Tuesday, 25 September 2012

تعارفِ آئمہِ فقہ اور ان کی کتبِ حدیث

فقہ کے مشھور چار اماموں (ائمہ اربعہ) کی طرف منسوب کتب احادیث

١. مسانید امام الاعظم : امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ (٨٠-١٥٠ ہجری)

امام اعظم ابوحنیفہؒ کا موضوع زیادہ ترفقہ تھا حدیث نہیں؛ تاہم آپ ضمناً احادیث بھی روایت کرتے جاتے تھے، جنھیں آپ کے شاگرد آپ سے روایت کردیتے تھے، مختلف علماء نے آپ سے روایت شدہ احادیث کو جمع کیا ہے، علامہ خوارزمی (۶۶۵ھ) نے ان کے پندرہ جمع شدہ مجموعے مسانید ابی حنیفہ کے نام سے مرتب کیئے ہیں، ان مجموعوں کوامام صاحبؒ سے براہِ راست نقل کرنے والے امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ، امام صاحبؒ کے صاحبزادے حمادؒ اور امام حسن بن زیادؒ ہیں، ان میں سب سے بہتر مجموعہ محدث جلیل موسیٰ بن زکریا حنفی کا ہے، اسے ہی مسندابی حنیفہ کہا جاتا ہے، یہ کتاب مصر، ہندوستان اور پاکستان میں بارہا چھپ چکی ہے۔
محدثِ کبیر ملاعلی قاریؒ نے مسندالانام فی شرح الامام کے نام سے اس کی شرح لکھی جو سنہ ۱۸۸۹ء میں مطبع محمدی لاہور نے شائع کی تھی، یہ کتاب مولانا محمدحسن سنبھلی کے حاشیہ کے ساتھ اصح المطابع لکھنؤ سے سنہ ۱۳۰۹ھ میں شائع ہوئی۔

خناسوں کا وسوسہ: امام صاحب کی کوئی حدیث کی (خود کی لکھی) کتاب نہیں ہے، ان کے شاگردوں نے لکھ کر ان کی طرف منسوب کردی ہیں؟
جواب: جس طرح الله کے رسول صلی الله عالیہ وسلم نے خود قرآن نہیں لکھا، بلکہ جو یاد کیا وہ اپنے شاگرد (صحابہ) سے لکھواتے، تو شیعہ کی طرح کہنا کے یہ قرآن نبی والا نہیں کیونکہ یہ نبی نے نہیں لکھا بلکہ صحابہ (رض) کا لکھا (گھڑا) ہوا ہے، صحیح نہیں ہوگا. ایسے ہی امام صاحب نے جو احادیث صحابہ رضی الله عنہم سے حفظ کیں ان سے انکے شاگرد لکھ کر محفوظ کر گئے.




https://archive.org/details/JameUlMasaneedUrdu_Complete/Jame%20ul%20Masaneed%20j1/mode/2up
--------------------------------------------------------------------
٢. موطا امام مالک : امام مالک بن انسؒ (٩٣-١٧٩ ہجری)


مؤطا لفظ توطیہ سے ہے، توطیہ کے معنی روندنے، تیار کرنے اور آسان کرنے کے ہیں، امام مالکؒ نے اسے مرتب کرکے ستر فقہاء کے سامنے پیش کیا، سب نے اس سے اتفاق کیا، اسی وجہ سے اس اتفاق شدہ مجموعہ کو مؤطا کہا گیا، امام مالکؒ نے اسے فقہاء کے سامنے کیوں پیش کیا؟ محدثین کے سامنے کیوں نہیں؟ ملحوظ رہے کہ ان دنوں فقہاء ہی حدیث کے اصل امین سمجھے جاتے تھے اور یہی لوگ مراداتِ حدیث کوزیادہ جاننے والے مانے جاتے تھے۔
امام مالکؒ کا موضوع چونکہ زیادہ ترفقہ تھا، اس لیئے آپ نے اس میں سند کے اتصال کی بجائے تعامل امت کوزیادہ اہمیت دی ہے، آپ اس میں اقوالِ صحابہؓ اور تابعینؒ بھی لے آئے ہیں، آپ کے ہاں سنت وہی ہے جس پر اُمت میں تسلسل سے عمل ہوتا آیا ہو، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"مز جہ باقوال الصحابۃ وفتاویٰ التابعین ومن بعدھم"۔ 

(مقدمہ فتح الباری:۴)

ترجمہ: آپ نے صحابہ کے اقوال اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کے فتاوے اس میں شامل کیئے ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اسے فقہ کی کتاب شمار کرتے ہیں (مسوی عربی شرح موطا:۴) جہاں تک اس کی اسانید کا تعلق ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

"لیس فیہ مرسل ولامنقطع الاوقداتصل السند بہ من طرق اخریٰ"۔

(حجۃ اللہ البالغہ:۱/۱۳۳)

ترجمہ: اس میں کوئی مرسل اور منقطع روایت ایسی نہیں جودوسرے طرق سے متصل نہ ہوچکی ہو۔

مؤطاامام مالک میں ۸۲۲/روایات مرفوع ہیں، جوحضور   تک پہنچتی ہیں ان میں سے بھی ۲۴۴/مرسل ہیں، جوتابعینؒ کی روایت سے حضور   تک پہنچی ہیں، انہیں محدثین کی اصطلاح میں مرسل کہتے ہیں، اس دور میں مرسل احادیث لائقِ قبول سمجھی جاتی تھیں، جب تک جھوٹ اور فتنوں کا دور شروع نہیں ہوا، امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ جیسے اکابر مرسل روایات کوبلاتردد قبول کرتے رہے، امام مالکؒ سے مؤطا کے سولہ نسخے آگے چلے، جن میں صحیح ترین نسخہ امام یحییٰ بن یحییٰ مصمودی اندلسی کا ہے، مؤطا مالک ان دنوں اسے ہی کہتے ہیں، بڑے بڑے متبحر علماء نے اس کی شروح اور حواشی لکھے ہیں، حضرت امام شافعیؒ نے لکھا ہے:

"ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک"۔

(تزئین المالک:۷۳)

ترجمہ:تختۂ زمین پر کوئی کتاب قرآن کریم کے بعد مؤطا سے زیادہ صحیح نہیں۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب صحیح بخاری اور صحیح مسلم وجود میں نہ آئی تھیں اور صحتِ سند کے لحاظ سے مؤطا مالک اپنی مثال آپ تھی، اس کی کوئی روایت جرح راوی کی وجہ سے ضعیف نہیں، امام مالکؒ سے ایک ہزار کے قریب علماء نے مؤطا لکھی۔

(بستان المحدثین اردو ترجمہ:۲۲، مطبع: کراچی)


----------------------------------------------------------------------
٣. مسند امام الشافعیؒ :
ابو عبد الله محمد بن ادریس الشافعیؒ (١٥٠-٢٠٤ ہجری )

آپ کا زیادہ ترموضوع فقہ تھا؛ مگرآپ اس کے ضمن میں احادیث بھی روایت کرتے تھے، آپ کے دور میں فتنے بہت اُبھر آئے تھے اور جھوٹ عام ہوچکا تھا، اس لیئے آپ نے راویوں کی جانچ پڑتال پر بہت زور دیا اور تعامل امت کی نسبت صحت سند کواپنا مآخذ بنایا، آپ نے یہ مسند خود ترتیب نہیں دی، اس کے مرتب ابوالعباس محمد بن یعقوب الاصم (۶۴۶ھ) ہیں، یہ مسند امام شافعیؒ سے امام مزنیؒ نے اور امام مزنیؒ سے امام طحاویؒ (۳۲۱ھ)نے بھی روایت کی ہے، اس کی بھی کئی شروح لکھی گئیں جن میں مجدالدین ابن اثیرالجزریؒ (۶۰۶ھ)اور امام سیوطیؒ کی شرحیں زیادہ معروف ہیں۔

-------------------------------------------------------------------------------------
٤. مسند امام احمد : احمد بن محمد بن حنبل ابو عبداللہ شیبانیؒ (١٦٤-٢٤١ ہجری)


مسند احمد کی موجودہ ترتیب آپ کے صاحبزادے عبداللہ کی ہے، قاضی شوکانی لکھتے ہیں: امام احمدؒ نے جس روایت پر سکوت اختیار کیا ہے اور اس پر جرح نہیں کی وہ لائق احتجاج ہے (نیل الاوطار:۱/۱۳) اس سے اس مسند کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے، حافظ ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ مسند احمد کی شرط  روایت ابوداؤد کی ان شرائط سے قوی ہے جو انھوں نے اپنی سنن میں اختیار کی ہیں، امام ابوداؤدؒ (۲۷۵ھ) لکھتے ہیں:

"وماالم اذکر فیہ شیئا فھو صالح وبعضھا اصح من بعض"۔   

(مقدمہ سنن ابی داؤد:۶)

ترجمہ: اور جس راوی کے بارے میں میں نے کچھ نہیں لکھا وہ اس لائق ہے کہ اس سے حجت پکڑی جائے۔

