Thursday, 27 September 2012

قادیانیت، عقیدہِ ختمِ نبوتؐ اور چہل حدیث

نبوت:

یعنی اللہ کا پیغام پہنچانے کی "ذمہ داری" جو اللہ پاک اپنے منتخب کردہ بندوں(مَردوں) پر  خود ڈالتا ہے۔


مُدّعِی نبوت سے دلیل طلب کرنا بھی کفر کیوں؟

امام ابوحنیفہؒ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس نے کہا کہ مجھے مہلت دو تاکہ اپنی نبوت پر دلائل پیش کروں، حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا (جو شخص نبی ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرے وہ بھی کافر ہے اور) جو اس سے دلیل طلب کرے وہ بھی کافر ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے۔۔۔
  وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي...
اور میں ختم کرنے والا ہوں نبییوں(کے سلسلہ)کو(کہ)نہیں ہے کوئی نبی میرے بعد۔﴿ابوداؤد:4252،ترمذي:2219﴾
حوالہ
[تفسیر روح البیان: ج7 ص188» ۔۔۔اور میں ختم کرنے والا ہوں نبییوں(کے سلسلہ)کو۔۔۔(سورۃ الاحزاب:40)]

[امام:ابن حجر الهيتمي المكي(م973ھ) » کتاب:الخیرات الحسان في مناقب أبي حنيفة» ج1 ص161.....أصول الدين عند أبي حنيفة: ص287]


[امام:کردری(م642ھ) » کتاب:مناقب الإمام الأعظم أبی حنیفہ » باب 7: من طلب علامۃ من المتنبی فقد کفر » ج1 ص161]



نوٹ:
کیونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم پر، جس میں حضرت محمد کا آخری نبی ہونا قرار دیا گیا ہے، دلیل پوچھنے والے کا ایمان(یقین) سچا ہوتا تو وہ دلیل پوچھتا ہی نہیں۔



ایمان اور کفر کیا ہے؟
اللہ نے جو ہدایت اپنے پیغمبر محمد ﷺ پر نازل کی ہے اسے ماننا ایمان ہے۔
[حوالہ»سورۃ البقرۃ:4 النساء:162]

اس کا انکار یا شک کرنا کفر ہے۔
[حوالہ»سورۃ البقرۃ:23 یونس:37]

اللہ کی پیغمبر پر نازل کردہ ہدایت پر ایمان لانے(ماننے)والے "شخص" کو مؤمن کہتے ہیں۔
[حوالہ»سورۃ النور:62]
اور اس کا انکار کرنے والے کو کافر کہتے ہیں۔
[حوالہ»سورۃ النساء:150-151]
مؤمن کو مؤمن نہ ماننا بھی آیات کا انکار وکفر ہے۔
[حوالہ»سورۃ الانفال:2-4، 74]
اور کافر کو کافر نہ ماننا بھی آیات کا انکار وکفر ہے۔
[حوالہ»سورۃ النساء:150-151]






حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ
ترجمہ:
رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، لہٰذا میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہ ہوگا۔۔۔۔
[سنن الترمذي: حديث نمبر 2272]
[مسند احمد: حديث نمبر 13824]
[المستدرك الحاكم: حديث نمبر 8178]

[تفسیر ابن کثیر: جلد6 صفحہ428» سورۃ الاحزاب:40]
[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی: جلد4 صفحہ376» سورۃ الاحزاب:40]







گگگگگ 



القرآن:
اور نہ ملاؤ حق(سچ) کو باطل(جھوٹ) سے، اور مت چھپاؤ (پورے) حق(سچ) کو، جبکہ تم جانتے ہو۔
[سورۃ البقرۃ:42]

*یہودیوں کے مطابق:* عیسائی یہودیوں میں شامل نہیں، اگرچہ وہ یہودیوں کے نبی موسیٰ اور ان کی کتاب توریت کو "بھی" مانیں، اس لئے کہ وہ موسیٰ کے بعد عیسیٰ اور ان کی کتاب انجیل کو "بھی" مانتے ہیں۔

*یہودیوں-عیسائیوں کے مطابق:* مسلمان، یہودیوں-عیسائیوں میں شامل نہیں۔ اگرچہ وہ حضرت موسیٰ وعیسیٰ اور انکی کتابوں توریت وانجیل کو بھی مانیں، اس لئے کہ وہ ان کے بعد حضرت محمد اور انکی کتاب قرآن کو "بھی" مانتے ہیں۔

*اسی طرح مسلمانوں کے مطابق»* قادیانی مسلمانوں میں شامل نہیں، اس لئے کہ وہ حضرت محمد کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں۔

جس طرح یہودی یا عیسائی بھی قادیانیوں کو یہودی یا عیسائی کہلانے کا حق نہیں دیتے۔ کیونکہ یہ حق نہیں جعلسازی ہے، جو سب کے نزدیک مردود ہے۔

قادیانی اپنا اسثلٹیٹس قبول نہیں کر رہے، الٹا وہ مسلمانوں ہی کے حقوق(مذہبی شناخت اور نشانات) کو اپنا حق بنانا چاہتے ہیں۔
جبکہ
ایسا کوئی ہندو سکھ، یہودی عیسائی وغیرہ کوئی بھی نہیں کرتا۔
لہٰذا
زیادتی مسلمان نہیں کر رہا، بلکہ قادیانی کر رہا ہے۔
یہ امن-پسند کافر نہیں، بلکہ فسادی کافر ہے۔


گگگگگگ


انسان اس دنیا میں خو داپنے ارادہ سے پیدا نہیں ہوا ہے ، بلکہ پیدا کیا گیا ہے ، دنیا میں بہت سی چیزیں اس کے لیے فائدہ مند ہیں اور بہت سی چیزیں مضرت رساں، وہ خود اپنے نفع ونقصان سے بھی کماحقہ واقف نہیں، اس کے اندر قسم قسم کی خواہشات اور آرزوئیں ہیں اس کے نفس میں ایسی حسرتیں بھی پلتی رہتی ہیں جو اسی کے جیسے دوسرے انسانوں کے لیے تباہی وبربادی اور نقصان کا باعث ہیں، بعض ایسی تمنائیں بھی دل میں مچلتی اور ذہن کو بے قرار رکھتی ہیں، جو اس کے لیے نہ صرف روحانی، بلکہ مادی او رجسمانی اعتبار سے بھی انتہائی نقصان دہ ہوتی ہیں، اس لیے اگر انسان کو زندگی گزارنے کے بارے میں آزاد اور بے لگام چھوڑ دیا جائے ، تو وہ نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ خوداپنے لیے بھی طرح طرح کی مصیبتیں او رمشکلات پیدا کر سکتا ہے، اس لیے اسے صحیح طریقہ پر زندگی گزارنے کے لیے پیدا کرنے والے کی جانب سے ہدایت نامہ کی ضرورت ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ہدایت نامہ کسی انسان ہی کے ذریعہ آئے اور وہ اس پر عمل کرکے دکھائے اور بتائے ، الله تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر دور میں اس کی تعلیم وتربیت کا سروسامان بھی فرمایا، چناں چہ انسان کی راہ نمائی کے لیے الله نے ہدایت نامے بھیجے، جسے کتاب الله کہا جاتا ہے اور اسے پہنچانے اور عملی طور پر اسے برت کرد کھانے کے لیے انبیائے کرام کو بھیجا۔

حضرت آدم علیہ السلام جیسے پہلے انسان تھے، ویسے ہی پہلے پیغمبر بھی تھے، نبوت ورسالت کا یہ سلسلہ پیغمبر اسلام جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ختم ہو گیا، چوں کہ الله تعالیٰ کو یہ بات منظور تھی کہ سلسلہٴ نبوت آپ صلی الله علیہ وسلم پر تمام ہو جائے، اس لیے قدرتی طور پر وہ اسباب بھی باقی نہ رہے جن کی وجہ سے نئے نبی کی ضرورت پیش آتی تھی، نیا نبی یا تو اس لیے بھیجا جاتا تھا کہ احکام شریعت میں کوئی تبدیلی مقصود ہوتی اور قرآن نے واضح کر دیا کہ اب شریعت الہیٰ درجہٴ کمال وتمام کو پہنچ گئی ہے او رنعمتِ ہدایت کا اہتمام ہو چکا ہے ، ﴿الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا﴾ (المائدہ:3) یا نبی اس لیے بھیجے جاتے تھے کہ پہلے نبی پر ایمان رکھنے والوں میں کوئی ہدایت یافتہ او رحق پر ثابت قدم گروہ باقی نہ رہا ہو ، یا اس لیے کہ پہلے جو آسمانی کتاب اتری ہو ، لوگوں نے اس میں ملاوٹ پیدا کر دی ہو، نبوت محمدی کا معاملہ یہ ہے کہ جو کتاب آپ پر نازل ہوئی وہ ایک زبر زیر کی تبدیلی کے بغیر موجود اور محفوظ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس امت میں بہت بڑا طبقہ راہ ہدایت پر قائم ہے اور قائم رہے گا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ امت کبھی بھی گم راہی پر متفق نہیں ہوسکتی، لا تجتمع امتی علی ضلالة، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

چناں چہ اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ہر طرح کی نبوت ختم ہوچکی ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کی نبوت باقی نہیں رہی ، یہ نہ صرف امت کا اجماعی عقیدہ ہے، بلکہ اس پر قرآن مجید اور صحیح حدیثیں ناطق ہیں، چناں چہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول اور آخری نبی ہیں ، ﴿ولکن رسول الله وخاتم النبیین﴾ ( الاحزاب:40) آسمانی صحائف میں ہمیشہ اگلے رسول کے بارے میں امت سے عہد لیا جاتا تھا کہ وہ ان پر ایمان لائیں گے، اگر آپ کے بعد کسی نبی کی آمد ممکن ہوتی تو ضروری تھا کہ الله تعالیٰ نے پوری اہمیت اور وضاحت کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا ہوتا، لیکن قرآن مجید نے کہیں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس بہت ہی واضح الفاظ میں آپ کے آخری نبی ہونے کا اعلان فرمایا گیا اور اشارةً تو کتنے ہی مقامات پر آپ صلی الله علیہ وسلم پر ختم نبوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

حدیثیں اس سلسلہ میں اتنی کثرت اور وضاحت کے ساتھ مروی ہیں کہ ان کااحاطہ دشوار ہے، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مرو ی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اور انبیاء کی مثال ایسے محل کی ہے جسے نہایت ہی خوب صورت طریقہ پر بنایا گیا ہو اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ بچی ہو دیکھنے والے اسے دیکھتے ہوں اور اس کے حسن تعمیر پر حیرت زدہ ہوں ، سوائے اس اینٹ کی جگہ کے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی اینٹ ہوں، مجھ پر عمارت مکمل ہو گئی ہے ، رسولوں کا سلسلہ ختم ہوا اور میں آخر ی نبی ہوں ۔( بخاری:501/1) حضرت ابوہریرہ ہی کی روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مرو ی ہے کہ چھ باتوں میں آپ کو تمام انبیاء پر فضیلت دی گئی، ان میں دو باتیں یہ تھیں کہ آپ تمام مخلوقات کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے اورمجھ پر نبیوں کا سلسہ ختم کر دیا گیا۔ ( مسلم:199/1) حضرت ثوبان رضی الله عنہ کی روایت میں ہے کہ عنقریب میری امت میں تیسیوں جھوٹے نبی پیدا ہوں گے ، جو کہیں گے کہ وہ الله کے نبی ہیں، حالاں کہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔( ابوداؤد:584/1) دارمی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں پیغمبروں کا قائد اور خاتم ہوں او رمجھے اس پر کوئی فخر نہیں ۔ (دارمی حدیث نمبر49) آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ایک نام ”عاقب“ بتایا اور پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا، یعنی وہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو، انا العاقب والعاقب الذی لیس بعدہ نبی۔ ( بخاری:501/1)

حدیثوں نے اس بات کو بھی واضح کر دیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی بھی طرح کی نبوت باقی نہیں رہی، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی الله عنہ سے فرمایا کہ میرے بعد نبوت کی گنجائش ہوتی تو تم نبی ہوتے ، لوکان بعدی نبیاً لکان عمر۔ ( ترمذی:209/2) اور حضرت علی رضی الله عنہ سے ارشاد فرمایا کہ تم میری نسبت سے ویسے ہی ہو جیسے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام تھے، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا: انت منی بمنزلة ہارون من موسی، إلا أنہ لانبی بعدی․(بخاری:633/2) ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو مزید واضح کرتے ہوئے فرمایا، میں آخری نبی ہوں اورتم آخری امت ہو، انا آخر الانبیاء وانتم آخرالامم ۔( ابن ماجہ:207 ، باب فتنة الدجال) آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی مسجد کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ انبیاء سے منسوب جو مسجدیں تھیں، ان میں آخری مسجد میری مسجد ہے، مسجدی خاتم مساجد الانبیاء۔( دیلمی، حدیث نمبر:112) رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ان فرمودات سے واضح ہے کہ آپ پر ہر طرح کی نبوت ختم ہوچکی ہے، آپ آخری نبی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب آخری کتا ب ہے، آپ کی امت آخری امت ہے، انبیا سے منسوب مساجد میں آپ کی مسجد آخری مسجد ہے اور آپ کے بعد کسی بھی قسم کی نبوت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

چوں کہ یہود ونصاریٰ کو اسلام سے ہمیشہ سے عناد رہا ہے او رانہوں نے میدان جنگ سے لے کر معرکہ فکرونظر تک ہر جگہ اسلام پر یلغار کی ہے، اس لیے انہوں نے اپنے استعماری دور میں ایک نئی تدیبر سوچی کہ کسی شخص کو نبوت کا علم بردار بنا کر کھڑا کیا جائے، تاکہ نبوت محمدی کے مقابل ایک نئی نبوت وجود میں آئے او رپیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم سے امت محمدیہ کو جو محبت ہے وہ محبت تقسیم ہو جاتے، اس کے لیے ایک ایسے علاقہ کا انتخاب کیا گیا جو اس وقت انگریزوں کی عمل داری میں تھا، تاکہ ایسے جھوٹے مدعیٴ نبوت کی پوری حفاظت اور حوصلہ افزائی ہو سکے ، چنا ں چہ پنجاب سے ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی کو اس کام کے لیے تیار کیا گیا، مرزا صاحب نے خود ہی اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میں انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہوں، انگریزوں نے اپنی اس کاشت کو بار آور کرنے اور تقویت پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

نبی کے دعوے میں کبھی تدریج نہیں ہوتی، یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ آہستہ آہستہ دعویٴ نبوت تک پہنچے، حضرت موسی علیہ السلام آگ کی تلاش میں کوہِ طور پر پہنچے تھے، لیکن اچانک ہی نبوت سے سرفراز کیے گئے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وحی نازل ہونے سے پہلے کبھی اس سلسلہ میں کوئی گفتگو نہیں فرمائی کہ اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام الله کا کلام لے نازل ہوئے، لیکن مرزا صاحب ایک ایک سیڑھی چڑھتے ہوئے دعویٴ نبوت تک پہنچے، پہلے الله کی طرف سے ملہم ہونے کا دعوی کیا، یعنی ان پر الہام ہوتا ہے، پھر دیکھا کہ حدیث میں حضرت مسیح کے نزول کی پیشین گوئی ہے ، تو مسیح ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے، جب لوگوں نے کہا کہ حضرت مسیح کے زمانہ میں امام مہدی کا بھی ظہور ہو گا، کہنے لگے کہ میں ہی مہدی ہوں، پھر دعویٴ نبوت ہی کر بیٹھے۔ اولاً تو اپنی نبوت کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کا سایہ کہتے تھے، لیکن پھر اپنے کو حضور سے افضل کہنے سے بھی نہیں چوکے او ران کے متبعین نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کو ہلال ” یعنی پہلی شب“ کا چاند او رمرزا صاحب کی دعوت کو ” بدر کامل“ یعنی چودہویں شب کا چاند قرار دیا، نبی کی بات میں تضاد نہیں ہوتا ،مگر مرزا صاحب کے یہاں اس قدر تضادات ہیں کہ شمار سے باہر ہیں، نبی خدا کی صفات اور جلالت شان کو وضاحت وصراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے او راپنی عبدیت وبندگی کو بے کم وکاست سامنے رکھ دیتا ہے، لیکن مرزا صاحب کا حال یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کا مانند کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ( روحانی خزائن:413/17) ایک موقع سے کہتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں۔ (روحانی خزائن:564/5) مرزا صاحب اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ یا خدا خود آسمان سے اُتر آیا ہے، کان الله نزل من السماء․ (اشتہار20 فروری1886ء)

