Tuesday, 25 September 2012

وحیِ الہی، ضرورتِ وحی، حفاظتِ وحی اور کاتبینِ وحی


قرآن کی حفاظت کے لیےاللہ کا حیرت انگیز انتظام


 

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

”إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ“

(سورة الحجر: پ۱۴/۹)

ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ یہ پہلی وہ آسمانی کتاب ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا، گویا اس کی حفاظت کے لیے یہ وعدہ الٰہی ہے اور قرآن کا اعلان ہے:

”إِنَّّّ اللَّہَ لَاْ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ“

(سورة آل عمران:پ۳/۹)

اللہ کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔

بس اللہ نے اپنا یہ وعدہ سچ کر دکھایا۔ اور کتاب اللہ کی حفاظت کا حیرت انگیز انتظام کیا۔ اس طور پر کہ اس کے الفاظ بھی محفوظ، اس کے معانی بھی محفوظ، اس کا رسم الخط بھی محفوظ، اس کی عملی صورت بھی محفوظ، اس کی زبان بھی محفوظ، اس کا ماحول بھی محفوظ، جس عظیم ہستی پر اس کا نزول ہوا اس کی سیرت بھی محفوظ، اور اس کے اولین مخاطبین کی سیَرْ بھی یعنی زندگیاں بھی محفوظ۔

غرضیکہ اللہ رب ا لعزت نے اس کی حفاظت کے لیے جتنے اسباب و وسائل اور طریقے ہوسکتے تھے، سب اختیار کئے، اور یوں یہ مقدس اور پاکیزہ کتاب ہر لحاظ اور ہر جانب سے مکمل محفوظ ہوگئی۔ الحمدللہ آج چودہ سو انتیس سال گذرنے کے بعد بھی اس میں رتی برابر بھی تغیر و تبدل نہ ہوسکا، لاکھ کوششیں کی گئیں، مگر کوئی ایک کوشش بھی کامیاب اور کارگر ثابت نہ ہوسکی، اور نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔

کتاب الٰہی کی، کیسے حفاظت کی گئی؟

ڈاکٹر محمود احمد غازی اپنی کتاب محاضرات حدیث میں تحریر فرماتے ہیں ”کتاب الٰہی کے تحفظ کے لیے اللہ رب العزت نے دس چیزوں کو تحفظ دیا، یہ دس چیزیں وہ ہیں، جو قرآن پاک کے تحفظ کی خاطر محفوظ کی گئی ہیں“ ۔

وہ کون سی چیزیں ہیں، جو قرآن کے خاطر محفوظ کی گئیں؟

قرآن کی حفاظت کی خاطر نو چیزیں محفوظ کی گئیں:

(۱) قرآن کی کا متن یعنی اس کے بعینہ وہ الفاظ جو اللہ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ سے یا وحی کے کسی اور طریق سے نبی آخرالزماں صلى الله عليه وسلم پر نازل کئے، آپ صلى الله عليه وسلم پر جب وحی نازل ہوتی، تو آپ فوراً کاتبین وحی میں سے کسی سے کتابت کروالے لیتے، پھر صحابہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زبانِ اقدس سے بھی اُسے سنتے، اور جو تحریر کیا ہوا ہوتا، اُسے بھی محفوظ کرلیتے، اس طرح ۲۳/سال تک قرآن، نزول کے وقت ہی لکھا جاتا رہا، صحابہ نے اسے حفظ بھی یاد کیا، کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس کے حفظ کی بڑی فضیلتیں بیان کی ۔ ایک روایت کے مطابق صحابہ میں سب سے پہلے حفظِ قرآن مکمل کرنے والے حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔

دورِ نبوی صلى الله عليه وسلم کے بعد دورِ ابی بکر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ، اور دیگر صحابہ کے کے مشورے سے اس کی تدوین عمل میں آئی، یعنی اس کو یکجا کر لیا گیا اور دورِ عثمانی میں اس کی تنسیخ‘ عمل میں آئی، یعنی اس کے مختلف نسخے بناکر کوفہ، بصرہ، شام، مکہ وغیرہ جہاں جہاں مسلمان آباد تھے بھیج دیے گئے، یہ تو تحریری صورت میں حفاظت کا انتظام ہوا، ا س کے علاوہ اس کو لفظ بلفظ یاد کرنے کا التزام کیا گیا، وہ الگ۔ اس طرح قرآن سینہ و سفینہ دونوں میں مکمل لفظاً محفوظ ہوگیا، اور یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ آج بھی جاری ہے، قیامت تک جاری رہے گا، انشاء اللہ، اللہم اجعل القرآن ربیع قلوبنا و جلاء اعیننا.

(۲) جہاں اللہ رب العزت نے اس کے متن کی حفاظت کی، وہیں اس کے معنی و مفہوم اور مراد کی حفاظت کا بھی انتظام کیا، اس لیے کہ صرف الفاظ کا محفوظ ہونا کافی نہیں تھا، کیوں کہ مراد اور معنی اگر محفوظ نہ ہو، تو ا س کی تحریف یقینی ہوجاتی ہے، کتب سابقہ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا، کیوں کہ اس کے الفاظ اگرچہ کچھ نہ کچھ محفوظ رہے، مگر اس کے معانی و مفہوم تو بالکل محفوظ نہ رہے، اس لیے کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے اقوال و افعال و اعمال کو محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہ کیا، جس کے نتیجہ میں الفاظ محفوظہ بھی کارگر ثابت نہ ہوسکے، مثلاً عیسائی مذہب ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دو اصولوں کی تعلیم دی گئی، اور ہم اس کے علمبردار ہیں: نمبر ایک عدل و انصاف۔ نمبردو محبت و الفت۔ مگر اگر آپ، ان سے دریافت کریں کہ عدل و انصاف کس کو کہتے ہیں، تو وہ اس کا مفہوم نہیں بیان کرسکتے۔ یہی حال محبت کا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عدل اور محبت کی پرواہ کیے بغیر لاکھوں نہیں، کروڑوں انسانوں کو عیسائیت کے فروغ کی خاطر قتل کر دیا گیا، اور یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں۔ اسی طرح یہودیت کی اصل بنیاد اس اصول پر ہے،کہ تم اپنے پڑوسی کے لیے وہی پسند کرو،جو اپنے لیے پسند کرو۔ لیکن اگر آپ یہود کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا،کہ انہوں نے اپنے پڑوسیوں کو جتنا ستایا، اتنا دنیا میں کسی نے اپنے پڑوسیوں کو نہیں ستایا ہوگا، اور اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے، جو اسرائیل کی جارحیت سے عیاں ہے، مگر اسلام، الحمد للہ سنت نبوی کے پورے اہتمام کے ساتھ محفوظ رہنے کی وجہ سے، قرآن کی تعلیمات پر مکمل طور پر محفوظ چلا آرہا ہے۔ اس طرح اللہ نے سنتِ رسول جس کو احادیث رسول صلى الله عليه وسلم بھی کہا جاتا ہے، کے ذریعہ معانی و مفاہیم اور مراد الٰہی کو محفوظ رکھنے کا انتظام کیا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قرآن کی جو تفسیر کی، جسے ”تفسیر بالمأثور“کہا جاتا ہے، جس پر امام سیوطی، امام ابن کثیر وغیرہ، بے شمار علماء نے تفسیر یں لکھیں، اور ہر آیت کی تفسیر، حدیث رسول سے کرکے دکھائی، وہ درحقیت اللہ ہی کی جانب سے ہے، کیوں کہ قرآن نے اعلان کیا ہے ”ان علینا بیانہ“ ( سورة القیٰمة: پ۲۹/۱۹)یعنی اس قرآن کی تفسیر بھی ہم نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ا یک جگہ پر”جمعہ وقرآنہ“ ہے، ایک جگہ ارشاد ہے ”وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحی“ آپ صلى الله عليه وسلم کوئی بات اپنے جی سے نہیں کرتے، بلکہ وحی خدا وندی ہی ہوتی ہے ۔ اسی کو کسی فارسی شاعر نے کہا:

گفتہٴ او گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

اس پوری گفتگو سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ”تفسیر بالمأثور“ درحقیقت اللہ ہی کی، کی ہوئی تفسیر ہے، اور ظاہر ہے اللہ ہی اپنی مراد کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ لہٰذا حدیث کی حفاظت سے معانی و مراد خداوندی بھی محفوظ ہوگئے؛ اللہ ہمیں کتاب اللہ اور سنت رسول پر مرمٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

(۳) قرآن کے الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ، وہ جس زبان میں نازل ہوا،وہ زبان یعنی عربی زبان بھی محفوظ۔ اس کے لیے بھی اللہ نے عجیب انتظام کیا، اس طور پر کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا ”احبوا العرب لثلاث انی عربی، ولسان أہل الجنة عربی، والقرآن عربی“ قرآن نے خود اعلان کیا ”بلسان عربی مبین“ ( سورة الشعراء: پ۱۹/۱۵۹)ہم نے قرآن کو صاف ستھری عر بی زبان میں نازل کیا۔اگر آپ لسانیات کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا دنیا کی کوئی زبان تین چار سو سال سے زیادہ محفوظ نہ رہ سکی، یا تو وہ ختم ہوگئی یا کسی دوسری زبان میں ضم ہوگئی، یا ایسے تغیر و تبدل کی شکار ہوگئی کہ اس کی پہلی ہیئت باقی نہ رہ سکی، مگر عربی زبان مسلمانوں کی توجہ و عنایت کا ایسا شہکار ہے، جو بیان سے باہر ہے؛ اولاً خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے صحابہ  كرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کی تربیت میں عربی زبان کی نوک و پلک کی درستگی کو خوب اہمیت دی، آپ صلى الله عليه وسلم کے بعد حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے بھی، اپنی توجہ کو اس پر مبذول کیا، جیسا کہ حضرت ابوبکررضي الله تعالى عنه، حضرت عمررضي الله تعالى عنه اور دیگر صحابہ كرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ، یہاں تک کہ حضر ت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ تعالی عنہ نے تو نحو عربی و صرف عربی کی بنیاد ڈال کر، اسے خاص توجہ کا مرکز بنایا، اور پھر آپ کے بعد اُمت کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا، جس نے اپنی زندگیاں اسی زبان کی حفاظت و ترویج میں وقف کردی، ابوالاسود الدُویلی ،امام سیبویہ، اما م خلیل فراہیدی، امام کسائی، امام فراء، امام مبرد، امام اخفش، امام یعصم، امام تغلب، امام ثعلب، امام یشکر، امام ابن حاجب، امام ابن ہشام، امام ابن عقیل، امام ابن جنی، امام نفطویہ، امام زازویہ، امام خالویہ، امام راہویہ وغیرہ نے اپنی پوری زندگیاں صرف و نحو ، علمِ بیان وغیرہ کی حفاظت کے لیے وقف کردیں، جس کی برکت سے آج بھی عربی زبان اسی اصل ہیئت پر باقی ہے، جس ہیئت پر وہ نزول قرآن کے وقت تھی، اور قیامت کے وقوع سے پہلے پہلے تک جب تک اس قرآن کو باقی رکھنے کی اللہ کی مشیت ہوگی، امت کی ایک جماعت اس کارِخیر میں مشغول رہے گی، انشاء اللہ۔

(۴) صرف الفاظ و معانی اور قرآنی زبان ہی کی حفاظت پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بل کہ اس کے الفاظ و معانی کی عملی صورت کی حفاظت کا بھی پورے پورے انتظام کیا گیا، اس طور پر کہ قرآن جس لفظ میں نازل ہوتا، نبی کریم صلى الله عليه وسلم اس کی مراد و حی کی روشنی میں صحابہ کو سمجھاتے، اور سمجھانے کے بعد اسکو عملاً بطور نمونہ، کرکے بھی بتلاتے تھے، جسکو آج کی زبان میں تھیوری (Theory)کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل (Practical)کا بھی اہتمام کیا جاتا، مثلاً نماز، قرآن نے صرف یہ الفاظ کہے ”اقیموا الصلوة“ (سورة البقرة: ۱/۴۳) نماز قائم کرو، مگر پورے قرآن میں کہیں اس کی پوری تفصیل بالترتیب نہیں بتائی گئی، ہاں کہیں قیام، کہیں رکوع، کہیں سجود کو متفرق طور پر بیان کیا گیا، جب کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس کا طریقہ بالترتیب صحابہ کو بتایا، اور پھر اس کو عملی طور پر کرکے دکھایا اور کہا ”صلوا کما رأیتمونی اصلی“ نماز ایسی ہی پڑھو جیسی مجھ کو پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ صحابہ نے ایسا ہی کیا، پھر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد صحابہ نے بھی بدستور اس پر عمل جاری رکھا، اور تابعین بھی انہیں جیسا کرتے رہے ، گویا انہوں نے بھی ہوبہو ایسا ہی کیا، اس کے بعد تبعِ تابعین، اس طرح آج تک نسلاً بعد نسلٍ اور قرناً بعد قرنِ امت کا اس پر تعامل، اس طرح عملی صورت بھی محفوظ ہوگئی، یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ صلوہ العید، صلوة الجنازة، زکوٰة، صدقہ، قربانی، تلاوت قرآن وغیرہ سب کی عملی صورت آج تک امت کے ذریعہ اللہ رب العزت نے محفوظ رکھی، اسی لیے جب کوئی قرآن کی تفسیر و تشریح میں من مانی کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اُمت میں اس کو تلقی بالقبول (مقبولیت) حاصل نہیں ہوتا، البتہ کچھ افراد جو مفادپرست ہو یا ان کی اسلامی تربیت نہ ہوئی ہو، یا ضروری علم دین سے واقف نہ ہو، اس کے تابع ہو جاتے ہیں، اور ایسا تو دنیا میں ہوتا ہی ہے، عربی میں محاورہ مشہور ہے ”لکل ساقطة لاقطة“ ہرگری پڑی چیز کا کوئی نہ کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے۔

 خلاصہٴ کلام یہ کہ قرآن کے مفاہیم و مرادوں کو بھی اللہ رب العزت نے تعامل کے ذریعہ محفوظ رکھا، یقینا دنیا کی کوئی طاقت اللہ کی مشیت کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ واللہ غالب علی امرہ و لکن اکثر الناس لایعلمون(سورة یوسف:۱۲/۲۱)۔

(۵) میرے عزیزو! قربان جائیے اس رب کائنات پر ،جس نے اپنی کتاب کی حفاظت کے لیے ایسے ایسے انتظام کیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، اور انسان اس کی کرشمہ سازیوں پر سر دھندتا رہ جاتا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جس ماحول میں قرآن کا نزول ہوا، جس سیاق و سباق میں آیتیں نازل ہوئی، اس ماحول کو بھی تحفظ اور دوام بخشا گیا، حدیث کے ذخیرے نے وہ پورا ماحول اس کی منظر کشی اور نقشہ کشی ہمارے سامنے رکھ دی، جب طالب حدیث اس کو پڑھتا ہے، تو اس کے سامنے چشم تصور میں وہ سارا منظر متشکل ہو کر آجاتا ہے، جس منظر میں قرآن کریم نازل ہوا، جس پس منظر اور پیش منظر میں، قرآن مقدس کے احکام و ہدایات پر صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے، صاحبِ وحی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حاضری اور موجودگی میں عمل درآمد شروع کیا، جس کو علم حدیث میں ”حدیثِ مسلسل“ کہا جاتا ہے، اس کی صورت یہ ہوئی کہ راوی نے، حدیث کو جب نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے سنا، یا دیکھا، تو اس وقت جو کیفیت تھی، راوی جس سے روایت بیان کرتا ہے، اس کے سامنے وہی انداز و اسلوب اختیار کرتا ہے، جس انداز سے اس نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے اس حدیث کو اخذ کیا ہو، اور وہ پوری کیفیت بعینہ کرکے دکھاتا ہے، جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے صادر ہوئی ہو، مثلاً ”حدیث مسلسل بالتشبیک“ اس کاو اقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو گناہ اور توبہ کے وقت ایمان کی کیفیت کو بیان کیا، کہ اگر بندہ گناہ کرتا ہے، تو ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے، اور جب توبہ کرتا ہے تو وہ دوبارہ دل میں داخل ہو جاتا ہے، اور آپ نے اپنی انگلیوں کو پروکر علیحدہ کیا اور کہا ایمان گناہ کے وقت اس طرح نکل جاتا ہے، ا ور جب توبہ کرے تو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر پروکر (جس کو تشبیک الاصابع کہتے ہیں) بتایا، پھر اس صحابی نے بھی اس روایت کو بیان کرکے، اسی طرح کرکے بتایا، اس طرح یہ سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے بظاہر ایسا کرنے سے کوئی فائدہ سمجھ میں نہیں آتا، اگر نہ بھی کیا جاتا تو بات سمجھ میں آجائی گی، مگر اس کا ایک اضافی فائدہ یہ ہوتا ہے، کہ نفسیاتی اور جذباتی طور پر انسان اس ماحول میں چلا جاتا ہے، جس ماحول میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اس بات کو بیان فرمارہے تھے، مسجد نبوی میں یا جس مقام پر حضور اقدس صلى الله عليه وسلم اس کو بیان فرمارہے تھے، تو روحانی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں وہاں موجود ہوں، اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اس عمل کو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین اور حدیث کے اساتذہ اور طلبہ کے ذریعے دیکھتا چلا آرہا ہوں، بالکل اسی طرح کی کیفیت ”اسباب نزول آیات“ کے بولتے اور سنتے وقت ہوتی ہے۔

سبب نزول کہتے ہیں، حدیث میں وارد، اُن واقعات کو جوکسی آیت کے نزول کے وقت پیش آیا ہو، اس سے قرآن فہمی میں بڑی مدد ملتی ہے، کیوں کہ جب آیت کا سبب نزول معلوم ہو جائے، تو اس پرمرتب احکام کا درجہ بھی معلوم ہو جاتا ہے، اگرچہ یہ ضروری بھی نہیں قرار کیا گیا، کہ ہر آیت کا سبب نزول ہو، مستقلاً علماء نے اس پر تصانیف چھوڑی، مثلاً امام جلال الدین سیوطی، امام واحدی وغیرہ نے۔

(۶) قرآن کریم کی حفاظت کی غرض سے جہاں بہت ساری چیزوں کو تحفظ بخشا گیا، وہیں سیرت نبوی یعنی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زندگی کے حالات کو بھی محفوظ کیا۔ کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قرآنی مطالبات پر عمل کرکے بتایا تاکہ کل آکر کوئی ایسا نہ کہے ہم قرآنی مطالبات پر عمل نہیں کرسکتے، یہ تو بڑے شاق اور دشوار گذار ہیں، تو بطور نمونہ کے آپ نے عمل کرکے بتلایا اور عمل بھی ایسا، جیسا اس پر عمل کرنے کا حق ہے، اسی لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالى عنه سے، حضور اقدس صلى الله عليه وسلم کے اخلاق کے بارے میں جب دریافت کیا گیا، تو آپ رضي الله تعالى عنها نے کہا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ کہاں ہاں۔ تو آپ نے فرمایا ”کان خلقہ القرآن“ آپ قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ جہاں کوئی امر نازل ہوا، فوراً عمل کرکے بتایا، اسی لیے قرآن نے اعلان کر دیا ”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة“ (سورة الاحزاب:پ۲۱،آیت۲۱)آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی، اے مسلمانو! تمہارے لیے نمونہ ہے، دنیا میں کسی ہستی کی سیرت و حیات پر اتنا کام نہیں ہوا جتنا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حیات مبارکہ پر ہوا، اور ہوتا چلا جارہا ہے، آج بھی اس کی افادیت میں کوئی کمی محسوس نہیں ہورہی ہے، بل کہ مزید اس کی افادیت میں اضافہ ہو رہا ہے، اللہم اجعلنا ممن یتبع الرسول و یطیعہ.

(۷) نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ذات اقدس کو اللہ رب العزت نے اپنی آخری کتاب قرآن کے نزول کے لیے منتخب کیا اور آپ کے لیے آخری دین، دین اسلام کو تجویز کیا، قرآن کی حقانیت کوباقی رکھنے کے لیے اس کے تقدس و علو مرتبت کو ثابت کرنے کے لیے صاحب قرآن کی عظمت اور تقدس کو باقی رکھنا بھی امرِ ناگزیر تھا، اللہ رب العزت نے اس کے لیے جو حیرت انگیز اور تعجب خیز انتظام فرمایا، اسی میں سے ایک یہ کہ آپ کے نسب مبارک کو بھی مکمل محفوظ کیا گیا، عرب جو امی ، اَن پڑھ تھے، مگر اس کے باوجود اقوام عالم میں ان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنے انساب کے یاد رکھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے یہی اہتمام بعد میں چل کر ایک فن کی حیثیت اختیار کر گیا، اور اس پر کتابیں بھی لکھی گئیں، مثلاً الانساب للامام السمعانی وغیرہ، علم الانساب کہتے ہیں اس ریکارڈ کو جس میں یہ محفوظ کیا جائے کہ کون سا قبیلہ کہاں سے وجود میں آیا، کس قبیلے کے کس آدمی کا باپ کون اس کا دادا کون، اسی طرح اوپر تک اس کی شادی کہاں ہوئی، اس کی اولاد کتنی تھی، عربی قبائل میں کس قبیلے کی کس قبیلے کے ساتھ رشتہ داری تھی وغیرہ۔

اب کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ عربوں کو ان موضوعات سے دلچسپی رہی ہوگی، یا انہیں اس طرح کی معلومات کے جمع کرنے کا شوق رہا ہوگا، لیکن بات اتنی کہنے سے نہیں ٹلتی، ڈاکٹر محمود احمد غازی ایک حیرت انگیز بات کا انکشاف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ” جب ہم انساب کی کتابوں کا جائزہ لیتے ہیں، اور ان کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ایک عجیب و غریب بات سامنے آتی ہے، بہت عجیب وغریب، اتنی عجیب و غریب، کہ اس کو محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا، وہ عجیب و غریب بات یہ سامنے آتی ہے کہ جتنی معلومات محفوظ ہوئیں، وہ مرکوز ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی شخصیت پر حالاں کہ جس وقت انساب کی حفاظت کا کام شروع ہوا، اس وقت تو حضور صلى الله عليه وسلم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے“۔ مگر اللہ کو منظور تھا کہ آپ کا نسب مکمل محفوظ اور منسلک رہے تاکہ آپ کے آباء و اجداد کی علو شان، ان کی پاکبازی سے آپ کی خاندانی شرافت اور کرامت کا ثبوت فراہم ہو، اور یوں صاحب قرآن کی شان بھی قرآن کے شایان شان ہونے کا ثبوت مہیا ہو جائے، اور کسی بھی ذی ہوش و خرد مند کے لیے آپ کی تکذیب کا سوال باقی نہ رہے، اور آپ کی تصدیق دل و جان سے قبول کرلے، ہاں مگر یہ کہ اس میں حسد و عناد، شرکشی و شرارت ہو، اس طرح قرآن کی حفاظت اس کے وقار اور اس کی حقانیت کے ثبوت کے لیے اللہ رب العزت نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے نسب مبارک کو محفوظ کرلیا، واللّٰہ علی کل شئ قدیر. (سورة البقرة:پ۱،آیت۱۰۶) واللّٰہ غالب علی امرہ و لکن اکثر الناس لایعلمون.(سورة یوسف:پ۱۲،آیت۲۱)

(۸) قرآن کے نزول کے وقت اس کے اولین مخاطب اور اس کے اولین حاملین حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جو براہِ راست مخاطب تھے، قرآن کی حفاظت کے لیے اللہ نے ایک انتظام اور بندوبست یہ بھی کیا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کے حالات کو محفوظ کروالیا، ایک اندازے کے مطابق صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی، مگر ان میں سے اکثریت آخری دور میں قبولیت اسلام سے شرف یاب ہوئی، اس اولین حاملین، جنہیں قدیم الاسلام یا اولین موٴمنین کہا جاتا ہے، ان کی تعداد کم و بیش پندرہ بیس ہزار رہی ہوگی، اور جن صحابہ نے آپ سے زیادہ کسبِ فیض کیا، ان کے حالات کو بھی اللہ نے محفوظ کرلیا، تاکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ ساتھ ان کے حالات کا علم ہو جائے اور انہوں نے ایمانی تقاضوں اور اسلامی مطالبات کو، جس حسن و خوبی کے ساتھ عملی جامہ پہنایا، اس کی معرفت بھی حاصل ہو جائے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے، محمد عربی صلى الله عليه وسلم تو رسول تھے، ان کے ساتھ اللہ کی خاص عنایت و رحمت تھی، انہوں نے اگر عمل کیا، یہ ان کی امتیازی شان تھی، مگر جب صحابہ کی زندگیاں بھی اسی نقش قدم پر پائی، تو معلوم ہو جاتا کہ ایسا نہیں اگر انسان ارادہ کرلے، تو مکمل ایمانی تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے، جیسا کہ صحابہ نے پورا کیا، اسی لیے قرآن نے کہا ”امنوا کما آمن الناس“ ایمان لاوٴ صحابہ جیسا ایمان لائے۔ اس میں الناس پرالف لام عہدِ خارجی کا ہے، یعنی حضرات صحابہ۔

صحابہ کے حالات میں ایک عجیب پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ جو صحابہ نبی کریم صلى الله عليه وسلمسے جتنا قریب تھے، ان کے حالات اتنے ہی زیادہ تفصیل کے ساتھ ملتے ہیں، صحابہ کے حالات کی حفاظت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ صاحب قرآن کے اصحاب و احباب کا جب علم ہو تو اس سے آپ کے محبِ خیر بل کہ سراپا خیر ہونے کا اندازہ ہو، کیوں کہ آدمی اپنے دوستوں سے جانا جاتا ہے، حدیث شریف میں ”فانظر الی من یخالل“ کہ جب تم کسی کے بارے میں جاننا چاہو تو دیکھو کہ وہ کیسے لوگوں کے ساتھ رہتا ہے، تو اس سے معلوم ہو جائے گا کہ یہ کیسا ہے، انسانی تاریخ میں حضرات انبیاء کرام کے بعد اگر کوئی مقدس اور بہترین گروہ ہے تو وہ گروہِ صحابہ ہے، لہٰذا قرآن اور صاحب قرآن کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ قرآن پر اجتماعی عمل کیسے ہو؟ سنت اور قرآن کی اجتماعی تشکیل کس طرح ہوں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں امت نے کیسے جنم لیا؟ اور ان سوالات کے جوابات مکمل نہیں ہو سکتے تھے، مگر صحابہ کے احوال کے جانے بغیر، لہٰذا اللہ نے انتظام کیا، اور اولین حاملین قرآن اور اولین عاملین میں سے تقریباً پندرہ ہزار نفوس قدسیہ کے حالات نام بہ نام نسل بہ نسل دستیاب ہیں، اور الحمد للہ امت تب سے لے کر اب تک اور قیامت تک ان کے نقوش و خطوط سے استفادہ کرتی رہے گی، اور قرآن پر عمل کرنے کے لیے اسے معاون سمجھتی رہے گی، و اللہ لطیف بالعباد۔

(۹) اب جب صحابہ جو قرآن کے الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ اس پر انفرادی و اجتماعی طور پر عمل کرنے والے اور دنیا کو یہ بتانے والے ٹھہرے کہ قرآن قابل عمل ہی نہیں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے، تو ان کے حالات کے جاننے کے لیے، ان کے اصحاب جن کو تابعین کہا جاتا ہے، کے حالات کا قلمبند ہونا بھی ضروری تھا، تاکہ صحابہ کے حالات ہم تک یعنی ان کے بعد والوں تک صحیح طور پر پہنچے، تو اس کے لیے، ان تابعین وتبعِ تابعین کے احوال کا تحفظ بھی ضروری تھا، کرشمہٴ الٰہی دیکھئے کہ ایسے چھ لاکھ افراد کے بارے میں پورا بایوڈاٹا یعنی مکمل معلومات کو بھی اللہ نے تحفظ بخشا اور وہ بھی سرسری نہیں بلکہ ان کی پوری تفصیلات کے ساتھ، کہ یہ کون تھے؟ کس زمانہ میں پیدا ہوئے؟ ان کی شخصیت کس درجہ کی تھی؟ ان کا علم وفضل کس درجہ کا تھا؟ انہوں نے کس کس سے کسبِ فیض کیا؟ ان کا حافظہ کیسا تھا؟ ان میں کیا اچھائیاں تھیں وغیرہ۔ غرضیکہ اس طور پر منقی و مصفی کرکے سامنے رکھ دیا گیا ہے، کہ آدمی ان کی شخصیت سے اطمینان بخش حد تک معلومات حاصل کرلے۔ اس کو فن ”اسماء رجال“ سے تعبیر کیا گیا۔ اور ڈاکٹر محمود احمد غازی فرماتے ہیں کہ یہ ایسا فن ہے کہ اس کی مثال دنیا کے کسی مذہبی و غیر مذہبی فن میں نہیں ملتی، نہ مذہبی علوم میں اس کی مثال اور نہ غیر مذہبی علوم میں۔

خلاصہٴ کلام یہ کہ وہ چیزیں ہیں، جس کو قرآن کی حفاظت کی خاطر اللہ رب العزت نے حیرت انگیز انداز میں تحفظ بخشا، اوراپنے کامل قدرت کا مظاہرہ کیا، اللہ ہمیں قرآن کی قدردانی کی توفیق عطافرمائے اور ہمارے ظاہر وباطن کو قرآن کے منشاء کے مطابق بنادے۔ آمین یا رب العالمین!