علامہ ابن الجوزیؒ اور حافظ عراقیؒ نے مسند احمد کی ۳۸/روایات کوموضوع قرار دیا ہے، حافظ ابنِ حجرعسقلانیؒ نے ان میں ۹/روایات کا پورا دفاع کیا ہے اور اس پر ایک مستقل کتاب ("القول المسدد فی الذب عن مسنداحمد" اس کا نا م ہے) لکھی ہے، جو حیدرآباد دکن سے شائع ہوچکی ہے، چودہ روایات کا جواب حافظ جلال الدین سیوطیؒ نے "الذیل الممہد" میں دیا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہولیؒ نے مسند امام احمد کو طبقۂ ثانیہ کی کتابوں میں جگہ دی ہے، حافظ سراج الدین عمر بن علی ابن الملقن (۸۰۴ھ) نے مسند احمد کا ایک اختصار بھی کیا ہے اور علامہ ابوالحسن سندھیؒ (۱۲۳۹ھ) نے مسند احمد کی ایک شرح بھی لکھی ہے، شیخ احمدبن عبدالرحمن البناء نے اسے فقہی ابواب پر مرتب کیا اور شیخ احمد شاکر نے اس پر تحقیقی کام کیا ہے، اس کا نام الفتح الربانی من مسنداحمد بن حنبل شیبانی ہے یہ ۲۲/جلدوں میں ہے سنہ۱۳۵۳ھ میں پہلی جلد شائع ہوئی سنہ ۱۳۷۷ھ میں آخری جلد مطبع غوریہ مصر سے شائع ہوئی۔
پہلے دور کے یہ دس نمونے مختلف قسموں پر جمع ہوئے ہیں، اس دور کی اور بھی بہت کتابیں تھیں، جواس وقت ہماری رسائی میں نہیں؛ لیکن ان کے حوالے شروح حدیث میں عام ملتے ہیں اور ان کے مخطوطات بھی کہیں کہیں موجود ہیں، ان کے تعارف کا عملاً کوئی فائدہ نہیں، صرف چند نام پڑھ لیجئے:
سنن مکحول الدمشقی (۱۱۶ھ)، سنن ابن جریج المکی (۱۵۰ھ)، جامع معمر بن راشد (۱۵۳ھ)، جامع سفیان الثوری (۱۶۱ھ)، مسنداحمد بن عمروالبزار (۱۶۷ھ)، مسندوکیع بن الجراح (۱۹۷ھ)، مسندابن الجارود الطیالسی (۲۰۴ھ)، مسندالفریابی (۲۱۲ھ)، مسندابی عبید قاسم بن سلام (۲۲۴ھ) مسندابن المدینی (۲۳۴ھ)، مسنداسحٰق بن راہویہ (۲۳۸ھ)، خدا کرے یہ مجموعے بھی شائع ہوجائیں ان سے باب حدیث میں نئی تحقیقات کا اضافہ ہوگا؛ بحمدللہ یہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور نٹ پربھی دستیاب ہیں، ڈیجیٹل لائبریری سے فائدہ اٹھانے والے تواس سے خوب فائدہ اٹھارہے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ اس دور کے آخر میں تالیف حدیث اپنے فنی کمال کوپہنچ گئی اور محدثین نے وہ گراں قدر مجموعے مرتب کیئے کہ خود فن ان پر ناز کرنے لگا، صحیح بخاری اور صحیح مسلم اسی دورِ آخر کی تالیفات ہیں۔


=======================================================

فقہاء حدیث ائمہ مجتہدین


صحابہؓ وتابعینؒ کے بعد ائمہ مجتہدین کی باری آتی ہے، یہ حضرات علمِ اصول کے امام اور فقہ واحادیث کے جامع تھے ، موضوع ان کا زیادہ ترفقہ رہا، اس لیئے ان کی شہرت مجتہد Theorist کے طور پر زیادہ رہی، محدثین انہیں حفاظِ حدیث میں بھی ذکر کرتے ہیں اور فقہاء انہیں اپنے میں سے مجتہد قرار دیتے ہیں، ان میں سے بعض کی امت میں پیروی جاری ہوئی اور بعض کی نہیں، بعض ان میں سے اپنے اساتذہ سے نسبت برقرار رکھنے کے باعث مجتہد منتسب سمجھے گئے؛ تاہم اس میں شبہ نہیں کہ یہ حضرات حدیث وفقہ کے جامع اور اپنے اپنے درجہ میں مجتہد مطلق کا مقام رکھتے تھے، ان میں ہم حضرت امام ابوحنیفہؒ (۱۵۰ھ)، امام اوزاعیؒ (۱۵۷ھ)، سفیان الثوریؒ (۱۶۱ھ)، امام لیث بن سعد مصریؒ (۱۷۵ھ)، امام مالکؒ (۱۷۹ھ)، امام ابویوسفؒ (۱۸۲ھ)، امام محمدؒ (۱۸۹ھ)، امام شافعیؒ (۲۰۴ھ)، اسحاق بن راہویہؒ (۲۳۸ھ) اور امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) کا ذکر کریں گے، حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ان حضرات کو مجتہد تسلیم کیا ہے، ائمہ اربعہ امام اوزاعی، سفیان الثوریؒ، لیث مصریؒ، امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ اور اسحاق بن راہویہؒ یہ دس حضرات ہوتے ہیں، جومجتہدین کہلائے، یہ حضرات اپنے اپنے وقت کے فقہائے حدیث تھے، اب ان کا فرداً فرداً ذکر ہوتا ہے۔



(۱)حضرت امام ابوحنیفہ ؒ


امام ابوحنیفہؒ (پیدئش: ۸۰ھ) کی شہرت زیادہ ترامام مجتہد کی حیثیت سے ہے؛ لیکن علمائے حدیث نے آپ کو محدثین میں بھی ذکر کیا ہے، محدثین کا ذکر اس عنوان سے کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں سے احادیث سنیں اور ان سے آگے فلاں فلاں نے روایت لیں، حضرت امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں بھی یہ پیرایہ تعارف موجود ہے، حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ (سنہ ۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:

"قد قال الامام علی بن المدینی ابوحنیفہ روی عنہ الثوری وابن المبارک وحماد بن زید وہشام ووکیع وعباد بن العوام وجعفر بن عون وھو ثقہ لاباس بہ وکان شعبہ حسن الرای فیہ"۔             

    (روی حماد بن زید عن ابی حنیفۃ احادیث کثیرۃ، الانتقاء:۱۳۰)

ترجمہ: امام علی بن المدینی کہتے ہیں کہ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، حمادبن زید، ہشام، وکیع، عباد بن عوام، جعفر بن عون نے امام ابوحنیفہؒ سے حدیث روایت کی ہے، ابوحنیفہ ثقہ تھے ان سے روایت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور شعبہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے۔

حافظ شمس الدین ذہبی لکھتے ہیں:

"وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الاعرج وعدى بن ثابت وسلمة بن كهيل وابي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وابي اسحاق وخلق كثير..... وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وابوعاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وابو نعيم وابو عبد الرحمن المقرى وبشر كثير، وكان اماما ورعا"۔   

  (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶۸)

ترجمہ: امام ابوحنیفہ نے عطاء، نافع، عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج، سلمہ بن کہیل، ابی جعفر، محمدبن علی، قتادہ، عمرو بن دینار، ابی اسحاق اور بہت سے لوگوں سے حدیث روایت کی ہے اور ابوحنیفہ سے وکیع، یزید بن ہارون، سعد بن صلت، ابوعاصم، عبدالرزاق، عبیداللہ بن موسیٰ، ابونعیم، ابوعبدالرحمن المقری اور خلق کثیر نے روایت لی ہے اور ابوحنیفہ امام تھے اور زاہد پرہیزگار تھے۔

ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ اہلِ مکہ کے محدث اور مفتی عطاء بن ابی رباح سے کس کس نے حدیث راویت کی ہے؟:

"وعنه ايوب وحسين المعلم وابن جريج وابن اسحاق والاوزاعي وابو حنيفة وهمام بن يحيى وجرير ابن حازم"۔  

        (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۲)

خطیب تبریزی، صاحب مشکوٰۃ لکھتے ہیں:

"سمع عطاء بن ابی رباح وابااسحاق السبیعی ومحمد بن المنکد رونا فعاوہشام بن عروۃ وسماک بن حرب وغیرہم وروی عنہ عبداللہ بن المبارک وکیع بن الجراح ویزید بن ہارون والقاضی ابویوسف ومحمد بن الحسن الشیبانی وغیرہم"۔                 

  (الاکمال:۶۲۴)

ترجمہ: ابوحنیفہؒ نے عطا بن رباح اور ابواسحاق السبیعی اور محمدبن المنکدر اور ہشام بن عروہ اور سماک بن حرب وغیرہ حضرات سے روایت لی اور ابوحنیفہؒ سے عبداللہ بن مبارک اوروکیع بن الجراح اور یزید بن ہارون اور قاضی ابویوسف اور محمد بن حسن الشیبانی وغیرہ حضرات نے روایت لی ہیں ۔

حضرت عبدالرحمن المقری (۲۱۳ھ) جب آپ سے روایت کرتے توفرماتے مجھ سے اس شخص نے یہ حدیث بیان کی جو (فن حدیث میں) بادشاہوں کا بادشاہ تھا، خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں:

