یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
Monday, 30 December 2024
شمسی اور قمری سال
Friday, 27 December 2024
خلیفہ اول، صحابی رسول حضرت ابوبکر صدیق، عتیق، یارِ غار، ارحم امت۔
نام،کنیت اور نسب
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام ﴿عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب﴾ ہے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔
[المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، 1:1]
آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہونے کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاتی ہیں:
عربی زبان میں ’’البکر‘‘ جوان اونٹ کو کہتے ہیں۔ جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘ کہتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لئے آپ بھی ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔
عربی زبان میں ابو کا معنی ہے ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنی ’’اولیت‘‘ کے ہیں۔ پس ابوبکر کے معنی ’’اولیت والا‘‘ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا۔
[مراة المناجيح، مفتی احمد يار خان نعيمی، 8: 347]
سیرت حلبیہ میں ہے کہ ﴿کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ﴾ ’’آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لئے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘۔
Thursday, 19 December 2024
پہلی تکبیر تحریمہ میں مرد کا"کانوں"تک ہاتھ اٹھانا
(1)عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا کَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ۔۔۔
ترجمہ:
حضرت مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے یہاں تک کہ وہ کانوں کے برابر ہوجاتے۔۔۔
[صحیح مسلم:865، السنن الکبریٰ للبیھقی:2306]
عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ أَنَّهُ رَأَی نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ
ترجمہ:
قتادہ سے دوسری سند سے یہ حدیث اسی طرح مروی ہے کہ حضرت مالک بن حویرث ؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو کے برابر اٹھاتے۔
[صحیح مسلم:866، سنن ابوداؤد:745، سنن النسائی:1057، السنن الکبریٰ للبیھقی:2306، معجم الکبیر للطبرانی:630]
آدابِ زندگی»اجازت لینا۔
القرآن:
مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں اور جب رسول کے ساتھ کسی اجتماعی کام میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر کہیں نہیں جاتے۔ (47) (اے پیغمبر) جو لوگ تم سے اجازت لیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جن کو چاہو، اجازت دے دیا کرو، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیا کرو۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ نمبر 24 النور ، آیت نمبر 62]
تفسیر:
(47) یہ آیت غزوہ ٔ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی اور آنحضرت ﷺ نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منورہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا، سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کرجاتا تھا، لیکن منافق لوگ اول تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آجاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہوجاتے، اس آیت میں ان کی مذمت اور ان مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔
Monday, 9 December 2024
بڑی بڑی مونچھیں رکھنا گناہ ہے۔
القرآن:
(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 31]
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مخالفت کرو مشرکین کی،(لہٰذا)داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں گھٹاؤ۔
[صحیح بخاری:5892]
مونچھوں کو نہ چھوڑو اور ڈاڑھی کو نہ چھیڑو۔
[صحیح مسلم:259(601-603)]
جو نہ کاٹے اپنی مونچھیں تو وہ ہم میں سے نہیں.
