں پوری عمر کو پہنچ چکے تھے اور جماعت کی پہلی صف میں جگہ پاتے تھے۔ جب کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ابھی کم عمر تھے اور انہیں دوسری یا تیسری صف میں جگہ ملتی تھی۔ اس لئے آنحضرت ﷺ کی حرکات اور سکنات کو دیکھنے کا زیادہ موقع حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو ملتا تھا۔
2) ایک روز بہت سے لوگ امام صاحب کی خدمت میں آئے۔ وہ سب امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بارے میں بات کرنے کے لئے آئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھی جائے گی۔ امام صاحب نے ان کی بات سن کر کہا
میں اکیلا ٗ اتنے بہت سے لوگوں سے کیسے بحث کر سکتا ہوں۔ ہاں! یہ ہو سکتا ہے کہ آپ لوگ اپنے میں سے کسی ایک کو مقرر کر لیں۔ وہ سب کی طرف سے بات کرے گا اوراس کی تقریر پورے مجمعے کی تقریر سمجھی جائے گی۔
ان سب نے آپ کی یہ بات منظور کر لی جب انہوں نے آپ کی یہ بات منظور کر لی تو امام صاحب نے فرمایا
آپ نے یہ بات مان کر بحث کا خود ہی فیصلہ کر دیا۔ جس طرح آپ نے ایک شخص کو سب کی طرف سے بحث کا مختار بنا دیا ٗ اسی طرح نماز میں امام بھی تمام مقتدیوں کی طرف سے قرأت میں کفیل ہے۔
اور یہ مسئلہ آپ نے عقلی طور پر حل نہیں کیا ٗ حدیث بھی یہی ہے ۔ حدیث شریف میں بھی یہی آتا ہے:
جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قرأت اس کی قرأت ہے۔
3) ایک مرتبہ ضحاک نام کا شخص آپ کی خدمت میں آیا۔ یہ شخص خارجیوں کا سردار تھا۔ یہ بنوامیہ کے زمانے میں کوفہ پر قابض ہو گیا تھا۔ اس نے امام صاحب کو تلوار دکھا کر کہا: توبہ کرو۔
امام صاحب نے پوچھا: کس بات سے توبہ کروں؟
ضحاک نے کہا:
تم کہتے ہو کہ حضرت علیؓ نے حضرت معاویہؓ کے جھگڑے میں ثالث کے فیصلے کو ماننے کا اعلان کیا تھا ٗ یعنی یہ کہا تھا کہ ثالث جو فیصلہ کرے گا ٗ مجھے منظور ہوگا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر حضرت علیؓ حق پر تھے تو پھر ثالث کا فیصلہ ماننے کا کیا مطلب… یہ بات انہوں نے کیوں منظور کی… حق پر ہونے کی صورت میں تو ثالث کا فیصلہ ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا (یہ شخص چونکہ خارجی تھا اور خوارج ایک گمراہ فرقہ کے لوگ تھے ٗ اور یہ لوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں گستاخی بھی کیا کرتے تھے۔
اس کی بات سن کرامام صاحب نے فرمایا:
اگر تم مجھے قتل ہی کرنا چاہتے ہو تو پھر تو اور بات ہے ٗ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں…لیکن اگر تم معاملے کی تہ تک پہنچنا چاہتے ہو تو مجھے بات کرنے کی اجازت دو۔
اس پر ضحاک نے کہا: میں یہی چاہتا ہوں۔
تب امام صاحب بولے:
اچھی بات ہے… اگر بحث سے آپس میں معاملہ طے نہ ہو تو کیا علاج؟
ضحاک بولا:
ہم دونوں آپس میں ایک شخص کو منصف مقرر کر لیتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔
اب ضحاک کے ساتھیوں ہی میں سے ایک شخص کو ثالث قرر کیا گیا اور اس سے کہا گیا کہ وہ دونوں کے درمیان فیصلہ کرے گا کہ کون حق پر ہے۔ جب یہ ساری بات طے ہو گئی ٗ تب امام صاحب نے فرمایا
یہی تو حضرت علیؓ نے کیا تھا۔ پھر تم انہیں الزام کیوں دیتے ہو… جب تم خود کو حق پر سمجھتے ہو تو تم نے ثالث کیوں مقرر کیا؟
وہ حیرت زدہ رہ گیا اور شرم سار ہو کر چلا گیا۔
4) اسی ضحاک خارجی کا واقعہ ہے کہ یہ شخص ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کوفہ پہنچ گیا اور وہاں جاتے ہی قتل عام کا حکم دے دیا۔ امام صاحب کو اس بات کی اطلاع ملی تو فوراً اس کے پاس گئے اور اس سے پوچھا:
آخر ان لوگوں نے کیا جرم کیا ہے؟
جواب میں وہ بولا:
یہ سب مرتد ہو گئے ہیں۔
اس پر امام صاحب نے فرمایا:
ان لوگوں کا اس سے پہلے کچھ اور مذہب تھا یا ہمیشہ سے ان کا یہی مذہب ہے؟
ضحاک چونک گیا۔ اس نے حیران ہوکر پوچھا:
کیا مطلب؟
امام صاحب نے اپنی بات زیادہ وضاحت سے بیان کی… آپ کا مطلب یہ تھا کہ یہ تو اسی مذہب پر ہیں… جس پر پہلے سے چل آرہے ہیں ٗ پھر یہ مرتد کیسے ہوگئے؟… مرتد ہونا تو یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص مسلمان ہے… یا مُسلمان ہو چکا ہے… اور پھر وہ اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی اور مذہب… یعنی عیسائیت ٗ یہودیت ٗ ہندو ٗ یا اور کوئی مذہب اختیار کر لے… یہ وضاحت سنتے ہی اس نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا: تلواریں نیام میں رکھ لی جائیں۔
پھر امام صاحب سے بولا:
بلاشبہ میں خطا پر تھا۔
5) ایک مرتبہ حضرت قتادہ بصری رحمہ اللہ کوفہ میں آئے… کوفہ میں آتے ہی انہوں نے اعلان کر دیا:
فقہ کے مسائل میں سے جسے جو مسئلہ پوچھنا ہو ٗ مجھ سے پوچھ سکتا ہے ٗ میں ہر مسئلے کا جواب دوں گا۔
اب یہ تھے بھی بہت بڑے محدث اور امام۔ بے شمار لوگ جمع ہو گئے۔ امام ابوحنیفہ بھی اس مجمع میں موجود تھے۔ انہوں نے کھڑے ہو کر یہ سوال پوچھا
ایک شخص سفر پر گیا ٗ ایک دو سال بعد اس کے مرنے کی خبر آگئی۔ اس کی بیوی نے دوسرا نکاح کر لیا۔ اس سے اولاد بھی ہوگئی۔ ایسے میں پہلا خاوند واپس آگیا۔ وہ اس اولاد کو اپنی اولاد نہیں مانتا ٗ دوسرا خاوند اس اولاد کو اپنی اولاد مانتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دونوں میں سے کون سا شخص اس عورت پر زنا کا الزام لگاتا ہے ٗ پہلا خاوند یا دوسرا؟
حضرت قتادہ نے سوال سن کر کہا:
کیا ایسا واقعہ پیش بھی آیا ہے؟
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
نہیں! لیکن علماء کرام کو پہلے سے تیار رہنا چاہیے۔
حضرت قتادہ اس سوال کا جواب نہ دے سکے ٗ بولے:
تم مجھ سے قرآنِ کریم کی تفسیر سے کچھ پوچھو۔
اب امام صاحب نے یہ آیت پڑھی:
مفہوم: کہا ٗ میرے پاس کتاب کا علم ہے ٗ میں پلک جھپکنے سے پہلے لادوں گا۔
یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں کو ملکہ بلقیس کا تخت اُٹھا لانے کا حکم فرمایا تھا ٗ تو ایک صاحب بولے کہ آپ یہ حکم مجھے دیں ٗ میں پلک جھپکتے میں ملکہ کا تخت اُٹھا لائوں گا۔ ان صاحب کا نام تفیسر میں ’’آصف بن برخیا‘‘ آیا ہے۔ یہ صاحب اِسم اعظم جانتے تھے۔ اس کی تاثیر سے پلک جھپکنے میں ملک شام سے یمن پہنچ کر تخت اُٹھا لائے۔
عام مُسلمانوں میں یہی بات مشہور ہو چکی تھی اور سب یہی تفسیر کرتے تھے۔ امام صاحب کے سوال پر حضرت قتادہ نے بھی یہی مطلب بیان کیا۔ اب امام صاحب نے سوال کیا:
سلیمان علیہ السلام خود بھی اسم اعظم جانتے تھے یا نہیں؟
قتادہؒ بولے:
نہیں! سلیمان علیہ السلام کو اسمِ اعظم معلوم نہیں تھا۔
اب امام صاحب نے فرمایا:
کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نبی کے زمانے میں ٗ نبی سے زیادہ علم ایک ایسے شخص کو ہو جو نبی نہ ہو۔
قیادہ اس سوال کا بھی جواب نہ دے سکے اور بولے:
عقائد کے بارے میں پوچھو۔
امام صاحب نے ان سے پوچھا:
کیا آپ مومن ہیں؟
جواب میں قتادہؒ نے جواب دیا:
ان شاء اللہ ! میں مومن ہوں۔
(اس زمانے میں بعض علماء اسی طرح جواب دیتے تھے اور اس کو احتیاط میں داخل کرتے تھے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب نہ آجائے کہ تم جھوٹے ہو۔ لیکن جمہور علماء اس طرح نہیں کہتے تھے۔
حضرت امام ابوحنیفہ نے فرمایا:
آپ نے ان شاء اللہ کی قید کیوں لگائی ٗ صرف یہ کیوں نہ کہا کہ میں مومن ہوں ٗ جب کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپ مومن نہیں ہیں؟ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب میں عرض کیا تھا کہ کیوں نہیں (یعنی میں مومن ہوں)۔
امام صاحب کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے ٗ وہ مومن ہے تو پھر اس میں ان شاء اللہ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔
آپ کا جواب سن کر قتادہ لا جواب ہوئے اور ناراضی کے عالم میں وہاں سے چلے گئے۔
6) اس زمانے میں یحییٰ بن سعید انصاریؒ کوفہ کے قاضی تھے۔ خلیفہ منصور عباسی کے دربار میں ان کی بہت قدر تھی ٗ لیکن کوفہ کے لوگوں کے نزدیک ان کا وہ مقام نہیں تھا جو حضرت امام ابو حنیفہؒ کا تھا۔ یہ یحییٰ بن سعید لوگوں کے درمیان کہا کرتے تھے:
کوفہ والے بھی عجیب سادہ دل ہیں ٗ سارا شہر ایک شخص کے اشاروں پر حرکت کرتا ہے۔
ان کا اشارہ امام ابوحنیفہؒ کی طرف ہوتا تھا۔ یہ بات حضرت امام ابوحنیفہ تک بھی پہنچی۔ آپ نے اپنے شاگرد امام ابویوسفؒ اور چند دوسرے شاگردوں کو ان کی طرف بھیجا اور ان سے کہا:
جا کر قاضی یحییٰ سے مناظرہ کریں۔
امام یوسفؒ نے قاضی یحییٰ کے سامنے یہ مسئلہ رکھا:
اگر دو آدمیوں کا ایک مشترکہ غلام ہو تو ان میں سے ایک اس غلام کو آزاد کر سکتا ہے یا نہیں۔
یحییٰ بن سعیدؒ نے کہا:
ہرگز نہیں کر سکتا ٗ کیونکہ حدیث میں آیا ہے ٗ یعنی وہ کام جس سے کسی کو ضرر پہنچے ٗ جائز نہیں۔
اس پر امام یوسفؒ بولے:
اگر دوسرا شخص آزاد کر دے تو؟
قاضی یحییٰؒ نے کہا:
تب جائز ہے اور غلام آزاد ہو جائے گا۔
امام یوسفؒ نے جواب دیا:
آپ نے خود اپنی بات کی نفی کردی… وہ ایسے کہ آپ کے نزدیک ایک شریک کے آزاد کرنے سے غلام آزاد نہیں ہوتا یعنی اسی طرح غلام کا غلام رہتا ہے۔ جب ایک شریک نے آزاد کیا تو آپ کے نزدیک اس کا یہ فعل بالکل بے اثر تھا۔ یعنی وہ اسی طرح غلام رہا جیسا پہلے تھے۔ اب صرف دوسرے شریک کے آزاد کرنے سے کیونکر آزاد ہو سکتا ہے۔
یحییٰ بن سعیدؒ لا جواب ہو کر رہے گئے۔
7) اسی طرح محمد بن عبدالرحمنؒ مشہور فقیہ تھے۔ ابن ابی لیلیٰؒ کے نام سے مشہور تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان میں کسی قدر ناراضی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ فیصلوں میں غلطی کر جاتے تھے… اس صورت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اصلاح کرنا پڑتی تھی… آپ کا اصلاح کرنا انہیں ناگوار گزرتا تھا… ادھر امام صاحب بھی حق کے ظاہر کرنے پر مجبور تھے۔
ابن ابی لیلیٰ مسجد میں بیٹھ کر مقدمات کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ ایک دن کام سے فارغ ہو کر مجلس سے اُٹھے۔ راستے میں ایک عورت کو دیکھا۔ وہ کسی سے جھگڑ رہی تھی۔ بات چیت کے دوران اس عورت نے یہ کہ دیا
اے زانی اور زانیہ کے بیٹے۔
قاضی ابن ابی لیلیٰؒ نے حکم دے دیا:
اس عورت کو گرفتار کر لیا جائے۔
یہ حکم دے کر مجلس میں واپس آگئے اور حکم دیا:
عورت کو کھڑا کرکے اسے درّے لگائے جائیں اور دوحدیں لگائی جائیں۔
قاضی صاحب نے اس فیصلے میں چند غلطیاں کیں ٗ ایک تو یہ کہ مجلس سے اُٹھ کر چلے گئے تھے ٗ پھر واپس آکر عدالت لگائی۔ یہ آئینِ عدالت کے خلاف ہے۔ دوسرے یہ کہ مسجد میں مارنے کا حکم دیا… حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے ٗ تیسرے یہ کہ عورت کو بٹھا کر درّے لگانے چاہیے تھے ٗ قاضی صاحب نے اس کے خلاف کیا۔چوتھے یہ کہ ایک لفظ سے ایک ہی حد ہوتی ہے اور دونوں حدیں لازم بھی آئیں تو ایک ساتھ دونوں حدیں نہیں لائی جا سکتیں۔ ایک حد لگا کر مجرم کو چھوڑ دینا چاہیے تھا ٗ تاکہ زخم بالکل بھر جاتے تو پھر دوسری حد کی تعمیل کی جاتی۔ پھر یہ کہ جسے گالی دی گئی ٗ اس نے دعویٰ نہیں کیا۔ جب دعویٰ نہیں کیا گیا تو قاصی صاحب کو مقدمہ قائم کرنے کا کیا اختیار تھا۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے یہ اعتراضات سن کر قاصی ابنِ لیلیٰ بہت برہم ہوئے۔ کوفہ کے گورنرکے پاس گئے اور اس سے شکایت کی کہ ابوحنیفہ نے مجھے تنگ کر رکھا ہے۔
گورنر نے یہ حکم جاری کر دیا:
ابوحنیفہ فتوے نہ دینے پائیں۔
اس کے حکم کے بعد ایک دن امام صاحب گھر میں بیٹھے تھے۔ ان کی بیٹی نے مسئلہ پوچھا:
میں آج روزے سے ہوں۔ دانتوں سے خون نکلا ہے اور تھوک کے ساتھ گلے سے اُتر گیا ہے۔ میرا روزہ باقی رہا یاجاتا رہا؟
آپ نے بیٹی کو جواب دیا:
پیاری بیٹی! اپنے بھائی حماد سے پوچھو۔ مجھے تو فتویٰ دینے سے روک گیا گیا ہے۔
مطلب یہ کہ آپ وقت کے حاکم کی اس حد تک اطاعت کرتے تھے۔(ابنِ خلکان)
اب ہوا یہ کہ چند روز بعد خود گورنر کو چند فقہی مسائل میں مشکلات آئیں۔ انہیں مجبوراً امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے وہ مسائل پوچھنے پڑ گئے تب ان پر سے یہ پابندی اُٹھا لی گئی اور انہیں فتویٰ دینے کی عام اجازت ہوگئی۔
8) ایک دِن عجیب اتفاق پیش آیا۔ امام سفیان ثوریؒ، قاضی ابنِ ابی لیلیٰؒ ٗ امام شریکؒ اور امام ابوحنیفہؒ رحمہم اللہ ایک مجلس میں جمع ہو گئے۔ لوگوں کو کچھ پوچھنے کا بھلا اس سے اچھا موقع کون سا آسکتا تھا… چار فقیہ ایک ساتھ موجود تھے ٗ چنانچہ ایک شخص نے مسئلہ پوچھا
چند آدمی ایک جگہ جمع تھے۔ اچانک ایک سانپ آ نکلا اور ایک شخص کے بدن پر چڑھنے لگا ٗ اس نے گھبرا کر اسے پھینک دیا۔وہ دوسرے پر جا گرا ٗ اس نے بھی گھبراہٹ میں ایسا ہی کیا۔ وہ تیسرے پر جا گرا ٗ تیسرے نے بھی اسے اچھال دیا۔ اس طرح سانپ چوتھے پر گرا اور اس نے اسے ڈس لیا۔ وہ شخص مر گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ دیت کس پر لازم ہے۔
سب سوچ میں پڑ گئے۔ یہ فقہ کا ایک عجیب مسئلہ تھا۔ کسی نے کہا کہ سب پر لازم ہے۔ اور کسی نے کہا کہ صرف پہلا شخص دیت دے گا ٗ مطلب یہ کہ سب کی رائے مختلف تھی اور بحث کے باوجود وہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ رہے تھے۔ امام ابوحنیفہؒ خاموش تھے اور برابر مسکرا رہے تھے۔ آخر سب ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ سب نے کہا:
حضرت! آپ بھی تو کچھ فرمائیے۔
امام صاحب نے فرمایا:
جب پہلے نے دوسرے پر سانپ پھینکا تو وہ محفوظ رہا۔ اس طرح پہلا شخص تو بری الذمہ ہو گیا ٗ اسی طرح دوسرے نے پھینکا تو تیسرا محفوظ رہا۔ لہٰذا دوسرا بھی بری الذمہ ہو گیا۔ تیسرے نے چوتھے پر سانپ پھینکا اور چوتھا مر گیا ٗ لہٰذا دیت اگر ہے تو اس آخری پھینکنے والے پر ہے جس کے پھینکنے سے اس سے اگلا آدمی مرا اور اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ اگر اس کے پھینکتے ہی سانپ نے نہیں کاٹا تو خود اس کی غفلت ہے کہ اس نے اپنی حفاظت میں تیزی کیوں نہ دکھائی۔
اس رائے سے سب نے اتفاق کیا اور امام صاحب کی تعریف کی۔
9) ایک شخص نے کسی بات پر ناراض ہو کر اپنی بیوی سے قسم کھا کر کہا:
جب تک تو مجھ سے نہ بولے گی ٗ میں تجھ سے نہیں بولوں گا۔
عورت بھی تیز مزاج تھی۔ اس نے بھی یہ قسم کھا لی:
جب تک تو مجھ سے نہیں بولے گا ٗ میں تجھ سے نہیں بولوں گی۔
دونوں نے غصے میں یہ قسم کھا لی… بعد میں دونوں کو پریشانی شروع ہو گئی کہ یہ کیا قسم کھا بیٹھے۔ خاوند امام سفیان ثوری کے پاس گیا۔ ان سے فتویٰ پوچھا۔ انہوں نے فتویٰ دیا:
قسم کا کفارہ دینا ہوگا۔
وہ مایوس ہو کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پاس آیا اور مسئلہ بیان کیا۔ آپ نے سن کر فرمایا:
جائو… سکون سے باتیں کرو۔ تم دونوں پر کوئی کفار نہیں۔
امام سفیان ثوریؒ کو جب آپ کے اس فتوے کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور امام صاحب کے پاس جا کر بولے:
آپ لوگوں کو بہت غلط فتوے دیتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس شخص کو بلایا اور اسے فرمایا:
تم واقعہ دوبارہ بیان کرو۔
اس نے واقعہ دوبارہ بیان کیا۔ اب امام صاحب امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