"کان اذاحدث عن ابی حنیفۃ قال حدثنا شاہنشاہ"۔

آپ کے اساتذہ وتلامذہ ان کے علاوہ بھی بہت سے تھے، آپ نے بلند پایہ محدثین سے محدثین کے طور پر روایات لیں اور آگے محدثین کے طرز پر انہیں محدثین سے روایت کیا، آپ کے تلامذہ میں سے عبداللہ بن مبارک اور وکیع بن الجراح کے تذکرے کتب رجال میں دیکھیں، یہ حضرات فنِ حدیث میں اپنے وقت کے آفتاب وماہتاب تھے، ان جیسے اکابر محدثین کا حدیث میں آپ کی شاگردی کرنا اس فن میں آپ کی عظمتِ شان کی کھلی شہادت ہے، یہ صحیح ہے کہ آپ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی طرح مکثرین روایت میں سے نہ تھے؛ لیکن اس سے آپ کے علمِ حدیث میں کمزور ہونے کا شبہ کسی جاہل کوبھی نہ ہوسکے گا، محدثین آپ کے ذکر کے بغیرآگے نہ چلتے تھے، مشکوٰۃ شریف حدیث کی کتاب ہے جس میں ایک روایت بھی آپ سے منقول نہیں؛ مگرخطیب تبریزی "الاکمال فی اسماء الرجال" میں آپ کے ذکر کے بغیر آگے نہیں چل سکے، آپ کے وفور علم کی شہادت آپ کودینی پڑی اور ظاہر ہے کہ ان دنوں علم سے مراد علم حدیث ہی لیا جاتا تھا، مصنف مذکور لکھتے ہیں:

"والغرض بایراد ذکرہ فی ہذا الکتاب وان لم نرد عنہ حدیثاً فی المشکوٰۃ للتبرک بہ لعلو رتبتہ ووفور علمہ"    

       (الاکمال فی أسماء الرجال:۶۲۴)

ترجمہ: اورغرض اس کتاب میں آپ کا ذکرلانے سے یہ ہے کہ اگرچہ ہم مشکوٰۃ میں اُن سے کوئی حدیث نہیں لائے ہیں کہ آپ کے ذکر سے برکت حاصل ہوجائے، یہ آپ کے علوِمرتبہ اور وفور علم کی وجہ سے ہے۔

وفورِ علم سے مرادِ حدیث کا علم وافر نہیں تو اور کیا ہے؟ رہا فقہ تویہ علم اسی وقت بنتا ہے جب یہ حدیث پر مرتب ہو اسے علم حدیث لازم ہے؛یہی نہیں کہ آپ نے محدثین کے طرز پر روایات لیں اور آگے روایت کیں؛ بلکہ روایتِ حدیث اور راویوں کے صدق وکذب پر بھی آپ کی پوری نظر تھی، امام اوزاعیؒ سے ایک مسئلے پر گفتگو ہوئی اور دونوں طرف سے احادیث سند کے ساتھ پڑھی گئیں توآپ نے دونوں طرف کے راویوں پر تبصرہ فرمایا اور باوجود یہ کہ دونوں طرف کے روات ثقہ تھے، آپ نے راویوں کے علو فہم پر بحث شروع کردی (سند الانام فی شرح مسند الامام:۲۰) اور دونوں طرف کے راویوں کا نام لے لے کر بتایا کہ حماد بن ابی سلیمان زہری سے افقہ ہیں اور فلاں فلاں سے افقہ ہے اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے مقابلے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہیں، اس سے واضح ہے کہ آپ راویوں پر تنقیدی نظر رکھتے تھے، ایک دوسری جگہ راویوں کے صدق وکذب پر آپ گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"مارأیت احداً افضل من عطاء"۔                 

  (تذکرہ:۱/۹۲)

میں نے عطاء بن ابی رباح سے زیادہ اچھا (راوی) کسی کو نہیں دیکھا...... اور یہ بھی فرمایا:

"مالقیت فیمن لقیت اکذب من جابر الجعفی"۔              

(تہذیب التہذیب:۳/۴۸)

میں جن لوگوں سے ملاہوں ان میں جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا کسی کو نہیں پایا۔

حافظ ابنِ حجر نے زید بن عیاش کے بارے میں آپ کی رائے نقل کی ہے "انہ مجہول" (تہذیب التہذیب:۴/۴۲۴)طلق بن حبیب پر آپ نے اس کے عقیدہ کی رو سے جرح کی ہے "کان یری القدر" (الجواہر المضیہ:۱/۳۰) محدثین ہی راویوں پر اس درجہ تنقیدی نظر رکھتے ہیں، حافظ شمس الدین الذہبیؒ لکھتے ہیں:

"قال ابوحنیفۃ رایت ربیعہ واباالزناد وابوالزناد افقہ الرجلین"۔ 

(تذکرہ:۱/۱۲۷)

ترجمہ:ابوحنیفہؒ کہتے ہیں میں نے ربیعہ اور ابوالزناد دونوں کودیکھا، ابوالزناد زیادہ فقیہ تھے۔

محدثین کا آپ کے متعلق اس قسم کی آراء کا اظہار کرنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ آپ رواۃ حدیث کے فہم ودرایت پر کتنی گہری نظر رکھتے تھے، حضرت سفیان الثوریؒ کے علمی مرتبہ اور شانِ علم حدیث سے کون واقف نہیں، اتنے بڑے محدث کے بارے میں آپ سے رائے لی گئی کہ ان سے حدیث لی جائے یا نہیں؟ امام بیہقیؒ لکھتے ہیں:

"عبد الحميد قال: سمعت أباسعد الصاغاني يقول: جاء رجل إلى أبي حنيفة فقال: ماترى في الأخذ عن الثوري؟ فقال: اكتب عنه ماخلا حديث أبي إسحاق عن الحارث عن علي، وحديث جابر الجعفي"۔

(کتاب القرأۃ للبیہقی:۱۳۴)

ترجمہ: عبدالحمید الحمانی کہتے ہیں میں نے ابوسعدصاغانی کوکہتے ہوئے سنا کہ ایک شخص امام ابوحنیفہ کے پاس آیا اور پوچھا سفیان ثوری سے روایت لینے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ان سے حدیث لے لو؛ ماسوائے ان حدیثوں کے جنھیں وہ ابواسحاق عن الحارث کی سند سے روایت کریں یاجنھیں وہ جابر جعفی سے نقل کریں۔

غور کیجئے جب حضرت امام سفیان ثوری جیسے محدث کے بارے میں بھی آپ سے رائے لی جارہی ہےتو آپ کا اپنا مقام حدیث میں کیا ہوگا؟ اجتہاد واستنباط یاتطبیق وترجیح میں تومجتہدین آپ سے اختلاف کرسکتے ہیں؛ لیکن کسی مقام پریہ کہہ دینا کہ یہ حدیث حضرت امام کونہ پہنچی ہوگی ہرگز درست نہیں؛ اس دور میں یہ بعض الظن اثم کے قبیل میں سے ہے، محدث جلیل ملاعلی قاری احیاء العلوم کی ایک عبارت پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"فالظن بأبي حنيفة أن هذه الأحاديث لم تبلغه ولوبلغته لقال بها قلت هذا من بعض الظن فإن حسن الظن بأبي حنيفة أنه أحاط بالأحاديث الشريفة من الصحيحة والضعيفة، لكنه مارجح الحديث الدال على الحرمة أوحمله على الكراهة جمعا بين الأحاديث وعملا بالرواية والدراية"۔

(سندالانام:۵۲)

الحافظ اور الحجۃ کے درجے کے محدثین توبہت ہوئے؛ لیکن بہت کم ہوئے جن کا علم تمام احادیث کومحیط مانا گیا ہو، حضرت امام ان کبارِ محدثین میں سے ہیں، جن کاعلم تمام احادیثِ صحیحہ اور ضعیفہ کومحیط مانا گیا، ایک مرتبہ یحییٰ بن معینؒ سے امام ابوحنیفہؒ کے متعلق پوچھا گیا توفرمایا کہ ثقہ میں ثقہ ہیں، ایک مرتبہ فرمایا حدیث فقہ میں اور سچے ہیں اور دین کے بارے میں قابلِ اعتماد ہیں۔

(تاریخ بغداد خطیب:۱۳/۴۱۹،۴۲۰)

امام ابوداؤد فرماتے ہیں:

"ان ابا حنیفۃ کان اماما"۔

(تذکرہ:۵/۱۶۰) 

   ترجمہ:بے شک ابوحنیفہؒ امام تھے۔

حضرت سفیان بن عیینہ (۱۹۸ھ) کس پائے کے محدث تھے یہ اہلِ علم سے مخفی نہیں، آپ کوفہ آئے توعلماء حدیث تب آپ سے حدیث سننے کے لیئے تیار ہوئے، جب حضرت امام ابوحنیفہؒ نے آپ کے محدث ہونے کی تصدیق کی، آپ نے فرمایا: یہ شخص عمرو بن دینار کی روایات کا سب سے بڑا عالم ہے، اس پر علماء سفیان بن عیینہ کے گرد جمع ہوگئے، حضرت سفیانؒ کہتے ہیں:

