Thursday, 27 September 2012

قادیانیت، عقیدہِ ختمِ نبوتؐ اور چہل حدیث

نبوت:

یعنی اللہ کا پیغام پہنچانے کی "ذمہ داری" جو اللہ پاک اپنے منتخب کردہ بندوں(مَردوں) پر  خود ڈالتا ہے۔


مُدّعِی نبوت سے دلیل طلب کرنا بھی کفر کیوں؟

امام ابوحنیفہؒ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس نے کہا کہ مجھے مہلت دو تاکہ اپنی نبوت پر دلائل پیش کروں، حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا (جو شخص نبی ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرے وہ بھی کافر ہے اور) جو اس سے دلیل طلب کرے وہ بھی کافر ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے۔۔۔
  وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي...
اور میں ختم کرنے والا ہوں نبییوں(کے سلسلہ)کو(کہ)نہیں ہے کوئی نبی میرے بعد۔﴿ابوداؤد:4252،ترمذي:2219﴾
حوالہ
[تفسیر روح البیان: ج7 ص188» ۔۔۔اور میں ختم کرنے والا ہوں نبییوں(کے سلسلہ)کو۔۔۔(سورۃ الاحزاب:40)]

[امام:ابن حجر الهيتمي المكي(م973ھ) » کتاب:الخیرات الحسان في مناقب أبي حنيفة» ج1 ص161.....أصول الدين عند أبي حنيفة: ص287]


[امام:کردری(م642ھ) » کتاب:مناقب الإمام الأعظم أبی حنیفہ » باب 7: من طلب علامۃ من المتنبی فقد کفر » ج1 ص161]



نوٹ:
کیونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم پر، جس میں حضرت محمد کا آخری نبی ہونا قرار دیا گیا ہے، دلیل پوچھنے والے کا ایمان(یقین) سچا ہوتا تو وہ دلیل پوچھتا ہی نہیں۔



ایمان اور کفر کیا ہے؟
اللہ نے جو ہدایت اپنے پیغمبر محمد ﷺ پر نازل کی ہے اسے ماننا ایمان ہے۔
[حوالہ»سورۃ البقرۃ:4 النساء:162]

اس کا انکار یا شک کرنا کفر ہے۔
[حوالہ»سورۃ البقرۃ:23 یونس:37]

اللہ کی پیغمبر پر نازل کردہ ہدایت پر ایمان لانے(ماننے)والے "شخص" کو مؤمن کہتے ہیں۔
[حوالہ»سورۃ النور:62]
اور اس کا انکار کرنے والے کو کافر کہتے ہیں۔
[حوالہ»سورۃ النساء:150-151]
مؤمن کو مؤمن نہ ماننا بھی آیات کا انکار وکفر ہے۔
[حوالہ»سورۃ الانفال:2-4، 74]
اور کافر کو کافر نہ ماننا بھی آیات کا انکار وکفر ہے۔
[حوالہ»سورۃ النساء:150-151]






حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ
ترجمہ:
رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، لہٰذا میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہ ہوگا۔۔۔۔
[سنن الترمذي: حديث نمبر 2272]
[مسند احمد: حديث نمبر 13824]
[المستدرك الحاكم: حديث نمبر 8178]

[تفسیر ابن کثیر: جلد6 صفحہ428» سورۃ الاحزاب:40]
[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی: جلد4 صفحہ376» سورۃ الاحزاب:40]







گگگگگ 



القرآن:
اور نہ ملاؤ حق(سچ) کو باطل(جھوٹ) سے، اور مت چھپاؤ (پورے) حق(سچ) کو، جبکہ تم جانتے ہو۔
[سورۃ البقرۃ:42]

*یہودیوں کے مطابق:* عیسائی یہودیوں میں شامل نہیں، اگرچہ وہ یہودیوں کے نبی موسیٰ اور ان کی کتاب توریت کو "بھی" مانیں، اس لئے کہ وہ موسیٰ کے بعد عیسیٰ اور ان کی کتاب انجیل کو "بھی" مانتے ہیں۔

*یہودیوں-عیسائیوں کے مطابق:* مسلمان، یہودیوں-عیسائیوں میں شامل نہیں۔ اگرچہ وہ حضرت موسیٰ وعیسیٰ اور انکی کتابوں توریت وانجیل کو بھی مانیں، اس لئے کہ وہ ان کے بعد حضرت محمد اور انکی کتاب قرآن کو "بھی" مانتے ہیں۔

*اسی طرح مسلمانوں کے مطابق»* قادیانی مسلمانوں میں شامل نہیں، اس لئے کہ وہ حضرت محمد کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں۔

جس طرح یہودی یا عیسائی بھی قادیانیوں کو یہودی یا عیسائی کہلانے کا حق نہیں دیتے۔ کیونکہ یہ حق نہیں جعلسازی ہے، جو سب کے نزدیک مردود ہے۔

قادیانی اپنا اسثلٹیٹس قبول نہیں کر رہے، الٹا وہ مسلمانوں ہی کے حقوق(مذہبی شناخت اور نشانات) کو اپنا حق بنانا چاہتے ہیں۔
جبکہ
ایسا کوئی ہندو سکھ، یہودی عیسائی وغیرہ کوئی بھی نہیں کرتا۔
لہٰذا
زیادتی مسلمان نہیں کر رہا، بلکہ قادیانی کر رہا ہے۔
یہ امن-پسند کافر نہیں، بلکہ فسادی کافر ہے۔


گگگگگگ

علمِ تفسیرِ قرآن، اقسامِ تفسیر، اصولِ تفسیر اور مفسرین


قرآن کریم اللہ تعالی کی جانب سے نازل کردہ ہدایت نامہ ہے،جس میں ساری انسانیت کے لیے رہنمائی ہے،جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

(الحجر:۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر(یعنی قرآن)ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔



إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ

(بنی اسرائیل:۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دِکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔

لہذا جو شخص بھی اس کو اپنائے گا  اس کواللہ کی جانب سے صحیح راستہ دکھایا جائے گا اور جو اس سے اعراض کرےگا تو اس کے لیے دنیاوی زندگی بھی تنگ کردی جائیگی اور آخرت میں تو سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑےگا۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَایَضِلُّ وَلَا یَشْقَیo وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی"۔

(طٰہٰ:۱۲۴،۱۲۳)

جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ مشکل میں گرفتار ہوگااور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔

 الغرض رب کائنات کی جانب سے انسان کی رہبری کے لیے قرآن ایک مکمل دستوراور ضابطۂ حیات ہے اور اس کتاب کے بغیر انسانیت نامکمل ہے۔

نصیحت حاصل کرنے اور یاد رکھنے کیلئے تو قرآن  آسان ہے لیکن بیان کیلئے پیغمبر کی وضاحت ضروری ہے۔


تفسیر قرآن کریم
جب یہ کتاب رہبری کے لیے نازل کی گئی تو اس کو آسان کرنا بھی ضروری ہے؛ جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے:

"وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ "۔                 

(سورۃ القمر:۱۷)

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے ، اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔

اِسی سورت میں یہ آیت چار جگہ پر آئی ہے؛ نیز اس کو آسان کرنے کی مختلف شکلیں حق تعالیٰ نے واضح فرمائی ہیں، مثلاً سورۂ قیامہ میں فرمایا:

" اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗoفَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗoثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ"۔

(القیامۃ:۱۷۔۱۹)

یقین رکھو کہ اس کو یاد کروانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے، پھر جب ہم اسے(جبرئیل کے واسطے سے) گویا اس کو پڑھ رہے ہوں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔ پھر اس کی وضاحت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔


 تفسیر کا اولین حق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ہی حاصل ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق (فداہ ابی وامی)  کے ذریعہ واضح کیا؛ چنانچہ فرمایا:

"وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ"۔

(سورۃ النحل:۴۴)

اور (اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کردو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔

 آیت شریفہ میں "الذکر" سے مراد قرآن کریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی تبیین وتفسیر کی ذمہ داری آپ    پر ہے اور پھر اس کے بعد عوام پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس پر غور وفکر سے کام لیں؛ الغرض یہ ہے تفسیر وتاویل وتبیین۔



پبغمبر کا کام (1)تلاوت، (2)تزکیہ اور (3)تعلیم بھی ہے۔

اللہ پاک نے فرمایا:

حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔

[سورۃ آل عمران:164]

آیت سے ماخوذ آدابِ علم:
(1)کتاب پڑھنے سے پہلے معلم(استاد) سے سیکھنا۔ کتاب پڑھنے سے پہلے معلم کو سننا۔
(2)حکمت یعنی کتاب پر عمل کا طریقہ، موقع اور محل کی سمجھ بھی معلم(استادسے سیکھنا۔
(3)کتاب وحکمت سے پہلے معلم(استاد) سے اپنا تزکیہ یعنی تربیت کروانا۔
(4)استاد کی صحبت (Companionship) اہم ہے تزکیہ، تعلیم اور حکمت کیلئے۔
جیسے تربیت کرنے والا پہلے سناتا پھر عمل کرواتا اور پھر وضاحت کرتا ہے۔



قرآن کی شرعی حیثیت

قرآن مجید کو ایسے وقت میں نازل کیا گیا، جب کہ معاشرہ کے اندر بہت سی خرابیاں جنم لےچکی تھیں اور بڑی حد تک اس میں پختگی بھی آگئی تھی، جن کی اصلاح بہت  ضروری تھی، قرآن پاک جن اہم اصلاحی ہدایات ومضامین پر مشتمل ہے، انہیں ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:
(۱)تکمیل شریعت
(۲)نسل انسانی سے نفرت وتعصب کو دور کرکے اسے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا
(۳)مذہبی اختلافات کا خاتمہ
(۴)کتب سابقہ کے برحق ہونے کی تصدیق  اور ان کی غلطیوں کی اصلاح
(۵)تکمیل انسانیت
(۶)گمشدہ توحید کو دوبارہ قائم کرنا
(۷)اللہ تعالیٰ کے ازلی ارادہ کی تکمیل:جس میں  انسانوں کے لیے رہنمائی موجود ہو (اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۲۳۹) اسی کے ساتھ مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ اگر جھگڑا ہوجائے یاکوئی اور معاملہ درپیش ہوتو سب سے پہلے قرآن پاک کی طرف رجوع کیا کرو اور ایسا ہونا بھی چاہیے؛ کیونکہ وہ خدا کا نازل کردہ دستورِحیات ہے، جس سے کسی حال میں صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا ہے؛ چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ"۔

(النساء:۵۹)

ترجمہ:پس اگر کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو تو اس امر کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالہ کردیا کرو؛ اگرتم اللہ پر یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔          


یعنی اگرتم میں اور "اولوالامر" میں باہم اختلاف ہوجائے کہ حاکم کا یہ حکم اللہ اور رسول کے حکم کے موافق ہے یامخالف، تواس کو کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کی طرف رجوع کرکے طے کرلیا کرو کہ وہ حکم فی الحقیقت اللہ اور رسول کے حکم کے موافق ہے یامخالف اور جوبات محقق ہوجائے اسی کو بالاتفاق مسلم اور معمول بہ سمجھنا چاہیے اور اختلاف کو دورکردینا چاہیے؛ اگرتم کواللہ اور قیامت کے دن پر ایمان ہے؛ کیونکہ جس کو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان ہوگا وہ ضرور اختلاف کی صورت میں اللہ اور رسول کے حکم کی طرف رجوع کرےگا اور ان کے حکم کی مخالفت سے بے حد ڈرےگا، جس سے معلوم ہوگیا کہ جو اللہ اور رسول کے حکم سے بھاگے گا وہ مسلمان نہیں؛ اس لیے اگردومسلمان آپس میں جھگڑیں، ایک نے کہا:چلو شرع کی طرف رجوع کریں، دوسرے نے کہا میں شرع کو نہیں سمجھتا یامجھ کو شرع سے کام نہیں تو اس کو بیشک کافر کہیں گے۔                           

(فوائد عثمانی برترجمہ شیخ الہندؒ، النساء:۵۹)

مذکورہ آیت اور فوائد تفسیری سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب اللہ کی کتنی ضرورت ہے اور اس کی کتنی اہمیت ہے کہ اس کے ذریعہ معاملہ کو حل کرنے کاحکم ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے کسی بھی معاملہ میں کتاب اللہ کی طرف رجوع ہونا چاہیے؛ پھرکسی دوسری چیز کی طرف؛ چنانچہ علامہ شہر ستانی (متوفی:۵۴۸ھ) فرماتے ہیں کہ اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ جب کوئی شرعی مسئلہ پیش آئے؛ خواہ وہ حلال سے متعلق ہو یاحرام سے اور اس میں اجتہاد کی ضرورت پڑے تو سب سے پہلے قرآن پاک سے اس کی ابتداء کرنی چاہیے؛ پس اگر اس سے رہنمائی حاصل ہوجائے توپھر دوسری طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔      

(الملل والنحل:۱/۱۳۶)

حضرت عمرفاروقؓ نے قاضی شریح کے نام جوخط لکھا تھا اس میں یہ مذکور ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے توکتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرو اگراس معاملہ کا فیصلہ کتاب اللہ میں مذکور نہ ہو تب دوسری طرف دیکھا کرو۔
حضرت ابن مسعودؓ کا فرمان  ہے:"تم میں سے کسی کے سامنے کوئی مقدمہ درپیش ہوتووہ اس کا کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرے اگراس کا فیصلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو وہ رسول اکرمکی احادیث کے مطابق حکم دے"۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے جب کوئی بات دریافت کی جاتی تھی تو آپ اس کا جواب کتاب اللہ کے مطابق دیتے تھے، ان واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی کتاب کا درجہ سنت سے پہلے (بلکہ تمام ادلۂ شرعیہ پر مقدم) ہے اور عقل وفطرت کا تقاضہ بھی یہی ہے۔           

  (حیات امام ابن القیم:۲۵۸)

 ان تمام امور پر روشنی ڈالنا مقصود نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا یہ موضوع ہے، ذیل میں ہم صرف اس بات کا جائزہ لیں گے کہ قرآن پاک ایک دستورِ حیات ہے اور فقہی احکامات کی تعیین میں اسے اولین ماخذ ہونے کی حیثیت ہے۔
مضامین قرآن
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ درجِ ذیل مضامین کو بیان کیا ہے اور وہ یہ ہیں:
(۱)جزائے ایمان کے مباحث
(۲)عبادات کے مباحث
(۳)حسنات وسیئات کا بیان
(۴)قصص وحکایات کا بیان
(۵)نجاتِ حقیقی اور اس کے حصول کے ذرائع کا بیان
(۶)رسولِ کریم  کے سوانح اور آپ  کی نبوت کے دلائلِ کاملہ کا بیان
(۷)خصائص قرآن کا بیان
(۸)اسلام کی حقیقت اور اس کی صداقت پر دلائل قاطعہ کا بیان
(۹)کفروشرک کے تفصیلی احوال
(۱۰)اور مظاہر قدرت کا بیان۔            

       (اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۲۳۹)

حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے مضامین قرآنی کی بہت ہی جامع تقسیم کی ہے، جوپانچ قسموں پر مشتمل ہے:
(۱)علم الاحکام یعنی عبادات، معاملات اور معاشرتی وسیاسی مسائل؛ نیزعلمی زندگی کے متعلق احکام وہدایات۔
(۲)علم المخاصمہ یعنی یہود ونصاریٰ، مشرکین ومنافقین اور مذاہب باطلہ کی تردید اور اسلام کی تائید اور حقانیت کے ثبوت پر مشتمل آیات۔
(۳)علم التذکیر بایات اللہ یعنی اللہ کی نعمتوں، قدرتوں اور اس کے نوازشات وانعامات، نیزجنت جیسی آرامگاہ میں قیام کا تذکرہ اور مجرموں کی سزاؤں پرمشتمل آیات۔
(۴)علم التذکیر بالموت، یعنی وہ آیات جوموت اور مابعدالموت، حساب کتاب اور نیک اور بُرے اعمال کے بدلے پر مشتمل ہیں۔
(۵)علم التذکیر بایام اللہ، یعنی وہ آیات جو سابقہ امتوں کی معاشرتی ومعاملاتی حالات، انبیاءؑ کی تعلیم سے اعراض وسرکشی پرعذاب خداوندی وغیرہ، یہ سب امت محمدیہ کی عبرت وموعظت کے لیے تفصیل کے ساتھ مذکورہ ہیں۔         

(الفوزالکبیر:۲)

حجیت قرآن
قرآن پاک دوسری سابقہ کتابوں کے مقابلہ میں قیامت تک دین کی اساس کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے، جس کا ہمیں اللہ نے مضبوطی سے تھامنےکا حکم دیا؛ چنانچہ ارشادِ باری ہے:

"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"۔        

(آل عمران:۱۰۳)

ترجمہ:اورمضبوط پکڑےرہو اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو اس طور پر کہ (تم سب) باہم متفق بھی رہو۔

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلِہِ"۔

(مشکوٰۃ:۳۱)

ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑ رہا ہوں، جب تک تم اس کو تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہو گے:ایک کتاب اللہ دوسری سنتِ رسول۔

مذکورہ آیت اور حدیث سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قرآن پاک دین وشریعت کی اصل اساس ہے اور یہی تمام ادلہ میں سب سے مقدم اور سب سے محکم ہے، قرن اوّل سے ہی اس سے احکامِ شرعیہ کا استخراج ماخذ اوّل کی حیثیت سے کیا جاتا ہے، آپ  نے حضرت معاذؓ کو جب یمن کی جانب قاضی بناکر بھیجا تھا تو اُس وقت آپ نے اُن سے پوچھا تھا، اے معاذؓ جب تمھیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتو کس چیز سے فیصلہ کروگے؟ تو معاذؓ نے جواباً عرض کیا:کتاب اللہ سے؛ پھرآپ  نے پوچھااگراس مسئلہ کا حل قرآن میں نہ مل سکا تو؟ آپؓ نے فرمایا احادیث سے؛ پھرآپ نے پوچھا اگر اُس میں بھی نہ ملے تو؟ آپؓ نے عرض کیا "اجتہد برائی" اپنی اجتہاد سے اس مسئلہ کا حل نکال لونگا اورساتھ ہی فرمایا"ولا الو" حق کی تلاش میں لاپرواہی اختیار نہ کرونگا۔    