میرا فتویٰ درُست تھا… میں اب بھی وہی کہتا ہوں۔
سفیان ثوری نے پوچھا:
وہ کیسے؟
آپ نے جواب دیا:
جب عورت نے شوہر کو مخاطب کرکے وہ الفاظ کہے تو عورت کی طرف سے بولنے کی ابتدا ہو چکی تھی… پھر قسم کہاں رہی۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے آپ کے فتوے کو بالکل درست تسلیم کیا اور فرمایا:
آپ کو حقیقت میں جو بات وقت پر سوجھ جاتی ہے… ہم لوگوں کا وہاں تک خیال بھی نہیں جاتا۔
10) ایک مرتبہ بہت سے خارجی امام صاحب کے گھر پر چڑھ دوڑے اور آپ سے کہنے لگے:
کفر سے توبہ کرو۔
امام صاحب نے جواب میں فوراً کہا۔:
ہاں! میں کفر سے توبہ کرتا ہوں۔
امام صاحب کا مطلب یہ تھا کہ جس چیز کو تم کفر سمجھتے ہو ٗ میں اس سے توبہ کرتا ہوں۔ ان خارجیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ گناہ کرنے سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔ آپ کا جواب سن کر خارجی مطمئن ہو کر واپس لوٹ گئے۔ کسی نے ان سے کہا:
امام ابوحنیفہ نے تمہیں دھوکا دیا۔ ان کا مطلب تو یہ تھا کہ میں تمہارے کفر سے توبہ کرتا ہوں۔ یعنی جس چیز کو تم کفر سمجھتے ہو ٗ اسے توبہ کرتا ہوں۔
یہ سن کر خارجی غصے میں آگئے ٗ پھر آپ پر چڑھ دوڑے اور بولے:
تم نے تاویل کی۔
جواب میں امام صاحب نے فرمایا:
تمہیں اس بات کا یقین ہے یا صرف گمان کی بنیاد پر یہ کہ رہے ہو۔
اس پر وہ بولے:
نہیں گمان ہی ہے۔
اب آپ نے فرمایا:
تب پھر تم خود توبہ کرو ٗ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ٗ بعض گمان گناہ ہیں۔
وہ لا جواب ہو کر چلے گئے۔
11) ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپ کے گرد بہت سے شاگرد جمع تھے۔ اچانک خارجیوں کا ایک گروہ آدھمکا۔ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ امام صاحب نے انہیں روکا اور تسلی دی کہ ڈرو نہیں ٗ اطمینان سے بیٹھ جائو۔ ایک خارجی ان سب کا سردار تھا ٗ وہ آگے آیا اور بولا:
تم لوگ کون ہو؟
آپ نے انہیں جواب دیا:
ہم پناہ گزین ہیں اور اللہ تعالیٰ نے پناہ گزینوں کے بارے میں فرمایا ہے ٗ یعنی مشرکین میں سے اگر کوئی شخص پناہ مانگے تو اسے پناہ دو ٗ تاکہ وہ اللہ کا کلام سن سکیں ٗ پھر انہیں ان کے گھر پہنچا آئو۔
اس وقت خارجیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ اپنے سوا تمام مُسلمانوں کو مشرک ٗ کافر اور واجب القتل سمجھتے تھے۔ اس وقت وہ اسی نیت سے آئے تھے کہ امام ابوحنیفہ اپنا عقیدہ بیان کریں تو کفر کا الزام لگا کر انہیں قتل کر دیں ٗ لیکن امام صاحب کا جواب سن کر وہ لاجواب ہو گئے۔ ان کے سردار نے کہا
ٹھیک ہے… ان لوگوں کو قرآن سنا کر انہیں ان کے گھر پہنچا آئو۔
یہ کہ وہ واپس چلے گئے۔
12) خلیفہ منصور کے دربار مین ابوالعباس امام صاحب کا دُشمن تھا۔ وہ ہمیشہ انہیں نقصان پہنچانے کے چکر میں رہتا تھا۔ ایک دن امام صاحب کسی کام سے دربار میں گئے تو اس نے سوچا ٗ موقع اچھا ہے… آج یہ میرے ہاتھ سے بچ کر نہ جانے جائیں ٗ چنانچہ اس نے آپ سے سوال پوچھا۔
اے ابوحنیفہ! امیر المومنین کبھی کبھی ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اس شخص کی گردن مار دو… اب ہمیں یہ بات بالکل معلوم نہیں ہوتی کہ وہ شخص واقعی مجرم ہے یا نہیں۔ ایسی حالت میں ہمیں خلیفہ کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے یا نہیں۔
اس سوال سے ابوالعباس آپ کو گھیرنا چاہتا تھا… اس کا خیال تھا کہ آپ فوراً کہہ دیں گے کہ اس صورت میں تعمیل نہیں کرنی چاہیے… لہٰذا آپ کا جواب سن کر خلیفہ کو غصہ آجا جائے گا اور آپ کو سزا دے گا… امام صاحب نے سوال سن کر فرمایا:
تمہارے نزدیک خلیفہ کے احکامات حق ہوتے ہیں یا باطل۔
اب منصور کے سامنے کس کی تاب تھی کہ کہتا… باطل ہوتے ہیں… ابوالعباس کو مجبوراً کہنا پڑا: حق ہوتے ہیں۔
اس کا جواب سن کر آپ نے فرمایا:
جب خلیفہ کے احکامات حق ہوتے ہیں تو پھر حق کی تعمیل کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو؟
ابوالعباس اپنا سامنہ لے کر رہ گیا۔
13) آپ کے پاس ایک شخص نے آکر کہا:
اے ابوحنیفہ! میرے پاس کچھ رقم تھی ٗ وہ میں نے احتیاط سے کسی جگہ رکھ دی تھی… اب میں وہ جگہ بھول گیا ہوں… یاد نہیں آرہا کہ رقم کہاں رکھی تھی… اور مجھے رقم کی شدید ضرورت ہے… کوئی تدبیر بتائیں۔
امام صاحب نے اس کی بات سن کر کہا:
بھائی! یہ کوئی فقہ کا مسئلہ تو ہے نہیں۔
اس نے منت سماجت کی تو آپ نے فرمایا:
اچھا تم یوں کرو کہ آج تم رات نماز پڑھو۔
وہ گیا اور نما ز شروع کر دی ٗ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اسے یاد آگیا کہ رقم کہاں رکھی ہے۔
دوڑتا ہوا امام صاحب کے پاس گیا اور بولا:
آپ کی تدبیر کار گر رہی… لیکن بھلا یہ کیا ترکیب تھی؟
جواب میں آپ مسکرائے اور فرمایا:
بھلا شیطان یہ کیسے گوارا کرتا کہ تم رات بھر نماز پڑھو۔ اس لئے اس نے فوراً ہی تمہیں یاد کرا دیا… تاہم تمہیں چاہیے تھا کہ شکر کے طور پر رات بھر نماز پڑھتے رہتے۔
14)
ایک شخص نے آپ کی خدمت میں آکر کہا:
میں نے کچھ قیمتی چیزیں گھر کے کسی حصے میں دفن کر دی تھیں… اب مجھے وہ جگہ یاد نہیں آرہی۔
اس کی بات سن کر امام صاحب بولے:
اگر تمہیں وہ جگہ یاد نہیں تو بھلا مجھے کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟
وہ رونے لگا… آپ کو اس پر ترس آگیا۔ چند شاگردوں کو ساتھ لے کر آپ اس کے گھر گئے اور شاگردوں سے فرمایا:
اگر یہ گھر تمہارا ہوتا اور تمہیں کوئی چیز چھپانا ہوتی تو کہاں دفن کرتے۔
شاگردوں نے اپنے اپنے اندازے کے مطابق جگہیں بتا دیں۔ اس پر امام صاحب نے بتایا:
بس تو پھر انہیں تین چار جگہوں میں سے کوئی جگہ ہو سکتی ہے۔
کھدائی کی گئی توا للہ کی شان ٗ تیسری ہی جگہ سے مال مل گیا۔
15) امام صاحب ایک روز حجامت بنوارہے تھے۔ آپ نے حجام سے کہا:
سفید بالوں کو چن لینا۔
اس پر حجام بولا:
جو بال چنے جاتے ہیں ٗ وہ اور زیادہ نکلتے ہیں۔
جواب میں امام صاحب نے فرمایا:
تب پھر سیاہ بال چن لینا ٗ تاکہ وہ اور زیادہ نکلیں۔
قاضی شریک نے جب یہ بات سنی تو بولے:
ابوحنیفہ نے حجام کے ساتھ بھی قیاس کو نہیں چھوڑا۔
16) امام صاحب کے محلے میں ایک شیعہ رہتا تھا… وہ بہت متعصب تھا۔ اس نے دو خچر پال رکھے تھے۔ ایک کا نام ابوبکر اور دوسرے کا عمر رکھا ہوا تھا(معاذ اللہ)۔ اتفاق سے ایک خچر نے اس کے لات ماری۔ جس سے وہ زخمی ہو گیا۔ محلے میں اس واقعے کا چرچا ہوا۔ امام صاحب نے سنا تو بول اٹھے
اسی خچر نے مارا ہوگا جس کا نام اس نے عمر رکھا ہے۔
معلوم کرنے پر پتا چلا… ایسا ہی ہوا تھا ۔
17) کوفہ میں ایک غالی شیعہ رہتا تھا۔ وہ حضرت عثمانؓ کو یہودی کہتا تھا (معاذ اللہ) ۔ ایک دن امام صاحب اس کے پاس گئے اور اسے کہا:
تم اپنی بیٹی کے لئے رشتہ تلاش کر رہے ہو۔ ایک شخص ہے ٗ وہ شریف ہے ٗ دولت مند بھی ہے۔ پرہیز گار بھی ہے ٗ راتوں کو نماز پڑھنے کا عادی ہے ٗ اس نے قرآن بھی حفظ کر رکھا ہے… تم اس کے بارے میں کیا کہے ہو؟
یہ سن کر اس نے کہا:
اس سے بڑھ کر اچھا رشتہ دار اور کیا ہوگا… آپ رشتہ اس سے طے کرا دیں۔
جواب میں امام صاحب نے فرمایا:
لیکن ایک بات ہے… وہ قریباً یہودی ہے۔
یہ سن کر وہ بھڑک اُٹھا اور بولا:
سبحان اللہ! آپ یہودی سے رشتہ کرنے کی رائے دے رہے ہیں؟
اب امام صاحب نے فرمایا:
تم اپنی کا رشتہ ایک یہودی سے کرنا پسند نہیں کرتے… تو پھر اللہ کے رسول ﷺ نے کیسے ایک یہودی کو اپنا داما دبنا لیا۔
اسے ایک جھٹکا لگا اور اس نے حضرت عثمانؓ کے بارے میں ایسے خیال سے توبہ کر لی
18) دہریوں کی ایک جماعت نے امام ابوحنیفہؒ پرحملہ کردیا اور آپ کو قتل کرنا چاہا۔ آپ نے فرمایا کہ پہلے اس مسئلہ میں مجھ سے بحث کرلو، اسکے بعد تمہیں اختیارہے،
انہوں نے اس بات کو منظورکرلیا۔ چنانچہ مناظرے کی تاریخ اور وقت طے ہوگیا۔ مگر ہوا یوں کہ آپ مناظرے میں دیرسے پہنچے۔ انہوں نے اس پربڑا شورغوغا کیا۔
آپ نے فرمایا کہ پہلے میرے بات سن لو، شاید آپ مجھے تاخیر میں معذور پائیں۔
انہوں نے کہا اچھا ٹھیک ہے بتائیے۔
آپ نے فرمایا کہ آج تو عجیب وغریب صورت دیکھنے میں آئی۔جب میں دریا کے کنارے پہنچا تو وہاں دور تک کشتی کا نام ونشان نہ تھا۔حیران تھا کہ کس طرح دریاعبورکروں گا۔
اس اثنا میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درخت خود کٹ گیا اور اس کے تختے بن گئے، پھر بغیر کسی کاریگر اور بغیر کیلوں کے ان تختوں نے جڑنا شروع کیا یہاں تک کہ کشتی تیار ہوگئی پھر وہ بغیر ملاح کے پانی کے دوش پراٹھکیلیاں کرتی میرے پاس آگئی۔ میں سوار ہوگیا، ہوا چلنے لگی یہاں تک کہ ساحل پر آلگی۔
دہریوں نے یہ سنا تو آسمان سر پر اٹھا لیا اور کہنے لگے کہ بھلا ایسا بھی ممکن ہے کہ بغیر کاٹنے کے درخت کٹ جائے اورکشتی تیار ہوجائے اور بغیر ملاح کے کشتی چلنے لگے۔
امام صاحب نے فرمایا بدبختو ! اگر ایک درخت بغیر کاٹنے والے کے نہیں کٹ سکتا، تختے بغیرجوڑنے والے کے نہیں چڑسکتے۔ ایک کشتی تیار ہو کر بھی بغیرملاح کے نہیں چل سکتی
تو کائنات کا یہ سارا نظام یہ شجروحجر، یہ نہریں اور دریا، یہ شمس وقمر، یہ گل وگلزار، یہ حیوان اور انسان یہ ستاروں کے جھرمٹ اورکہکشاں یہ سب کچھ کیا خود از خود وجود میں آگیا اتنا بڑا کارخانہ کیاخود بخود چل رہا ہے، اسے کوئی چلانے والانہیں۔
ان دہریوں کے سمجھ میں بات آگئی اور انہوں نے تائب ہو کر اسلام قبول کرلیا۔
(حیات امام ابوحنیفہ:ص136۔ اہل الثناوالمجد:ص534)
19) بشار بن قرط فرماتے ہیں:
فرقہ قدریہ کے ستر افراد کوفہ میں آئے اور کوفہ کی جامع مسجد میں آکر علنِ تقدیر کے مسئلہ میں لوگوں سے بحث ومباحثہ کرنے لگے، یہ بات امام ابو حنیفہؒ کو معلوم ہوئی تو آپ مسجد میں تشریف لائے، اور ان کے بارے میں فرمایا:
یہ تو بڑی گمراہی کے رستے پر ہیں۔
وفدِ قدریہ:
یہ سن کر امام ابو حنیفہؒ کا رخ کیا اور آپ کے پاس آکر کہنے لگے کہ ہم آپ کے پاس سے مباحثہ کرنا چاہتے ہیں۔
امام ابو حنیفہؒ:
کس بارے میں مباحثہ کرنا چاہتے ہو؟
وفدِ قدریہ:
تقدیر کے مسئلے پر؟
امام ابو حنیفہؒ:
کیا تم یہ بات نہیں جانتے کہ علمِ تقدیر میں بات کرنا تو سورج کی شعاعوں میں جھانکنے کے مترادف ہے آپ جتنی گہری نظر سے اسے دیکھوگے اتنی ہی زیادہ طبیعت میں حیرت وپریشانی بڑھے گی۔
وفدِ قدریہ:
پھر قضاء قدر اور عدلِ باری تعالیٰ کے بارے میں بات کرلو؟
امام ابو حنیفہؒ:
اس پر بات کرنی ہے تو اللہ کا نام لو اور شروع کرو۔
وفدِ قدریہ:
اے ابو حنیفہؒ! کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کے مخلوقات میں سے کسی کے بارے میں سنا ہے کہ اس نے ایسا کام سرانجام دیا جو اللہ کے قبضہ قدرت میں نہ ہو؟
امام ابو حنیفہؒ:
نہیں، ایسا تو نہیں سنا، لیکن اللہ تعالیٰ کی قضاء کی دو قسمیں ہیں:(1) اللہ تعالیٰ کا امر جو اس کی طرف سے وحی کی گئی ہو۔(2) دوسری اللہ تعالیٰ کی قدرت۔ اب قدرت تو اللہ تعالیٰ کی انکے معاملات میں جاری وساری ہے اور اسکی وجہ سے انکو کفر میں مبتلا کردیا گیا ہے، لیکن اللہ نے اس بات سے ان کو منع کیا ہے۔
اور
اللہ تعالیٰ کا امر بھی دو طرح سے ہے:(1) امرِ کینونی: یہ وہ امر ہت جو اللہ نے کسی کو حکم تو دیا لیکن یہ امر اسکی وحی والے امر سے مختلف ہو، (2) اور دوسرا امر وحی جو پہلے ذکر کیا۔
وفدِ قدریہ:
اچھا آپ یہ بتائیں کہ کیا اللہ تعالیٰ کا امر اس کے ارادے کے موافق ہوتا ہے یا مخالف ہوتا ہے؟
امام ابو حنیفہؒ:
اللہ کا امر تو اس کے ارادے میں سے ہی ہوتا ہے لیکن اس کا ارادہ اس کے امر میں سے نہیں ہوتا، اور اس بات کی تصدیق چاہئے تو اللہ تعالیٰ کا وہ قول کو حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
بےشک مجھے خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ میں تجھے ذبح کروں۔ اب تو بتا تیری کیا رائے ہے؟ آپ نے جواب دیا: اے ابا جان! جو آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اس کو کر گذرئے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔[سورۃ الصٰفٰت:102]
اب جواب میں ان شاء اللہ کے بغیر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، اس لئے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے امر میں سے تو تھا لیکن اسماعیلؑ کا ذبح کیا جانا اس کے ارادے میں سے نہ تھا۔
وفدِ قدریہ:
اچھا تو یہود ونصاریٰ کی ان باتوں کے بارے میں بتائیں جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہیں تھیں، ان کی کیا حقیقت تھی کیونکہ انہوں نے کہا:
یہودیوں نے کہا کہ عزیرؑ اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانیوں نے کہا کہ عیسیٰ اللہ کا بیٹا ہے۔[سورۃ التوبۃ:30]
تو کیا اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بارے میں فیصلہ کیا تھا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی بری باتیں کریں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیوی ہونے یا اولاد کا محتاج ہونے کی نسبت کریں؟
امام ابو حنیفہؒ:
یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں تو فیصلہ نہیں کیا تھا البتہ اپنے بندوں کے بارے میں ضرور فیصلہ کیا تھا، اس لئے کہ اگر اپنے بارے میں فیصلہ کیا ہوتا تو یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہوتی اس کی قضاء نہ ہوتی۔
وفدِ قدریہ:
اچھا آپ یہ بتائین کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کے بارے میں یہ ارادہ کرتے ہیں کہ وہ کفر میں مبتلا ہوجائے تو یہ اس کے ساتھ اچھائی کرتے ہیں یا برائی کرتے ہیں؟
امام ابو حنیفہؒ:
اس بارے میں ہم نہ تو یہ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ برائی کی گئی یا ظلم کیا گیا ہے۔ ہاں اتنی بات ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے اوامر کی مخالفت کرے یہ بات ناممکن ہے، اور اللہ تعالیٰ اس بات سے بلند وبرتر ہیں کہ اس کے اوامر کی مخالفت کی جاسکے۔ لہٰذا بندوں میں سے جو شخص بھی یہ بات جانتا ہے کہ اللہ کے ارادے کی کیا حقیقت ہے یہ بات اس کے ایمان میں سے ہے۔
وفدِ قدریہ:
اے ابو حنیفہؒ ! کیا آپ مومن ہیں؟
امام ابو حنیفہؒ:
ہاں، میں مومن ہوں۔
وفدِ قدریہ:
کیا آپ اللہ کے ہاں بھی مومن ہیں؟
امام ابو حنیفہؒ:
آپ نے میرے علم واستطاعت کے مطابق سوال کیا ہے یا اللہ کے علم واستعداد کے بارے میں سوال کیا ہے؟
وفدِ قدریہ:
بلکہ ہم نے تو آپ کے علم واستعداد کے مطابق سوال کیا ہے؟ اللہ کے علم کے بارے میں سوال نہیں کیا۔
امام ابو حنیفہؒ:
میں اپنے علم کی حقیقت تو جانتا ہوں کہ میں مومن ہوں اور اللہ تعالیٰ کے علم واستعداد کے بارے میں میں نہیں جانتا۔
وفدِ قدریہ:
اے ابوحنیفہ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں سے کسی ایک حرف کا بھی انکار کردے؟
امام ابو حنیفہؒ:
وہ شخص کافر ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو تہدید کرتے ہوئے اور وعید سناتے ہوئے فرمایا:
پھر تم میں سے جو شخص چاہے ایمان لے آئے اور جو شخص چاہے کفر اختیار کرلے۔[سورۃ الکھف:29]
وفدِ قدریہ:
یہ آیت تو وعید کے زمرے میں سے ہے؟
امام ابو حنیفہؒ:
میں نہ ایمان لاتا ہوں اور نہ کفر کرتا ہوں تو اب کیا ہوگا؟ یقیناََ تم اپنے بنائے ہوئے جال میں خود پھنس جاؤگے اس لئے کہ کیا تم نہیں دیکھتے: کہ اگر میں ایمان نہ لاؤں تو میں اللہ کے ارادے کے لحاظ سے کفر اختیار کرنے میں مجبور ہوں، اور اگر میں کفر اختیار نہ کروں تو میں اللہ کے ارادے کے لحاظ سے ایمان لانے پر مجبور ہوں۔
وفدِ قدریہ:
اے ابوحنیفہ! تو لوگوں کو کب تک گمراہ کرتا رہے گا؟
امام ابو حنیفہؒ:
افسوس تمہارے حال پر، جس کو اللہ ہدایت دینا چاہے میں اسے کیسے گمراہ کرسکتا ہوں؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: اور اللہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔[سورۃ النحل:93، فاطر:8]
[الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء: ص165، دار الكتب العلمية - بيروت]
19) بشار بن قرط فرماتے ہیں:
فرقہ قدریہ کے ستر افراد کوفہ میں آئے اور کوفہ کی جامع مسجد میں آکر علنِ تقدیر کے مسئلہ میں لوگوں سے بحث ومباحثہ کرنے لگے، یہ بات امام ابو حنیفہؒ کو معلوم ہوئی تو آپ مسجد میں تشریف لائے، اور ان کے بارے میں فرمایا:
یہ تو بڑی گمراہی کے رستے پر ہیں۔
وفدِ قدریہ:
یہ سن کر امام ابو حنیفہؒ کا رخ کیا اور آپ کے پاس آکر کہنے لگے کہ ہم آپ کے پاس سے مباحثہ کرنا چاہتے ہیں۔
امام ابو حنیفہؒ:
کس بارے میں مباحثہ کرنا چاہتے ہو؟
وفدِ قدریہ:
تقدیر کے مسئلے پر؟
امام ابو حنیفہؒ:
کیا تم یہ بات نہیں جانتے کہ علمِ تقدیر میں بات کرنا تو سورج کی شعاعوں میں جھانکنے کے مترادف ہے آپ جتنی گہری نظر سے اسے دیکھوگے اتنی ہی زیادہ طبیعت میں حیرت وپریشانی بڑھے گی۔
وفدِ قدریہ:
پھر قضاء قدر اور عدلِ باری تعالیٰ کے بارے میں بات کرلو؟
امام ابو حنیفہؒ:
اس پر بات کرنی ہے تو اللہ کا نام لو اور شروع کرو۔
وفدِ قدریہ:
اے ابو حنیفہؒ! کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کے مخلوقات میں سے کسی کے بارے میں سنا ہے کہ اس نے ایسا کام سرانجام دیا جو اللہ کے قبضہ قدرت میں نہ ہو؟
امام ابو حنیفہؒ:
نہیں، ایسا تو نہیں سنا، لیکن اللہ تعالیٰ کی قضاء کی دو قسمیں ہیں:(1) اللہ تعالیٰ کا امر جو اس کی طرف سے وحی کی گئی ہو۔(2) دوسری اللہ تعالیٰ کی قدرت۔ اب قدرت تو اللہ تعالیٰ کی انکے معاملات میں جاری وساری ہے اور اسکی وجہ سے انکو کفر میں مبتلا کردیا گیا ہے، لیکن اللہ نے اس بات سے ان کو منع کیا ہے۔
اور
اللہ تعالیٰ کا امر بھی دو طرح سے ہے:(1) امرِ کینونی: یہ وہ امر ہت جو اللہ نے کسی کو حکم تو دیا لیکن یہ امر اسکی وحی والے امر سے مختلف ہو، (2) اور دوسرا امر وحی جو پہلے ذکر کیا۔
وفدِ قدریہ:
اچھا آپ یہ بتائیں کہ کیا اللہ تعالیٰ کا امر اس کے ارادے کے موافق ہوتا ہے یا مخالف ہوتا ہے؟
امام ابو حنیفہؒ:
اللہ کا امر تو اس کے ارادے میں سے ہی ہوتا ہے لیکن اس کا ارادہ اس کے امر میں سے نہیں ہوتا، اور اس بات کی تصدیق چاہئے تو اللہ تعالیٰ کا وہ قول کو حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
بےشک مجھے خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ میں تجھے ذبح کروں۔ اب تو بتا تیری کیا رائے ہے؟ آپ نے جواب دیا: اے ابا جان! جو آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اس کو کر گذرئے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔[سورۃ الصٰفٰت:102]
اب جواب میں ان شاء اللہ کے بغیر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، اس لئے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے امر میں سے تو تھا لیکن اسماعیلؑ کا ذبح کیا جانا اس کے ارادے میں سے نہ تھا۔
وفدِ قدریہ:
اچھا تو یہود ونصاریٰ کی ان باتوں کے بارے میں بتائیں جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہیں تھیں، ان کی کیا حقیقت تھی کیونکہ انہوں نے کہا:
یہودیوں نے کہا کہ عزیرؑ اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانیوں نے کہا کہ عیسیٰ اللہ کا بیٹا ہے۔[سورۃ التوبۃ:30]
تو کیا اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بارے میں فیصلہ کیا تھا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی بری باتیں کریں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیوی ہونے یا اولاد کا محتاج ہونے کی نسبت کریں؟
امام ابو حنیفہؒ:
یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں تو فیصلہ نہیں کیا تھا البتہ اپنے بندوں کے بارے میں ضرور فیصلہ کیا تھا، اس لئے کہ اگر اپنے بارے میں فیصلہ کیا ہوتا تو یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہوتی اس کی قضاء نہ ہوتی۔
وفدِ قدریہ:
اچھا آپ یہ بتائین کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کے بارے میں یہ ارادہ کرتے ہیں کہ وہ کفر میں مبتلا ہوجائے تو یہ اس کے ساتھ اچھائی کرتے ہیں یا برائی کرتے ہیں؟
امام ابو حنیفہؒ:
اس بارے میں ہم نہ تو یہ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ برائی کی گئی یا ظلم کیا گیا ہے۔ ہاں اتنی بات ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے اوامر کی مخالفت کرے یہ بات ناممکن ہے، اور اللہ تعالیٰ اس بات سے بلند وبرتر ہیں کہ اس کے اوامر کی مخالفت کی جاسکے۔ لہٰذا بندوں میں سے جو شخص بھی یہ بات جانتا ہے کہ اللہ کے ارادے کی کیا حقیقت ہے یہ بات اس کے ایمان میں سے ہے۔
وفدِ قدریہ:
اے ابو حنیفہؒ ! کیا آپ مومن ہیں؟
امام ابو حنیفہؒ:
ہاں، میں مومن ہوں۔
وفدِ قدریہ:
کیا آپ اللہ کے ہاں بھی مومن ہیں؟
امام ابو حنیفہؒ:
آپ نے میرے علم واستطاعت کے مطابق سوال کیا ہے یا اللہ کے علم واستعداد کے بارے میں سوال کیا ہے؟
وفدِ قدریہ:
بلکہ ہم نے تو آپ کے علم واستعداد کے مطابق سوال کیا ہے؟ اللہ کے علم کے بارے میں سوال نہیں کیا۔
امام ابو حنیفہؒ:
میں اپنے علم کی حقیقت تو جانتا ہوں کہ میں مومن ہوں اور اللہ تعالیٰ کے علم واستعداد کے بارے میں میں نہیں جانتا۔
وفدِ قدریہ:
اے ابوحنیفہ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں سے کسی ایک حرف کا بھی انکار کردے؟
امام ابو حنیفہؒ:
وہ شخص کافر ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو تہدید کرتے ہوئے اور وعید سناتے ہوئے فرمایا:
پھر تم میں سے جو شخص چاہے ایمان لے آئے اور جو شخص چاہے کفر اختیار کرلے۔[سورۃ الکھف:29]
وفدِ قدریہ:
یہ آیت تو وعید کے زمرے میں سے ہے؟
امام ابو حنیفہؒ:
میں نہ ایمان لاتا ہوں اور نہ کفر کرتا ہوں تو اب کیا ہوگا؟ یقیناََ تم اپنے بنائے ہوئے جال میں خود پھنس جاؤگے اس لئے کہ کیا تم نہیں دیکھتے: کہ اگر میں ایمان نہ لاؤں تو میں اللہ کے ارادے کے لحاظ سے کفر اختیار کرنے میں مجبور ہوں، اور اگر میں کفر اختیار نہ کروں تو میں اللہ کے ارادے کے لحاظ سے ایمان لانے پر مجبور ہوں۔
وفدِ قدریہ:
اے ابوحنیفہ! تو لوگوں کو کب تک گمراہ کرتا رہے گا؟
امام ابو حنیفہؒ:
افسوس تمہارے حال پر، جس کو اللہ ہدایت دینا چاہے میں اسے کیسے گمراہ کرسکتا ہوں؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: اور اللہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔[سورۃ النحل:93، فاطر:8]
[الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء: ص165، دار الكتب العلمية - بيروت]
***************************************
امام شافعیؒ کا منکر حدیث سے ایک مناظرہ (لازمی پڑھیے)
بسم اللہ الرحمن الرحیمالسلام علیکم ورحمتہ اللہ!پروفیسر محمد ابو زہرہ کلیہ اصول الدین الازہر یونیوسٹی نے اپنی کتاب ”الحدیث والمحدثون“ میں حضرت الامام محقق اسلام حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک مناظرہ جو کہ ایک منکر حدیث سے ہوا ،نقل کیا ہے ۔ جس کا ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریری مرحوم نے کیا ۔۔۔۔ اور یہ مناظرہ ماہنامہ بینات(ربیع الثانی1428ھ مئی2007ء, جلد 70, شمارہ 4)میں شایع ہوا ۔۔۔۔*افادہٴ عام کی غرض سے قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے ۔منکر حدیث: امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو مخاطب کرتے ہوئےآپ عربی ہیں اور قرآن آپ کی زبان میں اترا ہے‘ آپ جانتے ہیں کہ یہ محفوظ کتاب ہے‘ اس میں خداوندی فرائض بیان کئے گئے ہیں‘ اگر کوئی شخص اس کے کسی حرف میں بھی شک وشبہ کا اظہار کرے تو آپ اس سے توبہ کا مطالبہ کریں گے‘ اگر توبہ کرے تو فبہا‘ ورنہ (مرتد سمجھ کر) اسے قتل کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا:”تبیاناً لکل شئ“
اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔ جب یہ بات ہے تو تمہارا یہ قول کیسے درست ہے کہ فرض عام بھی ہوتا ہے اور خاص بھی؟ نیز یہ بھی کہ امر وجوب کے لئے بھی ہوتا ہے اور اباحت کے لئے بھی؟ دوسری طرف آپ ایک شخص سے ایک یا دو تین احادیث روایت کرتے ہیں ،پھر وہ شخص دوسرے شخص سے‘ یہاں تک کہ راویوں کا سلسلہ نبی اکرم اتک پہنچ جاتاہے‘ مجھے معلوم ہے کہ آپ برملا کہا کرتے ہیں کہ: فلاں شخص سے فلاں حدیث کے نقل کرنے میں غلطی سرزد ہوئی ۔ میں جانتاہوں کہ اگر آپ ایک حدیث کی بناء پر کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرائیں اور کوئی شخص اس حدیث کے بارے میں یہ کہہ دے کہ: نبی کریم ا نے ایسا نہیں فرمایا‘ بلکہ تم سے یا اس شخص سے غلطی سرزد ہوئی ہے جس سے آپ نے یہ حدیث سنی ،تو تم اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کروگے‘ تم اسے صرف یہ بات کہو گے کہ تم نے بہت بری بات کہی‘ یہ بات کیوں کر درست ہے کہ احادیث کی بناء پر قرآن کے ظاہری احکام میں تفریق کی جائے؟ جب تم حدیث کو وہی اہمیت دیتے ہو جو قرآن کو حاصل ہے تو اس حدیث کا انکار کرنے والے کے خلاف تم کونسی حجت قائم کر سکو گے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :- جو شخص اس زبان سے واقف ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا‘ وہ اس حقیقت سے باخبر ہے کہ احادیث رسول اللہ ا پر عمل کرنا ضروری ہے۔منکر حدیث: اس کی کوئی دلیل آپ کو یاد ہو تو پیش کیجئے!امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:”هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ الخ (الجمعہ 2)
ترجمہ:۔”وہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیات سناتا اور ان کو پاک کرتا اور کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے“۔
منکر حدیث: کتاب سے تو کتاب الٰہی مراد ہے، مگر حکمت کیا چیز ہے؟امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :حکمت سے حدیث رسول مراد ہے۔منکر حدیث: کیا اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم ا اجمالاً بھی قرآن کی تعلیم دیتے تھے اور حکمت یعنی مذکورہ احکام بھی بیان فرماتے تھے؟امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :غالباً آپ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں جو فرائض مذکور ہیں، مثلاً: نماز‘ زکوٰة‘ حج وغیرہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ان کی کیفیت اور تفصیل بیان فرمادیا کرتے تھے۔منکر حدیث:جی ہاں ! میرا یہی مطلب ہے۔امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:- تو میں بھی آپ سے یہی کہہ رہا ہوں کہ فرائض کی تفصیل حدیث رسول ا سے معلوم ہوتی ہے۔منکر حدیث:اس امر کا بھی احتمال ہے کہ کتاب اور حکمت دونوں سے ایک ہی چیز مراد ہو، اور کلام کو تکرار واعادہ پر محمول کیا جائے؟امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: آپ ہی بتایئے کہ دونوں سے ایک چیز مراد لینا بہتر ہے یا دونوں؟منکر حدیث: ہوسکتا ہے کہ کتاب وحکمت سے دو چیزیں یعنی کتاب وسنت مراد لی جائیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی چیز یعنی قرآن مراد ہو۔امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: ہر دو احتمالات میں سے جو واضح تر ہے وہی افضل ہے اور جو بات ہم نے کہی ہے‘ قرآن کریم میں اس کی دلیل موجود ہے۔منکر حدیث: وہ دلیل کیا اور کہاں ہے؟امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ فرماتاہے:”وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا الخ (الاحزاب:34)
ترجمہ:۔”اور تمہارے گھروں میں خدا کی آیات اور جس حکمت کی تلاوت کی جاتی ہے‘ اس کو یاد کرتی رہو‘ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نرمی کرنے والا اور آگاہ ہے“۔
اس آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ امہات المؤمنین کے گھروں میں دو چیزوں کی تلاوت کی جاتی تھی۔
منکر حدیث: قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے ،مگر حکمت کی تلاوت کا کیا مطلب ہے؟امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: تلاوت کے معنی یہ ہیں کہ: جس طرح قرآن کے ساتھ نطق کیا جاتاہے‘ اسی طرح سنت کا اظہار بھی قوت گویائی ہی کے ذریعے کیا جاتاہے۔منکر حدیث: بے شک اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمت‘ قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز ہے۔امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ نے ہم پر رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض ٹھہرایا ہے۔منکر حدیث:اس کی کیا دلیل ہے ؟امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :اللہ تعالیٰ فرماتاہے:1- ”فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا الخ۔ (النساء:65)
ترجمہ:۔”اور تیرے رب کی قسم! لوگ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ اپنے جھگڑوں میں آپ کو فیصل نہ بنائیں اور پھر جو فیصلہ آپ صادر کردیں‘ اس کے بارے میں اپنے جی میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اپنا سرتسلیم خم کردیں“۔
2-”مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ الخ (النساء:80)
ترجمہ:۔”جس نے رسول کی اطاعت کی ،اس نے اللہ کی اطاعت کی“۔
3-”فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ الخ(النور:63)
ترجمہ:”جو لوگ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں وہ فتنہ میں مبتلا ہوجائیں یا دردناک عذاب میں گرفتار ہوجائیں“۔
منکر حدیث: یہ درست ہے کہ حکمت سے سنت رسول مراد ہے ،اگر میرے ہم خیال لوگوں کی یہ بات صحیح ہوتی کہ ان آیات میں رسول کے احکام کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور رسول کا حکم وہی ہے جو اللہ نے قرآن کریم میں نازل کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص رسول کے احکام کی اطاعت نہیں کرتا‘ اس کو احکام خداوندی کا تسلیم نہ کرنے والا قرار دینا چاہئے‘ نہ کہ صرف احکام رسول کا باغی۔امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ نے رسول کے احکام کا اتباع ہم پر فرض قرار دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں فرمایا:”وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا الخ۔ (الحشر:7)
ترجمہ:۔”رسول جو کچھ تم کو دے، وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو“۔
قرآن سے بوضاحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرنا اور جس بات سے منع کریں، اس سے باز رہنا ہم پر فرض ہے۔
