Monday, 30 December 2024

شمسی اور قمری سال


نئے سال کی اسلامی دعا»
عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے کہ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نئے سال یا مہینے کی آمد پہ یہ دعا سکھاتے تھے:
اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ، وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ، وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ، وَجَوَازٍ مِنَ الشَّيْطَانِ
ترجمہ:
اے اللہ! داخل فرما ہم پر (اس مہینہ/سال کو) امن، ایمان، سلامتی، اسلام، رحمٰن کی رضا اور شیطان سے پناہ کے ساتھ۔
[المعجم الاوسط-امام الطبراني» حديث#6241][معجم الصحابة-البغوي:1539]






شمسی اور قمری، دونوں اسلامی سال ہیں»
القرآن:
اور اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا، اور چاند کو سراپا نور، اور اس کے (سفر) کے لیے منزلیں مقرر کردیں، تاکہ تم برسوں کی گنتی اور (مہینوں کا) حساب معلوم کرسکو۔ اللہ نے یہ سب کچھ بغیر کسی صحیح مقصد کے پیدا نہیں کردیا  وہ یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے جو سمجھ رکھتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 5]



Friday, 27 December 2024

خلیفہ اول، صحابی رسول حضرت ابوبکر صدیق، عتیق، یارِ غار، ارحم امت۔

نام،کنیت اور نسب

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام ﴿عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب﴾ ہے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔

[المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، 1:1]


آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہونے کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاتی ہیں:

عربی زبان میں ’’البکر‘‘ جوان اونٹ کو کہتے ہیں۔ جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘ کہتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لئے آپ بھی ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔

عربی زبان میں ابو کا معنی ہے ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنی ’’اولیت‘‘ کے ہیں۔ پس ابوبکر کے معنی ’’اولیت والا‘‘ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا۔

[مراة المناجيح، مفتی احمد يار خان نعيمی، 8: 347]

سیرت حلبیہ میں ہے کہ ﴿کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ﴾ ’’آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لئے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘۔




Thursday, 19 December 2024

پہلی تکبیر تحریمہ میں مرد کا"کانوں"تک ہاتھ اٹھانا



(1)عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا کَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ۔۔۔

ترجمہ:

حضرت مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے یہاں تک کہ وہ کانوں کے برابر ہوجاتے۔۔۔

[صحیح مسلم:865، السنن الکبریٰ للبیھقی:2306]


عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ أَنَّهُ رَأَی نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ

ترجمہ:

قتادہ سے دوسری سند سے یہ حدیث اسی طرح مروی ہے کہ حضرت مالک بن حویرث ؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو کے برابر اٹھاتے۔

[صحیح مسلم:866، سنن ابوداؤد:745، سنن النسائی:1057، السنن الکبریٰ للبیھقی:2306، معجم الکبیر للطبرانی:630]



آدابِ زندگی»اجازت لینا۔

القرآن:

مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں اور جب رسول کے ساتھ کسی اجتماعی کام میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر کہیں نہیں جاتے۔ (47) (اے پیغمبر) جو لوگ تم سے اجازت لیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جن کو چاہو، اجازت دے دیا کرو، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیا کرو۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ نمبر 24 النور ، آیت نمبر 62]

تفسیر:

(47) یہ آیت غزوہ ٔ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی اور آنحضرت ﷺ نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منورہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا، سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کرجاتا تھا، لیکن منافق لوگ اول تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آجاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہوجاتے، اس آیت میں ان کی مذمت اور ان مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔


Monday, 9 December 2024

بڑی بڑی مونچھیں رکھنا گناہ ہے۔

 القرآن:

(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 31]


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مخالفت کرو مشرکین کی،(لہٰذا)داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں گھٹاؤ۔

[صحیح بخاری:5892]


مونچھوں کو نہ چھوڑو اور ڈاڑھی کو نہ چھیڑو۔

[صحیح مسلم:259(601-603)]


جو نہ کاٹے اپنی مونچھیں تو وہ ہم میں سے نہیں.

[سنن الترمذی:2761، امن النسائی:13]



Wednesday, 27 November 2024

غائبانہ نمازِجنازہ کے ’’خلافِ سنت‘‘ ہونے کے دلائل

 

غائبانہ نمازِجنازہ کی شرعی حیثیت»
قرآن مجید میں نمازِجنازہ کے بارے میں کوئی واضح حکم نہیں ہے، تو "غائبانہ" نمازِجنازہ کا بھی نہیں۔ تاہم، قرآن مجید میں وفات کے بعد میت کے لیے دعا کرنے کا حکم ہے۔ لہٰذا جب کوئی شخص مر جائے تو اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے استغفار کرنا اصل(بنیادی حکم) ہے۔
[قرآنی حوالہ» سورہ ابراھیم:41 الحشر:7 نوح:28 غافر:7 محمد:19]






نمازِ جنازہ کیلئے میت کا سامنے ہونا شرط ہے، لہٰذا احناف اور مالکیہ کے نزدیک "غائبانہ" نمازِ جنازہ جائز نہیں۔

علامہ عبد الرحمن الجزیری فرماتے ہیں:

الحنابلة قالوا تجوز الصلة علی الفائت ان کان بعد موته بشهر فاقل الشافعية قالوا تصح الصلة علی الفائت عن البلد من غير کراهة. المالکية قالوا الواجب حضور الميت واما وضعه امام المصلی بحيث يکون عند منکبی المرة ووسط الرجل فمندوب

ترجمہ:

حنابلہ نے کہا مرنے کے ایک مہینے یا اس سے کم مدت میں نماز غائبانہ جائز ہے۔ شافعیہ نے کہا جب میت شہر سے غائب ہو اس پر نماز جنازہ بغیر کراہت جائز ہے۔ مالکیہ نے کہا میت کا موجود ہونا لازم ہے۔ رہا اس کا نمازی (امام) کے آگے اس طرح ہونا کہ عورت کا کندھا امام کے سامنے ہو اور میت مرد ہو تو یہ مستحب ہے۔

[الفقه علی المذاهب الاربعة، 1 / 522]




امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی نمازِ جنازہ پڑھائی، جبکہ وہ سرزمینِ عرب میں نہ تھے۔
حوالہ
جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ بِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ صَلُّوا عَلَى أَخٍ لَكُمْ مَاتَ بِغَيْرِ أَرْضِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ مَنْ هُوَ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ النَّجَاشِيُّ.
ترجمہ:
حضرت حذیفہ بن اسید ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ صحابہ کرام ؓ کو لے کر نکلے تو فرمایا: اپنے (دینی) بھائی پر نماز جنازہ پڑھو جن کی موت تمہاری زمین سے باہر ہوگئی ہے۔ صحابہ ؓ نے پوچھا: وہ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ نجاشی ہیں۔
[سنن ابن ماجہ:1537](تحفة الأشراف: ٣٣٠٠، ومصباح الزجاجة: ٥٤٧)

نوٹ:
لیکن اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو دوسری زمین(ملک) میں ہو اور یہ یقین ہو کہ اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں ہوئی تو غائبانہ پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ فرض کفایہ ہے۔
لہٰذا
حنفیہ ومالکیہ کی دلیل یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت نجاشی شاہ حبشہ رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھی تھی، لیکن وہاں درحقیقت تمام حجابات اٹھا دیئے گئے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے "معجزہ" کے طور پر نجاشی کا جنازہ کردیا گیا تھا تو ایسی صورت میں وہ غائبانہ نمازِ جنازہ نہ تھی۔
حوالہ
...وَهُمْ لَا يَظُنُّونَ إِلَاّ أَنَّ جِنَازَتَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ.
ترجمہ:
۔۔۔اور وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ اس کا جنازہ آپ کے آگے ہے۔
[صحیح ابن حبان:7212(3102)]
تفصیل کے لیے دلائل کے ساتھ ابوداوٴد شریف کی شرح بذل المجہود ملاحظہ کرلیں۔


جوابات:

(١)کبھی بھی نبی ﷺ نے غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی، صرف نجاشی کیلئے یہ خصوصیتِ نبوی تھی۔

(٢) صحابہ وتابعین میں سے کسی نے نجاشی کے علاوہ کسی کی غائبانہ جنازہ نہیں پڑھایا۔

(٣) یہ معجزہ  نبوی تھا کہ نجاشی کا جسم سامنے دکھلایا گیا۔

(٤) نجاشی کا جنازہ پڑھانے والا کوئی نہیں تھا۔




اور یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار واقعاتِ وفات پیش آئے بہت سے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت و وفات کے واقعات ہوئے مگر ثابت نہیں کہ نماز جنازہ غائبانہ کا معمول اور عادتِ شریفہ رہی ہو۔


خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم دور دراز علاقوں میں مقیم تھے مگر ثابت نہیں کہ انھوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو۔


خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عہد مبارک میں بھی غائبانہ نماز جنازہ کا معمول کہیں منقول(نقل شدہ وثابت) نہیں ملتا۔


خلاصہ:
(1)اکیلا شخص یعنی بغیرجماعت کسی کیلئے غائبانہ نمازِجنازہ پڑھنا خلافِ سنت ہے۔ اگر جماعت میں شریک نہ ہوسکے تو دعائے بخشش کرنا چاہئے۔
(2)جنازہ "حاضر" ہو تو "جماعت" سے نمازِجنازہ پڑھنا سنت ہے۔
(3)اور غائبانہ نمازِجنازہ خاص نجاشی کیلئے ثابت ہے، لہٰذا یہ سنتِ خاصہ ہے، سنتِ عامہ(عادت وشریعت) نہیں۔


🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
غائبانہ نماز جنازہ کے مانعین کی بڑی دلیل
امام ابن ہمام(م861ھ) رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
ثم استدل علی عدم شرعية التنفل بترک الناس عن اخرهم الصلة علی قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم ولو کان مشروعا لما اعرض الخلق کلهم من العلماء والصالحين والراغبين فی التقرب اليه صلی الله عليه وآله وسلم بانواع الطرق عنه فهذا دليل ظاهر فوجب اعتباره.
ترجمہ:
پھر مصنف ہدایہ نے نفلی نماز جنازہ کے ناجائز ہونے کی یہ دلیل پیش کی کہ لوگوں نے بالاتفاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر نماز جنازہ چھوڑ دی ہے۔ اگر جائز ہوتی تو تمام مخلوق جن میں علماء، صلحا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مختلف ذرائع سے قرب حاصل کرنے کے شوقین شامل ہیں، اس سے روگردانی نہ کرتے۔ پس یہ اس پر واضح دلیل ہے اس کا اعتبار لازم ہے۔
[فتح القدير، 2 / 84]

علامہ حصکفی(م1088ھ) الدرالمختار میں فرماتے ہیں۔
وصلة النبی صلی الله عليه وآله وسلم علی النجاشی لغوية او خصوصية.
ترجمہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت نجاشی پر نماز جنازہ، یا اصطلاحی نماز جنازہ نہ تھی بلکہ لغوی صلاۃ (یعنی دعائے مغفرت) تھی۔ یا آپ کی خصوصیت۔