نبی کی زبان بہت ہی شائستہ اور مہذب ہوتی ہے، دشمنوں کے بارے میں بھی تہذیب واخلاق سے گری ہوئی بات اس کی زبان اور قلم پر نہیں آتی ، لیکن مرزا صاحب کے یہاں اپنے مخالفین کے لیے سور، کتے، حرامی وغیرہ کے الفاظ عام ہیں او رانہیں اس طرح کے تخاطب میں کوئی تکلف نہیں، کہتے ہیں کہ ”جو ہماری فتح کا قائل نہیں ہو گا، تو صاف سمجھاجاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے، حرام زادہ کی یہی نشانی ہے کہ سیدھی راہ اختیار نہ کرے۔ (نور الاسلام:30) مشہور عالم مولانا ثناء الله امرتسری کو ” کتا ،مردار خوار“ (روحانی خزائن:309/11) مولانا محمد حسین بٹالوی کو ” پلید، بے حیا، سفلہ، گندی کارروائی، گندے اخلاق وغیرہ“ کے القاب سے نوازا ہے، مولانا سعد الله لدھیانوی کو ” نطفہ سفہا، کنجری کا بیٹا“۔ یہ کلمات بطور نمونہ کے ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن زیادہ لعنت کرنے والا نہیں ہو سکتا، خود مرزا صاحب نے کہا ہے کہ مومن لعّان نہیں ہوتا۔ (روحانی خزائن: 456/13) لیکن خود مرزا صاحب نے عیسائیوں کے خلاف جو کتاب لکھی تو محض چار صفحات میں ایک ہزار بار صرف لعنت لعنت کے کلمات لکھے ( حوالہ سابق:158-63/8) اس سے مرزا صاحب کی زبان وبیان کے معیار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے او رغور کیا جاسکتا ہے کہ نبی تو کجا کیا کسی مہذب آدمی کو بھی ایسے الفاظ زیب دیتے ہیں؟

مرزا صاحب کے دیگر حالات بھی اس پہلو سے قابل مطالعہ ہیں، صرف مرزا صاحب کے محمدی بیگم سے نکاح کی شدید خواہش اور اس سلسلہ میں بار بار روحی الہیٰ کا دعوی ، پھر محمدی بیگم، اس کے شوہر اور اس کے متعلقین کے لیے بد دعا اور ہلاکت وبردبای کی پیشین گوئی اور بالآخر ان تمام پیشین گوئیوں کا غلط ثابت ہونا ایسی باتیں ہیں، جو مرزا صاحب کے اخلاق وعادات کو بھی روشنی میں لاتی ہیں ، مگر افسوس کہ جن مسلمانوں کو مذہبی معلومات حاصل نہیں ہیں، یا جو لوگ دیہات میں رہتے ہیں اور وہ کلمہ او رنماز او ردین کے بنیادی احکام سے بھی ناواقف ہیں، وہ دھوکہ میں آجاتے ہیں اور ظاہری طور پر کلمہ کی وحدت اور کچھ عمومی افعال میں یکسانیت کی وجہ سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں، پھر جہاں حقیقتِ حال کا ان کو علم ہوتا ہے او رمسلمان وہاں پہنچتے ہیں وہاں سے ان غارت گرانِ ایمان کو راہ فرار اختیار کرنی پڑتی ہے ، ان کی مالی تحریص، عبادت گاہ او رمکتب کا انتظام اور دوسری ترغیبات سب کی سب اکارت ہو جاتی ہیں، اگر مسلمانوں پر ان باغیانِ ختم نبوت کے افکار واعتقادات واضح ہو جائیں تو یہی کافی ہے۔

لیکن اس میں جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے کہ ہم نے اپنی تمام دینی تحریکات، تعلیمی نظام اور دعوتی کوششوں کا محور صرف پررونق شہروں کو بنالیا ہے او رہمارے جو بھائی دیہات کی تیرہٴ وتاریک فضا میں رہتے ہیں ، جہاں نہ علم کی روشنی ہے اور نہ برقی لیمپ ، نہ خوبصورت سڑکیں، نہ راحت بخش عمارتیں او رعشرت کدے ، ان غریب بھائیوں کو ہم نے بالکل بھلا رکھا ہے، ایسا کہ گویا ان سے ہمارا کوئی مذہبی اور ایمانی رشتہ ہی نہ ہو، رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ختم نبوت ہماری طرف متوجہ ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں کی طرف نگاہِ محبت اٹھائیں، ان کے ایمان کی حفاظت کریں اور ان کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں، ہماری تھوڑی سی توجہ انہیں ارتداد کی کھائی میں گرنے سے بچا سکتی ہے، ہم اپنی آمدنی کا بہت ہی معمولی حصہ نکال کر گاؤں گاؤں مکاتب کانظام قائم کرسکتے ہیں، کتنے ہی گاؤں ہیں، جہاں سینکڑوں سال سے مسلمان آباد ہیں، لیکن وہاں ایک چھوٹی سی مسجد موجود نہیں، ہم چھپر کی سہی، ایک مسجد بنا دیں، انہیں مسجدوں میں بچوں کی بنیادی دینی تعلیم کا انتظام کر دیں او رعلم کا ایک چراغ وہاں روشن ہو جائے، تو انشاء الله انہیں ہر گزگم راہ نہ کیا جاسکے گا او رکفر اپنی ساری سازشوں کے باوجود خاسر ومحروم ہی رہے گا، لیکن کیا ہم اس کے لیے تیار بھی ہیں؟؟


گگگگگ


















عقیدہ ختم نبوت :
قرآن کریم میں ہے:
”ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبیین“ ۔ [سورۃ الاحزاب:40]
ترجمہ:․․․”(حضرت) محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں لیکن اللہ کے پیغمبر اور نبیوں کی مہر یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کر دینے والے ہیں اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔"

تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ”خاتم النبیین“ کے معنیٰ ہیں کہ: آپ ا آخری نبی ہیں‘ آپ ا کے بعد کسی کو ”منصب نبوت“ پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے‘ اسی طرح حضور علیہ السلام کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے۔







ختمِ نبوت کے موضوع پر چہل حدیث

از:         ڈاکٹر محمد سلطان شاہ
صدر شعبہ عربی وعلوم اسلامیہ، جی، سی یونیورسٹی، لاہور


نوٹ: اس مضمون میں صحاحِ ستہ کی تمام احادیث ”موسوعة الحدیث الشریف الکتب السنة“ مطبوعہ دارالسلام للنشی التوزیع الریاض، ۲۰۰۰ ، سے نقل کی گئی ہیں اور احادیث کے نمبرز اس کے مطابق ہیں۔
--------------

اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے انسانیت کی راہنمائی کے لئے انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا اور اُن پر وحی نازل فرمائی تاکہ وہ الوہی پیغام پر عمل پیرا ہوکر اپنے امتیوں کے سامنے لائق تقلید نمونہ پیش کرسکیں۔ نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ علیہ التحیة والثناء پر اختیام پذیر ہوا۔ خلاّقِ عالمین نے اپنے محبوبِ مکرم صلى الله عليه وسلم کو رحمة للعالمین کے لقب سے سرفراز فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر عالم کے لیے رحمت کبریا ہیں۔ اس کے علاوہ رب کریم نے حضور سید انام صلى الله عليه وسلم پر دین مبین کی تکمیل فرمادی اور وحی جیسی نعمت کو تمام کردیا اور اسلام جیسے عالمگیر (Universal)، ابدی (Eternal) اور متحرک (Dynamic)دین کو رہتی دُنیا تک کے لئے اپنا پسندیدہ دین قرار دے دیا۔ قرآن مجید میں حضور اکرم، نبی معظم، رسول مکرم صلى الله عليه وسلم کے آخری نبی ہونے کا اعلان اس آیت مبارکہ میں کیاگیا:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ، وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا. (سورة الاحزاب:۳۳-۴۰)

محمد صلى الله عليه وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے،اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (بریلوی، احمد رضاخان، کنزالایمان فی ترجمة القرآن، لاہور: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ص:۵۰۹)

یہ نص قطعی ہے ختم نبوت کے اس اعلان خداوندی کے بعد کسی شخص کو قصرِ نبوت میں نقب زنی کی سعی لاحاصل نہیں کرنی چاہئے۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مہبطِ وحی صلى الله عليه وسلم کے بہت سے ارشادات کتب احادیث میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ یہاں ایسی احادیث پر مبنی اربعین پیش کی جارہی ہے تاکہ منکرین ختم نبوت پر حق واضح ہوسکے اور یہ عمل اس حقیر پرتقصیر کے لئے نجاتِ اُخروی کا باعث ہو، کیونکہ محدثین کرام نے اربعین کی فضیلت میں روایات نقل فرمائی ہیں۔ حافظ ابی نعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی المتوفی ۴۳۰ھ نے حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه سے مروی یہ روایت درج کی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

من حفظ علی اُمتی أربعین حدیثا ینفعہم اللّٰہ عز وجل بہا، قیل لہ: أدخل من أی أبواب الجنة شئت.

جس شخص نے میری اُمت کو ایسی چالیس احادیث پہنچائیں جس سے اللہ تعالیٰ عز وجل نے ان کو نفع دیا تو اُس سے کہا جائے گا جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الاصفہانی، ابی نعیم احمد بن عبداللہ، حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء، مصر: مکتبہ الخانجی بشارع عبدالعزیز ومطبعة السعادہ بجوار محافظہ، ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲/)۔ ۴:۱۸۹

۱- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاَحْسَنَہ وَاَجْمَلَہ اِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ فَجَعَلَ النَّاسَ یَطُوْفُوْنَ وَیَعْجَبُوْنَ لَہ وَیَقُوْلُوْنَ، ہَلَّا وُضِعَتْ ہٰذِہِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.

میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا،اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم، حدیث:۳۵۳۴،۳۵۳۵)

۲- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ وَنَحْنُ الْأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَنَحْنُ اَوَّلُ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ، یبدأ أَنَّہُمْ أُوْتُوْا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِنَا وَاُوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہِمْ.

ہم سب آخر والے روزِ قیامت سب سے مقدم ہوں گے اور ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ حالانکہ (پہلے والوں) کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی اور ہمیں ان سب کے بعد۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعہ، باب ہدایة ہذہ الامة لیوم الجمعة، حدیث: ۱۹۷۸، ۱۹۷۹، ۱۹۸۰، ۱۹۸۱، ۱۹۸۲)

۳- حضرت ابوحازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه کے ساتھ رہا۔ میں نے خود سنا کہ وہ یہ حدیث بیان فرماتے تھے کہ نبی مکرم رسول معظم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔

کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمْ الأَنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہ نَبِیٌّ وَاِنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ، قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوْا بِبَیْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، أَعْطُوْہُمْ حَقَّہُمْ، فَاِنَّ اللّٰہَ سَائِلُہُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاہُمْ.

بنی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاء کرام کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنادیتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، اُن کے متعلق آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بعد دوسرے کی بیعت پوری کرو اور ان کے حق اطاعت کو پورا کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی رعیت کے متعلق اُن سے سوال کرے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ذکر عن بنی اسرائیل، حدیث: ۳۴۵۵)

۴- حضرت انس رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کو ملاکر اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ کَہَاتَیْنِ.

میں اور قیامت اس طرح ملے ہوئے بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔(صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورة والنازعات، حدیث: ۴۹۳۶، کتاب الطلاق، باب اللعان، حدیث: ۵۳۰۱، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلى الله عليه وسلم، بعثت انا والساعة کہاتین، حدیث: ۶۵۰۳، ۶۵۰۴، ۶۵۰۵)

۵- امام مسلم نے تین اسناد سے یہ حدیث بیان کی ہے:

سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم، وَفِیْ حَدِیْثِ عُقَیْلٍ: قَالَ: قُلْتُ لِلزُّہْرِیْ: وَمَا الْعَاقِبُ؟ قَالَ: الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ نَبِیٌّ.

میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنا، عقیل کی روایت میں ہے زہری نے بیان کیا عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۶۱۰۷)

۶- حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسولِ معظم، نبی مکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

اِنَّ لِیْ أَسْمَاءً، اَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَاَنَا الْمَاحِی یَمْعُو اللّٰہُ بِیَ الْکُفْرَ، وَاَنَا الْعَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمَیَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ اَحَدٌ.

بے شک میرے کئی اسماء ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا، اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل،باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۶۱۰۶)

۷- حضرت محمد بن جبیر اپنے والد گرامی حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

لِیْ خَمْسَةُ أَسْمَآء اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یَمْحُوا اللّٰہ بِیَ الْکُفْرَ، وَأنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ.

میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد ہوں، اور میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا۔ میں حاشر ہوں یعنی لوگ میرے بعد حشر کئے جائیں گے اور میں عاقب ہوں۔ یعنی میرے بعد دُنیا میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آئے گا۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب ما جاء فی اسماء رسول اللہ صلى الله عليه وسلم حدیث: ۳۵۳۲، صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب من بعد اسمہ احمد، حدیث: ۴۸۹۶)

۸- امام مسلم نے ثقہ راویوں کے توسط سے حضرت ابوموسیٰ الاشعری رضى الله تعالى عنه سے یہ روایت نقل کی ہے:

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم یُسَمِّی لَنَا نَفْسَہ أَسْمَاءَ، فَقَالَ أَنَا مُحَمَّدٌ، وأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّی، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِیُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِیُّ الرَّحْمَةِ.

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہمارے لئے اپنے کئی نام بیان کئے، آپ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور مقفی اور حاشر ہوں اور نبی التوبة اور نبی الرحمة ہوں۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث:۶۱۰۸)

۹- حضرت جبیربن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے فرمایا:

اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحٰی بِیَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی عَقِبِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ نَبِیٌّ.

میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹادے گا، میں حاشر ہوں لوگوں کا میرے قدموں میں حشر کیا جائے گا، اور میں عاقب ہوں، اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث:۶۱۰۵)

۱۰- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

کَیْفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامَکُمْ مِنْکُمْ.

اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب حضرت عیسیٰ عليه السلام کا نزول ہوگا اور امام تم میں سے کوئی شخص ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکما بشریعة نبینا محمد صلى الله عليه وسلم، حدیث:۳۹۲)

۱۱- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

لاَتَقُوْمَ السَّاعَةُ حَتّٰی یَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَیَکُوْنَ بَیْنَہُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِیْمَةٌ، دَعْوَاہُمَا وَاحِدَةٌ، وَلاَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبًا مِنْ ثَلاَثِیْنَ، کُلُّہُمْ یَزعُمُ أَنَّہ رَسُوْلُ اللّٰہ.

قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو گروہ آپس میں نہ لڑیں، دونوں میں بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کے قریب جھوٹے دجال ظاہر نہ ہولیں۔ ہر ایک یہ کہے گا میں اللہ کا رسول ہوں۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الاسلام، حدیث: ۳۵۷۱)

۱۲- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خیرالانام صلى الله عليه وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

لَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّةَ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ: الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ.

نبوت میں سے (میری وفات کے بعد) کچھ باقی نہ رہے گا مگر خوش خبریاں رہ جائیں گی۔ لوگوں نے عرض کیا خوشخبریاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا اچھے خواب۔ (صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب المبشرات، حدیث:۶۹۹۰)

۱۳- حضرت ابواُمامہ الباہلی رضى الله تعالى عنه سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور ختمی المرتبت صلى الله عليه وسلم نے ایک خطبہ میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے:

أَنَا اٰخِرُ الْأَنْبِیَاءِ، وَأَنْتُمْ اٰخِرُ الأُمَمِ.

میں آخری نبی ہوں اور تم آخری اُمت ہو۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الفتن، باب فتنہ الدجال وخروج عیسیٰ ابن مریم وخروج یأجوج ومأجوج، حدیث: ۴۰۷۷، المستدرک للحاکم حدیث:۸۶۲۱)

۱۴- حضرت عرباض بن ساریہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خیرالانام صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن.

بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں اور انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ (المستدرک للحاکم، تفسیر سورة الاحزاب، حدیث: ۳۵۶۶، جلد:۷، ص:۴۵۳۔ مسند احمد، حدیث عرباض بن ساریہ، جلد۴، ص:۱۲۷)

۱۵- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خاتم الانبیاء علیہ التحیة والثناء نے ارشاد فرمایا:

نَحْنُ الآخِرُوْنَ مِنْ أَہْل الدُّنْیَا، وَالأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، الْمُقْضِیُّ لَہُمْ قَبْلَ الْخَلاَئِقِ.

ہم (امت محمدیہ صلى الله عليه وسلم) اہل دنیا میں سے سب سے آخر میں آئے ہیں اور روزِ قیامت کے وہ اولین ہیں جن کا تمام مخلوقات سے پہلے حساب کتاب ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعة، باب ہدایة ہذہ الأمة لیوم الجمعة، حدیث: ۱۹۸۲)

۱۶- حضرت ضحاک بن نوفل رضى الله عنه راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلاَ اُمَّةَ بَعْدَ اُمَّتِیْ.

میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی امت نہیں ہوگی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، عن ضحاک بن رمل الجہنی، حدیث: ۸۱۴۶، ج:۸، ص:۳۰۳)

۱۷- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه راوی ہیں کہ حضور ختمی المرتبت صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

کُنْتَ أَوَّلَ النَّبِیِّیْن فِی الْخَلْقِ وَاٰخِرُہُمْ فِیْ البَعْثِ.