منکر حدیث: جو بات ہم پر فرض ہے وہ ہم سے پہلوں اور پچھلوں سب پر فرض ہے؟امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: جی ہاں!منکر حدیث: اگر رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے احکام کی اطاعت ہم پر فرض ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ ا ہم پر کسی بات کو فرض ٹھہرا تے ہیں تو آپ ایک ایسے امر کی جانب ہماری رہنمائی کرتے ہیں جس کی اطاعت ہمارے لئے ضروری ہے؟امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: جی ہاں!امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ نے اطاعت رسول کا جو حکم دیا ہے‘ کیا آپ یا آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کوئی شخص جس نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہو‘ احادیث نبویہ کے بغیر اس کی تعمیل کرسکتا ہے؟ اور حدیث نبوی کو نظر انداز کرکے احکام رسول کی تعمیل ممکن ہے؟ علاوہ ازیں حدیث نبوی قرآن کے ناسخ ومنسوخ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔منکر حدیث: اس کی کوئی مثال ذکر کیجئے؟امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: قرآن میں فرمایا:”كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ“۔ (ابقرۃ :180)
ترجمہ:۔”جب تم میں سے کسی کا آخری وقت آجائے اور اس نے مال چھوڑا ہو تو تم پر والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت فرض کی گئی ہے“۔
ترکہ کی تقسیم سے متعلق قرآن میں ہے:
”وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ․․․ الخ (النساء:11)
ترجمہ:․․․”اور اگر میت کی اولاد بھی ہو تو اس کے ترکہ میں سے والدین میں سے ہرایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ پھر اگر نہ ہو اس کی اولاد اور وارث بن رہے ہوں اس کے ماں باپ ہی تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے پھر اگر ہوں میت کے بھائی بہن تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ۔۔۔۔۔۔“۔
حدیث نبوی کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا کہ ترکہ کی تقسیم سے متعلق آیت نے وصیت پر مشتمل آیت کو منسوخ کردیا‘ اگر ہم حدیث نبوی کو تسلیم نہ کرتے ہوتے اور ایک شخص ہمیں کہتا کہ وصیت پر مشتمل آیت نے تقسیم ورثہ سے متعلق آیت کو منسوخ کردیا او راس پر حجت صرف حدیث ہی کے ذریعے سے قائم کی جاسکتی ہے۔
منکر حدیث: آپ نے مجھ پر حجت تمام کردی ہے اور میں تسلیم کرتاہوں کہ حدیث نبوی کو قبول کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے‘ حق کے ظاہر ہوجانے کے بعد میں اس بات میں عار محسوس نہیں کرتا کہ حدیث نبوی کے بارے میں اپنا موقف چھوڑ کر اپنا زاویہ نگاہ اختیار کرلوں‘ بلکہ مجھے اس حقیقت کا اعتراف کرنے سے کوئی چیز مانع نہیں کہ ظہور حق کے بعد اس کو تسلیم کرنا میرے لئے ضروری تھا‘ مگر بتایئے کہ: اس کا کیا مطلب کہ قرآن کے بعض عام احکام اپنے عموم پر رہتے ہیں اور بعض دفعہ ان میں تحصیص پیدا ہوجاتی ہے؟امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں متعدد مثالیں ذکر کیں ،پھر اپنے حریف کو مخاطب کرکے فرمایا: اب آپ پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کی اطاعت کو قرآن کریم میں فرض قرار دیا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ صلیٰ*اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے عام وخاص اور ناسخ ومنسوخ کا شارح وترجمان ٹھہرایا ہے۔منکر حدیث: جی ہاں ! آپ کا ارشاد بجا ہے‘ مگر میں تو ہمیشہ اس کی مخالفت کرتا رہا‘ یہاں تک کہ اس نقطہٴ نظر کی غلطی مجھ پر واضح ہوگئی۔ اس ضمن میں منکر حدیث دو فرقوں میں بٹ گئے ہیں: ایک فریق کا کہنا یہ ہے کہ حدیث نبوی مطلقاً حجت نہیں ہے اور قرآن کریم میں ہر چیز کی وضاحت وصراحت موجود ہے۔امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: حدیث نبوی سے صاف انکار کا نتیجہ کیا نکلا؟منکر حدیث:بہت برا نتیجہ برآمد ہوا۔اس لئے کہ انکار حدیث کا عقیدہ رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ :جو شخص کم از کم ایسا کام کرے جس کو صلوٰة یا زکوٰة کہہ سکتے ہیں‘ اس نے صلوٰة وزکوٰة کا حق ادا کردیا‘ اس میں وقت کی پابندی نہیں، اگر کوئی شخص ہر روز یا کئی دنوں میں دو رکعت نماز ادا کرلے تو اس نے صلوٰة کا فریضہ ادا کردیا‘ وہ کہتے ہیں کہ: جو حکم قرآن میں نہ وارد ہو‘ وہ کسی پر فرض نہیں۔ منکر حدیث کا دوسرا فرقہ کہتا ہے کہ جو حکم قرآن میں مذکور ہے، اس کے بارے میں حدیث کو قبول کیا جاسکتا ہے اور جس ضمن میں قرآن وارد نہیں ہوا‘ اس میں حدیث کو قبول نہیں کیا جاسکتا‘ نتیجہ اس کا بھی وہی ہوا جو پہلے فرقہ کا ہوا تھا۔ اس فرقہ نے پہلے حدیث کو رد کیا اور پھر اس کو قبول بھی کرنے لگے‘ یہ لوگ کسی خاص وعام یا ناسخ ومنسوخ کو تسلیم نہیں کرتے،ان دونوں کا گمراہ ہونا واضح ہے۔ اور میں ان میں سے کسی کو بھی حق نہیں سمجھتا‘ مگر میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ: آپ ایک حرام چیز کو بلاد لیل کیسے حلال سمجھنے لگے ہیں؟ کیا آپ کے پاس اس کی کوئی دلیل موجود ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:دلیل موجود ہے۔منکر حدیث: کونسی دلیل؟امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: میرے پاس جو شخص بیٹھا ہے‘ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اس کا خون اور مال حرام ہے یا نہیں؟منکر حدیث: اس کا خون اور مال حرام ہے۔امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اگر وہ شخص شہادت دے کہ اس فلاں شخص کو قتل کیا اور اس کا مال لے لیا اور وہ مال آپ کے پاس موجود ہے تو اس کے بارے میں آپ کا کیا رویہ ہوگا؟ (آپ کیا رویہ اختیار کریں گے؟)منکر حدیث: میں اس کو فوراً قتل کردوں گا اور اس سے مال لے کر وارثوں کو لوٹا دوں گا۔امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: کیا یہ ممکن نہیں کہ گواہوں نے جھوٹی اور غلط گواہی دی ہو؟منکر حدیث:ایسا ہوسکتا ہے۔امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: پھر آپ نے جھوٹی گواہی کی بناء پر اس شخص کے مال اور خون کو کیسے مباح قرار دیا‘ حالانکہ وہ خون اور مال حرام تھا؟منکر حدیث:اس لئے کہ شہادت قبول کرنا ضروری امر ہے۔امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:اگر تم گواہوں کی گواہی کو ظاہری صداقت کی بنا پر قبول کرنا ضروری سمجھتے ہو اور باطن کا علم تو صرف ذات خداوندی ہی کو ہے تو ہم راوی کے لئے جو شرائط عائد کرتے ہیں‘ وہ گواہ کی شرائط سے زیادہ کڑی ہیں‘ چنانچہ جن لوگوں کی شہادت کو قبول کرتے ہیں‘ ضروری نہیں کہ ان کی روایت کردہ حدیث کو بھی صحیح سمجھ لیں ۔راوی کی صداقت اور غلطی کا پتہ تو ان رواة ورجال سے بھی چل جاتاہے جو روایت حدیث میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں‘ علاوہ ازیں کتاب وسنت سے بھی راوی کی غلطی واضح ہوجاتی ہے‘ مگر شہادت میں ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی۔منکر حدیث: میں تسلیم کرتاہوں کہ حدیث نبوی دین میں حجت ہے اور رسول کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے فرض ٹھہرایا ہے‘ جب میں نے رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کو قبول کیا تو گویا خدا کے حکم کو قبول کیا۔ حدیث ِ رسول کی حجیت پر سب مسلمانوں کا اجماع منعقد ہوچکا ہے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں‘ آپ کے بتانے سے مجھ پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ مسلمان ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں ۔برادران اسلام!آپ نے مناظرہ پڑھا‘ یہ مناظرہ ان لوگوں کو پڑھوائیں جو اس فتنے کے جال میں پھنس گئے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو علمائے حق کے دامن سے وابستہ رکھے اور صحابہ کرام واہل بیت عظام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین ۔(کتاب الام ج:7 ص:250 بحوالہ: ”الحدیث والمحدثون“ اردو ترجمہ: ص:362تا368 مترجم پروفیسر غلام احمد حریری مرحوم)ماہنامہ بینات, ربیع الثانی1428ھ مئی2007ء, جلد 70, شمارہ 4
وہ گلا پھاڑ پھاڑ کرتقریر کررہا تھا کہ اچانک اس کی زبان بند ہوگئی مجمع میں شور ہوا کہ بولیے چپ کیوں ہو گئے؟پھر بھی اس کے لبوں پر جیسے خاموشی کی مہر لگ چکی ہو مجمع سے برابر شور بلند ہو رہا تھا کہ بولیے بولیے کیوں چپ ہوگئے ؟اس نے کہاہم میں کوئی محمدی آگیا ہے۔
یہ یہودیوں کا ایک نامی گرامی خطیب تھا جس کی زبان اچانک بند ہوگئی اوربدحواسی کا شکارہوگیا۔لوگوں نے کہا کہ کیا اس محمدی کو قتل کردیں ؟ نہیں نہیں قتل مت کرو ۔ یہودی خطیب لرزہ براندام ہے اور تھرتھر کانپ رہا تھا اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی کافی دیر بعد اس نے کہا ؛او محمد کا کلمہ گو۔ کیا تو میرا مقابلہ کرسکتا ہے ؟ اچانک ایک بزرگ کھڑے ہوئے جنہیں دنیا حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ کے نام سے یاد کرتی ہے انہوں نے کہا او یہودی تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ گو کے بارے میں سنا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ گو کو نہیں سنا۔ پوچھ کیا پوچھتا ہے لیکن ایک بات یاد رکھ میں بھی تجھ سے ایک سوال کروں گا کیا تو جواب دے گا ؟یہودی خطیب نے کہا کہ ہاں دوں گا ۔حضرت بایزید رحمہ اللہ سٹیج پر چڑھ گئے دونوں آمنے سامنے تھے سلسلہ سوالات یہودی خطیب کی طرف سے شروع ہوا ۔
ایک بتاؤ جس کا دوسرا نہیں ؟
1. فرمایا اللہ ایک ہے اس کے ساتھ دوسرا نہیں ۔
دو بتا ؤ جس کا تیسرا نہ ہو ؟
2. فرمایا الیل والنھار دن اور رات اس کا تیسرا نہیں۔
کہا تین بتاؤ جس کا چوتھا نہیں ؟
3. فرمایا لوح، قلم اور کرسی یہ تین ہیں اس کا چوتھا نہیں ۔
چار بتاؤ جس کا پانچواں نہیں ؟
4. فرمایا تورات ،زبور، انجیل اور قرآن یہ چار ہیں ان کا پانچواں نہیں۔
پانچ بتاؤ جس کا چھٹا نہیں ؟
5. فرمایا اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں چھ نہیں ۔
چھ بتاؤ جس کا ساتواں نہیں ؟
6. فرمایا خلق السموات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام ثم استوی علی العرش چھ دن میں زمین آسمان بنائے سات نہیں۔
کہا سات بتاؤ جس کا آٹھواں نہیں؟
7. فرمایا الم تروا کیف خلق اللہ سبع سموات طباقا وجعل القمر فیھن نورا وجعل الشمس سراجا۔ میرا رب کہتا ہے میں نے سات آسمان بنائے اس لیے
آسمان سات ہیں اس کا آٹھواں نہیں ۔ کہاآٹھ بتاؤ جس کا نواں نہیں؟
8. فرمایا ویحمل عرش ربک فوقھم یومئذ ثمانیۃ میرے رب کے عرش کوآٹھ فرشتوں نے پکڑا ہوا ہے 9 نے نہیں
وہ نو بتاؤ جس کا دسواں نہیں ؟
9. فرمایا وکان فی المدینۃ تسعۃ رھط یفسدون حضرت صالح علیہ السلام کی قوم میں 9 بڑے بڑے بدمعاش تھے دسواں نہیں تھا اللہ نے9
کہا ۔ کہا وہ دس بتاؤ جس کا گیارہوا نہیں؟
10. فرمایا حج میں کوئی غلطی ہو جا ئے تو اللہ نے ہمیں سات روزے وہاں رکھنے اور تین گھر میں رکھنے کا حکم دیا ہے تلک
عشرۃ کاملہ یہ دس ہیں گیار ہ نہیں ۔ وہ گیارہ بتاؤ جس کا بارہواں نہیں ؟
11. فرمایا یوسف علیہ السلام کے گیارہ بھائی تھے بارہ نہیں ۔
وہ بارہواں جس کا تیرہواں نہیں؟
12. فرمایا سال میں اللہ نے بارہ مہینے بنائے ہیں تیرہ نہیں ۔
وہ تیرہ جس کا چودہ نہیں؟
13. فرمایا رایت احد عشر کوکبا والشمس والقمر رایتھم لی سجدین ۔حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے باپ سے کہا کہ میں نے گیارہ
ستارے دیکھے ایک سورج دیکھا ایک چاند دیکھا جو مجھے سجدہ کر رہے ہیں یہ تیرہ ہیں چودہ نہیں ۔ 14. وہ چیز بتاؤ جس کو خود اللہ نے پیدا فرمایا اور پھر اسی کے بارے میں خود ہی سوال کیا؟ فرمایا حضرت موسی علیہ السلام کا عصا ڈنڈا اللہ کی پیدا وار ہے لیکن خود اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام سے اس کے
بارے میں سوال کیا وما تلک بیمینک یموسی کہ اے موسی تیرے ہاتھ میں کیا ہے۔
سب سے بہترین سواری کون سے ہے؟
15. فرمایا سب سے بہترین سواری گھوڑا ہے ۔
سب سے بہترین دن کو ن سا ہے؟
16. فرمایا جمعہ کا دن سب سے بہترین ہے۔
سب سے بہترین رات کون سے ہے ؟
17. فرمایا لیلۃ القدر کی رات سب سے بہترین ہے ۔
سب سے بہتر مہینہ کو ن سا ہے ؟
18. فرمایا رمضان کا مہینہ سب سے بہترین ہے۔
وہ کون سی چیز ہے جس کو اللہ نے پیدا کر کے اس کی عظمت کا اقرار فرمایا ؟
19. فرمایا اللہ نے عورت کو مکار بنایا اور اس کے مکر کا اقرار کیا ان کید ھن عظیم عورت کا مکر بڑا زبر دست ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے نہیں دیکھا کہ بڑے سے بڑے عقلمند کے قدم اکھاڑنے والی ہو اور کوئی چیز نہیں ہے سوائے عورت کے مکر کے بڑوں بڑوں کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے۔
وہ کون سی چیز ہے جو بے جان مگر سانس لیتی ہے ؟
20. فرمایا والصبح اذا تنفس میرا رب کہتا ہے مجھے صبح کی قسم جب وہ سانس لیتی ہے۔
وہ کون سی چودہ چیزیں ہیں جنہیں اللہ نے اطاعت کا حکم دیا اور ان سے بات کی ؟
21. فرمایا سات آسمان سات زمین ثم استوی الی السماء وھی دخان فقال لھا وللارض ائیتا طوعا او کرھا قالتا اتینا طائعین اللہ نے سات زمین سات آسمان بنائے اور ان چودہ کو خطاب کر کے فرمایا میرے سامنے جھک جاؤ تو ان چودہ کے چودہ نے کہا یا اللہ ہم آپ کے سامنے جھک رہے ہیں
وہ کون سی چیز ہے جسے اللہ نے خود پیدا فرمایا پھر اللہ نے اسے خرید لیا ؟
22. فرمایا اللہ تعالی نے مسلمانوں کو پیدا کیا اور ان کو خود خرید لیا جنت کے بدلے میں ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ اے مسلمان اللہ کی قسم نہ تو بیوی کا ہے نہ تو بچوں کا ہے نہ تو تجارت کا ہے نہ تو صدارت کا ہے نہ تو حکومت کا ہے نہ تو کسی جماعت کا ہے تو اللہ اور اس کے رسول کا ہے تو اللہ اور اللہ کے رسول کا بن کر چلے گا تو یہ سارا نقشہ تیرے تابع ہو کر چلے گا اور اگر تو اللہ اور اس کے رسول سے ٹکرائے گا تو اللہ تجھے ذلیل کر دے گا ۔
وہ کون سی بے جان چیز ہے جس نے بے جان ہو کے بیت اللہ کا طواف کیا ؟
23. فرمایا نوح علیہ السلام کی کشتی پانی پر چلی اور چلتے چلتے جب بیت اللہ پر آئی اور بیت اللہ کے سات چکر لگائے ۔
وہ کون سی قبر ہے جو اپنے مردے کو لے کر چلی؟
24. فرمایا حضرت یونس علیہ السلام کی مچھلی جو حضرت یونس علیہ السلام کو چالیس دن لے کر اند رچلتے پھرتی رہی وہ قبر کی طرح تھی اور قبر کی طرح چل رہی تھی حضرت یونس علیہ السلام کو پیٹ میں بیٹھا کر نہ مرنے دیا ااور نہ بھوکا رکھا نہ پیاسا رکھا نہ بیمار کیا نہ پریشان حضرت یونس امانت بن کے بیٹھے ہوئے ہیں ۔
وہ کون سی قوم ہے جس نے جھوٹ بولا پھر بھی جنت میں جائے گی ؟
25. فرمایا یوسف علیہ السلام کے بھائی وجاؤا علی قمیصہ بدم کذب قال بل سولت لکم انفسکم امرا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی شام کو آئے اور بکرے کا خون کرتے پر مل کر آئے اور جھوٹ بولا کہ یوسف کو بھیڑیا اٹھا کے لے گیا ہے لیکن حضرت یعقوب کی تو بہ اور استغفار کرنے پر اللہ ان کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔
وہ کون سی قوم ہے جو سچ بولے گی پھر بھی جہنم میں جائے گی ؟