   (ابوداؤد:۲/۵۰۵)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ادلہ اربعہ میں قرآن کو اولین ماخذ کی حیثیت حاصل ہے، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کے ساتھ حدیث بھی ضروری ہے جس کی وجہ سے آپ  نے معاذؓ کے مزاجِ دین سے واقفیت اور شریعت سے مکمل طور پر مطلع ہونے سے خوشی کا اظہار فرمایا اور خدا کا شکر بجالاتے ہوئے فرمایا:

"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يَرْضٰی رَسُولؑ اللَّهِ"۔

(ابوداؤد، باب اجتہاد الرأی فی القضاء، حدیث نمبر:۳۱۱۹)

ترجمہ:تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق دی کہ اس سے اس کا رسول راضی ہے۔

زمانۂ رسالت کے بعد بھی دورِخلافت اور عام صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) اور فقہاء کا یہی معمول رہا ہے کہ مسائل کے استخراج میں کتاب اللہ کو مقدم رکھتے تھے؛ پھرسنتِ رسول اللہ کو، اس لیے پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسائل کے استخراج میں اولیت کتاب اللہ کو حاصل ہے؛ پھرسنتِ رسول اللہ کو ہے۔
شیخ محمد خضری بک لکھتے ہیں کہ کتاب اللہ قطعی حجت ہے ،جس کو مضبوطی سے تھامنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا واجب ہے۔

(تاریخ التشریع الاسلامی:۱۹)

قرآن کی حجیت پر مثال کے طور پر صرف ایک آیت اور دوحدیثیں پیش کی گئی ہیں؛ ورنہ اس کے علاوہ بہت سی آیات اور احادیث کتاب اللہ کی حجیت پر دال ہیں، جنھیں بغرضِ اختصار قلم انداز کیا جاتا ہے؛ نیزاس پر تاریخی شواہد بھی موجود ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن حکیم کو قانون کا اولین ماخذ بنایا، نبی کریم  اور صحابہ کرامؓ کے عہد میں قرآن حکیم سے مکمل طور پر استفادہ کیا جاتا رہا، چوروں کے ہاتھ کاٹے گئے، زانیوں کوکوڑے لگائے گئے، شراب پینے والوں پرتعزیرنافذ ہوئی، بدکرداروں کو ملک بدر کیا گیا، نکاح وطلاق نیز وراثت کی تقسیم کے فیصلے قرآن حکیم کے احکام کے مطابق کئے گئے، ان سب سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے یہاں ابتداء ہی سے، قرآن حکیم قانون کا اصلی اور بنیادی ماخذ تھا؛ البتہ اتنی بات قابل تسلیم ہے کہ قرآن حکیم اصولوں کی کتاب ہے اور اس میں جملہ جزئیات کا احاطہ نہیں کیا گیا اور قرآن حکیم کوقانونی ماخذ بنانے کے لیے جن کلیات کی ضرورت تھی، وہ بعد میں مرتب ہوئے اور آج تک مرتب ہورہے ہیں، آج بھی اگر کوئی جدید مسئلہ درپیش ہو اور قرآنِ حکیم کی کسی آیت سے کوئی کلیہ بنایا جاسکے تو وہ ہمارے لیے ویسے ہی قابلِ عمل ہوگا، جیسے امام شافعیؒ یاامام ابوحنیفہؒ کا قائم کردہ کوئی کلیہ قابلِ عمل ہوتا ہو۔
اسی لیے مسلمانوں کے یہاں ایک عام اصول رہا کہ ایسی کوئی بات تسلیم نہیں کی جائیگی جوقرآن حکیم کے احکام یااس کی روح کے خلاف پائی جائے۔                     

(اسلام اور مستشرقین:۲/۱۴)




قرآن کا فقہی اسلوب بیان
قرآن میں جہاں اصلاح، عقیدہ، عبرت وموعظت کی آیتیں ہیں ،وہیں فقہی احکام سے متعلق بے شمار آیات ہیں، کبھی توامر کے صیغے سے فرضیت کا حکم دیا گیا ہے:

"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ"۔  

  (البقرۃ:۴۳)

ترجمہ:اور قائم کرو نماز کو (یعنی مسلمان ہوکر) اور دوزکوٰۃ کو۔

یہاں پر نماز وزکوۃ کو صیغہ امر سے بیان کیا گیا؛ مگرشرعاً یہ دونوں احکام فرض کے قبیل سے ہیں اور کبھی تو ماضی کے لفظ (کتب) سے فرضیت ثابت کی جاتی ہے جیسے:

"كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ"۔

(البقرۃ:۱۷۸)         

تم پر (قانون) قصاص فرض کیا جاتا ہے۔

"كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ"۔    

(البقرۃ:۱۸۳)       

تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔

اورکبھی مضارع کے لفظ سے وجوب کا حکم ثابت ہوتا ہے، جیسے:

"وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ"۔

(البقرۃ:۲۲۸)

ترجمہ:اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو (نکاح سے) روکے رکھیں۔   


اس آیت میں مطلقہ عورتوں کو عدت کے گذارنے کا حکم دیا گیا ہے، جوواجب ہے اور کبھی انجام کار اور نتیجہ کے خراب ہونے کی وعید سناکر حکم دیا جاتا ہے، جیسے:

"وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ"۔

(النساء:۹۳)

ترجمہ:اور جومرد چوری کرے اور جوعورت چوری کرے سوان دونوں کے (داہنے) ہاتھ (گٹے) پر سے کاٹ ڈالو۔ 


کبھی توصراحتاً ممانعت اور نہی کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے:

"وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ"۔    

    (الانعام:۱۵۱)

ترجمہ:اورجس شخص کے قتل کرنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے، ہاں! مگرحق پر ہو۔                         

کبھی فعل مباح سے اور کبھی دوسرے طریقوں سے بھی احکام بیان کئے گئے ہیں جس سے ان احکام کا طرز مختلف معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ بعض احکام میں فرضیت کا درجہ ہے تو بعض میں واجب کا، بعض میں سنن ومستحبات کا، بعض میں مباحات کا اور جن باتوں سے منع کیا گیا اس میں بھی بعض حرام کا درجہ رکھتے ہیں تو بعض مکروہ کا یامحض خلافِ اولیٰ کا۔


(سہ ماہی مجلّہ، الصفا، سبیل السلام حیدرآباد)





کتاب اللہ سے اخذ معانی کے طریقے
قرآن مجید سے احکام درجِ ذیل چار طریقوں سے مستنبط ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں:
(۱)عبارۃ النص
(۲)اشارۃ النص
(۳)دلالۃ النص
(۴)اقتضاء النص۔
عبارۃ النص
عبارۃ النص سے استدلال کرتے وقت احکام صرف لفظ کے صیغہ (form) سے ہی معلوم ہوجاتے ہیں؛ کیونکہ اس حکم کے واسطے ہی نص(text) کو نازل کیا گیا تھا؛ نیز اس کا مفہوم غور وفکر کے بغیر اوّلِ وہلہ(پہلے لمحہ) ہی میں سمجھ میں آجاتا ہے، مثلاً: قرآن نے کہا: "وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا" (سورۃ البقرۃ:۲۷۵) اس نص سے خریدوفروخت کی حلت (permission) اور سود کی حرمت(prohibition) کسی غور وفکر کے بغیر سمجھ میں آجاتی ہے اور اس نص کا مقصود بھی یہی ہے؛ اسی کو عبارۃ النص کہتے ہیں۔
دلالۃ النص
جو حکم نص کے الفاظ سے ثابت تو نہ ہو لیکن نص کو سنتے ہی ذہن اس حکم کی طرف منتقل ہوجاتا ہو ،وہ دلالۃ النص ہے، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے "فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا" (سورۃ  الاسراء:۲۳) اس آیت کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی کسی بات پراُف کہنا حرام ہے؛ لیکن دلالۃ النص کے طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اُف کہنا حرام ہے تو سب وشتم کرنا یا جسمانی اذیت دینا بدرجہ اُولیٰ حرام ہوگا؛ کیونکہ یہ تکلیف "اف" کہنے سے بھی بڑھ کر ہے۔
اشارۃ النص
نص جس بات کو بتانے کے  لیے وارد نہ ہوئی ہو؛ لیکن نص کے اصل الفاظ ہی سے جو بات سمجھ میں آجائے وہ اشارۃ النص ہے، مثلاً ارشادِ خداوندی ہے "وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ" (البقرۃ:۲۳۳) اس آیت کا ظاہری مفہوم (عبارۃ) تو یہ ہے کہ ماں کے نفقہ کی ذمہ داری باپ پر ہے؛ لیکن اس میں لفظ ہے "الْمَوْلُوْدِ" اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولاد باپ ہی کی طرف منسوب ہوگی، ماں کی طرف نہیں؛ کیونکہ اس لفظ کے ذریعہ "ولد" کی نسبت باپ کی طرف کی گئی ہے یہی اشارۃ النص ہے۔
اقتضاء النص
نص اور شارع کے کلام کے صحیح ہونے کے لیے بعض اوقات کسی لفظ کو محذوف ماننا ضروری ہوجاتاہے، اس کو"مقتضی" کہتے ہیں اور اس سے ثابت ہونے والے حکم کو "اقتضاء النص" کہتے ہیں مثلاً  آیت قرآنی ہے "حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ" (المائدۃ:۳) اس میں حرمت کی نسبت میتہ اور دم کی طرف کی گئی ہے؛ حالانکہ یہ درست نہیں؛ کیونکہ حرمت کا تعلق منھی عنہ (جس چیز سے منع کیا گیا ہے) اس کی ذات سے نہیں ہوتا؛ بلکہ مکلّف کے فعل سے ہوتا ہے؛ پس آیت کا مفہوم اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک کہ مکلّف سے متعلق کوئی فعل محذوف نہ مانا جائے اور ظاہر ہے کہ وہ فعل "اکل" ہی ہوسکتا ہے؛ لہٰذا آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ مردار کا کھانا اور خون کا پینا حرام ہے اور یہاں پر یہی شارع کی مراد ہے۔          
(مجلّہ فقہ اسلامی:۱۳۵)
قرآن کا تدریجی اندازِ بیان
جب آپ  مبعوث ہوئے تو اس وقت عربوں میں بعض اچھے عادات تھے، جوبقاء کے  لحاظ سے صالح تھے اور ان سے امت کے تکوین پر کوئی نقصان نہیں ہوتا تھا، دوسری طرف اُن میں بعض عادات ایسے بھی تھے جنھوں نے اُن کے اندر اچھی خاصی جگہ بنالی تھی اور ان کے دل میں گھر کرگئی تھیں، انسان حددرجہ وحشیانہ زندگی کا عادی بن چکا تھا اور اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ ایک دم پاکیزہ زندگی کواختیار کرے؛ اس لیے قرآن پاک نے آہستہ آہستہ انسان کی تہذیبی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے احکامات دیئے، خرابی کو ختم کیا گیا اور یہی فطرت کے مناسب بھی ہے؛ کیونکہ اگر ان خرابیوں کوایک دم روک دیا جاتا توطبیعت پر بڑی گرانی ہوتی اور ان سے رُکنا مشکل ہوجاتا، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک میں پہلے خرابی کے نقصانات اور منافع کو شمار کرایا جاتا ہے؛ پھرمفاسد کے پیشِ نظر اس حکم سے منع کیا جاتا ہے،مثلاً شراب کی حرمت بیان کرنا مقصود تھا تو قرآن میں سب سے پہلے اس کے گناہ کے کام میں سے ہونے کی صراحت کی گئی اور ساتھ ہی اس کے منافع کا بھی اعتراف کیا گیا؛ لیکن بعد میں یہ صاف صاف کہہ دیا گیا کہ اس میں نفع سے زیادہ نقصان کا پہلو ہے ،جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا"۔          

(البقرۃ:۲۱۹)

ترجمہ: ان دونوں (خمرومیسر) کے استعمال میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی ہیں اور لوگوں کے بعض فائدے بھی ہیں اور وہ گناہ کی باتیں ان کے فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔

دیکھئے یہاں پر بیک وقت اُن دونوں سے رُکنے کا حکم نہیں دیا گیا؛ مگراس انداز سے لوگوں کو ان کا گناہ کے قبیل سے ہونا سمجھ میں آنے لگا اور کچھ نہ کچھ اس کی طرف سے نفرت ہونے لگی تو پھرلوگوں سے کہا گیا:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى"۔   

    (النساء:۴۳)

ترجمہ:اے ایمان والو! تم نماز کے پاس بھی ایسی حالت میں مت جاؤ کہ تم نشہ میں ہو۔

اس نہی میں پہلے حکم کو باطل کرنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ اس کو مزید مؤکد کرنا ہے پھرجب ان لوگوں کے اندر شراب کی طرف سے اچھی طرح بے اطمینانی ہوچکی توصریح طور پر روک دیا گیا کہ شراب نوشی شیطان کے گندے کام میں سے ہے؛ لہٰذاتم اس سے باز آجاؤ؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"۔         

   (المائدۃ:۹۰)

ترجمہ:اے ایمان والو (بات یہی ہے کہ) شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر (یہ سب) گندے شیطانی کام ہیں سوان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔  

جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں کے سامنے شراب کی حرمت واضح طور پر آگئی اور لوگ اس سے اجتناب کرنے لگے۔

(تاریخ التشریع الاسلامی:۱۸،۱۹)

قرآن اصول وکلیات کا مجموعہ
قرآن پاک میں ہرحکم کی تفصیل موجود نہیں ہے، عام طور پر کلیات کے بیان پر اکتفاء کیا گیا ہے اور خدائی کلام کے لیے یہی مناسب تھا؛ کیونکہ ہرحکم کی تفصیلات پیش کرنے سے کتاب نہایت طویل ہوجاتی اور اس سے استفادہ کرنا مشکل ہوجاتا، آپ بھی نمونہ کے طور پر قرآن کے ان آیات کا ملاحظہ کیجئے جن میں اس طرح کے اصول بیان کئے گئے ہیں، مثلاً:

"وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى"۔                

       (الانعام:۱۶۴)

ترجمہ:کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔

"وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى"۔           

(النجم:۳۹)

ترجمہ:انسان کے لیے صرف وہ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ"۔          

         (المائدۃ:۱)

ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے وعدوں کو پورا کرو۔

"وَلَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ"۔                                   

(البقرۃ:۱۸۸)

ترجمہ:اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ پہنچاؤ ان کو حاکموں تک کہ کھاجاؤ لوگوں کے مال میں سے کوئی حصہ ناحق درآنحالیکہ تم جانتے ہو۔

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّاأَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ"۔            

(النساء:۲۹)

ترجمہ:اے ایمان والو! نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کا ناحق مگر یہ کہ آپس کی مرضی سے تجارت کرو۔


"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ"۔           

  (النساء:۵۸)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔

"وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا"۔                

      (الاسراء:۳۴)

ترجمہ:اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگربہتر طور پر جب تک کہ وہ جوانی کو پہنچے اور عہدکوپورا کرو، بیشک عہد کے متعلق بازپرس ہوگی۔

"الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ"۔            

(البقرۃ:۲۲۹)

ترجمہ:طلاق رجعی ہے دوبار تک اس کے بعد دستور کے موافق رکھ لینا یابھلی طرح سے چھوڑ دینا۔

"وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ..... لَاتُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَامَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ"۔          

    (البقرۃ:۲۳۳)

ترجمہ:اور باپ کے ذمہ ان عورتوں کا حسب دستور کھانا کپڑا ہے، نقصان نہ دیا جائے ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے اور نہ باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے۔

"وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا"۔       

  (الشوریٰ:۴۰)     

ترجمہ:برائی کا بدلہ برائی ہے برابر برابر۔

"وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ"۔    

   (الطلاق:۲)       

ترجمہ:تم اپنے میں سےمعتبر لوگوں کو شاہد بناؤ۔

"وَلَاتَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ"۔      

        (البقرۃ:۲۸۳)

ترجمہ:شہادت کو مت چھپاؤ، جو شخص اس کو چھپاتا ہے اس کا دل گنہگار ہے۔

"وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ"۔              

      (البقرۃ:۲۸۰)

ترجمہ:اگرمقروض تنگ دست ہے تو اس کو آسانی حاصل ہونے تک مہلت دو۔

"يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ"۔           

        (البقرۃ:۱۸۵)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا۔

"وَمَاجَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ"۔          

              (الحج:۷۸)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ دین کے بارے میں تم پر تنگی نہیں کی ہے۔

"فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ"۔         

      (البقرۃ:۱۷۳)

ترجمہ:پھرجو کوئی بھوک سے بے اختیار ہوجائے نہ فرمانی کرے، نہ زیادتی تواس پر کوئی گناہ نہیں۔

الغرض کتاب اللہ تمام اسلامی قوانین کی اصل بنیاد واساس ہے اور ذریعہ ثبوت کے اعتبار سے اس درجہ قطعی ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کے ہمسر نہیں، اس کتاب میں زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا، چاہے وہ ایمانیات کے قبیل سے ہوں یاعبادات کے شخصی احکام ہوں یامالی معاملات، اجتماعی قوانین ہوں یاتعریزی قوانین، ملکی مسائل ہوں یابین الا قوامی مسائل، امن کے حالات ہوں یاجنگ کے حالات، یہ کتاب ہرحال میں انسانیت کی رہبری کا فریضہانجام دیتی ہے۔

"وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ"۔            

     (النحل:۸۹)