_______________________







ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور اس کے ذمے کچھ فرائض عائد کرکے پوری کائنات کو اس کی خدمت میں لگادیا ہے لہٰذا دنیا میں آنے کے بعد انسان کے لیے دوکام ناگزیر ہیں،ایک یہ کہ اس کائنات سے اور اس میں پیدا کی ہوئی اشیاء سے ٹھیک ٹھیک کام لے اور دوسرے یہ کہ اس کائنات کو استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالی کے احکام کو مد نظر رکھے اور کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف ہو۔
ان دونوں کاموں کے لیے انسان کو علم کی ضرورت ہے ،اس لیے کہ جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کونسی چیز کے کیا خواص ہیں ؟ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ؟اس وقت تک وہ دنیا کی کونسی بھی چیز اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کرسکتا نیز اسے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اللہ تعالی کی مرضی کیا ہے ؟وہ کونسے کاموں کو پسند اور کن کاموں کو ناپسند فرماتا ہے ؟اس وقت تک اس کے لیے اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ۔
چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی پیدا کی ہیں جن کے ذریعے اسے  مذکورہ بالا باتوں کا علم حاصل ہوتا رہے،  ایک انسان کے حواس یعنی آنکھ ،کان،منہ اور ہاتھ پاؤں دوسرے عقل اور تیسرے وحی،چنانچہ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہوجاتی ہیں،  بہت سی عقل کے ذریعے اور جوباتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہوسکتیں ان کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے۔
جہاں تک حواس خمسہ کام دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی اورجہاں تک حواس خمسہ جواب دے دیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے ،لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے یہ بھی ایک حد تک جاکر رک جاتی ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے ہوسکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے، کسی چیز کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس کو کس طرح استعمال کرنے سے اللہ تعالی راضی ہوتے ہیں اور کس طرح استعمال کرنے سے ناراض ہوتے ہیں ،اس علم کا جو ذریعہ اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے وہ "وحی" ہے اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرماکر اسے پیغمبر قرار دیتے ہیں اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتے ہیں اسی کلام کو وحی کہا جاتا ہے ۔
صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں ؛بلکہ اس کی ہدایت کے لیے وحی ایک ناگزیر ضرورت ہے اور چونکہ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اس جگہ آتی ہے جہاں عقل کام نہیں دیتی اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وحی کی ہربات کا ادراک عقل سے ہی ہو جائے بلکہ جس طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا کام نہیں بلکہ حواس کا کام ہے اسی طرح بہت سے دینی عقائد کا علم عطا کرنا بھی عقل کے بجائے وحی کا منصب ہے اور ان کے ادراک کے لیے نری عقل پر بھروسہ کرنا درست نہیں؛ اگر اللہ تعالی کی حکمت بالغہ پر ایمان ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے کوئی باقائدہ نظام ضرور بنایا ہے بس رہنمائی کے اسی باقاعدہ نظام کا نام وحی اور رسالت ہے ،اس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ وحی محض ایک دینی اعتقاد ہی نہیں بلکہ ایک عقلی ضرورت ہے جس کا انکار در حقیقت اللہ تعالی کی حکمت بالغہ کا انکار ہے ، یہ وحی اللہ تعالی نے ان ہزاروں پیغمبروں پر نازل فرمائی جنھوں نے اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کی ہدایت کا سامان کیا؛ یہاں تک کہ حضور اقدس محمد مصطفی ﷺ  پر اس مقدس سلسلے کی تکمیل ہوگئی۔



وحي کی اصطلاحی معنی:
الوحي ما يوحي الله إلى نبي من الأنبياء

ترجمہ :
جو اشارہ کرے الله نبی کی طرف اپنے انبیاء میں سے، اسے وحی کہتے ہیں.

كلام الله المنزل على نبي من الانبياء





القرآن:
وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (١٩٢) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (١٩٣) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (١٩٤) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (١٩٥) وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ (١٩٦) 
ترجمہ:
اور یہ قرآن ہے اتارا ہوا پروردگار عالم کا. لیکر اترا ہے اسکو فرشتہ معتبر. کھلی عربی زبان میں. اور یہ لکھا ہے پہلوں کی کتابوں میں۔
[سورۃ الشعراء : 192-196]



وحی متلو اور غیر متلو:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی وہ دو قسم کی تھی ،ایک تو قرآن کریم کی آیات جن کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ کی طرف سے تھے اور جو قرآن کریم میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردی گئیں کہ ان کا ایک نقطہ اور شوشہ بھی نہ بدلا جاسکا ہے اور نہ بدلا جاسکتا ہے، اس وحی کو علماء کی اصطلاح میں "وحی متلو" کہا جاتا ہے یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے ،دوسری قسم اس وحی کی ہے جو قرآن کریم کا جز نہیں بنی؛ لیکن اس کے ذریعہ آپ کو بہت سے احکام عطا فرمائے گئے ہیں اس وحی کو"وحی غیر متلو" کہتے ہیں یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ،عموماً وحی متلو یعنی قرآن کریم میں اسلام  کے اصول عقائد اور بنیادی تعلیمات کی تشریح پر اکتفا، کیا گیا ہے ان تعلیمات کی تفصیل اور جزوی مسائل زیادہ تر وحی غیر متلو کے ذریعے عطا فرمائے گئے یہ وحی غیر متلو صحیح احادیث کی شکل میں موجود ہے اور اس میں عموماً  صرف مضامین وحی کے ذریعے آپ پر نازل کئے گئے ہیں ان مضامین کو تعبیر کرنے کے لیے الفاظ کا انتخاب آپ نے خود فرمایا ہے۔
ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"۔

(مسند احمد، حدیث مقدام بن معدی کرب، حدیث نمبر:۱۶۵۴۶)

 

"مجھے قرآن بھی دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس جیسی تعلیمات بھی "اس میں قرآن کریم سے مراد وحی متلو ہے اور دوسری تعلیمات سے مراد وحی غیر متلو ہے۔





وحی اور کشف:


وحی صرف انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے اور کسی بھی غیر نبی کو خواہ وہ تقدس اور ولایت کے کتنے بلند مقام پر ہو وحی نہیں آسکتی،البتہ بعض اوقات اللہ تعالی اپنے بعض خاص بندوں کو کچھ باتیں بتادیتا ہے اسے کشف یا الہام کہا جاتا ہے ،کشف اور الہام میں حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے یہ فرق بیان فرمایا ہے کہ کشف کا تعلق حسّیات سے ہے یعنی اس میں کو ئی چیز یا واقعہ آنکھوں سے نظر آجاتا ہے اور الہام کا تعلق وجدانیات سے ہے یعنی اس میں کوئی چیز نظر نہیں آتی صرف دل میں کوئی بات ڈال دی جاتی ہے اسی لیے عموماً الہام کشف کی بہ نسبت صحیح ہوتا ہے ۔

(فیض الباری: ۱/۱۹)



نزول وحی کے طریقے:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی،صحیح بخاری کی ایک حدیث میں مروی ہے

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَاأَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا۔

(بخاری،باب بدءالوحی، حدیث نمبر:۲)

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کے ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے آنحضرت سے پوچھا کے آپ پر وحی کس طرح آتی ہے ؟تو آنحضرت نے فرمایا کہ کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے تو جوکچھ اس آواز نے کہا ہوتا ہے مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے او رکبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آجاتا ہے،پھر مجھ سے بات کرتا ہے،جو کچھ وہ کہتا ہے میں اس کو یاد کرلیتاہوں حضرت عایشہؓ فرماتی ہیں :میں نے سخت سردی کے دن میں آپ پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے (ایسی سردی میں بھی)جب وحی کاسلسلہ ختم ہوجاتا تو آپ کی پیشانی مبارک پسینہ سے شرابور ہوچکی ہوتی تھی۔

 

ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ کا سانس رکنے لگتا چہرۂ انورمتغیرہوکر کھجور کی شاخ کی طرح زرد پڑجاتا،سامنے کے دانت سردی سے کپکپانے لگتے اور آپ کو اتنا پسینہ آتا کہ اس کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے۔

(الطبقات الکبری لابن سعد:۸/۳۷۹)

وحی کی اس کیفیت میں بعض اوقات اتنی شدت پیدا ہوجاتی کہ:

إِنْ كَانَ لَيُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ عَلَى نَاقَته فَيَضْرِب حِزَامهَا مِنْ ثِقَل مَا يُوحَى إِلَيْه۔

(فتح الباری: ۱/۳)

 

اگر وحی اس حالت میں آتی کہ آپ اپنی اونٹی پر سوار ہوتے تو وحی کے بوجھ سے اونٹنی بیٹھ جاتی۔

بعض اوقات اس وحی کی ہلکی ہلکی آواز دوسروں کو بھی محسوس ہوتی تھی ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ کے چہرۂ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی۔

(بیہقی، ابواب کیفیۃ نزول الوحی، حدیث نمبر:۲۹۸۳)

وحی کی دوسری صورت یہ تھی کہ فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ کے پاس آکراللہ تعالی کا پیغام پہنچادیتا تھا ،ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔

(مصنف بن ابی شیبہ، ماذکر فی عائشۃ رضی اللہ عنہ، حدیث نمبر:۳۲۹۴۵)

وحی کی تیسری صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسانی شکل اختیار کیے بغیر اپنی اصل صورت میں دکھائی دیتے تھے ،لیکن ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام عمر میں صرف تین مرتبہ ہوا ہے ،ایک مرتبہ اس وقت جب آپ نے خود حضرت جبرئیل علیہ اسلام کو ان کی اصلی شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی ،دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری بار نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں مکہ مکرمہ کے مقام اَجیاد پر،پہلے دو واقعات تو صحیح سند سے ثابت ہیں،البتہ یہ آخری واقعہ سنداً کمزور ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے۔

(فتح الباری۱/۱۸،۱۹)

وحی کی چوتھی صورت یہ تھی کہ آپ کو نزول قرآن سے قبل سچے خواب نظر آیا کرتے تھےجو کچھ خواب میں دیکھتے بیداری میں ویسا ہی ہوجاتا،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ:

أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَايَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْح۔ 

(بخاری،حدیث نمبر:۳/باب بدءالوحی)

 

آپ پر وحی کی ابتداء  نیند کی حالت میں سچے خوابوں سے ہوئی اس وقت جو آپ خواب میں دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سچا نکلتا۔

وحی کی پانچویں صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی صورت میں سامنے آئے بغیر آپ کے قلب مبارک میں کوئی بات القاء فرمادیتے تھے اسے اصطلاح میں "نفث فی الروع" کہتے ہیں:جیسے حدیث پاک میں ہے:

وَإِنَّ الرُّوْحَ الْأَمِيْنَ قَدْ نَفَثَ فِيْ رَوْعِيْ أَنَّهُ لَنْ تَمُوْتَ نَفْسٌ حَتّٰى تُسْتَوْفٰي رِزْقُهَا فَأَجْمِلُوْا فِي الطَّلَبِ۔

(شعب الایمان،حدیث نمبر:۱۱۹۰)

حضرت جبریل علیہ السلام نے میرے دل میں بات ڈالی ہے کہ کوئی نفس مرتا نہیں یہاں تک کہ اس کا رزق مکمل ہوجائے،لہٰذا تلاش رزق میں اعتدال اختیار کرو۔
اس کے علاوہ نزول وحی کی اور بھی صورتیں ہیں اختصاراً یہاں چند صورتوں کو ذکر کیا گیا ہے۔

تدریجی نزول:

 سارے قرآن کریم کو ایک دفعہ نازل کرنے کے بجائے تھوڑا تھوڑا کرکے کیوں نازل کیا گیا؟یہ سوال خود مشرکین عرب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا ،باری تعالی نے اس سوال کا جواب خود ان الفاظ میں دیا ہے:

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلاًo وَلَایَأْتُونَکَ بِمَثَلٍ إِلَّاجِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِیْراً"

(الفرقان: ۳۲،۳۳)

 

اور یہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ: ان پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ میں کیوں نازل نہیں کردیا گیا ؟ (اے پیغمبر!)ہم نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہارا دل مضبوط رکھیں اور ہم نے اسے ٹھہرٹھہرکرپڑھوایاہے اورجب کبھی یہ لوگ تمہارے پاس کوئی انوکھی بات لے کر آتے ہیں ،ہم تمہیں (اس کا)ٹھیک ٹھیک جواب اور زیادہ وضاحت کے ساتھ عطا کردیتے ہیں۔

امام رازی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں قرآن کریم کے تدریجی نزول کی جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں یہاں ان کا خلاصہ سمجھ لینا کافی ہے،  فرماتے ہیں کہ:

 

۱۔ اگر پورا قرآن ایک دفعہ نازل ہوجاتا تو تمام احکام کی پابندی فوراً لازم ہوجاتی اور یہ اس حکیمانہ تدریج کے خلاف ہوتا جو شریعت محمدی میں ملحوظ رہی ہے ۔

 

۲۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم کی طرف سے ہر روز نئی اذیتیں برداشت کرنی پڑتی تھیں، جبرئیل علیہ السلام کا بار بار قرآن کریم لے کر آنا ان اذیتوں کے مقابلے کو آسان بنادیتا تھا اور آپ کی تقویت قلب کا سبب بنتا تھا۔

 

۳۔قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ لوگوں کے سوالات کے جوابات اور مختلف واقعات سے متعلق ہے اس لیے ان آیتوں کا نزول اسی وقت مناسب تھا جس وقت وہ سوالات کئے گئے ،یا وہ واقعات پیش آئے؛ اس سے مسلمانوں کی بصیرت بھی بڑھتی تھی اور قرآن کریم کی غیبی خبریں بیان کرنے سے اس کی حقانیت اورزیادہ آشکار ہوجاتی تھی۔

(تفسیر کبیر: ۶/۳۳۶)


قرآن کریم کی آیتیں دو قسم کی ہیں ،ایک تو وہ آیتیں ہیں جو اللہ تعالی نے از خود نازل فرمائیں،کوئی خاص واقعہ یا کسی کا کوئی سوال وغیرہ ان کے نزول کا سبب نہیں بنا ،دوسری آیات ایسی ہیں کہ جن کا نزول کسی خاص واقعے کی وجہ سے یا کسی سوال کے جواب میں ہوا ،جسے ان آیتوں کا پس منظر کہنا چاہئے ،یہ پس منظر مفسرین کی اصطلاح میں سبب نزول یا شان نزول کہلاتا ہے ،مثلاً سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۲۱ ہے:

"وَلاَ تَنکِحُواْ الْمُشْرِکَاتِ حَتَّی یُؤْمِنَّ وَلأَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّن مُّشْرِکَۃٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْکُم"۔

اورمشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں،یقیناًایک مؤمن باندی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے ،خواہ وہ مشرک عورت تمہیں پسندآرہی ہو۔



یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی تھی،زمانۂ جاہلیت میں حضرت مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کے عناق نامی ایک عورت سے تعلقات تھے ،اسلام لانے کے بعد یہ مدینہ طیبہ چلے آئے اور وہ عورت مکہ مکرمہ میں رہ گئی، ایک مرتبہ حضرت مرثد کسی کام سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو عناق نے انہیں گناہ کی دعوت دی ،حضرت مرثد نے صاف انکار کرکے فرمایا کہ اسلام میرے اور تمہارے درمیان حائل ہوچکا ہے لیکن اگر تم چاہو تو میں آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت کے بعد تم سے نکاح کرسکتا ہوں ،مدینہ طیبہ تشریف لاکر حضرت مرثد نے آپ سے نکاح کی اجازت چاہی اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا،  اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،اور اس نے مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کردی۔

 (اسباب النزول للواحدی رحمۃ اللہ علیہ:۳۸)

یہ واقعہ مذکورہ بالا آیت کا شان نزول یا سبب نزول ہے ،قرآن کریم کی تفسیر میں شان نزول نہایت اہمیت کا حامل ہے،بعض آیتوں کا مفہوم اس وقت تک صحیح طور سے سمجھ میں نہیں آسکتا، جب تک ان کا شانِ نزول معلوم نہ ہو۔

پہلے نازل ہونے والی آیات:

صحیح قول یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں اتریں وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں ،صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کا واقعہ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرنزول وحی کی ابتداء توسچے خوابوں سے ہوئی تھی اس کے بعد آپ کو تنہائی میں عبادت کرنے کا شوق پیدا ہوا اور اس دوران آپ غار حرا میں کئی کئی راتیں گزار تے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے ؛یہاں تک کہ ایک دن اسی غار میں آپ کے پاس اللہ کی جانب سے فرشتہ آیا اور اس نے سب سے پہلی بات یہ کہی "اِقْرَأْ" (یعنی پڑھو) حضور نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اس کے بعد خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ بیان کیا کہ میرے اس جواب پر فرشتے نے مجھے پکڑا اور مجھے اس زور سے بھینچا کہ مجھ پر مشقت کی انتہاء ہوگئی پھر اس نے مجھے چھوڑدیا اور دوبارہ کہا کہ"اقرأ"میں نے جواب دیا کہ میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں فرشتے نے مجھے پھر پکڑا اور دوبارہ اس زور سے بھینچا کہ مجھ پر مشقت کی انتہاء ہوگئی پھر اس نے مجھے چھوڑ کر کہا کہ "اقرأ" میں نے جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اس پر اس نے مجھے تیسری دفعہ پکڑا اور بھینچ کر چھوڑدیا پھر کہا:

اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَخَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ oاقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o

(علق:۱۔۵)

پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے، پڑھو اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے، جس نے قلم سے تعلیم دی، انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا۔

(بخاری، باب بدءالوحی، حدیث نمبر:۳)



قرآن کا محافظ اللہ ہے:

قرآن مقدس آسمانی کتابوں میں سب سے آخری کتاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے، اس کتاب کو دیگر کتبِ سماوی پر مختلف اعتبارات سے امتیاز حاصل ہے، جن میں سے ایک اہم امتیاز یہ ہے کہ اس کتاب کی حفاظت کی ضمانت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے، ارشادِ خداوندی ہے:

"اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ"

(سورۃ الحجر:۹)

ترجمہ:

"ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور بلاشبہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں"۔

پچھلی آسمانی کتابوں کی حفاظت کی ضمانت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ نہیں لی بلکہ اُمتوں کے سپرد کردی، جس کا نتیجہ یہ ہواکہ وہ حوادثِ زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکی؛ بلکہ تحریف وتبدیل کا شکار ہوگئی؛ لیکن اس کتاب کی حفاظت کی ضمانت جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے تو اس کی شکلیں بھی ایسی پیدا فرمائی کہ آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی اس کا حرف تو حرف اس کے زیر وزبر تک محفوظ ہے اور یہ محض دعویٰ ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے وہی شخص انکار کرسکتا ہے جو جمع قرآن وتدوین قرآن کی تاریخ سے ناواقف ہے، اس لیے ضروری محسوس ہوا کہ جمع قرآن وتدوین قرآن کے تعلق سے کچھ سیرحاصل بحث کی جائے؛ تاکہ یہ معلوم ہو کہ امت مسلمہ بالخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کے جمع وتدوین میں کس دقت وباریکی سے کام لیا ہے۔


قرآن سے دلچسپی:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداً یہی فکر رہتی تھی کہ کسی طرح یہ قرآن اور یہ پیغام الہٰی جلد سے جلد ان کو یاد ہوجائے اور ان کے سینہ میں محفوظ ہوجائے؛  تاکہ وہ اس پیغامِ الہٰی کو جوں کا توں بلا کسی کمی زیادتی اور ردّوبدل کے اپنی امت تک پہونچاسکیں اور وہ بھی اپنے خداداد حافظہ سے اپنے سینوں میں اسے محفوظ کرلیں؛ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبی امی تھے اسی طرح جس امت کی طرف آپ کی بعثت ہوئی تھی وہ بھی امی (بے پڑھی لکھی) تھی۔
اسی کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:

"ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ"

(الجمعۃ:۲)

ترجمہ: "وہی ذات ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے؛ انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے؛ اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے"۔
جن لوگوں کو پڑھنے لکھنے سے واسطہ نہیں ہوتا ان کا زیادہ تراعتماد اپنے حافظہ ہی پر ہوتا ہے؛ چنانچہ اہل عرب اپنی حیرت انگیز قوتِ حافظہ کی وجہ سے دنیا بھر میں ممتاز تھے او رانھیں صدیوں تک کی گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے بعد قرآن کریم کی وہ منزلِ ہدایت نصیبہوئی تھی جسے وہ اپنی زندگی کا سب سے عزیز سرمایہ تصور کرتے تھے، اس لیے انھوں نے اسے یاد رکھنے کے لیے کیا کچھ اہتمام کیا ہوگا اس کا اندازہ ہروہ شخص کرسکتا ہے جو ان کے مزاج وطبیعت سے واقف ہے، خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کے یاد کرنے اور اس کے حفظ کرنے کے سلسلہ میں اس قدر حریص تھے کہ نزولِ وحی کے وقت آپ اس کے الفاظ کو اسی وقت دوہرانے لگتے تھے تاکہ اچھی طرح یاد ہوجائے اور کوئی کلمہ یاحرف دورانِ وحی ان سے چھوٹنے نہ پائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرماکر آپ کو اطمینان دلایا:

"لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖo إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗo"

(القیامۃ:۱۶،۱۷)

ترجمہ: "آپ قرآن پاک کو جلدی یاد کرنے کے خیال سے اپنی زبان کو حرکت نہ دیجئے (کیونکہ) اس (قرآن) کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوانا ہم نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے"۔

اسی طرح قرآن کریم صحابہ کرام کی بھی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا وہ اسے یاد کرنے اور حفظ کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر میں رہتے تھے اور جسے قرآن مجید جس قدر زیادہ یاد ہوتا تھا اسی لحاظ سے ان میں اس کا مقام ومرتبہ ہوتا تھا؛ حتی کہ بعض عورتوں نے اپنے شوہروں سے محض اس لیے کوئی مہر طلب نہیں فرمایا کہ وہ انھیں قرآن کریم کی کوئی سورۃ یاد دلادے وہ لوگ راتوں میں اٹھکر نمازوں میں تلاوتِ قرآن کی لذت کو نیند کی لذت پر ترجیح دیتے تھے؛ اگر رات کی تاریکی میں کسی کا گزر ان کے گھروں پر سے ہوتا تھا تو تلاوتِ قرآن پاک کی وجہ سے شہد کی مکھی کی طرح بھن بھناھٹ کی آواز اسے سنائی دیتی تھی، قرآنِ پاک کے ساتھ انہی توجہات کا نتیجہ تھا کہ ایک بڑی جماعت حفاظِ کرام کی حضور کی زندگی ہی میں منظر عام پر آگئی جن میں چاروں خلفاء راشدین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت سعد رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہٗ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہٗ، ان کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہٗ، حضرت عبداللہ بن السائب رضی اللہ عنہٗ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے نام تاریخ میں محفوظ رہ گئے، یہ سب مہاجرین میں سے ہیں اور انصار میں سے جنھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں حفظِ کلام پاک مکمل کیا ان کے نام یہ ہیں، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہٗ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہٗ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہٗ، حضرت مجمع بن حارثہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابوزید رضی اللہ عنہم اجمعین ایک قول یہ بھی ہے کہ ان میں سے بعض حضرات نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی وفات کے بعد حفظِ کلام پاک مکمل کیا؛ بہرحال جو بھی ہو اس سے اتنا تو اندازہ ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حفظِ قرآن پاک مکمل کرنے والوں کی تعداد کافی تھی؛ حتی کہ بئرمعونہ کا واقعہ ؁ ۴ھ میں پیش آیا اس میں ۷۰/قراء کی جماعت شہید ہوئی۔