26. فرمایا یہودی اور عیسائی ایک بول میں سچے ہیں یہودی کہتے ہیں عیسائی باطل پر ہیں اور عیسائی کہتے ہیں یہودی باطل پر ہیں اس بول میں دونوں سچے ہیں وقالت الیہود لیست النصاری علی شیء وقالت النصاری لیست الیھود علی شیء دونوں سچے ہیں اس بول میں لیکن دونوں جہنم میں جائیں گے ۔
یہاں تک پہنچ کر یہودی عالم خاموش ہوگیا اب باری حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ کی ۔انہوں نے یہودی عالم کو مخاطب بنا کر ایک سوال کیا کہ ما مفتاح الجنۃ مجھے بتا جنت کی چابی کیا ہے؟
یہودی عالم خاموش ہو گیا تو نیچے مجمع سے لوگوں نے کہا بولتے کیوں نہیں؟ بولو تم نے سوالوں کی بوچھاڑ کی وہ ہر ایک کا جواب دیتا رہا اور آپ ایک کا بھی جواب نہیں دے رہے ۔کہنے لگا ؛جواب مجھے آتا ہے مگر تم مانو گے نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا اگر توں کہے گا تو ہم مان لیں گے ۔ اس نے کہا کہ جنت کی چابی تو محمد رسول اللہ ہیں۔
چنانچہ سارا مجمع یہودی خطیب کی یہ بات سن کے حیران ہوا کہ اگر معاملہ یہ ہے تو پھر تم نے آج تلک یہ ہم سے کیوں چھپایا ۔یہودی خطیب تو وہاں سے سرک گیا لیکن وہاں پر موجود سینکڑوں حقیقت پسند اور منصف مزاج لوگوں نے سرکار دوعالم کا کلمہ پڑھ لیا اور اسلام میں داخل ہوگئے ۔یہودیو آج بھی بایزید کی روحانی اولاد تمہارے سوالات کے جوابات دے رہی ہے لیکن مامفتاح الجنۃ کے سوال کا جواب تم نے چھپا رکھا ہے۔
[حوالہ: الروض الفائق فی الموائط والرقائق:204-206]
***************************************
امام قرطبیؒ نے ابوالعالیہ
ریاحی سے نقل کیا ہے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی مسجد کا قبلہ بھی بیت اللہ کی
طرف تھا اور پھر ابوالعالیہ نے نقل کیا ہے کہ ان کا ایک یہودی سے مناظرہ ہوگیا
یہودی نے کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا قبلہ صخرہ بیت المقدس تھا ابوالعالیہ نے
کہا کہ نہیں موسیٰ (علیہ السلام) بیت المقدس کے پاس نماز پڑہتے تھے مگر آپ کا رخ
بیت اللہ ہی کی طرف ہوتا تھا یہودی نے انکار کیا تو ابوالعالیہ نے کہا کہ اچھا
میرے تمہارے جھگڑے کا فیصلہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی مسجد کردے گی جو بیت
المقدس کے نیچے ایک پہاڑ پر ہے دیکھا گیا تو اس کا قبلہ بیت اللہ کی طرف
تھا.[تفسیر معارف
القرآن:1/151]
لطیفہ :- علامہ آلوسی نے
ایک واقعہ لکھا ہے کہ ہارون الرشید کے دربار میں ایک نصرانی طبیب نے حضرت علی بن
الحسین و اقدی سے مناظرہ کیا اور ان سے کہا کہ تمہاری کتاب میں ایسا لفظ موجود ہے
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا جزو ہیں اور دلیل میں یہ
آیت پڑھ دی، جس میں ”روح منہ“ کے الفاظ ہیں ۔
علامہ و اقدی نے ان کے
جواب میں ایک دوسری آیت پڑھ دی وسخرلکم ما فی السموت وما فی الارض جمیعاً منہ (اس
آیت میں کہا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اسی اللہ سے ہے اور
منہ کے ذریعہ سے سب چیزوں کی نسبت اللہ کی طرف کر دی گئی ہے) اور فرمایا کہ روح
منہ کا اگر مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ اللہ کا جزو ہیں تو اس آیت کا مطلب پھر یہ
ہوگا کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی اللہ کا جزو ہے؟ یہ جواب سن کر نصرانی
طبیب لاجواب ہوا اور مسلمان ہو گیا۔[تفسیر معارف القرآن:4/667]
اور وہ وقت بھی یاد کرنے
کے قابل ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر (نام) سے فرمایا کہ کیا تو
بتوں کو معبود قرار دیتا ہے، بیشک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو (جو اس اعتقاد
میں تیرے شریک ہیں) صریح غلطی میں دیکھ رہا ہوں (اور ستاروں کے متعلق آگے گفتگو
آئے گی، درمیان میں ابراہیم (علیہ السلام) کا صحت نظر کے ساتھ موصوف ہونا کہ ما
قبل و ما بعد دونوں سے اس کا تعلق ہے فرماتے ہیں) اور ہم نے ایسی ہی (کامل) طور پر
ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات (بچشم معرفت) دکھلائیں،
تاکہ وہ (خالق کی ذات و صفات کے) عارف ہو جاویں اور تاکہ (ازدیار معرفت سے) کامل
یقین کرنے والوں سے ہو جاویں (آگے ستاروں کے متعلق گفتگو کہ تتمہ مناظرہ کا ہے
مذکور ہے کہ اوپر کی گفتگو تو بتوں کے متعلق ہو چکی) پھر (اسی دن یا کسی اور دن)
جب رات کی تاریکی ان پر (اسی طرح اور سب پر) چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا
(کہ چمک رہا ہے) آپ نے (اپنی قوم سے مخاطب ہوکر) فرمایا کہ (تمہارے خیال کے موافق)
یہ میرا (اور تمہارا) رب (اور میرے احوال میں متصرف) ہے (بہت اچھا، اب تھوڑی دیر
میں حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے، چنانچہ تھوڑے عرصہ کے بعد وہ افق میں جا چھپا) سو
جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا
(اور محبت لوازم اعتقاد ربوبیت سے ہے پس حاصل یہ ہوا کہ میں رب نہیں سمجھتا) پھر
(اسی شب میں یا کسی دوسری شب میں) جب چاند کو دیکھا (کہ) چمکتا ہوا (نکلا ہے) تو
(پہلے ہی کی طرح) فرمایا کہ (تمہارے خیال کے موافق) یہ میرا (اور تمہارا) رب (اور
متصرف فی الاحوال) ہے (بہتر اب تھوڑی دیر میں اس کی کیفیت بھی دیکھنا چنانچہ وہ
بھی غروب ہوگیا) سو جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرا رب
(حقیقی) ہدایت نہ کرتا رہے (جیسا اب تک ہدایت کرتا رہتا ہے) تو میں بھی (تمہاری
طرح) گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں پھر (یعنی اگر چاند کا قصہ اسی قصہ کو کب کی شب
کا تھا تب تو کسی شب کو صبح کو اور اگر چاند کا قصہ اسی قصہ کو کب کی شب کا نہ تھا
تو قصہ قمر کی شب کی صبح کو یا اس کے علاوہ کسی اور شب کی صبح کو) جب آفتاب دیکھا
(کہ بڑی آب و تاب سے) چمکتا ہوا (نکلا ہے) تو (پہلی دوبار کی طرح پھر) فرمایا کہ
(تمہارے خیال کے موافق) یہ میرا (اور تمہارا) رب (اور متصرف فی الاحوال) ہے (اور)
یہ تو سب (مذکورہ ستاروں) میں بڑا ہے (اس پر خاتمہ کلام کا ہو جاوے گا، اگر اس کی
ربوبیت باطل ہوگئی تو چھوٹوں کی بدرجہ اولیٰ باطل ہو جاوے گی، غرض شام ہوئی تو وہ
بھی غروب ہوگیا) سو جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ بیشک میں تمہارے شرک سے
بیزار (اور نفور) ہوں (یعنی برأت ظاہر کرتا ہوں، اعتقاداً تو ہمیشہ سے بیزار ہی
تھے) میں (سب طریقوں سے) یک سو ہو کر اپنا رخ (ظاہر کا اور دل کا) اس (ذات) کی طرف
(کرنا تم سے ظاہر) کرتا ہوں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور میں
(تمہاری طرح) شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں (نہ اعتقاداً نہ قولاً نہ عملاً) اور ان
سے ان کی قوم نے (بیہودہ) حجت کرنا شروع کی (وہ یہ کہ رسم قدیم ہے (آیت) وجدنا
اباءنا لھا عابدین، اور معبودان باطلہ کے انکار پر ڈرایا بھی کہ کبھی تم کو یہ کسی
آفت میں نہ پھنسا دیں کما یدل علیہ الجواب بقولہ ولا اخاف الخ) آپ نے (پہلی بات کے
جواب میں تو یہ) فرمایا کہ کیا تم اللہ (کی توحید) کے معاملہ میں مجھ سے (باطل)
حجت کرتے ہو، حالانکہ اس نے مجھ کو (استدلال صحیح کا) طریقہ بتلا دیا ہے (جس کو میں
تمہارے روبرو پیش کر چکا ہوں، اور محض رسم قدیم ہونا اس استدلال کا جواب نہیں ہو
سکتا، پھر اس سے احتجاج تمہارے لئے بیکار اور میرے نزدیک غیر قابل التفات) اور
(دوسری بات کے جواب میں یہ فرمایا کہ) میں ان چیزوں سے جن کو تم اللہ تعالیٰ کے
ساتھ (استحقاق عبادت میں) شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا (کہ وہ مجھ کو کوئی صدمہ پہنچا
سکتے ہیں کیونکہ ان میں خود صفت قدرت ہی مفقود ہے اور اگر کسی چیز میں ہو بھی تو
استقلال قدرت مفقود ہے) ہاں لیکن اگر پروردگار ہی کوئی امر چاہے (تو وہ دوسری بات
ہے وہ ہو جاوے گی لیکن اس سے آلہہ دار باب باطلہ کی قدرت کا ثبوت یا ان سے خوف کی
ضرورت کب لازم آئی اور) میرا پروردگار (جس طرح قادر مطلق ہے جیسا ان اشیاء سے
معلوم ہوا اسی طرح وہ) ہر چیز کو اپنے (احاطہ) علم میں (بھی) گھیرے ہوئے ہے (غرض
قدرت و علم دونوں اسی کے ساتھ مختص ہیں، اور تمہارے آلہہ کو نہ قدرت ہے نہ علم ہے)
کیا تم (سنتے ہو اور) پھر (بھی) خیال نہیں کرتے اور (جس طرح میرے نہ ڈرنے کی وجہ
یہ ہے کہ وہ تمہارے معبود علم و قدرت سے محض معریٰ ہیں، اسی طرح یہ بات بھی تو ہے
کہ میں نے کوئی کام ڈر کا کیا بھی تو نہیں تو پھر) میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن
کو تم نے (اللہ تعالیٰ کے ساتھ استحقاق عبادت اور اعتقاد ربوبیت میں) شریک بنایا
ہے، حالانکہ (تم کو ڈرنا چاہئے دو وجہ سے، اول تم نے ڈرکا کام یعنی شرک کیا ہے، جس
پر عذاب مرتب ہوتا ہے، دوسرے خدا کا عالم اور قادر ہونا معلوم ہو چکا ہے، مگر) تم
اس بات (کے وبال) سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک
ٹھہرایا ہے جن (کے معبود ہونے) پر اللہ تعالیٰ نے تم پر کوئی دلیل (لفظاً یا
معنیً) نازل نہیں فرمائی (مطلب یہ کہ ڈرنا چاہئے تم کو پھر الٹا مجھ کو ڈراتے ہو)
سو (بعد اس تقریر کے انصاف سے سوچ کر بتلاؤ کہ) ان دو (مذکورہ) جماعتوں میں سے
(یعنی مشرکین و موحدین میں سے) امن کا (یعنی اس کا کہ اس پر خوف کا) اگر تم (کچھ)
خبر رکھتے ہو۔
[تفسیر معارف القرآن:5/868]
قَالَ فِرْعَوْنُ ءَامَنتُم بِهِۦ قَبْلَ أَنْ ءَاذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَمَكْرٌۭ مَّكَرْتُمُوهُ فِى ٱلْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا۟ مِنْهَآ أَهْلَهَا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [007:123]
ترجمہ:
بولا فرعون کیا تم ایمان لائے اس پر میری اجازت سے پہلے، یہ تو مکر ہے جو بنایا تم سب نے اس شہر میں تاکہ نکال دو اس شہر سے اس کے رہنے والوں کو، سو اب تم کو معلوم ہو جائے گا
تفسیر:
خلاصہ تفسیر
فرعون ( بڑا گھبرایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ساری رعایا ہی مسلمان ہو جائے تو ایک مضمون گھڑ کر ساحروں سے) کہنے لگا کہ ہاں تم موسیٰ (علیہ السلام ) پر ایمان لائے ہو بدون اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں بیشک ( معلوم ہوتا ہے کہ) یہ ( جو کچھ جنگ زرگری کے طور پر ہوا ہے) ایک کارروائی تھی جس پر تمہارا عمل درآمد ہوا ہے اس شہر میں ( خفیہ سازش ہوگئی ہے کہ تم یوں کرنا ہم یوں کریں گے پھر اس طرح ہار جیت ظاہر کریں گے اور یہ کارروائی ملی بھگت اس لئے کی ہے) تاکہ تم سب ( مکر) اس شہر سے وہاں کے رہنے والوں کو باہر نکال دو ( پھر بفراغ خاطر سب مل کر یہاں ریاست کرو) سو ( بہتر ہے) اب تم کو حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے) اور وہ یہ ہے کہ ) میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا پھر تم سب کو سولی پر ٹانگ دوں گا ( تاکہ اوروں کو عبرت ہو) انہوں نے جواب دیا کہ ( کچھ پرواہ نہیں ) ہم مر کر ( کسی برے ٹھکانے تو نہ جائیں گے بلکہ ) اپنے مالک ہی کے پاس جائیں گے ( جہاں ہر طرح امن وراحت ہے، سو ہمارا نقصان ہی کیا ہے) اور تو نے ہم میں کونسا عیب دیکھا ہے ( جس پر اس قدر شور وغل ہے) بجز اس کے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر ایمان لے آئے ( سو یہ کوئی عیب کی بات نہیں پھر اس سے اعراض کرکے حق تعالیٰ سے دعا کی کہ ) اے ہمارے رب ! ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما ( کہ اگر یہ سختی کرے تو مستقل رہیں) اور ہماری جان حالت اسلام پر نکالئے ( کہ اس کی سختی سے پریشان ہوکر کوئی بات ایمان کے خلاف نہ ہو جائے) اور ( جب موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ معجزہ عظیمہ منظر عام پر ظاہر ہوا اور ساحرین ایمان لے آئے اور بعضے اور لوگ بھی آپ کے تابع ہوگئے اس وقت قوم فرعون کے سرداروں نے ( جو کہ اعیان سلطنت تھے یہ دیکھ کر کہ بعضے آدمی مسلمان ہو چلے فرعون سے ) کہا کہ کیا آپ موسیٰ ( علیہ السلام ) کو اور ان کی قوم ( تابعین ) کو یوں ہی ( مخلی بالطبع ومطلق العنان آزاد ) رہنے دیں گے کہ وہ ملک میں فساد کرتے پھریں ( فساد یہ کہ اپنا مجمع بڑھائیں جس کے اخیر میں اندیشہ بغاوت ہے) اور وہ ( یعنی موسیٰ (علیہ السلام ) آپ کو اور آپ کے ( تجویز کئے ہوئے ) معبودوں کو ترک کئے رہیں ( یعنی ان کے معبود ہونے کے منکر رہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی قوم بھی ایسا ہی کرے یعنی آپ اس کا انتظام کیجئے) فرعون نے کہا کہ ( سردست یہ انتظام مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ) ہم بھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کر دیں ( تاکہ ان کا زور نہ بڑھنے پائے) اور ( چونکہ عورتوں کے بڑھنے سے کوئی اندیشہ نہیں نیز ہم کو اپنے کار وخدمت کے لئے بھی ضرورت ہے اس لئے ) عوتوں کو زندہ رہنے دیں اور ہم کو ہر طرح کا ان پر زور ہے ( اس انتظام میں کوئی دشواری نہ ہوگی )
معا رف ومسائل
ان سے پہلی آیات میں مذکور تھا کہ فرعون نے اپنی قوم کے سرداروں کے مشورہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ کے لئے جن ساحروں کو پورے ملک سے جمع کیا تھا وہ میدان مقابلہ میں ہار گئے ۔ اور صرف یہی نہیں کہ اپنی ہار مان لی بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ جادوگروں کے سردار مسلمان ہوگئے تو ان کو دیکھ کر قوم فرعون کے چھ لاکھ آدمی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے اور اعلان کردیا ۔ اس مقابلہ اور مناظرہ سے پہلے تو صرف دو حضرات موسیٰ اور ہارون علیہما السلام فرعون کے مخالف تھے۔ اس وقت سب سے بڑے جادوگر جو قوم میں اقتدار کے مالک تھے اور ان کے ساتھ چھ لاکھ عوام مسلمان ہوکر ایک بہت بڑی طاقت مقابلہ پر آگئی ۔
اس وقت فرعون کی پریشانی اور سراسیمگی بیجا نہ تھی مگر اس نے اس کو چھپا کر ایک چالاک ہوشیار سیاست دان کے انداز میں پہلے تو جادوگروں پر یہ باغیانہ الزام لگایا کہ تم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ خفیہ سازش کرکے یہ کام اپنے ملک وملت کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا ہے اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِي الْمَدِيْنَةِ، یعنی یہ ایک سازش ہے جو تم نے میدان مقابلہ میں آنے سے پہلے شہر کے اندر آپس میں کر رکھی تھی ۔ اور پھر جادوگروں کو خطاب کر کے کہا اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ یعنی کیا تم نے میری اجازت سے پہلے ہی ایمان قبول کر لیا۔ یہ استفہام انکاری بطور زجر و تنبیہ کے تھا۔ اور اپنی اجازت سے پہلے ایمان لانے کا ذکر کرکے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ ہم خود بھی یہی چاہتے تھے کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کا حق پر ہونا واضح ہو جائے تو ہم بھی ان کو مانیں اور لوگوں کو بھی اجازت دیں کہ وہ مسلمان ہو جائیں لیکن تم لوگوں نے جلد بازی کی اور حقیقت کو سوچے سمجھے بغیر ایک سازش کے شکار ہوئے۔ اس چالاکی سے ایک طرف تو لوگوں کے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ اور جادوگروں کی تسلیم کو ایک سازش قراردے کر ان کو قدیم گمراہی میں مبتلا رکھنے کا انتظام کیا، اور دوسری طرف سیاسی چالاکی یہ کی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا عمل اور جادوگروں کا اسلام جو خالص فرعون کی گمراہی کو کھولنے کے لئے تھا، قوم اور عوام سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا اس کو ایک ملکی اور سیاسی مسئلہ بنانے کے لئے کہا، لِتُخْرِجُوْا مِنْهَآ اَهْلَهَا یعنی تم لوگوں نے یہ سازش اس لئے کی ہے کہ تم چاہتے ہو کہ ملک مصر پر تم غالب آجاؤ اور اس کے باشندوں کو یہاں سے نکال دو، ان چالاکیوں کے بعد ان سب پر اپنی ہیبت اور حکومت کا رعب وخوف جمانے کے لئے جادوگروں کو دھمکیاں دینی شروع کیں ، اول تو مبہم انداز میں کہا، فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ یعنی تم ابھی دیکھ لوگے کہ تمہاری اس سازش کا کیا انجام ہوتاہے، اس کے بعد اس کو واضح کر کے بتلایا۔