"قدمت الکوفۃ فقال ابوحنیفۃ ہذا اعلم الناس بحدیث عمروبن دینار فاجتمعوا علی فحدثتھم"۔ 

                   (الجواہرالمضیئۃ:۱/۳۰)

سفیان بن عیینہ کومحدث بنانے میں بڑے بڑے محدثین کی محنتیں ہوئیں؛ مگراس میں سبقت حضرت امام ابوحنیفہؒ کی ہے۔

حضرت سفیان خود کہتے ہیں:

"اوّل من صیرنی محدثا ابوحنیفۃ"۔      

(الجواہر نقلاً عن ابن خلکان:۱/۱۰۳)

ترجمہ:جسں نے سب سے پہلے مجھے محدث بنایا ابوحنیفہ تھے۔

حافظ ذہبیؒ فرماتے ہیں محدثِ حرم حضرت سفیان کوفی تھے، اب آپ خود سمجھ لیں کہ آپ نے حضرت امام سے کس قدر استفادہ کیا ہوگا، آپ مسلکاً بھی حنفی تھے۔                    

   (الجواہر:۱/۲۵۰)

یحییٰ بن زکریا ابی زائدہ کی جلالتِ علم سے کون واقف نہیں، حافظ ذہبیؒ انہیں "الحافظ الثبت المتقن الفقیہ"(تذکرہ:۱/۲۴۶) لکھتے ہیں،  آپ حضرت امام کے شاگرد تھے اور بقول حضرت امام طحاویؒ حضرت امام کے اُن پہلے دس اصحاب میں سے تھے جوتدوین علم میں آپ کے ساتھ بیٹھے، فن حدیث کے ان جیسے اکابر کا حضرت امام سے یہ قریبی رابطہ بتلاتا ہے کہ حضرت امام فن روایت میں بھی ان جبالِ علم کے شیخ تھے اور اکابر محدثین نہ صرف ان کے علم حدیث کے قائل تھے؛ بلکہ ان سے اپنے محدث ہونے کی سند لیتے تھے۔

حضرت امام حدیثِ منقول پر عمل کرنے سے پہلے یہ دیکھتے تھے کہ کثیرتعداد متقی لوگ اس حدیث کواِس صحابیؓ سے روایت کرتے ہوں، یہ روایت کرنا لفظاً ضروری نہیں، خبرِواحد اپنی جگہ معتبر ہے؛ لیکن اُن کے ہاں اس کا عمل میں آیا ہوا ہونا ضروری تھا، جوحدیث معمول بہ نہ رہی ہو؛ اِس سے ان کے ہاں سنت ثابت نہیں ہوتی، سنت کے ثابت ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ اس پر عمل بھی ہوتا آیا ہو، امام مالکؒ کانظریۂ حدیث بھی تقریباً یہی تھا، وہ حدیث کی بجائے سنت پر زیادہ زور دیتے تھے؛ مؤطا میں بار بار سنت کا لفظ لاتے ہیں اور اس سے صحابہؓ وتابعینؒ کا تواتر عمل مراد ہوتا ہے جب فتنے پھیلے اور جھوٹ کا بازار گرم ہوا تومحدثین روایت اور اسناد کے گرد پہرہ دینے لگے، اِن بدلے ہوئے حالات میں حدیث سے تمسک بذریعہ اسناد ہونے لگا اور تواتر عمل کی اس طرح تلاش نہ رہی جس طرح پہلے دور میں ہوتی تھی، اس نئے دور کے مجدد حضرت امام شافعیؒ ہیں؛ لیکن اس میں شک نہیں کہ پہلے دور میں حدیث کی بجائے سنت کوزیادہ اہمیت دی جاتی تھی، حافظ شمس الدین الذہبیؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کانظریۂ حدیث اُن کے اپنے الفاظ میں اس طرح نقل کرتے ہیں:

"آخذ بکتاب اللہ فمالم اجد فبسنۃ رسول اللہ والاثار الصحاح عنہ التی فشت فی ایدی الثقات عن الثقات فان لم اجد فبقول اصحابہ اٰخذ بقول من شئت...... وامااذا انتہی الامرالی ابراہیم والشعبی والحسن والعطاء فاجتہد کمااجتہدوا"۔  

(مناقب ابی حنیفۃ للذہبی:۲۰)

ترجمہ: میں فیصلہ کتاب اللہ سے لیتا ہوں جواس میں نہ ملے اسے حضور   کی سنت اور ان صحیح آثار سے لیتا ہوں جوحضور سے ثقہ لوگوں کے ہاں ثقات کی روایت سے پھیل چکے ہوں، ان میں بھی نہ ملے تومیں صحابہ کرامؓ سے لیتا ہوں اور جس کا فیصلہ مجھے اچھا (قوی) لگے لے لیتا ہوں..... اور جب معاملہ ابراہیم نخعیؒ، علامہ شعبیؒ، حضرت حسن بصریؒ اور عطاء بن ابی رباحؒ تک پہنچے تومیں بھی اس طرح اجتہاد کرتا ہوں جس طرح ان پہلوؤں نے اجتہاد کیا تھا۔

حضرت امام یہاں آثارِ صحیحہ کے عملاً پھیلے ہوئے ہونے پر زور دے رہے ہیں اور یہی اُن کا نظریہ حدیث تھا، حضرت علامہ عبدالوہاب الشعرانیؒ (۹۷۳ھ) لکھتے ہیں:

"وقد کان الامام ابوحنیفۃ یشترط فی الحدیث المنقول عن رسول اللہ قبل العمل بہ ان یرویہ عن ذٰلک الصحابی جمع اتقیاء عن مثلہم"۔        

(المیزان الکبریٰ للشعرانی:۱/۶۲)

ترجمہ: امام ابوحنیفہؒ حضور   سےنقل شدہ حدیث کومعمول بہ ٹھہرانے سے پہلے یہ ضروری ٹھہرائے تھے کہ اسے اس صحابیؓ سے ان جیسے نیک لوگوں کی ایک جماعت نے روایت کیا ہو۔

 محقق ابن الہمامؒ (۸۶۱ھ) کی حضرت امام کے اس اصل پر گہری نظر تھی، آپؒ تصریح کرتے ہیں کہ جب کوئی صحابیؓ اپنی روایت کردہ حدیث پر عمل نہ کرے اس کے خلاف فتوےٰ دے تو وہ روایت ازخود حجت نہ رہے گی؛ کیونکہ اس کے ساتھ تواترِ عمل ثابت نہیں ہوسکا، حضرت امام کا یہ نظریہ بیشک نہایت سخت ہے، روایت کے ساتھ راوی کا عمل ساتھ ساتھ چلے، ایسے راوی توصحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی بہت کم ملیں گے، حضرت امامؒ تواتر عمل کے اس حد تک قائل تھے کہ وہ اس کی تائید میں ان روایات وآثار سے مدد لیتے تھے، جواپنی جگہ مرسل ہوں؛ مگرعملاً اتصال رکھتے ہوں، آپؒ کی املاء کردہ کتاب الآثار اور امام مالکؒ کے مؤطا میں آپؒ اسی نظریہ کوجگہ جگہ کارفرما پائیں گے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:

"أنہ کان یذھب فی ذلک الی عرضھا علٰی مااجتمع علیہ من الاحادیث ومعانی القرآن فماشذ من ذلک ردہ وسماہ شاذاً"۔                

   (الموافقات للشاطبی:۳/۲۶)

ترجمہ:امام صاحبؒ ایسے موقع پر اس روایت کواس موضوع کی دوسری احادیث اور قرآنی مطالب سے ملاکر دیکھتے جوروایت اس مجموعی موقف سے علیٰحدہ رہتی آپؒ اسے (عمل میں) قبول نہ کرتے اور اس کا نام شاذIsolated رکھتے۔

حضرت امام کے نظریہ حدیث میں یہ اصول بھی کار فرما ہے کہ آثارِ صحابہ اور ضعیف حدیث کوبھی نظرانداز نہ کیا جائے، اُن کے ہاں آثارِ صحابہ اور ضعیف حدیث کے ہوتے ہوئے اجتہاد اور قیاس سے کام نہ لینا چاہئے، اپنی رائے پر ضعیف حدیث اور آثارِ صحابہ کوترجیح دینی چاہیے، یہ صرف حضرت امام کی ہی رائے نہ تھی، کل فقہاء عراق اسی نظریہ کے تھے، علامہ ابنِ حزمؒ نے اس پر فقہاء عراق کا اجماع نقل کیا ہے؛ ضعیف حدیث سے یہاں وہ روایت مراد نہیں، جس کا ضعف انتہائی شدید قسم کا ہویا وہ موضوع ہونے کے بالکل قریب جاچکی ہو، متکلمین کا جوطبقہ مسائل ذات وصفات میں تاویل کی راہ چلا حضرت امام اس مسلک کے نہ تھے، اس باب میں آپ محدثین کی روش پرتھے اور آیات صفات پر بلاتاویل ایمان رکھتے تھے، حافظ ابنِ کثیرؒ (۷۷۴ھ) آپ کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:

"هوالامام أبوحنيفة واسمه النعمان بن ثابت التيمي مولاهم الكوفي، فقيه العراق، وأحد أئمة الاسلام، والسادة الاعلام، وأحد أركان العلماء، وأحد الائمة الاربعة أصحاب المذاهب المتنوعة"۔                

   (البدایہ والنہایہ:۱/۱۰۷)

علامہ ذہبیؒ (۷۴۸ھ) آپ کے لیئے امام اعظم کا لقب اختیار کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:

".....کان اماماً ورعاً عالماً عاملاً متعبدا کبیرالشان"۔          

   (تذکرہ:۱/۱۵۸)

الامام اعظم، فقیہ العراق، حضرت امام متورع، عالم، عامل، متقی اور کبیرالشان تھے۔

امام مکی بن ابراہیمؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ اعلم اہل الارض تھے (مقدمہ اوجزالمسالک:۶۰) یعنی کرۂ ارضی کے اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم تھے، علم ان دنوں علمِ حدیث کوہی کہا جاتا تھا، علامہ ابنِ خلدونؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ علم حدیث کے بڑے مجتہدین میں سے تھے (مقدمہ ابنِ خلدون:۴۴۵) اور لکھتے ہیں کہ فقہ میں آپ کا مقام اتنا بلند تھا کہ کوئی دوسرا ان کی نظیر نہ تھا اور ان کے تمام ہمعصر علماء نے ان کی اس فضیلت کا اقرار کیا ہے خاص طور پر امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے(مقدمہ:۴۴۸) امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ) فرماتے ہیں کہ ہم خدائے قدوس کی تکذیب نہیں کرتے، ہم نے امام ابوحنیفہؒ سے بہتر رائے اور بات کسی سے نہیں دیکھی (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۴۹) آپ بھی حضرت امام کے قول پر فتویٰ دیتے تھے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

"کان یحییٰ القطان یفتی بقول ابی حنیفہ ایضا"۔       

   (تذکرہ:۱/۲۸۲)

یہ اِس درجہ کے امام تھے کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں: "مارأیت بعینی مثل یحییٰ بن سعید القطان"۔    

      (تذکرہ:۱/۲۷۵)

میں نے اپنی آنکھوں سے یحییٰ بن سعید کی مثال کسی کو نہ دیکھا۔

اِس درجے کے عظیم القدر محدث کا فقہی مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کی پیروی کرنا اور اُن کے قول پر فتوےٰ دینا اس با ت کا پتہ دیتا ہے کہ حضرت امامؒ حدیث وفقہ میں کتنا اونچا مقام رکھتے تھے، عبداللہ بن داؤدؒ کہتے ہیں:

"جب کوئی آثار یاحدیث کا قصد کرے تو (اس کے لیئے) سفیانؒ ہیں اور جب آثار یاحدیث کی باریکیوں کومعلوم کرنا چاہے توامام ابوحنیفہؒ ہیں"۔         

   (سیرالاحناف:۲۹)

امام مسعر بن کدامؒ (۱۵۵ھ) کی جلالتِ قدر سے کون واقف نہیں، شعبہ کہتے ہیں ہم نے اُن کا نام مصحف (قرآن) رکھا ہوا تھا، یحییٰ بن سعید القطانؒ کہتے ہیں میں نے حدیث میں ان سے زیادہ ثابت کسی کونہیں پایا، محمد بن بشرؒ کہتے ہیں میں نے اُن سے دس کم ایک ہزار احادیث لکھیں، یہ مسعربن کدامؒ حضرت امامؒ کے ہم سبق تھے، آپؒ کہتے ہیں:

"طلبت مع ابی حنیفۃ الحدیث فغلبنا واخذنا فی الزھد فبرع علینا وطلبنا معہ الفقہ فجاء منہ ماترون"۔

(مناقب ابی حنیفۃ للذھبی:۲۷)

ترجمہ: میں نے اور ابوحنیفہؒ نے اکٹھے حدیث پڑھنی شروع کی وہ ہم پر غالب رہے اورعلم حدیث میں ہم سب طلبہ سے بڑھ گئے، ہم زہد وسلوک میں پڑے تو اس میں بھی وہ کمال پر پہنچے اور ہم نے اُن کے ساتھ فقہ پڑھنا شروع کیا تواس میں بھی وہ اس مقام پر آپہنچے جو تم دیکھ رہے ہو۔

مسعر بن کدامؒ جیسے محدث کی یہ شہادت حضرت امام کے علم حدیث میں اسبق ہونے کی ایک کھلی دلیل ہے، کم از کم پانچ لاکھ احادیث بیک نظر آپ کے سامنے ہوتی تھیں، آپ نے اپنے بیٹے حماد کوجن پانچ حدیثوں پر عمل کرنے کی وصیت کی ان کے بارے میں فرمایا کہ میں نے یہ پانچ لاکھ احادیث سے انتخاب کی ہیں، وصیت ۱۹/کے تحت لکھتے ہیں:

"ان تعمل بخمسۃ احادیث جمعتھا من خمس مائۃ الف حدیث"۔

(وصیۃ الامام الاعظم لابن حماد:۶۵)

ترجمہ:ان پانچ احادیث کو خاص طور پر معمول بہ بنانا، میں نے انہیں پانچ لاکھ احادیث سے چنا ہے۔

(۱)"وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى"

اورہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہو۔

( بخاری، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب مَاجَاءَ إِنَّ الْأَعْمَالَ بِالنِّيَّةِ وَالْحِسْبَةِ وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَانَوَى،حدیث نمبر:۵۲، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۲)"مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ"

( ترمذی، كِتَاب الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب فِيمَنْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُضْحِكُ بِهَا النَّاسَ،حدیث نمبر:۲۲۳۹، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۳)"لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَايُحِبُّ لِنَفْسِهِ"

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنےبھائی کے لیےوہی پسند نہ کرے جواپنےنفس کو پسند ہے۔

(بخاری،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب مِنْ الْإِيمَانِ أَنْ يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَايُحِبُّ لِنَفْسِهِ،حدیث نمبر:۱۲، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۴)"إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ"

بے شک حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں۔

(مسندِاحمد،أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ،حَدِيثُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۱۷۶۴۹، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۵)"الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ"

مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

(مسلم،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب بَيَانِ تَفَاضُلِ الْإِسْلَامِ وَأَيُّ أُمُورِهِ أَفْضَلُ،حدیث نمبر:۵۸، شاملہ، موقع الإسلام۔)


حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا نظریہ حدیث


حضرت امام حدیثِ منقول پر عمل کرنے سے پہلے یہ دیکھتے تھے کہ کثیرتعداد متقی لوگ اس حدیث کواِس صحابیؓ سے روایت کرتے ہوں، یہ روایت کرنا لفظاً ضروری نہیں، خبرِواحد اپنی جگہ معتبر ہے؛ لیکن اُن کے ہاں اس کا عمل میں آیا ہوا ہونا ضروری تھا، جوحدیث معمول بہ نہ رہی ہو؛ اِس سے ان کے ہاں سنت ثابت نہیں ہوتی، سنت کے ثابت ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ اس پر عمل بھی ہوتا آیا ہو، امام مالکؒ کانظریۂ حدیث بھی تقریباً یہی تھا، وہ حدیث کی بجائے سنت پر زیادہ زور دیتے تھے؛ مؤطا میں بار بار سنت کا لفظ لاتے ہیں اور اس سے صحابہؓ وتابعینؒ کا تواتر عمل مراد ہوتا ہے جب فتنے پھیلے اور جھوٹ کا بازار گرم ہوا تومحدثین روایت اور اسناد کے گرد پہرہ دینے لگے، اِن بدلے ہوئے حالات میں حدیث سے تمسک بذریعہ اسناد ہونے لگا اور تواتر عمل کی اس طرح تلاش نہ رہی جس طرح پہلے دور میں ہوتی تھی، اس نئے دور کے مجدد حضرت امام شافعیؒ ہیں؛ لیکن اس میں شک نہیں کہ پہلے دور میں حدیث کی بجائے سنت کوزیادہ اہمیت دی جاتی تھی، حافظ شمس الدین الذہبیؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کانظریۂ حدیث اُن کے اپنے الفاظ میں اس طرح نقل کرتے ہیں:

"آخذ بکتاب اللہ فمالم اجد فبسنۃ رسول اللہ والاثار الصحاح عنہ التی فشت فی ایدی الثقات عن الثقات فان لم اجد فبقول اصحابہ اٰخذ بقول من شئت...... وامااذا انتہی الامرالی ابراہیم والشعبی والحسن والعطاء فاجتہد کمااجتہدوا"۔  

(مناقب ابی حنیفۃ للذہبی:۲۰)

ترجمہ: میں فیصلہ کتاب اللہ سے لیتا ہوں جواس میں نہ ملے اسے حضور   کی سنت اور ان صحیح آثار سے لیتا ہوں جوحضور سے ثقہ لوگوں کے ہاں ثقات کی روایت سے پھیل چکے ہوں، ان میں بھی نہ ملے تومیں صحابہ کرامؓ سے لیتا ہوں اور جس کا فیصلہ مجھے اچھا (قوی) لگے لے لیتا ہوں..... اور جب معاملہ ابراہیم نخعیؒ، علامہ شعبیؒ، حضرت حسن بصریؒ اور عطاء بن ابی رباحؒ تک پہنچے تومیں بھی اس طرح اجتہاد کرتا ہوں جس طرح ان پہلوؤں نے اجتہاد کیا تھا۔