[سنن الترمذی:2761، امن النسائی:13]
Wednesday, 27 November 2024
غائبانہ نمازِجنازہ کے ’’خلافِ سنت‘‘ ہونے کے دلائل
نمازِ جنازہ کیلئے میت کا سامنے ہونا شرط ہے، لہٰذا احناف اور مالکیہ کے نزدیک "غائبانہ" نمازِ جنازہ جائز نہیں۔
علامہ عبد الرحمن الجزیری فرماتے ہیں:
الحنابلة قالوا تجوز الصلة علی الفائت ان کان بعد موته بشهر فاقل الشافعية قالوا تصح الصلة علی الفائت عن البلد من غير کراهة. المالکية قالوا الواجب حضور الميت واما وضعه امام المصلی بحيث يکون عند منکبی المرة ووسط الرجل فمندوب
ترجمہ:
حنابلہ نے کہا مرنے کے ایک مہینے یا اس سے کم مدت میں نماز غائبانہ جائز ہے۔ شافعیہ نے کہا جب میت شہر سے غائب ہو اس پر نماز جنازہ بغیر کراہت جائز ہے۔ مالکیہ نے کہا میت کا موجود ہونا لازم ہے۔ رہا اس کا نمازی (امام) کے آگے اس طرح ہونا کہ عورت کا کندھا امام کے سامنے ہو اور میت مرد ہو تو یہ مستحب ہے۔
[الفقه علی المذاهب الاربعة، 1 / 522]
جوابات:
(١)کبھی بھی نبی ﷺ نے غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی، صرف نجاشی کیلئے یہ خصوصیتِ نبوی تھی۔
(٢) صحابہ وتابعین میں سے کسی نے نجاشی کے علاوہ کسی کی غائبانہ جنازہ نہیں پڑھایا۔
(٣) یہ معجزہ نبوی تھا کہ نجاشی کا جسم سامنے دکھلایا گیا۔
(٤) نجاشی کا جنازہ پڑھانے والا کوئی نہیں تھا۔
اور یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار واقعاتِ وفات پیش آئے بہت سے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت و وفات کے واقعات ہوئے مگر ثابت نہیں کہ نماز جنازہ غائبانہ کا معمول اور عادتِ شریفہ رہی ہو۔
خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم دور دراز علاقوں میں مقیم تھے مگر ثابت نہیں کہ انھوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو۔
خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عہد مبارک میں بھی غائبانہ نماز جنازہ کا معمول کہیں منقول(نقل شدہ وثابت) نہیں ملتا۔
Wednesday, 30 October 2024
Thursday, 26 September 2024
حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں۔
حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں۔
القرآن:
مسیح کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھ سکتے کہ وہ اللہ کے بندے ہوں، اور نہ مقرب فرشتے (اس میں کوئی عار سمجھتے ہیں) اور جو شخص اپنے پروردگار کی بندگی میں عار سمجھے، اور تکبر کا مظاہرہ کرے تو (وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ) اللہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 172]
تفسیر:
نجران کے وفد نے کہا: اے محمد ﷺ! آپ ہمارے آقا (عیسیٰ مسیح) پر عیب لگاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں کیا کہتا ہوں؟ وفد والوں نے کہا: آپ ان کو اللہ کا بندہ اور رسول کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کا بندہ ہونا عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باعث عار نہیں۔
[تفسير امام البغوي: حديث#735 (جلد1 صفحه726)]
نوٹ:
(1)اللہ کی شان انبیاء بلکہ تمام مخلوق سے بھی بلند ہے، لہٰذا اللہ کے مقابلے میں کسی کی شان کو اللہ سے بلند یا برابر نہ رکھنا بلکہ چھوٹا/کم رکھتے بندہ کہنا کہلوانا حق ہے، اس بات پر کوئی پیغمبر یا فرشتہ ہرگز عار محسوس نہیں کرتا بلکہ خوشی وفخر محسوس کرتا یے۔
(2)اگر حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں، جو ایسا سمجھے وہ نادان ہے۔
Tuesday, 10 September 2024
عظیم، اچھے اور برے اخلاق
خُلُق اور خَلَق اصل میں دونوں ایک ہی ہیں، جیسے شِرب اور شُرب، صرم اور صرم۔۔۔لیکن خَلق اس شکل و صورت پر بولا جاتا ہے جس کا تعلق آنکھ کے پالینے سے ہوتا ہے۔ اور خُلق کا لفظ باطنی قویٰ، عادات وخصائل کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے، جن کا تعلق بصیرت سے ہے۔ قرآن میں ہے:
تمام جہانوں کیلئے رحمت» محمد رسول اللہ ﷺ
Thursday, 5 September 2024
نظرِ بد کی حقیقت، تاثیر اور علاج
نظرِ بد کا اثر اور حقیقت»
حضرت جابر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"العين تدخل الرجل القبر وتدخل الجمل القِدر".