ترجمہ:اور مسلمانوں کے واسطے بڑی ہدایت اور بڑی رحمت اور خوشخبری سنانے والا ہے۔

یہی وہ کتاب ہے جس سے دنیا کو افراط وتفریط سے پاک زندگی کا نقشہ میسر آسکتاہے۔

"إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ"۔            

      (آل عمران:۱۹)

ترجمہ:بلاشبہ دین حق اور مقبول اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔




علمِ تفسیرِ قرآن، اقسامِ تفسیر، اصولِ تفسیر اور مفسرین
قرآن کریم اللہ تعالی کی جانب سے نازل کردہ ہدایت نامہ ہے،جس میں ساری انسانیت کے لیے رہنمائی ہے،جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشادہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

(الحجر:۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر(یعنی قرآن)ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ

(بنی اسرائیل:۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دِکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔

لہذا جو شخص بھی اس کو اپنائے گا  اس کواللہ کی جانب سے صحیح راستہ دکھایا جائے گا اور جو اس سے اعراض کرےگا تو اس کے لیے دنیاوی زندگی بھی تنگ کردی جائیگی اور آخرت میں تو سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑےگا۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَایَضِلُّ وَلَا یَشْقَیo وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی"۔

(طٰہٰ:۱۲۴،۱۲۳)

جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ مشکل میں گرفتار ہوگا اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔

 الغرض رب کائنات کی جانب سے انسان کی رہبری کے لیے قرآن ایک مکمل دستوراور ضابطۂ حیات ہے اور اس کتاب کے بغیر انسانیت نامکمل ہے۔
تفسیرقرآن کریم
جب یہ کتاب رہبری کے لیے نازل کی گئی تو اس کو آسان کرنا بھی ضروری ہے؛ جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے:

"وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ "۔                 

(القمر:۱۷)

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے ،اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔

اِسی سورت میں یہ آیت چار جگہ پر آئی ہے؛ نیز اس کو آسان کرنے کی مختلف شکلیں حق تعالیٰ نے واضح فرمائی ہیں، مثلاً سورۂ قیامہ میں فرمایا:

" اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗoفَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗoثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ"۔

(القیامۃ:۱۷۔۱۹)

یقین رکھو کہ اس کو یاد کروانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے،پھر جب ہم اسے(جبرئیل کے واسطے سے) گویا اس کوپڑھ رہے ہوں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔

 تفسیر کا اولین حق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ہی حاصل ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق (فداہ ابی وامی)  کے ذریعہ واضح کیا؛ چنانچہ فرمایا:

"وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ"۔

(النحل:۴۴)

اور (اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کردو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔

 آیت شریفہ میں "الذکر" سے مراد قرآن کریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی تبیین وتفسیر کی ذمہ داری آپ    پر ہے اور پھر اس کے بعد عوام پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس پر غور وفکر سے کام لیں؛ الغرض یہ ہے تفسیر وتاویل وتبیین۔
تفسیر کی تعریف
یہ لفظ "فسر" سے مشتق ہے جس کے معنی کھولنے کے آتے ہیں؛ چونکہ اس کے ذریعہ قرآن کے معانی ومفاہیم کھول کر بیان کئے جاتے ہیں اس لیے اس کو علم تفسیر سے تعبیر کیا جاتا ہے، قرآن  مجید میں اس کے لیے دوسرے الفاظ بھی آتے ہیں، تفسیر، تاویل بیان تبیان، تبیین، جو تقریباً ہم معنی ہیں؛ لیکن بعض اہل علم کے مابین ان الفاظ میں کچھ جزوی فرق بھی ہے، جس کی تفصیل ایک مستقل مضمون کے ذیل میں آئےگی۔
تفسیر کی اصطلاحی تعریفیں بھی بیان کی گئی ہیں؛ چنانچہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے اس کی مختصر تعریف یوں نقل کی ہے:

"ھُوَعِلْمٌ یُعْرَفُ بِہٖ فَھْمُ کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ عَلیٰ نَبِیِّہَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَیَانُ مَعَانِیْہِ وَاسْتَخْرَاج أَحْکَامِہٖ وَحِکَمِہٖ"۔                            

(البرھان فی علوم القرآن:۱۳۱)

وہ ایسا علم ہے جس سے قرآن کریم کی سمجھ حاصل ہو اور اس کے معانی کی وضاحت اور اس کے احکام اور حکمتوں کو نکالا جاسکے اورعلامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تعریف میں مزید عموم پیدا کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"ھُوَعِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ كَيْفِيَّةِ النُّطْقِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ، وَمَدْلُوْلَاتِهَا، وَأَحْكَامِهَا الْإِفْرَادِيَّةِ وَالتَّرْكِيْبِيَّةِ، وَمَعَانِيْهَا الَّتِيْ تُحْمَلُ عَلَيْهَا حَالَۃِ التَّرْكِيْبِ، وَتَتِمَّاتُ لِذَلِك"۔   

(روح المعانی:۴/۱)

وہ علم ہے کہ جس میں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور اُن معانی سے بحث کی جاتی ہو جو کہ ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ ومنسوخ اور شان نزول اور غیرواضح مضمون کی وضاحت میں بیان کیا جائے۔




اس تعریف کی روشنی میں علمِ تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے :
(۱)"الفا ظِ قرآن کی ادائیگی کے طریقے" یعنی الفاظ قرآن کو کس کس طرح پڑھا جاسکتا ہے ؟اس کی توضیح کے لیے قدیم عربی مفسرین اپنی تفسیروں میں ہر آیت کے ساتھ اس کی قرأ تیں بھی تفصیل سے واضح کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے ایک مستقل علم" علم قرأت" کے نام سے بھی موجود ہے۔
(۲) "الفاظ قرآنی کے مفہوم" یعنی ان کی لغوی معنی،اس کام کے لیے علم لغت سے پوری طرح باخبر ہونا ضروری ہے اور اسی بناء پر تفسیر کی کتابوں میں علماء لغت کے حوالے عربی ادب کے شواہد بکثرت ملتے ہیں۔
(۳)"الفاظ کے انفرادی احکام"یعنی ہر لفظ کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ اس کا مادہ کیا ہے، یہ موجودہ صورت میں کس طرح آیا ہے، اس کا وزن کیا ہے ،اور اس وزن کے معانی وخواص کیا ہیں ؟ان باتوں کے لیے علم صرف کی ضرورت پڑتی ہے۔
(۴)"الفاظ کے ترکیبی احکام" یعنی ہر لفظ کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ وہ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر کیا معنی دے رہا ہے ؟ اس کی نحوی ترکیب(Grammatical Analysis)کیا ہیں ؟ اس پر موجودہ حرکات کیوں آئی ہیں اور کن معانی پر دلالت کررہی ہیں ؟اس کام کے لیے علم نحو اور علم معانی سے مدد لی جاتی ہے ۔
(۵)"ترکیبی حالت میں الفاظ کے مجموعی معنی"یعنی پوری آیت اپنے سیاق وسباق میں کیا معنی دے رہی ہے ؟ اس مقصد کے لیے آیت کے مضامین کے لحاظ سے مختلف علوم سے مدد لی جاتی ہے ،مذکورہ علوم کے علاوہ بعض اوقات علم ادب اور علم بلاغت سے کام لیا جاتا ہے ،بعض اوقات علم حدیث اور بعض اوقات علم اصول ِ فقہ سے۔
(۶)"معانی کے تکملے"یعنی آیات قرآنی کا پس منظر اور جوبات قرآن کریم میں مجمل ہے اس کی تفصیل ،اس غرض کے لیے زیادہ تر علمِ حدیث سے کام لیا جاتا ہے ،لیکن اس کے علاوہ بھی یہ میدان اتنا وسیع ہے کہ اس دنیا کے ہر علم وفن کی معلومات کھپ سکتی ہیں کیونکہ بسا اوقات قرآن کریم ایک مختصر سا جملہ فرماتا ہے مگر اس کی میں حقائق واسرار کی ایک غیر متناہی کائنات پوشیدہ  ہوتی ہے مثلاً قرآن کریم کا ارشاد ہے :

وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ

(الذاریات:۲۱)

اور تم اپنی جانوں میں غور کرو کیا تم نہیں دیکھتے۔

غور فرمائیے اس مختصر سے جملے کی تشریح  وتفصیل میں پورا علم الابدان(Physiology)اور پورا علمِ نفسیات(Psychology) سماجاتا ہے اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں اپنی تخلیقی حکمت بالغہ کے جن اسرار کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ سب پورے ہوگئے ہیں ؛چنانچہ تفسیر کے اس ذیلی جز میں عقل وتدبر، تجربات ومشاہدات کے ذریعے انتہائی متنوع مضامین شامل ہیں ۔

(علوم القرآن:۳۲۳۔۳۲۵)




تفسیر کی تعریف
یہ لفظ "فسر" سے مشتق ہے جس کے معنی کھولنے کے آتے ہیں؛ چونکہ اس کے ذریعہ قرآن کے معانی ومفاہیم کھول کر بیان کئے جاتے ہیں اس لیے اس کو علم تفسیر سے تعبیر کیا جاتا ہے، قرآن  مجید میں اس کے لیے دوسرے الفاظ بھی آتے ہیں، تفسیر، تاویل بیان تبیان، تبیین، جو تقریباً ہم معنی ہیں؛ لیکن بعض اہل علم کے مابین ان الفاظ میں کچھ جزوی فرق بھی ہے، جس کی تفصیل ایک مستقل مضمون کے ذیل میں آئےگی۔
تفسیر کی اصطلاحی تعریفیں بھی بیان کی گئی ہیں؛ چنانچہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے اس کی مختصر تعریف یوں نقل کی ہے:

"ھُوَعِلْمٌ یُعْرَفُ بِہٖ فَھْمُ کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ عَلیٰ نَبِیِّہَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَیَانُ مَعَانِیْہِ وَاسْتَخْرَاج أَحْکَامِہٖ وَحِکَمِہٖ"۔                            

(البرھان فی علوم القرآن:۱۳۱)

وہ ایسا علم ہے جس سے قرآن کریم کی سمجھ حاصل ہو اور اس کے معانی کی وضاحت اور اس کے احکام اور حکمتوں کو نکالا جاسکے اورعلامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تعریف میں مزید عموم پیدا کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"ھُوَعِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ كَيْفِيَّةِ النُّطْقِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ، وَمَدْلُوْلَاتِهَا، وَأَحْكَامِهَا الْإِفْرَادِيَّةِ وَالتَّرْكِيْبِيَّةِ، وَمَعَانِيْهَا الَّتِيْ تُحْمَلُ عَلَيْهَا حَالَۃِ التَّرْكِيْبِ، وَتَتِمَّاتُ لِذَلِك"۔   

(روح المعانی:۴/۱)

وہ علم ہے کہ جس میں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور اُن معانی سے بحث کی جاتی ہو جو کہ ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ ومنسوخ اور شان نزول اور غیرواضح مضمون کی وضاحت میں بیان کیا جائے۔



اس تعریف کی روشنی میں علمِ تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے :
(۱)"الفا ظِ قرآن کی ادائیگی کے طریقے" یعنی الفاظ قرآن کو کس کس طرح پڑھا جاسکتا ہے ؟اس کی توضیح کے لیے قدیم عربی مفسرین اپنی تفسیروں میں ہر آیت کے ساتھ اس کی قرأ تیں بھی تفصیل سے واضح کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے ایک مستقل علم" علم قرأت" کے نام سے بھی موجود ہے۔
(۲) "الفاظ قرآنی کے مفہوم" یعنی ان کی لغوی معنی،اس کام کے لیے علم لغت سے پوری طرح باخبر ہونا ضروری ہے اور اسی بناء پر تفسیر کی کتابوں میں علماء لغت کے حوالے عربی ادب کے شواہد بکثرت ملتے ہیں۔
(۳)"الفاظ کے انفرادی احکام"یعنی ہر لفظ کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ اس کا مادہ کیا ہے، یہ موجودہ صورت میں کس طرح آیا ہے، اس کا وزن کیا ہے ،اور اس وزن کے معانی وخواص کیا ہیں ؟ان باتوں کے لیے علم صرف کی ضرورت پڑتی ہے۔
(۴)"الفاظ کے ترکیبی احکام" یعنی ہر لفظ کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ وہ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر کیا معنی دے رہا ہے ؟ اس کی نحوی ترکیب(Grammatical Analysis)کیا ہیں ؟ اس پر موجودہ حرکات کیوں آئی ہیں اور کن معانی پر دلالت کررہی ہیں ؟اس کام کے لیے علم نحو اور علم معانی سے مدد لی جاتی ہے ۔
(۵)"ترکیبی حالت میں الفاظ کے مجموعی معنی"یعنی پوری آیت اپنے سیاق وسباق میں کیا معنی دے رہی ہے ؟ اس مقصد کے لیے آیت کے مضامین کے لحاظ سے مختلف علوم سے مدد لی جاتی ہے ،مذکورہ علوم کے علاوہ بعض اوقات علم ادب اور علم بلاغت سے کام لیا جاتا ہے ،بعض اوقات علم حدیث اور بعض اوقات علم اصول ِ فقہ سے۔
(۶)"معانی کے تکملے"یعنی آیات قرآنی کا پس منظر اور جوبات قرآن کریم میں مجمل ہے اس کی تفصیل ،اس غرض کے لیے زیادہ تر علمِ حدیث سے کام لیا جاتا ہے ،لیکن اس کے علاوہ بھی یہ میدان اتنا وسیع ہے کہ اس دنیا کے ہر علم وفن کی معلومات کھپ سکتی ہیں کیونکہ بسا اوقات قرآن کریم ایک مختصر سا جملہ فرماتا ہے مگر اس کی میں حقائق واسرار کی ایک غیر متناہی کائنات پوشیدہ  ہوتی ہے مثلاً قرآن کریم کا ارشاد ہے :

وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ

(الذاریات:۲۱)

اور تم اپنی جانوں میں غور کرو کیا تم نہیں دیکھتے۔

غور فرمائیے اس مختصر سے جملے کی تشریح  وتفصیل میں پورا علم الابدان(Physiology)اور پورا علمِ نفسیات(Psychology) سماجاتا ہے اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں اپنی تخلیقی حکمت بالغہ کے جن اسرار کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ سب پورے ہوگئے ہیں ؛چنانچہ تفسیر کے اس ذیلی جز میں عقل وتدبر، تجربات ومشاہدات کے ذریعے انتہائی متنوع مضامین شامل ہیں ۔

(علوم القرآن:۳۲۳۔۳۲۵)



تفسیر کے اصول
چونکہ ہرکام کی ایک اصل ہوتی ہے اور اصول کے ساتھ ہونے والے کام کو کام کہا جاتا ہے ،بے اصولی تو کسی بھی شعبہ میں اچھی نہیں سمجھی جاتی؛ اسی اصول پر تفسیر کے اصول بھی ہیں؛ تاکہ اس میں دلچسپی پیدا ہو، اب ایک بات ضروری طور پر یہ رہ جاتی ہے کہ وہ کیا ذرائع اور طریقے ہیں جن کی بنیاد پر قرآن کریم کی تفسیر کی جاسکے، یقیناً ہم کو اس کے لیے حق سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے رہبری کی گئی ہے؛ چنانچہ فرمایا:

"ھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ"۔

(آل عمران:۷)

اے رسول !وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہےجس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل  بنیاد ہےاورکچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔

 گویا اس آیت کی رو سے آیات کی اولین تقسیم دوطرح پر کی گئی ہے۔
(۱)آیات محکمات (۲)آیات متشابہات؛ پھرمتشابہات دوقسم پر ہیں:
(۱)جو لفظ بھی سمجھ سے باہر ہو جیسے حروف مقطعات
(۲) لفظ تو سمجھ میں آتے ہوں؛ لیکن مفہوم ان کا قابل فہم نہ ہو۔
 پھرآیاتِ محکمات کو مفسرین نے دوطرح پر تقسیم کیا ہے:
(۱)وہ آیتیں جن کے سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو جو بالکل واضح ہوں یعنی جس زبان میں بھی ان کا ترجمہ کیا جائے سمجھنے والے کو مشکل معلوم نہ ہوں اور بظاہر مفسرین کے پاس کوئی اختلاف رائے نہ ہو، جیسے پچھلی قوموں سے متعلق واقعات اور جنت وجہنم سے متعلق آیات۔
(۲)دوسری وہ آیتیں ہیں جن کے سمجھنے میں کوئی ابہام یااجمال یا اور کوئی دشواری پائی جائے یا اُن آیتوں کو سمجھنے کے لیے ان کے منظر وپس منظر کو سمجھنا ضروری ہو جیسے وہ آیتیں جن سے دقیق مسائل اور احکام نکلتے ہوں یااسرار ومعارف اُن سے نکلتے ہوں، ایسی آیات کو سمجھنے کے لیے انسان کو صرف زبان اور اس کی باریکیوں کو جاننا کافی نہیں ہوتا؛ بلکہ اور بھی بہت سی معلومات کی ضرورت پڑتی ہے، انہیں معلومات میں سے ایک "ماخذِ" تفسیر کہلاتا ہے۔
تفسیری مآخذ
یعنی وہ ذارئع جن سے قرآن کریم کی تفسیر معلوم ہوسکتی ہے، یہ تقریباً چھ قسم کی بتلائی گئی ہیں:
(۱)تفسیر القرآن بالقرآن۔(قرآن کریم کی کسی آیت یا لفظ کی تشریح قرآن ہی کی کسی دوسری آیت یا لفظ سے کی جائے)
(۲)تفسیر القرآن بالاحادیث النبویہ صلی اللہ علیہ وسلم۔(قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت آنحضرت  کے کسی قول یا فعل سے کی جائے)
(۳)تفسیر القرآن باقوال الصحابۃ رضی اللہ عنہم اجمعین۔(قرآن پاک کے کسی آیت کی تشریح حضرات صحابہ کرام میں سے کسی صحابی کے قول سے کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ)
(۴)تفسیر القرآن باقوال التابعین رحمہم اللہ۔(قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت حضرات تابعین میں سے کسی تابعی کے قول سے کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ)
(۵)تفسیر القرآن بلغۃ العرب۔(قرآن مجید کے کسی آیت یا کسی لفظ کی تشریح اہل عرب کے اشعار اور عربی محاورات کے مطابق کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ)
(۶)تفسیرالقرآن بعقل السلیم۔(قرآن مجید کی تشریح وتوضیح اپنی صحیح سمجھ بوجھ اور منشائے خدا وندی کو ملحوظ رکھ کرعلوم اسلامیہ کی روشنی میں،حالات وواقعات،مواقع ومسائل پر اس کا صحیح انطباق کرنا اور اس کے اسرار ورموز کو کھولنا اور بیان کرنا تفسیرالقرآن بعقل سلیم کہلاتا ہے)
ہرایک کی تھوڑی سی تفصیل ضروری مثالوں سے ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:
تفسیرالقرآن بالقرآن
اختصار کی غرض سے اس کی صرف تین مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
پہلی مثال
سورۃ الفاتحہ کو ہی لیجئے، اِس کی دونوں آیتیں اس طرح ہیں:

"اهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِالْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ"۔

(الفاتحۃ:۶،۷)

ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما،ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے۔

جن پر انعام کیا گیا ہے اس  کی تفسیر"سورۃالنساء" کی درجِ ذیل آیت  میں کی گئی ہے:

"وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا"۔                          

(النساء:۹۶)

اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گےتو وہ ان کے ساتھ ہوں گےجن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے،یعنی انبیاء،صدیقین،شہداءاور صالحین اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔

دوسری مثال

"فَتَلَـقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِoاِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ"۔       

(البقرۃ:۳۷)

پھر آدمؑ نے اپنے پروردگار سے(توبہ کے)کچھ الفاظ سیکھ لیے(جن کے ذریعہ انہوں نے توبہ مانگی)چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی،بے شک وہ بہت معاف کرنے والا،بڑا مہربان ہے۔

 اس آیت میں کلمات کا تذکرہ ہے مگر وہ کلمات کیا تھے؟ دوسری آیت میں  اس کی تفسیرموجود ہے:

"قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا،وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ"۔

(الاعراف:۲۳)

دونوں بول اٹھے کہ:اے ہمارے پروردگار!ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں اور اگرآپ نے ہمیں معاف نہ فرمایااور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔

تیسری مثال 
"سورۃ الانعام" کی آیت نازل ہوئی:

"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولِٰئکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ"۔

(الانعام:۸۲)

جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہ دیا،امن وچین تو بس ان ہی کا حق ہےاور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔

توصحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ایسا ہے کہ جس سے( کسی نہ کسی طرح کا)  ظلم  صادر نہ ہوا ہو،تو اللہ نے  ظلم کی تفسیر ومراد کو واضح کرنے کے لیےیہ آیت نازل فرمائی:

" إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ"۔

(لقمان:۱۳)         

کہ شرک ظلم عظیم ہے۔

یعنی آیت بالا میں ایمان کے ساتھ جس ظلم کا تذکرہ آیا ہے وہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔

(بخاری،باب ظلم دون ظلم،حدیث نمبر:۳۱)

تفسیر القرآن بالقرآن کے موضوع پرایک گرانقدر کتاب مدینہ منورہ کے ایک عالم شیخ محمد امین بن محمد مختار کی تالیف ہے جو "اضواء البیان فی ایضاح القرآن بالقرآن" کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔




تفسیرالقرآن بالحدیث والسیرۃ
 قرآن پاک کی تفسیررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں کرنا تفسیر القرآن بالحدیث  والسیرۃ کہلاتا ہے، خود قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دنیا میں بھیجےجانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقوال وافعال  اور عملی زندگی سے آیات قرآنیہ کی تفسیر وتشریح فرمائیں۔         

(النحل:۴۴)

تو جس طرح اللہ تعالی نے انسانی زندگی کو بندگی بنانے کےلیے اپنے احکامات کو قرآن حکیم کی شکل میں نازل فرمایا ،اسی طرح ان احکامات پر عمل آوری کے لیے آپ کے پوری عملی زندگی کو در حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر بناکر مبعوث فرمایا، جو کچھ احکامات قرآن کریم کی شکل میں نازل کیے گئے ان پر سب سے پہلے آپ ہی نے عمل کرکےدکھلایا  اور ان احکامات خدا وندی کو عملی جامہ پہناکر دنیا کے سامنے پیش کرنا یہ آپ کی خصوصیات میں سےایک نمایا خصوصیت ہے ،خواہ وہ حکم ایمان ،توحید، نماز، روزہ ،زکوۃ ،حج، صدقہ وخیرات ،جنگ وجدال، ایثار وقربانی، عزم واستقلال، صبر وشکر سے تعلق رکھتا ہو یا حسن معاشرت وحسن اخلاق سے ،ان سب میں قرآن مجید کی سب سے پہلی وعمدہ عملی تفسیر نمونہ وآئیڈیل کے طور پر آنحضرت  ہی کی ذات اقدس میں ملے گی، اس میں بھی دو قسم کی تفسیر ہے ایک تفسیرتو وہ قرآن پاک کے مجمل الفاظ وآیات کی تفسیر وتوضیح  ہے جن کی مراد خدا وندی واضح نہیں تو ان کی مراد واجمال کی تفصیل کو زبان رسالت مآب  نے واضح فرمادیا اور دوسری قسم عملی تفسیر کی ہے،یعنی قرآن حکیم کی وہ آیات جن میں واضح احکامات دئے گئے ہیں جن کا تعلق عملی زندگی کے پورے شعبۂ حیات سے ہے،خواہ وہ عقائد، عبادات، معاملات کی رو سے ہوں یا حسن معاشرت وحسن اخلاق کی رو سے اس میں بھی آپ نہ وہ کمال درجہ کی عبدیت اور اطاعت وفرمانبرداری کی ایسی بے مثال وبے نظیر عملی تفسیر وتصویر امت کے سامنے پیش فرمائی کہ جس طرح کلام اللہ تمام انسانی کلاموں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے اسی طرح آپ کی عملی زندگی کا ہر قول وفعل بھی تمام انسانی زندگیوں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے،دوسری قسم کی مثالیں کتب سیر، کتب مغازی، کتب تاریخ، کتب دلائل اور کتب شمائل میں بکثرت ملیں گے؛ بلکہ یہ کتابیں تو آپ ہی کی عملی تفسیر پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں جن کی مثالوں کو یہاں ذکر نہیں کیا جارہا ہے اگر دیکھنا چاہیں تو ہمارے ہوم پیج کے عنوان"سیرت طیبہ" میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں اور پہلی قسم کی مثالیں کتب احادیث وتفسیر میں بکثرت ملیں گی ان میں سے بغرض اختصار صرف تین مثالیں پیش کی جارہی ہیں:
پہلی مثال
 سورۂ بقرہ کی آیت شریفہ:

"وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ"۔

(البقرۃ:۱۸۷)

اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر واضح (نہ) ہوجائے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیط ابیض اور خیط اسود کی مراد کو اپنے ارشاد مبارک سے واضح فرمایا :

" إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَار"۔

 (بخاری، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا،حدیث نمبر:۱۷۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)

کہ خیط ابیض سے مراد صبح صادق اور خیط اسود سے مراد صبح کاذب ہے۔

دوسری مثال
 سورہ نور کی آیت:

"اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ، وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ،وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ"۔    

(النور:۲)

زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرددونوں کو سوسو کوڑے لگاؤاور اگر تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ میں ان پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پرغالب نہ آئےاور یہ بھی چاہیے کہ مؤمنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے۔

 ظاہر ہے کہ اس آیت سے زانیہ اور زانی کی سزامیں سو کوڑے مارنے  کاذکر ہے، اس میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کا کوئی فرق نہیں کیا گیا؛اس کی تفسیر احادیثِ پاک سے واضح ہوتی ہے کہ غیر شادی شدہ کو کوڑوں کی سزا دی جائے گی جیسا کے بخاری شریف میں ہے:

"عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَمَرَ فِيمَنْ زَنَى وَلَمْ يُحْصَنْ بِجَلْدِ مِائَةٍ وَتَغْرِيبِ عَامٍ"۔

(بخاری،بَاب شَهَادَةِ الْقَاذِفِ وَالسَّارِقِ وَالزَّانِي،حدیث نمبر:۲۴۵۵، شاملہ، موقع الإسلام)

زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے غیر شادی شدہ زنا کرنے والوں کو سو کوڑے مارنے کا اور ایک سال کے لیے وطن سے نکالنے کاحکم دیا۔

 اور شادی شدہ مرد وعورت کو سنگسار کیا جائے گا:

"الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَازَنَيَا فَارُجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ، رَجَمَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهٗ"۔                   

(ابن ماجہ، باب الجرم، حدیث نمبر:۲۵۴۳، شاملہ، موقع الإسلام)

 شادی شدہ مرد وعورت جب زنا کے مرتکب ہوں تو ان کو رجم کرو، یعنی سنگسار کردو ،راوی کہتے ہیں کہ خود حضور  نے اپنی زندگی میں ایسی سزادی ہے اور بعد میں ہم نے بھی ایسی سزا دی ہے۔

تیسری مثال
قرآن کی تفسیر حدیث سے کرنے کی مثال میں یہ آیت پیش کی جاسکتی ہے:

"غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ"۔                       

(الفاتحۃ:۷)

نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن پر غضب نازل ہوا ہےاور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔

قرآن پاک میں المغضوب اور الضال کا مصداق متعین نہیں کیا گیا ہے ؛لیکن ان دونوں کا مصداق متعین کرتے ہوئےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"إِنَّ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ أَلْيَهُوْدُ وَإِنَّ الضَّالِّيْنَ النَّصَارَىٰ"۔

(مسند احمد بن حنبل،بقیۃ حدیث بن حاتم،حدیث نمبر:۹۴۰۰، شاملہ، موقع الإسلام)

جن پر غضب نازل ہوا اس سے مراد یہود ہیں اور جو راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اس سے مراد نصاری ہیں۔























اس طرح کی بے شمار مثالیں کتب احادیث میں بکثرت موجود ہیں اور اس  نقطۂ نظر سے بھی  کئی تفاسیر لکھی گئی ہیں ،اُن میں سے چند تفاسیر یہ ہیں ۔
۱۔قاضی بیضاوی رحمہ اللہ کی انوار التنزیل والتاویل۔
۲۔علامہ خازن کی لباب التاویل فی معانی التنزیل۔
۳۔ علامہ ابن کثیر کی تفسیر ابن کثیر۔
۴۔اردو زبان میں تفسیر حقانی(فتح المنان)مولانا عبدالحق حقانی دہلوی کی ہے۔







(۳)تیسرا ماخذ،تفسیرالقرآن باقوال الصحابۃ رضی اللہ عنہم
حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم چونکہ بجا طور پر خیر امت کہلانے کے مستحق ہیں جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست قرآن کریم کی تعلیم وتربیت حاصل کی ،ان میں سے بعض وہ ہیں  جو اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کردیں کہ قرآن کریم اوراس کی تفسیر وتاویل کو بلاواسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کریں ،اہل زبان ہونے کے باوجود ان کو صرف زبان دانی پر بھروسہ نہ تھا؛ چنانچہ بعضے صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سبقاً سبقاً قرآن کریم کو پڑھا، مشہور تابعی ابوعبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں:

"حَدَّثَنَا الَّذِيْنَ كَانُوْا يَقْرَؤَوْنَ الْقُرَآنَ كَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَغَيْرِهِمَا أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا تَعَلَّمُوْا مِنَ النَّبِيِّﷺ عَشَرَ آيَاتِ لَمْ يَتَجَاوَزُوْهَا حَتَّى يَعْلَمُوْا مَافِيْهَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ"۔

(الاتقان فی علوم لقرآن،الفصل فی شرف التفاسیر، النوع الثامن والسبعون:۲/۴۶۸، شاملہ،المؤلف:عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي)

 صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جو قرآن کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا کرتے تھے،مثلاً حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ انہوں نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس  آیتیں سیکھتے تو ان آیتوں سے آگے نہ بڑھتے جب تک ان آیتوں کی تمام علمی وعملی باتوں کو نہ جان لیتے۔

یہ ہے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم وتربیت کا سیکھنا کہ جتنا سیکھتے اتنا عمل کا بھی اہتمام فرماتےشاید اسی وجہ سے مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ اثرمنقول ہے:

"كَانَ الرَّجُلُ إِذَاقَرَأ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ جَدَّ فِيْنَا"۔

(مسند احمد،مسند انس بن مالک،حدیث نمبر:۱۱۷۶۹)

یعنی جب کوئی شخص سورۃ بقرہ وآل عمران کو پڑھ لیتا تووہ ہماری نظروں میں بہت ہی عزت والا سمجھا جاتا اور موطا مالک کی روایت میں ہے:

"أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مَكَثَ عَلَى سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثَمَانِيَ سِنِينَ يَتَعَلَّمُهَا"۔

(مؤطا مالک، کِتَابُالنِّداءِ لِلصّلاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْقُرْآنِ ،حدیث نمبر:۴۲۸، شاملہ، موقع الإسلام)

حضرت عبداللہ ابنِ عمررضی اللہ عنہ کو سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اتنے کمزور ذہن والے تھے کہ سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے،جبکہ موجودہ دور میں کمزور سے کمزور طالب علم اتنے عرصہ سے کم میں پورا قرآن کریم حفظ کرلیتا ہے،دراصل بات یہ تھی کہ آٹھ سال کی مدت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو سورۂ بقرہ کے الفاظ اور اسکی تفسیر وتاویل اور اسکے متعلقات کے ساتھ حاصل کرنے میں لگی،اسکی تائید حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس اثر سے ہوتی ہے جسکو ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے:

"والذي لا إله غيره، ما نزلت آية من  ، كتاب الله إلا وأنا أعلم فيمن نزلت؟ وأين نزلت؟ ولو أعلم  أحد اأعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایا لاتیتہ"۔        

  (ابن کثیر:۱/۳)

 قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جسکے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس بارے میں اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی شخص ایسی معلومات مجھ سے زیادہ رکھتا ہے اور سواریاں اس شخص تک پہونچاسکتی ہیں تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔

یہ چند نمونے ہیں حضرات صحابہ کی جانفشانی اور ان کی محنت کے جو تفسیر قرآن کے سلسلہ میں پیش کئے گئے ،یوں تو بہت سی آیات کی تفسیر حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال سے ثابت ہیں ان میں سے کچھ برائے نمونہ پیش ہیں۔
پہلی مثال:
ایک دفعہ حضرت بن عمرؓ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور درج ذیل آیت کی تفسیر دریافت کی:

"أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا"۔

(الانبیاء:۳۰)

کیا کفار نے دیکھا نہیں کہ آسمان وزمین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔

حضرت بن عمرؓ نے اس سے فرمایا کہ تم ابن عباس ؓ کے پاس جاؤ اور ان سے اس کی تفسیر معلوم کرو اور وہ جو تفسیر بتائیں وہ مجھے بھی بتاتے جانا،وہ شخص ابن عباسؓ کے پاس پہنچااور درج بالا آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ  نے فرمایا کہ:

آسمان خشک تھے ان سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بانجھ تھی اس سے کچھ اُگتا نہیں تھا،بارش کے طفیل یہ پودے اگانے لگی؛گویا آسمان کا فتق(پھٹنا)بارش کے ساتھ ہے اور زمین کا پھل پودے اگانے سے ۔

اس شخص نے حضرت ابن عمرؓ کو جب یہ تفسیر بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی جانب سے ان کو خصوصی علم عطا ہوا ہے۔

(روح المعانی،۱۲/۳۶۹ش،املہ)

دوسری مثال

" وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ،وَاَحْسِنُوْا،اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِـنِیْنَ"۔

(البقرۃ:۱۹۵)

 اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں اور نیکی کرو،بیشک اللہ تعالی دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو۔

 اس آیت کی تشریح میں مفسرین نے حضرت  ابوایوب انصاریؓ کاارشاد نقل کیا ہے کہ:

"التھلکۃ الاقامۃ فی الاھل والمال وترک الجھاد"۔

(تفسیر بن کثیر،تحت قولہ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ)

"التھلکۃ "سے مراد گھر اور مال کی مصروفیات میں لگا رہنا اور جہاد کو چھوڑ بیٹھنا ہے ۔
عام مفسرین نے اپنی اپنی تفاسیر میں اس تفسیر کو خاص طور سے نقل کیا ہے۔
تیسری مثال
علامہ طبری روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے صحابہ ؓ سے درج ذیل آیت کے متعلق دریافت کیا :

"أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ"۔

(البقرۃ:۲۶۶)

 کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں (اور)اس کو اس باغ میں اور بھی ہر طرح کے پھل حاصل ہوں اور بڑھاپے نے اسے آپکڑا ہواور اس کے بچے ابھی کمزور ہوں، اتنے میں ایک آگ سے بھرا بگولا آکر اس کو اپنی زد میں لے لے اور پورا باغ جل کر رہ جائے۔

کوئی بھی اس کا شافی جواب نہ دے سکے،حضرت ابن عباسؓ نے عرض کیا کہ میرے دل میں ایک بات آرہی ہے ،حضرت عمر نے فرمایا کہ آپ بلا جھجک برملا بیان کیجیے،ابن عباس ؓنے فرمایا:

"اللہ تعالی نے اس آیت میں ایک مثال بیان کی ہے فرمایا :کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ عمر بھر نیکی کا کام کرتا رہےاور جب اس کا آخری وقت آئےجب کے نیکیوں کی اسے زیادہ ضرورت ہوتو بُرا کام کرکے سب نیکیوں کو برباد کردے"۔

(تفسیر طبری،۵/۵۴۵،شاملہ)