علامہ شامی(م1198ھ) اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
المراد بها مجرد الدعاء وهو بعيد او خصوصية لانه رفع سريره حتی رآه عليه الصلاة والسلام بحضرته.
ترجمہ:
یا تو صلاۃ سے مراد محض دعائے مغفرت ہے مگر یہ بات حقیقت سے دور ہے یا یہ آپ کی خصوصیت ہے کیونکہ ان کی میت کو اٹھا کر سامنے رکھ دیا گیا تھا یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے سامنے دیکھا۔
[شامی، 2 / 209، البحر الرائق، 2 / 179 / بدائع الصنائع، 3111]


امام اجل شمس الائمۃ ابو بکر محمد بن ابی سہل السرخسی(م483ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الصلاة علی الجنازة فرض علی الکفاية تسقط باداء الواحد اذا کان هو الولی وليس للقوم ان يعيدوا بعد ذلک.
ترجمہ:
نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ اگر ایک ولی بھی ادا کر دے تو فرضیت ساقط ہو جاتی ہے۔ باقی لوگوں کو دوبارہ ادا کرنے کی اجازت نہیں۔
[المبسوط للسرخسی، 2 / 126]

امام محمد بن حسن شیبانی(م189ھ) سے پوچھا گیا:
ارايت اماما صلی علی جنازة وفرع وسلم وسلم القوم ثم جاء آخرون بعد فراغ الامام من الصلاة ايصلون عليها جماعة او وحدانا قال لا يصلون عليها جماعة ولا وحدانا.
ترجمہ:
آپ کے خیال میں ایک امام نے نماز جنازہ ادا کر لی اور فارغ ہو گیا اور سلام پھیر لیا لوگوں نے بھی سلام پھیر لیا۔ امام کے فارغ ہونے کے بعد اور لوگ آ گئے۔ کیا وہ جماعت کے ساتھ یا اکیلے نماز جنازہ ادا کریں گے؟ فرمایا نہیں۔ نہ جماعت کے ساتھ نہ اکیلے۔
[المبسوط امام محمد بن حسن شيبانی، 1 / 428]

ان تمام حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ احناف کے نزدیک نہ تو میت پر نماز جنازہ غائبانہ جائز ہے اور نہ دوبارہ ادا کرنا جبکہ پہلی بار ولی نے ادا کر لی۔ البتہ شوافع، حنابلہ اور داؤد نے قبر پر نماز جنازہ کو جائز قرار دیا ہے۔ مالکیہ اس مسئلہ میں احناف سے متفق ہیں۔


🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
ایصالِ ثواب کیا، کیسے، کب اور کیوں؟

Wednesday, 30 October 2024

سلام کرنے کے فضائل، مسائل، آداب واحکام



القرآن:
جب تمہیں کوئی سلام کرے تو(افضل یہ ہے کہ)تم اس سے بہتر(زیادہ مسنون الفاظ سے)سلام کرو یا(کم از کم انہی الفاظ سے)اس کا جواب دو۔
[سورة النساء:86]


Thursday, 26 September 2024

حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں۔

 حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں۔

القرآن:

مسیح کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھ سکتے کہ وہ اللہ کے بندے ہوں، اور نہ مقرب فرشتے (اس میں کوئی عار سمجھتے ہیں) اور جو شخص اپنے پروردگار کی بندگی میں عار سمجھے، اور تکبر کا مظاہرہ کرے تو (وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ) اللہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔ 

[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 172]


تفسیر:

نجران کے وفد نے کہا: اے محمد ﷺ! آپ ہمارے آقا (عیسیٰ مسیح) پر عیب لگاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں کیا کہتا ہوں؟ وفد والوں نے کہا: آپ ان کو اللہ کا بندہ اور رسول کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کا بندہ ہونا عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باعث عار نہیں۔

[تفسير امام البغوي: حديث#735 (جلد1 صفحه726)]


نوٹ:

(1)اللہ کی شان انبیاء بلکہ تمام مخلوق سے بھی بلند ہے، لہٰذا اللہ کے مقابلے میں کسی کی شان کو اللہ سے بلند یا برابر نہ رکھنا بلکہ چھوٹا/کم رکھتے بندہ کہنا کہلوانا حق ہے، اس بات پر کوئی پیغمبر یا فرشتہ ہرگز عار محسوس نہیں کرتا بلکہ خوشی وفخر محسوس کرتا یے۔

(2)اگر حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں، جو ایسا سمجھے وہ نادان ہے۔

Tuesday, 10 September 2024

عظیم، اچھے اور برے اخلاق

خُلُق اور خَلَق اصل میں دونوں ایک ہی ہیں، جیسے شِرب اور شُرب، صرم اور صرم۔۔۔لیکن خَلق اس شکل و صورت پر بولا جاتا ہے جس کا تعلق آنکھ کے پالینے سے ہوتا ہے۔ اور خُلق کا لفظ باطنی قویٰ، عادات وخصائل کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے، جن کا تعلق بصیرت سے ہے۔ قرآن میں ہے:

اور یقیناً آپ(اے پیغمبر!) اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہیں۔
(سورۃ القلم،آیت#4)
[مفردات القرآن-امام الراغب: صفحہ297]

تمام جہانوں کیلئے رحمت» محمد رسول اللہ ﷺ

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
اور (اے محمد!) ہم نے تمہیں بھیجا ہے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔
[سورة الانبياء:107]

القرآن:
اور (اے پیغمبر) اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو۔۔۔
[سورۃ الأنفال، آیت نمبر 33]
رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا: کیا آپ (قریش کے) مشرکین پر لعنت نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، بلکہ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
[صحیح مسلم:2599()]
اور پرہیزگاروں کیلئے ہدایت (بن کر)۔
[مسند احمد:22218ـ22307]
میں تو بس ایک رحمت ہوں جو رہنمائی کرتا ہے۔
[الصحيحة:490، حاکم:100]
میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو  (اے اللہ)  میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے  اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب  (امیر المؤمنین)  کو لکھ بھیجوں گا۔
[سنن ابوداؤد:4659، مسند احمد:23706]