ترجمہ:
نظر آدمی پر قبر میں بھی لگ جاتی ہے اور ہانڈی میں گوشت پر بھی لگ جاتی ہے۔
[مسند الشھاب:1057، کنزالعمال:17660، صحیح الجامع:4144، الصحیحہ:1249]
القرآن:
جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے جب وہ نصیحت کی یہ بات سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنی (تیز تیز) آنکھوں سے تمہیں ڈگمگا دیں گے۔۔۔
[سورۃ القلم:51]
Tuesday, 3 September 2024
شدت-انتہاپسندی کے جائز اور ناجائز پہلو
انتہا-شدت پسندی یہ نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ سچا، مخلص اور گہری عقیدت رکھی جائے۔ علمِ دین کی لگن، دین پر ثابت قدمی، غیر متزلزل عزم-وابستگی، بغیرسمجھوتہ عدل وانصاف، ظلم وناحق کا انکار کیا جائے۔
بلکہ
انتہا-شدت پسندی تو یہ ہے کہ گناہ/ناحق پر قائم اور ضدی رہنا، اللہ کی مقرر کردہ حدود سے نکلنا، عدل وانصاف پر سمجھوتا کرنا، لوگوں کو ناحق تکلیف/نقصان پہنچانا، اپنوں کا ظلم میں ساتھ دینا اور دوسروں کیلئے دوغلی پالیسی رکھنا، حقوق وحدود کا انکار کرنا ہے۔
Friday, 30 August 2024
صحت کا بیان
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:
دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں:(1)صحت (2)فراغت۔
[بخاری:6412 ترمذی:2304 ابن ماجہ:4170]
تشریح:
۔۔۔ اور کچھ نہ کیا تو صبح سے شام تک پڑے ہوتے رہے اور آج کل تو صحت مند و مریض سب کا ایک ہی مشغلہ ہے فلم بینی یا ڈرامہ دیکھنا۔
فقہ الحدیث:
(1)باب:-دل کو نرم کرنے والی باتیں اور یہ کہ آخرت ہی کی زندگی زندگی ہے۔
[بخاری:6412]
(2)باب:-زھد کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ کے فرامین۔
[ترمذی:2304، ابن ابی شیبہ:35497]
(3)باب:-توکل اور یقین کا بیان
[ابن ماجہ:4170]
(4)باب:-جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچا، اللہ نے اس کی عمر کا بہانہ ختم کیا: کیا ہم نے تمہیں عمر نہ دی تاکہ جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا کرلیتا جبکہ ڈرانے والے بھی آئے۔﴿سورۃ فاطر:37﴾
[سنن کبریٰ للبیہقی:6523]
(5)قیامت کے روز نعمت کے متعلق سوال ہوگا۔
[کنزالعمال:6444]
القرآن:
اور ہم جس شخص کو لمبی عمر دیتے ہیں اسے تخلیقی اعتبار سے الٹ ہی دیتے ہیں۔ کیا پھر بھی انہیں عقل نہیں آتی؟
[سورۃ نمبر 36 يس، آیت نمبر 68]
Friday, 16 August 2024
قناعت یعنی اللہ کی تقسیم پر راضی رہنے کی فضیلت
لغوی معنیٰ:
القَنَاعَة عربی زبان کا لفظ ہے، جس کی معنیٰ تھوڑی چیز پر رضا مندی، جو کچھ مل جائے اس پر صبر کرلینے کی خُو(عادت) ہے۔
"القَانِعُ" کے معنی رضامند کے ہیں۔ قناعت کے کچھ دوسرے معانی ہیں: چھپانا، قبول کرنا اور ماننا۔
[لسان العرب : 297/8]
اصطلاحی معنیٰ:
كَانَ غَيْرَ كَافٍ وَتَرْكُ التَّطَلُّعِ إِلَى المَفْقودِ.