ایک اہم بات اس بارے میں اہل اصول نے بتلائی ہے کہ جن صحابہ رضی اللہ عنہم کے تفسیری اقوال میں صحیح وسقیم ہر طرح کی روایتیں ملتی ہیں تو ان اقوال کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کئے جانے سے پہلے اصول ِحدیث کے اعتبار سے انکی جانچ ضروری ہے۔
۲۔ نیز دوسرے یہ کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال تفسیر اسی وقت حجت ،دلیل سمجھے جائیں گےجبکہ آپ سے آیت شریفہ کی کوئی صریح تفسیر مستند طورپر ثابت نہ ہو؛چنانچہ اگر آپ  سے تفسیر منقول ہو تو پھر صحابہ رضی اللہ عنہ سے اقوال محض اس تفسیر کی تائید شمار کئے جائنگے اور اگر آپ  کے معارض کوئی قول صحابی رضی اللہ عنہ ہوتو اس کو قبول نہ کیا جائےگا۔
۳۔تیسرے یہ کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال تفسیر میں اگر تعارض اور ٹکراؤ ہو تو جہاں تک ہوسکے انکے اقوال میں مطابقت پیداکی جائیگی اگر مطابقت نہ ہوسکے  تو پھر مجتہد کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ دلائل کی روشنی میں جس صحابی رضی اللہ عنہ کا قول مضبوط ہے اسکو اختیار کرلے۔          

  (تفصیل کے لیے دیکھیے مقدمہ تفسیر ابن کثیر۱/۳)۔                      (واللہ تعالی اعلم)

اس موضوع پر مستقل کتاب،تنویرالمقیاس فی تفسیر ابن عباس"ہے اور اس کے علاوہ دیگر کتب تفاسیر میں صحابہ کی تفسیری روایات مذکور ہیں۔




(۴)چوتھا ماخذ:تفسیر القرآن باقوال التابعین
واضح ہونا چاہئے کہ تابعین سے مراد تمام ہی تابعین نہیں ہیں؛ بلکہ وہ حضرات تابعین جنہوں نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ  کی صحبت اٹھائی ہواور انکی صحبت سے علمی استفادہ کیا ہو، اہل علم میں اس بات پربھی اختلاف ہے کہ تفسیر قرآن کے بارے میں اقوال تابعین حجت ہیں یا نہیں،اس معاملہ میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بہت ہی معتدل بات لکھی ہے کہ اگر کوئی تابعی کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے تفسیر نقل کررہے ہوں تو اس کا حکم صحابی کی تفسیر جیسا ہوگا اور اگر خود تابعی اپنا قول بیان کریں تو دیکھا جائےگا کہ دوسرے کسی تابعی کا قول ان کے خلاف تو نہیں اگر خلاف میں کوئی قول ہو تو پھر اس تابعی کے قول کو حجت نہیں قرار دیا جائےگا؛ بلکہ ایسی آیات کی تفسیر کے لیے قرآن کی دوسری آیتیں احادیث نبویہ آثارصحابہ رضی اللہ عنہم اورلغت عرب جیسے دوسرے دلائل پر غور کرکے فیصلہ کیا جائےگا،ہاں اگر تابعین کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہوتو ان کے تفسیری اقوال کو بلاشبہ حجت اورواجب الاتباع قراردیا جائے گا۔

(بحوالہ تفسیر ابن کثیر،ا-۵،مطبوعہ المکتبہ التجاریۃ الکبری)

جب تابعین کے اقوال پر تفسیر کی جاسکتی ہے تو اس کے کچھ نمونےبھی ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں :

پہلی مثال
 ارشاد باری تعالی ہے:

"وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ، رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا، ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ"۔

(التوبہ:۱۰۰)

اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ اللہ تعالی راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور اللہ نے تیار کر رکھا ہے ان کے واسطے ایسے باغات کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں رہا کریں ان میں وہ ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی۔

اس آیت شریفہ میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ کے مختلف درجاتِ فضیلت بیان کئے گئے ہیں ایک سابقین اولین کا، دوسرے انکے بعد والوں کا ،اب سابقین اولین کون ہیں ،اس میں مفسرین کے مختلف اقوال نقل کئے جاتے ہیں،کبار تابعین حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ،ابن سیرین رحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ اس سے مراد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور عطاء بن ابی رباح کا یہ قول ہے کہ سابقین اولین سے مرادبدرمیں شریک ہونے والےصحابہ ہیں اورشعبی نے فرمایا کہ وہ جو کہ حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شامل رہے۔                    

(تفسیرروح المعانی، تفسیر سورۂ توبہ،آیت نمبر۱۰۰)

 اس آیت میں تابعین رحمہ اللہ کے مختلف اقوال سامنے آئے ، مفسرین نے کسی قول کو رد نہیں کیااور ان کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔
 دوسری مثال
ارشاد باری تعالی ہے:

" اَلتَّائِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّائِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنََ"۔               

(التوبہ:۱۱۲)

توبہ کرنے والے، اللہ کی بندگی کرنے والے،اس کی حمد کرنے والے ،روزے رکھنے والے،رکوع میں جھکنے والے،سجدہ گزارنے والے،نیکی کی تلقین کرنے والے، برائی سے روکنے والے اوراللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے(اے پیغمبر )ایسے مؤمنوں کو خوشخبری دےدو۔

 آیت میں ایک لفظ "أَلسَّائِحُوْنَ" آیا ہے، جس کا مطلب جمہور مفسرین کے ہاں"صَائِمُوْنَ"یعنی روزہ دار مراد ہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی سائحین کا لفظ آیا ہے وہاں صائمین مراد ہیں،حضرت عکرمہؒ جو کبارِ تابعین میں سے ہیں انہوں نے کہا سیاحت کرنے والوں سے مرادطالب علم ہیں جو علم کی طلب میں ملکوں میں پھرتے ہیں۔

(تفسیر روح المعانی،تفسیر سورۂ توبہ،آیت نمبر:۱۱۲)

اس تفسیر کو مفسرین نے رد نہیں کیا ہے اگرچیکہ حضرت عکرمہ رحمہ اللہ اس تفسیر میں منفرد ہیں۔
تیسری مثال
ارشاد باری تعالی ہے: "اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ

(التوبہ:۶۰)

صدقات تو صرف غریبوں کے لیے ہیں..الخ۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے غنی اور فقیر کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے،غنی سے متعلق امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا کہ غنی وہ شخص ہے جس کے پاس اصلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بقدر نصاب زکوۃ مال باقی رہے۔

(تفسیر روح المعانی،سورۂ توبہ:آیت نمبر:۶۰)

عام مفسرین نے امام ابو حنیفہؒ کے ذکر کردہ تعریف غنی کو اپنی تفاسیر میں بلا کسی نکیر کے ذکر فرمایا ہے۔
 اس موضوع پر بھی بہت سی تفاسیرلکھی گئی ہیں؛ چنانچہ علامہ نیشاپوری رحمہ اللہ کی تفسیر"غرائب القرآن ا وررغائب الفرقان" قابل ذکر ہے اور علامہ نسفیؒ کی مدارک التزیل بھی قابل ذکر ہے اور علامہ آلوسی کی روح المعانی بھی ایک وقیع تفسیر ہے۔
نیز اردو تفاسیر میں  مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیرمعارف القرآن بھی اہم تفاسیر میں سے ایک ہے۔



(۵)پانچواں 
ماخذ: تفسیر القرآن بلغۃ العرب
 لغت عرب کو تفسیر کا ماخذ ماننے میں اگرچیکہ اہل علم کے یہاں اختلاف  ہے، جیسے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے لغۃ عرب سے قرآن کی تفسیر کو مکروہ قراردیا ہے(حوالہ البرھان ۲/۱۶۰ نوع ۴۱)  کیونکہ؛ عربی زبان ایک وسیع زبان ہے اور بعض اوقات ایک لفظ کئی معانی پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک جملے کے بھی متعدد اور کئی مفہوم ہوسکتے ہیں تو ایسے مواقع پر صرف لغت عرب کو بنیاد بناکر ان میں سے کوئی ایک مفہوم متعین کرنا تفسیر میں مغالطہ کا سبب بن سکتا ہے اور اسی وجہ سے اسکو مکروہ بھی کہا گیا ہے مگر محققین کا کہنا ہے کہ مغالطہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ لغت کے کثیر الاستعمال معانی کو چھوڑکر انتہائی قلیل الاستعمال معنی مراد لیے جائیں اس لیے ایسی جگہ جہاں قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین میں سے کوئی صراحت نہ ملے تو آیت کی تفسیر لغت عرب کے عام محاورات(جن کا چل چلاؤہو) کے مطابق کی جائیگی۔
پہلی مثال
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ نے صحابہ کرامؓ سے درج ذیل آیت کے معنی دریافت کیے:

"أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ"۔                  

(النحل:۴۷)

یا انہیں اس طرح گرفت میں لے کہ وہ دھیرے دھیرے گھٹتے چلے جائیں۔

یہ سن کر قبیلہ بنو ھذیل کا ایک شخص کھڑا ہوکر کہنے لگاکہ ہماری زبان میں"تخوف"کمی اور نقصان کو کہتے ہیں،حضرت عمرؓ نے پوچھا عربی اشعار میں یہ لفظ  اس معنی میں استعمال ہوا ہے؟اس نے کہا جی ہاں اور فوراً یہ شعر پڑھ دیا:

*تَخَوَّفَ الرَّحُلُ منها تامِكاً قَرِداً         *        كما تَخَوَّفَ عُودَ النبعةِ السَّفِنُ*

ترجمہ:کجاوہ کی رسی اونٹنی کے کوہان کے بال کو کم کرتی رہتی ہے، جیسا کہ لوہا کشتی کی لکڑی کو کم کرتا رہتا ہے۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ نے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا اپنے دیوان کو تھامے رکھو،صحابہ نے عرض کیا دیوان سے کیا مراد ہے تو آپ  نے فرمایا جاہلی شاعری،اس میں قرآن کی تفسیر اور تمہاری زبان کے معانی موجود ہیں۔         

(روح المعانی۱۰/۱۷۹، شاملہ )

دوسری مثال
علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ صحن کعبہ میں تشریف فرما تھے سوال کرنے والوں کا ایک ہجوم تھادو آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ سے تفسیر قرآن کے متعلق کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں، حضرت ابن عباس نے فرمایا دل کھول کر پوچھئے،انہوں نے پوچھا کہ آپ اس آیت باری تعالی کی تفسیر بتائیے:

"عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ"۔      

(المعارج:۳۷) 

  دائیں بائیں حلقے باندھے ہوں گے۔

حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ نے فرمایا عزین کے معنی ہیں ساتھیوں کے حلقے،انہوں نے پھر سوال کیا کہ کیا اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں؟حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا :جی ہاں پھر آپ نے عبید بن الابرص کا شعر پڑھا ؎

فَجَاؤُا يُهْرَعُوْنَ إِلَيْهِ حَتً
يَكُوْنُوْا حَوْلَ مِنْبَرِهِ عِزِيْنًا
وہ لوگ اس کی طرف بھاگتے ہوئے آتے ہیں
اس کے منبر کے گرد حلقہ باندھ لیتے ہیں


(الاتقان،۲/۶۸،شاملہ)

دیکھیے یہاں حضرت ابن عباس ؓ نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب کی مدد سے کی ہے۔
تیسری مثال
اُسی صاحب نے آپ رضی اللہ عنہ سے درج ذیل آیت کی تفسیردریافت کی:

"وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ"۔         

(المائدۃ:۳۵)      

اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔

حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ وسیلہ حاجت اور ضرورت کو کہتے ہیں اس نے پوچھا کہ اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں:آپ  نے فرمایا کیا آپ نے عنترۃ نامی شاعر کا شعر نہیں سناہے؟پھر شعر پڑھا:

إنَّ الرِّجَالَ لَهُمْ إِلَيْكِ وَسِيلَةٌ          إِنْ يَأْخُذُوكِ، تكَحَّلِي وتَخَضَّبي

(الاتقان:۲/۶۹)

اس شعر میں وسیلہ کا لفظ حاجت وضرورت کے معنی میں استعمال ہوا ہےاور ظاہر ہے کہ ابن عباسؓ نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب سے کی ہے۔
اس نقطۂ نظر سے  بہت سی تفاسیر لکھی گئی ہیں،ان میں تفسیر خازن جس کا اصل نام "لباب التاویل فی معانی التنزیل(۲)السراج المنیر فی الاعانۃ علی معرفۃ بعض معانی کلام ربنا الحکیم الخبیر ،للخطیب شربینی"قابل ذکر ہیں۔




چھٹا ماخذ تفسیر القرآن بعقل سلیم
عقل سلیم جس کی اہمیت وضرورت سے کسی کو انکار نہیں ،دنیا کے ہر کام میں اسکی اہمیت ہوتی ہے اور پچھلے مآخذ سے فائدہ اٹھانا بغیر عقل سلیم کے معتبر نہیں اس ماخذ کو علاحدہ لکھنے کی ضرورت محض اس لیے پڑتی ہے کہ قرآن کریم کے معارف ومسائل ، اسرارورموز یقینا ًایک بحر بیکراں ہیں اور پچھلے مآخذ سے ان کو ایک حد تک سمجھا جاسکتا ہے ؛لیکن کسی نے بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ قرآن کریم کے اسرار ومعارف کی انتہاء ہوگئی اور مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی، یہ بات خود قرآن کریم کی صریح آیتوں کے خلاف ہوگی ، فرمان خدا وندی ہے:

"قُلْ لَّوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ،الخ"۔              

(الکہف:۱۰۹)

 کہہ دو کہ اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیےسمندر روشنائی بن جائے،تو میرے رب کی باتیں ختم نہیں ہوں گی کہ اس سے پہلے سمندر ختم ہوچکا ہوگا،چاہے اس سمندر کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم ویسا ہی ایک سمندر کیوں نہ لے آئیں۔

گویا اس آیت میں وضاحت ہے کہ ساری مخلوق مل کر بھی کلمات الہی کا احاطہ کرنا چاہے تو ممکن نہیں سارا سامان تسوید ختم ہوجائیگا اور لامتناہی کسی طرح بھی متناہیوں کی گرفت میں نہ آسکے گا ،متناہی صفات والے لا متنا ہی صفات والی ہستی کو کیونکر اپنی گرفت میں لاسکتے ہیں اور یقیناً قرآن کریم بھی صفات باری میں سے ایک ہے لہذا عقل سلیم کے ذریعہ ان حقائق اور اسرار پر غور و فکر کا دروازہ قیامت تک کھلاہوارہےگا اور جس شخص کو بھی اللہ تعالی نے علم و عقل اور خشیت و تقوی اور رجوع الی اللہ کی صفات سے مالا مال کیا وہ تدبیرکے ذریعہ نئے نئے حقائق تک رسائی حاصل کرسکتا ہے؛چنانچہ ہر دور کے مفسرین کی تفسریں اس بات کی واضح دلیل ہیں ۔
اور نبی اکرم کی دعاجو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے لیے تھی:

"اَللّٰھُمَّ عِلْمُہٗ الْکِتَابَ وَفقہُ فِی الدِّیْنِ"۔

(کنزالعمال فی سنن الأقول والأفعال:۱۳/۴۵۸، شاملہ،المؤلف:علي بن حسام الدين المتقي الهندي۔ بخاری، كِتَاب الْوُضُوءِ،بَاب وَضْعِ الْمَاءِ عِنْدَ الْخَلَاءِ،حدیث نمبر:۱۴۰، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: اے اللہ ان کو تاویل یعنی تفسیر قرآن اور دین کی سمجھ عطا فرما۔

یہ دعا بھی اشارہ کرتی ہے کہ اس باب میں راہیں کھلی ہیں البتہ اہل علم نے اس معاملہ میں یہ اصول ضرور بتلایا ہے کہ عقل سلیم کے ذریعہ مستنبط ہونے والے وہی مسائل اور معارف معتبر ہوں گے جو سابق مآخذ سے متصادم نہ ہوں، یعنی ان سے نہ ٹکراتے ہوں، اصول شرعیہ کے خلاف کوئی نکتہ آفرینی کی جائے تو اسکی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی۔
ہم کو ایمان رکھنا چاہئے کہ کل کائنات خدا کی بنائی ہوئی اور اس کے قبضۂ قدرت میں ہے،لہذاقرآن کریم کی بعض آیتوں سے اگرکوئی ڈاکٹریا سائنس داں معلومات کو اخذ کرتا ہے اور وہ معلومات مذکورہ اصولوں سے متصادم نہ ہوں توایسی تفسیر بھی قابل اعتبار ہوگی ۔  
پہلی مثال

"لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَايَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثاً وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَo أَوْيُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَاناً وَإِنَاثاً وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيماً إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌo"۔ 

(الشوری:۴۹،۵۰)

سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے،وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،وہ جس کوچاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہےیا پھر ان کو ملاکر لڑکے بھی دیتا ہے اورلڑکیاں بھی اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنادیتا ہے،یقیناً وہ علم کا بھی مالک ہے قدرت کا بھی مالک۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس  آیت میں خنثیٰ(ایسا شخص جو نہ مرد ہو نہ عورت) کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؛لیکن ابن العربیؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ ایسا کہنا عقل کے خلاف بات ہے اس لیے کہ اللہ نے آیت کے ابتداء ہی میں فرمادیا"يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ"وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،لہذااس میں خنثیٰ بھی شامل ہے۔      

(الجامع لاحکام القرآن:۱۶/۵۲، شاملہ)

دوسری مثال
حضرت موسی جب کوہ طور پر تیس دن کے لیے تشریف لے گئے تھےاور انہیں چالیس یوم تک وہاں رہنا پڑا تھاتو ان کے غائبانہ ان کی قوم نےبچھڑے کی پرستش شروع کردی تھی اس واقعہ سے متعلق ایک حصہ کو قرآن پاک نے یوں بیان کیا ہے :

"وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا"۔             

(الاعراف:۱۴۸)

موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کے بعد زیورات سے ایک بچھڑا بنالیا۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ تستری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بچھڑے سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی محبت میں گرفتار ہوکر انسان اللہ سے  منہ موڑلے ؛مثلاً اہل واولاد اور مال وغیرہ انسان تمام خواہشات کو ختم کردے جس طرح بچھڑے کے پجاری اس سے اسی حالت میں چھٹکارا پاسکتے ہیں جب وہ اپنی جانوں کو تلف کردیں۔                      

(التفسیر التستری:۱/۱۶۹،شاملہ)

یہ تفسیر بھی عقل سلیم کی روشنی میں کی جانے والی تفسیر کے قبیل سے ہے اور یہ اصول شرعیہ کے مخالف بھی نہیں ہے۔
تیسری مثال
قرآن پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے جس میں اللہ تعالی نے ان کو اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل  علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم دیا تھا قرآن پاک میں یوں ہے:

"وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ "۔

(الصافات:۱۰۷)      

   اور اس کے عوض ہم نے ایک بڑا جانور دے دیا۔

اس کی تفسیر میں علامہ تستری لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ بتقاضائے بشریت اپنے بیٹے سے محبت کرتے تھے اس لیے اللہ تعالی نے آزمائش کے طور پر اس کو ذبح کرنے کا حکم دیا، منشأ خدا وندی دراصل یہ نہ تھا کہ ابراھیمؑ بیٹے کو ذبح کرڈالیں؛ بلکہ مقصود یہ تھا کہ غیراللہ کی محبت کو دل سے نکال دیا جائے ،جب یہ بات پوری ہوگئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی عادت سے باز آگئےتو اسماعیل کے عوض ذبح عظیم عطا ہوئی۔                                        

   (التفسیر التستری:۱/۴۳۹، شاملہ)

یہ تفسیر بھی اسی قبیل سے ہے اور اصول شرعیہ کے معارض بھی نہیں ہے اس لیے اس کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس عنوان پر تفسیر یں بھی لکھی گئی ہیں ، علامہ ابوالسعودکی"ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم" اور" تفسیر التستری"قابل ذکر ہیں۔

تفسیر کے لیے ضروری علوم
قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں ،ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں،جنت ودوزخ کا تذکرہ اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں وغیرہ جس کو ہر عربی داں شخص سمجھ سکتا ہے؛بلکہ مستند ترجمہ کی مدد سے اپنی مادری زبان میں بھی ان آیات کو سمجھ سکتا ہے،ان آیات کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر"۔ٍ                 

(القمر:۱۷)

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے؛ اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟۔

دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام وقوانین،عقائد اور علمی مضامین پر مشتمل ہیں ،اس قسم کی آیتوں کو پوری طرح سمجھنے اوران سے احکام ومسائل مستنبط کرنے کےلیےعلم تفسیرکاجانناضروری ہے ،صرف  عربی زبان کا سمجھنااس کے لیے کافی نہیں ہے،   صحابہ کرامؓ اہل عرب ہونے کے باوجودایسی آیتوں کی تفسیر اللہ کے رسولسے معلوم کیا کرتے تھے،اس کی تفصیلی مثالیں اس مقالہ میں آچکی ہیں؛یہاں سمجھنے کے لیے ایک مثال پر اکتفا کیا جارہا ہے،روزوں سے متعلق جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:

"وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ"۔

(البقرۃ:۱۸۷)

اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے میں تمہیں فرق معلوم ہونے لگے۔

اس آیت کو سننے کے بعدحضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ(۶۷ھ) نے سفید اورسیاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے؛ تاکہ جب دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے وہ اپنے روزے کی ابتداء کرلیا کریں؛اسی طرح اور ایک روایت میں حضرت سہل بن سعدؓ (۹۸۱ھ) کہتے ہیں:کچھ لوگ جنہوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں پاؤں سے سفید اورسیاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر سحری کھاتے رہتے؛یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس میں ممتاز نہ ہوجائیں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سمجھا یا کہ یہاں سفید اورسیاہ دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اورشب کی سیاہی ہے۔

(بخاری،بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا،حدیث نمبر:۱۷۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)







الغرض !قرآن کریم کی تفسیر کرنے کے لیے علم تفسیر کا جاننا ضروری ہے،کسی بھی آیت کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے والا غلطی پر ہے،خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا،قرآن کریم کی تفسیرسمجھنے کے لیے مستند تفاسیر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور علماء سے استفادہ کرنا چاہیے،اس مضمون کے آخر میں مستنداردو تفاسیر کے نام ذکر کیے گئے ہیں ،درج ذیل احادیث میں تفسیر قرآن کی باریکی کا اندازہ ہوتا ہے :



تفسیر بالرائے:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔

جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔

[مسند أحمد:2069-2429، سنن الترمذي:2950، السنن الكبرى-النسائي:8030]

حضرت جندب سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللهِ ‌بِرَأْيِهِ ‌فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ.»

جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے خطا (یعنی قصور، گٌناہ، جرم، غلطی) کی۔

[سنن أبي داود:3652، سنن الترمذي:2952، السنن الكبرى-النسائي:8032]


علامہ ماوردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض غلو پسند لوگوں نے اس حدیث سے یہ مطلب سمجھا کہ قرآن کریم کے بارے میں کوئی بات فکر ورائے کی بنیا دپر کہنا جائز نہیں؛ یہاں تک کہ اجتہاد کے ذریعے قرآن کریم سے ایسے معانی بھی مستنبط نہیں کیے جاسکتے جو اصول شرعیہ کے مطابق ہوں؛ لیکن یہ خیال درست نہیں؛ کیونکہ خود قرآن کریم نے تدبر اور استنباط کو جا بجا مستحسن قرار دیا ہے اور اگر فکر وتدبر پر بالکل پابندی لگادی جائے توقرآن وسنت سے شرعی احکام وقونین مستنبط کرنے کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا ؛لہٰذا اس حدیث کا مطلب ہر قسم کی رائے پر پابندی لگانا نہیں ہے۔

(الاتقان :۲/۱۸)

چنانچہ اس بات پر جمہور علماء متفق ہیں کہ خود قرآن وسنت کے دوسرے دلائل کی روشنی میں اس حدیث کا منشاء یہ ہر گز نہیں ہے کہ معاملہ میں غور وفکر اور عقل ورائے کو بالکل استعمال نہیں کیا جاسکتا ؛بلکہ اس کا اصل منشاء یہ ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کے لیے جو اصول اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ ہیں ان کو نظر انداز کرکے جو تفسیر محض رائے کی بنیاد پر کی جائے وہ ناجائز ہوگی اور اگر اس طرح تفسیر کے معاملہ میں دخل دے کر کوئی شخص اتفاقاً کسی صحیح نتیجہ پر پہنچ جائے تو وہ خطا کار ہے، اب اصول تفسیر کو نظر انداز کرنے کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً:
۱۔جو شخص تفسیر قرآن کے بارے میں گفتگو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ محض اپنی رائے کے بل بوتے پر تفسیر شروع کردے۔
 ۲۔کسی آیت کی کوئی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ وتابعین سے ثابت ہو اور وہ اسے نظر انداز کرکے محض اپنی عقل سے کوئی معنی بیان کرنے لگے۔
۳۔ جن آیات میں صحابہ کرام وتابعین سے کوئی صر یح تفسیر منقول نہیں ان میں لغت اور زبان وادب کے اصولوں کو پامال کرکے کوئی تشریح بیان کرے۔
۴۔ قرآن وسنت سے براہ راست احکام وقوانین مستنبط کرنے کے لیے اجتہاد کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور پھر بھی اجتہاد شروع کردے
 ۵۔ قرآن کریم کے متشابہ آیات (جن کے بارے میں قرآن نے خود کہے دیا ہے کہ ان کی سو فیصد صحیح مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا)  ان کی جزم ووثوق کے ساتھ کوئی تفسیر بیان کرے اور اس پر مصر ہو ۔
۶۔قرآن کریم کی ایسی تفسیر بیان کرے جس سے اسلام کے دوسرے اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ عقائد یا احکام مجروح ہوتے ہوں           
۷۔تفسیر کے معاملہ میں جہاں عقل وفکر کا استعمال جائز ہے وہاں کسی قطعی دلیل کے بغیر اپنی ذاتی رائے کو یقینی طور پر درست اور دوسرے مجتہدین کی آراء کو یقینی طور سے باطل قرار دے۔
یہ تمام صورتیں اس تفسیر بالرائے کی ہیں جن سے مذکورہ بالا حدیث میں منع کیا گیا ہے؛ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ان تمام صورتوں کو اس مختصر جملے میں سمیٹ دیا گیا ہے :

من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من النار۔

[مسند أحمد:2069-2429، سنن الترمذي:2950، السنن الكبرى-النسائي:8030]

جو شخص قرآن کریم کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔

البتہ تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر میں کسی ایسی رائے کا اظہار کیا جائے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہے؛ البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن وسنت کے وسیع وعمیق علم اور اسلامی علوم میں مہارت کے بغیر ممکن نہیں اور علماء نے اس کے لیے بھی کچھ کار آمد اصول مقرر فرمائے ہیں جو اصول فقہ اور اصول تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کا ایک نہایت مفید خلاصہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "البرہان فی علوم القرآن کی نوع ۴۱ میں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان (صفحہ:۱۶۴۔۱۷۰)بیان فرمایا ہے، یہ پوری بحث نہایت قابل قدر ہے ؛لیکن چونکہ عربی زبان وعلوم کی مہارت کے بغیر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ،اس لیے اس کا ترجمہ یہاں نقل کرنا بے فائدہ ہے جو عربی داں حضرات چاہیں وہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔


گمراہ فرقوں کو پہچاننے کا اصول:
جتنے بھی گمراہ لوگوں نے اسلام میں نکالے ہیں ان سب گمراہوں میں ایک بات قدر مشترک کے طور پر آپکو ملے گی، وہ یہ کہتے ہیں کہ:
ہم براہِ راست خدا کی کتاب کو سمجھیں گے اور رسول اللہ ﷺ کی احادیٹ وسنت کو اور ہمارے لئے صحابہ کرام کی سمجھ کوئی حجت ودلیل نہیں ہے۔ جس طرح کتاب وسنت ان کے سامنے تھی ویسے ہی ہمارے سامنے ہے، ہم ذاتی (رائے کے) طور پر اسے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔(یعنی اپنی رائے کو اسلام کہیں گے). جیسے: حضرت علی کو کافر قرار دینے والے خارجی قرآن سے دلیل دیتے۔



 سابقہ تمام تفصیل سے یہ ثابت ہوا کہ تفسیر قرآن مجید کے لیے کچھ ضروری علوم ہوتے ہیں جن کے بغیر تفسیر کرنا ایسا ہے جیسے بغیر آلات کے صناعی کرنا، کہ جیسے کوئی بھی فن بغیر آلاتِ ضروریہ کے نہیں آتا ایسے ہی ہر علم کا بھی یہی مسئلہ ہے؛ چنانچہ مفسرین اور اہل علم نے ضروری علوم کی تفصیل یوں بتلائی ہے:علم لغت، صرف ونحو، معانی ، بیان، بدیع ، عربی ادب، علم کلام، منطق، حکمت  وفلسفہ، علم عقائد،علم تفسیر، پھر اس میں درجات اہل علم کے ہاں مانے گئےہیں، چنانچہ ابتدائی لغت وصرف نحو ادب یہ عربی زبان سیکھنے اور اس کی باریکیوں کو جاننے کے لیے ہیں؛ کیونکہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا نیز معانی بیان وبدیع وغیرہ اس کی رعنایوں کو سمجھنے ک لیے اورمنطق حکمت  وفلسفہ کلام،دوسری زبانوں سے مستعا رعلوم کے ذریعہ جو گمراہیاں آ سکتی ہیں اس کے دفع کے لیے، پھر علم تفسیر کے اندر بھی کئی تفصیلات بتلائی گئی ہے؛ مثلا وحی اوراس کی ضرورت کو سمجھنا پھر وحی کی اقسام مثلاً، وحی قلبی، وحی ملکی، پھر وحی کی مختلف شکلیں جیسے صلصلۃ الجرس اورفرشتے کاانسانی شکل میں آنا،رویائے صادقہ ،نفث فی الروع، پھر وحی متلو وغیر متلو، پھر قرآن کریم کے نزول کے متعلق تفصیلات اورسورتوں کی تدوین مکی ومدنی ہونے کے اعتبار سے نیز بعض مدنی سورتوں میں مکی آیتیں اوربعض مکی سورتوں میں مدنی آیتیں کونسی ہیں اسکا استقصاء پھر قرآن کریم سات حروف پر نازل ہونے کا کیا مطلب ہے؛ پھر ناسخ و منسوخ آیتوں کی تفصیلات ،سبعہ احرف سے کیا مراد ہے اورحفاظت قرآن اورجمع قرآن کی تفصیلات پھر اس کے اندر دیئے ہوئے علامات وقف کی تفصیلات اوراسی میں پاروں کی تقسیم اوراس کے اعراب وحرکات سے متعلق تفصیلات پھر قرآن کریم میں جو مضامین ذکرکئے گئے ہیں،مثلا عقائد،واقعات اورایام اللہ وانعم اللہ،پھر آیات مقطعات و متشابھات ومحکمات وغیرہ کی تفصیلات،بہرحال یہ تو چندضروری علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،  ان کی تفصیل میں جائیں تو بہت وقت لگ جائے ۔





اہم مفسرین کے نام مع تاریخ وفات
 جب اہم مفسرین کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے قرن اول یعنی صحابہ وتابعین کا ذکر ضروری ہوتا ہے۔
لہٰذا سب سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اہم مفسرین کے نام آتے ہیں اوران میں سے بھی پہلے حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہیں جو مفسر اول کے نام سے جانے جاتے ہیں اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے جو تفسیر فی زمانہ منظر عام پرآئی ہے تنویر المقیاس فی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ حتی کہ اسکا اردو ترجمہ بھی شائع ہوگیا؛ لیکن حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں مانی گئی ہے ؛کیونکہ یہ کتاب "محمد بن مروان السّدّی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ" کی سند سے مروی ہے اوراس سلسلہ سند کو محدثین نے سلسلۃ الکذب قراردیاہے۔       

(دیکھئے الاتقان:۱۸۸/۲)

بہرحال قرن اول کے مفسرین میں پہلانام حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے تاریخ وفات سنہ۶۸ھ۔
دوسرانام حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ وفات سنہ۴۰ھ۔
پہلے تین خلفاء کی نسبت حضرت علی سے تفسیری روایات زیادہ مروی ہیں ؛چنانچہ علامہ ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ اپنے خطبے میں یوں فرمایا کہ لوگو!مجھ سے کتاب اللہ کے بارے میں سوالات کیا کرو؛ کیونکہ قسم خدا کی قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے  میں مجھے معلو نہ ہوکہ یہ آیت رات کو نازل ہوئی یا دن میں میدان میں اتری یا پہاڑ پر۔     

( الاتقان:۱۸۷/۲)

تیسرا نام حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ متوفی سنہ۳۲ھ۔
 ان کی بھی کئی روایات تفسیر میں منقول ہیں؛ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں زیادہ منقول ہیں۔
چوتھا نام حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ متوفی سنہ۳۹ھ۔
 حضرت ابی بن کعب اُن صحابہ میں سے ہیں جو تفسیر اورعلم قرأت میں مشہور ہیں، چنانچہ رسول اللہ  نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ، اَقْرَأُ کُمْ اُبَیْ ابْنُ کَعْبٍ، تم میں سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔                   

(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۳۸/۲)

حضرت ابی بن کعب کی علمی وقعت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ حضرت معمر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:

"عَامَّۃُ عِلْمِ ابنِ عَبَّاسٍ مِنْ ثَلٰثَہٍ،عُمَر وَعَلِی وَاُبَیْ بنُ کَعبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ"۔

(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۳۸/۲)

 ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بیشتر علوم تین حضرات سے ماخوذ ہیں،حضرت عمر وعلی وابی بن کعب رضی اللہ عنہم۔ٍ

ان حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ اوربھی کچھ نام تفسیر کے سلسلہ میں منقول ہیں مثلا  زید بن ثابتؓ، معاذ بن جبلؓ، عبداللہ بن عمروؓ، عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عائشہؓ ، جابرؓ ، ابو موسیٰ اشعری ؓ،انس ؓ اورحضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہم۔
تابعین
حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے چونکہ مختلف علاقوں اورمقامات میں پھیل کر قرآن کریم کی خدمت کا سلسلہ شروع کیا ،جس کی وجہ سے تابعین کی ایک بڑی جماعت اس کام کے لیے تیار ہوئی، جس نے علم تفسیر کو محفوظ رکھنے میں نمایاں خدمات انجام دیں، ان میں سے کچھ برائے تعارف پیش کئے جاتے ہیں:
(۱)حضرت مجاہدؒ یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں پورانام ہے ابوالحجاج مجاہد بن جبر المخزومی، ولادت  سنہ۲۱ ھ اوروفات سنہ۱۰۳ھ۔
(۲)حضرت سعید بن جبیرؒ،وفات۹۴ھ
(۳)حضرت عکرمہؒ
(۴) حضرت طاؤسؒ ،وفات۱۰۵ھ
(۵)حضرت عطاء بن ابی رباح،وفات۱۱۴ھ
(۶)حضرت سعید بن المسیبؒ،وفات۹۱ھ یا ۱۰۵ھ
(۷)محمد بن سیرینؒ،وفات۱۱۰ھ
(۸)حضرت زید بن اسلمؒ،وغیرہ۔                        

(منقول از علوم القرآن:۴۶۱)