حضرت امام یہاں آثارِ صحیحہ کے عملاً پھیلے ہوئے ہونے پر زور دے رہے ہیں اور یہی اُن کا نظریہ حدیث تھا، حضرت علامہ عبدالوہاب الشعرانیؒ (۹۷۳ھ) لکھتے ہیں:

"وقد کان الامام ابوحنیفۃ یشترط فی الحدیث المنقول عن رسول اللہ قبل العمل بہ ان یرویہ عن ذٰلک الصحابی جمع اتقیاء عن مثلہم"۔        

(المیزان الکبریٰ للشعرانی:۱/۶۲)

ترجمہ: امام ابوحنیفہؒ حضور   سےنقل شدہ حدیث کومعمول بہ ٹھہرانے سے پہلے یہ ضروری ٹھہرائے تھے کہ اسے اس صحابیؓ سے ان جیسے نیک لوگوں کی ایک جماعت نے روایت کیا ہو۔

 محقق ابن الہمامؒ (۸۶۱ھ) کی حضرت امام کے اس اصل پر گہری نظر تھی، آپؒ تصریح کرتے ہیں کہ جب کوئی صحابیؓ اپنی روایت کردہ حدیث پر عمل نہ کرے اس کے خلاف فتوےٰ دے تو وہ روایت ازخود حجت نہ رہے گی؛ کیونکہ اس کے ساتھ تواترِ عمل ثابت نہیں ہوسکا، حضرت امام کا یہ نظریہ بیشک نہایت سخت ہے، روایت کے ساتھ راوی کا عمل ساتھ ساتھ چلے، ایسے راوی توصحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی بہت کم ملیں گے، حضرت امامؒ تواتر عمل کے اس حد تک قائل تھے کہ وہ اس کی تائید میں ان روایات وآثار سے مدد لیتے تھے، جواپنی جگہ مرسل ہوں؛ مگرعملاً اتصال رکھتے ہوں، آپؒ کی املاء کردہ کتاب الآثار اور امام مالکؒ کے مؤطا میں آپؒ اسی نظریہ کوجگہ جگہ کارفرما پائیں گے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:

"أنہ کان یذھب فی ذلک الی عرضھا علٰی مااجتمع علیہ من الاحادیث ومعانی القرآن فماشذ من ذلک ردہ وسماہ شاذاً"۔                

   (الموافقات للشاطبی:۳/۲۶)

ترجمہ:امام صاحبؒ ایسے موقع پر اس روایت کواس موضوع کی دوسری احادیث اور قرآنی مطالب سے ملاکر دیکھتے جوروایت اس مجموعی موقف سے علیٰحدہ رہتی آپؒ اسے (عمل میں) قبول نہ کرتے اور اس کا نام شاذIsolated رکھتے۔

حضرت امام کے نظریہ حدیث میں یہ اصول بھی کار فرما ہے کہ آثارِ صحابہ اور ضعیف حدیث کوبھی نظرانداز نہ کیا جائے، اُن کے ہاں آثارِ صحابہ اور ضعیف حدیث کے ہوتے ہوئے اجتہاد اور قیاس سے کام نہ لینا چاہئے، اپنی رائے پر ضعیف حدیث اور آثارِ صحابہ کوترجیح دینی چاہیے، یہ صرف حضرت امام کی ہی رائے نہ تھی، کل فقہاء عراق اسی نظریہ کے تھے، علامہ ابنِ حزمؒ نے اس پر فقہاء عراق کا اجماع نقل کیا ہے؛ ضعیف حدیث سے یہاں وہ روایت مراد نہیں، جس کا ضعف انتہائی شدید قسم کا ہویا وہ موضوع ہونے کے بالکل قریب جاچکی ہو، متکلمین کا جوطبقہ مسائل ذات وصفات میں تاویل کی راہ چلا حضرت امام اس مسلک کے نہ تھے، اس باب میں آپ محدثین کی روش پرتھے اور آیات صفات پر بلاتاویل ایمان رکھتے تھے، حافظ ابنِ کثیرؒ (۷۷۴ھ) آپ کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:

"هوالامام أبوحنيفة واسمه النعمان بن ثابت التيمي مولاهم الكوفي، فقيه العراق، وأحد أئمة الاسلام، والسادة الاعلام، وأحد أركان العلماء، وأحد الائمة الاربعة أصحاب المذاهب المتنوعة"۔                

   (البدایہ والنہایہ:۱/۱۰۷)

علامہ ذہبیؒ (۷۴۸ھ) آپ کے لیئے امام اعظم کا لقب اختیار کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:

".....کان اماماً ورعاً عالماً عاملاً متعبدا کبیرالشان"۔          

   (تذکرہ:۱/۱۵۸)

الامام اعظم، فقیہ العراق، حضرت امام متورع، عالم، عامل، متقی اور کبیرالشان تھے۔

امام مکی بن ابراہیمؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ اعلم اہل الارض تھے (مقدمہ اوجزالمسالک:۶۰) یعنی کرۂ ارضی کے اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم تھے، علم ان دنوں علمِ حدیث کوہی کہا جاتا تھا، علامہ ابنِ خلدونؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ علم حدیث کے بڑے مجتہدین میں سے تھے (مقدمہ ابنِ خلدون:۴۴۵) اور لکھتے ہیں کہ فقہ میں آپ کا مقام اتنا بلند تھا کہ کوئی دوسرا ان کی نظیر نہ تھا اور ان کے تمام ہمعصر علماء نے ان کی اس فضیلت کا اقرار کیا ہے خاص طور پر امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے(مقدمہ:۴۴۸) امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ) فرماتے ہیں کہ ہم خدائے قدوس کی تکذیب نہیں کرتے، ہم نے امام ابوحنیفہؒ سے بہتر رائے اور بات کسی سے نہیں دیکھی (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۴۹) آپ بھی حضرت امام کے قول پر فتویٰ دیتے تھے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

"کان یحییٰ القطان یفتی بقول ابی حنیفہ ایضا"۔       

   (تذکرہ:۱/۲۸۲)

یہ اِس درجہ کے امام تھے کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں: "مارأیت بعینی مثل یحییٰ بن سعید القطان"۔    

      (تذکرہ:۱/۲۷۵)

میں نے اپنی آنکھوں سے یحییٰ بن سعید کی مثال کسی کو نہ دیکھا۔

اِس درجے کے عظیم القدر محدث کا فقہی مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کی پیروی کرنا اور اُن کے قول پر فتوےٰ دینا اس با ت کا پتہ دیتا ہے کہ حضرت امامؒ حدیث وفقہ میں کتنا اونچا مقام رکھتے تھے، عبداللہ بن داؤدؒ کہتے ہیں:

"جب کوئی آثار یاحدیث کا قصد کرے تو (اس کے لیئے) سفیانؒ ہیں اور جب آثار یاحدیث کی باریکیوں کومعلوم کرنا چاہے توامام ابوحنیفہؒ ہیں"۔         

   (سیرالاحناف:۲۹)

امام مسعر بن کدامؒ (۱۵۵ھ) کی جلالتِ قدر سے کون واقف نہیں، شعبہ کہتے ہیں ہم نے اُن کا نام مصحف (قرآن) رکھا ہوا تھا، یحییٰ بن سعید القطانؒ کہتے ہیں میں نے حدیث میں ان سے زیادہ ثابت کسی کونہیں پایا، محمد بن بشرؒ کہتے ہیں میں نے اُن سے دس کم ایک ہزار احادیث لکھیں، یہ مسعربن کدامؒ حضرت امامؒ کے ہم سبق تھے، آپؒ کہتے ہیں:

"طلبت مع ابی حنیفۃ الحدیث فغلبنا واخذنا فی الزھد فبرع علینا وطلبنا معہ الفقہ فجاء منہ ماترون"۔

(مناقب ابی حنیفۃ للذھبی:۲۷)

ترجمہ: میں نے اور ابوحنیفہؒ نے اکٹھے حدیث پڑھنی شروع کی وہ ہم پر غالب رہے اورعلم حدیث میں ہم سب طلبہ سے بڑھ گئے، ہم زہد وسلوک میں پڑے تو اس میں بھی وہ کمال پر پہنچے اور ہم نے اُن کے ساتھ فقہ پڑھنا شروع کیا تواس میں بھی وہ اس مقام پر آپہنچے جو تم دیکھ رہے ہو۔

مسعر بن کدامؒ جیسے محدث کی یہ شہادت حضرت امام کے علم حدیث میں اسبق ہونے کی ایک کھلی دلیل ہے، کم از کم پانچ لاکھ احادیث بیک نظر آپ کے سامنے ہوتی تھیں، آپ نے اپنے بیٹے حماد کوجن پانچ حدیثوں پر عمل کرنے کی وصیت کی ان کے بارے میں فرمایا کہ میں نے یہ پانچ لاکھ احادیث سے انتخاب کی ہیں، وصیت ۱۹/کے تحت لکھتے ہیں:

"ان تعمل بخمسۃ احادیث جمعتھا من خمس مائۃ الف حدیث"۔

(وصیۃ الامام الاعظم لابن حماد:۶۵)

ترجمہ:ان پانچ احادیث کو خاص طور پر معمول بہ بنانا، میں نے انہیں پانچ لاکھ احادیث سے چنا ہے۔

(۱)"وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى"

اورہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہو۔

( بخاری، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب مَاجَاءَ إِنَّ الْأَعْمَالَ بِالنِّيَّةِ وَالْحِسْبَةِ وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَانَوَى،حدیث نمبر:۵۲، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۲)"مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ"

( ترمذی، كِتَاب الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب فِيمَنْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُضْحِكُ بِهَا النَّاسَ،حدیث نمبر:۲۲۳۹، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۳)"لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَايُحِبُّ لِنَفْسِهِ"

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنےبھائی کے لیےوہی پسند نہ کرے جواپنےنفس کو پسند ہے۔

(بخاری،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب مِنْ الْإِيمَانِ أَنْ يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَايُحِبُّ لِنَفْسِهِ،حدیث نمبر:۱۲، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۴)"إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ"

بے شک حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں۔

(مسندِاحمد،أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ،حَدِيثُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۱۷۶۴۹، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۵)"الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ"

مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

(مسلم،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب بَيَانِ تَفَاضُلِ الْإِسْلَامِ وَأَيُّ أُمُورِهِ أَفْضَلُ،حدیث نمبر:۵۸، شاملہ، موقع الإسلام۔)


حضرت امام اعظم ؒ کی تابعیت


حضورِاکرم   کی وفات کے وقت جوعمرحضرت عبداللہ بن عباسؓ کی تھی حضرت امامؒ تقریباً اسی عمر کے تھے کہ حضور   کے کئی صحابہؓ موجود تھے، حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ (۸۷ھ)، سہل بن سعد ساعدیؓ (۹۱ھ)، حضرت انس بن مالکؓ (۹۳ھ)، حضرت عبداللہ بن بسرؓ المازنی (۹۶ھ)، حضرت عامر بن واثلہ الاسقعؓ (۱۰۲ھ) اِس وقت زندہ تھے، حضرت عامرؓ کی وفات کے وقت حضرت امامؒ کی عمر ۲۲/سال کی تھی اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ تورہتے ہی کوفہ میں تھے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

"مولدہ سنۃ ثمانین رای انس بن مالکؓ غیرمرۃ لماقدم علیہم الکوفۃ"۔

(تذکرہ:۱/۱۵۸)

ترجمہ:حضرت امامؒ کی پیدائش سنہ۸۰ھ میں ہوئی، آپؒ نے حضرت انس بن مالکؓ (۹۳ھ) کوجب وہ کوفہ گئے توکئی دفعہ دیکھا۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضورؐ سے گیارہ برس کی عمر میں روایت لے سکتے ہیں توحضرت امامؒ، حضرت انسؓ سے حدیث کیوں نہ سن سکتے تھے، یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی کہ آپؒ نے حضرت انسؓ کی بارہا زیارت کی ہو اور اُن سے احادیث نہ سنی ہوں، نہ حضرت انسؓ کے بارے میں تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی مجالس میں احادیث نہ پڑھتے ہوں، یہ علیٰحدہ بات ہے کہ امام نے انہیں روایت نہ کیا ہو۔

اہلِ کوفہ کی ایک منفرد عادت


اہلِ کوفہ حدیث کے بارے میں کچھ زیادہ ہی محتاط ہوئے ہیں، خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں:

"ان اھل الکوفۃ لم یکن الواحد منہم یسمع الحدیث الابعد استکمالہ عشرین سنۃ"۔

(الکفایہ:۵۴)

اہلِ کوفہ میں سے کوئی بیس سال کی عمر سے پہلے حدیث کا باقاعدہ سماع نہ کرتا تھا۔

اِس صورتِ حال میں بہت ممکن ہے کہ آپؒ نے اُن سے احادیث سنی توہوں لیکن بیس سال سے کم ہونے کے باعث اُنہیں آگے عام روایت نہ کیا ہو، دارِقطنی کا یہ کہنا کہ آپؒ نے حضرت انس بن مالکؓ کودیکھا توضرور ہے؛ لیکن اُن سے احادیث نہیں سنیں، اِس معنی پر محمول ہوگا کہ بیس سال سے کم عمر کے سماع کواہلِ کوفہ سماع شمار نہ کرتے تھے اور جہاں کہیں حضرت امامؒ نے ان سے روایت کردی وہ محض تبرک کے طور پر ہوگی اور عام عادت سے ایک استثناء ہوگا، حافظ بدرالدین عینیؒ اور ملا علی قاریؒ نے حضرت امام رحمہ اللہ کا صحابہؓ سے روایت لینا تسلیم کیا ہے، یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں کہ حضرت امامؒ نے حضرت عائشہ بنتِ عجردؓ سے بھی حدیث سنی ہے اور وہ براہِ راست حضور   سے اپنا سماع پیش کرتی ہیں، حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"ان اباحنیفۃ صاحب الرأی سمع عائشہ بنت عجرد وتقول سمعت رسول اللہ  "۔

(لسان المیزان،حرف العين المهملة،من اسمه عباد وعبادة:۲/۱۲، شاملہ، موقع الوراق)

الحاصل حضرت امامؒ تابعین میں سے تھے اور یہ وہ فضیلت ہے جوائمۂ اربعہؒ میں سے اور کسی کوحاصل نہیں ہے، ملاعلی قاری نے "مسندالانام" میں حضرت امام کی عائشہ بنتِ عجرد سے روایت نقل کی ہے۔

حضرت امام اعظم رحمہ اللہ کی ثقاہت


حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"وقال محمد بن سعد العوفي سمعت ابن معين يقول كان أبوحنيفة ثقة لايحدث بالحديث إلابما يحفظه ولايحدث بمالايحفظ"۔

(تہذیب التہذیب،الجزء العاشر،حرف النون:۱۰/۴۰۱،شاملہ،موقع یعسوب)

ترجمہ:محمدبن سعدؒ عوفی نے یحییٰ بن معینؒ سے سنا وہ کہتے تھے ابوحنیفہؒ ثقہ ہیں، وہی حدیث روایت فرماتے جوآپؒ کویاد ہوتی اور جویاد نہ رہتی اُسے بیان نہ کرتے تھے۔

جن لوگوں نے حضرت امام کی اس ثقاہت کومجروح کرنے کی کوشش کی ہے اُن کے پاس سوائے تعصب اور دشمنی کے اور کوئی وجہ جرح نہیں ملتی..... یہ یحییٰ بن معین کون ہیں اور کس درجے کے ہیں؟ حضرت امام احمدؒ فرماتے ہیں، علم رجال میں یہ ہم میں سے سب سے آگے ہیں، اب ان کی توثیق کے مقابلے میں کس کی بات سنی جاسکتی ہے، آپؒ سے اگرروایات کم ہیں تو اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ آپؒ کی شروط روایت بہت سخت تھیں۔
خطیب بغدادی یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حدیث نقل کرنے کے لیئے یہ شرط تھی کہ وہ سننے کے بعد سے اسے برابر یاد رہنی چاہئے؛ اگریاد نہ رہے تواس کو روایت کرنا آپ کے نزدیک درست نہ تھا۔

حضرت امام کے اقران


جولوگ حضرت امام کواپنے وقت کے دیگر اہلِ علم سے جدا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ حضرت امام قرون وسطیٰ تک صحابہ وتابعین کے علم کے اِسی طرح وارث شمار ہوتے رہےہیں جس طرح حضرت سفیان الثوری، امام اوزاعی اور امام مالکؒ وغیرہم من جبال اہلِ العلم اور آپ کا علم اِسی درجہ میں سند سمجھا جاتا رہا ہے، جس طرح اِن حضرات کا..... حافظ شمس الدین الذہبیؒ (۷۴۸ھ) ایک جگہ علم منطق جدل اور حکمت یونان پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"لم تكن والله من علم الصحابة ولاالتابعين ولامن علم الأوزاعي والثوري ومالك وأبي حنيفة وابن أبي ذئب وشعبة ولاوالله عرفها ابن المبارك ولاأبويوسف القائل من طلب الدين بالكلام تزندق ولاوكيع ولابن مهدي ولابن وهب ولاالشافعي"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۲)

ترجمہ:یہ علم بخدا صحابہ اور تابعین کے علوم میں سے نہیں نہ یہ اوزاعی، سفیان ثوری، امام مالکؒ، امام اابوحنیفہؒ، ابنِ ابی ذئب اور امام شعبہ کے علوم میں سے ہیں، بخدا انہیں نہ عبداللہ بن مبارک نے جانا نہ امام ابویوسفؒ نے نہ امام وکیعؒ نے نہ عبدالرحمن بن المہدیؒ نے نہ ابنِ وہب نے اور نہ امام شافعیؒ نے۔