(مناہل العرفان:۱۷۳،۱۷۴)

اس کے علاوہ دورِ صدیقی میں جنِگ یمامہ کے موقع پر بھی ۷۰/قراء شہید کئے گئے اور ایک قول کے مطابق ۷۰۰/قراء شہید کئے گئے۔

(تفسیرقرطبی:۱/۳۷۔  عمدۃ القاری:۱۳/۵۳۳)

عہدِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابتِ قرآن سے زیادہ حفظ قرآن پر توجہ دینے کی وجوہالغرض نزول قرآن کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی توجہ کتابتِ قرآن سے زیادہ حفظِ قرآن پر تھی اس لیے کہ اس زمانہ میں لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی، کتابت کے وسائل مہیا نہ تھے، کتابوں کو شائع کرنے کے لیے پریس وغیرہ کے ذرائع موجود نہ تھے، اس کے علاوہ قرآن کریم ایک ہی دفعہ پورا کا پورا نازل نہیں ہوا؛ بلکہ اس کی مختلف آیات اور سورتیں ضرورت اور حالات کی مناسبت سے نازل کی جاتی رہی ہیں، اس لیے عہدِ رسالت میں یہ ممکن نہ تھا کہ شروع ہی سے اسے کتابی شکل میں لکھ کر محفوظ کرلیا جائے۔


 کتابتِ قرآن:

عہدِنبوی میں اصل مدار تو حفظِ قرآن مجید ہی پر تھا؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت قرآن کا بھی خاص اہتمام فرمایا، کتابت قرآن کا طریقہ کار حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان فرمایا:

"کُنْتُ أَکْتُبُ الْوَحْیَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ وَکَانَ إِذَانَزَلَ عَلَیْہِ أَخَذَتْہُ بِرَحَاءٍ شَدِیْدَۃٍ وَعَرَقَ عِرْقًا شَدِیْدًا مِثْلَ الْجُمَّانِ ثُمَّ سُرِّیَ عَنْہُ فَکُنْتُ أَدْخُلُ عَلَیْہِ بِقِطْعَۃِ الْقُتْبِ أَوْکسْرَۃٍ فَأَکْتُبُ وَھُوَ یُمْلِیْ عَلَیَّ فَمَاأَفْرُغُ حَتَّی تَکَادُ رِجْلَیَّ تَنْکَسِرُ مِنْ ثِقْلِ الْقُرْأَنِ حَتَّی أَقُوْلُ لَاأَمْشِیْ عَلَی رِجْلَیَّ أَبَدًا فَإِذَا فَرَغْتُ قَالَ اِقْرَأہُ فَإِنْ کاَنَ فِیْہِ سَقَطٌ أَقَامَہُ ثُمَّ أَخْرَجَ بِہٖ إِلَی النَّاسِ"۔

(المعجم الکبیر للطبرانی:۵/۱۴۲، ۴۸۸۹)

ترجمہ: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی کی کتابت کرتا تھا جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ سخت بوجھ محسوس کرتے اور آپ کے جسمِ اطہر پر پسینہ کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے؛ پھرآپ سے یہ کیفیت ختم ہوجاتی تو میں مونڈھے کی کوئی ھڈّی یاکسی اور چیز کا ٹکڑا لے کر خدمتِ اقدس میں حاضرہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھواتے رہتے میں لکھتا جاتا یہاں تک کہ میں لکھ کر فارغ ہوجاتا تو قرآن کے نقل کرنے کے بوجھ سے مجھ کو ایسا محسوس ہوتا جیسے میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے اور میں کبھی چل نہیں سکوں گا؛ بہرحال جب میں فارغ ہوتا تو آپ فرماتے "پڑھو" میں پڑھ کر سناتا؛ اگر اس میں کوئی فروگذاشت ہوتی تو آپ اس کی اصلاح فرمادیتے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے لے آتے"۔

کاتبینِ وحی:

کتابتِ وحی کا کام صرف حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ ہی کے سپرد نہ تھا؛ بلکہ آپ نے بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس مقصد کے لیے مقرر فرمایا ہوا تھا، جو حسبِ ضرورت کتابتِ وحی کے فرائض انجام دیتے تھے، کاتبینِ وحی کی تعداد چالیس تک شمار کی گئی ہے۔

(علوم القرآن:۱۷۹، مصنف: مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہٗ)

ان میں زیادہ مشہور یہ حضرات ہیں:
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ، حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن ابی السرح رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ، حضرت ابان بن سعید رضی اللہ عنہ، حضرت حنظلہ بن ربیع رضی اللہ عنہ، حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ، حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ
(فتح الباری:۹/۲۷)
حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ، حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ
(علوم القرآن مفتی لتقی عثمانی:۱۷۹)
حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی وحی نازل ہوتی تھی تو آپ اپنے بعض کاتبین وحی کو بلواتے تھے اور ان کو نئی نازل شدہ آیتیں لکھواتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ آپ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے امر پر
(مسنداحمد:۴/۲۶۸۔ رقم:۱۷۹۴۱۔  کنزالعمال:۲/۹، ۲۹۵۷)
اس کی جگہ کی تعیین بھی فرمادیتے تھے کہ اسے کس سورت میں کس آیت کے بعد رکھنا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:

"قَالَ عُثْمَانُ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّاتَنَزَّلَ عَلَیْہِ الْاٰیَاتُ فَیَدْعُو بَعْضَ مَنْ کَانَ یَکْتُبُ لَہُ وَیَقُوْلُ لَہُ ضَعْ ھَذِہِ الْآیَۃَ فِیْ السُّوْرَۃِ الَّتِیْ یُذْکَرُ فِیْھَا کَذَا وَکَذَا"

(سنن ابوداؤد، صلوٰۃ، باب من جھربھا:۷۸۶)

ترجمہ: "نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جب آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپ اپنے بعض کاتبینِ وحی کو بلواتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ اس آیت کو اس سورت میں (اس مقام پر) رکھو جس میں فلاں فلاں شیٔ کا ذکر ہے"۔

چنانچہ آپ کی ہدایت پر وہ لکھ لیا جاتا اور اس زمانہ میں عرب میں کاغذ کمیاب تھے اس لیے اسے کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھا جاتا تھا اور لکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں رکھ دیا جاتا تھا (مناہل العرفان:۱۷۸) تو اس طرح عہد نبوی ہی میں پورا قرآن کریم آپ کی نگرانی میں لکھا ہوا محفوظ تھا؛ مگرکاغذ کی کمیابی کے سبب مختلف قسم کی چیزوں میں منتشر تھا؛ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بھی بعض قرآن کریم کے لکھنے کا اہتمام کرتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے اسلام لانے کا مشہور قصہ ہے جس میں آپ غصہ کی حالت میں اپنے بہن کے گھر گئے تو وہاں ان کی نظر ان پر پڑی جس میں قرآن کریم لکھا ہوا تھا (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:۱۶۰) اسی طرح اللہ کے نبی نے دشمن کی سرزمین میں قرآن مجید کو لے جانے سے منع فرمایا تھا (صحیح بخاری، جہاد، باب کراھیۃ السفر بالمصاحف۲۹۹۰) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے پاس اس وقت مکمل یانامکمل نسخے موجود تھے؛ ورنہ پھر اس ارشاد کا کوئی مطلب ہی نہ ہوگا، ان کے علاوہ اور بھی متعدد دلائل وشواہد ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام میں بھی اس کے لکھنے کا رواج تھا؛ لیکن ان میں کی اکثریت اپنے حافظہ ہی پر اعتماد کرتی تھی۔







قرآن مجید عہدِ رسالت میں:

"صحیفہ" اور "مصحف" یہ دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں "صحیفہ" کے معنی منتشر اوراق یااجزاء کے ہیں اور "مصحف" مجلد کتاب کو کہتے ہیں، جیسا کہ معلوم ہوچکا کہ قرآن کریم رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحیفوں یامصاحف میں نہیں لکھا گیا جس کی بنیادی طور پر چار وجوہ ہیں:
(۱)پہلی وجہ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ذکر کی گئی اس وقت میں کتابت کے وسائل کا کمیاب ہونا ہے۔
(۲)حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نسخ کا احتمال تھا۔
(۳)قرآن کریم یک بارگی نازل نہیں ہوا؛ بلکہ ۲۰/یااس سے زائد سالوں میں حالات اور ضرورت کے لحاظ سے تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا۔
(۴)قرآنِ کریم کی آیات اور سورتوں کی ترتیب قرآن پاک کے نزول کی ترتیب کے لحاظ سے نہیں تھی؛ بلکہ قرآن کریم کا نزول حالات اور ضرورت کے لحاظ سے تھا اور اس کی ترتیب اس کے علاوہ دیگر اعتبارات سے، ان ساری وجوہ کے ہوتے ہوئے؛ اگر عہدنبوی ہی میں قرآن مجید کو صحیفوں یامصاحف میں لکھا جاتا تو بار بار اس میں ترمیم وتبدیلی کی ضرورت پڑتی؛ جب کہ یہ معلوم ہوچکا کہ اس وقت میں کتابت کے وسائل کمیاب تھے اور اعتماد کتابت سے زیادہ حافظہ پر تھا؛ لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا، نسخ کا احتمال باقی نہ رہا، ترتیب دینا بھی سہل ہوگیا اور ایسے اسباب ومحرکات بھی سامنے آئے جن کی وجہ سے قرآن کریم کو صحیفوں یامصاحف میں لکھنا ناگزیر ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے خلفائے راشدین کو اس کام کی توفیق دی اور انھوں نے اس فریضہ کو بحسنِ وخوبی انجام تک پہونچایا (مناہل العرفان فی علوم القرآن:۱۷۹)خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم عہدِرسالت میں مکمل طور پر لکھا ہوا موجود تھا؛ لیکن بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان آیتوں کو بھی قرآن کریم میں لکھ لیا تھا جن کی تلاوت منسوخ ہوچکی تھی اور بعض ان آیتوں کو بھی جو خبرواحد سے ثابت تھی اور سورتوں میں ترتیب کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا تھا ان سب کے علاوہ قرآن کریم اس وقت تک صحیفوں (اجزاء) یامصحف (مجلد کتاب) میں اکٹھا نہ تھا؛ بلکہ مختلف قسم کی چیزوں میں بکھرا ہوا تھا۔

عہدِ صدیقی میں:

حضورِپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کے ساتھ ہی فتنے ابھرنے شروع ہوگئے اور آپ کی وفات کے بعد ان فتنوں نے شدت اختیار کرلی، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے پوری طاقت وقوت صرف کردی اور بہت سے معرکے اس دوران پیش آئے جن میں سے ایک اہم معرکہ جنگ یمامہ کا ہے، جس میں بہت سے قراء شہید ہوئے جن کا انداز ۷۰/ اور ایک قول کے مطابق ۷۰۰/تک لگایا گیا ہے (تفسیرقرطبی:۱/۳۷، عمدۃ القاری:۱۳/۵۳۳) دربارِ رسالت کے مشہور قاری سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ بھی اسی معرکہ میں شہید ہوئے      (مناہل العرفان:۱۷۹) اس عظیم سانحہ کی وجہ سے بعض اجلۂ صحابہ رضی اللہ عنہم بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تشویش لاحق ہوئی جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں: "کہ جنگِ یمامہ کے بعد مجھے امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بلایا میں پہنچا تو وہاں پہلے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرما تھے، حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ یہ عمررضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ یمامہ کے شدید معرکہ میں بہت سے حفاظ کام آگئے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر ایسے ہی دیگر معرکوں میں حفاظ شہید ہوتے رہے تو قرآن مجید کا بہت سا حصہ ان کے سینوں ہی میں چلاجائے گا؛ اس لیے عمررضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں کہ میں (ابوبکررضی اللہ عنہٗ) قرآن مجید کے جمع وتدوین کا اہتمام کروں (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ) میں ان سے کہہ چکا ہوں کہ جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں (لیکن) عمررضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں خدا کی قسم اس میں سراپا خیر ہی ہے یہ مجھ سے بار بار تقاضا کرتے رہے؛ آخر اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہے جو عمررضی اللہ عنہٗ کی ہے، زید کہتے ہیں: حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ نے مجھ سے فرمایا: تم نوجوان ہو سمجھدار ہو کسی طرح کی تہمت بھی ہم تمہارے (اور تمہارے دین ودیانت کے)بارے میں نہیں پاتے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبِ وحی بھی ہو تم قرآن کریم (کے مختلف اجزاء) کو تلاش کرو اور اس کو جمع کرو! حضرت زید رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں: کہ خدا کی قسم اگر وہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم فرماتے تو یہ میرے لیے زیادہ آسان تھا، بنسبت اس کام کے جس کا انھوں نے مجھے حکم دیا ہے، یعنی جمع قرآن کا حضرت زید رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں: کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات ایسا کام کیسے کررہے ہیں جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: بخدا یہ تو اچھا ہی کام ہے، حضرت زید رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ اس بارے میں بار بار مجھ سے اصرار کرتے رہے؛ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ وعمر رضی اللہ عنہٗ کی طرح اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا (پھر میں صرف حکم کی تعمیل میں نہیں بلکہ واقعی ایک اہم ضرورت سمجھ کر اس کام کے لیے تیار ہوگیا) پھر میں نے قرآن کریم کے اجزاء کو تلاش کرنا شروع کیا او راسے کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا؛ یہاں تک کہ سورۃ توبہ کی آخری آیتیں "لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وفٌ رَحِیْمٌ" (التوبۃ:۱۲۸) "ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہٗ کے پاس ملی جو کسی اور کے پاس نہیں تھیں"۔

(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲۰/۴۹۸۶)

اس حدیث کے آخر میں حضرت زید رضی اللہ عنہٗ کے اس ارشاد کا مطلب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ "سورۂ برأۃ کی آخری آیت "لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَحِیْمٌ" (التوبۃ:۱۲۸) مجھے صرف ابوخزیمہ رضی اللہ عنہٗ کے سوا کسی کے پاس لکھی ہوی نہیں ملی" اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ آیت حضرت ابوخزیمہ رضی اللہ عنہٗ کے سوا کسی کو یاد نہ تھی یاکسی کے پاس لکھی ہوئی نہ تھی یااس کا جزوِقرآن ہونا کسی کو معلوم نہ تھا؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھوائی ہوئی یاان کے سامنے لکھی ہوئی قرآن کریم کی متفرق آیتیں لے لے کر آرہے تھے، ان میں سے یہ آیتیں سوائے حضرت ابوخزیمہ رضی اللہ عنہٗ کے کسی کے پاس نہیں ملی؛ جب کہ اس کے علاوہ دیگر آیتیں متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم لے لے کر آرہے تھے؛ ورنہ جہاں تک ان آیات کے جزوِ قرآن ہونے کا تعلق ہے تو یہ بات تواتر کے ساتھ سب کو معلوم تھی، اوّل تو جن سینکڑوں حفاظ کو پورا قرآن کریم یاد تھا؛ انھیں یہ آیات بھی یاد تھیں، دوسرے آیاتِ قرآنی کے جو مکمل مجموعہ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہٗ نے تیارر کررکھے تھے، ان میں یہ آیات بھی لکھی ہوئی تھی؛ لیکن چونکہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ نے مزید احتیاط کے لیے مذکورہ بالا ذرائع پر اکتفا کرنے کے بجائے متفرق طور پر لکھی ہوی آیتوں کو جمع کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا تھا، اس لیے انھوں نے یہ آیت اس وقت تک اس نئے مجموعہ میں درج نہیں کی جب تک کہ اس تیسرے طریقہ سے بھی وہ آپ کو دستیاب نہیں ہوگئی۔

(علوم القرآن:۱۸۴)





طریقِ کار:

جمعِ قرآن کے سلسلہ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے طریقہ کار کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے؛ جیسا کہ پیچھے ذکر آچکا ہے وہ خود حافظ قرآن تھے؛ لہٰذا وہ اپنی یادداشت سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے ان کے علاوہ بھی سینکڑوں حفاظ اس وقت موجود تھے ان کی ایک جماعت بناکربھی قرآن کریم لکھا جاسکتا تھا؛ نیز قرآن کریم کے جو مکمل نسخہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھ لئے گئے تھے حضرت زید رضی اللہ عنہٗ ان سے بھی قرآن کریم نقل فرماسکتے تھے؛ لیکن انھوں نے احتیاط کے پیشِ نظر ان میں سے صرف کسی ایک طریقہ پر اکتفا نہیں فرمایا؛ بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لیکر اس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس محفوظ تھیں حضرت زید رضی اللہ عنہٗ نے انھیں یکجافرمایا تاکہ نیا نسخہ ان سے ہی نقل کیا جائے؛ چنانچہ یہ اعلان عام کردیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی کچھ بھی آیات لکھی ہوئی ہو ں وہ حضرت زید کے پاس لے آئے (فتح الباری:۹/۱۷، علوم القرآن:۱۸۳۔  الاتقان:۱۲۸) اور اس کام کی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ خود نگرانی فرماتے رہے اور انھیں اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے؛ چنانچہ روایات سے ثابت ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو بھی بطورِ معاون کے حضرت زید کے ساتھ اس کام میں لگادیا تھا(الاتقان:۱/۱۲۹۔  فتح الباری:۹/۱۹) اور ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اور زید رضی اللہ عنہٗ کو یہ حکم بھی فرمادیا تھا: "کہ مسجد کے دروازے کے پاس بیٹھ جاؤ؛ پھرجوشخص بھی تمہارے پاس قرآن کریم کے کسی جزء پر دوگواہ لے آئے اس کو صحیفوں میں لکھ لو" (الاتقان:۱/۱۲۸۔  فتح الباری:۹/۱۷) الغرض جو جو شخص بھی حضرت زید کے پاس قرآن مجید کی آیتیں لے کر آتا حضرت زیدرضی اللہ عنہٗ چارطریقوں سے اس کی تصدیق کرتے تھے:
(۱)سب سے پہلے اپنے حافظہ سے اس کی تصدیق کرتے تھے۔
(۲)پھر جیسا کہ اوپر تحریر کیا جاچکا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو بھی اس کام میں ان کا معاون بنادیا تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے حافظہ سے اس کی جانچ کرتے تھے۔
(۳)کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ دوقابل اعتبارگواہوں نے اس بات کی گواہی نہ دیدی ہو کہ یہ تحریر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے، حافظ سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بظاہر اس بات کی بھی گواہی لی جاتی تھی کہ یہ لکھی ہوئی آیتیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سال آپ پر پیش کردی گئی تھی اور آپ نے اس بات کی تصدیق فرمادی تھی کہ یہ ان حروفِ سبعہ کے مطاق ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے (الاتقان:۱/۱۲۸،۱۲۹) علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی اس بات کی تائید متعدد روایات سے بھی ہوتی ہے

(الاتقان:۱/۱۱۰)

(۴)اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا، جو مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم نے تیار کررکھے تھے، امام ابوشامہ فرماتے ہیں: "کہ اس طریقِ کار کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کریم کی کتابت میں زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے اور صرف حافظہ پر اکتفا کرنے کے بجائے بعینہ ان تحریرات سے نقل کیا جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی

(الاتقان:۱/۱۲۸)





 

عہدِصدیقی میں تیار کردہ نسخہ کی خصوصیات
(۱)اس نسخہ میں آیاتِ قرآنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتب تھیں؛ لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں ہرسورت الگ الگ پاروں کی شکل میں لکھی ہوئی تھی۔
(۲)اس نسخہ میں ایسی کوئی آیت آنے نہیں دی گئی جس کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہو۔
(۳)اس نسخہ کے تیار کرنے میں پوری باریک بینی سے تلاش وتفحص کیا گیا اور پوری احتیاط کے ساتھ اسے قلمبند کیا گیا۔
(۴)یہ نسخہ ساتوں حروف کی رعایت پر مشتمل تھا۔
(۵)اس نسخہ کے لکھوانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی اجماعی تصدیق کے ساتھ تیار ہوجائے تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جاسکے ۔

(مناہل العرفان:۱۸۲۔  آپ تلاوت کیسے کریں:۵۹)

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کی اس کوشش سے پہلے بعض صحابہ مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہٗ وغیرہ نے قرآن کریم کے جمع کرنے کی کوشش کی تھی جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے (فتح الباری:۹/۱۵، الاتقان:۱/۱۲۸) اور کسی حد تک اس میں کامیاب رہے؛ لیکن وہ ان کی اپنی انفرادی کوشش تھی، ان کا نسخہ ان خصوصیات سے خالی تھا جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کے تیار کردہ نسخہ میں پائے جاتے تھے، اس کے علاوہ امت کی اجماعی تصدیق بھی اسے حاصل نہ تھی؛ اس کے برعکس حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ وہ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے پورے امت کی اجماعی تصدیق سے ایک معیاری نسخہ "قرآن عظیم"کا تیار کروایا اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے قرآن کریم کے تعلق سے سب سے زیادہ اجر پانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اللہ ابوبکر رضی اللہ عنہٗ پر رحم فرمائے؛ انھوں نے سب سے پہلے قرآن کو جمع فرمایا۔

(فتح الباری:۹/۱۵)

الغرض جب تک حضرت ابوبکر باحیات رہے وہ صحیفے انھیں کے پاس رہے؛ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے پاس منتقل ہوے اور تاحیات انھیں کے پاس رہے؛ پھروہاں سے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہٗ کے پاس منتقل ہوے۔

(صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲/۷۴۶، رقم:۴۹۸۷).

جمعِ قرآن کے سلسلہ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے طریقہ کار کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے؛ جیسا کہ پیچھے ذکر آچکا ہے وہ خود حافظ قرآن تھے؛ لہٰذا وہ اپنی یادداشت سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے ان کے علاوہ بھی سینکڑوں حفاظ اس وقت موجود تھے ان کی ایک جماعت بناکربھی قرآن کریم لکھا جاسکتا تھا؛ نیز قرآن کریم کے جو مکمل نسخہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھ لئے گئے تھے حضرت زید رضی اللہ عنہٗ ان سے بھی قرآن کریم نقل فرماسکتے تھے؛ لیکن انھوں نے احتیاط کے پیشِ نظر ان میں سے صرف کسی ایک طریقہ پر اکتفا نہیں فرمایا؛ بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لیکر اس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس محفوظ تھیں حضرت زید رضی اللہ عنہٗ نے انھیں یکجافرمایا تاکہ نیا نسخہ ان سے ہی نقل کیا جائے؛ چنانچہ یہ اعلان عام کردیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی کچھ بھی آیات لکھی ہوئی ہو ں وہ حضرت زید کے پاس لے آئے (فتح الباری:۹/۱۷، علوم القرآن:۱۸۳۔  الاتقان:۱۲۸) اور اس کام کی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ خود نگرانی فرماتے رہے اور انھیں اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے؛ چنانچہ روایات سے ثابت ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو بھی بطورِ معاون کے حضرت زید کے ساتھ اس کام میں لگادیا تھا(الاتقان:۱/۱۲۹۔  فتح الباری:۹/۱۹) اور ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اور زید رضی اللہ عنہٗ کو یہ حکم بھی فرمادیا تھا: "کہ مسجد کے دروازے کے پاس بیٹھ جاؤ؛ پھرجوشخص بھی تمہارے پاس قرآن کریم کے کسی جزء پر دوگواہ لے آئے اس کو صحیفوں میں لکھ لو" (الاتقان:۱/۱۲۸۔  فتح الباری:۹/۱۷) الغرض جو جو شخص بھی حضرت زید کے پاس قرآن مجید کی آیتیں لے کر آتا حضرت زیدرضی اللہ عنہٗ چارطریقوں سے اس کی تصدیق کرتے تھے:

(۱)سب سے پہلے اپنے حافظہ سے اس کی تصدیق کرتے تھے۔
(۲)پھر جیسا کہ اوپر تحریر کیا جاچکا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو بھی اس کام میں ان کا معاون بنادیا تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے حافظہ سے اس کی جانچ کرتے تھے۔
(۳)کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ دوقابل اعتبارگواہوں نے اس بات کی گواہی نہ دیدی ہو کہ یہ تحریر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے، حافظ سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بظاہر اس بات کی بھی گواہی لی جاتی تھی کہ یہ لکھی ہوئی آیتیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سال آپ پر پیش کردی گئی تھی اور آپ نے اس بات کی تصدیق فرمادی تھی کہ یہ ان حروفِ سبعہ کے مطاق ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے (الاتقان:۱/۱۲۸،۱۲۹) علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی اس بات کی تائید متعدد روایات سے بھی ہوتی ہے

(الاتقان:۱/۱۱۰)

(۴)اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا، جو مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم نے تیار کررکھے تھے، امام ابوشامہ فرماتے ہیں: "کہ اس طریقِ کار کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کریم کی کتابت میں زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے اور صرف حافظہ پر اکتفا کرنے کے بجائے بعینہ ان تحریرات سے نقل کیا جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی

(الاتقان:۱/۱۲۸)

































عہدِ صدیقی میں تیار کردہ نسخہ کی خصوصیات:
(۱)اس نسخہ میں آیاتِ قرآنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتب تھیں؛ لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں ہرسورت الگ الگ پاروں کی شکل میں لکھی ہوئی تھی۔
(۲)اس نسخہ میں ایسی کوئی آیت آنے نہیں دی گئی جس کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہو۔
(۳)اس نسخہ کے تیار کرنے میں پوری باریک بینی سے تلاش وتفحص کیا گیا اور پوری احتیاط کے ساتھ اسے قلمبند کیا گیا۔
(۴)یہ نسخہ ساتوں حروف کی رعایت پر مشتمل تھا۔
(۵)اس نسخہ کے لکھوانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی اجماعی تصدیق کے ساتھ تیار ہوجائے تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جاسکے ۔

(مناہل العرفان:۱۸۲۔  آپ تلاوت کیسے کریں:۵۹)

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کی اس کوشش سے پہلے بعض صحابہ مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہٗ وغیرہ نے قرآن کریم کے جمع کرنے کی کوشش کی تھی جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے (فتح الباری:۹/۱۵، الاتقان:۱/۱۲۸) اور کسی حد تک اس میں کامیاب رہے؛ لیکن وہ ان کی اپنی انفرادی کوشش تھی، ان کا نسخہ ان خصوصیات سے خالی تھا جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کے تیار کردہ نسخہ میں پائے جاتے تھے، اس کے علاوہ امت کی اجماعی تصدیق بھی اسے حاصل نہ تھی؛ اس کے برعکس حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ وہ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے پورے امت کی اجماعی تصدیق سے ایک معیاری نسخہ "قرآن عظیم"کا تیار کروایا اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے قرآن کریم کے تعلق سے سب سے زیادہ اجر پانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اللہ ابوبکر رضی اللہ عنہٗ پر رحم فرمائے؛ انھوں نے سب سے پہلے قرآن کو جمع فرمایا۔

(فتح الباری:۹/۱۵)

الغرض جب تک حضرت ابوبکر باحیات رہے وہ صحیفے انھیں کے پاس رہے؛ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے پاس منتقل ہوے اور تاحیات انھیں کے پاس رہے؛ پھروہاں سے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہٗ کے پاس منتقل ہوے۔

(صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲/۷۴۶، رقم:۴۹۸۷).