ترجمہ:
قناعت ان نیک اخلاق(عادات) میں سے ہے، کہ موجود حلال چیزوں پر نفس کا راضی رہنا، خواہ وہ ناکافی ہو، اور جو نہیں ہے اس کے لیے خواہشات کو ترک کرنا ہے۔
تشریح:
القَنَاعَةُ مِنَ الأَخْلاَقِ الفَاضِلَةِ التي هِيَ مِنْ صِفاتِ الأَنْبِياءِ وَأَهْلِ الإِيمَانِ، وَهِيَ عِبارَةٌ عَنْ امْتِلاءِ قَلْبِ العَبْدِ بِالرِّضَا، وَالبُعْدِ عَنِ الغَضَبِ وَالشَّكْوَى عَمَّا لَمْ يَتَحَقَّقْ وَالطَّمَعِ فِيمَا لاَ يْمَلِكُ، وَالقَناعَةُ قِسْمانِ: 1- قَناعَةُ الفَقِيرِ، وَهِيَ الرِّضَا بِالحَلالِ المَوْجودِ وَتَرْكِ النَّظَرِ فِي الحَرامِ وَالغَضَبِ عِنْدَ فَواتِ نِعْمَةٍ. 2- قَناعَةُ الغَنِيِّ، وَهِيَ أَنْ يَكونَ رَاضِيًا شَاكِرًا مُسْتَعْملًا النِّعْمَةَ فِي طَاعَةِ اللهِ، لَا جَاحدًا طَامِعًا فِي أَموالِ الآخَرِينَ. وَالقَناعَةُ لَهَا فَوائِدُ عَدِيدَةٌ فَهِيَ شِفاءٌ وَدَواءٌ مِنْ أَمْراضِ الجَشَعِ وَالطَّمَعِ وَالحَسَدِ وَالسَّرِقَةِ وَغَيْرِهَا.
ترجمہ:
قناعت حسن اخلاق میں سے ہے جو انبیاء اور اہل ایمان کی خصوصیات میں سے ہے اور یہ اس بات کا اظہار ہے کہ بندے کا دل قناعت سے لبریز ہو اور دور رہے غصہ سے اور جو کچھ اسے حاصل نہیں ہوا اس کا شکوہ کرنے سے اور لالچ سے اس چیز کی جو اس کے پاس نہیں۔
قناعت دو قسم کی ہوتی ہے: (1)فقیر کی قناعت: جو موجود حلال پر راضی رہنے اور حرام میں نظر ڈالنے اور نعمت کے ضایع ہونے پر غصہ ہونے کو ترک کر دینا ہے۔ (2) مالدار کی قناعت: یہ ہے کہ وہ راضی اور شکر گزار ہو، اللہ کی اطاعت میں نعمت کا استعمال کرے، ناشکری اور دوسروں کے مال میں لالچ نہ رکھے۔
اور قناعت کے بہت سے فائدے ہیں، یہ حرص، لالچ، حسد، چوری اور دیگر روحانی-اخلاقی بیماریوں کے لیے شفاء اور دوا ہے۔
[معجم مقاييس اللغة : 33/5 - تهذيب الأخلاق : ص22 - الفروق اللغوية للعسكري : ص430 - لسان العرب : 297/8 - التوقيف على مهمات التعاريف : ص275 -]
Friday, 2 August 2024
میری امت۔۔۔
Sunday, 28 July 2024
جائز اور ناجائز شکوہ-شکایت کا بیان
شکوہ کے معنیٰ اظہارِ غم ہے۔
[المفردات فی غریب القرآن-امام الراغب اصفھانی]
قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡكُوۡا بَثِّـىۡ وَحُزۡنِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ وَاَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
یعقوب نے کہا : میں اپنے رنج و غم کا شکوہ (فریاد) (تم سے نہیں) صرف اللہ سے کرتا ہوں، اور اللہ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔
[سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 86]
یعنی کیا تم مجھ کو صبر سکھاؤ گے؟ بےصبر وہ ہے جو مخلوق کے آگے خالق کے بھیجے ہوئے درد کی شکایت کرے۔ میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ مجھ پر آزمائش ہے دیکھوں کس حد پر پہنچ کر بس ہو۔
صبرِ جمیل کے منافی اگر کوئی شکایت ہے تو وہ خالق کی آزمائش ومصیبت کی شکایت مخلوق سے کرنا ہے۔ لہٰذا مخلوق کی شکایت خالق سے کرنا یہ صبرِ جمیل کے منافی نہیں بلکہ عین دعاء والتجا ہے۔
نبوی دعائے شکوہ»
جب ابوطالب وفات پاگئے تو رسول اللہ ﷺ اپنے پیروں کے بل لوگوں کے پاس آئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی، لیکن انہوں نے جواب بھی نہ دیا، پھر آپ لوٹے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی اور یہ دعا کی:
اے اللہ! میں شکوہ کرتا ہوں تجھ سے اپنی کمزوری کی اور حیلہ و تدبیر میں کمی کی اور لوگوں کے نزدیک اپنے بےوقعت ہونے کی۔ اے ارحم الراحمین! آپ مجھے کس کے حوالہ کرتے ہیں، ایسے دشمن کے جو مجھے دیکھ کر ترش رو ہوتا ہے؟ یا ایسے قریبی عزیز کے پاس جس کو تو نے میرے معاملات کا مالک بنادیا لیکن اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کوئی پروا نہیں۔ تیری عافیت میرے لیے کافی ہے۔ میں پناہ چاہتا ہوں تیرے چہرے کے نور کے طفیل، جس کی بدولت آسمان روشن ہوگئے تاریکیوں کے پردے چھٹ گئے اور دنیا و آخرت کے معاملے سلجھ گئے، کہ مجھ پر تیرا غضب اترے یا تیری ناراضگی اترے۔ تیری خوشامد فرض ہے حتی کہ تو راضی ہو اور ہر طرح کی طاقت و قوت تیرے ساتھ ہے۔
[طبراني:181، الاحاديث المختارة:162، مجمع الزوائد:9851]
[کنزالعمال:3613+3756+5120]
Thursday, 25 July 2024
ایمان کے معانی، فضائل، بنیادی ارکان اور اعمالِ کمالِ ایمان
مسلمانوں کی سربلندی کا واحد سبب»
ایمان رکھنا۔
القرآن:
(مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 139]
تفسیر:
جنگ احد کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آگئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدان جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے، جب دشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہوگیا تو صحابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز و سامان مال غنیمت کے طور پر اکھٹا کرنا شروع کردیا، تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دشمن بھاگ چکا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور ہمیں مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہیے، ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بےمقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑدیا، دشمن نے جب دور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہوگیا ہے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ہیں تو انہوں نے موقع پاکر ٹیلے پر حملہ کردیا، حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہوگئے اور دشمن اس ٹیلے سے اتر کر ان بیخبر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا جو مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے، یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے، اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے ہیں، اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے، ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے، البتہ آنحضرت ﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ارد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرت ﷺ کا مبارک دانت شہید ہوگیا اور چہرہ مبارک لہو لہان ہوگیا، بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے تو ان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا ؛ لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوچکے تھے، ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا، قرآن کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جن سے مایوں اور دل شکستہ نہ ہونا چاہیے، اور اس طرف بھی متوجہ کررہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
Wednesday, 24 July 2024
بائیکاٹ-قطع تعلق کے معنیٰ، مقاصد، اقسام اور دلائل
بائیکاٹ(boycott) کے معنیٰ:
Saturday, 20 July 2024
تحفہ(عطیہ، ھدیہ، ھِبہ) لینے دینے کے آداب