میں خلقت کے اعتبار سے انبیاء کرام میں پہلا ہوں اور بعثت کے اعتبار سے آخری ہوں۔ (الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، حدیث: ۴۸۵۰، ۳:۲۸۲، حدیث: ۷۱۹۰، ۴:۴۱۱)

۱۸- حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے انہیں درود شریف کے یہ الفاظ سکھائے:

اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ صَلاَتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ، وَاِمَامَ الْمُتَّقِیْنَ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ، مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ اِمَامَ الْخَیْرِ، (وَقَائِدِ) الْخَیْرِ، وَرَسُوْلِ الرَّحْمَةِ، اَللّٰہُمَّ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا یَغْبِطُہ بِہِ الأَوَّلُوْنَ وَالاٰخِرُوْنَ (اسکے بعد پورا درود ابراہیمی ہے)

الٰہی اپنا درود ورحمت اور برکات رسولوں کے سردار، متقیوں کے امام ابو نبیوں کے خاتم محمد پر نازل فرما جو تیرے بندے اور رسول اور امام الخیر اور (قائد) الخیر اور رسول رحمت ہیں۔ الٰہی آپ صلى الله عليه وسلم کو اس مقام محمود پر فائز فرما جس پر اولین وآخرین رشک کرتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب اقامة الصلوٰة والسنة فیہا، باب ما جاء فی التشہد، حدیث:۹۰۶)

۱۹- حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے:

لَمَّا مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ ابْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ: اِنَّ لَہ مُرْضِعًا فِی الْجَنَّةِ وَلَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا.

جب اللہ کے پیغمبر صلى الله عليه وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اس کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی (کا انتظام) ہے۔ اگر وہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم وذکر وفاتہ، حدیث:۱۵۱۱)

۲۰- امام ابن ماجہ سے مروی روایت میں حضرت ابراہیم رضى الله تعالى عنه کے بارے میں ہے:

مَاتَ وَہُوَ صَغِیْرٌ وَلَوْ قُضِیَ أَنْ یَکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم نَبِیٌّ لَعَاشَ ابْنُہ، وَلٰکِنْ لاَ نَبِیَّ بَعْدَہُ.

ابراہیم رضى الله تعالى عنه کا انتقال ہوا جب وہ چھوٹے تھے۔ اگر فیصلہ (تقدیر) یہ ہوتا کہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے بعد کوئی نبی ہو تو ان کا صاحبزادہ زندہ رہتا۔ لیکن آپ صلى الله عليه وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم وذکر وفاتہ، حدیث:۱۵۱۰)

۲۱- حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے:

اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّہ لَمْ یَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النَّبُوَّةِ اِلاَّ الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ یَرَاہَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرٰی لَہ.

اے لوگو علاماتِ نبوت میں سے صرف رویائے صالحہ (سچا خواب) ہی باقی ہے جو مسلمان خود دیکھتا ہے یا اس کے لئے کوئی دیکھتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب تعبیر الرؤیا، حدیث:۳۸۹۹، صحیح مسلم کتاب الصلوٰة، باب النہی عن قرأة القرآن فی الرکوع والسجود، حدیث:۱۰۷۴)

۲۲- حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے:

خَلَّفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ، فِی غَزْوَةِ تَبُوْکَ، فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! تَخَلَّفْنِیْ فِی النِّسَآءِ وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ: اَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہٰرُوْنَ مِنْ مُوْسٰی؟ غَیْرَ أَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.

نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے غزوئہ تبوک میں حضرت علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه کو ساتھ نہیں لیا بلکہ گھر پر چھوڑدیا تو انھوں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ دیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم میرے ساتھ ایسے ہوجاؤ جیسے ہارون، موسیٰ کے ساتھ لیکن میرے بعد نبوت نہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه ، حدیث:۶۲۱۸-۶۲۲۱)

۲۳- ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضى الله تعالى عنها سے روایت ہے کہ حضور خاتم الانبیاء علیہ التحیة والثناء نے ارشاد فرمایا:

قَدْ کَانَ یَکُوْنُ فِی الأُمَمِ قَبْلَکُمْ، مَحَدَّثُوْنَ، فَاِنْ یَکُنْ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْہُمْ اَحَدٌ فَاِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْہُمْ، قَالَ: ابْنُ وَہْبٍ: تَفْسِیْرُ مُحَدَّثُوْنَ، مُلْہَمُوْنَ.

تم سے پہلے پچھلی اُمتوں میں محدث تھے۔ اگر اس امت میں کوئی محدث ہوگا تو وہ عمر بن الخطاب ہیں۔ ابن وہب نے کہا محدث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة۔ باب من فضائل عمر رضى الله تعالى عنه، حدیث:۶۲۰۴)

۲۴- حضرت عقبہ بن عامر رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

لَوْ کَانَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔ (جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب قولہ صلى الله عليه وسلم: ”لو کان نبی بعدی لکان عمر“ حدیث:۳۸۸۶)

۲۵- حضرت ام کرز الکعبیة رضى الله تعالى عنها سے روایت ہے کہ انھوں نے حضور ختی المرتبت صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

ذَہَبَت النَّبُوَّةُ وَبَقِیَتِ الْمُبَشِّرَاتُ.

نبوت ختم ہوگئی، صرف مبشرات باقی رہ گئے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب تعبیر الرؤیا، حدیث:۳۸۹۶)

۲۶- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:

فَاِنِّیْ آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ، وَاِنَّ مَسْجِدِیْ آخِرُ الْمَسَاجِدِ.

بے شک میں آخر الانبیاء ہوں، اور میری مسجد آخرالمساجد ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الحج، باب فضل الصلوٰة بمسجدی مکة والمدینة، حدیث:۳۳۷۶)

۲۷- حضرت نعیم بن مسعود رضى الله تعالى عنه راوی ہیں کہ حضور خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم نے اپنے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی اطلاع ان الفاظ میں دی:

لاَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یَخْرُجَ ثَلاَثُوْنَ کَذَابًا کُلُّہُمْ یَزْعمُ اَنَّہ نَبِیُّ.

قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کذاب ظاہر نہ ہوجائیں جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہو کہ وہ نبی ہے۔ (ابن ابی شیبہ فی مصنفہ، حدیث: ۳۷۵۶۵، ۷/۵۰۳)

۲۸- حضرت ابوذر رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ حضور سیدانام صلى الله عليه وسلم نے اُن سے مخاطب ہوکر کہا:

یٰا أَبَا ذَرٍ أَوَّلُ الْاَنْبِیَاء آدَمُ وَآخِرُہ مُحَمَّدٌ.

اے ابوذر! انبیاءِ کرام میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری حضرت محمد صلى الله عليه وسلم ہیں۔ (الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، عن ابوذر، حدیث:۸۵:۱/۳۹)

۲۹- حضرت مصعب بن سعد اپنے والد حضرت سعد رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں:

أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ اِلٰی تَبُوْکَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِیًّا فَقَال: أَتُخَلِّفُنِیْ فِی الصِّبْیَانِ وَالنِّسَاءِ؟ قَالَ: أَلاَ تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ أَنَّہ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ.

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم تبوک کی جانب روانہ ہوئے اور حضرت علی رضى الله تعالى عنه کو اپنی جگہ چھوڑا تو انھوں نے عرض کیا: کیا آپ صلى الله عليه وسلم مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جارہے ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تجھے مجھ سے وہی مناسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوئہ تبوک، حدیث: ۴۴۱۶)

۳۰- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور سیدانامصلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

فُضِّلَتْ عَلٰی الأَنْبِیَآءِ بِسِتٍّ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمْ ونُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْمَغَانِمُ، وَجُعِلَتْ لِیْ الأَرْضُ طَہُوْرًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ اِلی الْخَلْقِ کَافَّةً، وَخُتِمَ بِیَ النَّبیُّوْنَ.

مجھے تمام انبیاء کرام پر چھ باتوں میں فضیلت دی گئی اوّل یہ کہ مجھے جوامع الکلم دئیے گئے اور دوسرے یہ کہ رُعب سے میری مدد کی گئی۔ تیسرے میرے لئے غنیمت کا مال حلال کردیاگیا۔ چوتھے میرے لئے تمام زمین پاک اور نماز پڑھنے کی جگہ بنادی گئی۔ پانچویں میں تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ چھٹے یہ کہ مجھ پر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب المساجد وموضع الصلاة، حدیث:۱۱۶۷)

۳۱- حضرت ابو ہریرہ رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ کَانَتْ تَسُوْسُہُمْ اَنْبِیَائُہُم کُلَّمَا ذَہَبَ نَبِیٌّ خَلْفَہ نَبِیُّ وَّ اِنَّہ لَیْسَ کَائِنًا فِیْکُمْ نَبِیٌّ بَعْدِیْ.

بنی اسرائیل کا نظام حکومت ان کے انبیاء کرام چلاتے تھے جب بھی ایک نبی رخصت ہوتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا اور بے شک میرے بعد تم میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (ابوبکر عبداللہ بن محمد ابی شیبہ، امام، المصنف، جلد۱۵، ص:۵۸۔ کراچی: ادارة القرآن ۱۴۰۶ھ)

۳۲- حضرت سعد رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه سے ارشاد فرمایا:

أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی غَیْرَ اَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.

کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۲۱۸)

۳۳- حضرت جابر بن سمرہ رضى الله تعالى عنه کی روایت کردہ حدیث میں ہے:

وَرَأَیْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ کَتْفِہ مِثْلَ بَیْضَةِ الْحَمَامَةِ یُشْبِہُ جَسَدَہ.

اور میں نے آپ صلى الله عليه وسلم کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت دیکھی جس کا رنگ
جسم کے رنگ کے مشابہ تھا۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اثبات خاتم النبوة، حدیث:۶۰۸۴)

۳۴- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں:

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِیْتُ خَزَآئِنَ الأَرْضِ فَوُضِعَ فِیْ یَدَیَّ اُسْوَارَانِ مِنْ ذَہَبٍ فَکَبُرَ ا عَلَیَّ وَأَہَمَّانِیْ فَأُوْحِیَ اِلَیَّ أَنِ انْفُخْہُمَا فَنَفَخْتُہُمَا فَذَہَبَا فَأَوَّلْتُہُمَا الْکَذَّابِیْن الَّذِیْنَ أَنَا بَیْنَہُمَا صَاحِبَ صَنْعَآءِ وَصَاحِبُ الْیَمَامَةِ.

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا، میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اور میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے جو مجھے بہت بھاری لگے اور میں ان سے متفکرہوا، پھر مجھے وحی کی گئی کہ میں ان کو پھونک مار کر اُڑادوں۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اڑگئے۔ میں نے اس خواب کی یہ تعبیر لی کہ میں دو کذابوں کے درمیان ہوں۔ ایک صاحب صنعاء ہے اور دوسرا صاحب یمامہ۔ (صحیح مسلم، کتاب الروٴیا، حدیث:۵۹۳۶)

۳۵- حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے مروی ایک حدیث مبارکہ کے آخر میں ہے:

فَأْوَّلْتُہُمَا کَذَّابَیْن یَخْرُجَانِ مِنْ بَعْدِیْ فَکَانَ اَحَدُہُمَا الْعَنْسِیَّ صَاحِبَ صَنْعَآءَ وَالآخَرُ مُسَیْلِمَةَ صَاحِبُ الْیَمَامَةِ.

میں نے اس کی یہ تعبیر لی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخصوں کا ظہور ہوگا۔ ایک ان میں سے صنعاء کا رہنے والا عنسی ہے دوسرا یمامہ کا رہنے والا مسیلمہ ہے۔ (صحیح مسلم، کتابالروٴیا، حدیث:۵۸۱۸- ۲۲۷۴)

۳۶- حضرت وہب بن منبہ حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے ایک طویل حدیث کے ذیل میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن حضرت نوح عليه السلام کی امت کہے گی:

وَأَنّٰی عَلِمْتَ ہٰذَا یَا أَحْمَدُ وَأَنْتَ وَأُمَّتُکَ آخِرُ الأُمَمِ.

اے احمد! آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ حالانکہ آپ صلى الله عليه وسلم اور آپ کی اُمت اُمتوں میں آخری ہیں۔ (المستدرک للحاکم، باب ذکر نوح النبی، حدیث: ۴۰۱۷-۲،۵۹۷)

۳۷- حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کے متعلق فرمایا:

أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ اَنَّہ لاَ نَبِیْ بَعْدِیْ.

تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ عليه السلام کیلئے ہارون عليه السلام تھے۔ سنو بلاشبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

اس روایت کی بابت راوی کے استفسار پر حضرت سعد نے فرمایا: ”میں نے اس حدیث کو خود سُنا ہے۔“ انھوں نے اپنی دونوں انگلیاں کانوں پر رکھیں اور کہا اگر میں نے خود نہ سُنا ہوتو میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۰۹۵)

۳۸- حضرت علی المرتضیٰ رضى الله تعالى عنه کی روایت کردہ ایک طویل حدیث مبارکہ میں ہے:

بَیْنَ کَتِفَیْہ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَہُوَ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.

حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے اور آپ صلى الله عليه وسلم آخری بنی ہیں۔ (جامع الترمذی، ابواب المناقب، باب وصف آخر من علی رضى الله تعالى عنه، حدیث:۳۶۳۸)

۳۹- حضرت عامر اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه سے فرمایا:

أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی، اِلاَّ اَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.

تم میرے ساتھ ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے ساتھ تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن أبی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۲۱۷۔ سنن ابن ماجہ، کتاب السنة، باب فی فضائل اصحاب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم، فضل علی بن أبی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث:۱۲۱)

۴۰- علامہ علاء الدین علی المتقی نے ”کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا یہ قول رقم کیا ہے:

لا نبی بعدی ولا أمة بعدکم، فاعبدوا ربکم، أقیموا خمسکم وصوموا شہرکم، وأطیعوا ولاة أمرکم، أدخلوا جنة ربکم.

میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اُمت، پس تم اپنے رب کی عبادت کرو اور پنج گانہ نماز قائم کرو اور اپنے پورے مہینے کے روزے رکھو اور اپنے اولوالامر کی اطاعت کرو، (پس) اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (علی المتقی الہندی کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۴۳۶۳۸، بیروت: موسوعة الرسالة، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵/ ج:۱۵، ص:۹۴۷)

۴۱- علاء الدین علی المتقی نے ”کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں یہ حدیث نقل کی ہے:

لا نبوة بعدی الا المبشرات، الریا الصالحة.(ایضاً، حدیث ۴۱۴۲۲، ج:۱۵، چ:۳۷۰)

۴۲- علامہ علاؤالدین علی المتقی بن حسام الدین الہندی رحمة الله عليه نے ”کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے:

یا ایہا الناس! انہ لا نبی بعدی ولا امة بعدکم، الا! فاعبدوا ربکم وصلوا خمسکم، وصوموا شہرکم، وصلوا ارحامکم، وادوا زکاة اموالکم طیبة بہا انفسکم، واطیعوا ولاة امرکم، تدخلوا جنة ربکم.

اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اُمت ہے۔ سنو! اپنے رب کی عبادت کرو اور پنجگانہ نماز پڑھو اور اپنے مہینے (رمضان) کے روزے رکھو اور اپنی رشتہ داریاں جوڑو اور اپنے اموال کی زکوٰة خوشدلی سے ادا کرو اور اپنے اولوالامر کی اطاعت کرو، تم جنت میں داخل ہوجاؤگے۔ (علی المتقی الہندی کنزل العمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۴۳۶۳۷، بیروت: موسوعة الرسالة، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵/، ج:۱۵،ص:۹۴۷)

۴۳- حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه سے امام احمد بن حنبل نے یہ حدیث مبارکہ نقل کی ہے کہ جب غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تو انھوں نے عرض کیا:

یا رسول اللّٰہ، اتخلفنی فی الخالفة، فی النساء والصبیان؟ فقال: اما ترضی ان تکون منی بمنزلة ہارون من موسیٰ؟ قال: بلی یا رسول اللّٰہ، قال: فادبر علی مسرعا کانی انظر الی غبار قدمیہ یسطع، وقد قال حماد: فرجع علی مسرعا.

یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے پیچھے رہ جانے والوں میں (یعنی) عورتوں اور بچوں میں جانشین بنارہے ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ تجھے مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون عليه السلام  کی موسیٰ عليه السلام سے تھی؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہیں؟ اُس (راوی) نے کہا: پس علی رضى الله تعالى عنه تیزی سے مُڑے تو میں نے گویا ان کے قدموں کا غُبار اُڑتے دیکھا اور حماد نے کہا: پس علی تیزی سے مُڑے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث: ۱۴۹۰، احمد محمد شاکر (شرحہ وضع فہارسہ) مصر: دارالمعارف، ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۵/، ج:۳،ص:۵۰)

۴۴- امام بیہقی نے السنن الکبریٰ میں، امام طحاوی نے مشکل الآثار میں، علامہ جلال الدین سیوطی نے الدرالمنثور میں، علامہ علی المتقی الہندی نے کنزالعمال میں، امام ہیشمی نے مجمع الزوائد میں حضور ختمی المرتبت صلى الله عليه وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کیاہے:

لا نبی بعدی ولا أمة بعدک. میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمت نہیں۔ (زغلول، ابوطاہر محمد السعید بن بسیونی، موسوعة اطراف الحدیث النبوی الشریف، بیروت: دارالفکر،۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴/، ج:۷،ص:۲۸)









===========================
مرزا قادیانی کا قرآن کے نام پر شرمناک جھوٹ:
مرزا کہتا ہے کہ :

”تين شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شريف میں درج کیا گيا ہے ،مکہ ،مدينہ اور قادیان۔

تذکرہ ص60،وازالہ اوہام ص143ز مرزا قادیانی

ہر قرآن کریم پڑھنے والا جانتا ہے کہ قادیان نام کا کوئی لفظ محمد عربی ﷺ پر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے نازل شدہ قرآن مجيد میں نہیں۔لہٰذا آپ کا کوئی بھی قادیانی جان پہچان والا یا آپ کا استاذ ہو تو سب کے سامنے اس جھوٹ کا ذکر کریں اور اسے کہیں کہ اس جھوٹ کو سچا ثابت کریں یا مرزائیت کا ماتم کریں اور ساتھ ہی مرزا کی مندرجہ ذیل عبارتيں بھی زور زور سے پڑھ کر اس مرزائی کو سنائیں:

جھوٹ بولنا مترد ہونے سے کم نہیں (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ وخ ص56ج22)


قرآن و سنّت کے گستاخ:
امام ابو حنیفہ رح  (٨٠-١٥٠ ھ ) کے زمانہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعوا کیا اور کہا:
"مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی نشانیاں پیش کروں."

اس پر امامِ اعظم  رح  نے فرمایا:
 جو شخص اس سے نبوت کی نشانی طلب کریگا، وہ بھی کافر ہوجاتے گا...کیونکہ نبی (صلی الله علیہ  وسلم) فرما چکے ہیں: "میرے بعد کوئی نبی نہیں."
-----------------------
علامہ ابنِ جریر طبری رح (٢٢٤-٣١٠ھ) اپنی مشھور تفسیر القرآن میں فرماتے ہیں:
رسول کریم صلی الله علیہ  وسلم نے نبوت کو ختم کردیا، اس پر مہر لگادی، اب قیمت تک یہ دروازہ کسی کے لئے نہیں کھلے گا.
-----------------------
امام طحاوی  رح  (٢٣٩-٣٢١ھ) اپنی کتاب "عقیدہ سلفیہ" میں بیان کرتے ہیں کہ:
"محمد صلی اللہ علیہ  وسلم الله کے برگزیدہ بندے، چیدہ نبی اور پسندیدہ رسول ہیں، اور وہ خاتم النبیین، متقیوں کے امام، سید المرسلین، حبیب رب العالمین  ہیں،اور ان کے بعد نبوت کا ہر دعوا گمراہی خواھشِ نفس کی بندگی ہے."
----------------------
علامہ ابنِ حزم اندلسی رح (٣٨٥-٤٥٤ھ) یقیناً  وحی  کا سلسلہ وفاتِ نبیؐ کے بعد ختم ہو چکا ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ وحی صرف ایک "نبی" کی طرف آتی ہے اور الله تعالیٰ  فرما چکا ہے کہ "محمد (صلی الله علیہ  وسلم) نہیں ہیں تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ، مگر وہ الله کے رسول اور نبیوں کے خاتم (سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے) ہیں."[الاحزاب:٤٠]
----------------------
امام غزالی رح (٤٥٠-٥٠٥ھ) فرماتے ہیں:
نبی صلی الله علیہ  وسلم کے بعد نہ کوئی نبی آۓ گا نہ رسول، اور اس میں کسی قسم کی طویل کی کوئی گنجائش نہیں."
----------------------
محی السنّه امام بغوی رح (٥٤٠ھ) اپنی تفسیر  "معالم التنزیل" میں لکھتے ہیں:
الله نے آپ صلی الله علیہ  وسلم کے ذریعے ختم کیا، بس آپ انبیاء کے خاتم ہیں. اور حضرت ابن عباس رضی الله عنہ  کا قول ہے کہ الله تعالیٰ  نے فیصلہ فرمادیا ہے کہ نبی صلی الله علیہ  وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا.
----------------------
علامہ زمخشری (٤٦٧-٥٣٨ھ) "تفسیر کشاف" میں لکھتے ہیں:
اگر تم کہو کہ نبی صلی الله علیہ  وسلم آخری نبی کیسے ہوتے، جبکہ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام آخری زمانہ میں نازل ہونگے، تو میں کہونگا کہ آپ صلی الله علیہ  وسلم کا آخری نبی ہونا اس معنا  میں ہے کہ آپ صلی اللھ علیہ  وسلم کے بعد کوئی شخص نبی" نہیں بنایا جاۓ گا اور حضرت عیسیٰ  علیہ  السلام ان لوگوں میں ہیں جو آپ صلی الله علیہ  وسلم سے پہلے نبی بناۓ جا" چکے تھے اور جب وہ نازل ہونگے تو شریعتِ محمدیہؐ کے پیرو اور آپ کے قبلہ کی طرف نماز پڑھنے والے کی حثیت سے نازل ہونگے گویا کہ وہ آپ صلی الله علیہ  وسلم ہی کی امت کے ایک فرد ہیں."
----------------------
قاضی عیاض  رح  (٥٤٤ھ) لکھتے ہیں:
جو شخص خود اپنے حق میں نبوت کا دعوا  کرے یا اس بات کو جائز رکھے کہ آدمی اپنی کوشش سے نبی بن سکتا ہے اور دل کی صفائی کے ذریعہ سے مرتبہِ نبوتؐ کو پہنچ سکتا ہے، جیسا کہ بعض  فلسفی اور غالی صوفی کہتے ہیں، اور اس طرح جو شخص نبوت کا دعوا  کرے کہ اس پر وحی  آتی ہے، ایسے سب لوگ کافر ہیں اور نبی صلی الله علیہ  وسلم (کی ختمِ نبوت) کو جھٹلانے والے ہیں، کیونکہ آپ صلی الله علیہ  وسلم نے خبر دی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں.اور اپ نے الله تعالیٰ  کی طرف سے یہ خبر پہنچائی ہے کہ "(آپ) نبوت کو ختم کرنے والے ہیں.
[سورۃ الاحزاب:٤٠]
==================================
قادیانی قرآن و سنّت کے گستاخ:
ہم کہتے ہیں کہ قرآن کہاں موجود ہے؟ اگر قرآن موجود ہوتا تو کسی (نۓ  نبی) کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ مشکل تو یہی ہے کہ قرآن سنیا سے اٹھ گیا ہے، اسی لئے تو ضرورت پیش آئی  کہ محمد رسول الله کو بروزی طور پر (مرزا غلام احمد قادیانی کے روپ میں) دوبارہ دنیا میں مبعوث کرکے آپ پر قرآن شریف اٹھارہ جاۓ.
[کلمت الفصل : صفحہ # ١٧٣،از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم.اے ابن مرزا قادیانی]

تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور "میری وحی کے معارض (ٹکراتی) نہیں" اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی کی طرح پھینک دیتے ہیں."
[اعجاز احمدی : صفحہ # ٣٠-مندرجہ روحانی خزین : جلد # ١٩، صفحہ # ١٤٠، مرزا قادیانی]
==================================
اہلِ بیتؓ اور صحابہِؓ رسولؐ کے گستاخ قادیانی؛

(١) بعض "ناداں" صحابی جن کو درایت سے کچھ حصہ نہ تھا.
[ضمیمہ براہینِ احمدیہ: حصہ پنجم، صفحہ # ٢٨٥، مندرجہ روحانی خزائن :٢١/٢٨٥ از مرزا قادیانی]


(٢)  ابو بکر و عمر کیا تھے، وہ تو حضرت غلام احمد (مرزا) کی جوتیوں کے تسمہ کھولنے کے بھی لائق نہ تھے.

[ماہنامہ المہدی: جنوری-فروری ١٩١٥ع، صفحہ # ٧٥، احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام]

(٣) پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو اب نئی  خلافت کرلو، ایک زندہ علی تم میں موجود ہے، اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی  کو تلاش کرتے ہو.
[ملفوظاتِ احمدیہ:١/٤٠٠]

(٤) اے عیسائی میشنریو! اب "ربنا المسیح" مت کرو اور دیکھو کہ آج تم میں ایک ہے جو اس مسیح سے بڑھ کر ہے
اور
اے قومِ شیعہ! اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا " منجی (نجات  دینے والا) ہے، کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک ہے جو اس حسین سے بہتر ہے.
[دافع البلاء : ١٧، مندرجہ روحانی خزائن ١٨/٢٣٣]

کربلا است سر ہر آنم؛
صد حسین است در گریبانم؛

ترجمہ: میریسیر ہر وقت کربلا میں ہے، سو (١٠٠) حسین میری جب میں ہیں.
[نزول  المسیح: ٩٩؛ مندرجہ روحانی خزائن: ١٨/٤٤٧]

(٥) حضرت بیبی فاطمہ الزھراء رضی الله عنہا کی ذات کے بارے میں مرزا قادیانی نے جو بکواس
[ایک غلطی کا ازالہ : حاشیہ  صفحہ #١١؛ مندرجہ روحانی خزائن : حاشیہ ١٩/٢١٣ پر]
جو بکواس کی ہے اسے قلم لکھنے سے قاصر ہے۔



🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

تحفظ ختم نبوت کی خاطر قربانیاں

از:           مولانا حذیفہ وستانوی

ناظم تعلیمات ومعتمد جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

                اللہ رب العزت نے اشرف الخلائق حضرت انسان کی ہدایت کے لیے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، سنۃ اللہ کے مطابق اس سلسلۃ الذہب کو نبی کریمﷺ پر ختم کیا؛ کیوںکہ دنیا میں اللہ کا دستور ابتدائے آفرینش سے چلا آیا ہے کہ ہر چیز کا مبدأ بھی لازم ہے اور منتہاء بھی ، چاہے وہ مادی ہو یا روحانی؛ لہٰذا نبوت کے اس وہبی دستور کے مطابق حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے سلسلۂ نبوت کا آغاز ہوا، اور حبیبِ کبریائ، احمد مصطفی محمد مجتبیٰﷺ پر یہ سلسلہ نبوت ختم ہوا؛ گویا یہ ایک قدرتی قانون کے تحت ہوا۔

                نبی کریمﷺ کی بعثت ایک انقلاب آفریں بعثت ہے، آپﷺ کی بعثت سے دنیا میں تمام ظلمتیں چھٹ گئیں، دنیا جو ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی پُرنور اور روشن ہوگئی،جس کی برکتوں کے اثرات آج چودہ صدیوں کے بعد بھی محسوس کیے جارہے ہیں اور قبیل قیامت تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور پھر حشر ونشر میں بھی اور میزان وحساب میں بھی آپ کی برکتیں جلوہ گر ہوںگی۔ انشاء اللہ!

                 آپ کی وفات حسرت آیات کے بعدعظیم فتنوں نے سراٹھایا، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیرت ایمانی، حمیت اسلامی، بلند حوصلگی اور حکمت عملی نے تمام فتنوں کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں کافور کرکے رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کو پوری امت کی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرمائے، آمین!

عجیب بات

                یہ بات تعجب خیز ہے کہ اہل کتاب یہود ونصاریٰ نے سب سے پہلے اسلام کے خلاف جو سازش رچی وہ تھی عقیدہٴ ختم نبوتﷺ پر کاری ضرب؛ اس لیے کہ آپﷺ کی وفات کے بعد جو پانچ افراد نے دعوہٴ نبوت کیے ، الاستاذ جمیل مصری کی تحقیق کے مطابق ان سب کے اہل کتاب یہود ونصاریٰ کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ تاریخ کے مستند حوالوں سے اپنی تحقیقی کتاب  ’’أثر أھل الکتاب فی الحروب والفتن الداخلیۃ فی القرن الأول‘‘  میں ثابت کیا ہے۔ دوسری جانب حضرات صحابہ نے بھی اس کو گویا بھانپ لیا، خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور آپ نے  ’’أ ینقص الدین وأنا حي‘‘  کا تاریخی جملہ کہہ کر صحابۂ کرام کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ عقیدہٴ ختم نبوتﷺ کی اہمیت خوب اچھی طرح سمجھیں اور تاریخ کے رُخ پھیردینے والے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ الحمدللہ! حضرت ابوبکرؓ کی کوششوں اور اللہ کے فضل سے صحابہؓ نے اس بات پر اجماع کرلیا کہ عقیدئہ ختم نبوتﷺ کو تحفظ فراہم کیا جائے، نبوت کے دعویداروں کو کافر قرار دیا جائے اور ان کے خلاف جہاد فرض گردانا جائے، اس طرح یہ صحابہؓ کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوگیا کہ ختم نبوت کا تحفظ ایک اہم ترین فریضہ ہے اور دعویِ نبوت کرنے والا کافر ہے، اس سے جہاد فرض ہے۔

                بس پھر کیا تھا، اس عقیدے کے تحفظ کی خاطر مدینہ سے گیارہ لشکر ان مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حکم پر میدان کارزار میں کودپڑتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال سے بھی کم عرصہ میں یا تو مدعیان نبوت اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں، یا توبہ وانابت کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔

                   قائدین          جہت

                                ۱-            خالد بن سعید بن عاص            مشاف بلاد شام

                                ۲-           عمرو بن العاص                       دومۃ الجندل

                                ۳-          خالد بن ولید                          بُزاخہ، البطاح، یمامہ

                                ۴-          عکرمہ بن ابی جہل                  یمامہ، عمان ومہرہ، حضرت موت، یمن

                                ۵-           شرحبیل بن حسنہ                    یمامہ، حضرت موت

                                ۶-           علاء ابن الحضرمی                     بحرین، دارین

                                ۷-          حذیفہ بن محض الغلفانی           عمان

                                ۸-          عرفجہ ابن ہرثمہ البارقی           عمان، مہرہ، حضرموت، یمن

                                ۹-           طریفہ بن حاجز                       شرق حجاز، بنو سلیم کی طرف

                                ۱۰-         مہاجر بن ابی امیہ                    یمن، کندہ، حضرموت

                                ۱۱-          سویدا بن مقرن الذنی             تہامۃ الیمن

                حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں  ’’واللہِ الذي لاَ الٰہَ إلّا ھو لَولاَ أنَّ أبا بکرٍ استَخْلَفَ مَا عُبِدَ اللہ‘‘  اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اگر ابوبکر آپﷺ کے بعد خلیفہ نہ بنائے جاتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔ (رواہ البیہقی بحوالہ ازالۃ الخفائ، ج:۱،ص:۳)

                حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں:  لَقَدْ قُمْنا بعدَ رسولِ اللہِ صلی اللہُ علیہ وسلم مقاماً کِدنَا نُھلَکُ فیہ لَولاَ أنَّ اللہ مَنَّ علینا بأبي بکر أجْمَعْنا علی أنْ لا نقاتلَ علی ابنۃ مخاض وابنۃ لبون وان نأکل قریٰ عربیۃ ونَعْبُدَ اللہَ حتی یأتینا الیقینُ نَعْزِمُ اللہَ لأبي بکر علی قِتالِھم۔ (التاریخ الکامل لابن اثیر، ج:۲،ص:۲۰۵)

                حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں رسول اللہﷺ کی وفات حسرت آیات کے بعد ہم ہلاکت خیز حالات سے دوچار ہوگئے تھے؛ مگر اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جیسی بصیرت افروز) شخصیت کے ذریعہ ہم پر احسان عظیم کیا، ہم لوگ (یعنی جماعت صحابہ) یہ طے کرچکے تھے کہ مانعین زکوٰۃ کے ساتھ قتال نہیں کریں گے اور جو کچھ تھوڑا بہت رزق میسر آئے گا اس پر اکتفا کریں گے اور اس طرح موت تک اللہ کی عبادت کرتے رہیں گے؛ مگر اللہ رب العزت نے حضرت ابوبکر کو مانعین کے ساتھ قتال کا پختہ حوصلہ دیا۔

                مؤرخ کبیر، مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ بیسویں صدی میں مسلمانوں کی گمراہیوں کو دیکھ کر دل برداشتہ ہوکر فرماتے تھے  ’’رِدَّۃٌ ولا أبا بکرٍ لھا‘‘  کہ ارتداد ایک بار پھر زوردار سراٹھایا ہے؛ مگر افسوس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ابوبکر جیسا حوصلہ نہیں، ان جیسی حمیت وغیرت نہیں، اس موضوع پر آپؒ کی مستقل کتاب ہے۔ واقعتا حضرت نے بالکل درست کہا جیسی فکری یلغار حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں تھی آج بھی ویسی ہی کیفیت ہے، تب ابوبکر تھے؛ مگر آج کوئی ابوبکر تو کیا ان کا عشر عشیر بھی نہیں، اللہ ہی مدد اور حفاظت فرمائے، آمین!

                حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں تحفظ ختم نبوت کی خاطر ہزاروں صحابہؓ نے اپنی جانوں کو قربان کردیا، بیسویں صدی میں تحفظ ختم نبوت کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والوں میں حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام سرِفہرست ہے، آپ فرماتے ہیں:

                ’’جولوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں جہاں شہید ہوئے، ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں، وہ عشقِ رسالت میں مارے گئے، اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر کہتا ہوں، ان میں جذبۂ شہادت میں نے پھونکا تھا۔‘‘ (حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نوراللہ مرقدہٗ کی تحریک کی وجہ سے ختم نبوت کے لیے امت میں بیداری پیدا ہوئی اور امت مسلمہ ہندیہ پورے جوش وجذبہ کے ساتھ میدان کارزار میں کود پڑی، جب کچھ جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اس تحریک کی خاطر شہید ہورہے ہیں تو انھوں نے اپنے آپ کو اس تحریک سے علیحدہ کرکے یہ ثابت کرنا چاہا کہ جولوگ مارے گئے یا مارے جارہے ہیں، ہم اس کے ذمہ دار نہیں، تب پھر حضرت نے اپنی تقریر میں کہا) جو لوگ ان کے خون سے دامن بچانا چاہتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی، ان کے خون کا ذمہ دار ہوںگا؛ کیونکہ ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی سات ہزار حفاظ قرآن، تحفظ ختم نبوت کی خاطر شہید کروادئیے تھے۔ (اور غیرحافظوں کی تعداد اس سے تقریباً دوگنی ہوگئی)۔ (تحریک ختم نبوت کا آغاز شورش کاشمیری بحوالہ روزنامہ اسلام)

صداقت کے لیے گر جان جاتی ہے تو جانے دو

مصیبت پر مصیبت سر پہ آتی ہے تو آنے دو

                مناظر اسلام مولانا لعل حسین اختر نے بڑا عجیب شعر کہا ہے۔

جلادو پھونک دو سولی چڑھا دو خوب سن رکھو

صداقت چھٹ نہیں سکتی ہے جب تک جان باقی ہے

                خلاصہ یہ کہ اسلامی دور حکومت میں، جب بھی کسی نے ختم نبوت پر حملہ کیا، یا حرف زنی کی، مسلمان خلفاء وامراء نے ان کو کیفرکردار تک پہنچادیا، جس کی سیکڑوں مثالیں تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں،  تو آیے! مدعیان نبوت اور منکرین ختم نبوت کے بدترین انجام پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

شمار  اسمائے منکرین ختم نبوت                     انجام                    سن انجام                  دور خلافت وحکومت

۱      عبہلہ بن کعب معروف باسود العنسی      قتل ہوا                 ۱۱ھ                         حضرت ابوبکر صدیقؓ

۲     مسیلمہ بن کبیر حبیب الکذاب              قتل ہوا                 ۱۱ھ                         حضرت ابوبکر صدیقؓ

۳     مختاربن ابوعبد ابن مسعود ثقفی            قتل ہوا                 ۶۷ھ                       حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ

۴     حارث ابن سعید کذاب                      قتل ہوا                 ۷۹ھ                        عبدالملک ابن مروان

۵     مغیرہ ابن سعید عجلی                             قتل ہوا                 ۱۱۹ھ                       ہشام بن عبدالملک بن مروان

۶     بیان ابن سمعان                                 قتل ہوا                 ۱۲۶ھ                      ولید ابن یزید

۷     اسحاق اخراس                                    قتل ہوا                 –                             خلیفہ ابوجعفر منصور      

۸     سیس خراسانی                                    قتل ہوا                 ۱۵۰ھ                      خلیفہ ابوجعفر منصور

۹      ابوعیسیٰ بن اسحاق یعقوب اصفہانی         قتل ہوا                 –                             خلیفہ ابوجعفر منصور

۱۰   حکیم مقنع خراسانی                              خودکشی کی             ۱۶۳ھ                      خلیفہ مہدی

۱۱    بابک ابن عبداللہ خرمی                        قتل ہوا                 ۲۲۳ھ                    خلیفہ معتصم باللہ

۱۲   علی بن محمد عبدالرحیم                          قتل ہوا                 ۲۷۰                        خلیفہ المعتمد علی اللہ

۱۳   ابوسعد حسن بن سیرام                       قتل ہوا                 ۳۰۱ھ                      خلیفہ المعتضد باللہ

۱۴   محمد بن علی شمغانی                                قتل ہوا                 ۳۲۲ھ                    خلیفہ راضی باللہ

                یہ تھے مشہور منکرین ختم نبوت اور مدعیان نبوت اور جب بھی کسی اسلامی دور میں انھوں نے سراٹھایا، ہمارے خلفاء اور امراء نے ان کو تہہ تیغ کرکے رکھ دیا، یا انھوں نے مجبوراً خودکشی کی، یا توبہ کرنے پر آمادہ ہوگئے؛ اسی لیے اہل کتاب حضور اقدسﷺ کی وفات ہی سے خلافت کے عدم قیام یا قیام کے بعد سقوط کی بھرپور کوشش کرتے رہے؛ مگر تیرہ سوسال بعد انھیں اس میں کچھ حد تک مسلمانوں کی اعتقادی کمزوری کی وجہ سے اور کتاب وسنت سے بعد کی بنا پر کامیابی ملی، مگر ان شاء اللہ ایک بار پھر خلافت قائم ہوگی۔  وَمَا تَشَاؤنَ إلاَّ أنْ یَشائَ اللہُ واللہُ مُتِمُّ نُورِہٖ ولو کَرِہَ الکَافِرُون!

                یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سقوط خلافت سے قبل اس کے ضعف کے زمانہ ہی سے ایک بار پھر انکار ختم نبوت کے فتنے نے سراٹھایا اور انیسویں صدی کے اوائل میں، باب اللہ نے، پھر بہائواللہ نے اور اسی صدی کے اواخر میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا؛ بل کہ پچھلے دوسو سال میں جتنے مدعیان نبوت ومہدویت کھڑے ہوئے وہ بارہ سو سال کے مقابلہ میں اضعافاً مضاعفہ ہے؛ گویا دشمن کی یہ ایک منظم سازش ہے کہ وہ ختمِ نبوت کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں؛ مگر انشاء اللہ وہ قیامت تک اس میں کامیاب نہیں ہونگے۔

منکرین ختم نبوت کے ساتھ جہاد بالسیف کے بعد جہاد بالقلم

                جیساکہ اوپر تاریخ کے حوالے سے واضح کیاگیا کہ جب بھی اسلامی دور حکومت میں، کسی نے ختم نبوت پر حملہ کیا اس کو واصل جہنم کردیاگیا؛ مگر جب استعماری طاقتیں عالم اسلام پر غالب آگئیں اور اس طرح کے فتنوں نے اسرٹھایا، تو علماء قلم وکاغذ لے کر میدان کارزار میں کودپڑے اور الحمدللہ انھوں نے ختم نبوت کا بھرپور دفاع کیا، انگریز کے زمانہ میں عدالتوں میں اور کتابوں کے ذریعہ صرف غلام احمد قادیانی ملعون کے رد میں ایک اندازے کے مطابق ۲۰؍ہزار صفحات اردو میں تحریر کیے گئے، احتساب قادیانیت کے نام سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ۲۳ جلد پر مشتمل چالیس کے قریب علماء کے بارہ ہزار صفحات کی طباعت کی ہے، جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ مسئلہ کتنا اہم ہے، تو آئیے اب میں مختصر اس پر روشنی ڈالتا ہوں۔

گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں

                تحفظ ختم نبوت کتنا اہم ترین مسئلہ ہے، اس کا اندازہ آپ خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہٗ کے اس واقعہ سے کرسکتے ہیں:

                ۲۶؍اگست ۱۹۳۲ء کو یوم جمعتہ المبارک تھا، جامع مسجد الصادق بھاول پور میں آپ کو جمعہ کی نماز ادا فرمانا تھی، مسجد کے اندر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، قرب وجوار کے گلی کوچے نمازیوں سے بھرے ہوئے تھے، نماز کے بعد آپ نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:

                میں بواسیرخونی کے مرض کے غلبہ سے نیم جاں تھا اور ساتھ ہی اپنی ملازمت کے سلسلہ میں ڈابھیل کے لیے پابہ رکاب کہ اچانک شیخ الجامعہ صاحب کا مکتوب مجھے ملا، جس میں بھاول پور آکر مقدمہ میں شہادت دینے کے لیے لکھا گیا تھا، میں نے سوچا کہ میرے پاس کوئی زادِ راہ نہیں ہے، شاید یہی چیز ذریعہ نجات بن جائے کہ حضرت محمدﷺ کے دین کا جانبدار بن کر یہاں آیا ہوں۔

                یہ سن کر مجمع بے قرار ہوگیا، آپ کے ایک شاگرد مولانا عبدالحنان ہزاروی آہ وبکا کرتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور مجمع سے بولے کہ اگر حضرت کو بھی اپنی نجات کا یقین نہیں تو پھر اس دنیا میں کس کی مغفرت متوقع ہوگی؟ اس کے علاوہ کچھ اور بلند کلمات حضرت کی تعریف و توصیف میں عرض کیے، جب وہ بیٹھ گئے تو پھر مجمع کو خطاب کرکے فرمایاکہ:

                ’’ان صاحب نے ہماری تعریف میں مبالغہ کیا؛ حالاںکہ ہم پریہ بات کھل گئی کہ گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں‘‘۔ (کمالات انوری)

                اب آپ اندازہ لگائیے کہ ایک ایسا جلیل القدر محدث و فقیہ ایسا کہہ رہے ہیں، جس کے بارے میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہٗ فرماتے تھے ’’انور شاہ کشمیری صحابہؓ کی جماعت کے بچھڑے ہوئے فرد ہیں‘‘ ان کے اخلاق، ان کا علم، ان کا تقویٰ، ان کی دینی غیرت وحمیت کو دیکھ کر یہ جملہ آپؒ نے کہا۔

ختم نبوت اور قرآن

                قرآن کریم نے مسئلہ ختم نبوت کو تقریباً سو مقامات پر ذکر کیا ہے، کہیں صراحتاً، کہیں کنایتہ، کہیں عبارت النص سے، کہیں اقتضاء النص سے، کہیں اشارۃ النص سے تو کہیں دلالت النص سے،  جس کو پوری تفصیل کے ساتھ حضرت اقدس مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہٗ اپنی تصنیف ’’ختم النبوۃ في القرآن‘‘  میں ذکر کیا ہے اور دوسری تصنیف لطیف  ’’ختم النبوۃ في الأحادیث‘‘  میں ۲۱۰؍ احادیث جمع فرمائی اور  ’’ختم النبوۃ في الآثار‘‘  میں امت کا اجماع، سیکڑوں علمائے امت کے اقوال ختم نبوت کی تائید میں جمع فرمادیے۔ اللہ حضرت کو امت کی جانب سے بہترین بدلہ عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین!

                حضرت مفتی محمدشفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان نوراللہ مرقدہٗ  ’’ختم نبوت‘‘ کامل ہرسہ حصہ کی تمہید میں تحریر فرماتے ہیں:

مسئلہ ختم نبوت

                یعنی آں حضرتﷺ پر ہر قسم کی نبوت اور وحی کا اختتام اور آپﷺ کا آخری نبی ورسول ہونا اسلام کے ان بدیہی مسائل اور عقائد میں سے ہے، جن کو تمام عام و خاص، عالم وجاہل، شہری اور دیہاتی مسلمان ہی نہیں ؛ بلکہ بہت سے غیرمسلم بھی جانتے ہیں، تقریباً چودہ سو برس سے کروڑہا مسلمان اس عقیدہ پر ہیں، لاکھوں علماء امت نے اس مسئلہ کو قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح کرتے ہوئے واضح فرمایا، کبھی یہ بحث پیدا نہیں ہوئی کہ نبوت کی کچھ اقسام ہیں، اور ان میں سے کوئی خاص قسم آں حضرتﷺ کے بعد باقی ہے، یا نبوت کی تشریعی غیر تشریعی یا ظلی وبروزی یا مجازی وغیرہ اقسام ہیں، قرآن وحدیث میں اس کا کوئی اشارہ تک نہیں، پوری امت اور علماء امت نے نبوت کی یہ قسم نہ دیکھی اور نہ سنی؛ بل کہ صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک پوری امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اس عقیدہ پر قائم رہی کہ آں حضرتﷺ پر ہر طرح کی نبوت ورسالت ختم ہے، آپﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول پیدا نہیں ہوگا۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آپ سے پہلے پیدا ہوکر منصب نبوت پر فائز ہوچکے ہیں، ان کا اخیرزمانہ میں آنا اس کے قطعاً منافی نہیں)۔

                اس مسئلہ کے اتنا بدیہی اور اجماعی ہونے کے ساتھ اس پر دلائل جمع کرنا اور اس کا ثبوت پیش کرنا درحقیقت ایک بدیہی کو نظری اور کھلی ہوئی حقیقت کو پیچیدہ بنانے کے مرادف معلوم ہوتا ہے؛ بلکہ اس مسئلہ کا ثبوت پیش کرنا ایسا ہی ہے جیساکوئی شخص مسلمانوں کے سامنے  لا اِلہ الاَّ اللّٰہ  کا ثبوت پیش کرے، ان حالات میں کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس موضوع پر کوئی مستقل رسالہ یا کتاب لکھی جائے؛ لیکن تعلیمات اسلام سے عام غفلت وجہالت اور روز پیدا ہونے والے نئے نئے فتنوں نے جہاں بہت سے حقائق پر پردہ ڈال دیا ہے باطل کو حق اور حق کو باطل کرکے ظاہر کیا ہے وہیں یہ مسئلہ بھی تختۂ مشق بن گیا۔

                اس مسئلہ میں فرقہ وار جماعت کی حیثیت سے سب سے پہلے باب وبہا کی جماعت فرقۂ بابیہ نے اختلاف کیا، مگر وہ علمی رنگ میں اس بحث کو آگے نہ پہنچاسکے، اس کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی نے اس میں خلاف و اختلاف کا دروازہ کھولا اور ان کی چھوٹی بڑی بہت سی کتابوں میں یہ بحث ایسی منتشر اور متضاد ہے کہ خود ان کے ماننے والے بھی، اس پر متفق نہ ہوسکے کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ اور ان کا دعویٰ کیا ہے؟ کہیں بالکل عام مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کے مطابق آنحضرتﷺ کے خاتم النّبیین ہونے اور وحی نبوت کے انقطاع کلی کا اقرار اور آپﷺ کے بعد مطلقاً کسی نبی یا رسول کے پیدا نہ ہونے کا اعتراف ہے، کہیں اپنے آپ کو مجازی اور لغوی نبی کہا گیا ہے، کہیں نبوت کی ایک نئی قسم ظلی و بروزی بتلاکر بروزی نبی ہونے کا دعویٰ کیاگیا، کہیں نبوت کو تشریعی اور غیرتشریعی میں تقسیم کرکے تشریعی کا اختتام اور غیرتشریعی کا جاری ہونا بیان کیاگیا، اور اپنے آپ کو غیرتشریعی نبی بتلایا اور وحی غیرتشریعی کا دعویٰ کیاگیا ہے، کہیں کھلے طور پر صاحب شریعت نبی ہونے اور وحی تشریعی کا دعویٰ کیاگیا ۔

                یہی وجہ ہے کہ ان کے متبعین تین فرقوں میں تقسیم ہوگئے: ایک فرقہ ان کو صاحب شریعت اور تشریعی نبی ورسول مانتا ہے، یہ ظہیرالدین اروپی کا فرقہ ہے، دوسرا فرقہ ان کو با اصطلاح خود غیرتشریعی نبی کہتا ہے، یہ قادیانی پارٹی ہے، جو مرزا محمود صاحب کی پیروہے، تیسرا فرقہ ان کو نبی یا رسول نہیں؛ بلکہ مسیح موعود اور مہدی موعود قرار دیتا ہے، یہ مسٹرمحمدعلی لاہوری کے متبعین ہیں۔

                غرض مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے متبعین نے اس قطعی اور اجماعی مسئلہ میں خلاف وشقاق کا دروازہ کھولا، عوام کی جہالت اور مغربی تعلیم سے متأثر، دینی تعلیم سے بیگانہ افراد کی ناواقفیت سے ناجائز فائدے اٹھائے اور اس مسئلہ میں طرح طرح کے اوہام وشکوک ان کے دلوں میں پیدا کردیے، اور ان کی نظر میں بدیہی مسئلہ کو نظری بنادیا؛ اس لیے اہل علم اور اہل دین کو اس طرف متوجہ ہونا پڑاکہ ان کے شبہات دور کیے جائیں اور قرآن وحدیث کی صحیح روشنی ان کے سامنے لائی جائے۔ (ختم نبوت، ص:۱۰-۱۲)