عہدِعثمانی میں:

حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے دورِ خلافت میں اسلامی سرحدیں دور دور تک پھیل چکی تھیں اور اسلام حدودِ عرب سے نکل کر روم وفارس اور افریقہ کے "بربری" قبائل تک پہنچ چکا تھا، ہرنئے علاقہ کے لوگ جب مسلمان ہوتے تھے تو اس علاقہ کے سب سے مشہور قاری کی قرأت کے مطابق قرآن پڑھنا سیکھتے تھے، مثلاً شام کے رہنے والے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہٗ کی قرآت کے مطابق قرآن پڑھتے تھے، کوفہ والے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ کی قرأت کے مطابق قرآن پڑھتے تھے؛ اسی طرح بعض علاقہ والے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہٗ کی قرأت کے مطابق قرآن پڑھتے تھے اور ان حضرات کے درمیان حروف کی ادائیگی اور قرأت کے طریقوں میں اختلاف پایا جاتا تھا؛ یہاں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ عرب کی سہولت وآسانی کے لیے سات حروف (سات حروف کے متعلق تفصیل جاننے کے لیے دیکھئے "علوم القرآن":۹۷) پر قرآن نازل فرمایا؛ تاکہ مختلف لب ولہجوں میں قرآن کا پڑھنا ان کے لیے آسان ہوجائے اور صحابہ کرام چونکہ اس حقیقت سے واقف ہوچکے تھے اس لیے ان کے درمیان قرأتوں میں اختلاف ہونے کے باوجود وہ آپس میں ایک دوسرے کا ادب واحترام کرتے تھے؛ لیکن جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہورہے تھے وہ اس حقیقت سے واقف نہیں تھے اور ان کے لیے ساتوں حروف کو مکمل طور سے جاننا آسان بھی نہ تھا، کہ اختلاف ہونے کی صورت میں اس کے ذریعہ فیصلہ کرسکیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے اور آپس میں قرأتوں کے درمیان اختلاف دیکھتے تھے تو ایک دوسرے کی تغلیط کرتے تھے اور بسااوقات انکار تک نوبت آجاتی تھی (مناہل العرفان:۱۸۴) جیسا کہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کی خلافت کے زمانہ میں (مدینہ منورّہ میں) ایک معلم ایک قرأت کے مطابق قرآن پڑھتا تھا اور دوسرا معلم دوسری قرأت کے مطابق، جب بچے آپس میں ملتے تھے تو قرأت میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے اور رفتہ رفتہ اختلاف معلمین تک پہنچ جاتا تھا؛ پھران میں بھی اختلاف رونما ہوکر بسااوقات ایک دوسرے کی تکفیر تک نوبت پہنچ جاتی تھی، جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہٗ نے خطبہ دیا اور فرمایا:        "تم میرے پاس ہوتے ہوئے اس طرح اختلاف کررہے ہو تو جو لوگ مجھ سے دور شہروں میں ہوں گے وہ تم سے زیادہ اختلاف کریں گے"۔

(فتح الباری:۹//۲۲۔   الاتقان:۱/۱۳۱)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کا یہ خیال بالکل سچ نکلا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہٗ بن مالک سے اس طرح منقول ہے: کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ جو اس وقت اہلِ "عراق" کے ساتھ ملکِ "شام" میں "آرمینیۃ" اور "آزربائیجان" کے محاذ پر برسرِپیکار تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے پاس آئے، ان کو لوگوں کے اختلافِ قرأت سے بہت تشویش تھی، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ سے عرض کیا: اے امیرالمؤمنین! قبل اس کے کہ یہ امت یہودونصاریٰ کی طرح اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بارے میں اختلافات کی شکار ہوجائے اس کو سنبھال لیجئے۔

(صحیح بخاری۔ فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲۰/۷۴۶۔ رقم:۴۹۸۷)

اور فرمایا میں "آرمینیۃ" کے محاذ پر برسرپیکار تھا وہاں میں نے دیکھا کہ شام والے ابی بن کعب کی قرأت پر قرآن پڑھتے ہیں، جس کو عراق والوں نے نہیں سنا اور عراق والے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ کی قرأت کے مطابق قرآن پڑھتے ہیں جس کو شام والوں نے نہیں سنا؛ پھر یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگتے ہیں۔

(فتح الباری:۹/۲۱)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ پہلے سے اس مسئلہ میں فکرمند تھے، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ کے واقعہ نے انھیں اور زیادہ سوچنے پر مجبور کردیا؛ انھوں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع فرمایا اور اس بارے میں ان سے مشورہ کیا اور فرمایا: "مجھے یہ خبر پہونچی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری قرأت تمہاری قرأت سے بہتر ہے اور یہ بات کفر تک پہونچ سکتی ہے" صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: میری رائے ہے کہ ہم لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کردیں؛ تاکہ ان کے درمیان اختلاف نہ ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہٗ نے اس رائے کی تحسین فرماکر اس کی تائید فرمائی۔

(الاتقان:۱/۱۳۰، فتح الباری:۹/۲۲)

اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہٗ کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ صحیفے (جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کے حکم سے تیار کئے گئے) جو آپ کے پاس موجود ہے، ہمارے پاس بھیج دیں، ہم اس کی نقل کرواکر آپ کو واپس کردیں گے، تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہٗ نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے پاس بھیج دیئے اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے اس اہم کام کی تکمیل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جن کے بنیادی طور پر چار ارکان تھے:
(۱)حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ (۲)عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ (۳)سعید بن العاص رضی اللہ عنہٗ (۴)عبدالرحمن رضی اللہ عنہٗ بن حارث بن ہشام، حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے ان کو اس کام پر مامور فرمایا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کے صحیفوں سے قرآن مجید نقل کروا کر ایسے مصاحف تیار کرے جو سورتوں کے اعتبار سے مرتب ہو۔

(صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲/۷۴۶۔  رقم:۴۹۸۷)

ابتداء میں تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے چار ہی حضرات کو اس کام کے لیے مامور کیا تھا؛ پھر بعد میں ضرورت پڑنے پر مزید آٹھ حضرات کو بطورِ معاون ان کے ساتھ کردیاجن میں سے بعضوں کے نام یہ ہیں: "مالک بن ابی عامر رضی اللہ عنہٗ، کثیر بن افلح رضی اللہ عنہٗ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہٗ، انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ"۔

(فتح الباری:۹/۲۲،۲۳۔  اتقان:۱/۱۳)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے اِن چاروں میں سے آخر کے تین قریشی حضرات کو یہ بھی ہدایت فرمادی تھی کہ جب "زید رضی اللہ عنہٗ"  اور تم لوگوں کے درمیان قرآن کریم کے کسی لفظ کے (لکھنے کے) بارے میں اختلاف ہوجائے تو اسے قریش کی زبان میں لکھو! اس لیے کہ قرآن انھیں کی زبان میں نازل ہوا ہے۔

(صحیح بخاری، حدیث نمبر:۴۹۸۷)










طریقِ کار:

(۱)حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ میں جن صحیفوں میں قرآن جمع کیا گیا تھا وہ سورتوں کے اعتبار سے مرتب نہ تھا؛ بلکہ ہرسورت علیحدہ صحیفہ میں لکھی گئی تھی، ان حضرات نے پورے قرآن کو سورتوں کے اعتبار سے مرتب کردیا اور ان سب کو ایک مصحف میں جمع کردیا۔
(۲)اب تک قرآن کریم کا صرف ایک ہی نسخہ تھا، جسے پوری امت کی اجتماعی تصدیق حاصل تھی، ان حضرات نے اس نئے مرتب مصحف کے ایک سے زائد نقلیں تیار کیں، عام طور سے مشہور یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے صرف ۵/مصحف تیار کرائے تھے؛ لیکن ابن ابی داؤد نے نقل کیا ہے کہ کل ۷/نسخے تیار کئے گئے تھے، جن میں سے ایک مکہ مکرمہ میں، ایک یمن میں، ایک شام میں، ایک بحرین میں، ایک بصرہ میں، ایک کوفہ میں بھیج دیا گیا اور ایک مدینہ منورہ میں محفوظ رکھ لیا گیا۔

(فتح الباری:۹/۲۵۔  علوم القرآن:۱۹)

(۳)قرآن کریم کو اس انداز سے لکھا گیا کہ اس کے رسم الخط میں تمام متواتر قرأتیں سماجائیں، قرآن کریم کے اندر کچھ کلمات تو وہ ہیں کہ اگر نقطے اور حرکات نہ لگائی جائیں تو تمام متواتر قرأتیں اس میں سماجائے، مثلاً: "اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا" (الحجرات:۶) میں ایک قرأۃ"فَتَبَیَّنُوْٓا" ہے اور دوسری قرأت "فَتَسْبَتُوْٓا" ہے، نقطوں اور حرکات سے خالی کرنے کی صورت میں دونوں قرأتیں اس میں سماگئیں؛ لیکن قرآن کریم کے اندر ایسے کلمات بھی ہیں کہ نقطوں اور حرکات سے خالی ہونے کے باوجود ایک سے زائد متواتر قرأتیں اس میں سمانہیں سکتی، مثلاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد "وَوَصّٰی بِھَآاِبْرٰھٖمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُ" (سورۃ البقرۃ:۱۳۲) میں "وَصّٰیَ" ایک قرأت ہے اور"اَوْصَی"دوسری قرأت ہے، یہ دونوں کسی بھی صورت میں ایک کلمہ میں سما نہیں سکتے اس لیے اس جماعت نے یہ کیا کہ ایک قرأت کو ایک مصحف میں اور دوسری قرأت کو دوسرے مصحف میں نقل کردیا؛ تاکہ تمام متواتر قرأتیں ان مصاحف میں سماجائیں۔

(مناہل العرفان:۱۸۵،۱۸۶)

(۴)اس کام کی انجام دہی کے لیے ان حضرات نے بنیادی طور پر اسی صحیفہ کو اپنے پیشِ نظر رکھا جو عہد صدیقی میں تیار کیا گیا تھا، اس کے علاوہ مزید احتیاط کے پیشِ نظر انھوں نے وہی طریقِ کار اختیار فرمایا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ میں اختیار کیا گیا تھا؛ چنانچہ وہ تحریریں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی اور جن پر آپ کی تصدیق ثبت تھی جو مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس بکھری ہوی تھی ان سب کو دوبارہ طلب کیا گیا اور ان صحیفوں کا ان تحریروں کے ساتھ مقابلہ کرکے نئے مصاحف تیار کئے گئے، اس مرتبہ سورۂ احزاب کی آیت "مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاھَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْھُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo" (سورۂ احزاب:۲۳) تحریری شکل میں سوائے حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہٗ کے کسی اور صحابی رضی اللہ عنہٗ کے پاس نہیں ملی اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ آیت صرف حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہٗ ہی کو معلوم تھی ان کے علاوہ کسی اور کو اس کے آیت ہونے کا علم نہ تھا یاکسی کو یاد نہ تھی یاتحریری شکل میں کسی کے پاس موجود نہ تھی؛ بلکہ صحیح بخاری (صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲۰/۷۴۶۔  رقم:۴۹۸۷) کی روایت میں حضرت زید رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ مصحف لکھتے وقت سورۂ احزاب کی ایک آیت نہیں ملی جس کو میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھتے ہوئے سنا تھا؛ پھرہم نے اس کی تلاش شروع کی تو وہ حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے پاس ملی، اس روایت سے معلوم ہوا کہ وہ آیت حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بھی یاد تھی اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اور وہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ میں لکھے گئے صحیفوں میں بھی موجود تھیں، اس لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ سورۂ احزاب کی اس آیت کے سوا باقی تمام آیتیں جو حضور کے سامنے لکھی گئی تھی متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس ملی؛ لیکن سورۂ احزاب کی یہ آیت حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے سوا کسی کے پاس نہیں ملی۔

(علوم القرآن:۱۹۲)

(۵)متعدد نسخوں کی تیاری کے بعد حضرت عثمانؓ نے فرمان جاری کردیا کہ ان کے علاوہ جس کے پاس قرآن کریم کے لکھے ہوئے نسخے موجود ہوں وہ سب نذر آتش کردیے جائیں، حضرت عثمانؓ نے یہ فرمان اس لیے جاری فرمایا؛ تاکہ قرآن کریم کے تمام نسخے رسم الخط اور متواتر قرأتوں کی شمولیت اور سورتوں کی ترتیب کے اعتبار سے ایک جیسے ہوجائیں، اس فرمان کے بعد صحابہ کرامؓ اور ان کے علاوہ دیگر حضرات نے اپنے انفرادی نسخے نذرآتش کردیئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تمام لوگوں نے اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے اس عمل کو بنظرِاستحسان دیکھا اور اس عمل میں ان کی تائید کی صرف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ کو اس عمل سے کچھ ناگواری ہوئی؛ لیکن بعد میں وہ ناگوارئی بھی ختم ہوگئی۔

(فتح الباری:۹/۲۳)(تمت)





مکی اور مدنی آیات:

آپ نے قرآن کریم کی سورتوں کے عنوان میں دیکھا ہوگا کہ کسی سورۃ کے ساتھ مکی اور کسی کے ساتھ مدنی لکھا ہوتاہے، اس کا صحیح مفہوم سمجھ لینا ضروری ہے، مفسرین کی اصطلاح میں "مکی آیت" کا مطلب وہ آیت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغرضِ ہجرت مدینہ طیبہ پہنچنے سے پہلے پہلے نازل ہوئی اور "مدنی آیت" کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ پہنچنے کے بعد نازل ہوئی، بعض لوگ مکی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شہر مکہ میں نازل ہوئی اور مدنی کا یہ کہ وہ شہر مدینہ میں اُتری؛ لیکن یہ مطلب درست نہیں، اس لیے کہ کئی آیتیں ایسی ہیں جو شہر مکہ میں نازل نہیں ہوئیں لیکن چونکہ ہجرت سے پہلے نازل ہوچکی تھیں اس لیے انھیں مکی کہا جاتا ہے؛ چنانچہ جو آیات منی، عرفات یاسفر معراج کے دوران نازل ہوئیں وہ بھی مکی کہلاتی ہیں؛ یہاں تک کہ جو آیتیں سفرِ ہجرت کے دوران مدینہ کے راستہ میں نازل ہوئیں ان کو بھی مکی کہا جاتا ہے، اسی طرح بہت سی آیات ایسی ہیں جو شہر مدینہ میں نازل نہیں ہوئیں؛ مگر وہ مدنی ہیں؛ چنانچہ ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے سفر پیش آئے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ سے سیکڑوں میل دور بھی تشریف لے گئے، ان تمام مقامات پر نازل ہونے والی آیتیں مدنی ہی کہلاتی ہیں؛ یہاں تک کہ اُن آیتوں کو بھی مدنی کہا جاتا ہے جو فتح مکہ یاغزوۂ حدیبیہ کے موقع پر خاص شہر مکہ یا اس کے مضافات میں نازل ہوئیں؛ چنانچہ آیت قرآنی:"اِنَّ اللہ یَأمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَھْلِھَا" مدنی ہے حالانکہ وہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔

(البرہان:۱/۱۸۸۔  مناہل العرفان: ۱/۱۸۸)

پھربعض سورتیں تو ایسی ہیں کہ وہ پوری کی پوری مکی یاپوری کی پوری مدنی ہیں، مثلاً سورۂ مدثر پوری مکی ہے اور سورۂ آلِ عمرآن پوری مدنی؛ لیکن بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ پوری سورت مکی ہے؛ لیکن اس میں ایک یاچند آیات مدنی بھی آگئی ہیں اور بعض مرتبہ اس کے برعکس بھی ہوا ہے، مثلاً سورۂ اعراف مکی ہے؛ لیکن اس میں"وَاسْاَلْھُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ" سے لے کر"وَاِذْاَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ"الخ، تک کی آیات مدنی ہیں، اسی طرح "سورۂ حج" مدنی ہے لیکن اس میں چار آیتیں یعنی "وَمَآاَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَانَبِیٍّ اِلَّآاِذَاتَمَنّٰی" سے لے کر "عَذَابَ یَوْمٍ عَقِیْمٍ" تک مکی ہیں، اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کسی سورت کا مکی یامدنی ہونا عموماً اس کی اکثرآیتوں کے اعتبار سے ہوتا ہے اور اکثرایسا ہوتا تھا کہ جس سورت کی ابتدائی آیات ہجرت سے پہلے نازل ہوگئیں اُسے مکی قرار دیدیا گیا؛ اگرچہ بعد میں اس کی بعض آیتیں ہجرت کے بعد نازل ہوئیں ہوں۔           

(مناہل العرفان: ۱/۱۹۲)

خصوصیات:

علماء تفسیر نے مکی اور مدنی سورتوں کا استقراء کرکے ان کی بعض ایسی خصوصیات بیان فرمائی ہیں جن سے پہلی نظر میں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سورت مکی ہے یامدنی؟ ان میں سے بعض خصوصیات قاعدۂ کلیہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور بعض اکثری ہیں، قواعدِ کلیہ یہ ہیں:
(۱) ہروہ سورت جس میں لفظ کلاَّ (ہرگز نہیں) آیا ہے، وہ مکی ہے، یہ لفظ پندرہ سورتوں میں ۳۳/مرتبہ استعمال ہوا ہے اور یہ ساری آیتیں قرآن کریم کے آخری نصف حصہ میں ہیں۔
(۲) ہروہ سورت جس میں (حنفی مسلک کے مطابق) کوئی سجدے کی آیت آتی ہے، مکی ہے۔
(۳) سورۂ بقرہ کے سوا ہروہ سورت جس میں آدم علیہ السلام وابلیس کا واقعہ مذکور ہے وہ مکی ہے۔
(۴) ہروہ سورت جس میں جہاد کی اجازت یااس کے احکام مذکور ہیں، مدنی ہے۔
(۵) ہرو ہ آیت جس میں منافقوں کا ذکر آیا ہے، مدنی ہے۔
مندرجہ ذیل خصوصیات عمومی اور اکثری ہیں، یعنی کبھی کبھی ان کے خلاف بھی ہوجاتا ہے لیکن اکثروبیشتر ایسا ہی ہوتا ہے:
(۱) مکی سورتوں میں عموماً "یَآیّھَا النَّاسُ" (اے لوگو!) کے الفاظ سے خطاب کیا گیا ہے اور مدنی سورتوں میں"یَآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا" (اے ایمان والو!) کے الفاظ سے۔
(۲) مکی آیتیں اور سورتیں عموماً چھوٹی چھوٹی اور مختصر ہیں اور مدنی آیات وسورتیںطویل اور مفصل ہیں۔
(۳) مکی سورتیں زیادہ ترتوحید، رسالت اور آخرت کے اثبات، حشرونشر کی منظر کشی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صبروتسلی کی تلقین اور پچھلی امتوں کے واقعات پر مشتمل ہیں اور ان میں احکام وقوانین کم بیان ہوئے ہیں، اس کے برعکس مدنی سورتوں میں خاندانی اور تمدنی قوانین، جہاد وقتال کے احکام اور حدود وفرائض بیان کئے گئے ہیں۔
(۴) مکی سورتو ںمیں زیادہ ترمقابلہ بت پرستوں سے ہے اور مدنی سورتوں میں اہلِ کتاب اور منافقین سے۔
(۵) مکی سورتوں کا اُسلوبِ بیان زیادہ پرشکوہ ہے، اس میں استعارات وتشبیہات اور تمثیلیں زیادہ ہیں اور ذخیرۂ الفاظ بہت وسیع ہے، اس کے برخلاف مدنی سورتوں کا انداز نسبۃً سادہ ہے۔
مکی اور مدنی سورتوں کے انداز واسلوب میں یہ فرق دراصل حالات، ماحول اور مخاطبوں کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، مکی زندگی میں مسلمانوں کا واسطہ چونکہ زیادہ ترعرب کے بت پرستوں سے تھا اور کوئی اسلامی ریاست وجود میں نہیں آئی تھی، اس لیے اس دور میں زیادہ زور عقائد کی درستی، اخلاق کی اصلاح، بت پرستوں کی مدلل تردید اور قرآن کریم کی شانِ اعجاز کے اظہار پر دیا گیا، اس کے برخلاف مدینہ طیبہ میں ایک اسلامی ریاست وجود میں آچکی تھی، لوگ جوق درجوق اسلام کے سائے تلے آرہے تھے، علمی سطح پر بت پرستی کا ابطال ہوچکا تھا اور تمام ترنظریاتی مقابلہ اہل کتاب سے تھا، اس لیے یہاں احکام وقوانین اور حدود وفرائض کی تعلیم اور اہل کتاب کی تردید پر زیادہ توجہ دی گئی اور اسی کے مناسب اسلوبِ بیان اختیار کیا گیا۔

سات حروف اور قرأتیں:

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تلاوت میں آسانی پیدا کرنے کے لیے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ (علی صاحبہا السلام) کو ایک سہولت یہ عطا فرمائی ہے کہ اس کے الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑھنے کی اجازت دی ہے؛ کیونکہ بعض اوقات کسی شخص سے کوئی لفظ ایک طریقہ سے نہیں پڑھا جاتا تو اسے دوسرے طریقہ سے پڑھ سکتا ہے، صحیح مسلم،(باب بیان أن القرآن علی سبعۃ أحرف وبیان معناہ: ۴؍۲۵۷)کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ "بنوغفار" کے تالاب کے پاس تشریف فرما تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آگئے اور انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ() اپنی امت کو حکم دیں کہ وہ قرآن کو ایک ہی حرف پر پڑھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ سے اس کی معافی اور مغفرت طلب کرتا ہوں، میری اُمت میں اس کی طاقت نہیں ہے؛ پھرجبرئیل علیہ السلام دوبارہ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حکم دیاہے کہ آپ کی امت قرآن کریم کو دوحرفوں پر پڑھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت مانگتا ہوں میری امت میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے؛ پھر وہ تیسری بار آئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت قرآن کریم کو تین حرفوں پر پڑھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت چاہتا ہوں، میری اُمت میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے؛ پھروہ چوتھی بار آئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت قرآن کو سات حروف پر پڑھے؛ پس وہ ان میںسے جس حرف پر پڑھیں گے اُن کی قرأت درست ہوگی۔

( مناہل العرفان: ۱/۱۳۳)

چنانچہ ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ اُنْزِلَ عَلٰی سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ فَاقْرَءُ وْا مَاتَیَسَّرَ مِنْہُ"۔

(بخاری مع القسطلانیؒ: ۷/۴۵۳)

"یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے؛ پس ان میں سے جو تمہارے لیے آسان ہو اس طریقہ سے پڑھ لو"۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں سات حروف سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں؛ لیکن محققین کے نزدیک اس میں راجح مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی جو قرأتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، اُن میں باہمی فرق واختلاف کل سات نوعیتوں پر مشتمل ہے اور وہ سات نوعیتیں یہ ہیں:
(۱)اسماء کا اختلاف: جس میں اِفراد، تثنیہ، جمع اور تذکیر وتانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے، مثلاً ایک قرأت میں "تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ" ہے اور دوسری قرأت میںتَمَّتْ کَلِمَاتُ رَبِّکَ۔
(۲)افعال کا اختلاف: کہ کسی قرأت میں صیغۂ ماضی ہے، کسی میں مضارع اور کسی میں امر مثلاً ایک قرأت میں "تَمَّتْ کَلِمَاتُ رَبِّکَ"۔ ایک قرأت میں "رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا" ہے اور دوسری میں "رَبَّنَا بَعَّدَ بَیْنَ اَسْفَارِنَا"۔
(۳)وجوہِ اعراب کا اختلاف: جس میں اعراب یازیرزبر پیش کا فرق پایا جاتا ہے، مثلاً"لَایُضَارَّ کَاتِبٌ" کی جگہ"لَایُضَارُّ کَاتِبٌ" اور "ذُوالْعَرْشِ الْمَجِیْدُ" کی جگہ "ذُوالْعَرْشِ الْمَجِیْدِ"۔
(۴)الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف: کہ ایک قرأت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو مثلاً ایک قرأت میں"تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ" اور دوسری میں "تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ"۔
(۵)تقدیم وتاخیر کا اختلاف: کہ ایک قرأت میں کوئی لفظ مقدم ہے اور دوسری میں مؤخر ہے، مثلاً "وَجَآءَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ" اور "وَجَآءَ تْ سَکْرَۃُ الْحَقِّ بِالْمَوْتِ"۔
(۶)بدلیت کا اختلاف: کہ ایک قرأت میں ایک لفظ ہے اور دوسری قرأت میں اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ مثلاً "نُنْشِزُھَا" اور "نَنْشُرُھَا" نیز "فَتَبَیَّنُوْا" اور "فَتَثَبَّتُوْا" اور "طَلْحٍ" اور "طَلْعٍ"۔
(۷)لہجوں کا اختلاف: جس میں تفخیم، ترقیق، امالہ، مد، قصر، ہمزہ، اظہار اور ادغام وغیرہ کے اختلافات داخل ہیں، یعنی اس میں لفظ تو نہیں بدلتا؛ لیکن اس کے پڑھنے کا طریقہ بدل جاتا ہے، مثلاً "مُوْسٰی" کو ایک قرأت میں مُوْسَیْ" کی طرح پڑھا جاتا ہے۔
بہرحال! اختلافِ قرأت کی ان سات نوعیتوں کے تحت بہت سی قرأتیں نازل ہوئی تھیں اور ان کے باہمی فرق سے معنی میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں ہوتا تھا، صرف تلاوت کی سہولت کے لیے ان کی اجازت دی گئی تھی، شروع میں چونکہ لوگ قرآنِ کریم کے اسلوب کے پوری طرح عادی نہیں تھے، اس لیے اُن سات اقسام کے دائرے میں بہت سی قرأتوں کی اجازت دیدی گئی تھی؛ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ ہرسال رمضان میں جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دَور کیا کرتے تھے، جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس سال آپ نے دومرتبہ دَور فرمایا۔