تفاسیر کی اہم کتابیں
مفسرین نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے کئی نقطۂ نظر سے تفسیریں لکھی ہیں؛مثلاًادبی،عقلی اور کلامی وغیرہ،بعض نے تفسیر بالماثور بھی لکھی،بعض نے تفسیر اشاری یعنی صوفیانہ اندازپر تفسیرلکھی،غرض مختلف نقاط نظر سے قرآن کی خدمت کی گئی ہے۔
تفسیر بالماثور میں اہم تفاسیر
 تفسیر طبری،تفسیر بحرالعلوم ازسمر قندی،الکشف والبیان عن تفسیر القرآن از ثعالبی، معالم التنزیل ازبغوی، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب لابن عطیہ،تفسیر ابن کثیر،الدر المنثور فی تفسیر الماثور ازسیوطی،الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن ازثعالبی- خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
 تفسیر بالرائے کے نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں
 مفاتیح الغیب ازرازی،انوارالتنزیل واسرار التاویل ازبیضاوی،مدارک التنزیل وحقائق التاویل فی معانی التنزیل از خازن، غرائب القرآن ورغائب الفرقان از نیسا پوری،تفسیر جلالین، السراج المنیراز خطیب شربینی،روح المعانی از آلوسی۔وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
صوفیانہ نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی تفاسیر میں
تفسیر ابن عربی، تفسیر فیضی،تفسیر القرآن العظیم از تستری، حقائق التفسیر ازسلمی، عرائس البیان فی حقائق القرآن وغیرہ ہیں۔
 فقہی نقطہ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں:
 احکام القرآن ازکیاہراسی، احکام القرآن ازابن العربی،الجامع لاحکام القرآن از قرطبی،کنزا لعرفان فی فقہ القرآن، احکام القرآن للجصاص،احکام القرآن للتھانوی اور اردو میں ایک مختصر سی کتاب مولانا عبدالمالک صاحب کاندھلوی کی فقہ القرآن کے نام سے آئی ہے۔


اسرائیلیات کی حیثیت:
قرآن مجید کے نزول سے قبل دیگر آسمانی کتابیں مثلاًتورات وانجیل وغیرہ نازل ہوچکی تھی اور نزولِ قرآن کے زمانہ میں اہل کتاب کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو قرآن میں بیان کردہ انبیاء کرام کے واقعات  کو اپنی کتابوں کے حوالہ سے بھی پیش کرتے تھے اوربعض اوقات من گھڑت حکایات بھی نقل کردیتے ؛لیکن اس سلسلہ میں نبی کریم نہایت قیمتی اصول بیان فرمائے جو آگے پیش کیئے جائیں گے تو آئیے قرآن کریم میں اسرائیلیات کی حیثیت اوران کا مقام و مرتبہ کیا ہے ،اس کو فرامین رسول کی روشنی میں اور علمائے امت کی تحریروں کے آئینہ میں ملاحظہ کرتے ہیں:
اسرائیلی روایات کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:

"الاسرائیلیات: الاخبار المنقولۃ عن بنی اسرائیل من الیھود وھو الاکثر اومن النصاری"۔

(قسم التفسیر واصولہ:۱/۴۷)

اسرائیلیات وہ باتیں جو  بنی اسرائیل  یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یا نصاریٰ سے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے رقم فرمایا کہ:
"اسرائیلیات یا اسرائیلی روایات ان روایات کو کہتے ہیں جو یہودیوں یا عیسائیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے بعض براہِ راست بائبل یا تالمود سے لی گئی ہیں بعض منشاءاوران کی شروح سے اوربعض وہ زبانی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئی ہیں اور عرب کے یہود ونصاری میں معروف  ومشہور تھیں"۔

(علوم القرآن:۳۴۵)




اسرائیلیات کی ابتداء:

جب قرآن مجید نازل ہونےلگا اوراس میں حضرات انبیاء کرام کے واقعات اوران کی قوموں کے احوال بیان کیے جانے لگے تو اہل کتاب یہود ونصاری اپنی عبرانی زبان میں موجود کتابوں سے جو تحریف شدہ تھے اس سے واقعات عربی میں حضرات صحابہ کرام ؓسے بیان کرتے تھے جب اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان اہل کتاب کے بیان کردہ واقعات کی نہ ہی تصدیق کرو اورنہ تکذیب ؛بلکہ کہو کہ جو کچھ اللہ تعالی نے نازل کیا  ہےہمارا اس پر ایمان  ہے؛چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ:

"كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا"۔

(بخاری، بَاب:قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا،حدیث نمبر:۴۱۲۵)

اہل کتاب تورات عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے،رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو اور کہو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں۔
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ (المتوفی:۸۵۳ ھ) حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ نہ تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب یہ اس وجہ سے ہے کہ جن باتوں کی وہ خبر دے رہے ہیں وہ سچ اورجھوٹ دونوں کا احتمال رکھتی ہیں،اگر فی الواقع وہ سچ ہوں اور تم ان کی تکذیب کردویا اگر وہ جھوٹ ہوں اور تم اس کی تصدیق کردو تو دونوں اعتبار سے حرج اور تنگی میں پڑجانے کا اندیشہ ہے اس لیے ان کی بیان کردہ باتوں کو سن کر نہ تصدیق کی جائے نہ تکذیب؛ تاکہ فتنہ میں نہ پڑو۔

(فتح الباری،حدیث نمبر:۴۱۲۵،شاملہ)


دومتعارض حدیثوں کا جواب:

اسرائیلیات کے عنوان میں دوحدیثیں ہیں ایک جو ابھی اوپر مذکور ہوئی دوسری حدیث ہے کہ:

"حَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ"۔

(ابو داؤد،بَاب الْحَدِيثِ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ،حدیث نمبر:۳۱۷۷)

اس حدیث سے یہ معلوم ہورہا ہے کہ بنی اسرائیل کےبیان کردہ واقعات وغیرہ کے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ پہلی روایت سے معلوم ہورہا ہے کہ بنی اسرائیل کے بیان کردہ واقعات پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے چہ جائیکہ ان کو بیان کیا جائے بظاہر دوحدیثوں میں باہم تعارض دکھائی دے رہا ہے، اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ محمد حسین الذہبی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو بنی اسرائیل سے بیان کرنے کی اجازت نظر آتی ہے وہ وہ واقعات اور عبرت ونصیحت پر مشتمل  حکایات ہیں جن کے بارے میں معلوم بھی ہو کہ وہ سچ ہیں توان کو بیان کیا جاسکتا ہے اورپہلی حدیث میں توقف ہے کہ ان کے بیان کرنے میں احتیاط کی جائے تاکہ سچ اور جھوٹ میں اختلاط نہ ہوجائے اوراس خلط ملط کے نتیجہ میں حرج میں نہ پڑ جائے، خلاصہ یہ ہے کہ دوسری حدیث عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات کی اباحت پردلالت کرتی ہے اورپہلی حدیث ان مضامین کے بارے میں توقف پردلالت کرتی ہے جن میں عبرت ونصیحت سے ہٹ کر دیگر مضامین ہوں؛اس طرح کوئی بھی حدیث متعارض نہیں۔

اسرائیلیات کا حکم:

اس سلسلہ میں تقریباً علمائے امت نے ایک ہی جواب دیا ،الفاظ وتعبیرات اگر چہ مختلف ہیں؛ لیکن حکم ایک ہی ہے، آگے ہم مختلف علماء کرام کی تحریریں پیش کریں گے، سب سے پہلے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انہوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ:
(۱)پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہوچکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔
(۲)دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے،مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔
(۳)تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"لا تصدقوھا ولاتکذبوھا"۔

اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جاسکتی ہے اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔         

(علوم القرآن:۳۶۴)

یہی بات علامہ محمد حسینی ذہبیؒ اور علامہ ابن تیمیہؒ وغیرہ نے بھی کہی ہے۔

(التفسیروالمفسرون للذھبی،باب ثانیا:الااسرائیلیات:۴/۱۴)

مسند الہند حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (المتوفی:۱۱۷۶) نے نہایت اختصار کے ساتھ مگر جامع بات لکھی ہے کہ تفسیر میں اسرائیلی روایتوں کو بیان کرنا دراصل یہ بھی ایک سازش ہے جبکہ یہ قاعدہ مسلم ہے کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ ان کی تکذیب کرو؛ لہٰذا اس قاعدہ کی بنیاد پر دوباتیں نہایت ضروری ہیں:
(۱)جب حدیث میں قرآن کریم کے اشارہ کی تفصیل موجود ہو تو اسرائیلی روایات کو تفسیر میں نقل نہیں کرنا چاہئے۔
(۲)قرآن کریم میں جس واقعہ کی طرف اشارہ آیا ہو اس کی تفصیل ضرورت کے بقدر ہی بیان کرنی چاہئے تاکہ قرآن کریم کی گواہی سے اس کی تصدیق ہو کیونکہ یہ بھی قاعدہ ہے کہ ضروری بات بقدر ضرورت مانی جاتی ہے۔

(الفوزالکبیر مع شرح الخیر الکثیر:۴۵۳)


اسرائیلی روایات کی مثالیں:

"وَجَاءُوْ عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ"۔

(یوسف:۱۸)

اوریوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگاکر لے آئے۔

(۱)اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد کو اس بات کا یقین دلانے کےلیے کہ حضرت یوسف کو  ایک بھیڑئے نے ہی کھالیا ہے ،ایک بھیڑئےکو باندھ کرحضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب کے پاس لے آئے اور کہا کہ: ابا جان! یہی وہ بھیڑیا ہے جو ہماری بکریوں کے ریوڑ میں آتا رہتا ہے اور ان کو چیرتا پھاڑتا ہے،ہمارا خیال ہے کہ اسی نے ہمارے بھائی یوسف کا خون کیا ہے،حضرت یعقوب نے بھیڑئے سے کہا قریب آؤقریب آ ؤ،وہ قریب آگیا ،اس سے کہا تم نے میرے بیٹے کو مار کر تکلیف پہنچائی اور مسلسل غم میں مبتلا کردیا ہے ،پھر حضرت یعقوب نے اللہ سے دعا کی کہ،یا اللہ !تو اس کو گویائی دے،اللہ نے اس کو بولنا سکھادیا، بھیڑئے نے کہا ،اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنایا ہے، نہ میں نے اس کا گوشت کھایا نہ میں نے اس کی کھال ادھیڑی ہے، نہ میں نے اس کا ایک بال اکھیڑا ہے،قسم خدا کی آپ کے لڑکے سے میرا کوئی سروکار نہیں ،میں ایک پردیسی بھیڑیا ہوں میں مصر کے اطراف سے اپنے ایک بھائی کی تلاش میں آیا ہوا ہوں،میں اس کی جستجو میں تھا کہ آپ کے لڑکوں نے میرا شکار کرلیا،ہم لوگوں پر انبیاء اوررسولوں کا گوشت حرام کردیا گیا ہے..الخ۔     

(تفسیر ثعلبی:۴/۲۱) 

 

"فَاَلْقٰہَا فَاِذَا ہِىَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی"۔

(طٰہٰ:۲۰)

انہوں نے اسے پھینک دیا،وہ اچانک ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گئی۔

(۲)اس آیت کے سلسلہ میں وہب بن منبہ کی ایک روایت ہے،انہوں نے کہا کہ حضرت موسی نے جب عصا کو زمین پر ڈالا تودیکھا کہ وہ ایک عظیم الجثہ اژدھا بن گیا،لوگ حیرت واستعجاب اور خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے،اژدھا اِدھر اُدھر رینگ رہا ہے، جیسے کچھ تلاش کررہا ہو، اژدھا رینگتا ہوا پہاڑ کی چٹانوں کے پاس پہنچ گیا تو بھوکے اونٹ کی طرح بیتابی کے ساتھ پوری چٹان نگل گیا،جب وہ اپنا منھ بڑے سے بڑے تناور درخت کی جڑوں پر لگادیتا تھا تو اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتا تھا،اس کی دونوں آنکھیں دھکتے ہوئے انگاروں کی طرح تھیں؛اس کے بال نیزوں کی طرح تھے..الخ۔         

(تفسیر ابن کثیر:۵/۲۷۹)

"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْك"۔

(البقرۃ:۲۵۸)

کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار( کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیمؑ سے بحث کرنے لگا؟۔

(۳)اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت میں نمرود کے بارے میں اس طرح لکھا ہوا ہے:ایک مچھر نمرود  کی ناک میں گس گیا اور اس کی ناک میں چار سو سال تک بھنبھناتا رہا،اس مچھر کی اذیت کی وجہ سے نمرود انتہائی بے چین رہتا تھا اور مستقل عذاب میں مبتلا تھا اور جب تکلیف کی شدت اور بے چینی بڑھ جاتی تھی تو لوہے کی سلاخ سے یا ہتھوڑے سے اس کے سر کو ٹھونکا جاتا تھا جس سے مچھر کی اذیت کچھ ہلکی پڑتی تھی ،اسی عذاب میں نمرود چار سو سال زندہ رہا پھر اسی اذیت کی وجہ سے مرگیا۔             

(تفسیر ابن کثیر:۱/۳۱۳)

یہ تینوں روایتیں اسرائیلی خرافات میں سے ہیں،جیسا کے علماء امت نے اس کی تصریح کی ہے۔

(تفسیروں میں اسرائیلی روایات:۴۴۴)

قرآن کریم جو اللہ تبارک وتعالی کا عظیم ترین اورمقدس ترین کلام ہےاور رسول کریم کا حیرت انگیز ابدی ودائمی معجزہ ہے،جو ساری انسانیت کے لیے نسخہ ہدایت اوردستور حیات بنا کر نازل کیا گیا، جس سے مردہ دلوں کی مسیحائی ہوئی اورگم گشتہ راہ لوگوں کومنزلِ مقصود کا پتہ ملا، جس کی علمی  ،ادبی حلاوتوں،روحانی راحتوںاورمعانی ومفاہیم کے بے پناہ وسعتوں نے ہر زمانہ کے انسانوں کو متاثر کیا اورقلب و نظر کی دنیا میں انقلاب کا ذریعہ ہے، سب سے بڑا اعجاز اس کلام مبارک کا یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے جو اس دنیا میں ازل سے کسی اورکتاب یا صحیفہ آسمانی کو نصیب نہیں ہوا اور علوم و معارف کے اس گنجینۂ گراں مایہ کی حفاظت اورخدمت کے لیے انسانوں ہی میں سے مختلف علوم کے مختلف افراد کا انتخاب فرمایا؛ چنانچہ الفاظ قرآنی کے لیے حفاظِ کرام کوسعادت حفظِ قرآن بخشی اورمرادِ ربانی منشائے نبوی کی صحیح تعیین و تشریح کے لیے حضرات مفسرین کو منتخب کیا؛ چنانچہ مفسرین کرام نے اپنی خدادا دذہانت اورتمام تر صلاحیت کو اس کلام الہٰی کی غواصی میں لگادیا؛ لیکن آج کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ تمام تر موتیوں اورعلم وحکمت کے جواہر پاروں کو اکٹھا کیا جاسکا ،یہ کلام ایک بحر بیکراں ہے جس کی مختلف زبانوں میں علمائے امت نے اپنی صبح و شام کی محنتوں کا محور بنایا،آج انہی علماء کرام اورمفسرین عظام کی کوششوں اورکاشوں کا ثمرہ ہے کہ مختلف زبانوں میں قرآن کی تفسیر موجود ہے، ذیل میں ہم صرف تفسیر قرآن کی مختلف کتابوں کے نام مع اسمائے مصنفین وسن وفات پیش کرتے ہیں، جو شروع سے لے کر آج تک امت میں مقبول ومتداول ہیں اورلا تعداد انسان ان کتابوں سے استفادہ کررہے ہیں پہلے عربی تفاسیر کے نام بعد ازاں اردو کتب تفاسیر رقم کی جارہی ہیں۔

اہل کتاب کی روایات نقل کرنے والے حضرات
عہد صحابہ اوراس کے بعد کے ادوار میں بھی تفسیر قرآن کے ماخذ کے طورپر یہودونصاریٰ رہے ہیں؛ کیونکہ قرآن کریم بعض مسائل میں عموماً اورقصص انبیاء اور اقوام سابقہ کے کوائف واحوال میں خصوصاً تورات کے ساتھ ہم آہنگ ہے، اسی طرح قرآن کریم کے بعض بیانات انجیل سے بھی ملتے ہیں؛ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا واقعہ اوران کے معجزات وغیرہ۔
البتہ قرآن کریم نے جو طرز و منہاج اختیار کیا ہے وہ تورات وانجیل کے اسلوب بیان سے بڑی حد تک مختلف ہے،قرآن کریم کسی واقعہ کی جزئیات وتفصیلات بیان نہیں کرتا، بلکہ واقعہ کے صرف اسی جز پر اکتفاء کرتا ہے جو عبرت وموعظت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہوتا ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ تفصیلی واقعہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام اوربعد کے ادوار میں تابعین اور تبع تابعین حضرات اہل کتاب کے ان اہل علم سے جو حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تھے قرآن میں ذکر کردہ واقعات کی تفصیل کے واسطے رجوع کیا کرتے تھے، اسرائیلی روایات کا مدار وانحصار زیادہ تر حسب ذیل چار راویوں پر ہے:
عبداللہ بن سلامؓ، کعب احبار، وھب بن منبہ، عبدالملک بن عبدالعزیزابن جریج، جہاں تک عبداللہ بن سلامؓ کی بات ہے تو آپ کے علم وفضل میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور ثقاہت و عدالت میں آپ اہل علم صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، آپ ؓ کے بارے میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں، امام بخاری ؒ اورامام مسلمؒ اوردیگر محدثین نے آپ کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔
حضرت کعب احبار بھی ثقہ راویوں میں سے ہیں،ا نہوں نے زمانہ جاہلیت کا زمانہ پایا اورخلافت صدیقی یا فاروقی میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ خلافت فاروقی میں آپ کے اسلام لانے کی بات مشہور تر ہے۔

(فتح الباری ،۱۵۸/۱ حدیث نمبر:۹۵)