                حضرت کاندھلویؒ فرماتے ہیں:

ختم نبوت اور اس کا مفہوم اور حقیقت

                ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ نبوت اور پیغمبری حضور کی ذات بابرکت پر ختم ہوگئی اور آپﷺ انبیاء کے خاتم (بالکسر) ہیں یعنی سلسلہ انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں اور آپﷺ سلسلہ انبیاء کے خاتم (بالفتح) یعنی مہر ہیں۔ اب آپﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہ ہوگا، مہر کسی چیز کا منہ بند کرنے کے لیے لگاتے ہیں، اسی طرح حضور پرنورﷺ سلسلہ انبیاء پر مہر ہیں، اب آپﷺ کے بعد کوئی اس سلسلہ میں داخل نہیں ہوسکے گا، اور قیامت تک کوئی شخص اب اس عہدہ پر فائز نہ ہوگا۔ مہر ہمیشہ ختم کرنے اور بند کرنے کے لیے ہوتی ہے  کما قال تعالٰی یُسْقَونَ مِن رَحیقٍ مختومٍ ختامُہ مِسْک یعنی سربمہر بوتلیں ہوںگی اور شراب ان کے اندر بند ہوگی۔  ختم اللّٰہ علی قلوبھم   اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے، یعنی کفر اندر بند کردیا ہے۔ (احتساب قادیانیت، ج:۲،ص:۵۱۴)

قرآن اور عقیدئہ ختم نبوت

                مفتی صاحب نوراللہ مرقدہٗ نے اس کے بعد  مَا کانَ محمدٌ أبا أحدٍ من رِجالِکُمْ ولکِنْ رسول اللہ خاتم النّبیین وکان اللہُ بکل شيئٍ علیما  پر صفحہ ۵۰ سے صفحہ ۱۳۳ تک یعنی تقریباً ۸۴ صفحات پر پورے شرح وبسط کے ساتھ کلام کیا ہے، جو قابل مطالعہ ہے، لغت، احادیث اور آثار کی روشنی میں بڑی جامع تفسیر کی ہے۔ اس کے بعد مختصراً اس کے علاوہ دیگر تقریباً ۹۹؍ آیات کی مختصر تشریح کی ہے، وہ آیات یہ ہیں:

                (۱) سورہ احزاب، پارہ ۲۲، ع۲، آیت ۴۰ (۲) سورہٴ مائدہ، پارہ۶، ع۵، آیت ۳ (۳) سورہٴ آل عمران، پارہ ۳، ع۱۷، آیت ۸۱ (۴) سورہٴ اعراف، پارہ ۳، ع۱۰، آیت ۱۵۸ (۵) سورہٴ فرقان، پارہ ۱۸، ع۱۶، آیت ۱ (۶) سورہٴ نساء، پارہ ۵، ع ۸، آیت ۷۹ (۷) سورہٴ قلم، پارہ ۲۹، ع ۴، آیت ۵۲ (۸) سورہٴ انعام، پارہ ۷، ع۸، آیت ۱۹ (۹) سورہٴ ہود، پارہ ۱۲، ع۲، آیت۱۷  (۱۰) سورہٴ نساء، پارہ۶، ع۳، آیت ۱۷۰(۱۱) سورہٴ انبیاء، پارہ ۱۷، ع۷، آیت ۱۰۷ (۱۱۲) سورہٴ نساء، پارہ ۵، ع۱۴، آیت ۱۱۵ (۱۳) سورہٴ واقعہ، پارہ ۲۷، ع ۱۴، آیت ۱۳،۱۴ (۱۴) سورہٴ واقعہ، پارہ ۲۷، ع۱۵، آیت ۳۹،۴۰ (۱۵) سورۂ مرسلات، پارہ ۲۹، ع۲۱، آیت۱۶‘۱۷ (۱۶) سورۂ مائدہ، پارہ ۷،ع۴،آیت۱۰۱ (۱۷) سورۂ توبہ، پارہ ۱۰، ع۱۱، آیت۳۳ (۱۸) سورۂ فتح، پارہ ۲۶، ع۱۲،آیت۲۸ (۱۹) سورۂ صف، پارہ ۲۸، ع۹، آیت۹ (۲۰) سورۂ نساء، پارہ ۵، ع۵،آیت۵۹ (۲۱) سورۂ فتح، پارہ ۲۶، ع۱۰، آیت۱۷ (۲۲) سورۂ نساء، پارہ ۵، ع۸، آیت۸۰ (۲۳) سورۂ نساء، پارہ ۵، ع۶، آیت۶۹ (۲۴) سورۂ حدید، پارہ ۲۷، ع۲۰، آیت۲۹ (۲۵) سورۂ نساء، پارہ ۵، ع۱۷، آیت۱۳۶(۲۶) سورۂ بقرہ، پارہ ۳، ع۸، آیت۲۸۵ (۲۷) سورۂ بقرہ، پارہ ۱، ع۵، آیت۴۱ (۲۸) سورۂ عمران، پارہ ۳، ع۱۷، آیت۸۴ (۲۹) سورۂ نساء، پارہ ۵، ع۶، آیت۶۰ (۳۰) سورۂ محمد، پارہ ۲۶، ع۵، آیت۲ (۳۱) سورۂ نساء، پارہ ۶، ع۳، آیت۱۷۰ (۳۲) سورۂ نساء، پارہ ۶،ع۴، آیت۱۷۶(۳۳) سورۂ مائدہ، پارہ ۶،ع۷، آیت۱۵‘۱۶ (۳۴) سورۂ اعراف، پارہ ۹، ع۸، آیت۱۵۷ (۳۵) سورۂ اعراف، پارہ ۹، ع۹،آیت۱۵۴ (۳۶) سورۂ اعراف، پارہ ۹، ع۱۰، آیت۱۵۸ (۳۷) سورۂ انفال، پارہ ۹، ع۱۷،  آیت۲۰ (۳۸) سورۂ انفال، پارہ ۹، ع۱۷، آیت۲۴(۳۹) سورۂ انفال، پارہ ۱۰، ع۲، آیت۴۶ (۴۰) سورۂ انفال، پارہ ۱۰، ع۴، آیت۶۴ (۴۱) سورۂ توبہ، پارہ ۱۰، ع۱۵، آیت۷۱ (۴۲) سورۂ تغابن، پارہ ۲۸، ع۱۵، آیت۸ (۴۳) سورۂ صف، پارہ ۲۸، ع۱۰، آیت۱۰‘۱۱ (۴۴) سورۂ حدید، پارہ ۲۷، ع۱۷، آیت۷ (۴۵) سورۂ جمعہ، پارہ ۲۸، ع۱۱، آیت۲‘۳ (۴۶) سورۂ یوسف، پارہ ۱۳، ع۶، آیت۱۰۸ (۴۷) سورۂ نساء، پارہ ۶، ع۲، آیت۱۶۲ (۴۸) سورۂ نور، پارہ ۱۸، ع۱۳، آیت۵۱ (۴۹) سورۂ نور، پارہ ۱۸، ع۱۳، آیت۵۲ (۵۰) سورۂ نور، پارہ ۱۸، ع۱۳، آیت۵۴ (۵۱) سورۂ نور، پارہ ۱۸،ع۱۳، آیت۵۴ (۵۲) سورۂ نور، پارہ ۱۸،ع۱۳، آیت۵۶ (۵۳) سورۂ نور، پارہ ۱۸،ع۱۵، آیت۶۲ (۵۴) سورۂ یٰس، پارہ ۲۲، ع۱۸، آیت۱۱ (۵۵) سورۂ نور، پارہ ۱۸،ع۱۵، آیت۶۲ (۵۶) سورۂ احزاب، پارہ ۲۲،ع۶، آیت۷۱ (۵۷) سورۂ احزاب، پارہ ۲۲،ع۱۷، آیت۷ (۵۸) سورۂ اعراف، پارہ ۱۸،ع۸، آیت۳ (۵۹) سورۂ یونس، پارہ ۱۱،ع۷، آیت۱۳‘۱۴ (۶۰) سورۂ انعام، پارہ ۸،ع۷، آیت۱۶۵ (۶۱) سورۂ فاطر، پارہ ۲۲،ع۱۷، آیت۳۹ (۶۲) سورۂ قمر، پارہ ۲۷، ع۸، آیت۱ (۶۳) سورۂ انبیاء، پارہ ۱۷،ع۱، آیت۱ (۶۴) سورۂ نحل، پارہ ۱۴،ع۷، آیت۱ (۶۵) سورۂ ابتداء شوریٰ، پارہ ۲۵،ع۲، آیت۳ (۶۶) سورۂ انعام، پارہ ۷،ع۱۱، آیت۴۲ (۶۷) سورۂ آل عمران، پارہ ۴،ع۱۰، آیت۱۸۳ (۶۸) سورۂ آل عمران، پارہ ۴،ع۱۰، آیت۱۸۴ (۶۹) سورۂ انعام، پارہ ۷،ع۷، آیت۱۰ (۷۰) سورۂ انعام، پارہ ۷،ع۱۰، آیت۳۴ (۷۱) سورۂ یوسف، پارہ ۱۲،ع۶، آیت۱۰۹ (۷۲) سورۂ رعد، پارہ ۱۳،ع۱۱، آیت۳۲ (۷۳) سورۂ رعد، پارہ ۱۳،ع۱۲، آیت۳۸ (۷۴) سورۂ نحل، پارہ ۱۴،ع۱۲، آیت۴۳(۷۵) سورۂ نحل، پارہ ۱۴،ع۱۴، آیت۶۳ (۷۶) سورۂ فاطر، پارہ ۲۲،ع۱۶، آیت۳۱ (۷۷) سورۂ بنی اسرائیل، پارہ ۱۵، ع۸،آیت۷۷ (۷۸) سورۂ انبیاء، پارہ ۱۸،ع۲،آیت۲۹ (۷۹) سورۂ حج، پارہ ۱۷،ع۱۴، آیت۵۲ (۸۰) سورۂ فرقان، پارہ ۱۸،ع۱۷، آیت۲۰ (۸۱) سورۂ فاطر، پارہ ۲۲،ع۱۳، آیت۴ (۸۲) سورۂ زمر، پارہ ۲۴،ع۴، آیت۶۵ (۸۳) سورۂ حم السجدہ، پارہ ۲۴،ع۱۹، آیت۴۳ (۸۴) سورۂ شوریٰ، پارہ ۲۵،ع۲، آیت۳ (۸۵) سورۂ زخرف، پارہ ۲۵،ع۸، آیت۲۳ (۸۶) سورۂ زخرف، پارہ ۲۵،ع۱۰، آیت۴۵ (۸۷) سورۂ زخرف، پارہ ۲۵،ع۷، آیت۶ (۸۸) سورۂ فاطر، پارہ ۲۲، ع۱۶، آیت۳۲ (۸۹) سورۂ احزاب، پارہ ۲۲،ع۵، آیت۶۶(۹۰) سورۂ فرقان، پارہ ۱۹،ع۱، آیت۲۷ (۹۱) سورۂ سبا، پارہ ۲۲،ع۹، آیت۲۸ (۹۲) سورۂ سبا، پارہ ۲۲،ع۱۲، آیت ۴۶ (۹۳) سورۂ ابراہیم، پارہ ۱۳،ع۱۶،آیت۲۷(۹۴) سورۂ آل عمران، پارہ ۳، ع۱۲، آیت۳۱ (۹۵) سورۂ محمد، پارہ ۲۶،ع۶، آیت۱۸ (۹۶) سورۂ صٓ، پارہ ۲۳،ع۱۴،آیت۸۷‘۸۸ (۹۷) سورۂ بقرہ، پارہ ۱،ع۱۱، آیت۹۷ (۹۸) سورۂ بقرہ، پارہ ۱،ع۱۲،آیت۱۰۱ (۹۹) سورۂ بقرہ، پارہ۱،  ع۱۱، آیت۹۱۔

                جیساکہ اس سے پہلے بھی بیان کیا کہ تقریباً دو سودس احادیث سے ختم نبوت کا مسئلہ ثابت ہے جس میں سے اہم روایت بخاری کی ہے۔

          عن أبی ھریرۃ ان رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قا ل إنّ مثلی و مثلَ الأنبیائِ مِنْ قَبْلِي کَمثلِ رَجُلٍ بنٰی بیتا فأحسنَہٗ و أجملَہٗ إلاّ موضعَ لبنۃٍ من زاویۃٍ فجعل الناسُ یطوفون بہ و یعجبون لہ و یقولون ھلا وشعتْ ھذہ اللبنۃُ و أنا خاتم النبیین۔ (رواہ البخاری فی کتاب الأنبیاء و مسلم:ج۲/۲۴۸ فی الفضائل و أحمد فی مسندہ،ج:۲ ص۳۹۸، والنسائی والترمذی) و فی بعض ألفاظہ فکنتُ أنا سددت موضع اللبنۃ و ختم بی البنیان و ختم بی الرسل ھکذا فی الکنز عن أبی عساکر۔

                ’’حضرت ابوہریرہؓ آنحضرتﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میری مثال مجھ سے پہلے انبیاء کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اس کو بہت عمدہ اور آراستہ و پیراستہ بنایا؛ مگر اس کے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ تعمیر سے چھوڑ دی، پس لوگ اُس کے دیکھنے کو جوق در جوق آتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی (تاکہ مکان کی تعمیر مکمل ہو جاتی) چناں چہ  میں نے اس جگہ کو پُر کیا اور مجھ سے ہی قصرِ نبوت مکمل ہوا، اور میں ہی خاتم النّبیین ہوں، یا مجھ پر تمام رسُل ختم کردیئے گئے‘‘۔ (ختم نبوت: ص۲۰۵ تا ۲۰۶ )

                اس کے بعد حضرت ابو سعید خدری، حضرت جابر، حضرت ابوہریرہ، حضرت جبیر ابن مطعم، حضرت سعید ابن ابی وقاص، حضرت جابر ابن سمرہ، حضرت ثوبان، حضرت عبداللہ عباس، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت انس ابن مالک، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت علی، حضرت ابوذر، حضرت مالک ابن حویرث، حضرت نافع، حضرت عوف ابن مالک، حضرت حسن، حضرت عرباض ابن ساریہ زید ابن حارثہ عبداللہ ابن ثابت، حضرت ام کرز کعبیہ، حضرت ابوامامہ باہلی، حضرت ابی ابن کعب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ختم نبوت پر ۲۶؍ روایتیں تو صرف امام بخاری وامام مسلم رحمہما اللہ نے صحیحین میں روایت کی ہیں۔

                حضرت عقبہ بن عامر، حضرت جابر ابن عبداللہ حضرت سفینہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت بہزابن حکیم، حضرت معاویہ بن فیدہ، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت علی مرتضی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اصحاب سنن اربعہ امام نسائی ابوداؤد و ترمذی اور ابن ماجہ نے تقریباً دس حدیثیں نقل کی ہیں۔

                اس کے علاوہ امام احمد ابن حنبل نے اپنی سند سے حضرت ابوطفیل، حضرت بریدہ، حضرت ابونضرہ، حضرت زید ابن ابی اوفی، حضرت ابوسعید خدری، حضرت حذیفہ بن اسید، حضرت نعمان ابن بشیر، حضرت عبداللہ ابن عمرو، حضرت عرباض ابن ساریہ سے تقریباً دس حدیثیں نقل کی ہیں، یہ ۵۶ حدیثیں مستند اور صحیح ہیں۔

                ان مذکورہ کتابوں کے علاوہ دیگر بے شمار مستند کتابوں میں تقریباً ڈیڑھ سو احادیث ایسی ہیں جو ختم نبوت پر دلیل بنتی ہیں، جن کو امام دارمی، امام ابن عساکر، امام بغوی، امام سیوطی، امام بیہقی، امام طبرانی، امام ابونعیم، امام ابویعلیٰ، امام علی متقی، امام ابن ابی شیبہ، امام طحاوی، امام ابن کثیر، امام ابن ابی حاتم، امام ابن مردویہ، امام دیلمی، امام ابن سعد، امام ابن حجر عسقلانی، امام ابن النجار،خطیب بغدادی، امام بزار، امام ابن عدی، امام ابوداؤد الطیالسی، امام ابن جریر طبری، امام ماوردی، امام رافعی، امام حاکم نیشاپور، امام ابن الجوزی، امام عیاض نے حضرت علی، حضرت ضحاک ابن نوفل، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوامامہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت انس ابن مالک، حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت عبداللہ ابن الزبیر، حضرت نعمان بن بشیر، یونس ابن میسرہ، حضرت خالد بن ولید، حضرت جابر ابن عبداللہ، حضرت سلمان فارسی، حضرت عائشہ، حضرت ابوالدرداء، حضرت عبداللہ ابن حارث، حضرت ابو زمل جہنی، حضرت زبیر ابن العوام، حضرت اکوع سلمہ ابن اکوع، حضرت ابوالطفیل، حضرت عمرو ابن قیس، حضرت ابوقتادہ، عبدالرحمن ابن سمرہ، حضرت محمد ابن حزم، حضرت قتادہ، حضرت عصمہ ابن مالک، حضرت ابومالک اشعری، حضرت حذیفہ، حضرت ابوالفضل، حضرت عقیل ابن ابی طال، حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابو قُبیلہ، حضرت حسن بن علی، حضرت مالک، حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت حبشی ابن جنادہ، حضرت عمرو، حضرت سہل ساعدی، عبیداللہ ابن عمر، حضرت ابوبکرہ، حضرت نعیم ابن مسعود، حضرت تمیم داری نے تقریباً سو حدیثیں ایسی نقل کی ہیں جو صراحتاً ختم نبوت پر دلالت کرتی ہیں۔