(السنن لکبری للنسائی،حدیث نمبر۲۷۹۴)

اس دَور کو "عرصۂ اخیرہ" کہتے ہیں، اس موقع پر بہت سی قرأتیں منسوخ کردی گئیں اور صرف وہ قرأتیں باقی رکھی گئیں جو آج تک تواتر کے ساتھ محفوظ چلی آتی ہیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تلاوتِ قرآن کے معاملہ میں غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے اپنے عہدِ خلافت میں قرآن کریم کے سات نسخے تیار کرائے اور ان سات نسخوں میں تمام قرأتوں کو اس طرح سے جمع فرمایا کہ قرآن کریم کی آیتوں پر نقطے اور زیر زبر پیش نہیں ڈالے؛ تاکہ انہی مذکور قرأتوں میں سے جس قرأت کے مطابق چاہیں پڑھ سکیں، اس طرح اکثر قرأتیں اس رسم الخط میں سماگئیں اور جو قرأتیں رسم الخط میں نہ سماسکیں اُن کو محفوظ رکھنے کا طریقہ آپ نے یہ اختیار فرمایا کہ ایک نسخہ آپ نے ایک قرأت کے مطابق لکھا اور دوسرا دوسری قرأت کے مطابق، امت نے ان نسخوں میں جمع شدہ قرأتوں کو یاد رکھنے کا اس قدر اہتمام کیا کہ علم قرأت ایک مستقل علم بن گیا اور سینکڑوں علمائ، قرا اور حفاظ نے اس کی حفاظت میں اپنی عمریں خرچ کردیں۔
دراصل ہوا یہ تھا کہ جس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کے سات نسخے مختلف خطوں میں بھیجے تو ان کے ساتھ ایسے قاریوں کو بھی بھیجا تھا جو اُن کی تلاوت سکھا سکیں؛ چنانچہ یہ قاری حضرات جب مختلف علاقوں میں پہنچے تو انھوں نے اپنی اپنی قرأتوں کے مطابق لوگوں کو قرآن کی تعلیم دی اور یہ مختلف قرأتیں لوگوں میں پھیل گئیں، اس موقع پر بعض حضرات نے ان مختلف قرأتوں کو یاد کرنے اور دوسروں کو سکھانے ہی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں اور اس طرح "علم قرأت" کی بنیاد پڑگئی اور ہرخطے کے لوگ اس علم میں کمال حاصل کرنے کے لیے ائمۂ قرأت سے رجوع کرنے لگے، کسی نے صرف ایک قرأت یاد کی، کسی نے دو، کسی نے تین، کسی نے سات اور کسی نے اس سے بھی زیادہ، اس سلسلے میں ایک اصولی ضابطہ پوری امت میں مسلم تھا اور ہرجگہ اسی کے مطابق عمل ہوتا تھا اور وہ یہ کہ صرف وہ"قرأت" قرآن ہونے کی حیثیت سے قبول کی جائے گی جس میں تین شرائط پائی جاتی ہوں:
(۱)مصاحفِ عثمانی کے رسم الخط میں اس کی گنجائش ہو۔
(۲)عربی زبان کے قواعد کے مطابق ہو۔
(۳)وہ آنحضرت سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو اور ائمۂ قرأت میں مشہور ہو جس قرأت میں ان میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو، اسے قرآن کا جزء نہیں سمجھا جاسکتا، اس طرح متواتر قرأتوں کی ایک بڑی تعداد نسلاً بعد نسلٍ نقل ہوتی رہی اور سہولت کے لیے ایسا بھی ہوا کہ ایک امام نے ایک یاچند قرأتوں کو اختیار کرکے انہی کی تعلیم دینی شروع کردی اور وہ قرأت اُس امام کے نام سے مشہور ہوگئی؛ پھر علماء نے ان قرأتوں کو جمع کرنے کے لیے کتابیں لکھنی شروع کیں؛ چنانچہ سب سے پہلے امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ، امام ابوحاتم سجستانی رحمہ اللہ، قاضی اسماعیل رحمہ اللہ اور امام ابوجعفر طبری رحمہ اللہ نے اس فن پر کتابیں مرتب کیں جن میں بیس سے زیادہ قرأتیں جمع تھیں؛ پھر علامہ ابوبکر ابن مجاہد رحمہ اللہ (متوفی: ۳۲۴ھ) نے ایک کتاب لکھی، جس میں صرف سات قاریوں کی قرأتیں جمع کی گئی تھیں، اُن کی یہ تصنیف اس قدر مقبول ہوئی کہ یہ سات قراء کی قرأتیں دوسرے قراء کے مقابلہ میں بہت زیادہ مشہور ہوگئیں؛ بلکہ بعض لوگ یہ سمجھنے لگے کہ صحیح اور متواتر قرأتیں صرف یہی ہیں؛ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ علامہ ابن مجاہد رحمہ اللہ نے محض اتفاقاً ان سات قرأتوں کو جمع کردیا تھا، اُن کا منشاء یہ ہرگز نہیں تھا کہ ان کے سوا دوسری قرأتیں غلط یاناقابلِ قبول ہیں، علامہ ابن مجاہد رحمہ اللہ کے اس عمل سے دوسری غلط فہمی یہ بھی پیدا ہوئی کہ بعض لوگ "سبعۃ احرف" کا مطلب یہ سمجھنے لگے کہ ان سے یہی سات قرأتیں مراد ہیں جنھیں ابن مجاہد رحمہ اللہ نے جمع کیا ہے؛ حالانکہ پیچھے بتایا جاچکا ہے کہ یہ سات قرأتیں صحیح قرأتوں کا محض ایک حصہ ہیں؛ ورنہ ہروہ قرأت جو مذکورہ بالا تین شرائط پر پوری اُترتی ہو، صحیح، قابلِ قبول اور ان سات حروف میں داخل ہے جن پر قرآنِ کریم نازل ہوا۔

سات قرّاء:

بہرِحال! علامہ ابن مجاہد رحمہ اللہ کے اس عمل سے جو سات قاری سب سے زیادہ مشہور ہوئے وہ یہ ہیں:
(۱)عبداللہ بن کثیر الداری رحمہ اللہ (متوفی: ۱۲۰ھ) آپ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی زیارت کی تھی اور آپ کی قرأت مکہ مکرمہ میں زیادہ مشہور ہوئی اور آپ کی قرأت کے راویوں میں بزی رحمہ اللہ اور قنبل رحمہ اللہ زیادہ مشہور ہیں۔
(۲)نافع بن عبدالرحمن بن ابی نعیم رحمہ اللہ (متوفی: ۱۶۹ھ) آپ نے ستر ایسے تابعین سے استفادہ کیا تھا جو براہِ راست حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے، آپ کی قرأت مدینہ طیبہ میں زیادہ مشہور ہوئی اور آپ کے راویوں میں ابوموسیٰ قالون رحمہ اللہ (متوفی: ۲۲۰ھ) اور ابوسعید ورش رحمہ اللہ (متوفی: ۱۹۷ھ) زیادہ مشہور ہیں۔
(۳)عبداللہ الحصبی رحمہ اللہ جو ابن عامر رحمہ اللہ کے نام سے معروف ہیں (متوفی: ۱۱۸ھ) آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ اور حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی زیارت کی تھی اور قرأت کا فن حضرت مغیرہ بن شہاب مخزدمی رحمہ اللہ سے حاصل کیا تھا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے، آپ کی قرأت کا زیادہ رواج شام میں رہا اور آپ کی قرأت کے راویوں میں ہشام رحمہ اللہ اور ذکوان رحمہ اللہ زیادہ مشہور ہیں۔
(۴)ابوعمرو زبان بن العلاء رحمہ اللہ (متوفی: ۱۵۴ھ) آپ نے حضرت مجاہد رحمہ اللہ اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور آپ کی قرأت "بصرہ" میں کافی مشہور ہوئی، آپ کی قرأت کے راویوں میں ابوعمرالدوری رحمہ اللہ (متوفی: ۲۴۶ھ) اور ابوشعیب سوسی رحمہ اللہ (متوفی: ۲۶۱ھ) زیادہ مشہو رہیں۔
(۵)حمزۃ بن حبیب الزیات مولیٰ عکرمہ بن ربیع التیمی رحمہ اللہ (متوفی: ۱۸۸ھ) آپ سلیمان اعمش رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں، وہ یحییٰ بن وثاب رحمہ اللہ عنہ کے، وہ زرّ بن حبیش رحمہ اللہ کے اور انھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے استفادہ کیا تھا، آپ کے راویوں میں خلف بن ہشام (متوفی: ۱۸۸ھ) اور خلاد بن خالد رحمہ اللہ (متوفی: ۲۲۰ھ) زیادہ مشہور ہیں۔
(۶)عاصم بن ابی النجود الاسدی رحمہ اللہ (متوفی: ۱۲۷ھ) آپ زرّبن حبیش رحمہ اللہ کے واسطہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اور ابوعبدالرحمن سلمی رحمہ اللہ کے واسطہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں، آپ کی قرأت کے راویوں میں شعبہ بن عیاش رحمہ اللہ (متوفی: ۱۹۳) اور حفص بن سلیمان رحمہ اللہ (متوفی: ۱۸۰ھ) زیادہ مشہور ہیں، آجکل عموماً تلاوت انہی حفص بن سلیمان رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق ہوتی ہے۔
(۷)ابوالحسن علی بن حمزۃ الکسائی النحوی رحمہ اللہ (متوفی: ۱۸۹ھ) ان کے راویوں میں ابوالحارث مروزی رحمہ اللہ (متوفی: ۲۴۰ھ) اور ابوعمر الدّوری رحمہ اللہ (جو ابوعمرو رحمہ للہ کے راوی بھی ہیں) زیادہ مشہور ہیں، مؤخرالذکر تینوں حضرات کی قرأتیں زیادہ ترکوفہ میں رائج ہوئیں؛ لیکن جیسا کہ پیچھے عرض کیا جاچکا ہے ان سات کے علاوہ اور بھی کئی قرأتیں متواتر اور صحیح ہیں؛ چنانچہ بعد میں جب یہ غلط فہمی پیدا ہونے لگی کہ صحیح قرأتیں اِن سات ہی میں منحصر ہیں تو متعدد علماء (مثلاً علامہ شذائی رحمہ اللہ اور ابوبکر بن مہران رحمہ اللہ) نے سات کے بجائے دس قرأتیں ایک کتاب میں جمع فرمائیں؛ چنانچہ "قرأت عشرہ" کی اصطلاح مشہور ہوگئی، ان دس قرأتوں میں مندرجۂ بالا سات قرّاء کے علاوہ ان تین حضرات کی قرأتیں بھی شامل کی گئیں۔
(۱)یعقوب بن اسحق حضرمی رحمہ اللہ (متوفی: ۲۰۵ھ) آپ کی قرأت زیادہ تربصرہ میں مشہور ہوئی۔
(۲)خلف بن ہشامؒ (متوفی: ۲۰۵ھ) جو حمزہ رضی اللہ عنہ کی قرأت کے بھی راوی ہیں، آپ کی قرأت "کوفہ" میں زیادہ رائج تھی۔
(۳)ابوجعفر یزید بن القعقاع رحمہ اللہ (متوفی: ۱۳۰ھ) جن کی قرأت مدینہ طیبہ میں زیادہ رائج ہوئی۔
اس کے علاوہ بعض حضرات نے چودہ قاریوں کی قرأتیں جمع کیں اور مذکورہ دس حضرات پر مندرجہ ذیل قرّاء کی قرأتوں کا اضافہ کیا:
(۱)حسن بصری رحمہ اللہ (متوفی: ۱۱۰ھ) جن کی قرأت کا مرکز "بصرہ" تھا۔
(۲)محمد بن عبدالرحمن ابن محیض رحمہ اللہ (متوفی: ۱۲۳ھ) جن کا مرکز "مکہ مکرمہ"میں تھا۔
(۳)یحییٰ بن مبارک یزیدی رحمہ اللہ (متوفی: ۲۰۲ھ) جو "بصرہ" کے باشندے تھے۔
(۴)ابوالفرج شنبوذی رحمہ اللہ (متوفی: ۳۸۸ھ) جو "بغداد" کے باشندے تھے۔
بعض حضرات نے چودہ قاریوں میں حضرت شنبوذی رحمہ اللہ کے بجائے حضرت سلیمان اعمش رحمہ اللہ کا نام شمار کیا ہے، ان میں سے پہلی دس قرأتیں صحیح قول کے مطابق متواتر ہیں اور ان کے علاوہ شاذ ہیں۔

(مناہل العرفان، بحوالۂ منجدالمقرنین لابن الجزریؒ)


تلاوت میں آسانی:

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا کارنامے کے بعد اُمت کا اس پر اجماع ہوگیا کہ قرآن کریم کو رسم عثمانی کے خلاف کسی اور طریقے سے لکھنا جائز نہیں چنانچہ اس کے بعد تمام مصاحف اِسی طریقے کے مطابق لکھے گئے اور صحابہ وتابعین نے مصاحفِ عثمانی کی نقول تیار کرکرکے قرآنِ کریم کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی؛ لیکن ابھی تک قرآنِ کریم کے نسخے چونکہ نقطوں اور زیر، زبر، پیش سے خالی تھے، اس لیے اہلِ عجم کو ان کی تلاوت میں دشواری ہوتی تھی؛ چنانچہ جب اسلام عجمی ممالک میں اور زیادہ پھیلا تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس میں نقطوں اور حرکات کا اضافہ کیا جائے؛ تاکہ تمام لوگ آسانی سے اس کی تلاوت کرسکیں، اس مقصد کے لیے مختلف اقدامات کئے گئے، جن کی مختصر تاریخ درجِ ذیل ہے:

نقطے: اہلِ عرب میں ابتداً حروف پر نقطے لگانے کا رواج نہیں تھا اور پڑھنے والے اس طرز کے اتنے عادی تھے کہ انھیں بغیرنقطوں کی تحریر پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی اور سیاق وسباق کی مدد سے مشتبہ حروف میں امتیاز بھی بہ آسانی ہوجاتا تھا، خاص طور سے قرآن کریم کے معاملے میں کسی اشتباہ کا امکان اس لیے نہیں تھا کہ اس کی حفاظت کا مدار کتابت پر نہیں؛ بلکہ حافظوں پر تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو نسخے عالم اسلام کے مختلف حصوں میں بھیجے تھے ان کے ساتھ قاری بھی بھیجے گئے تھے، جو اسے پڑھنا سکھاسکیں۔

اس میں روایات مختلف ہیں کہ قرآن کریم کے نسخے پر سب سے پہلے کس نے نقطے ڈالے؟ بعض روایتیں یہ کہتی ہیں کہ یہ کارنامہ سب سے پہلے حضرت ابوالاسود دؤلی رحمہ اللہ نے انجام دیا (البرہان: ۱/۲۵۰)بعض کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ کام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلقین کے تحت کیا (صبح الاعشی:۳/۱۵۵) اور بعض نے کہا ہے کہ "کوفہ" کے گورنر زیاد بن ابی سفیان نے ان سے یہ کام کرایا اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ کارنامہ حجاج بن یوسف نے حسن بصری رحمہ اللہ، یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ اور نصر بن لیثی رحمہ اللہ کے ذریعہ انجام دیا۔

(تفسیرالقرطبیؒ: ۱/۶۳)

حرکات: نقطوں کی طرح شروع میں قرآن کریم پر حرکات (زیر، زبر، پیش) بھی نہیں تھیں اور اس میں بھی روایات کا بڑا اختلاف ہے کہ سب سے پہلے کس نے حرکات لگائیں؟ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ کام سب سے پہلے ابوالاسود دؤلی رحمہ اللہ نے انجام دیا، بعض کہتے ہیں کہ یہ کام حجاج بن یوسف نے یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ اور نصر بن عاصم لیثی رحمہ اللہ سے کرایا۔


(قرطبی: ۱/۶۳)

اس سلسلے میں تمام روایات کو پیشِ نظر رکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حرکات سب سے پہلے ابوالاسود دؤلیؒ نے وضع کیں؛ لیکن یہ حرکات اُس طرح کی نہ تھیں جیسی آجکل رائج ہیں؛ بلکہ زبر کے لیے حرف کے اوپر ایک نقطہ ( .---) زیر کے لیے حرف کے نیچے ایک نقطہ  ( .---)  اور پیش کے لیے حرف کے سامنے ایک نقطہ  (.---) اور تنوین کے لیے دو نقطے   ..---)  یا    ..---   یا   (..--- مقرر کیئے گئے بعد میں خلیل بن احمد رحمہ اللہ نے ہمزہ اور تشدید کی علامتیں وضع کیں (صبح الاعشی: ۳؍۱۶۰، ۱۶۱) اس کے بعد حجاج بن یوسف نے یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ، نصر بن عاصم لیثی رحمہ اللہ اور حسن بصریؒ سے بیک وقت قرآن کریم پر نقطے اور حرکات دونوں لگانے کی فرمائش کی، اس موقع پر حرکات کے اظہار کے لیے نقطوں کے بجائے زیر، زبر، پیش کی موجودہ صورتیں مقرر کی گئیں؛ تاکہ حروف کے ذاتی نقطوں سے اُن کا التباس پیش نہ آئے، واللہ سبحانہ اعلم۔