حضرت ابن عباس نے فرمایا: جو ایمان لائے گا اس پر دنیا اور آخرت میں رحم کیا جائے گا، اور جو ایمان نہیں لائے گا کہ وہ اس عذاب سے بچ جائے گا جو موجودہ دنیا میں قوموں پر ہوتا تھا۔ یعنی دھنسنے، چہرے بگڑنے اور پتھروں کی بارش سے، یہی اس دنیا میں رحمت ہے۔
[المعجم الكبير للطبراني:12358، دلائل النبوة للبيهقي:5/486]




Thursday, 5 September 2024

نظرِ بد کی حقیقت، تاثیر اور علاج

نظرِ بد کا اثر اور حقیقت»

حضرت جابر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"العين تدخل الرجل القبر وتدخل الجمل القِدر".

ترجمہ:

نظر آدمی پر قبر میں بھی لگ جاتی ہے اور ہانڈی میں گوشت پر بھی لگ جاتی ہے۔

[مسند الشھاب:1057، کنزالعمال:17660، صحیح الجامع:4144، الصحیحہ:1249]

القرآن:

جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے جب وہ نصیحت کی یہ بات سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنی (تیز تیز) آنکھوں سے تمہیں ڈگمگا دیں گے۔۔۔

[سورۃ القلم:51]



Tuesday, 3 September 2024

شدت-انتہاپسندی کے جائز اور ناجائز پہلو

انتہا-شدت پسندی یہ نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ سچا، مخلص اور گہری عقیدت رکھی جائے۔ علمِ دین کی لگن، دین پر ثابت قدمی، غیر متزلزل عزم-وابستگی، بغیرسمجھوتہ عدل وانصاف، ظلم وناحق کا انکار کیا جائے۔

بلکہ

انتہا-شدت پسندی تو یہ ہے کہ گناہ/ناحق پر قائم اور ضدی رہنا، اللہ کی مقرر کردہ حدود سے نکلنا، عدل وانصاف پر سمجھوتا کرنا، لوگوں کو ناحق تکلیف/نقصان پہنچانا، اپنوں کا ظلم میں ساتھ دینا اور دوسروں کیلئے دوغلی پالیسی رکھنا، حقوق وحدود کا انکار کرنا ہے۔


Friday, 30 August 2024

صحت کا بیان


حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:

دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں:(1)صحت (2)فراغت۔

[بخاری:6412 ترمذی:2304 ابن ماجہ:4170]


تشریح:

۔۔۔ اور کچھ نہ کیا تو صبح سے شام تک پڑے ہوتے رہے اور آج کل تو صحت مند و مریض سب کا ایک ہی مشغلہ ہے فلم بینی یا ڈرامہ دیکھنا۔


فقہ الحدیث:

(1)باب:-دل کو نرم کرنے والی باتیں اور یہ کہ آخرت ہی کی زندگی زندگی ہے۔

[بخاری:6412]

(2)باب:-زھد کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ کے فرامین۔

[ترمذی:2304، ابن ابی شیبہ:35497]

(3)باب:-توکل اور یقین کا بیان

[ابن ماجہ:4170]

(4)باب:-جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچا، اللہ نے اس کی عمر کا بہانہ ختم کیا: کیا ہم نے تمہیں عمر نہ دی تاکہ جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا کرلیتا جبکہ ڈرانے والے بھی آئے۔﴿سورۃ فاطر:37﴾

[سنن کبریٰ للبیہقی:6523]

(5)قیامت کے روز نعمت کے متعلق سوال ہوگا۔

[کنزالعمال:6444]



القرآن:

اور ہم جس شخص کو لمبی عمر دیتے ہیں اسے تخلیقی اعتبار سے الٹ ہی دیتے ہیں۔ کیا پھر بھی انہیں عقل نہیں آتی؟

[سورۃ نمبر 36 يس، آیت نمبر 68]







Friday, 16 August 2024

قناعت یعنی اللہ کی تقسیم پر راضی رہنے کی فضیلت

لغوی معنیٰ:

القَنَاعَة عربی زبان کا لفظ ہے، جس کی معنیٰ تھوڑی چیز پر رضا مندی، جو کچھ مل جائے اس پر صبر کرلینے کی خُو(عادت) ہے۔

"القَانِعُ" کے معنی رضامند کے ہیں۔ قناعت کے کچھ دوسرے معانی ہیں: چھپانا، قبول کرنا اور ماننا۔

[لسان العرب : 297/8]


اصطلاحی معنیٰ:

كَانَ غَيْرَ كَافٍ وَتَرْكُ التَّطَلُّعِ إِلَى المَفْقودِ.

ترجمہ:

قناعت ان نیک اخلاق(عادات) میں سے ہے، کہ موجود حلال چیزوں پر نفس کا راضی رہنا، خواہ وہ ناکافی ہو، اور جو نہیں ہے اس کے لیے خواہشات کو ترک کرنا ہے۔


تشریح:

القَنَاعَةُ مِنَ الأَخْلاَقِ الفَاضِلَةِ التي هِيَ مِنْ صِفاتِ الأَنْبِياءِ وَأَهْلِ الإِيمَانِ، وَهِيَ عِبارَةٌ عَنْ امْتِلاءِ قَلْبِ العَبْدِ بِالرِّضَا، وَالبُعْدِ عَنِ الغَضَبِ وَالشَّكْوَى عَمَّا لَمْ يَتَحَقَّقْ وَالطَّمَعِ فِيمَا لاَ يْمَلِكُ، وَالقَناعَةُ قِسْمانِ: 1- قَناعَةُ الفَقِيرِ، وَهِيَ الرِّضَا بِالحَلالِ المَوْجودِ وَتَرْكِ النَّظَرِ فِي الحَرامِ وَالغَضَبِ عِنْدَ فَواتِ نِعْمَةٍ. 2- قَناعَةُ الغَنِيِّ، وَهِيَ أَنْ يَكونَ رَاضِيًا شَاكِرًا مُسْتَعْملًا النِّعْمَةَ فِي طَاعَةِ اللهِ، لَا جَاحدًا طَامِعًا فِي أَموالِ الآخَرِينَ. وَالقَناعَةُ لَهَا فَوائِدُ عَدِيدَةٌ فَهِيَ شِفاءٌ وَدَواءٌ مِنْ أَمْراضِ الجَشَعِ وَالطَّمَعِ وَالحَسَدِ وَالسَّرِقَةِ وَغَيْرِهَا.