ھدیہ دینے والے کے آداب»
(1)اخلاص سے ہدیہ دینا۔
محبت بڑھانے کا نسخہ
حضرت ابوھریرہ ؓ ﴿عائشہ ؓ﴾ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تهادوا تحابوا ﴿وتذهب الشحناء﴾ إن الهدية تذهب وحر الصدر
ترجمہ:
آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس سے آپس میں محبت ﴿زیادہ﴾ ہوگی۔ ﴿اور عداوت ختم ہوگی﴾۔ کیونکہ ہدیہ دل کا کینہ و عداوت ختم کرتا ہے۔
[الصحيحة:2306، الإرواء الغليل:1601]
[مسند احمد:9239، الادب المفرد-للبخاري:594، سنن الترمذي:2130، مسند الطيالسى:2333، مسند ابويعلي:6148، شعب الإيمان-للبیھقي:8976، السنن الکبریٰ للبیھقی:11946+11947]
﴿موطا مالک:694، مشكاة المصابيح:4693﴾
﴿جامع الاحاديث-للسيوطي:11015+11016﴾
Friday, 12 July 2024
دین کیا ہے؟ اور دیندار کون؟
دین کے معانی
(1) طاعت یعنی اپنے اختیار سے فرمانبرادی ہے، قرآن میں ہے :۔
Wednesday, 10 July 2024
بھوک (الجوع) کے فضائل
بھوک کی آزمائش کس کیلئے اور کیوں؟
القرآن:
اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155]
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے۔
[الصحيحة:1615(3539)، المعجم ابن الأعرابي:21]
Tuesday, 9 July 2024
پل صراط کا بیان
القرآن:
اور تم میں سے کوئی نہیں ہے جس کا اس پر گزر نہ ہو۔ اس بات کا تمہارے پروردگار نے حتمی طور پر ذمہ لے رکھا ہے۔
[سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 71]
«يَرِدُ النَّاسُ النَّارَ ثمَّ يصدون مِنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ فَأَوَّلُهُمْ كَلَمْحِ الْبَرْقِ ثُمَّ كَالرِّيحِ ثُمَّ كَحُضْرِ الْفَرَسِ ثُمَّ كَالرَّاكِبِ فِي رَحْلِهِ ثُمَّ كَشَدِّ الرَّجُلِ ثُمَّ كَمَشْيِهِ»
تمام لوگ آگ (پل صراط) پر وارد ہوں گے، پھر وہ اپنے اعمال کے مطابق وہاں سے پار ہوں گے، ان میں سے سب سے پہلے بجلی چمکنے کی مانند گزر جائیں گے، پھر ہوا کی مانند، پھر تیز رفتار گھوڑے کی مانند، پھر سواری پر سوار کی مانند، پھر دوڑنے والے آدمی کی مانند اور پھر پیدل چلنے والے کی مانند (اس پل سے گزریں گے جو کہ جہنم پر نصب ہو گا)۔
[سنن الترمذي:3159، احمد:4141، الحاكم:8741، الدارمي:2810، الصحیحہ:311]
موسوعة التفسير المأثور:47014،سورۃ مریم:71
Thursday, 4 July 2024
خودکشی کرنے والے"مسلمان"کیلئے دعائے بخشش کرنے، کافر نہ ہونے اور نماز جنازہ پڑھنے کا امکان
امام احمد کہتے ہیں کہ:
*خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ امام(راہنما-حاکم) نہ پڑھائے، لیکن غیر امام(عوام) پڑھیں گے۔*
[سنن الترمذی:1068]
حوالہ
آپ ﷺ نے فرمایا:
۔۔۔رہا میں تو میں اس کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھوں گا۔*
[سنن النسائی:1966، سنن ابوداؤد: 3185]
تاکہ اس سے دوسروں کو نصیحت ہو۔
[سنن ابن ماجہ:1526]
۔۔۔اور اہلِ توحید(مسلمان) میں سے ہر مرحوم کی نمازِ جنازہ ادا کرنا، اگرچہ اس نے خودکشی کی ہو۔
[سنن دارقطنی: حدیث#1745]
القرآن:
بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔۔۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 48]
تفسیر:
یعنی شرک سے کم کسی گناہ کو اللہ تعالیٰ جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے ؛ لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کرکے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کرکے توحید پر ایمان لے آئے۔
🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