کاتبینِ پیغمبرِ اعظم ﷺ— ایک تعارف


اسلام آخری مذہب ہے، قیامت تک دوسرا کوئی مذہب نازل ہونے والا نہیں ہے، اس دین کی حفاظت و صیانت کا سہرا صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سر ہے، صحابہ کی برگزیدہ جماعت نے اسلام کی بقا اور اس کے تحفظ کے لیے جان و مال کو قربان کیا، انھیں کے خونِ جگر سے سینچے ہوئے درخت کا پھل آج ہم سب کھا رہے ہیں، انہوں نے دین کو اس کی صحیح صورت میں محفوظ رکھنے کا جتن کیا، ان کی زندگی کا ہر گوشہ اسلام کی صحت و سلامتی کی کسوٹی ہے، جو لوگ صحابہٴ کرام سے جتنا قریب ہیں، وہ دین سے اتنا ہی قریب ہیں، اور جو لوگ جتنا اس جماعت سے دورہوں گے؛ ان کی باتیں اُن کا نظریہ، اُن کا عقیدہ اور اُن کا عمل اتنا ہی دین سے منحرف ہوگا۔
قرآن و سنت کی حفاظت میں صحابہٴ کرام نے جس طرح اپنے حیرت انگیز خداداد حافظے کو کام میں لایا، اسی طرح دوسرے وسائل اختیار کرنے سے بھی انہوں نے دریغ نہیں کیا، انہوں نے آیات و احادیث کی حفاظت لکھ کر بھی کی ہے، بہت سے صحابہٴ کرامﷺ نے قرآن مجید لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھا تھا، اسی میں تلاوت کیاکرتے تھے، بہت سے صحابہٴ کرام نے چند سورتیں یا چند آیتیں لکھ رکھی تھیں، احادیث کا لکھا ہوا ذخیرہ بھی بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس محفوظ تھا، کثرت سے آیات و احادیث یادکرنے اور لکھنے کی روایات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اندر وحی اور دین کی حفاظت کا جذبہ کتنا زیادہ تھا، اُس دور میں جب کہ لکھنے پڑھنے کے وسائل آج کی طرح بہت وافر نہ تھے، پھر بھی انہوں نے بڑی دلچسپی سے کتابت سیکھی اور سکھائی، بعض صحابہٴ کرام کو دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کتابت سکھانے کا حکم تھا، وہ اپنے فن کا مظاہر کرتے تھے، بعض اہلِ فن کو خدمتِ نبوی میں رہ کر ”وحی الٰہی“ کی کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اُن میں بھی درجہ بندی تھی، بعض کی غیر موجودگی میں بعض کی نیابت متعین تھی، بعض کو احادیث لکھنے کی خصوصی اجازت بھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، احکامِ زکوٰة و صدقات، فرامین ومعاہدات لکھنے کے لیے بھی صحابہٴ کرام کی اچھی خاصی تعداد دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود رہتی تھی، حیدرآباد کے مشہور و معروف محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمة اللہ علیہ نے دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھے گئے دستاویزات جمع فرمائے ہیں، ہر دستاویز پر لکھنے والے صحابہٴ کرام کے نام بہ حیثیت کاتب درج ہیں، اس سے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہٴ کرامکے درمیان لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔
خلاصہ یہ کہ صحابہٴ کرام نے جس طرح اپنے حافظہ کے ذریعہ دین کی حفاظت کی ہے، اسی طرح لکھ کر بھی پورے دین کو مکمل شکل میں انہوں نے محفوظ فرمایا ہے۔
راقم الحروف کوتاہ ہمت اب تک کی جد و جہد اور کاوش سے تاریخ و سیر کی کتابوں سے پچھتّر(۷۵) صحابہٴ کرام کے نام دریافت کرسکا ہے، جنہوں نے دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل کیا ہے، بعض نے وحی کی کتابت فرمائی، بعض نے احادیث لکھیں، بعض نے دستاویزات لکھے، بعض نے احکام زکوٰة اور فرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابت کی، بعض نے قرآن مجید کی جمع وتدوین میں نمایاں طور پر حصہ لیا۔
کتاب التراتیب ا لإداریہ (۱/۱۶ط مراکش) میں ایسے صحابہٴ کرام کی تعداد بیالیس ہے، ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی کتاب ”کاتبانِ وحی“ میں اڑتالیس صحابہٴ کرام کا ذکر ہے، اور المقری محمد طاہر رحیمی ملتانی کی کتاب ”کاتبانِ وحی“ میں چھپن صحابہٴ کرام کا ذکر ہے، اسی کتاب سے حضرت قاری ابوالحسن صاحب اعظمی دامت برکاتہم نے ”کاتبینِ وحی“ میں مواد فراہم فرمایا ہے، ان سب میں سے تکرار کو حذف کرنے کے بعد ”کاتبین “ صحابہٴ کرام کی تعداد پچہتر(۷۵) ہو جاتی ہے، ان میں سے انچاس (۴۹) صحابہٴ کرام ایسے ہیں، جن کے بارے میں راقم الحروف کو کاتب ہونے کی صراحت کتابوں میں مل گئی ، اور ایک نام عبداللہ بن خطل یا عبدالعزی بن خطل ہے، اس کے بارے میں ارتداد کی روایت ملتی ہے، کاتب ہونے کی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اسی طرح ایک نامعلوم ”نصرانی انصاری“ کے کاتب ہونے کی روایت ملتی ہے؛ تا ہم یہ بھی لکھا ہے کہ ایمان سے پھر گیا تھا، جب دفن کیا گیا تو قبر نے اوپر پھینک دیا، اور ایک نام ”السجل“ ذکر کیا جاتا ہے، سورہ انبیاء (آیت ۱۰۴) میں مذکور ہے، راجح قول کے مطابق یہ کوئی کاتبِ وحی صحابی نہیں ہیں، اسی طرح مزید تئیس (۲۳) صحابہٴ کرام کے بارے میں صریح روایت تلاشنے سے راقم الحروف قاصر رہا؛ اس لیے اخیر میں ان کے ناموں کی ”الف بائی“ فہرست لکھ دی گئی ہے؛ تاکہ ان کے بارے میں صریح روایتوں کی تحقیق کی جا سکے، متعدد اہلِ علم نے کاتبینِ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ان کے اسمائے گرامی درج فرمائے ہیں، جن صحابہٴ کرام کے بارے میں تاریخی روایات موجود ہیں اُن کی ترتیب بھی ”الف بائی“ رکھی گئی ہے؛ تاکہ متعین نام تلاش کرنے میں سہولت ہو، ان کی ابتداء صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم: حضرت ابان بن سعید سے ہے اور یزید بن معاویہ پر یہ ترتیب مکمل ہوتی ہے۔
۱—حضرت ابان بن سعید: حضرت ابان بن سعید اُن صحابہٴ کرام میں سے ہیں، جن کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بارہا کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت حضرت عمر بن شبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن عبدالبر، ابن الاثیر، ابن کثیر د مشقی، ابن سید الناس، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے، (حوالہ کے لیے ملاحظہ فرماےئے: (المصباح المضئی ۱۸/أ، الہدایہ والنہایہ۵/ ۳۴۰، الاستیعاب۱/۵۱، التاریخ الکامل ۲/۳۱۳، عیون الاثر ۲/۳۱۵ العجالة السنیہ ۲۴۶، التنبیہ وا لإشراف ۳۴۶ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ص۱۳۵)
آپ کا سلسلہٴ نسب یہ ہے:
ابان بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قرشی، اموی رضی اللہ عنہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلحِ حدیبیہ کے موقع سے حضرت عثمان بن عفان کو مکہ مکرمہ بھیجا تھا، تو ان کو حضرت ابان نے ہی پناہ دی تھی اور اپنے گھوڑے پر سوار کرکے نہایت ہی جرأت و بے باکی سے ارشاد فرمایا تھا:
اَقْبِلْ و أدْبِرْ وَلاَ تَخَفْ أَحَداً۔ (ترجمہ:) آپ آگے پیچھے جہاں تشریف لے جانا چاہیں، لے جائیں، اور کسی سے خوف زدہ نہ ہوں! (الاستیعاب ۱/۷۵)، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے پہلے تین ماہ کی درمیانی مدت میں ایمان لائے، (تاریخ خلیفہ بن خیاط ۵۰) سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علاء بن حضرمی کے بعد ان کو ”بحرین“ کا عامل مقرر فرما دیا تھا (الاستیعاب۱/۷۵)، پورے عہدِ نبوی میں اس عہدہ پر فائز رہے اور صدیق اکبر کے زمانہٴ خلافت میں شام کے محاذِ جنگ پر گئے اور جامِ شہادت نوش کیا، بعض روایات میں ”جنادین“ ۱۳ئھ میں آپ کی شہادت کا ذکر ہے اور بعض موٴرخین نے جنگِ یرموک ۱۵ئھ میں آپ کی شہادت کا ذکر کیا ہے۔ (نقوش، رسول نمبر ج ۷ ص۱۳۵)
۲—حضرت ابو ایوب انصاری: میزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کون واقف نہیں؟ آپ سابقین اولین میں سے ہیں، بیعت عقبہٴ ثانیہ میں موجود تھے، بدر و حنین اور خندق سمیت سارے غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، آپ کو بھی دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہے، عراقی، انصاری اور ابن سید الناس وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح الفیہ ص۲۴۶ عیون الاثر ۲/۳۱۶، المصباح المضیئی ۲۱/أ بحوالہ نقوش رسول نمبر ج۷ ص۱۳۶)
حضرت علی رضی اللہ عنہ جب عراق جانے لگے تھے تو اس موقع سے حضرت ابو ایوب انصاری کو حُدیبیہ میں اپنا قائم مقام بنایا تھا، خوارج کی جنگ میں بھی حضرت علی کی طرف سے حصہ لیا، بالآخر قسطنطنیہ کی جنگ میں شہید ہوئے، وفات سے پہلے سپہ سالار نے آپ سے آخری خواہش پوچھی، تو آپ نے فرمایا کہ: جب میں مر جاؤں، تو میری لاش کو دشمن کی زمین میں آگے لے جا کر دفن کر دینا؛ چناں چہ جب انتقال ہوا، تو یزید بن معاویہ نے ایک دستہ تیار کیا، جس کی نگرانی میں آپ کو قسطنطنیہ کے قریب لے جاکر دفن کیا گیا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سیرت ابن ہشام ۱/۴۹۸الاستیعاب ۱/۴۰۴، الاصابہ۱/۴۰۵، اُسد الغابہ ۲/۸۱ وغیرہ)
۳ —حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ: خلفیہٴ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ صحابہٴ کرام میں سب سے افضل ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ”ثانیٴ اثنین اذ ہما في الغار“ (توبہ ۴۰) فرمایا ہے، آپ کی صحابیت قرآنِ پاک سے ثابت ہے؛ اس لیے جو شخص بھی آپ کے صحابی ہونے کا انکار کرے گا وہ کافر ہو جائے گا، عام الفیل کے ڈھائی سال بعد، ہجرت سے پچاس سال پہلے پیدا ہوئے (الاصابہ۲/۳۳۴، تذکرة الحفاظ ۱/۵) آپ کا نام عبداللہ ہے، یہ نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا تھا، پہلے نام ”عتیق“ تھا، کنیت ابوبکر اور لقب ”صدیق“ ہے، آپ کو بھی دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہوا ہے، اس کی صراحت، ابن حجر، ابن کثیر، عمرو بن شبہ، ابن سید الناس، مزی، عراقی اور انصاری نے کی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: فتح الباری ۹/۲۷، البدایہ والنہایہ ۳۵۱، تہذیب الکمال ۴/ب، الروض الأنف ۲/۲۳۰، عیون الاثر ۲/۳۱۵، شرح ألفیہ عراقی ۳۲۵ وغیرہ)
 یہ بات تو صحیح ہے کہ آپ نے کم لکھا ہے؛ لیکن یہ کہنا کہ آپ لکھنا جانتے ہی نہ تھے، جیسا کہ بعض عیسائی موٴرخین نے محض بغض و عناد میں لکھ دیا ہے، یہ بات بالکل درست نہیں ہے۔ امام بخاری کی روایت میں کئی مرتبہ حضرت انس کا یہ قول موجود ہے کہ: سیدنا صدیقِ اکبر نے آپ کو احکامِ زکوٰة جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمائے، لکھ کر دیے، اس طرح کی روایات کو بلا دلیل کیوں کرحقیقت سے پھیرا جا سکتا ہے؟ خود سُراقہ بن مالک والی روایت بھی حضرت صدیق اکبر کے لکھنے کی تصدیق کرتی ہے، ابن کثیر نے اس پر بڑی اچھی بحث کی ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ۵/۳۵۱، الوثائق السیاسیة ص ۳۶، مسند احمد بن حنبل وغیرہ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۸ ۱۳)
۴—حضرت ابو خزیمہ بن أوس رضی اللہ عنہ: ان کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے: ابو خزیمہ بن أوس بن زید بن اصرم بن ثعلبہ بن غنم بن مالک بن نجار، یہ انصاری خزرجی ہیں، غزوہٴ بدر اور دیگر معرکوں میں شریک ہوئے۔
ان کے بارے میں ابن شہاب نے عبید بن السباق سے اور انہوں نے زید بن ثابت سے نقل کیا ہے کہ: میں نے ”سورہٴ توبہ کی آخری دو آیتیں“ ابو خزیمہ انصاری کے پاس پائی (اسد الغابہ ۵/ ۱۸۰بحوالہ کاتبین وحی ص۷۰)
۵—حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ: آپ کا پورا نام صخر بن حرب تھا، عمر میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس سال بڑے تھے، فتحِ مکہ کے بعد اسلام لائے، اس سے پہلے اسلام کے سخت ترین دشمن تھے، فتحِ مکہ کے دن سرکارِ دوعالم ﷺ نے اعلان فرمایا تھا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے بھی امان ہے، حنین، طائف اور یرموک وغیرہ میں شریک ہوئے، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ”نجران“ کا عامل مقرر فرمایا تھا، زمانہٴ جاہلیت سے ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے، مشہور موٴرخ واقدی نے آپ کو زمانہٴ جاہلیت میں لکھنے والوں میں شمار کیا ہے۔
اسلام لانے کے بعد آپ کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی لکھنے کا شرف حاصل ہوا، عراقی، ابن سید الناس، ابن مِسکویہ اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح ألفیہ عراقی ۳۴۶، عیون الأثر ۲/۳۱۶، تجارب الأمم ۱/۲۹۱، المصباح المضئی ۲۵،۲۸/أ بحوالہ نقوش ۷/۱۳۹) حضرت ابو سفیان کی وفات تقریباً ۹۰ سال کی عمر میں ہوئی، یہ حضرت عثمان بن عفان کی خلافت کا زمانہ تھا، بعض نے ۳۰ھء، بعض نے ۳۱ھء اور بعض موٴرخین نے ۳۴ھء میں آپ کی وفات لکھی ہے۔
۶—حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدا لأسد رضی اللہ عنہ: آپ کا اسم گرامی عبداللہ بن عبدالأسد بن ہلال بن مخزوم ہے، (الاصابہ ۲/ ۳۳۵) آپ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے (اسد الغابہ ۳/۱۹۵) حضرت ابوبکر صدیق کی طرح عموماً آپ بھی کنیت ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔ سابقین اولین میں شمار کے جاتے ہیں، ایک روایت کے مطابق آپ گیارہویں مسلمان ہیں۔ آپ کی شادی ام سلمہسے ہوئی آپ کی وفات کے بعد حضرت ام سلمہ کو ام الموٴمنین ہونے کا شرف حاصل ہوا، ایک روایت کے مطابق قیامت کے دن دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ وصول کرنے والوں میں آپ پہلے شخص ہوں گے۔ غزوہٴ احد میں ایسا کاری زخم لگا کہ وہی موت کا سبب بن گیا۔ (سیرہ ابن ہشام ۱/۲۵۲،الاصابہ ۲/۳۳۵،)
دربارِ رسالت مآب ﷺ میں کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، اس کی صراحت ابن سید الناس، ابن مِسکویہ، ابو محمد دمیاطی، عراقی یعمری اور انصاری نے کی ہے، (حوالہ کے لیے ملاحظہ فرماےئے: عیون الاثر ۲/۳۱۶ تجارب الامم ۱/۲۹۱، المصباح المضئی ۳۴/ب، العجالة السنیہ شرح الفیہ عراقی ص ۳۴۶ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۰)
۷— حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ: حضرت ابی ابن کعب کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے: اُبی بن کعب بن قیس بن زید بن معاویہ بن عمر و انصاری نجاری، کنیت ابوالمنذر اور ابوالطفل تھی، سارے غزوات میں شریک ہوئے، آپ فقہائے صحابہ میں بھی شمار ہوتے ہیں، اور بلا اختلاف سید القراء ہیں، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ تم کو قرآن سناؤں، حضرت ابی بن کعب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! یہ سن کر حضرت ابی بن کعب فرطِ مسرت سے رونے لگے، (صحیح بخاری تفسیر سورہ لم یکن)
آپ مشہور و معروف کاتبینِ وحی میں سے ہیں، دربارِ رسالت مآب ﷺ میں کتابت کا شرف حاصل کرنے کی صراحت بہت سی کتابوں میں موجود ہے، (حوالے کے لیے دیکھیے: تاریخ طبری ۶/۱۷۹، المصباح المضئی ۸/ ب، تجارب الامم ۱/۲۹۱، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، الورزاء والکُتَّاب ۱۲، اسد الغابہ ۱/۵۰ شرح الفیہ عراقی ۲۴۵، تہذیب الکمال ۵/۲۴۰، البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۰ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۱)
ایک روایت میں ہے کہ: سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھ کر (مدینہ منورہ) وحی لکھنے والوں میں آپ سب سے اول ہیں (البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۰) عیون الاثر اور تاریخ ابن الاثیر میں بھی آپ کے سب سے پہلے کاتب ہونے کی صراحت موجود ہے (التارالکامل ۲/۱۳) تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان وحی کی کتابت فرماتے تھے، اور اگر وہ موجود نہ ہوتے، تو حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت وحی کی کتابت فرماتے تھے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں کئی ایسے مکاتیب ذکر کیے ہیں، جن میں کاتب کا نام ابی بن کعب درج ہے، مثال کے طور پر دیکھیے: وثیقہ نمبر ۶۳، ۶۴، ۷۶، ۱۲۰، ۱۲۱، ۱۲۴، ۱۶۳، ۱۷۴، ۲۰۶، ۲۴۴وغیرہ (الوثائق السیاسیہ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۲) آپ کی وفات علی اختلاف الاقوال ۱۹ھء یا ۲۰ھء یا ۲۲ھء یا ۳۰ھء میں ہوئی۔ (نقوش ۷/ ۱۴۲)
۸— حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ: انھیں کے گھر میں حضرت عمر نے اسلام قبول کیا تھا، اس کے بعد ہی کھلم کھلا اسلام کی دعوت دی جانے لگی، یہ گھر کوہِ صفا کے دامن میں تھا، اسے دعوتِ اسلام کا پہلا خفیہ مرکز کہا جا سکتا ہے، حضرت ارقم ساتویں مسلمان تھے اور حضرت عمر چالیسویں مسلمان تھے۔
آپ نے تمام غزوات میں حصہ لیا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو صدقات جمع کرنے پر مامور فرمایا تھا، اور مدینہ طبیہ میں ایک حویلی بھی عنایت فرمائی تھی (الاصابہ ۱/ ۲۸۰، اسدالغابہ ۱/ ۶۰)
متعدد موٴرخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربارِ رسالت میں لکھا ہے، مثلاً ابن کثیر، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری وغیرہ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۱/ ۶۰، عیون الاثر ۲/ ۳۱۶، شرح الفیہ ص ۲۴۷، المصباح المضئی ۱۸/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۲)
علامہ ابن کثیر نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ: حضرت ارقم رضی اللہ عنہ نے سرکارِ دوعالم ﷺ کے حکم سے عظیم بن الحارث المحاربی کو ایک بہت بڑی جاگیر لکھ دی تھی (البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۱)
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی مشہور و معروف کتاب الوثائق السیاسیہ میں وثیقہ نمبر ۸۴، ۸۸، ۱۷۶، ۲۱ ۲ پر بحیثیت کاتب حضرت ارقم کے دستخط موجود ہیں۔
آپ کی عمر اسی سال سے زائد ہوئی، بعض نے حضرت صدیق اکبر کی وفات کے دن آپ کی وفات لکھی ہے اور بعض نے ۵۵ئھ بتائی ہے، وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی (اسد الغابہ ۱/ ۲۲۹ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)
۹—حضرت بریدہ بن الحصیب رضی اللہ عنہ: حضرت بریدہ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت ایمان قبول کیا، اور غزوہٴ احد کے بعد مدینہ تشریف لائے، اور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ غزوات میں شریک ہوئے (اسد الغابہ ۱/ ۱۷۵، الاصابہ ۱/ ۱۴۶) متعدد موٴرخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربار رسالت میں شمار کیا ہے، مثلا: ابن سیدا لناس، عراقی اور انصاری وغیرہ (حوالے کے لیے دیکھیے: عیون الاثر ۲/ ۳۱۶ العجالة السنیہ شرح الفیہ ۲۴۶، المصباح المضئی ۷/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)
حضرت بلال بن سراج بن مجاعہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کو یمن میں ایک جاگیر عطا فرمائی تھی، جس کی تحریر حضرت بریدہ نے لکھی تھی، وہ درج ذیل ہیں:
”محمد رسول کی طرف سے مجاعہ بن مرارہ کے لیے جو بنی سلم سے ہے کہ: میں تم کو ایک سرحدی زمین دیتا ہوں جو کوئی تم سے اس معاملہ میں جھگڑا کرے اُسے چاہیے کہ میرے پاس آئے“۔ اس کو بریدہ نے لکھا۔ (المصباح المضئی ۱۸/ أبحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)
۱۰— حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب تھے جس طرح حضرتِ حسان بن ثابت کو آپ کے شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے (اسد الغابہ ۱/۲۲۹) جب سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو حضرت ثابت نے تقریر کی اور فرمایا کہ ہم دشمنوں سے آپ کی اس طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنی جان اور اولاد کی حفاظت کرتے ہیں؛ لیکن اس کے بدلے ہمیں کیا ملے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت! اس پر پورے مجمع نے خوشی کا اظہار کیا اور بیک زبان ہو کر سب بول پڑے کہ: ہم اس پر خوش ہیں (الاصابہ۱/۱۹۵)
آپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے ہیں ابن کثیر، ابن سعد، ابن سیدا لناس، مزّی، عراقی اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ۵/۳۴۱، طبقات بن سعد ۱/۸۲، عیون الاثر /۳۱۵، تہذیب الکمال ۴/ ب العجالة السنیہ شرح الفیہ ۲۴۵، المصباح المضئی ۱۹أ)
ڈاکٹر محمدمصطفی اعظمی لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر حمیداللہ نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں وثیقہ نمبر ۱۵۷ میں تحریر کنندہ کا نام قیس بن شماس الرویانی لکھا ہے؛ لیکن صحابہٴ کرام میں اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا، شاید یہ ثابت بن قیس بن شماس ہوگا“۔ (نقوش ۷/۱۴۴)
آپ کی شہادت جنگ یمامہ میں ۱۱ھء کو ہوئی (اسد الغابہ۱/۲۲۹، ۲۳۰، الاصابہ ۱/۱۹۵، الاستیعاب ۱/ ۱۹۵ بحوالہ نقوش)
۱۱— حضرت جعفر رضی اللہ عنہ: ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی رقم طراز ہیں: ”بیہقی کی ابن اسحاق والی روایت کے سوا میں نے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جعفر رضی اللہ عنہ کا نام کسی کو ذکر کرتے نہیں پایا (الاصابہ ۲/ ۲۳۹، ۲۹۹) مزید بر آں یہ کہ میرے نزدیک یہ شخصیت بھی غیر واضح ہے؛ کیوں کہ اس نام کے متعدد صحابہٴ کرام تھے، شاید یہ جعفر بن ابی طالب ہیں یا جعفر بن ابی سفیان۔
بیہقی میں ہے ﷺ جب کبھی حضرت زید اور عبداللہ بن أرقم وقت پر موجود نہ ہوتے اور کسی کماندار کو، کسی بادشاہ کو یا کسی دوسرے انسان کو کوئی چیز لکھ کر دینا ہوتی، تو حضرت جعفر سے لکھوا لیتے تھے الخ“ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۰/ ۱۲۶ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۵)
۱۲— حضرت جہم بن سعد رضی اللہ عنہ: ابن حجر کی روایت ہے کہ حضرت جہم کو القفاعی نے کاتبینِ رسول اللہ ﷺ میں شمار کیا ہے، اور لکھا ہے کہ حضرت زبیر اور جہم اموالِ صدقہ لکھا کرتے تھے، اسی طرح مفسر قرطبی نے بھی اپنی تالیف ”مولد النبی ﷺ“ میں کاتبین میں آپ کا ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ عراقی اور انصاری نے بھی آپ کا شمار کاتبین کے ضمن میں کیا ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۱/ ۲۵۵، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶، المصباح المضئی ۱۹/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۵)
۱۳— حضرت جُہیم بن الصلت رضی اللہ عنہ: آپ کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے: جُہیم بن الصلت بن مخرمہ بن المطلب بن عبد مناف قرشی رضی اللہ عنہ۔
ابن الاثیر اور بن عبدالبر نے لکھا ہے کہ آپ فتح خیبر کے سال مسلمان ہوئے، اور ابن سعد کی روایت ہے کہ آپ فتحِ مکہ کے بعد مسلمان ہوئے (الاستیعاب ۱/۲۴۷ ، اسد الغابہ ۱/ ۲۵۵) بلاذری نے لکھا ہے کہ جُہیم بن الصلت زمانہٴ جاہلیت سے لکھنا جانتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی آپ نے لکھا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر بھی لکھا ہے (الاصابہ ۱/۲۵۵)اموالِ صدقہ کی تفصیلات لکھنے کی روایت بھی ملتی ہے (التنبیہ والاِشراف ۲۴۵)
حضرت جُہیم کے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب ہونے کی صراحت ابن شبہ، یعقوبی، ابن مسکویہ، ابن سید الناس، ابن حجر، عراقی، انصاری نے بھی کی ہے (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب، تاریح یعقوبی ۲/ ۸۰، تجارب الامم ۱/ ۳۹۱، عیون الاثر، أنساب الاشراف ۱/ ۵۳۲ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۶)
۱۴— حضرت حاطب بن عمر رضی اللہ عنہ:
سلسلہٴ نسب اس طرح ہے:
حضرت حاطب بن عمرو بن عبدالشمس بن عبد وَدّ قرشی عامری رضی اللہ عنہ ابتدائی دور میں ہی مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کیا، حبشہ کی طرف ہجرت کی، جنگِ بدر میں شریک ہوئے۔
دربارِ رسالت میں کتابت کا شرف حاصل کیا، ابن مسکویہ، ابن سیدالناس عراقی اور انصاری وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: تجارب الامم ۱/۲۹۱، عیون الاثر ۲/ ۳۱۶، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶ بحوالہ نقوش رسول نمبر ۷/۱۴۶)
۱۵— حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے معتمد تھے، یمن کے رہنے والے تھے، حضرت عمر کے عہدِ خلافت میں جب کوئی وفات پا جاتا تو حضرت عمر فرماتے: اگر حذیفہ اس کے جنازہ میں شریک ہوں گے، تو ہی عمر شامل ہوگا، اگر وہ شامل نہ ہوں گے، تو میں بھی نہ ہوں گا (الاصابہ ۱/۳۳۱،۳۳۲)
 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے کہا: کوئی تمنا کرو! انہوں نے تمنا کی کہ اے کاش! ان کے وہ گھر جن میں وہ رہتے ہیں جواہرات اور دینار و درہم سے بھرا ہو اور وہ ان سب کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں! لیکن حضرت عمر نے فرمایا کہ: میری تمنا ہے کہ: میرے پاس ابو عبیدہ بن الجراح، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن الیمان جیسے لوگ ہوں، جن کو میں اللہ کی اطاعت کے لیے عامل مقرر کروں۔ (اسد الغابہ ۱/۳۹، ۴۹۲)
آپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے ہیں، اس کی صراحت قرطبی، ثعلبی، عراقی اور انصاری نے کی ہے، ان سب نے لکھا ہے کہ: ”حضرت حذیفہ کھجور کی چھال پر لکھاکرتے تھے، اور مسعودی نے لکھا ہے کہ: حضرت حذیفہ حجاز کی متوقع آمدنی کے گوشوارے مرتب فرمایا کرتے تھے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۲۱/ أ، العجالہٴ السنیہ شرح الفیہ ۲۴۶، التنبیہ والإشراف۲۴۵، بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۸)
آپ کی وفات حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد۳۶ھ میں ہوئی۔ (الاستیعاب ۱/۲۴۸)
۱۶— حضرت حصین بن نمیر رضی اللہ عنہ: الوزراء والکُتّاب میں ہے کہ: حضرت حصین بن نمیر اور حضرت مغیرہ بن شعبہ لوگوں کے معاملات لکھا کرتے تھے (الوزراء والکُتّاب ۱۲) اور انصاری نے لکھا ہے کہ آپ دونوں حضرات قرض اور معاملات تحریر فرماتے تھے، ابنِ مسکویہ نے بھی آپ کو کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار کیاہے اور لکھا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں شخصیات عوام الناس کے معاملات بھی لکھا کرتے تھے اور حضرت خالد اور حضرت معاویہ کی عدم موجودگی میں ان کی نیابت میں کتابت فرماتے تھے (تجارب الامم۱/۲۹۰) آپ کے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کی صراحت عراقی اور یعقوبی نے بھی کی ہے، (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح الفیہ عراقی۲۴۷، تاریخ یعقوبی۲/۸۰ بحوالہ نقوش۷/۱۴۸)
۱۷— حضرت حنظلہ بن الربیع رضی اللہ عنہ: حضرت حنظلہ بن الربیع بن صیفی بن ریاح تمیمی رضی اللہ عنہ بڑے مشہور ومعروف جلیل القدر صحابی ہیں، ایک موقع سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: تم لوگ ان کی اوران جیسوں کی اقتداء کیا کرو! (اسد الغابہ۲/۵۸)
آپ مشہور کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے، الوزراء والکتاب نامی کتاب میں ہے کہ آپ تمام کاتبین کے نائب تھے، اور ہر ایک کے غیر حاضر ہونے کی صورت میں لکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ ”الکاتب“ سے جانے جاتے تھے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے آپ کو کاتب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعبیر کیا ہے (التاریخ الکبیر۲/۳۶)۔ اور امام مسلم نے بھی ایسا ہی لکھا ہے (الطبقات لمسلم بن حجاج۲۸۰/ب) اور طبقات ابن سعد میں بھی اس کی صراحت موجود ہے (طبقات بن سعد۶/۳۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مہر حضرت حنظلہ کے پاس رکھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ: ہر تیسرے دن مجھے تمام لکھایاہوا یاد دلا دیا کرو! چنانچہ حضرت حنظلہ ہر تیسرے دن سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اموال اور طعام وغیرہ جو آپ کی تحریری تحویل میں ہوتایاددلادیاکرتے تھے اور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال کو سونے سے پہلے تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ (الوزراء والکتاب۱۳/۱۳)
آپ کے کاتبِ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صراحت ابن حجر، ابن کثیر، ابن سید الناس، ابن الاثیر، ابن شبہ، یعقوبی، مزی، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: الاصابہ۱/۳۵۹، ۳۶۰، البدایہ والنہایہ۵/۲۴۲، عیون الاثیر۲/۳۱۵، اسد الغابہ۲/۵۸، المصباح المضئی۸/ب، تاریخ یعقوبی۲/۸۰، تہذیب الکمال۴/ب، شرح الفیہ عراقی۲۴۵، المصباح المضئی۲۰/أ، التنبیہ والإشراف۲۸۲ بحوالہ نقوش۷/۱۵۰)
آپ نے حضرت امیر معاویہ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ (الاصابہ۱/۳۶۰)
۱۸— حضرت حویطب بن عبد العزّیٰ رضی اللہ عنہ: آپ نے فتحِ مکہ کے سال آٹھ سال کی عمر میں ایمان قبول فرمایا، آپ کے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کی صراحت ابن مسکویہ، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری نے کی ہے، (حوالہ کے لیے دیکھیے: الاستیعاب۱/۸۴، تجارب الامم۱/۲۹۱، عیون الاثر۲/۳۱۶، شرح الفیہ عراقی۲۴۶، المصباح المضئی۲۰/ب بحوالہ نقوش۷/۱۵۰)
۱۹— حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ: سابقین اولین میں سے ہیں، حضرت صدیق اکبر کے بعد ہی اسلام قبول فرمایا تھا، بعض روایات کے مطابق تیسرے چوتھے یا پانچویں مسلمان ہیں۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مذحج اور صفاء الیمین کے صدقات کا عامل مقرر فرمایاتھا، رحلتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک آپ اس عہدہ پر فائز تھے۔ (الاستیعاب۱/۳۹۹، ۴۰۰)
حضرت خالد بن سعید سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تمام امور کی کتابت فرماتے تھے (التنبیہ والإشراف۲۴۵) اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں درج ذیل وثائق میں کاتب کی حیثیت سے آپ کا اسم گرامی رقم فرمایا ہے: (وثیقہ:۱۹،۲۰،۱۱۴، ۲۰۲، ۲۱۳، ۲۱۴، اور۲۲۳)
سب سے پہلے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ کی کتابت حضرت خالد بن سعید نے کی تھی (الاصابہ۱/۴۰۶) مکہ مکرمہ میں وحی کی کتابت سے بہرہ ور ہوئے، اور جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو بنیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں خطوط نویسی کا شرف حاصل ہوا، طبری کی صراحت کے مطابق حضرت خالد بن سعید کو خدمتِ نبوی میں بیٹھ کر ضروریات ومعاملات لکھنے کا شرف بھی حاصل ہے، بہت سے موٴرخین نے آپ کا ذکر کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا ہے، ان میں سرفہرست: ابن اسحاق، ابن سعد، ابن شبہ، طبری، جہشیاری، ابن الاثیر، ابن کثیر، مزی، عراقی، ابن سید الناس، ابن مسکویہ اورانصاری وغیرہ ہیں۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ۵/۳۵، طبقات ابن سعد۴/۶۹، المصباح المضئی۲۱/ب، تاریخ طبری۶/۱۷۹، الوزراء والکتاب۱۲، التاریخ الکامل۲/۳۱۳، تہذیب الکمال۴/ب، شرح الفیہ عراقی۲۴۵، عیون الاثر۲/۳۱۵، تجارب الامم۱/۲۹۱ وغیرہ بحوالہ نقوش۷/۱۵۲)
ایک قول کے مطابق حضرت خالد بن سعید کی شہادت ۱۴ھء میں ہوئی۔ (الاصابہ۱/۴۰۷)
۲۰— حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ: ہر مسلمان حضرت خالید بن ولید سے واقف ہے، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”سیف اللہ“ کا لقب دیا تھا، آپ کی کنیت ابو سلیمان تھی، ام الموٴمنین حضرت میمونہ بنت الحارث کے بھانجے تھے، ہجرت سے چالیس سال قبل پیدا ہوئے، زمانہٴ جاہلیت میں بھی جنگی مہارت و سیادت کے امتیازات آپ کے پاس رہتے تھے، آپ اکثر جنگلوں میں قائد ہوا کرتے تھے۔
جب آپ نے اسلام قبول کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اسلامی لشکروں کی قیادت مرحمت فرمائی، فتحِ مکہ میں بھی شریک رہے، اور عُزّی کا بت آپ نے ہی گرایا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء ۱/ ۲۶۴، الاستیعاب ۱/۴۰۷)
آپ کاتبینِ رسول اللہ ﷺ میں سے تھے، عمر بن شبہ، ابن کثیر، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ ب، البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۴، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۵۴)
علامہ ابن کثیر نے ”البدایہ والنہایہ“ میں حضرت خالد بن ولید کا رقم کردہ ایک خط نقل کیا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:
”بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام مومنین کی طرف کہ: یہاں کوئی شکار نہ کرے، اور شکار کو نہ پکڑے، اور نہ ہی قتل کرے، اگر کوئی ایسا کرتا ہوا پایا گیا، تو اسے کوڑے مارے جائیں گے، اور اس کے کپڑے اتار دیے جائیں گے، اور اگر کوئی ان حدود کو توڑے گا تو وہ ماخوذ ہوگااور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو پیش کر دیا جائے گا“ اور یہ تحریر محمد رسول اللہ کی طرف سے ہے، اور اِسے خالد نے رسول اللہ کے حکم سے لکھا ہے“۔ اور کوئی انھیں پامال نہ کرے ورنہ وہ اپنے اوپرظلم کرنے والا ہوگا جیسا کہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۴)   