                ان مذکورہ احادیث کے علاوہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہٗ نے دوسرے ۶۷؍ احادیث ایسی نقل کی ہیں جو کنایۃً و اشارۃً ختم نبوت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے بعد مفتی صاحب نے جو کلام کیا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں:

احادیث مذکورۃ الصدر سے ختم نبوت کا ثبوت

                نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی محبت وشفقت جو امت مر حومہ کے ساتھ ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے ،اور پھر یہ بھی مسلم ہے کہ زمانہ ماضی ومستقبل  کے جتنے علوم وحالات آپﷺ کو عطا کیے گئے وہ نہ کسی نبی کو حاصل ہیں اور نہ کسی فرشتہ کو ۔

                ان دونوں باتوں کو سمجھنے کے بعد یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ آپﷺ نے اپنی امت کے لیے دین کے راستہ کو ایسا ہموار اور صاف بنا کر چھوڑا کہ جس میں دین ورات برابر ہوں، اس پر چلنے والے کو ٹھوکر لگنے یا راستہ بھولنے کا اندیشہ نہ رہے، اس میں جتنے خطرات کے مواقع ہوںگے، وہ سب آپﷺ نے ان کو بتلادیے،نیز اس راستہ کے ایسے ایسے نشانات ان کو بتلادییجو تمام راستہ میں ان رہبری کرتے رہیں ۔

                چنانچہ جب ہم حدیث نبویﷺ کے دفتر پر نظر ڈالتے ہیں تو ثابت ہوجاتا ہے ،کہ آپﷺ نے ان امور میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ،آپﷺ کے بعد جتنے قابل اقتدا ء رہنما پیدا ہونے والے تھے، آپؐ نے اکثر کے نام لے لے کر بتلادیے ،اور امت کو ان کی پیروی کی ہدایت فرمائی ، جن میں سے ’’مشتے نمونہ از خر وارے ‘‘ چند احادیث اوپر ذکر کی گئیں، آنحضرت… کی انتہائی شفقت ومربیانہ تعلیم اور پھر احادیث مذکورہ بالا کو دیکھتے ہوئے ایک مسلمان؛ بلکہ ایک منصف مزاج انسان یہ یقین کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپﷺ کے بعد کوئی کسی قسم کا نبی (اگرچہ وہ بقول مرزا ظلی یا بروزی رنگ میں سہی) اس عالم میں پیدا نہیں ہوسکتا ورنہ لازم تھا کہ آپﷺ ان سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس نبی کا ذکر فرماتے ؛کیوںکہ ان سب کا اتباع پر امت کی نجات کا مدار ہے ۔

                مگر عجب تماشہ ہے کہ نبی کر یمﷺ اپنی امت کو خلفائے راشدین کے اقتداء کا حکم فرماتے ہیں ،ائمہ دین اور امراء کی اطاعت کی تعلیم دیتے ہیں؛ بلکہ ایک حبشی غلام کی بھی (جب کہ وہ امیر بن جائے )اطاعت امت پر واجب قرار دیتے ہیں ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ  اور عمار بن یاسرؓ کی اقتداء کی دعوت دیتے ہیں ، حضرت زبیرؓ ، ابو عبیدۃ بن الجراح، معاذ بن جبلؓ عبداللہ بن عباس ؓ وغیرہ صحابہ کرامؓ کے نام لے لے کر انہیں واجب التکریم اور قابل اقتداء فرماتے ہیں، اویس قرنسؒ کے آنے کی خبر اور ان سے استغفار کرانے کی تعلیم دیتے ہیں، مجددینِ امت کا ہر صدی پر آنا، ابدال کا ملک شام میں پیدا ہونا، اور اُن کا مستجاب الدعوات ہونا وغیرہ وغیرہ مفصل بیان فرماتے ہیں۔

                لیکن ایک حدیث میں بھی یہ بیان نہیں فرماتے کہ ہمارے بعد فلاں نبی پیدا ہوگا، تم اس پر ایمان لانا اور اس کی اطاعت کرنا۔

                اگر پہلو میں دل اور دل میں ایمان یا انصاف کا کوئی ذرہ بھی ہے تو تمام احادیثِ سابقہ کو چھوڑ کر صرف یہی احادیث ایک انسان کو اس پر مجبور کرنے کے لیے کافی ہیں کہ آپﷺ کے بعد تا قیامت کسی قسم کا کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔

                یہ دو سو دس احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن میں آںحضرتﷺ نے ختمِ نبوت کا قطعی اعلان فرماکر ہر قسم کی تاویل اورتخصیص کا راستہ بند کردیا ہے۔

                جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سُنے۔ إن في ذلک لَعِبْرۃً لِمَنْ کان لہ قلبٌ أو القیٰ السمعَ وھو شھید۔ (ختم نبوت : ص۲۹۵ تا ۲۹۶)

                 اسی لیے علامہ انورشاہ کشمیری نوراللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں:

                ’’ختم نبوت کا مسئلہ شریعت محمدی میں متواتر ہے، قرآن و حدیث سے اجماع بالفعل سے اور یہ پہلا اجماع ہر وقت اور ہر زمانہ میں حکومت اسلامی نے اس شخص کو جس نے دعوئ نبوت کیا، سزائے موت دی ہے، ایک شاعر کو صلاح الدین ایوبیؒ نے بہ فتویٰ علماء دین، ایک شعر کہنے پر قتل کرادیا تھا ۔

کان مبدأ ھذا الدینِ من رَجُلٍ      سَعٰی فأصبحَ یُدْعیٰ سیدُ الأُممٖ

(صبح الأعشی: ۳۰۵، ۱۳۹)

                اس شعر سے اس شخص نے نبوت کو کسبی قرار دیا کہ نبوت ریاضتوں سے حاصل ہوسکتی ہے، اس لیے اسے قتل کروادیا۔ (احتساب قادیانیت: ج۴/ص۴۲)

                اس سے آپ اندازہ لگایے کہ مسئلہ ختم نبوت کتنا حساس مسئلہ ہے۔

                علامہ کشمیری قدس اللہ سرہٗ ’’ماکان محمد‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’نبی کریمﷺ اشخاص نبوت کے بھی خاتم ہیں، اور آپﷺ کے تشریف لانے کے بعد نبوت کا عہدہ منقطع ہو گیا ہے۔ (ایضا)                                                                                                                             

٭           ٭           ٭

—————————————

عقیدهٴ ختم نبوت پر امت کا سب سے پہلا اجماع

                اسلام میں سب سے پہلا اجماع اس پر منعقد ہوا تھا کہ دعوی نبوت بغیر اس تحقیق کے کہ اس کی تاویل کیا ہے اورکیسی نبوت کا دعوی ہے؟کفر اور ارتداد ہے، اور مدعیِ نبوت کی سزا قتل ہے۔ صحابہ کرام کے اجماع سے صدیق اکبر کے زمانے میں مسیلمہ کذاب مدعی نبوت سے جہاد کیاگیا اور اس کو قتل کیاگیا۔

                شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی فرماتے ہیں:

                ”ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار ہوتے ہیں اور عہد نبوی سے لے کر آج تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا کہ آں حضرت ﷺ بلاکسی تاویل و تخصیص کے خاتم النّبیین ہیں اور یہ مسئلہ قرآن کریم میں صریح آیات اور احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے، جس کا منکر قطعاً کافر ہے اور کوئی تاویل و تخصیص اس بارے میں قبول نہیں کی گئی۔ (احتساب قادیانیت: ج۲/ص۱۰)

                یہاں ایک امر قابل غور ہے وہ یہ کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس نازک وقت میں مدعی نبوت اور اس کی امت سے جہاد وقتال کو یہود اور نصاری اور مشرکین سے جہاد وقتال پر مقدم سمجھا۔ جس سے معلوم ہوا کہ مدعیِ نبوت اور اس کی امت کا کفر یہود اور نصاری اور مشرکین کے کفر سے بڑھا ہواہے ۔عام کفار سے صلح ہو سکتی ہے ان سے جزیہ قبول کیا جاسکتا ہے؛ مگر مدعی نبوت سے نہ تو کوئی صلح ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی جزیہ قبول کیا جاسکتا ہے ۔اس وقت اگر آج کل جیسے سیاسی لوگ ہوتے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیتے کہ باہمی تفرقہ منا سب نہیں۔ مسیلمہ کذاب اور اس کی امت کو ساتھ لے کر یہود اور نصاریٰ کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ حضرت علامہ محمدانور کشمیری قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ: مسیلمہٴ کذاب اور مسیلمہٴ پنجاب کا کفر فرعون کے کفر سے بڑھ کر ہے ؛اس لیے کہ فرعون مدعئ الوہیت تھا اور الوہیت میں کوئی التباس اور اشتباہ نہیں،ادنیٰ عقل والا سمجھ سکتاہے کہ جو شخص کھاتا اور پیتا اور سوتا اور جاگتا اور ضروریات انسانی میں مبتلا ہوتا ہے وہ خدا کہاں ہوسکتا ہے ؟مسیلمہ مدعی نبوت تھا ظاہری بشریت کے اعتبار سے سچے نبی اور جھوٹے نبی میں التباس ہوسکتا ہے؛ اس لیے مدعیِ نبوت کا فتنہ مدعی الوہیت کے فتنہ سے کہیں اہم اور عظیم ہے اور ہر زما نے میں خلفاء اور سلاطین اسلام کا یہی معمول رہا کہ جس نے نبوت کا دعوی کیا اسی وقت اس کا سر قلم کیا۔            

                اہل حق نے اس فتنہ کے استیصال کے لیے جو سعی اور جد وجہد ممکن تھی اس میں دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح مدعی نبوت سے جہاد بالسیف والسنان تو ارباب حکومت کا کام ہے اور جہاد قلمی اور لسانی یہ علماء حق کاکا م ہے ۔سو الحمد للہ علماء نے اس جہاد میں کوئی کوتاہی نہیں کی، تقریر اور تحریر سے ہر طرح سے مدعی نبوت کا مقابلہ کیا۔ (احتسابِ قادیانیت: ج۲/ص۱۱ تا ۱۲)

                حضرت مفتی شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ ”ختم النبوة فی الآثار“ کے آغاز میں ختم نبوت پر اجماع کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

صحابہٴ کرام کا سب سے پہلا اجماع مسئلہ ختم نبوت پر اور اُس کے منکر کے مرتد اور واجب القتل ہونے پر ہوا ہے

مسیلمہٴ کذاب کا دعوئ نبوت اور صحابہٴ کرام کا اس پر جہاد

                اسلام میں یہ بات درجہٴ تواتر کو پہنچ چکی ہے کہ مسیلمہ کذاب نے آں حضرت ﷺ کی موجودگی میں دعوائے نبوت کیا، اور بڑی جماعت اس کی پیرو ہوگئی، اور آں حضرت ﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلا مہم جہاد جو صدیق اکبر نے اپنی خلافت میں کیا ہے، وہ اسی جماعت پر تھا، جمہور صحابہٴ کرام مہاجرین و انصار نے اس کو محض دعوائے نبوت کی وجہ سے اور اس کی جماعت کو اس کی تصدیق کی بنا پر کافر سمجھا، اور باجماع صحابہ و تابعین اُن کے ساتھ وہی معاملہ کیا گیا جو کفار کے ساتھ کیا جاتا ہے، اور یہی اسلام میں سب سے پہلا اجماع تھا، حالاں کہ مسیلمہ کذاب بھی مرزا صاحب کی طرح آپ ﷺ کی نبوت اور قرآن کا منکر نہ تھا بلکہ بعینہ مرزا صاحب طرح آپ ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی مدعی تھا، یہاں تک کہ اُس کی اذان میں برابر اشہد ان محمدا رسول اللہ پکارا جاتا تھا، اور وہ خود بھی بوقتِ اذان اس کی شہادت دیتا تھا۔(تاریخ طبری:۳/۲۴۴)

                الغرض! نبوت و قرآن پر ایمان اور نماز روزہ سب ہی کچھ تھا، مگر ختم نبوت کے بدیہی مسئلہ کے انکار اور دعوائے نبوت کی وجہ سے باجماع صحابہ کافر سمجھا گیا اور حضرت صدیق نے صحابہ کرام، مہاجرین و انصار اور تابعین کا ایک عظیم الشان لشکر حضرت خالد بن ولید کی امارت میں مسیلمہ کے خلاف جہاد کے لیے یمامہ کی طرف روانہ کیا۔

                جمہور صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی اس پر انکار نہ کیا اور کسی نے نہ کہا کہ یہ لوگ اہل قبلہ ہیں، کلمہ گو ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوٰة ادا کرتے ہیں، اُن کو کیسے کافر سمجھ لیا جائے۔

                بعض لوگوں نے آں حضرت ﷺ کے بعد زکوٰة ادا کرنے سے انکار کیا تھا، صدیق اکبر نے اُن پر جہاد کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت فاروق نے وقت کی نزاکت اور مسلمانوں کی قلت و ضعف کا عذر پیش کرکے ابتدأً اُن کی رائے سے خلاف رائے ظاہر فرمائی، لیکن حضرت صدیق کے ساتھ تھوڑے سے مکالمہ کے بعد ان کی رائے بھی موافق ہوگئی۔

                الغرض حضرت فاروق کا ابتدأً خلاف کرنا بھی مسیلمہ کے واقعہ میں ثابت نہیں جیساکہ بعض غیرمحقق لوگوں نے سمجھا ہے۔

                الحاصل بلاخوف و بلانکیر یہ آسمانِ نبوت کے ستارے اور حزب اللہ کا ایک جم غفیر یمامہ$ کی طرف بڑھا، اس کی پوری تعداد تو اس وقت نظر سے نہیں گذری مگر تاریخ طبری$ میں حضرت صدیق اکبر کا ایک فرمان خالید بن ولیدکے نام درج ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو صحابہ و تابعین اس جہاد میں شہید ہوئے ان کی تعداد بارہ سو ہے۔ نیز اسی تاریخ میں ہے کہ مسیلمہ کی جماعت جو اس وقت مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکلی تھی اس کی تعداد چالیس ہزار مسلح جوان تھی، جن میں سے اٹھائیس ہزار کے قریب ہلاک ہوئے اور خود مسیلمہ بھی اسی فہرست میں داخل ہوا، باقی ماندہ لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے، حضرت خالید کو بہت مال غنیمت اور قیدی ہاتھ آئے، اور پھر صلح ہوگئی۔

                ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کی کتنی بڑی جماعت اس میدان میں آئی تھی جنہوں نے ایک مسئلہٴ ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے نہ وقت کی نزاکت کا خیال کیا اور نہ مسلمانوں کی بے سروسامانی کا، اور نہ اس جماعت کے اذان و نماز اور تلاوت و اقرار نبوت، بلکہ اتنی بڑی عظیم الشان جماعت پر جہاد کرنے کے لیے باجماع و اتفاق اٹھ کھڑے ہوئے۔ (ختم نبوت : ص۳۰۲ تا ۳۰۴)

                اس کے بعد ان صحابہ کے نام تحریر فرماتے ہیں جو ختم نبوت پر شاہد ہیں۔

ان صحابہٴ کرام کے اسماء گرامی جو ختم نبوت کے شاہد ہیں

                حضرت صدیق اکبر، حضرت فاروق اعظم، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عائشہ، حضرت اُبی بن کعب، حضرت انس، حضرت حسن، حضرت عباس، حضرت زبیر، حضرت سلمان، حضرت مغیرہ، حضرت سعد بن ابی وقاس، حضرت ابوذر،حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر عبداللہ، حضرت جابر بن سمرہ، حضرت معاذ بن جبل،حضرت ابوالدرداء، حضرت حذیفہ،حضرت ابن عباس، حضرت خالد بن ولید، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عقیل بن ابی طالب، حضرت معاویہ بن جندہ، حضرت بہزبن حکیم، حضرت جبیر بن مطعم، حضرت بریدہ، حضرت زید بن اوفیٰ، حضرت عوف بن مالک، حضرت نافع، حضرت مالک بن حویرث، سفینہ مولیٰ حضرت ام سلمہ، حضرت ابوالطفیل، حضرت نعیم ابن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت ابوحازم، حضرت ابومالک اشعری، حضرت امّ کرز، حضرت زید بن حارثہ، حضرت عبداللہ بن ثابت، حضرت ابوقتادہ، حضرت نعمان بن بشیر، حضرت ابن غنم، حضرت یونس بن میسرہ، حضرت ابوبکرہ، حضرت سعید بن جثیم، حضرت سعد، حضرت زید بن ثابت، حضرت عرباض ابن ساریہ، حضرت زید ابن ارقم، حضرت مسعود بن مخرمہ، حضرت عروہ بن رویم، حضرت ابوامامہ باہلی، حضرت تمیم داری، حضرت محمد بن حزم، حضرت سہل بن سعد الساعدی، حضرت ابوزمل جہنی، حضرت خالد بن معدان، حضرت عمرو بن شعیب، حضرت مسیلمہ بن نفیل، حضرت قرة بن ایاس، حضرت عمران بن حسین،حضرت عقبہ بن عامر، جضرت ثوبان،حضرت ضحاک بن نوفل،حضرت مجاہد،حضرت مالک،حضرت اسماء بنت عمیس،حضرت حبشی بن جنادہ، حضرت عبداللہ بن حارث،حضرت سلمہ اکوع،حضرت عکرمہ بن اکوع،حضرت عمرو بن قیس،حضرت عبدالرحمن بن سمرہ،حضرت عصمہ بن مالک،حضرت ابوقبیلہ،حضرت ابوموسیٰ اشعری،حضرت عبداللہ بن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین!