ترجمہ:

قناعت حسن اخلاق میں سے ہے جو انبیاء اور اہل ایمان کی خصوصیات میں سے ہے اور یہ اس بات کا اظہار ہے کہ بندے کا دل قناعت سے لبریز ہو اور دور رہے غصہ سے اور جو کچھ اسے حاصل نہیں ہوا اس کا شکوہ کرنے سے اور لالچ سے اس چیز کی جو اس کے پاس نہیں۔

قناعت دو قسم کی ہوتی ہے: (1)فقیر کی قناعت: جو موجود حلال پر راضی رہنے اور حرام میں نظر ڈالنے اور نعمت کے ضایع ہونے پر غصہ ہونے کو ترک کر دینا ہے۔ (2) مالدار کی قناعت: یہ ہے کہ وہ راضی اور شکر گزار ہو، اللہ کی اطاعت میں نعمت کا استعمال کرے، ناشکری اور دوسروں کے مال میں لالچ نہ رکھے۔

اور قناعت کے بہت سے فائدے ہیں، یہ حرص، لالچ، حسد، چوری اور دیگر روحانی-اخلاقی بیماریوں کے لیے شفاء اور دوا ہے۔

[معجم مقاييس اللغة : 33/5 - تهذيب الأخلاق : ص22 - الفروق اللغوية للعسكري : ص430 - لسان العرب : 297/8 - التوقيف على مهمات التعاريف : ص275 -]


 

Friday, 2 August 2024

میری امت۔۔۔



قتل ہونے پر کیا امید کی جائے؟

عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمَّتِي هَذِهِ أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ، لَيْسَ عَلَيْهَا عَذَابٌ فِي الْآخِرَةِ، عَذَابُهَا فِي الدُّنْيَا الْفِتَنُ، وَالزَّلَازِلُ، وَالْقَتْلُ»
ترجمہ:
حضرت ابوموسیٰ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  میری اس امت پر اللہ کی رحمت ہے آخرت میں اسے عذاب  (دائمی)  نہیں ہوگا اور دنیا میں اس کا عذاب: فتنوں، زلزلوں اور قتل کی شکل میں ہوگا۔
[سنن أبو داود:4278 ، المستدرک الحاكم:8372، مسند أبو يعلى:7277،۔المعجم الاوسط للطبرانی:4055]


Sunday, 28 July 2024

جائز اور ناجائز شکوہ-شکایت کا بیان

شکوہ کے معنیٰ اظہارِ غم ہے۔

[المفردات فی غریب القرآن-امام الراغب اصفھانی]


قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡكُوۡا بَثِّـىۡ وَحُزۡنِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ وَاَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ۞ 

ترجمہ:

یعقوب نے کہا : میں اپنے رنج و غم کا شکوہ (فریاد) (تم سے نہیں) صرف اللہ سے کرتا ہوں، اور اللہ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔

[سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 86]

یعنی کیا تم مجھ کو صبر سکھاؤ گے؟ بےصبر وہ ہے جو مخلوق کے آگے خالق کے بھیجے ہوئے درد کی شکایت کرے۔ میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ مجھ پر آزمائش ہے دیکھوں کس حد پر پہنچ کر بس ہو۔


صبرِ جمیل کے منافی اگر کوئی شکایت ہے تو وہ خالق کی آزمائش ومصیبت کی شکایت مخلوق سے کرنا ہے۔ لہٰذا مخلوق کی شکایت خالق سے کرنا یہ صبرِ جمیل کے منافی نہیں بلکہ عین دعاء والتجا ہے۔




نبوی دعائے شکوہ»

جب ابوطالب وفات پاگئے تو رسول اللہ ﷺ اپنے پیروں کے بل لوگوں کے پاس آئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی، لیکن انہوں نے جواب بھی نہ دیا، پھر آپ لوٹے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی اور یہ دعا کی:

اے اللہ! میں شکوہ کرتا ہوں تجھ سے اپنی کمزوری کی اور حیلہ و تدبیر میں کمی کی اور لوگوں کے نزدیک اپنے بےوقعت ہونے کی۔ اے ارحم الراحمین! آپ مجھے کس کے حوالہ کرتے ہیں، ایسے دشمن کے جو مجھے دیکھ کر ترش رو ہوتا ہے؟ یا ایسے قریبی عزیز کے پاس جس کو تو نے میرے معاملات کا مالک بنادیا لیکن اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کوئی پروا نہیں۔ تیری عافیت میرے لیے کافی ہے۔ میں پناہ چاہتا ہوں تیرے چہرے کے نور کے طفیل، جس کی بدولت آسمان روشن ہوگئے تاریکیوں کے پردے چھٹ گئے اور دنیا و آخرت کے معاملے سلجھ گئے، کہ مجھ پر تیرا غضب اترے یا تیری ناراضگی اترے۔ تیری خوشامد فرض ہے حتی کہ تو راضی ہو اور ہر طرح کی طاقت و قوت تیرے ساتھ ہے۔