۲۱ حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ:
آپ مشہور صحابی ہیں، آپ کا سلسلہٴ نسب یہ ہے: خزیمہ بن ثابت بن الفاکہ بن ثعلبہ بن ساعدہ بن عامر بن عیان بن عامر بن خطمہ بن جشم بن مالک بن اوس انصاری اویسی۔
آپ سابقین اولین مسلمانوں میں سے ہیں، تاریخ و سیر کی کتابوں میں آپ کے فضائل ومناقب بڑی کثرت سے مرقوم ہیں۔
کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مصاحف کی کتابت کے وقت ہم کو ”سورہٴ احزاب“ کی آیت (۳۳) مِنَ الموٴمنینَ رجالٌ صَدَقُوا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہ الخ۔ حضرت خزیمہ بن ثابت سے ملی، جن کی شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شہادتوں کے برابر قرار دیا تھا۔
اس سے آپ کے کاتبِ وحی ہونے کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۱/۴۲۵ بحوالہ کاتبینِ وحی ص۱۷۵، ۱۷۷)
۲۲ حضرت زیبر بن عوام رضی اللہ عنہ:
آپ نے ہجرت سے ۱۸/ سال پہلے ایمان قبول فرمایا، اس وقت آٹھ سال کے تھے، اسلام لانے کی وجہ سے چچا نے طرح طرح کی اذیتیں دی، آپ ساری تکلیفیں برداشت کرتے اور زبان سے یہ الفاظ دہراتے تھے: لا أرجعُ إلیٰ الکفرِ أبداً (سیر أعلام النبلاء ۱/۳۹) ترجمہ: میں اَب کبھی کفر کی طرف لوٹ نہیں سکتا۔
آپ عشرہٴ مبشرہ میں سے ہیں، آپ کے متعلق سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع سے ارشاد فرمایا: لکل نبيٍ حواري وحواري الزبیرُ۔ (سیر أعلام النبلاء ۱/۳۹) ترجمہ: ہر نبی کا ایک حواری (خیرخواہ، مددگار) ہوتا ہے، اور میرا حواری زبیر ہے۔
آپ کاتبینِ پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، خدمتِ نبوی میں اموالِ صدقات کی کتابت کا شرف آپ کو اور حضرت جہیم بن الصلت کو حاصل ہے، متعدد موٴرخین نے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی کتابت کی صراحت فرمائی ہے، ان میں سر فہرست ابن شبہ، ابن کثیر، عراقی، ابن سید الناس، اور انصاری ہیں، آپ قبیلہٴ طی کے بنو معاویہ کی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط تحریر فرمایا تھا۔
(حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب ، البدایہ والنہایہ ۵/۳۴۴، العجالة السنیہ ۲۴۶، عیون الاثر ۲/۳۱۵، وغیرہ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۱۵۶)
۲۳ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ:
کاتبینِ وحی میں سے نمایاں اور سرفہرست آنے والا نام حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہے، آپ کا سلسلہٴ نسب یہ ہے:
حضرت زید بن ثابت بن ضحاک بن زید خزرجی انصاری رضی اللہ عنہ، کتابتِ قرآن؛ بلکہ قرآن مجید کی جمع و تدوین میں سب سے نمایاں خدمت آپ نے ہی انجام دی ہے، آپ مدینہ منورہ کے مفتی اور امام تھے، علمِ میراث میں مشیخیت کا درجہ حاصل تھا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے متعلق ارشاد فرمایا: أفْرَضُ أمَّتِي زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ۔ (سیر أعلام النبلاء ۲/۳۰۹) ترجمہ: میری امت میں سب سے زیادہ علمِ فرائض جاننے والے، زید بن ثابت ہیں۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے، اس وقت حضرت زید کی عمر گیارہ سال تھی، اور سترہ سورتیں یاد کر چکے تھے، جب سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سورتیں سنیں تو بہت خوش ہوئے اور یہودیوں پر عدمِ اعتمام کا اظہار کرتے ہوئے، ان کی زبان و تحریر سیکھنے کا حکم فرمایا، حضرت زید فرماتے ہیں کہ: نصف مہینہ میں ہی یہود کی زبان و تحریر پر میں قادر ہو گیا، اور اتنا ماہر ہو گیا کہ: یہود کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط لکھتا تھا، اور ان کی طرف سے جو خطوط آتے تھے ان کو آپ کے سامنے پڑھتا بھی تھا۔
حضرت زید ہی کی روایت ہے کہ: سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ارشاد فرمایا: میں ایک ایسی قوم کے پاس مراسلت کرتا ہوں، جس پر مجھے اطمینان نہیں ہے کہ وہ کہیں کچھ زیادہ یا کمی نہ کر دے، لہذا اے زید! تم سُریانی زبان سیکھ لو! میں حکم پاتے ہی صرف پندرہ یا سترہ دنوں کی قلیل مدت میں سُریانی زبان سیکھ لیا، (الاصابہ ۱/۵۴۳، البدایہ والنہایہ ۵/۳۲۸) آپ خدمتِ نبوی میں رہ کر بادشاہوں کے خطوط بھی لکھاکرتے تھے (الورزاء ولکتاب ۱۲)
آپ کے کاتبِ وحی ہونے کی روایت متواتر ہے، جن موٴرخین نے کتابت کی صراحت کی ہے، ان میں سرفہرست ابن اسحاق، خلیفہ ابن خیاط، عمر بن شبہ، بخاری، طبری وغیرہ ہیں۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۰، تاریخ خلیفہ ۱/۷۷، فتح الباری ۹/۲۲، تاریخ طبری ۶/۷۹ وغیرہ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۱۵۸ صحیح بخاری ۲/۷۴۶ فضائل القرآن)
حضرت زید فرماتے ہیں کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی کی کتابت کرتا تھا، جب آپ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو سخت گرمی لگتی تھی، آپ کے جسم اطہر پر پسینوں کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے، جب آپ کی یہ کیفیت ختم ہو جاتی تھی تو میں سامانِ کتابت لے کر حاضر ہوتا، آپ لکھواتے رہتے اور میں لکھتا جاتا، لکھنے کے دوران قرآن پاک نقل کرنے کے بوجھ سے مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے، اور میں کبھی چل نہ سکوں گا، جب فارغ ہو جاتا تو آپ فرماتے ”پڑھو“! میں پڑھ کر سناتا، اگراس میں کوئی فروگذاشت ہوتی تو آپ اس کی اصلاح فرما دیتے، پھر اُسے لوگوں کے سامنے لاتے۔ (مجمع الزوائد ۱/۱۵۲ باب عرض الکتابت بعد املاہ) اسی امتیازی وصف کی وجہ سے حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کے مشورہ سے آپ کو ایک جگہ قرآن مجید جمع کرنے کی خدمت اصرار کے ساتھ سپرد فرمائی، اور انھیں اوصاف کی وجہ سے حضرت عثمان غنی نے مصاحف نقل کرنے والی جماعت کا انچارج بنایا (صحیح بخاری ۲/۷۴۶)
۲۴ السجل:
قرآن مجید کی آیت: یَومَ نَطْوِي السَّماء کَطَي السِّجِلِّ لِلکُتُب الخ ترجمہ: وہ دن یاد کرنے کا قابل ہے جس دن ہم (نفخہٴ اولی کے وقت) آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے، جس طرح لکھے ہوئے مضمون کاکاغذ لپیٹا جاتا ہے (انبیاء ۱۰۴) اس کی تفسیر میں ”السجل“ سے متعلق تین اقوال ملتے ہیں:
(الف) بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد کتاب ہے ۔
(ب) بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد ایک فرشتہ ہے ۔
(ج) بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد ایک صحابی ہیں، جو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کتابت کیا کرتے تھے: السجلُّ کاتبُ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (ابن کثیر ۴/۶۰۲) اس کی صراحت ابوداؤد، نسائی اور طبری میں بھی ہے، (بن کثیر ۴/۶۰۲) کشاف، در منثور اور فتح القدیر میں بھی یہ قول ہے۔
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ: یہ روایت موضوع ہے، حفاظِ حدیث کی ایک جماعت نے اسے موضوع قرار دیا ہے، صحابہٴ کرام میں”سجل“ نامی کوئی شخص ہے ہی نہیں (اسد الغابہ ۲/۲۶۱ ابن کثیر ۴/۶۰۲)
ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی نے خطیب کا قول نقل کیا ہے: ہٰذا مُنْکَرٌ جِداً لاَ یَصِحُّ أصلاً مِنْ حدیثِ ابنِ عمر (الاصابہ ۲/۱۵ بحوالہ نقوش ۷/۱۵۹) ترجمہ: یہ بہت منکَر قول ہے، ابن عمر سے اس طرح کی کوئی حدیث منقول نہیں ہے۔
علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر (۴/۶۰۲)، البدایہ والنہایہ (۵/۳۲۹) اور الفصول فی سیرة الرسول (۱۸۸) میں اس طرح کی روایت کے غیر واضح اور ناقابلِ اعتبار ہونے پر مکمل کلام کیا ہے، لکھتے ہیں:
 قُلتُ: وقد أَنْکَرَ غیرُ واحدٍ مِنَ الحُفّاظِ، وَقَدْ أَفْرَدتُ لہ جزء اً وَبَیَّنْتُ طرَقہ و عِلَلَہ، ومَنْ تَکَلَّم فیہ مِنَ الأئمةِ، وَمَنْ ذَہَبَ منہم إلیٰ أنہ حدیثٌ موضوعٌ۔ (الفصول في سیرة الرسول ص۱۸۸)
ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ متعدد حفاظِ حدیث نے اس حدیث کو غیر صحیح قرارا دیا ہے، میں نے اس پر ایک الگ تصنیف کی ہے، اس میں ساری سندوں کو ان کے اسباب و علل کے ساتھ بیان کیا ہے، اس میں ان تمام ائمہ کے اقوال کو بھی جمع کیا ہے، جنہوں نے اس حدیث کی سندوں پر کلام کیا ہے، اور ان لوگوں کے بھی اقوال جمع کیے ہیں، جنہوں نے حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم
نوٹ: چوں کہ بعض کتابوں میں یہ نام مذکور ہے، قارئین کو اس سے تشویش ہوتی ہے؛ اس لیے اس پر اتنی طویل گفتگو کی گئی۔ (اشتیاق احمد )
۲۵ حضرت سعد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ:
یہ خالد بن سعید اور ابان بن سعید کے بھائی ہیں، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن آپ کو بازارِ مکہ کا عامل بنایا تھا، یوم طائف میں شہید ہوئے، ابن سید الناس، انصاری اور ابن مسکویہ نے آپ کو کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار کیا ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۲/۸، الاصابہ ۲/۴۷، عیون الاثر ۲/۳۱۵، المصباح المضئی ۲۲، تجارب الامم ۱/۲۹۱ بحوالہ ”نقوش‘’ رسول نمبر۷/۱۶۰،۱۶۱)
۲۶ شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ:
انہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کیا تھا، اور حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی، حضرت ابوبکر نے شام کی فتوحات کے لیے انھیں بھیجا تھا، اور حضرت عمر نے شام کے علاقے کا آپ کو والی بنایا، آپ کاتبینِ رسول اللہ ﷺ  میں سے ہیں، عمر بن شبہ، مسعودی، یعقوبی، عراقی، ابن سیدالناس اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۲/۱۴۱المصباح المضئی ۸/ب، التنبیہ والاشراف ۲۴۶، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، تہذیب الکمال ۴/ب، العجالة السنیہ ۲۴۵، عیون الاثر ۲/۳۱۵ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۱۶۱)
”الوثائق السیاسیہ“ میں ایک وثیقہ ( جس کا نمبر۴۳) آپ کا لکھا ہوا ہے، شام کے طاعونِ عمواس میں ۱۸ھ کو وفات ہوئی۔
۲۷ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ:
ان آٹھ لوگوں میں سے ہیں، جو پہلے پہل اسلام لائے، اور ان پانچ لوگوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، (الاصابہ ۲/۲۲۹) غزوہٴ احد میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی جان کے ذریعہ بچاؤ کیا، تیر اپنے ہاتھوں پر روکتے تھے، اس کی وجہ سے انگلیاں شل ہو گئی تھیں، اس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ”طلحة الخیر“ کا لقب دیا، اور بیعتِ رضوان کے موقع سے ”طلحة الجود“ کا لقب دیا اورغزوہٴ تبوک کے موقع سے ”طلحة الفیاض“ کے لقب سے نوازا۔
آپ نے ان چار عورتوں سے نکاح کیا، جن کی ایک ایک بہن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں۔
حضرت طلحہ کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت ابن مسکویہ، ابن سید الناس، عراقی، اور انصاری وغیرہ نے کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۲/۲۲۰ اسد الغابہ ۲/۹۲ تجارب الامم ۱/۲۹۱، عیون الاثر ۲/۳۱۶، العجالة السنیہ ۲۴۶، المصباح المضئی ۲۹/ ب بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۶۲، ۶۳)
۲۸  حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ:
یہ طفیل بن عبد اللہ کے غلام تھے، حضرت عمر سے پہلے ہی ایمان قبول فرمایا، ایمان قبول کرنے کی وجہ سے آپ کوبڑی اذیت دیجانے لگی، تو حضرت ابوبکر صدیق نے خرید کر آزاد کردیا (الاصابہ ۲/ ۲۵۶) سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیقِ اکبر جن دنوں غارِ ثور میں چھپے تھے، ان دنوں عامر بن فہر اس کے ارد گرد بکریاں چراتے تھے، شام کے وقت بکریوں کو غار کے پاس لے جاتے، دونوں حضرات بکریوں کا دودھ پی لیتے تھے، جب صبح ہوتی تو صدیقِ اکبر کے فرزند عبد اللہ غار کے پاس سے بکریوں کے قدموں کے نشانات پر چل کر انہیں مٹادیتے (اسد الغابہ ۲/ ۹۱) غزوہٴ بدر واُحد میں شریک ہوئے، اور بےئرِ معونہ میں شہید ہوئے۔ (الاستیعاب ۳ / ۸)
بلاشبہ آپ کاتبانِ نبی اکرم ﷺ  میں سے ہیں، اس کی صراحت مزّی، ابن کثیر، عراقی، ابن سید الناس اور انصاری وغیرہ نے کی ہے، (حوالے کے دیکھیے: تہذیب الکمال ۴/ ب، البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۸، العجالة السنیہ ۲۴۵، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵، وغیرہ بحوالہ ”نقوس“ رسول نمبر ۷/ ۱۶۴ )
مسند احمد میں ہے کہ: (ہجرت کے سفر میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ بن مالک المدلجی کو جو امان نامہ لکھ کر دیا تھا، وہ عامر بن فہیرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لکھا تھا، سراقہ خود کہتے ہیں:
”میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے امان نامہ لکھ دینے کی درخواست کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہر کو حکم فرمایا، انہوں نے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر وہ امان نامہ تحریر کردیا۔ (مسند احمد ۴/ ۱۷۶) یہ تو مسند احمد کی روایت ہے۔
البدایہ والنہایہ میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ: ﷺ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر کو لکھنے کا حکم دیا، چنانچہ انہوں نے ایک امان نامہ لکھا اور اس کے حوالے کردیا۔ (البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۱)الوثائق السیاسیہ ص۳۶)
ابن کثیر نے ان دونوں روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ: امان نامہ کا کچھ حصہ حضرت ابوبکر نے لکھا اور کچھ حصہ آپ کے غلام عامر نے لکھا واللہ اعلم بالصواب (البدایہ النہایہ ۵ /۳۵۱ بحوالہ نقوش رسول نمبر ۷/۱۳۸)
۲۹ حضرت عباس رضی اللہ عنہ:
کسی بھی موٴرخ نے حضرت عباس کا ذکر بہ حیثیت کاتبِ رسول اللہ کے نہیں کیا ہے؛ حالاں کہ بعض وثائق میں حضرت عباس کا نام مرقوم ہے، شاید وجہ یہ ہو کہ اکثر لوگ اپنے پیش رو کی بات نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
ہاں یہ بات ضرور قابلِ تحقیق ہے کہ حضرت عباس سے کون سے عباس مراد ہیں؟ اس لیے کہ صحابہٴ کرام میں بہت سے ایسے حضرات موجود ہیں جن کا نام عباس ہے، میں ذیل میں ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی مدظلہ العالی کی تحقیق درج کرتا ہوں، فرماتے ہیں کہ:
”میں اس امر سے کوئی مانع نہیں پاتا کہ کاتبانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فہرست میں حضرت عباس کے نام کا اضافہ کردوں؛ مگر اتنی بات ضرور ہے کہ عباس کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میرے نزدیک مبہم ہے؛ کیوں کہ صحابہٴ کرام میں بہت سارے ایسے حضرات موجود ہیں، جن کا نام نامی عباس ہے، جن کو ابن عبدالبر، ابن حجر اور ابن اثیر وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔
زیادہ تر عباس سے مراد عباس بن عبدالمطلب ہی ہوتے ہیں، اور یہی ہمارا مقصد ہے، وہ تحریر جس پر ہم اس نام کے اضافہ کرنے کا اعتماد کر رہے ہیں، غنائمِ خیبر اور ان کو امہات الموٴمنین وغیرہ پر تقسیم کرنے کے متعلق ہے․․․․․․ اس تحریر کا ترجمہ پیش ہے:
”اس گندم کا ذکر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواجِ مطہرات کو عطا فرمایا، ازواجِ مطہرات کے لیے ایک سو اسّی (۱۸۰)، فاطمہ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پچاسی (۸۵)، اسامہ بن زید کے لیے چالیس (۴۰) مقداد بن الاسود کے لیے پندرہ (۱۵) اور ام رُمیثہ کے لیے پانچ وسق ہوں گے۔“
”عثمان بن عفان اور عباس گواہ بنے اور ”عباس“ نے ہی لکھا۔“ (سیرة ابن ہشام ۳/۳۵۲،۳۵۳، الوثائق السیاسیہ وثیقہ نمبر ۱۸ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر۷/۱۶۴، ۱۶۵)
۳۰ حضرت عبداللہ بن الارقم رضی اللہ عنہ:
فتح مکہ کے دن ایمان لائے، آپ کے دادا نبی کریم ﷺ  کے ماموں تھے (الاصابہ ۲/۲۷۳) آپ کی کتابت پر سرکار دوعالم ﷺ  نے اعتماد فرمایا، حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے بھی آپ سے مختلف چیزیں لکھوائی ہیں۔ (السنن الکبری للبیہقی ۱۰/۱۲۶) حضرت عمر نے آپ کو بیت المال کا متولی بھی بنایا تھا، وفات سے پہلے بینائی ختم ہوگئی تھی، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وفات ہوئی (اسد الغابہ ۳/۱۱۶ وغیرہ)
بلاشبہ آپ کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس کی صراحت ابن اسحاق، ابن شبہ، بخار، مسلم، طبری، جہشیاری، مسعودی اور ابن مِسکویہ وغیرہ نے کی ہے (حوالے کے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب، طبقات امام مسلم ۲۸۰/ب، تاریخ طبری ۶/۱۷۹ الوذراء والکتاب ۱۲، التنبیہ وا لإشراف ۲۴۵، تجارب الامم ۱/۲۹۱،۲۹۲ تہذیب الکمال ۴/ب، البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۹، الاصابہ ۲/۲۷۳، الاستیعاب ۲/۲۶۲۔ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۱۶۶)
امام بیہقی کی سننِ کبری میں ایک روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک خط آیا، تو آپ نے فرمایا: میری طرف سے کون جواب دے گا؟ عبداللہ بن الارقم نے جواب دیا: ”میں“! اور انہوں نے اس کا جواب لکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، اور پسند فرمایا، اور دعاء فرمائی: ”اللّٰہم وَفِّقْہ“ : اے اللہ! اسے خیر کی توفیق عطا فرما! (الاستیعاب ۲/۲۶۱، السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۰/۱۶)
ایک روایت میں ہے کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن الارقم بن یغوث سے لکھوایا کرتے تھے، اور وہ آپ کی طرف سے بادشاہوں کو جواب دیا کرتے تھے، کتابت میں ان کی امانت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر اعتماد تھا کہ آپ انھیں کسی بادشاہ کی طرف خط لکھنے کا حکم فرماتے تو وہ لکھ کر اور مہر لگا کر بند کر دیتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت محسوس نہ فرماتے۔
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن ثابت اور عبداللہ بن الارقم سے لکھوایا کرتے تھے، جب یہ دونوں موجود نہ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی حاضر ہوتا، اس سے لکھواتے، عموماً حضرت عمر، حضرت علی، حضرت خالد بن سعید، حضرت مغیرہ اور حضرت معاویہ موجود ہوتے تھے۔ (الاصابہ ۲/۲۷۳)
حضرت عبداللہ بن الارقم زیادہ تر قبائل کے درمیان معاہدات، بادشاہوں کے خطوط، انصار کے مردوں اور عورتوں کے درمیان مکانات کے تصفیے، قرض کی تحریریں، خرید و فروخت کے دستاویزات، پانی کی تقسیم کے معاہدات وغیرہ تحریر فرماتے تھے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے: تاریخ طبری ۶/۱۷۹، الوزراء والکتاب ۱۲، التنبیہ والاشراف ۲۴۵، الاستیعاب ۸۷۴، ۸۷۵ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر۷/۱۶۷)
۳۱ حضرت عبداللہ بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ:
آپ صدیق اکبر کے صاحب زادے ہیں،شروع میں ہی اسلام قبول کیا، حنین، طائف میں شریک ہوئے، وفات ۱۱ئھ میں ہو گئی، والد ماجد نے نماز جنازہ پڑھائی، عموماً موٴرخین نے ان کو کاتبین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں شمار فرمایا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بلا شبہ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھنے کا شرف حاصل کیا ہے، ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے الوثائق السیاسیة میں وثیقہ نمبر ۹۴میں بہ حیثیت کاتب عبد اللہ بن ابو بکر صدیق کا اسم گرامی نقل فرمایا ہے۔ (دیکھیے ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی تحریر، ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۱۶۷، ۱۶۸)
۳۲ عبداللہ بن خطل یا عبد العزّی بن خطل: (مرتد ہو کر مقتول ہوا)
متعدد موٴرخین نے اس کے کاتبِ نبی ﷺ  ہونے کی بات لکھی ہے، مثلاً: ابن سید الناس انصاری اور عراقی نے لکھا ہے کہ: یہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابت کرتا تھا، پھر مرتد ہو گیا اور حضور کے حکم سے قتل ہوا، اس وقت خانہٴ کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہوا تھا (دیکھیے: عیون الاثر ۲/۳۱۶ المصباح المضئی ۳۷/أ، العجالة السنیہ ۲۴۷وغیرہ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۶۸)
لیکن ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی لکھتے ہیں کہ: ”اس کے کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر کوئی معتبر سند موجود نہیں ہے (نقوش ۷/۱۶۸) بعض کتابوں میں یہ بھی ہے کہ وہ وحی کی کتابت میں اپنی طرف سے الٹ پھیر کر دیتاتھا؛لیکن یہ بات بھی بہت مضبوط نہیں ہے، اس کے قتل کیے جانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے عبدالبر نے لکھا ہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا، اس کے ساتھ ایک اور مسلمان کو کر دیا، اس نے اس مسلمان کو قتل کر دیا، اور قتل کی سزا کے ڈر سے مرتد ہو کر مکہ مکرمہ بھاگ گیا، اور مشرکین سے جا ملا:۔ (الدرر في المغازی والسیر ۲۳۳) سیرت ابن ہشام میں یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان غلام تھا،جو اس کی خدمت کرتا تھا، اس نے غلام کو حکم دیا کہ پہاڑی بکرا ذبح کرکے اس کے لیے کھانا تیار کرے، اور خود سو گیا، جب اٹھا تو دیکھا کہ کھانا تیار نہیں ہے، بس کیا تھا کہ غلام کو جان سے ہی مار ڈالا اور ڈر کے مارے مرتد ہو کر مکہ مکرمہ بھاگ گیا، اورشقاوت اتنی بڑھ گئی کہ اپنی دو لونڈیوں سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ہجو کے اشعار کہلواتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے اس کے خون کو مباح قرار دیا، فتحِ مکہ کے دن وہ قتل کر دیا گیا، اس وقت وہ خانہٴ کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہوا تھا، اس کے ساتھ اس کی لونڈیوں کے قتل کا بھی حکم نافذ ہوا تھا۔ (سیرة ابن ہشام ۳/۴۱۰، المغازی للواقدی ۸۵۹، ۸۶۰وغیرہ بحوالہ نقوش ۷/۱۶۸، ۱۶۹)
۳۳ حضرت عبداللہ بن رواحہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ:
بلند پایہ شاعر تھے، ایام ِجاہلیت ہی سے لکھنا پڑھنا جانتے تھے، انصار میں سابقین اولین میں سے ہیں، انصار کے بارہ نقیبوں میں سے ہیں۔ غزوہٴ احد، خندق، خیبر، وغیرہ میں شریک رہے، جنگ موتہ میں۸ھ کو شہید ہوئے۔ (اصابہ ۲/۳۰۷، اسد الغابہ ۳/۱۵۸، ۱۵۹)
آپ کاتبینِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، اس کی صراحت ابن سعد، عمرو بن شبہ، ابن عبدالبر، ابن حجر، عینی، عراقی، ابن سیدالناس اور انصاری وغیرہ نے کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۲/ ۳۰۶، المصباح المضئی ۳۳/ب، الاستیعاب ۲/ ۳۰۱، عمدة القاری ۲۰/ ۱۹، العجالة السنیہ ۲۴۶، عیون الاثر ۲/۳۱۵ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۱۷۱)