[تفسیر معارف القرآن:12/1083]
026:017
أَنْ أَرْسِلْ مَعَنَا بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ
ترجمہ:
یہ کہ بھیج دے ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو
تفسیر:
اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ، بنی اسرائیل ملک شام کے باشندے تھے، وہاں جانا چاہتے تو فرعون ان کو جانے نہ دیتا تھا اس طرح چار سو سال سے وہ اس کی قید میں غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے ان کی تعداد اس وقت چھ لاکھ تیس ہزار تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو پیغام حق پہنچانے کے ساتھ ہی بنی اسرائیل پر جو ظلم اس نے کر رکھا تھا اس سے باز آنے اور ان کو آزاد چھوڑ دینے کی ہدایت فرمائی۔ (قرطبی)
پیغمبرانہ مناظرہ کا ایک نمونہ مناظرے کے موثر آداب :
دو مختلف الخیال شخصوں اور جماعتوں میں نظریاتی بحث و مباحثہ جس کو اصطلاح میں مناظرہ کہا جاتا ہے، زمانہ قدیم سے رائج ہے مگر عام طور پر مناظرہ ایک ہار جیت کا کھیل ہو کر رہ گیا ہے۔ لوگوں کی نظر میں مناظرہ کا حاصل اتنا ہی ہے کہ اپنی بات اونچی ہو، چاہے اس کی غلطی خود بھی معلوم ہو چکی ہو، اس کو صحیح اور قوی ثابت کرنے کے لئے دلائل اور ذہانت کا سارا زور خرچ کیا جائے۔ اسی طرح مخالف کی کوئی بات سچی اور صحیح بھی ہو تو بہرحال رد ہی کرنا اور اس کی تردید میں پوری توانائی صرف کرنا ہے۔ اسلام ہی نے اس کام میں خاص اعتدال پیدا کیا ہے اس کے اصول و قواعد اور حدود متعین کر کے اس کو ایک مفید و موثر آلہ تبلیغ و اصلاح بنایا ہے۔
آیات مذکورہ میں اس کا ایک مختصر سا نمونہ ملاحظہ فرمایئے۔ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام نے جب فرعون جیسے جبار خدائی کے مدعی کو اس کے دربار میں دعوت حق پہنچائی تو اس نے مخالفانہ بحث کا آغاز اول دو ایسی باتوں سے کیا جن کا تعلق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات سے تھا۔ جیسا ہوشیار مخالف عموماً جب اصل بات کے جواب پر قادر نہیں ہوتا تو مخاطب کی ذاتی کمزوریاں ڈھونڈا اور بیان کیا کرتا ہے تاکہ وہ کچھ شرمندہ ہو جائے اور لوگوں میں اس کی ہوا اکھڑ جائے، یہاں بھی فرعون نے دو باتیں کہیں ۔ اول تو یہ کہ تم ہمارے پروردہ ہمارے گھر میں پل کر جوان ہوئے ہو ۔ ہم نے تم پر احسانات کئے ہیں ۔ تمہاری کیا مجال ہے کہ ہمارے سامنے بولو ۔ دوسری بات یہ ہے کہ تم نے ایک قبطی شخص کو بلا وجہ قتل کر ڈالا ہے جو علاوہ ظلم کے حق ناشناسی اور ناشکری بھی ہے کہ جس قوم میں پلے اور جوان ہوئے اسی کے آدمی کو مار ڈالا۔ اس کے بالمقابل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پیغمبرانہ جواب دیکھئے کہ اول تو جواب میں سوال کی ترتیب کو بدلا یعنی قبطی کے قتل کا قصہ جو فرعون نے بعد میں بیان کیا تھا اس کا جواب پہلے آیا اور خانہ پروردہ ہونے کے احسان کا ذکر جو پہلے کیا تھا اس کا جواب بعد میں ۔ اس ترتیب بدلنے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ واقعہ قبطی میں ایک اپنی کمزوری ضرور واقع ہوئی تھی آج کل کے مناظروں کے طرز پر تو ایسی چیز کے ذکر ہی کو رلا ملا دیا جاتا ہے اور دوسری باتوں کی طرف توجہ پھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے رسول نے اسی کے جواب کو اولیت دی۔ اور جواب بھی فی الجملہ اعتراف کمزوری کے ساتھ دیا۔ اس کی قطعاً پروا نہ کی کہ مخالف لوگ کہیں گے کہ انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے ہار مان لی۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں اس کا تو اعتراف کرلیا کہ اس قتل میں مجھ سے غلطی اور خطا ہوگئی مگر ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی واضح کردیا کہ یہ غلطی قصداً نہیں تھی ایک صحیح اقدام تھا جو اتفاقاً غلط انجام پر پہنچ گیا کہ مقصد تو قبطی کو اسرائیلی شخص پر ظلم سے روکنا تھا اسی قصد سے اس کو ایک ضرب لگائی تھی اتفاقاً وہ اسی سے مرگیا اس لئے یہ فعل خطا ہونے کے باوجود ہمارے اصل معاملہ یعنی نبوت کے دعوے اور اس کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں ڈالتا ۔ مجھے اس غلطی پر تنبہ ہوا اور قانونی گرفت کے خوف سے شہر سے نکل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر کرم فرمایا اور نبوت و رسالت سے سرفراز فرما دیا۔
غور کیجئے کہ اس وقت دشمن کے مقابلہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کا سیدھا صاف جواب یہ تھا کہ مقتول قبطی کو واجب القتل ثابت کرتے، اس پر ایسے الزامات لگاتے جس سے اس کا واجب القتل ہونا ثابت ہوتا۔ کوئی دوسرا آدمی تکذیب کرنے والا بھی وہاں موجود نہ تھا جس سے تردید کا اندیشہ ہوتا اور اس جگہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سوا کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو اس کا جواب اس کے سوا کچھ نہ ہوتا مگر وہاں تو اللہ تعالیٰ کا ایک اولوالعزم رسول صدق مجسم تھا جو حق و صدق اور حقیت کے اظہار ہی کو اپنی فتح سمجھتا تھا۔ دشمن کے بھرے دربار میں اپنی خطا کا اعتراف بھی کرلیا اور اس سے جو نبوت و رسالت پر شبہ ہوسکتا تھا اس کا جواب بھی دیدیا۔ اس کے بعد پہلی بات یعنی خانہ پروردہ ہونے کے احسان جتلانے کے جواب کی طرف توجہ فرمائی تو اس کے اس ظاہری احسان کی اصل حقیقت کی طرف توجہ دلا دی کہ ذرا سوچو، میں کہاں اور دربار فرعون کہاں؟ میری پرورش تمہارے گھر میں ہونے کے سبب پر غور کرو تو یہ حقیقت کھل جائے گی کہ تم جو پوری قوم بنی اسرائیل پر یہ خلاف انسانیت ظلم توڑ رہے تھے کہ ان کے بےگناہ معصوم لڑکوں کو قتل کر دیتے تھے، بظاہر تو تمہارے اس ظلم و ستم سے بچنے کے لئے میری والدہ نے مجھے دریا میں ڈالا اور تم نے اتفاقی طور پر میرا تابوت دریا سے نکال کر گھر میں رکھ لیا اور حقیقۃً یہ اللہ تعالیٰ کا حکمیانہ انتظام اور تمہارے ظلم کی غیبی سزا تھی کہ جس بچے کے خطرہ سے بچنے کے لئے تم نے ہزاروں بچے قتل کر ڈالے تھے قدرت نے اس بچے کو تمہارے ہی ہاتھوں پلوایا۔ اب سوچو کہ یہ میری پرورش تمہارا کیا احسان تھا۔ اسی پیغمبرانہ طرز جواب کا یہ اثر تو طبعی اور عقلی طور پر حاضرین پر ہونا ہی تھا کہ یہ بزرگ کوئی بات بنانے والے نہیں، سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے، اس کے بعد جب معجزات دیکھے تو اور زیادہ اس کی تصدیق ہوگئی اور گو اقرار نہیں کیا مگر مرعوب اتنا ہوگیا کہ یہ صرف دو آدمی جن کے آگے پیچھے کوئی تیسرا مددگار نہیں، دربار سارا اس کا ، شہر اور ملک اس کا، مگر یہ خوف اس پر طاری ہے کہ یہ دو آدمی ہمیں اپنے اس ملک و مملکت سے نکال دیں گے۔
یہ ہوتا ہے خدا داد رعب اور صدق و حق اور سچائی کی ہیبت حضرات انبیاء علیہم السلام کے مجادلات و مناظرات بھی صدق و سچائی اور مخاطب کی دینی خیر خواہی کے جذبات سے پر ہوتے ہیں ۔ وہی دلوں میں گھر کرتے ہیں اور بڑے بڑے سرکشوں کو رام کرلیتے ہیں ۔
میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ رواں ہے تو ان کو بھی میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ رسالت دیدیجئے کہ (وہ میری تقریر کی تائید اور) تصدیق (مفصل اور مکمل طور سے) کریں گے (کیونکہ) مجھ کو اندیشہ ہے کہ وہ لوگ (فرعون اور اس کے درباری) میری تکذیب کریں (تو اس وقت مناظرہ کی ضرورت ہوگی اور زبانی مناظرہ کے لئے عادةً وہ آدمی زیادہ مفید ہوتا ہے جو رواں زبان ہو) ارشاد ہوا کہ (بہتر ہے) ہم ابھی تمہارے بھائی کو تمہارا قوت بازو بنائے دیتے ہیں ( ایک درخواست تو یہ منظور ہوئی) اور (دوسری درخواست کی منظوری اس طرح ہوئی کہ) ہم تم دونوں کو ایک خاص شوکت (وہیبت) عطا کرتے ہیں جس سے ان لوگوں کو تم پر دسترس نہ ہوگی (پس) ہمارے معجزے لے کر جاؤ تم دونوں اور جو تمہارا پیرو ہوگا (ان لوگوں پر ) غالب رہو گے۔
034:022
قُلِ ٱدْعُوا۟ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۢ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍۢ وَمَا لَهُۥ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍۢ
ترجمہ:
تو کہہ پکارو ان کو جن کو گمان کرتے ہو سوائے اللہ کے وہ مالک نہیں ایک ذرہ بھر کے آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان دونوں میں کچھ ساجھا ہے اور نہ ان میں کوئی اس کا مددگار
تفسیر:
خلاصہ تفسیر
آپ (ان لوگوں سے) فرمائیے کہ جن (معبودوں) کو تم خدا کے سوا (دخیل خدائی) سمجھ رہے ہو، ان کو (اپنی حاجتوں کے لئے) پکارو (تو سہی معلوم ہو جائے گا کہ کتنی قدرت اور اختیار رکھتے ہیں ان کی حالت واقعیہ تو یہ ہے کہ) وہ ذرہ برابر (کسی چیز کا) اختیار نہیں رکھتے نہ آسمانوں کی (کائنات) میں اور نہ زمین (کی کائنات) میں اور نہ ان کی ان دونوں (کے پیدا کرنے) میں کوئی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا (کسی کام میں) مددگار ہے، اور خدا کے سامنے (کسی کی) سفارش کسی کے لئے کام نہیں آتی (بلکہ سفارش ہی نہیں ہو سکتی) مگر اس کے لئے جس کی نسبت وہ (کسی سفارش کرنے والے کو) اجازت دے دے، (کفار و مشرکین میں کچھ جاہل تھے تو ایسے تھے جو پتھر کے خود تراشیدہ بتوں ہی کو حاجت روا اور کار فرما اور خدائی کا شریک سمجھتے تھے، ان کے رد کے لئے تو آیت کے پہلے جملے آئے،(آیت) (لا یملکون مثقال ذرة ومالہم فیہما من شرک) اور بعض لوگ اتنا قادر تو نہیں کہتے تھے مگر یہ عقیدہ رکھتے کہ یہ بت اللہ تعالیٰ کے کاموں میں اس کے مددگار ہیں، ان کے رد کے لئے یہ فرمایا (آیت) (مالہ منہم من ظہیر) اور کچھ ایسے سمجھدار تھے کہ ان بےجان بتوں کو کسی چیز کا خالق یا خالق کا مددگار تو نہیں مانتے تھے، مگر یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ اللہ کے نزدیک مقبول ہیں کہ جس کی سفارش کر دیں اس کا کام بن جاتا ہے، جیسا کہ وہ کہا کرتے تھے (ھولاء شفعاؤنا عنداللہ) ان کے رد کے لئے فرمایا (ولا تنفع الشفاعة عندہ) جس کا حاصل یہ ہے کہ ان بتوں میں کسی قابلیت کے تو تم بھی قائل نہیں مگر تم اس دھوکہ میں ہو کہ ان کو اللہ کے نزدیک مقبولیت حاصل ہے۔ یہ محض تمہارا خیال بےبنیاد ہے، نہ ان میں کوئی قابلیت اور نہ اللہ کے نزدیک مقبولیت۔ آگے یہ ارشاد فرمایا کہ ان میں تو نہ کوئی قابلیت ہے نہ مقبولیت، جن میں قابلیت بھی موجود ہو اور مقبولیت بھی جیسے اللہ کے فرشتے وہ بھی کسی کی سفارش کرنے میں خود مختار نہیں، بلکہ ان کے لئے شفاعت کا قانون یہ ہے کہ جس شخص کے لئے سفارش کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جائے صرف اس کی سفارش کرسکتے ہیں اور وہ بھی بڑی مشکل سے۔ کیونکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کی ہیبت وجلال سے مغلوب ہیں، جب ان کو کوئی عام حکم دیا جاتا ہے یا کسی کے لئے سفارش ہی کا حکم ملتا ہے تو وہ حکم سننے کے وقت ہیبت سے مدہوش ہو جاتے ہیں ۔ جب یہ ہیبت کی کیفیت رفع ہو جاتی ہے اس وقت حکم پر غور کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ کر تحقیق کرلیتے ہیں کہ ہم نے جو حکم سنا ہے وہ کیا ہے، اس تحقیق کے بعد وہ حکم کی تعمیل کرتے ہیں جس میں کسی کی سفارش کا حکم بھی داخل ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ کے فرشتے جو قابلیت بھی رکھتے ہیں، مقبولیت عند اللہ بھی، وہ بھی کسی کی سفارش از خود بلا اجازت نہیں کر سکتے، اور جب کسی کے لئے اجازت ملتی بھی ہے تو خود ہیبت سے مدہوش جیسے ہو جاتے ہیں، اس کے بعد جب ہوش درست ہوتا ہے تو سفارش کرتے ہیں، تو یہ پتھروں کے خود تراشیدہ بت جن میں نہ کسی طرح کی قابلیت ہے نہ مقبولیت، وہ کیسے کسی کی سفارش کرسکتے ہیں؟ فرشتوں کے مدہوش ہو جانے وغیرہ کا ذکر آگے آیت میں اس طرح آیا ہے کہ) یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ (جو حکم سننے کے وقت طاری ہوئی تھی) دور ہو جاتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا حکم فرمایا وہ کہتے ہیں کہ (فلاں) حق بات کا حکم فرمایا (جیسے طالب علم سبق پڑھنے کے بعد استاد کی تقریر کو صحیح کرنے اور یاد کرنے کے لئے باہم اس کا اعادہ کیا کرتے ہیں، یہ فرشتے بھی اپنے سنے ہوئے حکم کی باہم ایک دوسرے سے تحقیق وتصدیق کرتے ہیں ۔ اس کے بعد حکم کی تعمیل کرتے ہیں) اور (اس کے روبرو فرشتوں کا ایسا حال ہو جانا کیا بعید ہے) وہ عالی شان سب سے بڑا ہے۔
اور آپ (ان سے تحقیق توحید کے لئے یہ بھی) پوچھئے کہ تم کو آسمان و زمین سے (پانی برسا کر اور نباتات نکال کر) کون روزی دیتا ہے (چونکہ اس کا جواب ان کے نزدیک ہی متعین ہے، اس لئے) آپ (ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (روزی دیتا ہے) اور (یہ بھی کہئے کہ اس مسئلہ توحید میں) بیشک ہم یا تم ضرور راہ راست پر ہیں یا صریح گمراہی میں (یعنی یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دو متضاد چیزیں توحید اور شرک دونوں صحیح اور حق ہوں، اور دونوں طرح کے عقیدے رکھنے والے اہل حق ہوں بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں عقیدوں میں سے ایک صحیح دوسرا غلط ہو ۔ صحیح عقیدے کے رکھنے والے ہدایت پر اور غلط کا عقیدہ رکھنے والے گمراہی پر ہوں گے۔ اب تم غور کرلو کہ ان میں کون سا عقیدہ صحیح ہے اور کون حق و ہدایت پر ہے کون گمراہی پر ) آپ (ان سے اس بحث و مناظرہ میں یہ بھی) فرما دیجئے (کہ ہم نے کھول کر حق و باطل کو واضح طور پر بیان کردیا ہے، اب تم اور ہم ہر ایک اپنے عمل کا ذمہ دار ہے) تم سے ہمارے جرائم کی باز پرس نہ ہوگی اور ہم سے تمہارے اعمال کی باز پرس نہ ہوگی اور (آپ ان سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (ایک وقت ضرور آنے والا ہے جس میں) ہمارا رب سب کو (ایک جگہ) جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ (عملی) کر دے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا اور (سب کا حال) جاننے والا ہے، آپ (یہ بھی) کہئے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی شان عالی اور قدرت کاملہ کے دلائل سن لئے اور اپنے بتوں کی بےبسی بھی دیکھ لی) مجھ کو ذرا وہ تو دکھلاؤ جن کو تم نے شریک بنا کر (استحقاق عبادت میں) خدا کے ساتھ ملا رکھا ہے، ہرگز (اس کا کوئی شریک) نہیں بلکہ (واقع میں) وہی ہے اللہ (یعنی معبود برحق) زبردست حکمت والا۔
معارف ومسائل