[طبراني:181، الاحاديث المختارة:162، مجمع الزوائد:9851]

[کنزالعمال:3613+3756+5120]


Thursday, 25 July 2024

ایمان کے معانی، فضائل، بنیادی ارکان اور اعمالِ کمالِ ایمان


مسلمانوں کی سربلندی کا واحد سبب»

ایمان رکھنا۔

القرآن:

(مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 139]


تفسیر:

جنگ احد کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آگئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدان جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے، جب دشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہوگیا تو صحابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز و سامان مال غنیمت کے طور پر اکھٹا کرنا شروع کردیا، تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دشمن بھاگ چکا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور ہمیں مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہیے، ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بےمقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑدیا، دشمن نے جب دور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہوگیا ہے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ہیں تو انہوں نے موقع پاکر ٹیلے پر حملہ کردیا، حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہوگئے اور دشمن اس ٹیلے سے اتر کر ان بیخبر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا جو مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے، یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے، اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے ہیں، اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے، ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے، البتہ آنحضرت ﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ارد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرت ﷺ کا مبارک دانت شہید ہوگیا اور چہرہ مبارک لہو لہان ہوگیا، بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے تو ان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا ؛ لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوچکے تھے، ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا، قرآن کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جن سے مایوں اور دل شکستہ نہ ہونا چاہیے، اور اس طرف بھی متوجہ کررہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔

Wednesday, 24 July 2024

بائیکاٹ-قطع تعلق کے معنیٰ، مقاصد، اقسام اور دلائل

 بائیکاٹ(boycott) کے معنیٰ:

مقاطعہ کرنا۔ مواصلات ترک کرنا ۔ تَعلُقات توڑ دینا ۔ ملنا جلنا ترک کرنا۔

بائیکاٹ(boycott) کے مقاصد:
(1)ظالم کی قوت توڑنا۔ (2)برائی سے باز رہنے کیلئے پریشر ڈالنا۔

بائیکاٹ(boycott) کے اقسام:
(1)معاشی (2)معاشرتی۔

یہ بات واضح رہے کہ موجودہ زمانے میں کسی بھی قوم و ملت کی سیاسی اور عسکری برتری  کی بنیاد معاشی ترقی اور معاشی برتری پر ہے، جب تک معاشی طور پر کوئی قوم مضبوط اور مختار نہ ہو اس وقت تک  وہ سیاسی اور عسکری طور پر کمزور ہوتی ہے، یہ بات ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں اگر کسی قوم کو کمزور کرنا ہو تو سب سے پہلے ان کی معیشت کو کمزور کیا جائے اور موجودہ زمانے میں اس کا مؤثر طریقہ کار ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہے جس سے (1)ان کی معیشت پر خاطر خواہ اثر پڑتا ہے (2)اور مظلوم کے ساتھ یک جہتی اور ہمدردی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ مسلمانوں نے اس طریقہ کار  کو  ماضی قریب میں بھی اپنایا جب انگریزوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے لیے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف تحریکِ خلافت اور ترکِ موالات کی تحریک  چلائی، اسی طرح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کفارِ قریش کے زور کو توڑنے کےلیے ان کے تجارتی قافلوں کے راستے جس پر شام سے مکہ اور مکہ سے شام تجارتی قافلوں کی آمد و رفت ہوتی تھی کو غیر محفوظ بنایا جس کے نتیجے میں غزوہ بدر  پیش آیا۔
[حوالہ»سورۃ الانفال:7، صحیح بخاری:3950+3951، صحیح مسلم:4915، سنن ابوداؤد:2618]
[صحیح مسلم:1935(4999)، سنن ابوداؤد:3840]



اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنونضیر کا محاصرہ کیا اور ان کے قلعے فتح نہیں ہورہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درختوں کے جلانے حکم دیا۔ اسی طرح جب حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ، جو نجد کے سردار تھے اور کفار قریش کو گندم فروخت کیا کرتے تھے، نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے کفارِ قریش پر گندم فروخت کرنا بند کردیا تھا۔
[حوالہ»سورۃ الحشر:5، صحیح بخاری:4372+4589، صحیح مسلم:1764(4589)، السنن الکبریٰ للبیھقی:12835+18030]

اسی طرح جب صلحِ حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ کو اور  صلحِ حدیبیہ کے بعد حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کیا جو کفارِ مکہ کی قید سے بھاگ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچے تھے تو انہوں نے مکہ سے شام جانے والے ایک راستے پر اقامت اختیار کی اور اس راستے سے کفار مکہ کا جو بھی تجارتی قافلہ گزرتا اس پر حملہ کردیتے جس سے کفار کی  قافلوں کی آمد و رفت بند ہوگئی۔
[حوالہ»صحیح بخاری:2731-2733+4182، سنن ابوداؤد:2765، السنن الکبریٰ للبیھقی:18833، المعجم الاوسط للطبرانی:15]

مذکورہ واقعات  اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ کفار کی ان تجارتی اداروں اور مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا جو مسلمانوں کے خلاف  جنگ میں اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہیں  کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے اور ایمانی حمیت بھی اسی کا متقاضی ہے۔

تفصیلی حوالا جات:

بخاری شریف میں ہے:

"أنه لما كاتب رسول الله صلى الله عليه وسلم سهيل بن عمرو يوم الحديبية على قضية المدة، وكان فيما اشترط سهيل بن عمرو أنه قال: لا يأتيك منا أحد وإن كان على دينك إلا رددته إلينا، وخليت بيننا وبينه. وأبى سهيل أن يقاضي رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا على ذلك، فكره المؤمنون ذلك وامعضوا، فتكلموا فيه، فلما أبى سهيل أن يقاضي رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا على ذلك، كاتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرد رسول صلى الله عليه وسلم أبا جندل بن سهيل يومئذ إلى أبيه سهيل ابن عمرو، ولم يأت رسول الله صلى الله عليه وسلم أحد من الرجال إلا رده في تلك المدة، وإن كان مسلما."