۳۴ حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربّہ رضی اللہ عنہ:
یہ وہی عبداللہ ہیں ،جن کو خواب میں اذان کا طریقہ بتایا گیا تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو اسی طرح اذان دینے کا حکم فرمایا۔ (الاصابہ ۲/ ۳۱۵، الاستیعاب ۲/ ۳۱۱، ۳۱۲، اسد الغابہ ۳/ ۱۶۶) آپ کاتبِ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہیں، اس کی صراحت واقدی، ابن سیدالناس ، ابن کثیر، عراقی، اور انصاری وغیرہ نے کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ۵/۳۵۰، عیون الاثر۲/ ۳۱۵، العجالة السنیہ ۲۴۷ المصباح المضئی ۳۵/ أ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۷۲)
طبقاتِ بن سعد میں حضرت عبداللہ بن زید کا لکھا ہوا ایک خط بھی محفوظ ہے، ڈاکٹر محمد حمیداللہ حیدرآبادی نے الوثائق السیاسیہ میں اس کو نقل فرمایا ہے۔ اس کے اخیر میں ہے کہ” یہ تحریر عبداللہ بن زید نے لکھی ہے“۔ (دیکھیے: طبقات بن سعد ۱/ ۲: ۲۱ الوثائق السیاسیہ وثیقہ نمبر۴۱ بحوالہ ”نقوش“ ۷/ ۱۷۲)
۳۵ حضرت عبداللہ بن سعد ابی سرح رضی اللہ عنہ:
یہ حضرت عثمان غنی کے رضاعی بھائی ہیں، فتحِ مکہ سے پہلے ہی ایمان قبول کیا، اور ہجرت کی، پھر شیطان کے بہکاوے میں آکر مرتد ہو گئے اور مشرکینِ مکہ سے جا ملے، فتحِ مکہ کے دن حضرت عثمان غنی کی سفارش پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امان دیا، پھر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور بہت پختہ مسلمان رہے، اسلام ہی پر ان کا خاتمہ ہوا (الاستیعاب ۲/ ۳۷۵، فتح الباری ۸/ ۱۱، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵ )
ارتداد سے پہلے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا بھی موقع نصیب ہوا، اہلِ تاریخ و سیر کا اس پر اتفاق ہے۔ (سیرة ابن ہشام ۳/ ۴۰۵، تاریخ خلیفہ بن خیاط ۱/ ۷۷)
ان کے سلسلے میں بعض کتابوں میں یہ بات ملتی ہے کہ: ابن ابی سرح قرآن مجید کی کتابت میں تبدیلی کر دیا کرتے تھے، اس پر ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی نے بڑی مفصل گفتگو فرمائی ہے (دیکھیے: ”نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۱۷۳ تا ۱۷۶) انہوں نے متعدد روایتوں کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
”حقیقت یہ ہے کہ سارا قصہ غلط ہے، اور ابن ابی سرح کی طرف غلط منسوب ہے․․․․ اس طرح کی بات کی نسبت متعدد لوگوں کی طرف کی گئی ہے، انھیں میں سے عبداللہ بن خطل انصاری بھی ہے، جو مرتد ہو کر مرا تھا اور دفنائے جانے کے بعد زمین نے اس کو باہر پھینک دیا تھا، (تاریخ القرآن ص ۵۵)
قرآن مجید کی ہر قسم کی تحریف سے سلامتی ،اللہ تعالیٰ کا اس کی حفاظت کا ذمہ اٹھانا اور نبی اکرم ﷺ  کی قرآن مجید کے معاملہ میں نمایاں درجہ کی احتیاط جس کی شہادت دوستوں سے قبل دشمنوں نے دی، ان تمام چیزوں کی موجودگی میں،ہمارے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ ہم قرآن مجید میں تغیر کے اس قسم کے قصوں کو تسلیم کر لیں، خصوصاً ایسی روایات کی بنا پر جو بے سند ہیں اور جن کو ابن ابی سرح کے دشمنوں نے تراشا اور پھر ان سے دوسروں نے نقل کی۔ آگے رقم طراز ہیں:
”معتمد علیہ قدیم مصادرمیں ابن ابی سرح کے متعلق اس قسم کا کوئی قصہ مذکور نہیں ہے ، قدیم مصادر میں سے ہمارے پاس سیرة ابن ہشام، سیرة ابن اسحاق وغیرہ ہیں ان میں صرف کتابت اور ارتداد کی بات ہے اور بس“۔
آگے لکھتے ہیں کہ:
” اصل میں یہ حکایت ابن کلبی سے منقول ہے جو شیعہ تھا، اور عثمانیوں کا دشمن تھا اور واقدی سے منقول ہے جو ضعیف بلکہ وضعِ حدیث کیساتھ متہم تھا ۔“اخیر میں خلاصہ کے طور پر لکھتے ہیں:
”کاتبانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کوئی ایسی بات کہ فلاں اور فلاں قرآن میں تحریف کیا کرتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ اللہ علیہ وسلم اس سے غافل تھے، جھوٹی اور خلافِ واقع بات ہے، دین اس قسم کی ہفوات کو تسلیم کرتا ہے نہ علمی مباحث میں ایسی باتوں کو کوئی حیثیت حاصل ہے“۔ (”نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۱۷۳ تا ۱۷۶)
۳۶ حضرت عبداللہ بن سعید رضی اللہ عنہ:
آپ کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے:
عبداللہ بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبدالشمس بن عبد مناف آپ قریشی ہیں، زمانہٴ جاہلیت میں آپ کا نام ”حکم“ تھا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر” عبداللہ “رکھا، آپ لکھنا بھی جانتے تھے؛ بلکہ اچھے کاتب تھے، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ: اہلِ مدینہ کو لکھنا سکھائیں! آپ غزوہٴ بدر میں شریک ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے شہادت نصیب فرمائی، بعض روایتوں میں آپ کی شہادت ”جنگ یمامہ“ ۱۱ھ اور بعض میں ”جنگ موتہ“ ۸ھ میں نقل کی گئی ہے، واللہ اعلم (اسد الغابہ ۵/ ۲۳۹، الاصابہ ۱/۳۴۴ بحوالہ کاتبینِ وحی ص ۲۱۶)
۳۷ حضرت عبداللہ بن اُبي بن سلول رضی اللہ عنہ:
موصوف کا نام ”حباب“ تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کرکے”عبداللہ “رکھ دیا، بدر، احد اور تمام غزوات میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے، ان کا باپ رئیس المنافقین تھا۔ (الاستیعاب ۲/۳۳۵)
یہ کاتبینِ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، یعقوبی، عمرو بن شبہ، ابن عبدالبر، سہیلی، عراقی، ابن حجر، ابن سید الناس، انصاری اور عامری وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ ب، العجالة السنیہ ۲۴۷، الاصابہ ۲/ ۳۳۶، عیون الاثر ۲/۳۱۵، بہجة المحافل ۲/۱۶۱ بحوالہ ” نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۱۷۷ )
صدیقِ اکبر کے عہد خلافت میں مرتدین کے ساتھ جنگ میں شہید ہوئے (الاصابہ ۲/۳۳۶)
۳۸   حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص بن وائل رضی اللہ عنہ:
آپ لکھنا، پڑھنا جانتے تھے، اپنے والد سے پہلے ہی اسلام قبول فرمایا تھا، رسول اللہ ﷺ  سے آپ نے حدیث شریف لکھنے کی اجازت طلب فرمائی تو آپ ﷺ  نے اجازت دے دی؛ اس لیے آپ کے پاس حدیث شریف کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہو گیا تھا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مجھ سے زیادہ احادیث کا جاننے والا سوائے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کے کوئی نہیں ہے؛ اس لیے کہ یہ احادیث لکھ لیا کرتے تھے، آپ قرآن مجید کے حافظ تھے، دربار نبوی سے تین دن سے کم میں ختم کی اجازت مانگی تھی تو اجازت نہیں ملی؛ البتہ تین دن میں قرآن مجید ختم کرنے کی اجازت مل گئی۔
آپ کی وفات ۶۵ھ یا ۶۹ھ میں ہوئی۔ (الاصابہ ۲/۳۵۲، غایة النہایہ ۱/۴۳۹ بحوالہ کاتبینِ وحی ص ۹۳)
۳۹ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ:
تیسرے خلیفہ ہیں، آپ كا لقب ذو النورین ہے، پہلے حضرت رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا، ان کی وفات کے بعد ام کلثوم آپ کی زوجہ ہوئیں، آپ عشرہٴ مبشرہ میں سے ہیں۔
دربار نبوی میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت درج ذیل موٴرخین نے کی ہے: یعقوبی، عمرو بن شبہ، واقدی، طبری، ابن مسکویہ، جہشیاری، ابن کثیر، ابن اثیر، مزّی، ابن سیدالناس، عراقی، انصاری وغیرہ۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، المصباح المضئی ۸/ب البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۳۹، تاریخ طبری ۶/ ۱۷۹، تہذیب الکمال ۴/ب عیون الاثر ۲/۳۱۵، العجالة السنیہ ۲۴۵۔ بحوالہ نقوش۷/ ۱۷۷)
۲۸/ ذی الحجہ ۲۳ھ کو آپ کو خلیفہ منتخب کیا گیا، اور ۱۸/ ذی الحجہ ۳۵ھ کو عصر کے بعد جمعہ کے دن شہید کر دیے گئے۔ (الاصابہ ۲/۴۶۳)
۴۰  حضرت عقبہ بن عامر بن عبس جہنی رضی اللہ عنہ:
آپ علم فرائض اور فقہ میں بڑے ماہر تھے، زبان و بیان پر بھی اچھی خاصی قدرت تھی، شاعری کا ذوق نکھرا ہوا تھا، جمعِ قرآن میں بھی آپ نے خدمت انجام دی ہے، ابن سعد نے طبقات میں ایک وثیقہ نقل کیا ہے، جس میں کاتب کی حیثیت سے ”عقبہ“ کا نام ہے، اب یہ بات قابلِ تحقیق ہے کہ یہ عقبہ کون ہیں؟ راجح قول وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا، ڈاکٹر محمدحمیداللہ نے کاتب کا نام ”علاء بن عقبہ“ لکھا ہے؛ حالاں کہ یہ ”عقبہ “ہیں، ابن عقبہ نہیں ہیں، انصاری نے ان کو کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فہرست میں شمار کیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ علاء بن عقبہ اور ہیں اور عقبہ اور ہیں، تحقیق کے لیے ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی مدظلہ العالی کا مقالہ دیکھا جا سکتا ہے۔ (”نقوش“ رسول نمبر۷/ ۱۷۸) انہوں نے طبقات بن سعد ۱/۴، المصباح المضئی،۳۷/ أ، الوثائق السیاسیہ وثیقہ نمبر ۱۵۴ اور الاصابہ ۲/ کے حوالے درج فرمائے ہیں۔
۴۱ حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ:
آپ کا اسم گرامی علاء بن عبداللہ بن عباد تھا، حضر موت سے تعلق تھا، سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بحرین کا والی بنایا تھا۔
آپ کاتبینِ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، ڈاکٹر محمد حمیداللہ حیدرآبادی نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں متعد دستاویزات پر آپ کا نام بہ حیثیت کاتب نقل فرمایا ہے، دیکھیے وثیقہ نمبر (۱۶۵، ۱۶۶، ۱۹۶)۔
(مزید حوالوں کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب، تجارب الامم ۱/۲۹ التنبیہ والاشراف ۲۴۶، التاریخ الکامل ۲/ ۳۱۳، البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۲ عیون الاثر / ۳۱۵ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/ ۱۷۹)
۴۲ علاء بن عقبہ رضی اللہ عنہ:
یہ بھی کاتبینِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، یہ اور حضرت ارقم رضی اللہ عنہما لوگوں کے درمیان قرض، خرید و فروخت اور دیگر معاملات کے دستاویزات لکھا کرتے تھے، (الاصابہ ۲/۴۹۸)انہوں نے ہی عمرو بن حزم کا معاہدہ لکھا، جس کی اصلاح ابو موسیٰ  نے کی، الوثائق السیاسیہ میں وثیقہ نمبر ۱۵۴، ۱۵۵، ۲۱۰ پر بحیثیت کاتب دستاویز حضرت علاء بن عقبہ کا نام درج ہے۔ (مزید حوالوں کے لیے دیکھیے: التنبیہ والاشراف ۲۴۵، تاریخ طبری ۶/۱۷۹ ،اسد الغابہ ۴/۹، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۳، العجالة السنیہ ۲۴۷، عیون الاثر ۲/۳۱۶، المصباح المضئی ۳۶/ ب بحوالہ نقوش ۷/۱۷۹، ۱۸۰)
۴۳ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ:
امیر الموٴمنین خلیفہ رابع نے سرکار دوعالم ﷺ  کی گود میں پرورش پائی، حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ  سے نکاح ہوا، آپ کے بارے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أقضاہُم علی (الاستیعاب ۲/۱۱) ترجمہ: تمام صحابہ میں علی بہترین فیصلہ کرنے والے ہیں، بارہ رمضان المبارک ۴۰ھ کو دھوکہ سے آپ کو شہید کر دیا گیا۔
آپ کاتبِ وحی ہیں، اس پر تمام اہلِ تاریخ و سیر کا اتفاق ہے، ڈاکٹر محمدحمیداللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب الوثائق السیاسیہ میں درج ذیل دستاویزات پر آپ کا نام بطورِ کاتبِ تحریر نقل فرمایا ہے: (۱۱، ۳۳،۴۴، ۴۵،۸۵، ۱۱۱، ۱۴۱، ۱۶۲، ۱۶۷، ۱۷۲، ۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۳)۔ مزید حوالوں کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۸/۱۱، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۰، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، تاریخ ِ طبری ۶/۱۷۹، الوزراء والکتاب ، تجارب الامم۱/۲۹۱، التاریخ الکامل ۲/۳۱۲، تہذیب الکمال ۴/ب، العجالة السنیہ ۲۴۵، عیون الاثر ۲/۳۱۵، المصباح المضئی ۱۶/أ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۸۱)
۴۴ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ:
امیر الموٴمنین خلیفہٴ دوم کے اسلام لانے کی تمنا خود سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے، آپ کے اسلام لانے کے بعد اسلام کو بڑی تقویت حاصل ہوئی، کئی مرتبہ آپ کی رائے کے مطابق وحی نازل ہوئی۔
بلاشبہ آپ کاتب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، (اس کی صراحت درج ذیل کتابوں میں ہے: البدایہ والنہایہ (۵/۳۵۰) ، المصباخ المضئی (۸/ب)، تجارب الامم (۱/۲۹۱) اسد الغابہ (۵/۵۳)، تہذیب الکمال (۴/ب ) العجالہ السنیہ (۲۴۵) عیون الاثر (۲/۳۱۵)، بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر(۷/ ۱۸۱، ۱۸۲)۔
۴۵ حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ:
ایام جاہلیت ہی سے عرب کے نہایت ہی ہوشیار، بہادر اور شہسوار تھے، شاعری کا بھی اچھا ذوق تھا، ان کے مسلمان ہو کر مدینہ منورہ ہجرت کرنے پر سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی خوشی ہوئی تھی، آپ نے ارشاد فرمایا: ” مکہ کی زمین نے اپنے چھپے ہوئے خزانے تمہارے سامنے پھینک دیے ہیں (الاستیعاب ۱۱۵۸)
آپ کے کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صراحت درج ذیل کتابوں میں موجود ہے (المصباح المضئی ۸/ب، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، العجالة السنیہ ۲۴۶ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر۷/۱۸۲، ۱۸۳)
۴۶ حضرت محمد بن مسلمہ بن سلمہ انصاری رضی اللہ عنہ:
بعثتِ نبوی سے بائیس سال پہلے پیدا ہوئے، زمانہٴ جاہلیت ہی میں ان کا نام محمد رکھا گیا، بالکل ابتدائی دور میں ایمان قبول کیا، سرکار دوعالم ﷺ  نے حضرت ابو عبیدہ سے ان کی مواخات کرائی تھی، حق گوئی میں بڑے جری تھے۔ ”اردن“ کے ایک آدمی نے ۴۳ھ میں آپ کو مدینہ منورہ میں خود آپ کے گھر میں شہید کر دیا۔
دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، ابن سعد نے طبقات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط بھی محفوظ کیا ہے ،جس کو حضرت محمد بن مسلمہ نے رقم فرمایا تھا۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۳/ ۳۸۳، سیر أعلام النبلاء ۲/ ۲۶۷ المصباح المضئی ۳۷/ ب ، طبقات ابن سعد ۱/۸۲، الاستیعاب ۱۴۰۳ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۱۸۴)
۴۷ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ:
ہجرت نبوی سے تقریباً دس سال پہلے پیدا ہوئے، آپ کا قد لمبا، چہر ہ خوب صورت، بال حسین و جمیل، آنکھیں بڑی بڑی اور سامنے کے دانت بجلی کی مانند چمک دار تھے، آپ ان ستر صحابہٴ کرام میں سے ہیں جو بیعتِ عقبہ میں حاضر ہوئے تھے، اورجن لوگوں نے بنی سلمہ کے بتوں کو توڑا تھا، تمام غزوات میں شریک ہوئے تھے، اور عہد نبوی میں ہی قرآن مجید جمع فرمایا تھا، آپ ان چار شخصیات میں سے ہیں جن سے قرآن سیکھنے کی تلقین سرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی، آپ کے علاوہ تین شخصیات درج ذیل ہیں: حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابی ابن کعب اور حضرت سالم۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کی وفات کے بعد آپ کو شام کا والی بنایا گیا، ۸ھ میں طاعون عمواس میں شہید ہوئے۔
یعقوبی اور انصاری کی تصریح کے مطابق آپ کاتبینِ پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار ہوتے ہیں، (حوالوں کے لیے دیکھیے: (الاستیعاب ۱۴۰۴، الاصابہ ۳/ ۴۲۷ تاریخ یعقوبی ۲/۸۰ وغیرہ بحوالہ ”نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۱۸۴ تا ۱۸۶ تلخیص)
۴۸ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ:
بعثتِ نبوی سے پانچ سال پہلے پیدا ہوئے، حضرت ابوسفیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ معاویہ کو اپنا کاتب بنا لیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول فرمائی۔
ابن اسحاق، ابن سعد، ابن حنبل، عمر بن شبہ، خلیفہ ابن خیاط، طبری، جہشیاری، مسعودی، ابن مسکویہ، یعقوبی وغیرہ نے آپ کے کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔
ڈاکٹرمحمد حمیداللہ حیدرآبادی نے ”الوثائق السیاسیہ “میں درج ذیل دستاویزات پر بحیثیت کاتب، حضرت معاویہ کے نام کی تحقیق و تخریج فرمائی ہے: وثیقہ نمبر ۸۹، ۱۳۱، ۱۶۴، ۱۸۵، ۲۱۵ اور ۲۲۲۔
(حوالوں کے لیے ملاحظہ فرمائیے: البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۰، المصباح المضئی ۸/ب، تاریخ خلیفہ ۱/ ۷۷، تاریخ طبری ۶/ ۱۷۹، الوزراء والکتاب ۱۲ التنبیہ والاشراف ۲۴۶، تجارب الامم ۱/۲۹۱، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰ بحوالہ ”نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۱۸۶، ۱۸۷)
۴۹ حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ دوسی:
آپ سعید بن العاص کے آزاد کردہ غلام تھے، بیعتِ رضوان اور بعد کے سارے غزوات میں شریک ہوئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر مبارک آپ کی نگرانی میں رہتا تھا۔ شیخین نے آپ کو بیت المال کا نگراں مقرر فرمایا تھا۔
آپ کو دربارِ رسالت مآب ﷺ  میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، عمر بن شبہ اور جہشیاری نے اس کی صراحت کی ہے، اور آخر الذکر نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ ﷺ  کے لیے مالِ غنیمت کی فہرست لکھ دیا کرتے تھے، مسعودی، عراقی، ابن سید الناس اور انصاری وغیرہ نے بھی یہ بات لکھی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: العجالة السنیہ ۲۴۵ الاستیعاب ۱۷۴۸، الاصابہ ۳/ ۴۵۱، الاستیعاب ۱۷۴۹، البدایہ والنہایہ۵/۳۵۵، اسد الغابہ ۴/۴۰۳، المصباح المضئی ۸/ب، الوزراء والکتاب ۱۲، التنبیہ والاشراف ۲۴۶، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵ بحوالہ ”نقوش‘’ رسول نمبر۷/ ۱۸۷)
۵۰ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ:
آپ کو ”مغیرة الرأی“ بھی کہا جاتا تھا، آپ عرب کے نہایت ہوشیار اور چالاک لوگوں میں شمار ہوتے تھے، خندق کے سال ایمان لائے، بیعتِ رضوان میں بھی شریک رہے، غزوہٴ یرموک میں ایک آنکھ زخمی ہو گئی ،حضرت معاویہ نے آپ کو کوفہ کا گورنر بنایا تھا، آپ کاتبینِ وحی میں سے ہیں، لوگوں کے معاملات لکھا کرتے تھے، ”الوثائق السیاسیہ “میں متعدد دستاویزات آپ کے لکھے ہوئے ہیں (دیکھیے: وثیقہ نمبر ۸۱، ۸۳، ۸۶، ۹۵، ۱۵۳، ۱۹۴، ۱۹۵ اور ۲۰۴)
(مزید حوالوں کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۲/ ۴۵۲، الاستیعاب ۱۴۴۶، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۰، المصباح المضئی ۸/ب، الوزراء والکتاب ۱۲ تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، التنبیہ والاشراف ۲۴۵، تجارب الامم ۱/ ۲۹۱ العجالة السنیہ ۲۴۶، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۱۸۷، ۱۸۸)
۵۱ ایک نصرانی انصاری:
ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی ایک مجہول کاتب کے بارے میں لکھتے ہیں:
”بنی نجار کا ایک آدمی نصرانی تھا، پھراسلام لایا، سورہ بقرہ اور آل عمران پڑھی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب تھا، مگر دوبارہ مرتد ہو گیا․․․․ اللہ تعالیٰ نے اسے موت دی، لوگوں نے دفنایا تو زمین نے اسے قبول نہ کیا، اور باہر پھینک دیا۔ (انظر:خ المناقب ۲۶، الحدیث ۳۶۱۷، م فضائل و منحةالمعبود ۲/۵ بحوالہ ”نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۱۸۸)
۵۲ حضرت یزید بن معاویہ:
یہ حضرت معاویہ کے باپ کی طرف سے (علاتی) بھائی تھے، انھیں، ”یزید الخیر“ بھی کہا جاتا تھا، فتح مکہ کے دن اسلام لائے، حضرت معاذ بن جبلکے بعد شام کے والی بنائے گئے، ۱۸ھ کے طاعونِ عمواس میں فوت (شہید) ہوئے۔
آپ کو سرکار دوعالم ﷺ  کی خدمت میں کتابت کا شرف حاصل ہے ،ابن سعد، ابن مسکویہ، ابن عبدالبر، ابن عبد ربّہ، عراقی، ابن سید الناس، اور انصاری نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔
(حوالے کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۱۵۷۵، ۱۵۷۶، سیرأعلام النبلاء ۱/ ۲۳۸، المصباح المضئی ۴۲/ أ ،تجارب الامم ۱/۲۹۱، العجالة السنیہ ۲۴۶، عیون الاثر ۲/۳۱۶، بحوالہ” نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۷۸۹)
چند اور کاتبین:
ذیل میں اکیس صحابہٴ کرام اور دو ام المومنین صحابیہ کے اسمائے گرامی پیش کیے جا رہے ہیں، جن کے نام متعدد کتابوں میں ”کاتبینِ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم“ کی فہرست میں ہے: لیکن راقم الحروف کو ان کے سلسلے میں اب تک کتابت کی صریح روایات نہ مل کسی ہیں :
۵۳ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ
۵۴ حضرت ابو زید رضی اللہ عنہ
۵۵ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ
۵۶ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
۵۷  حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ
۵۸  حضرت حفصہ (ام المومنین )رضی اللہ عنہا
۵۹  حضرت خالد بن العاص رضی اللہ عنہ
۶۰  حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ
۶۱  حضرت سعد بن العاص رضی اللہ عنہ
۶۲  حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ
۶۳  حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ
۶۴  حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ
۶۵ حضرت عائشہ (ام المومنین) رضی اللہ عنہا
۶۶  حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ
۶۷  حضرت عبدالرحمن بن حارث رضی اللہ عنہ
۶۸ حضرت عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہ
۶۹  حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ
۷۰  حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ
۷۱  حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
۷۲  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
۷۳  حضرت عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ
۷۴  حضرت منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ
۷۵  نعمامن بن بشیر رضی اللہ عنہ
          تفصیلی حالات کے لیے دیکھیے: ”کاتبینِ وحی“ موٴلفہ حضرت قاری ابوالحسن اعظمی مدظلہ، شعبہٴ تجوید و قرأت دارالعلوم دیوبند۔

*        *        *





ISLAMIC-BOOKS-LIBRARY

مولانا سید مناظر احسن گیلانی رح (١٨٩٢-١٩٥٦ع)  نے "تدوین_قرآن" کے موضوع کے روایتی ذخیرے پر جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، ان کو دور کرنے کے لئے اردو زبان میں ایک مبسوط و ضخیم کتاب لکھی تھی جو ان کی کم و پیش چالیس (٤٠) برس کے مطالعہ و غور و فکر کا حاصل تھا، کتاب چونکہ مبسوط و ضخیم تھی چناچہ ان کے شاگرد_رشید و رفیق مولوی غلام ربانی (ایم، اے عثمانیہ) نے اس کا خلاصہ تیار کیا، جس پر مولانا احسن گیلانی نے اس پر خود پیش_لفظ لکھ کر اس کامیاب کوشش کو سراہتے اسے "جوہری خلاصہ" قرار دیا پھر اپنی اصل تالیف کی اشاعت سے ہاتھ اٹھایا.



No comments:

Post a Comment