آیات مذکورہ میں حکم ربانی کے نزول کے وقت جو فرشتوں کا مدہوش ہو جانا پھر آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ پاچھ کرنے کا ذکر ہے، اس کا بیان صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اس طرح آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی حکم نافذ فرماتے ہیں تو سب فرشتے خشوع و خضوع سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں (اور مدہوش جیسے ہو جاتے ہیں) جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ اور ہیبت و جلال کا وہ اثر دور ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ دوسرے کہتے ہیں کہ فلاں حکم حق ارشاد فرمایا ہے۔ الحدیث۔
اور صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابن عباس کسی صحابی سے یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک اسمہ جب کوئی حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسیح کرنے لگتے ہیں، ان کی تسبیح کو سن کر ان کے قریب والے آسمان کے فرشتے تسبیح پڑھنے لگتے ہیں، پھر ان کی تسبیح کو سن کر اس سے نیچے والے آسمان کے فرشتے تسبیح پڑھنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ یہ نوبت سماء دنیا (نیچے کے آسمان) تک پہنچ جاتی ہے (اور سب آسمانوں کے فرشتے تسبیح میں مشغول ہو جاتے ہیں) پھر وہ فرشتے جو حملہ عرش کے قریب ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے رب نے کیا فرمایا وہ بتلا دیتے ہیں، پھر اسی طرح ان سے نیچے کے آسمان والے اوپر والوں سے یہی سوال کرتے ہیں، یہاں تک کہ سوال و جواب کا یہ سلسلہ سماء دنیا تک پہنچ جاتا ہے۔ الحدیث (مظہری)
034:022
قُلِ ٱدْعُوا۟ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۢ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍۢ وَمَا لَهُۥ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍۢ
ترجمہ:
تو کہہ پکارو ان کو جن کو گمان کرتے ہو سوائے اللہ کے وہ مالک نہیں ایک ذرہ بھر کے آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان دونوں میں کچھ ساجھا ہے اور نہ ان میں کوئی اس کا مددگار
تفسیر:
خلاصہ تفسیر
آپ (ان لوگوں سے) فرمائیے کہ جن (معبودوں) کو تم خدا کے سوا (دخیل خدائی) سمجھ رہے ہو، ان کو (اپنی حاجتوں کے لئے) پکارو (تو سہی معلوم ہو جائے گا کہ کتنی قدرت اور اختیار رکھتے ہیں ان کی حالت واقعیہ تو یہ ہے کہ) وہ ذرہ برابر (کسی چیز کا) اختیار نہیں رکھتے نہ آسمانوں کی (کائنات) میں اور نہ زمین (کی کائنات) میں اور نہ ان کی ان دونوں (کے پیدا کرنے) میں کوئی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا (کسی کام میں) مددگار ہے، اور خدا کے سامنے (کسی کی) سفارش کسی کے لئے کام نہیں آتی (بلکہ سفارش ہی نہیں ہو سکتی) مگر اس کے لئے جس کی نسبت وہ (کسی سفارش کرنے والے کو) اجازت دے دے، (کفار و مشرکین میں کچھ جاہل تھے تو ایسے تھے جو پتھر کے خود تراشیدہ بتوں ہی کو حاجت روا اور کار فرما اور خدائی کا شریک سمجھتے تھے، ان کے رد کے لئے تو آیت کے پہلے جملے آئے،(آیت) (لا یملکون مثقال ذرة ومالہم فیہما من شرک) اور بعض لوگ اتنا قادر تو نہیں کہتے تھے مگر یہ عقیدہ رکھتے کہ یہ بت اللہ تعالیٰ کے کاموں میں اس کے مددگار ہیں، ان کے رد کے لئے یہ فرمایا (آیت) (مالہ منہم من ظہیر) اور کچھ ایسے سمجھدار تھے کہ ان بےجان بتوں کو کسی چیز کا خالق یا خالق کا مددگار تو نہیں مانتے تھے، مگر یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ اللہ کے نزدیک مقبول ہیں کہ جس کی سفارش کر دیں اس کا کام بن جاتا ہے، جیسا کہ وہ کہا کرتے تھے (ھولاء شفعاؤنا عنداللہ) ان کے رد کے لئے فرمایا (ولا تنفع الشفاعة عندہ) جس کا حاصل یہ ہے کہ ان بتوں میں کسی قابلیت کے تو تم بھی قائل نہیں مگر تم اس دھوکہ میں ہو کہ ان کو اللہ کے نزدیک مقبولیت حاصل ہے۔ یہ محض تمہارا خیال بےبنیاد ہے، نہ ان میں کوئی قابلیت اور نہ اللہ کے نزدیک مقبولیت۔ آگے یہ ارشاد فرمایا کہ ان میں تو نہ کوئی قابلیت ہے نہ مقبولیت، جن میں قابلیت بھی موجود ہو اور مقبولیت بھی جیسے اللہ کے فرشتے وہ بھی کسی کی سفارش کرنے میں خود مختار نہیں، بلکہ ان کے لئے شفاعت کا قانون یہ ہے کہ جس شخص کے لئے سفارش کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جائے صرف اس کی سفارش کرسکتے ہیں اور وہ بھی بڑی مشکل سے۔ کیونکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کی ہیبت وجلال سے مغلوب ہیں، جب ان کو کوئی عام حکم دیا جاتا ہے یا کسی کے لئے سفارش ہی کا حکم ملتا ہے تو وہ حکم سننے کے وقت ہیبت سے مدہوش ہو جاتے ہیں ۔ جب یہ ہیبت کی کیفیت رفع ہو جاتی ہے اس وقت حکم پر غور کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ کر تحقیق کرلیتے ہیں کہ ہم نے جو حکم سنا ہے وہ کیا ہے، اس تحقیق کے بعد وہ حکم کی تعمیل کرتے ہیں جس میں کسی کی سفارش کا حکم بھی داخل ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ کے فرشتے جو قابلیت بھی رکھتے ہیں، مقبولیت عند اللہ بھی، وہ بھی کسی کی سفارش از خود بلا اجازت نہیں کر سکتے، اور جب کسی کے لئے اجازت ملتی بھی ہے تو خود ہیبت سے مدہوش جیسے ہو جاتے ہیں، اس کے بعد جب ہوش درست ہوتا ہے تو سفارش کرتے ہیں، تو یہ پتھروں کے خود تراشیدہ بت جن میں نہ کسی طرح کی قابلیت ہے نہ مقبولیت، وہ کیسے کسی کی سفارش کرسکتے ہیں؟ فرشتوں کے مدہوش ہو جانے وغیرہ کا ذکر آگے آیت میں اس طرح آیا ہے کہ) یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ (جو حکم سننے کے وقت طاری ہوئی تھی) دور ہو جاتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا حکم فرمایا وہ کہتے ہیں کہ (فلاں) حق بات کا حکم فرمایا (جیسے طالب علم سبق پڑھنے کے بعد استاد کی تقریر کو صحیح کرنے اور یاد کرنے کے لئے باہم اس کا اعادہ کیا کرتے ہیں، یہ فرشتے بھی اپنے سنے ہوئے حکم کی باہم ایک دوسرے سے تحقیق وتصدیق کرتے ہیں ۔ اس کے بعد حکم کی تعمیل کرتے ہیں) اور (اس کے روبرو فرشتوں کا ایسا حال ہو جانا کیا بعید ہے) وہ عالی شان سب سے بڑا ہے۔
اور آپ (ان سے تحقیق توحید کے لئے یہ بھی) پوچھئے کہ تم کو آسمان و زمین سے (پانی برسا کر اور نباتات نکال کر) کون روزی دیتا ہے (چونکہ اس کا جواب ان کے نزدیک ہی متعین ہے، اس لئے) آپ (ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (روزی دیتا ہے) اور (یہ بھی کہئے کہ اس مسئلہ توحید میں) بیشک ہم یا تم ضرور راہ راست پر ہیں یا صریح گمراہی میں (یعنی یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دو متضاد چیزیں توحید اور شرک دونوں صحیح اور حق ہوں، اور دونوں طرح کے عقیدے رکھنے والے اہل حق ہوں بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں عقیدوں میں سے ایک صحیح دوسرا غلط ہو ۔ صحیح عقیدے کے رکھنے والے ہدایت پر اور غلط کا عقیدہ رکھنے والے گمراہی پر ہوں گے۔ اب تم غور کرلو کہ ان میں کون سا عقیدہ صحیح ہے اور کون حق و ہدایت پر ہے کون گمراہی پر ) آپ (ان سے اس بحث و مناظرہ میں یہ بھی) فرما دیجئے (کہ ہم نے کھول کر حق و باطل کو واضح طور پر بیان کردیا ہے، اب تم اور ہم ہر ایک اپنے عمل کا ذمہ دار ہے) تم سے ہمارے جرائم کی باز پرس نہ ہوگی اور ہم سے تمہارے اعمال کی باز پرس نہ ہوگی اور (آپ ان سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (ایک وقت ضرور آنے والا ہے جس میں) ہمارا رب سب کو (ایک جگہ) جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ (عملی) کر دے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا اور (سب کا حال) جاننے والا ہے، آپ (یہ بھی) کہئے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی شان عالی اور قدرت کاملہ کے دلائل سن لئے اور اپنے بتوں کی بےبسی بھی دیکھ لی) مجھ کو ذرا وہ تو دکھلاؤ جن کو تم نے شریک بنا کر (استحقاق عبادت میں) خدا کے ساتھ ملا رکھا ہے، ہرگز (اس کا کوئی شریک) نہیں بلکہ (واقع میں) وہی ہے اللہ (یعنی معبود برحق) زبردست حکمت والا۔
معارف ومسائل
آیات مذکورہ میں حکم ربانی کے نزول کے وقت جو فرشتوں کا مدہوش ہو جانا پھر آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ پاچھ کرنے کا ذکر ہے، اس کا بیان صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اس طرح آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی حکم نافذ فرماتے ہیں تو سب فرشتے خشوع و خضوع سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں (اور مدہوش جیسے ہو جاتے ہیں) جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ اور ہیبت و جلال کا وہ اثر دور ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ دوسرے کہتے ہیں کہ فلاں حکم حق ارشاد فرمایا ہے۔ الحدیث۔
اور صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابن عباس کسی صحابی سے یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک اسمہ جب کوئی حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسیح کرنے لگتے ہیں، ان کی تسبیح کو سن کر ان کے قریب والے آسمان کے فرشتے تسبیح پڑھنے لگتے ہیں، پھر ان کی تسبیح کو سن کر اس سے نیچے والے آسمان کے فرشتے تسبیح پڑھنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ یہ نوبت سماء دنیا (نیچے کے آسمان) تک پہنچ جاتی ہے (اور سب آسمانوں کے فرشتے تسبیح میں مشغول ہو جاتے ہیں) پھر وہ فرشتے جو حملہ عرش کے قریب ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے رب نے کیا فرمایا وہ بتلا دیتے ہیں، پھر اسی طرح ان سے نیچے کے آسمان والے اوپر والوں سے یہی سوال کرتے ہیں، یہاں تک کہ سوال و جواب کا یہ سلسلہ سماء دنیا تک پہنچ جاتا ہے۔ الحدیث (مظہری)
034:024
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ قُلِ ٱللَّهُ ۖ وَإِنَّآ أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِى ضَلَٰلٍۢ مُّبِينٍۢ
ترجمہ:
تو کہہ کون روزی دیتا ہے تم کو آسمان سے اور زمین سے بتلا دے کہ اللہ اور یا ہم یا تم بیشک ہدایت پر ہیں یا پڑے ہیں گمراہی میں صریح
تفسیر:
بحث و مناظرہ میں مخاطب کے نفسیات کی رعایت اور اشتعال انگیزی سے پرہیز :
(آیت) وانا او ایاکم لعلی ھدی او فی ضلال مبین، یہ مشرکین و کفار کے ساتھ خطاب ہے۔ دلائل واضحہ سے اللہ تعالیٰ کا خالق و مالک ہونا اور قادر و مطلق ہونا واضح کردیا گیا، بتوں اور غیر اللہ کی بےبسی اور کمزوری کا مشاہدہ کرا دیا گیا، ان سب باتوں کے بعد موقع اس کا تھا کہ مشرکین کو خطاب کر کے کہا جاتا کہ تم جاہل اور گمراہ ہو کہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں اور شیاطین کی پرستش کرتے ہو ۔ مگر قرآن حکیم نے اس جگہ جو حکیمانہ عنوان اختیار فرمایا وہ دعوت و تبلیغ اور مخالفین اسلام اور اہل باطل سے بحث و مناظرہ کرنے والوں کے لئے ایک اہم ہدایت نامہ ہے کہ اس آیت میں ان کو کافر گمراہ کہنے کی بجائے عنوان یہ رکھا کہ ان دلائل واضحہ کی روشنی میں یہ تو کوئی سمجھدار آدمی کہہ نہیں سکتا کہ توحید و شرک دونوں باتیں حق ہیں اور اہل توحید اور مشرک دونوں حق پرست ہیں، بلکہ یقینی ہے کہ ان دونوں میں سے ایک حق پر دوسرا گمراہی پر ہے۔ اب تم خود سوچ لو اور فیصلہ کرلو کہ ہم حق پر ہیں یا تم۔ مخاطب کو خود کافر گمراہ کہنے سے اس کو اشتعال ہوتا، اس سے گریز کیا گیا، اور ایسا مشفقانہ عنوان اختیار کیا کہ سنگدل مخالف بھی غور کرنے پر مجبور ہو جائے۔ (از قرطبی و بیان القرآن)
یہ پیغمبرانہ دعوت و موعظمت اور مجادلہ بالتی ھی احسن کا طریقہ جو علماء کو وقت پیش نظر رکھنا چاہئے، اس کے نظر انداز ہونے ہی سے دعوت و تبلیغ اور بحث و مناظرہ بےاثر بلکہ مضر ہو کر رہ جاتا ہے۔ مخالفین ضد پر آ جاتے ہیں ان کی گمراہی اور پختہ ہو جاتی ہے۔
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ قُلِ ٱللَّهُ ۖ وَإِنَّآ أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِى ضَلَٰلٍۢ مُّبِينٍۢ
ترجمہ:
تو کہہ کون روزی دیتا ہے تم کو آسمان سے اور زمین سے بتلا دے کہ اللہ اور یا ہم یا تم بیشک ہدایت پر ہیں یا پڑے ہیں گمراہی میں صریح
تفسیر:
بحث و مناظرہ میں مخاطب کے نفسیات کی رعایت اور اشتعال انگیزی سے پرہیز :
(آیت) وانا او ایاکم لعلی ھدی او فی ضلال مبین، یہ مشرکین و کفار کے ساتھ خطاب ہے۔ دلائل واضحہ سے اللہ تعالیٰ کا خالق و مالک ہونا اور قادر و مطلق ہونا واضح کردیا گیا، بتوں اور غیر اللہ کی بےبسی اور کمزوری کا مشاہدہ کرا دیا گیا، ان سب باتوں کے بعد موقع اس کا تھا کہ مشرکین کو خطاب کر کے کہا جاتا کہ تم جاہل اور گمراہ ہو کہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں اور شیاطین کی پرستش کرتے ہو ۔ مگر قرآن حکیم نے اس جگہ جو حکیمانہ عنوان اختیار فرمایا وہ دعوت و تبلیغ اور مخالفین اسلام اور اہل باطل سے بحث و مناظرہ کرنے والوں کے لئے ایک اہم ہدایت نامہ ہے کہ اس آیت میں ان کو کافر گمراہ کہنے کی بجائے عنوان یہ رکھا کہ ان دلائل واضحہ کی روشنی میں یہ تو کوئی سمجھدار آدمی کہہ نہیں سکتا کہ توحید و شرک دونوں باتیں حق ہیں اور اہل توحید اور مشرک دونوں حق پرست ہیں، بلکہ یقینی ہے کہ ان دونوں میں سے ایک حق پر دوسرا گمراہی پر ہے۔ اب تم خود سوچ لو اور فیصلہ کرلو کہ ہم حق پر ہیں یا تم۔ مخاطب کو خود کافر گمراہ کہنے سے اس کو اشتعال ہوتا، اس سے گریز کیا گیا، اور ایسا مشفقانہ عنوان اختیار کیا کہ سنگدل مخالف بھی غور کرنے پر مجبور ہو جائے۔ (از قرطبی و بیان القرآن)
یہ پیغمبرانہ دعوت و موعظمت اور مجادلہ بالتی ھی احسن کا طریقہ جو علماء کو وقت پیش نظر رکھنا چاہئے، اس کے نظر انداز ہونے ہی سے دعوت و تبلیغ اور بحث و مناظرہ بےاثر بلکہ مضر ہو کر رہ جاتا ہے۔ مخالفین ضد پر آ جاتے ہیں ان کی گمراہی اور پختہ ہو جاتی ہے۔
***************************************
قیامت کے روز کفار کا باہم مکالمہ
وَبَرَزُوا۟ لِلَّهِ جَمِيعًۭا فَقَالَ ٱلضُّعَفَٰٓؤُا۟ لِلَّذِينَ ٱسْتَكْبَرُوٓا۟ إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًۭا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍۢ ۚ قَالُوا۟ لَوْ هَدَىٰنَا ٱللَّهُ لَهَدَيْنَٰكُمْ ۖ سَوَآءٌ عَلَيْنَآ أَجَزِعْنَآ أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍۢ [014:021]
ترجمہ:
اور (قیامت کے روز جب) سب حاضر ہوں گے اللہ کے حضور ایک ساتھ تو اس وقت کمزور (اور تابع) لوگ (حسرت بھرے انداز میں) کہیں گے ان لوگوں سے جو کہ بڑے بنے ہوئے تھے (دنیا میں، کہ وہاں) ہم تمہارے تابع تھے، تو کیا (آج کے اس مشکل وقت میں) تم اللہ کے عذاب سے بچانے کے لئے کچھ بھی ہمارے کام آسکتے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ اگر اللہ نے (بچنے کی) کوئی راہ ہمیں دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں بھی وہ دکھا دیتے، اب تو ہم سب کے لئے برابر ہے کہ خواہ ہم چیخیں چلائیں، یا صبر کریں، ہمارے بچنے کی بہر حال اب کوئی صورت نہیں، ف ٣
تفسیر:
٣٧۔ قیامت کے روز کفارکاباہم مکالمہ اور ان کے پیشواؤں کا اپنی گمراہی کا اقرار واعتراف :