                یہ اسّی حضرات میرے مقدمہ کے گواہوں کی پہلی قسط ہیں، جو مرزاجی کی نبوت کے گواہ کنہیّا لال وغیرہ نہیں؛ بلکہ آفتابِ نبوت کی شعاعیں، ہدایت کے ستارے، علوم نبوت کے وارث، ثقاہت و دیانت کے مجسمے، علم و عمل کے سارے عالَم کے مسلّم اُستاذ، صحابہٴ کرایم رضوانہ اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت کے افراد ہیں $

اولٰئک اٰبائی فجئني بمثلھم          اذا جمعتنا یا غلامُ المجامع

                ”یہ میرے مقتدا ہیں پس (اگر دعوی ہے) اے غلام احمد مجلس میں اُن کی مثال پیش کر اس فرشتہ صفت جماعت پر اگر میں فخر کروں تو بجا ہے“

ولے درام جواہر خانہٴ عشق است تحویلش                       کہ دار و زیر گردوں میر سامانے کہ من دارم

                یہ صحابہ کی جماعت ہے، ہم تو بحمدللہ تعالیٰ اُن کی اقتدا کو ذریعہٴ نجات اور فرمانِ نبوی ما انا علیہ و اصحابی کی تعمیل سمجھتے ہیں، اگر یہ حق پر ہیں تو ہم بھی اس کے متبع ہیں، اور اگر حق رسولِ کریم ﷺ اور صحابہ کے اُسوہٴ حسنہ کے سوا کسی اور چیز کا نام ہے تو ہم شرحِ صدر سے کہتے ہیں کہ ہمیں ایسے مرزائی حق کی ضرورت نہیں۔ $

و رشادی ان یکنْ فی سلوَتی                 فدعونی لستُ ارضٰی بالرشادِ

”اور اگر میری ہدایت اسی میں منحصر سمجھی جائے کہ میں آپ کی محبت سے علیحدہ ہوجاوٴں تو مجھے اپنے حال پر چھوڑو میں ایسی ہدایت نہیں چاہتا“

(ختم نبوت : ص۳۱۳ تا ۳۱۵)

                اس کے بعد محدثین، مفسرین، فقہاء، متکلمین، صوفیاء کرام کے نام تحریر فرماتے ہیں:

طبقات المحدثین

                اس باب میں ہم سب سے پہلے اُن حضرات محدثین کے اسمائے گرامی پیش کرتے ہیں، جنہوں نے ختمِ نبوت کے متعلق آں حضرت ﷺ سے احادیث روایت کی ہیں اور اختلافِ رائے یا تاویل و تخصیص کو اس میں ظاہر نہیں فرمایا؛ بلکہ اس کو بعینہ اپنی ظاہری مراد میں تسلیم کیا ہے۔ اور چوں کہ وہ تمام احادیث مع حوالہٴ صفحات کتاب اور تصریح اسمائے محدثین اسی رسالہ کے حصہ دوم میں گذر چکے ہیں، اس لیے اب مکرر حوالہٴ صفحات یا نقل عبارات بالکل زائد سمجھ کی صرف اُن حضرات محدثین کے اسمائے گرامی شمار کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے جن سے ہم نے روایاتِ حدیث لی ہیں:

                امیر الموٴمنین فی الحدیث امام بخاری، امام المحدثین امام مسلم، نسائی، ابوداوٴد سجستانی، ترمذی، ابن ماجہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، طحاوی، ابن ابی شیبہ، ابوداوٴد طیالسی، طبرانی، ابن شاہین، ابونعیم، ابن حبان، ابن عساکر، حکیم ترمذی، حاکم، ابن سعد، بیہقی، ابن خزیمہ، ضیاء، ابویعلیٰ، محی السنہ بغوی، دارمی، خطیب، سعید بن منصور، ابن مردویہ، ابن ابی الدنیا، دیلمی، ابن ابی حاتم، ابن النجار، بزار، ابوسعید باوردی، ابن عدی، رافعی، ابن عرفہ، ابن راہویہ، ابن جوزی، قاضی عیاض، عبد بن حمید، ابونصر سنجری، ہروی، ابن منذر، دارقطنی، ابن السنی تلمیذ نسائی، روٴیانی، طبری فی الریاض النضرة، خطابی، خفاجی، حافظ ابن حجر در شرح بخاری، قسطلانی در شرح بخاری، نووی در شرح مسلم، صاحب سراج الوہاج در شرح مسلم، سندی در حاشیہ نسائی، شارح ترمذی، شعبی رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔ (ختم نبوت : ص۳۱۶، طبقات المحدثین )

طبقات فقہاء

                ابن نجیم، ابن حجر مکی، ملا علی قاری، علامہ سید محمود مفتی بغداد، شیخ سلیمان بحیری، عبدالرشید بخاری، فتاوی عالمگیری کے مرتبین، صاحب فصول عماری، صاحب شرح منہاج وغیرہم۔ ان تمام فقہاء نے منکرِ ختم نبوت اور مدعیِ نبوت کو کافر، کاذب، دجال قرار دیا ہے۔ (ختم نبوت:ص۳۲۵)

حضرات متکلمین

                ابن حزم اندلسی، امام نسفی، علامہ تفتازانی، حضرت شاہ عبدالعزیز، صاحب جواہر توحید، امام عبدالسلام، عبدالغنی نابلسی، ابوشکوہ سالمی، امام سفارینی، امام غزالی۔

صوفیائے کرام

                عبد الرحمن جامی، نظامی گنجوی، صاحب شرح تعرف، عبد القادر جیلانی، عماد الدین اموی، تقی الدین عبدالملک، محی الدین ابن عربی، مجدد الف ثانی وغیرہم۔

                علمائے امت کے ہر طبقہ اور ہر جماعت میں سے چند ارکان و عمائد کی شہادتیں آپ کے سامنے آچکی ہیں، جن میں بغیر کسی تاویل و تخصیص اور بلا تقسیم و تفصیل کے جس چیز کا نام عرفِ شریعت میں نبوت ہے اس کو آں حضرت ﷺ پر مختتم ما نا گیا ہے۔(ختم نبوت:ص۳۳۵)

                حضرت مفتی محمدشفیع صاحب نے تو قانون فطرت سے بھی مسئلہ ختم نبوت کو ثابت کرکے بتلایا ہے۔ فرماتے ہیں:

قانون فطرت بھی ختم نبوت کا مقتضی ہے

                کائنات عالم پر سرسری نظر ڈالنے والا دنیا میں دو چیزیں دیکھتا ہے ،ایک وحدت دوسری کثرت؛ لیکن جب ذرا تأمل کیا جائے اور نظر کو عمیق کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں بھی وحدت ہی اصل الاصول ہے، جتنی کثرتیں سطحی نظر میں سامنے آتی ہیں وہ بھی کسی وحدت میں منسلک ہیں اس کا شیرازئہ وجو د منتشر ہو کر قریب ہے کہ عدم میں شامل ہو جائے، اس لیے ایسی کثرت کو موجود کہنا بھی فضول ہوگا ۔

                مثال کے لیے دیکھیے کہ جب ہم آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو اس کے محیر العقول طول وعرض میں بے شمار کثرتیں کھپی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ؛لیکن جب ان کثرتوں کے سلسلہ میں نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کثرتیں ایک ہی مرکز کے ساتھ وابستہ ہیں ، اور ایک ہی محور پر حرکت کررہی ہیں ،اور اگر ان کا سلسلہ اس وحدت پر منتہی نہ ہوتا تو یہ نظام سماوی کسی طرح باقی نہ رہ سکتا تھا ۔

                آسمان سے نیچے ابر کے موالید ثلاثہ میں بھی یہی فطر ی قانون نافذ ہے ۔جمادات کے ذرا ذرا پر نظر ڈالو تو کس قدر بے شمار کثرتیں سامنے آتی ہیں ،لیکن وہ سب بھی اسی طرح ایک وحدت میں منسلک ہیں ،اور جب رشتہٴ انسلاک ٹوٹتا ہے تواس کے لیے موت کا پیام ہوتا ہے ۔

                نباتات میں بے شمار شاخیں ،پتے اور پھل پھول نئے نئے رنگ اور نئی نئی وضع میں کثرت کی شان لئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ؛لیکن اگر ان کی انتہا ایک جڑ کے ساتھ وابستہ نہ ہو تو فرمائیے کہ اس باغ و بہار کی عمر کتنی رہ سکتی ہے ۔

                حیوانا ت میں ہاتھ ،پاوٴ ں ،آنکھ ،ناک اور تین سو ساٹھ جوڑوں کی کثرت موجود ہے؛ لیکن اگر یہ سب ایک رشتہٴ وحدت میں منسلک نہ ہوں تو یہی اس کی موت ہے ۔

                اس کے بعد دنیا میں تمام مشینوں ، انجنوں، گاڑیوں، برقی تاروں اور واٹر ورکس کے نلوں، وغیرہ وغیرہ پر نظر ڈالیے تو سب کو اسی قانونِ فطرت کی جکڑ بند سے آباد پائیں گے ، اور جب کسی انجن کے کل پر زے اس کے روح (اسٹم )سے علیحدہ ہوں ،یا گاڑیوں کا باہمی ربط ٹوتے یا برقی تاروں کا اتصال بجلی کے خزانہ کے ساتھ نہ رہے، یا پانی کے نل واٹر ورکس سے منقطع ہو جائیں تو ان کا وجود بھی بے کار ہے ۔

                کائنات عالم کی ان مثالوں پر نظر کرکے جو قانون قدرت ذہن نشین ہوتا ہے ، نبوت اور رسالت بھی اس سے علیحدہ نہ ہونی چاہئے ؛بلکہ عالم کی تمام نبوتوں کا سلسلہ بھی کسی ایسی نبوت پر ختم ہونا چاہیے جو سب سے زیادہ اقوی واکمل ہو اور جس کے ذریعہ سے نبوتوں کی کثرت ایک وحدت پر منتہی ہو کر اپنے وجود کو قائم اور مفید بناسکے ،اور مسلم ہے کہ اس سیادت وفضیلت کی حقدار صرف حضرت خاتم الانبیا ء ہی ہو سکتے ہیں ،جن کی سیاست پر انبیا ء سابقین اور ان کی کتب سماوی اور پھر ان کی امتیں خود گواہ ہیں ،جن کی تصریحات ابھی آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں ۔

                اور یہی رمز ہے اس میثاق میں جو تمام انبیاء ورسل سے لیا گیا ہے کہ اگر وہ آپ ﷺ کا زمانہ پائیں تو آپ ﷺ پر ایمان لائیں ، اور آپ کی مدد کریں ،ارشاد ہے :

          ”لَتُوٴمِنُنَّ بِہ وَلَتَنْصُرُ نَّہ“ ”ضرور آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی مدد کریں “

                اور اس میثاق کی تصدیق اور سیادت کو ثابت کرنے کے لیے خداوند عالم نے دومرتبہ دنیوی حیات میں آپ ﷺ کو تمام انبیاء علیہم السلام کے ساتھ جمع فرمایا ،اور یہ سیادت اس طرح ظاہرفرمائی کہ آپ ﷺ تمام انبیاء علیہم السلام کے امام ہوئے ،جس کا مفصل واقعہٴ اسراء و معراج کے تحت میں تمام کتبِ حدیث میں صحیح ومعتبر روایات سے منقول ہے ، پھر آخر ِزمانہ میں انبیائے سابقین میں سے آخری نبی حضرت عیسی علیہم السلام کو آپ کی شریعت کا صریح طور پر متبع بنا کر بھیج دیا ؛تاکہ اس میثاق پر صاف طور سے عمل ہوجائیں ۔

قانون فطرت کی دوسری نظیر

                دنیا کی اکثر چیزوں پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو یہ دیکھا جاتاہے کہ ایک مقصد کے پورا کرنے کے لیے سینکڑوں اسباب وآلات کام میں آتے ہیں ،اور ایک زمانہٴ دراز ابتدائی مقدمات طے کرنے میں صرف ہوتا ہے ،سب سے آخر میں مقصود کی صورت نظر آتی ہے ،مثال کے لیے درختوں کو دیکھئے اور بیج بونے کے وقت تک تمام درمیانی مراحل پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ ان تمام کا دشوں کا اصلی مقصود یہ تھا جو آج سامنے آیا ہے؛ اسی طرح تمام کائنات کی پیدائش کا اصلی مقصد اور تمام نبوتوں کا خلاصہ آں حضرت ﷺ ہیں ،اور قانونِ فطر ت کے موافق آخر میں تشریف لائے ہیں ۔اسی مضمون کو سندی شیخی واستاذی حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند نے اس بلیغ شعر میں ادا فرمایا ہے :

اے ختم رسل امتِ تو خیر الامم بود

چوں ثمرہ کہ آبد آید ہمہ در فصل نضیری

تیسری نظیر

                اسی طرح شاہی درباروں پرنظر ڈالوں کہ ایک مدت پہلے سے اس کا انتظام کرنے کے لیے سیکڑوں بڑے چھوٹے حکام بر سرِ کار آتے ہیں، لیکن ان سب کا اصلی مقصد سلطانی دربار کے لیے راستہ ہموار کرنا ہوتا ہے ، اور اسی لیے جب دربار کا وقت آتا ہے اور بادشاہ تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوکر مقاصد دربار کی تکمیل کرتا ہے تواس کے بعد اور کسی کا انتظار باقی نہیں رہتا ، اور اسی پر دربار ختم ہوجاتا ہے ۔

                مسئلہ زیر بحث میں بھی اسی طرح سلطان الانبیاء ﷺ پر سلسلہ نبوت کا ختم ہوجانا بالکل قانون ِ فطرت اور مقتضائے عقل کے موفق ہے ۔

                اس قسم کی سیکڑوں نظریں ذرا تأمل سے ہر شخص نکال سکتا ہے ۔

                قرآن وحدیث اور اجماع امت اقوالِ صحابہ و تابعین اور پھر عقلی وجوہ کا جس قدر ذخیر ہ اب تک اس رسالہ میں جمع ہو چکا ہے ایک بصیر ت والی آنکھ اور سماعت والے کان کے لیے کفایت سے بہت زائد ہے ،او ر ازلی بدبخت کا کوئی علاج نہیں ۔

          اَرْجُو أن یَنْفَعنِی والمسلمینَ بہ وَھُو وَلِیُّ التوفیقِ وخیرُ الرفیق فی کل مضیق (ختم نبوت: ص۳۵۷ تا ۲۶۰)

شرائط نبوت

               (۱)      عقل کامل                     (۲)     حفظ کامل

                (۳)      علم کامل                         (۴)     عصمت کاملہ و مستمرہ

               (۵)      صداقت و امانت کاملہ      (۶)      عدیم توریث

                (۷)     زہد کامل                         (۸)     حسب و نسب اعلیٰ ہو

                (۹)      مرد ہو                           (۱۰)    اخلاق کاملہ

                تلک عشرة کاملہ۔ان شرائط کا کا نبی میں ہونا ضروری ہیں۔ اب آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، کو ن ان شرائط پر اترتا ہے، اور کون نہیں اترتا ۔ اور پھر خود ہی انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں کہ کون نبی تھا اور کون نبی نہیں ۔

                اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے، ہرقسم ضلالت گمراہی، شہوات و شبہات کے فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور کل قیامت کے دن خاتم الانبیاء و المرسلین احمد مصطفی محمد مجتبیٰ ﷺ کی شفاعت اور آپ کے مبارک ہاتھ سے جام کوثر نصیب فرمائے۔ اور اللہ ہمیشہ کے لیے ہم سے راضی ہو جائے۔ آمین یا رب العالمین!

$           $           $

———————————



No comments:

Post a Comment