(کتاب المغازي، باب:غزوۃ الحدیبیة، ج:4، ص:1532، ط:دار ابن کثیر دمشق)

وفیه أیضا:

"بعث النبي صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد، فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال، فربطوه بسارية من سواري المسجد، فخرج إليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال: (ما عندك يا ثمامة). فقال: عندي خير يا محمد، إن تقتلني تقتل ذا دم، وإن تنعم تنعم على شاكر، وإن كنت تريد المال، فسل منه ما شئت. فترك حتى كان الغد، فقال: (ما عندك يا ثمامة). فقال: ما قلت لك، إن تنعم تنعم على شاكر فتركه حتى كان بعد الغد  فقال: ما عندك يا ثمامة فقال: عندي ما قلت لك فقال: (أطلقوا ثمامة). فانطلق إلى نخل قريب من المسجد، فاغتسل ثم دخل المسجد، فقال: أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا رسول الله، يا محمد، والله ما كان على الأرض وجه أبغض إلي من وجهك، فقد أصبح وجهك أحب الوجوه إلي، والله ما كان من دين أبغض إلي من دينك، فأصبح دينك أحب دين إلي، والله ما كان من بلد أبغض إلي من بلدك، فأصبح بلدك أحب البلاد إلي، وإن خيلك أخذتني، وأنا أريد العمرة، فماذا ترى؟ فبشره رسول الله صلى الله عليه وسلم وإمرة أن يعتمر، فلما قدم مكة قال له قائل: صبوت، قال: لا، ولكن أسلمت مع محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا والله، لا يأتيكم من اليمامة حبة حنطة حتى يأذن فيها النبي صلى الله عليه وسلم."

(کتاب المغازي، باب:وفد بني حنیفة و حدیث ثمامة  ابن أثال، ج:4،ص:1589، ط:دار ابن کثیر دمشق)

السیرۃ الحلبیہ میں ہے:

"يريد عيرا لقريش متوجهة للشام. يقال إن قريشا جمعت جميع أموالها في تلك العير لم يبق بمكة لا قرشي ولا قرشية له مثقال فصاعدا إلا بعث به في تلك العير إلا حويطب بن عبد العزى، يقال إن في تلك العير خمسين ألف دينار أي وألف بعير. وكان فيها أبو سفيان، أي قائدها. وكان معه سبعة وعشرون وقيل تسعة وثلاثون رجلا منهم مخرمة بن نوفل، وعمرو بن العاص، وهي العير التي خرج إليها حين رجعت من الشام. وكان سببا لوقعة بدر الكبرى كما سيأتي."

(باب ذكر مغازيه صلی اللہ علیه و سلم، غزوۃ العشیرۃ، ج:2، ص:175، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

وفیه أیضا:

"ثم إن العير التي خرج صلى الله عليه وسلم في طلبها حتى بلغ العشيرة ووجدها سبقته بأيام لم يزل مترقبا قفولها: أي رجوعها من الشأم، فلما سمع بقفولها من الشام ندب المسلمين» أي دعاهم وقال: «هذه عير قريش فيها أموالهم فاخرجوا إليها لعل الله أن ينفلكموها، فانتدب ناس» ، أي أجابوا «وثقل آخرون أي لم يجيبوا لظنهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يلق حربا، ولم يحتفل لها رسول الله صلى الله عليه وسلم أي لم يهتم بها، بل قال «من كان ظهره» : أي ما يركبه «حاضرا فليركب معنا» ولم ينتظر من كان ظهره غائبا عنه."

(باب ذكر مغازیه صلی اللہ علیه و سلم، باب غزوۃ بدر الکبری، ج:2، ص:197، ط: دارالکتب العلمیۃ بیروت)

وفیه أیضا:

"وأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقطع النخل، أي وبحرقها بعد أن حاصرهم ست ليال وقيل خمسة عشر يوما: أي وقيل عشرين ليلة، وقيل ثلاثا وعشرين ليلة، وقيل خمسا وعشرين ليلة. وكان سعد بن عبادة رضي الله تعالى عنه في تلك المدة يحمل التمر للمسلمين: أي يجاء به من عنده. قال: واستعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم على قطع النخل أبا ليلى المازني وعبد الله بن سلام. وكان أبو ليلى يقطع العجوة وعبد الله يقطع اللين."

(باب مغازیه صلی اللہ علیه و سلم، غزوۃ بني النضیر، ج:2، ص:359، ط:دارالکتب العلمیة بیروت)

نورالیقین فی سیرۃ سید المرسلین میں ہے:

"وقد تمكن أبو بصير عتبة بن أسيد الثقفي رضي الله عنه من الفرار إلى رسول الله، فأرسلت  قريش في أثره رجلين يطلبان تسليمه، فأمره عليه الصلاة والسلام بالرجوع معهما، فقال يا رسول الله: أتردّني إلى الكفّار يفتنونني في ديني بعد أن خلصني الله منهم؟! فقال: إن الله جاعل لك ولإخوانك فرجا، فلم يجد بدّا من اتّباعه، فرجع مع صاحبيه، ولمّا قارب ذا الحليفة عدا على أحدهما فقتله، وهرب منه الاخر، فرجع إلى المدينة وقال: يا رسول الله وفت ذمتك أما أنا فنجوت، فقال له اذهب حيث شئت ولا تقم بالمدينة، فذهب إلى محل بطريق الشام تمرّ به تجارة قريش، فأقام به، واجتمع معه جمع ممن كانوا مسلمين بمكّة ونجوا، وسار إليه أبو جندل بن سهيل، واجتمع إليه جمع من الأعراب، وقطعوا الطريق على تجارة قريش حتى قطعوا عنهم الأمداد."