یعنی برزواماضی مضارع اور مستقبل کے معنی میں ہے، کہ ضعفاء اور مستکبرین کا یہ مکالمہ ومناظرہ ابھی ہوا نہیں بلکہ قیامت میں ہوگا، لیکن چونکہ اس کا وقوع نہایت یقینی اور انتہائی قطعی ہے، اس لیے اس کو ماضی کے صیغے سے تعبیر فرمایا گیا ہے، اور یہ بلاغت کا ایک مشہور و معروف اسلوب ہے، برزوا " براز " سے ماخوذ ومشتق ہے اور براز اس کھلے میدان کو کہا جاتا ہے جہاں کوئی چیز کسی کو چھپانے والی موجود نہ ہو،(محاسن التاویل وغیرہ) سو جب پوری مخلوق اپنی قبروں سے نکل کر حشرکے اس کھلے میدان میں جمع ہوگی جس کی کوئی نظیرومثال اس دنیا میں ممکن ہی نہیں ہوسکتی، تو اس وقت یہ چیلے اپنے بڑوں سے یوں کہیں گے جس کے جواب میں ان کے بڑے اور گروکہیں گے کہ ہم جب خود ہدایت پر نہیں تھے تو تم کو کیا بتاتے ، سو اس طرح وہ اپنی گمراہی کا صاف وصریح طور پر اقرار واعتراف کریں گے،
٣٨۔ استکبار یعنی اپنی بڑائی کا گھمنڈ محرومی وفساد کی جڑبنیاد :
یعنی وہ بڑے تھے نہیں ، بلکہ یونہی بڑے بنے ہوئے تھے اور خواہ مخواہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ اور زعم فاسد میں مبتلا تھے، اور اسی استکبار اور اپنی مزعومہ بڑائی کے گھمنڈ کی بناء پر وہ حق کے آگے جھکنے اور اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے، اور ان کے اتباع اور چیلے بھی انہیں کے ڈگر پر چلتے تھے، سو استکبار وتکبر وہ جڑبنیاد ہے خرابی وفساد کی جو انسان کو حق وہدایت کے نور سے محروم کردیتی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف ان کفار ومنکرین کے وہ گروجو دنیا میں بڑے بنے ہوئے تھے، اور اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہونے ہونے کے باعث وہ حق بات کوسننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے، جس کے نتیجے میں وہ نور حق وہدایت سے محرومی کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوئے ، وہ اس روز اپنے ان پیروکاروں سے جن کو انہوں نے طرح طرح کے دھوکوں اور مغالطوں میں پھنسا کر اپنے پیچھے لگا رکھا تھا، اس روز وہ ان کو یہ ٹکا ساجواب دے کرمایوسی کے ہولناک گڑھے میں ڈال دیں گے کہ اگر اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہوتی توہم بھی تمہیں ہدایت دیتے ، لیکن جب اللہ نے ہمیں گمراہی کے گڑھے میں ڈال دیا توہم تمہیں کیا ہدایت دیتے؟
٣٩۔ منکرین کا اپنے پیروؤں کو جواب کہ اگر ہم ہدایت پر ہوتے تو تم کو بھی دیتے :
لیکن جب ہم اپنی بدنصیبی اور بدکرداری کی وجہ سے نور حق وہدایت سے خود ہی محروم تھے ، تو تمہیں کیا راہ دکھاتے، اور اب تمہارے کس طرح کچھ کام آسکتے ہیں ، سو اس میں جہاں ان کی طرف سے اپنی محرومی کا برملا اعلان ہوگا، وہاں اس میں شدید حسرت وندامت کا اظہار بھی ہوگا، اور ان کے جواب سے ان کے ان اتباع واذناب اور چیلوں چانٹوں کی حسرت اور ان افسوس میں اور اضافہ ہوگا، سو حضرت حق جل مجدہ نے یہ سب کچھ اس دنیا میں پیشگی بتادیا تاکہ کل کوئی یہ نہ کہہ سکے مجھے خبر نہ تھی، ان تقولواماجآءنا من بشیر ولانذیر، سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا کہ اس کتاب حکیم کو نازل فرما کررب ذوالجلال نے اپنے سکتافللہ الحمد رب العالمین ، بہرکیف قرآن حکیم نے کفار ومشرکین وغیرہ اہل باطل کامیدان حشر کا یہ مکالمہ اور ان کی یہ توتکار اس صراحت ووضاحت سے بیان فرما دی تاکہ جس نے بچنا ہوبچ جائے ورنہ اپنے اس ہولناک انجام کے لیے تیار ہوجائے اور کل قیامت کے یوم حساب میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا۔
٤٠۔ دنیاوی زندگی کی عظمت شان کا ایک خاص پہلو :
روایات میں ہے کہ دوزخی آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ اہل جنت نے اپنے رونے دھونے اور آہ وبکاء سے جنت کی نعمتوں سے سرفرازی حاصل کرلی ، تو آؤ ہم بھی ایسے ہی کریں ، چنانچہ وہ اس کے لیے خوب روئیں گے، اور چیخیں چلائیں گے، کہ اللہ ہمیں دوزخ کے اس عذاب سے نجات دے دے، پھر کتنا وہ روئیں گے اور کس قدر چیخیں چلائیں گے، اس کا کچھ انداز مقاتل کی اس روایت سے کیا جاسکتاہے، جس میں بتایا گیا کہ وہ پانچ سو سال تک روتے رہیں گے، مگر کچھ حاصل نہ ہوسکے گا، پھر کہیں گے کہ اہل جنت نے زندگی بھر ، صبر واستقامت سے کام لیا، تو جنت میں داخل ہوگئے ، آؤتوہم بھی ایسے ہی کریں ، پھر وہ پانچ سو برس تک صبر کریں گے، مگر اس سے بھی جب کچھ فائدہ نہ ہوسکے گا، تو اس وقت وہ کہیں گے کہ ہمارے لیے برابر ہے کہ ہم چیخیں چلائیں ، یاصبر وبرداشت سے کام لیں ، ہمارے بچنے اور نجات پانے کی بہرحال اب کوئی صورت نہیں،(طبری ، روح ، ابن کثیرزاد المسیر، جامع البیان، صفوۃ التفاسیر اور فتح القدیروغیرہ وغیرہ) ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دنیاوی زندگی کی یہ فرصت جو آج ہمیں نصیب ہے کتنی عظیم دولت ہے جس سے قدرت نے ہمیں نوازا ہے کہ اس میں ایک لمحہ بھی اللہ کے خوف سے رونا کام دے گا، جب کہ آخرت میں صد ہاصد سال کی گریہ وزاری سے بھی کچھ نہیں بن سکے گا، نیز اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنے محروم اور بدنصیب ہیں وہ لوگ جودنیاوی زندگی کی اس متاع گرانمایہ کو بےکار اور لایعنی کاموں میں ضائع کردیتے ہیں ، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ متاع عمر کی اس عظیم الشان دولت کو وہ گناہوں اور خدائے پاک کی ناراضگی کے کاموں میں صرف کرتے ہیں اور وہ بھی اس طور پر ان کو اپنے اس ہولناک خسارے کاشعور واحساس ہی نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے آمین ثم آمین۔
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ ٱللَّهِ كَمَثَلِ ءَادَمَ ۖ خَلَقَهُۥ مِن تُرَابٍۢ ثُمَّ قَالَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ [003:059]
ترجمہ:
بلاشبہ اللہ کے ہاں عیسیٰ کی مثال [٥٥] آدم جیسی ہے جسے اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے حکم دیا کہ ''ہوجا'' تو وہ ہوگیا
تفسیر:
[٥٥] اس آیت سے عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح کی تردید کا آغاز ہو رہا ہے۔ ٨ ھ کے آواخر میں مکہ فتح ہوگیا تو ٩ ھ میں وفود عرب کی مدینہ میں آمد شروع ہوگئی۔ ان میں کچھ لوگ تو اسلام قبول کرنے آتے تھے اور کچھ اسلام کی باتیں سیکھنے کے لیے۔ چنانچہ اسی زمانہ میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد بھی مدینہ میں آیا۔ نجران حجاز اور یمن کے درمیان ایک علاقہ ہے۔ جہاں عیسائیوں کی جمہوری حکومت تھی۔ اس وقت اس علاقہ میں ٧٣ بستیاں شامل تھیں اور ایک لاکھ سے زائد جنگی مرد یہاں موجود تھے۔ یہ حکومت تین سرداروں کے زیر حکم تھی۔ ایک عاقب کہلاتا تھا۔ جس کی حیثیت امیر قوم کی تھی۔ دوسرا سید کہلاتا تھا جو ان کے سیاسی اور تمدنی امور کی نگرانی کرتا تھا اور تیسرا سقف (بشپ یا لاٹ پادری) کہلاتا تھا جو ان کا مذہبی پیشوا ہوتا تھا ۔ اس وفد میں یہ تینوں سردار شامل تھے۔ اس وقت کے عاقب کا نام عبدالمسیح، سید کا نام ایہم اور لاٹ پادری ابو الحارث بن علقمہ تھا۔ تینوں سردار ساٹھ آدمی اپنے ہمراہ لے کر مدینہ پہنچے۔ یہ لوگ جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کیونکہ اب مسلمانوں کی ایک مضبوط حکومت قائم ہوچکی تھی۔ تاہم وہ اسلام بھی قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ ان کا مذہبی پیشوا ابو الحارث بن علقمہ ایک عربی النسل آدمی تھا۔ حقیقت کو سمجھتا بھی تھا۔ مگر محض دنیوی مفادات کی خاطر وہ لاٹ پادری بن گیا تھا۔ آدمی ذہین اور معاملہ فہم تھا۔ لہذا عیسائیوں نے اس کی خاطرخواہ آؤ بھگت کی اور مال و جاہ سے نوازا تھا۔ ان کی آمد کا مقصد صرف یہ تھا کہ بحث و مناظرہ میں مسلمانوں کو لاجواب کیا جائے۔ چنانچہ آتے ہی انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الوہیت مسیح کے موضوع پر بحث شروع کردی۔ ان کا طرز استدلال یہ تھا کہ تم لوگ جب یہ تسلیم کرتے ہو کہ عیسیٰ (علیہ السلام) معجزانہ طور پر بن باپ پیدا ہوئے تھے۔ پھر تم یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ یہودی انہیں مارنے پر قادر نہ ہوسکے اور انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا گیا تھا تو یہ صفات کسی بندے کی نہیں ہوسکتیں ۔ نیز تم انہیں کلمۃ اللہ اور روح اللہ بھی تسلیم کرتے ہو تو پھر اس سے بڑھ کر ان کی الوہیت کی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟۔
آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی ایسی صورت حال پیش آتی تو فوراً جواب دینے کی بجائے وحی کا انتظار فرماتے چنانچہ آپ نے انہیں صاف کہہ دیاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آنے پر تمہیں ان باتوں کا جواب دوں گا۔ اسی موقعہ پر اس سورۃ کی تقریباً تیس آیات نازل ہوئیں جن میں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا تفصیلی ذکر ہے، اور ان میں عقیدہ الوہیت مسیح کا پورا پورا رد موجود ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ کی پیدائش معجزانہ طور پر ہوئی تو اسے اللہ کی قدرت کا کرشمہ تو کہا جاسکتا ہے۔ ان میں ان کا اپنا کیا کمال ہے کہ انہیں الٰہ تسلیم کیا جائے اور اگر حضرت عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے تو وہ صاف کہہ دیتے تھے کہ میں یہ اللہ کے اذن سے سر انجام دے رہا ہوں یہی صورت حال ان کے رفع کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے انہیں یہود سے بچایا اور اپنی طرف اٹھا لیا۔ عیسیٰ تو اپنی مدد کے بھی محتاج تھے وہ الٰہ کیسے بن گئے؟
دوسرے دن آپ نے ان کو یہ آیات سنائیں تو انہوں نے ابنیت مسیح کے متعلق ایک دوسرا سوال کردیا اور کہا کہ بتلاؤ کہ اگر عیسیٰ ابن اللہ نہیں تو ان کا باپ کون تھا ؟ مذکورہ آیت ان کے اسی سوال کے جواب میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر باپ کا نہ ہونا اللہ کی ابنیت یا الوہیت کی دلیل بن سکتا ہے تو پھر حضرت آدم اس الوہیت کے عیسیٰ سے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کا باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی۔ لیکن تم انہیں تو الٰہ نہیں مانتے پھر عیسیٰ کو کیوں مانتے ہو؟ لیکن یہ لوگ چونکہ ہدایت حاصل کرنے یا اسلام لانے کے لیے آئے ہی نہ تھے اور محض کج بحثی اور بحث و مناظرہ سے اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنا چاہتے تھے۔ لہذا اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان سے متعلق دو ٹوک فیصلہ سنادیا کہ اگر یہ لوگ کج بحثی ترک نہیں کرتے اور انہیں اپنے مذہب کی حقانیت پر اتنا ہی وثوق ہے تو پھر مباہلہ کرلیں تاکہ یہ تنازعہ ختم ہوجائے۔
علامہ عنایت اللہ صاحب اثری جو سرسید سے سخت متاثر ہیں اس لئے معجزات کے بھی منکر ہیں ۔ اپنی تصنیف عیون زمزم پر بڑی طویل بحث کے بعد فرماتے ہیں کہ 'آدم اور عیسیٰ میں وجہ مثلیت خاکی ہونے میں تھی کہ کوئی خاکی الٰہ نہیں ہوسکتا' کوئی پوچھے کہ اگر وجہ مثلیت یہی ہے، تو خاکی ہونے میں تو آدم کی سب اولاد برابر ہے۔ پھر آدم اور عیسیٰ کی کیا تخصیص رہی'۔ نیز کیا اللہ تعالیٰ کا نجران کے عیسائیوں کو یہی وجہ مثلیت بتلانا مقصود تھا۔ جن کا دعویٰ ہی یہ تھا کہ عیسیٰ بشر نہیں تھے۔ بلکہ الٰہ تھے۔؟
سیدنا مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے نجران کے عیسائیوں کی طرف (مناظرہ کے لئے) بھیجا تو انہوں نے کہا : ''تم جو یا اخت ھارون پڑھتے ہو تو موسیٰ اور عیسیٰ میں تو کافی مدت ہے؟ (پھر مریم ہارون یعنی موسیٰ کے بھائی، کی بہن کیسے ہوئی؟) اور میں نہیں سمجھتا تھا کہ انھیں کیا جواب دوں ۔ پھر میں نبی اکرم کے پاس آیا اور انھیں بتایا تو آپ نے فرمایا : ''تم نے انھیں یہ نہ بتایا کہ وہ لوگ اپنے سے پہلے کے نبیوں اور بزرگوں کے نام رکھا کرتے تھے'' (یعنی موسیٰ کے بھائی ہارون اور تھے اور مریم کا بھائی ہارون اور تھا) (ترمذی، ابواب التفسیر)
سیدنا مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے نجران کے عیسائیوں کی طرف (مناظرہ کے لئے) بھیجا تو انہوں نے کہا : ''تم جو یا اخت ھارون پڑھتے ہو تو موسیٰ اور عیسیٰ میں تو کافی مدت ہے؟ (پھر مریم ہارون یعنی موسیٰ کے بھائی، کی بہن کیسے ہوئی؟) اور میں نہیں سمجھتا تھا کہ انھیں کیا جواب دوں ۔ پھر میں نبی اکرم کے پاس آیا اور انھیں بتایا تو آپ نے فرمایا : ''تم نے انھیں یہ نہ بتایا کہ وہ لوگ اپنے سے پہلے کے نبیوں اور بزرگوں کے نام رکھا کرتے تھے'' (یعنی موسیٰ کے بھائی ہارون اور تھے اور مریم کا بھائی ہارون اور تھا) (ترمذی، ابواب التفسیر)
***************************************
قرآن کریم کے ساتھ بحث نہ کرنا:
(٢٣) ابن سعد نے حضرت عکرمہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو خوارج کے متعلق بتاتے ہوئے سنا جنہوں نے حکومت کا انکار کیا تھا اور حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے جدا ہوگئے تھے پھر فرمایا کہ ان میں سے بارہ ہزار جدا ہوئے تھے۔ پھر حضرت علی (رض) سے مجھ کو بلایا اور فرمایا کہ تم خارجیوں کے پاس جاؤ اور ان سے بحث کرو ان کو کتاب اور سنت کی طرف بلاؤ اور ان سے قرآن کے ذریعہ بحث نہ کرو کیوں کہ وہ یعنی قرآن کئی وجوہ والا ہے کہ کئی مطالب اس سے نکل سکتے ہیں اور لیکن ان سے سنت کے ذریعہ مناظرہ کرو۔
(٢٤) امام ابن سعد نے حضرت عمران بن مناح سے روایت کیا ہے کہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اے امیر المؤمنین میں ان میں سے سب سے زیادہ کتاب اللہ کو جاننے والا ہوں (کیونکہ) ہمارے گھروں میں نازل ہوا انہوں نے فرمایا تو نے سچ کہا لیکن قرآن ایسا جمال ہے کئی وجوہ رکھتا ہے وہ قرآن یوں کہتا ہے اور وہ لوگ یوں کہتے ہیں لیکن ان سے سنت کے ذریعے بحث کرو کیونکہ وہ اس سے کوئی بھاگنے کا راستہ نہیں پائیں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) جن کی طرف تشریف لائے اور ان سے سنن کے ساتھ مناظرہ کیا یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں کوئی دلیل باقی نہ رہی۔
[تفسیر الدر المنثور: سورۃ الفاتحہ، آیت؍5]
امام بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن ابی حاتم، الاجری (فی الشریعۃ) اور بیہقی نے الاسماء اوالصفات میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ آدم اور موسیٰ علیہما السلام نے آپس میں مناظرہ کیا تو آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا آپ وہ آدم ہیں جنہوں نے (ممنوع درخت کھا کر) لوگوں کو اغوا کیا۔ اور ان کو جنت سے نکلوا دیا۔ آدم (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا ۔ تو وہ موسیٰ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز عطا فرمائی اور اس کو اپنی رسالت کے ساتھ چن لیا۔ انہوں نے فرمایا ہاں! (پھر) آدم (علیہ السلام) نے فرمایا پس تو مجھے ایسے کام پر ملامت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے پیدا کرنے سے پہلے مجھ پر مقدر کردیا تھا۔
[تفسیر الدر المنثور: سورۃ البقرۃ، آیت؍36]
***************************************
***************************************
No comments:
Post a Comment