آپ کے ثقہ اورعادل ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وحضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ  اپنی جلالت قدر اورعلمی عظمت کے باوجود آپ سے استفادہ کرتے تھے، امام مسلمؒ نے صحیح مسلم میں کتاب الایمان کے آخر میں کعب سے متعدد روایات نقل کی ہیں، اسی طرح ابوداؤد،ترمذی اورنسائی نے بھی آپ سے روایت کی ہیں؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کعب احبار ان سب محدثین کے نزدیک ثقہ راوی ہیں۔
اسی طرح وھب بن منبہ کی جمہور محدثین اورخصوصاً امام بخاری ؒ نے توثیق وتعدیل کی ہے،ان کے زہد وتقوی کے بارے میں بڑے بلند کلمات ذکر کئے ہیں، فی نفسہ یہ بڑے مضبوط راوی ہیں ؛البتہ بہت سے لوگوں نے ان کی علمی شہرت وعظمت سے غلط فائدہ اٹھایا کہ بہت سی غلط باتوں کو ان کی طرف منسوب کرکے اپنے قد کو اونچا کیا اورلوگوں نےان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
 ابن جریج اصلاً رومی تھے،مکہ کے محدثین میں سے تھے ،عہد تابعین میں اسرائیلی روایات کے مرکز ومحور تھے،تفسیر طبری میں نصاری سے متعلق آیات کی تفسیر کا مدار انہی پر ہے، ان کے بارے میں علماء کے خیالات مختلف ہیں، بعض نے توثیق کی ہے تو بعض نے تضعیف بھی کی ہے ،بکثرت علماء آپ کو مدلس قرار دیتے ہیں اورآپ کی مرویات پر اعتماد نہیں کرتے، مگر بایں ہمہ امام احمد بن حنبلؒ ان کوعلم کا خزانہ قرار دیتے ہیں؛ بہرحال ابن جریج سے منقول تفسیری روایات کو حزم واحتیاط کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔
اہل کتاب کی روایات پر مشتمل کتب تفاسیر
کوئی ایسی کتاب جس میں خاص اسرائیلی(اہل کتاب کی) روایات کے جمع کرنے پر توجہ دی گئی ہوایسی توکوئی تفسیر نہیں ہے؛ البتہ آیات کی تفسیر میں عموماً کتب تفاسیر میں اسرائیلی روایات بھی ذکر کی گئی ہیں، جس کا علم راوی کو دیکھ کر یا پھر ان کی بیان کردہ باتوں کو اصول شرعیہ کی روشنی میں پرکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے،  مولانا اسیر ادروی صاحب کی ایک کتاب اردو میں" تفسیروں میں اسرائیلی روایات" کے نام سے آچکی ہے ،جس کے مقدمہ میں اسرائیلی روایات سے متعلق عمدہ بحث اکٹھا کردی ہے اورپھر جو اسرائیلی روایات ان کو معلوم ہوسکیں ان پر الگ الگ کلام کیا ہے اورمعتبر تفاسیر سے ان کا اسرائیلی روایات کے قبیل سے ہونا بھی ظاہر کیاہے، تفصیل کے لیے اسی کتاب کی طرف رجوع کیا جائے۔
یہاں پر چند عربی اور اردو تفاسیرکے نام لکھے جارہے ہیں اور اردومیں صرف مستند تفاسیر کے نام لکھے گئے ہیں۔
عربی کتب تفسیر مع اسمائے مفسرین
شمار
اسمائے مفسرین
اسمائے کتب تفسیر
سنِ وفات
۱
(منسوب) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ
تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس
۶۸ھ
۲
امام فخر الدین الرازی رحمۃ اللہ علیہ
مفاتیح الغیب (المعروف) تفسیر کبیر
۶۰۲ھ
۳
ابوعبداللہ محمد بن احمد بن ابوبکر بن فرح القرطبیؒ
الجامع الاحکام القرآن(المعروف) تفسیر قرطبی
۶۷۱ھ
۴
حافظ عماد الدین ابوالفدا اسماعیل بن خطیب ابوحفص عمر بن کثیر الشافعی رحمۃ اللہ علیہ
تفسیر ابن کثیر
۷۷۴ھ
۵
قاضی ابوالسعود محمد بن محمد العمادی الحنفیؒ
ارشاد العقل السلیم الی مزایا القرآن الکریم
(معروف) تفسیر ابی السعود
۹۸۲ھ
۶
علامہ محمودآلوسی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ
روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی
۱۲۷۰ھ
۷
ابومحمد حسین بن مسعود الفراء البغوی رحمۃ اللہ علیہ
معالم التنزیل
۵۱۶ھ
۸
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ
الدارالمنثورفی التفسیربالماثور
۹۱۱ ھ
۹
محمدبن جریر الطبری رحمۃ اللہ علیہ
جامع البیان فی تفسیر القرآن
۳۱۰ھ
۱۰
ابوعبداللہ بن احمد النسفی رحمۃ اللہ علیہ
۷۱۰ھ
۱۱
ابوحیان اندلسی رحمۃ اللہ علیہ
البحر المحیط
۷۴۰ھ
۱۲
قاضی ناصر الدین بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ
تفسیر بیضاوی
۶۹۱ھ
۱۳
ابوالحسن علی بن محمد رحمۃ اللہ علیہ
لباب التاویل فی معانی التنزیل (تفسیر خازن)
۷۴۱ھ
۱۴
ابوالقاسم محمود بن عمروبن احمد الزمخشریؒ
الکشاف
۵۳۸ھ
۱۵
ابو الفزج ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ
زاد المسیر
۵۹۷ھ
۱۶
ابوالفیض فیضی رحمۃ اللہ علیہ
سواطع الالہام
۱۰۰۴ھ
۱۷
قاضی محمد بن علی بن محمد بن عبداللہ الشوکانیؒ
فتح القدیر
۱۲۵۰ھ
۱۸
ملاجیون رحمۃ اللہ علیہ
تفسیرات احمدی
۱۱۳۰ھ
۱۹
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ
۱۲۴۰ھ
۲۰
۲۱
علامہ جلال الدین محلی رحمۃ اللہ علیہ
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ
۸۹۱ھ
۹۱۱ھ
۲۲
شیخ طنطاوی بن جوہری رحمۃ اللہ علیہ
تفسیر الجواھر
۱۳۵۸ھ
۲۳
سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ
فی ظلال القرآن
۱۳۸۵ھ
۲۴
الدکتوروھبۃ الزحیلی مدظلہٗ
التفسیر المنیر
باحیات

اردو کتب تفسیر مع اسمائے مفسرین

 

شمار
اسمائے مفسرین
اسمائے کتب تفسیر
سن وفات
۱

۲

۳
۴

۵
۶

۷
۸

۹

۱۰

۱۱
۱۲

۱۳

۱۴

۱۵

۱۶
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا عبدالحق حقانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا عاشق الہی بلندشہری رحمۃ اللہ علیہ
مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ

مولانا عبدالقدیر حسرت صدیقی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا محمد نعیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ
مولانا احمد عثمان کاشف الہاشمی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری مدظلہٗ
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ
مولانا عبدالکریم پاریکھ رحمۃ اللہ علیہ
تفسیر عزیزی



ترجمہ شیخ الہند


انوار البیان فی کشف اسرار القرآن
ترجمان القرآن

تفسیر صدیقی

انوارالقرآن

ہدایت القرآن

تکمیل ہدایت القرآن(جاری)

توضیح القرآن

تشریح القرآن۔
۱۲۳۹ھ
۱۳۶۳ھ
۱۳۶۹ھ
۱۳۹۶ھ
۱۳۹۸ھ
۱۳۳۹ھ
۱۲۴۷ھ


۱۳۷۷ھ
۱۳۸۲ھ
۱۴۲۹ھ

باحیات
باحیات

علم تفسیر:

ناسخ اور منسوخ


"نسخ" کے لغوی معنی ہیں مٹانا،ازالہ کرنا،اوراصطلاح میں اس کی تعریف یہ ہے :
رَفْعُ الْحُکْمِ الشَّرَعِیِّ بِدَلِیْلٍ شَرَعِیٍّ(مناہل العرفان:ماھو النسخ۲/۱۷۶)"کسی حکم شرعی کو کسی شرعی دلیل سے ختم کردینا"
مطلب یہ ہے کہ بعض مرتبہ اللہ تعالی کسی زمانے کے حالات کے مناسب ایک شرعی حکم نافذ فرماتا ہے پھر کسی دوسرے زمانے میں اپنی حکمت بالغہ کے پیش نظر اس حکم کو ختم کرکے اس جگہ کوئی نیا حکم عطا فرمادیتا ہے اس عمل کو نسخ کہا جاتا ہے اور اس طرح جو پرانا حکم ختم کیا جاتا ہے اس کومنسوخ اور جو نیا حکم آتا ہے اسے ناسخ کہتے ہیں ۔
نسخ کا مطلب رائے کی تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ ہر زمانے میں اس دور کے مناسب احکام دینا ہوتا ہے ،ناسخ کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ منسوخ کو غلط قرار دے؛بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے حکم کی مدت نفاذ متعین کردے اور یہ بتادے کہ پہلا حکم جتنے زمانے تک نافذ رہا اس زمانے کے لحاظ تووہی مناسب تھا لیکن اب حالات کی تبدیلی کی بنا پر ایک نئے حکم کی ضرورت ہے ،جو شخص بھی سلامتِ فکر کے ساتھ غور کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے  بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تبدیلی حکمت الہٰیہ کے عین مطابق ہے ،حکیم وہ نہیں جو ہر قسم کے حالات میں ایک ہی نسخہ پلاتا رہے بلکہ حکیم وہ ہے جو مریض اور مرض کے بدلتے ہوئے حالات پر بالغ نظری کے ساتھ غور کرکے نسخہ میں ان کے مطابق تبدیلیاں کرتا رہے۔

منسوخ آیات قرآنی:

متقدمین کی اصطلاح میں نسخ کا  مفہوم بہت وسیع تھا ،اسی لیے انھوں نے منسوخ آیات کی تعداد بہت زیادہ بتائی ہے لیکن علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے متأخرین کی اصطلاح کے مطابق لکھا ہے کہ پورے قرآن میں کل انیس آیتیں منسوخ ہیں۔

(الاتقان ،علامہ سیوطی:۲،۲۲)

پھر آخری دور میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ نے ان انیس آیتوں پر مفصل تبصرہ کرکے صرف پانچ آیتوں میں نسخ تسلیم کیا ہے اور باقی آیات میں ان تفسیروں کو ترجیح دی ہے جن کے  مطابق انھیں منسوخ ماننا نہیں پڑتا ان میں سے اکثر آیتوں کے بارے میں شاہ صاحب کی توجیہات نہایت معقول اور قابل قبول ہیں لیکن بعض توجیہات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے ،جن پانچ آیات کو انھوں نے منسوخ تسلیم کیا ہے وہ یہ ہیں :

(۱)کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْن۔

(البقرۃ: ۱۸۰)

 

جب تم میں سے کسی کے سامنے موت حاضر ہوجائے اگر وہ مال چھوڑ رہا ہو تو اس پر والدین اور اقرباء کے لیے وصیت بالمعروف کرنا فرض قرار دیدیا گیا ہے ،یہ حکم متقیوں پر لازم ہے ۔

یہ آیت اس زمانے میں لازم تھی جب میراث کے احکام نہیں آئے تھے اور اس میں ہر شخص کے ذمے یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے ترکہ کے بارے میں وصیت کرکے جائے کہ اس کے والدین یا دوسرے رشتہ دار کو کتنا کتنا مال تقسیم کیا جائے ؟بعد میں آیات میراث یعنی یوصیکم اللہ فی اولادکم، الخ  (النساء:۱۱) نے اس کو منسوخ کردیا اور اللہ تعالی نے تمام رشتہ داروں میں ترکے کی تقسیم کا ایک ضابطہ خود متعین کردیا اب کسی شخص پر مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض نہیں رہا۔
سورہ ٔ انفال میں ارشاد ہے :

إِنْ یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُونَ۔

(الأنفال:۶۵)

 

اگر تم میں سے بیس آدمی استقامت رکھنے والے ہونگے تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گےتو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے کیونکہ یہ کافر ایسے لوگ ہیں جو صحیح سمجھ نہیں رکھتے۔

یہ آیت اگرچہ بظاہر ایک خبر ہے لیکن معنی کے لحاظ سے ایک حکم ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنے سے دس گنازائددشمن کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں یہ حکم اگلی آیت کے ذریعے منسوخ کردیا گیا :

اَلآنَ خَفَّفَ اللّہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْْنِ بِإِذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔

(الأنفال:۶۶)

 

اب اللہ نے تمہارے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اللہ کو علمٹ ہے کہ (اب)تم میں کچھ کمزوری ہے پس اب اگر تم میں سے ایک ہزار افراد استقامت رکھنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب ہوں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔

اس آیت نہ پہلی آیت کے حکم میں تبدیلی پیدا کردی اور دس گنے دشمن کے بجائے دوگنے کی حد مقرر کردی کہ اس حد تک راہ فرار اختیار کرنا جائز نہیں ۔
تیسری آیت جسے حضرت شاہ صاحب نے منسوخ قرار دیا ہے سورۂ احزاب کی یہ آیت ہے :

لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء  مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُہُن۔

(الاحزاب:۵۲)

 

(اے  نبی )آپ کے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہ حلال ہے کہ ان(موجودہ  ازواج) کو بدل کر دوسری عورتوں سے نکاح کریں خواہ ان کا آپ کا حسن پسند آئے۔

اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید نکاح کرنے سے منع فرمادیا گیا  تھا بعد میں یہ حکم منسوخ کردیا گیا اور اس کی ناسخ آیت وہ ہے جو قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں مذکور بالا آیت سے پہلے مذکور ہے یعنی:

"یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْتَ أُجُورَہُنَّ"۔

(الاحزاب:۵۰)

 

(اے نبی) ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ ازواج حلال کردی ہیں جنھیں آپ نے ان کا مہر دے دیا ہو۔

 حضرت شاہ صاحب وغیرہ کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ سابقہ ممانعت منسوخ ہوگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں نسخ یقینی نہیں ہے’  بلکہ اس کی وہ تفسیر بھی  بڑی حد تک بے تکلف اور سادہ ہے جو حافظ ابن جریر نے اختیار کی ہے یعنی یہ کہ یہ دونوں آیتیں اپنی موجودہ ترتیب کے مطابق ہی نازل ہوئی ہیں:

یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ۔

(الاحزاب:۵۰)

 

والی آیت میں اللہ تعالی نے کچھ مخصوص عورتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ نکاح آپ کے لیے حلال ہے پھر اگلی آیت  لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء  مِن بَعْد(احزاب:) میں ارشاد فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ دوسری عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں۔      

(تفسیر ابن جریر)

(۴) چوتھی آیت جو حضرت شاہ صاحب کے نزدیک منسوخ ہے ،سورۂ مجادلہ کی یہ آیت :

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیْْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً ذَلِکَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَأَطْہَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔

(المجادلہ: ۱۲)

 

اے ایمان والو جب تم کو رسول سے سرگوشی کرنی ہو تو سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ کردیا کرو یہ تمہارے لیے باعث خیر وہ طہارت ہے پھر اگر تمہارے پاس (صدقہ کرنے کے لیے) کچھ نہ ہوتو اللہ تعالی بخشنے والا اور مہربان ہے، یہ آیت اگلی آیت سے منسوخ ہوگئی۔

 أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللہُ عَلَیْْکُمْ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَأَطِیْعُوا اللہ وَرَسُولَہُ۔

(المجادلہ:۱۳)

 

کیا تم اس بات سے ڈر گئے  کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقات پیش کرو پس جب تم  نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی (اب)نماز قائم رکھو  اور زکوۃ  ادا کرتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو"اس طرح سرگوشی سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم منسوخ قرار دیا گیا ۔

پانچویں آیت سورۂ مزمل کی مندرجہ ذیل آیات ہے :
(۱)یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ
(۲)قُمِ اللَّیْْلَ إِلَّا قَلِیْلاً
(۳)نِصْفَہُ أَوِ انقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً

اے مزمل(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں)رات کو (تہجد میں) کھڑے رہیے  مگر تھوڑا سا حصہ آدھی رات یا اس میں سے بھی کچھ کم کردیجیے"اس آیت میں رات کے کم از کم آدھے حصہ میں تہجد کی نماز کا حکم دیا گیا تھا ،بعد میں اگلی آیتوں نے اس میں آسانی پیدا کرکے سابقہ حکم منسوخ کردیا وہ آیتیں یہ ہیں:

 عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوہُ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ :الخ

(المزمل: ۲۰)"

اللہ کو معلوم ہے کہ تم (آئند)ہے اس حکم کی پابندی نہیں کرسکوگے اس لیے اللہ نے تمہیں معاف کردیا پس تم( اب) قرآن کا اتنا حصہ پڑھ لیا کرو جو تمہارے لیے آسا ن ہو۔

حضرت شاہ صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ تہجد کا حکم واجب تو پہلے بھی نہیں تھا؛ لیکن پہلے اس میں زیادہ تاکید بھی اور اس وقت بھی زیادہ وسیع تھا بعد میں تاکید بھی کم ہوگئی اور وقت کی اتنی پابندی بھی نہ رہی۔
یہ ہیں وہ پانچ آیتیں جن میں حضرت شاہ صاحب کے قول کے مطابق نسخ ہوا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ پانچ مثالیں صرف اسصورت کی ہیں جس میں ناسخ اور منسوخ دونوں قرآن کریم کے اندر موجود ہیں اس کے علاوہ ایسی مثالیں قرآن کریم میں باتفاق بہت سی ہیں جن میں ناسخ تو قرآن کریم میں موجود ہے لیکن منسوخ موجود نہیں ہے مثلاً تحویل قبلہ کی آیات وغیرہ۔

(علوم القرآن:۱۷۲)