(السنة السادسة، صلح الحدیبیة، ص:172، ط:دارالفیحاء دمشق)

فقط واللہ اعلم


Saturday, 20 July 2024

تحفہ(عطیہ، ھدیہ، ھِبہ) لینے دینے کے آداب

 

ھدیہ دینے والے کے آداب»

(1)اخلاص سے ہدیہ دینا۔

محبت بڑھانے کا نسخہ

حضرت ابوھریرہ ؓ ﴿عائشہ ؓ﴾ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تهادوا تحابوا ﴿وتذهب الشحناء﴾ إن الهدية تذهب وحر الصدر

ترجمہ:

آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس سے آپس میں محبت ﴿زیادہ﴾ ہوگی۔ ﴿اور عداوت ختم ہوگی﴾۔ کیونکہ ہدیہ دل کا کینہ و عداوت ختم کرتا ہے۔
[الصحيحة:2306،  الإرواء الغليل:1601]

[مسند احمد:9239، الادب المفرد-للبخاري:594، سنن الترمذي:2130، مسند الطيالسى:2333، مسند ابويعلي:6148، شعب الإيمان-للبیھقي:8976، السنن الکبریٰ للبیھقی:11946+11947]

﴿موطا مالک:694، مشكاة المصابيح:4693﴾

﴿جامع الاحاديث-للسيوطي:11015+11016﴾

Friday, 12 July 2024

دین کیا ہے؟ اور دیندار کون؟


دین کے معانی

دین کے مختلف معانی ہیں:

(1) طاعت یعنی اپنے اختیار سے فرمانبرادی ہے، قرآن میں ہے :۔ 

إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ
بےشک دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔
[سورۃ آل عمران:19]

(2) جزا یعنی بدلہ، ایک جگہ قرآن مجید میں ہے:
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
بدلہ والے دن کا مالک ہے۔
[سورۃ الفاتحہ:4]

(3) شریعت یا طریقت یعنی زندگی گذارنے کا اصول و ضابطہ، قرآن میں ہے:-
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ۔۔۔
اس(اللہ)نے تمہارے لیے دین کا رستہ مقرر کیا۔
[سورۃ الشوریٰ:13]

لفظ شریعت کا مادہ ش۔ر۔ع ہے اور اس کا لغوی معنی ہے وہ سیدھا راستہ جو واضح ہو۔

[امام راغب اصفهانی، مفردات القرآن : 259]



گگگگگگ

Wednesday, 10 July 2024

بھوک (الجوع) کے فضائل


بھوک کی آزمائش کس کیلئے اور کیوں؟

القرآن:

اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155]


حضرت ابوھریرہ‌ؓ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے۔

[الصحيحة:1615(3539)، المعجم ابن الأعرابي:21]

Tuesday, 9 July 2024

پل صراط کا بیان

القرآن:

اور تم میں سے کوئی نہیں ہے جس کا اس پر گزر نہ ہو۔ اس بات کا تمہارے پروردگار نے حتمی طور پر ذمہ لے رکھا ہے۔

[سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 71]


«يَرِدُ النَّاسُ النَّارَ ثمَّ يصدون مِنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ فَأَوَّلُهُمْ كَلَمْحِ الْبَرْقِ ثُمَّ كَالرِّيحِ ثُمَّ كَحُضْرِ الْفَرَسِ ثُمَّ كَالرَّاكِبِ فِي رَحْلِهِ ثُمَّ كَشَدِّ الرَّجُلِ ثُمَّ كَمَشْيِهِ»

تمام لوگ آگ (پل صراط) پر وارد ہوں گے، پھر وہ اپنے اعمال کے مطابق وہاں سے پار ہوں گے، ان میں سے سب سے پہلے بجلی چمکنے کی مانند گزر جائیں گے، پھر ہوا کی مانند، پھر تیز رفتار گھوڑے کی مانند، پھر سواری پر سوار کی مانند، پھر دوڑنے والے آدمی کی مانند اور پھر پیدل چلنے والے کی مانند (اس پل سے گزریں گے جو کہ جہنم پر نصب ہو گا)۔

[سنن الترمذي:3159، احمد:4141، الحاكم:8741، الدارمي:2810، الصحیحہ:311]

موسوعة التفسير المأثور:47014،سورۃ مریم:71




Thursday, 4 July 2024

خودکشی کرنے والے"مسلمان"کیلئے دعائے بخشش کرنے، کافر نہ ہونے اور نماز جنازہ پڑھنے کا امکان

 امام احمد کہتے ہیں کہ:

*خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ امام(راہنما-حاکم) نہ پڑھائے، لیکن غیر امام(عوام) پڑھیں گے۔*

[سنن الترمذی:1068]

حوالہ

آپ ﷺ نے فرمایا:

۔۔۔رہا میں تو میں اس کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھوں گا۔*

[سنن النسائی:1966، سنن ابوداؤد: 3185]


تاکہ اس سے دوسروں کو نصیحت ہو۔

[سنن ابن ماجہ:1526]


۔۔۔اور اہلِ توحید(مسلمان) میں سے ہر مرحوم کی نمازِ جنازہ ادا کرنا، اگرچہ اس نے خودکشی کی ہو۔

[سنن دارقطنی: حدیث#1745]


القرآن:

بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔۔۔

[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 48]

تفسیر:

یعنی شرک سے کم کسی گناہ کو اللہ تعالیٰ جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے ؛ لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کرکے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کرکے توحید پر ایمان لے آئے۔

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