کچھ انصاف کیجئے اور دیکھئے کہ اُمتِ اسلامیہ نے جن جبالِ علم کوجنم دیا اور جن کے علم وفن پر یہ امت اب تک نازاں ہے، کیا ان میں بلاکسی استثناء امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے؟ ان حضرات نے اگرحدیث کم روایت کی ہے تواس کی وجہ یہ تھی صالحین اوّلین کا ایک طبقہ یہ مسلک رکھتا تھا کہ زیادہ حدیث روایت نہ کی جائے، علامہ شعبیؒ فرماتے ہیں:

"کرہ الصالحون الاولون الاکثار من الحدیث"۔          

  (تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۷)

علامہ ذہبیؒ نے مذکورہ بالا عبارت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کوکن ائمہ علم کے ساتھ برابر کا شریک کیا ہے، سفیان الثوریؒ، امام مالکؒ اور اوزاعیؒ کے ساتھ اور یہ وہ حضرات ہیں کہ اگر کسی بات پر متفق ہوجائیں تواس کا سنت ہونا ازخود ثابت ہوجاتا ہے؛ گواُس کی سنیت پر کوئی نص موجود نہ ہو، اسحاق بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"إذااجتمع الثوري ومالك والأوزاعي على أمرفهو سنة وان لم يكن فيه نص"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۱۹۵)

اب آپ ہی اندازہ کریں کہ حضرت امامؒ کس درجہ کے ائمہ علم کے ساتھ برابر کی نسبت رکھتے تھے اور یہ کہ آپ کے اقران میں کون کون سے جبالِ علم تھے۔

محدثین میں اہلُ الرّائے


ائمہ حدیث میں اہلُ الرائے صرف وہی حضرات ہوئے جومجتہد کے درجہ تک پہنچے تھے، نص صریح نہ ہونے کی صورت میں کسی مسئلہ میں رائے دینا کوئی معمولی کام نہ تھا، ابن قتیبہؒ نے معارف میں اصحاب الرائے کا عنوان قائم کرکے اِن میں سفیان الثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ کو بھی ذکر کیا ہے؛ سواگرکسی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اہلُ الرائے میں لکھ دیا تویہ ان کے مجہتدانہ مقام کا ایک علمی اعتراف ہے، محدث ہونے کا انکار نہیں؛ پھرصرف حنفیہ میں ہی اہل الرائے نہیں، حافظ محمد بن الحارث الخشنی نے قضاۃ قرطبہ میں مالکیہ کوبھی اصحاب الرائے میں ذکر کیا ہے، علامہ سلیمان بن عبدالقوی الطوقی الحنبلی نے اصولِ حنابلہ پر مختصر الروضہ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، اِس میں ہے:

"اعلم ان اصحاب الرای بحسب الاضافۃ ہم کل من تصرف فی الاحکام بالرای فیتناول جمیع علماء الاسلام لان کل واحد من المجتہدین لایستغنی فی اجتہادہ عن نظر ورای ولوبتحقیق المناط وتنقیحہ الذی لانزاع فیہ"۔

ترجمہ:جان لوکہ اصحاب الرائے باعتبار اضافت تمام وہ علماء ہیں جو احکام میں فکر کوراہ دیتے ہیں؛ سویہ لفظ تمام علماءِ اسلام کوشامل ہوگا؛ کیونکہ مجتہدین میں سے کوئی بھی اپنے اجتہاد میں نظرورای سے مستغنی نہیں؛ گووہ تحقیقِ مناط سے ہو اور اس تنقیح سے ہو جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

تدوین فقہ کے کام کوسرانجام دینے کے باعث حضرت امام نے حدیث کا کوئی مجموعہ مرتب نہیں کیا؛ لیکن فقہی مباحث کے ضمن میں بہت سی احادیث آپ نے اپنے تلامذہ کے سامنے روایت کیں، آپ کی جوروایات آپ سے آگے آپ کے تلامذہ میں چلتی رہیں انہیں حصفکیؒنے جمع کیا ہے؛ پھرابوالموید محمدبن محمود الخوارزمی نے تمام مسانید کو سنہ ۶۶۵ھ میں یکجا جمع کیا؛ اِسی مجموعہ کو "مسندِامام اعظمؒ" کہا جاتا ہے، اِس کے لائق اعتماد ہونے کے لیئے موسیٰ بن زکریا الحصفکی کی ثقہ شخصیت کے علاوہ یہ بات بھی لائقِ غور ہے کہ عمدۃ المحدثین ملاعلی قاریؒ جیسے اکابر نے اس مسندِامام کی شرح لکھی ہے، جو"سندالانام" کے نام سے معروف ہے اور علماء میں بے حد مقبول ہے، امام وکیع بن الجراح کی علمی منزلت اور فن حدیث میں مرکزی حیثیت اہلِ علم سے مخفی نہیں ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم آپ کی مرویات سے بھری پڑی ہیں، علمِ حدیث کے ایسے بالغ نظر علماء کا امام ابوحنیفہؒ سے حدیث سننا اور پھراِن کے اس قدر گرویدہ ہوجانا کہ انہی کے قول پر فتوےٰ دینا حضرت امام کی علمی منزلت کی ناقابلِ انکار تاریخی شہادت ہے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں:

"وکان (وکیع) یفتی برأی أبی حنیفۃ وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ حدیثاً کثیراً"۔                         

  (کتاب الانتقاء:۲/۱۵۰۔ جامع بیان العلم:۲/۱۴۹)

ترجمہ:حضرت وکیع حضرت امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مطابق فتوےٰ دیتے تھے اور آپ کی روایت کردہ تمام احادیث یاد رکھتے تھے اور انہوں نے آپ سے بہت سی احادیث سنی تھیں۔

حافظ شمس الدین الذہبیؒ (۷۴۸ھ) بھی وکیع کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

"وقال يحيى: مارأيت افضل منه يقوم الليل ويسرد الصوم ويفتى بقول ابي حنيفة"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۲۸۲)

وکیع جیسے حافظ الحدیث اور عظیم محدث کا آپ کی تقلید کرنا اور فقہ حنفی پر فتوےٰ دینا حضرت امام کے مقام حدیث کی ایک کھلی شہادت ہے؛ پھرچند نہیں آپ نے ان سے کثیراحادیث سنیں، علم حدیث اور علم فقہ کے علاوہ آپ کی کلام پر بھی گہری نظر تھی، عراق کے کوفی اور بصری اعتقادی فتنوں نے حضرت امام کواس طرف بھی متوجہ کردیا تھا، آپ نے محدثین کے مسلک پررہتے ہوئے ان الحادی تحریکات کا خوب مقابلہ کیا، خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:

"علمِ عقائد اور علمِ کلام میں لوگ ابوحنیفہؒ کے عیال اور خوشہ چیں ہیں"۔   

(بغدادی:۱۳/۱۶۱)

علامہ ابنِ خلدونؒ لکھتے ہیں:

"والامام أبوحنيفة إنماقلت روايته لماشدد في شروط الرواية والتحمل"۔

(مقدمہ تاریخ ابنِ خلدون:۱/۴۴۵،شاملہ، موقعِ یعسوب)

ترجمہ:اور امام ابوحنیفہؒ کی روایت قلیل اس لیئے ہیں کہ آپ نے روایت اور تحملِ روایت کی شرطوں میں سختی کی ہے۔

بایں ہمہ آپ کثیرالروایۃ تھے، وکیع نے آپ سے کثیراحادیث سنی ہیں۔


(۲)حضرت امام مالکؒ (۱۷۹ھ)


حضرت امام مالکؒ امام دارالھجرۃ کے نام سے معروف ہیں، حدیث کی خدمت میں آپؒ نے حدیث کی مشہور کتاب مؤطا تالیف کی، اس کتاب کومرتب کرنے کے بعد سترعلماء کے سامنے پیش کیا گیا توسب نے مؤاطات (موافقت) ظاہر کی؛ اِسی لیے اس کا نام مؤطا رکھا گیا، حضرت شاہ ولی اللہؒ کے قول کے مطابق مؤطا میں سترہ سو کے قریب روایات ہیں، جن میں سے ۶۰۰/ مسند اور ۳۰۰/مرسل ہیں، بقایا فتاویٰ صحابہؓ اور اقوالِ تابعین ہیں، حضرت امام مالکؒ سے مؤطا پڑھنے والے حضرات میں امام شافعیؒ، یحییٰ اندلسیؒ اور امام محمدؒ کے اسماء سرفہرست ہیں، امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ المؤطا" (موطا مالک، روایت محمدبن الحسن:۱/۳۰، شاملہ،ناشر:دارالقلم، دمشق) مگر یہ بات اس وقت کی ہے جب صحیح بخاری اور صحیح مسلم تالیف نہ ہوئی تھیں۔
محدث نے الفاظِ حدیث کی خدمت کی تواس کا نام حافظِ حدیث ہوا اور مجتہد نے معانی حدیث کی خدمت کی تواس کا لقب عالمِ حدیث اور فقیہ ہوا، امام مالکؒ میں اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں خصوصیات ودیعت فرمائی تھیں کہ احادیث کا ذخیرہ بھی جمع کیا اور فقہ کے بھی امام ٹھہرے:

"اخرج إِبْنِ ابِیْ حَاتِم عَنْ طریق مَالِکْ بِنْ أَنَس عَنْ رَبِیْعَۃَ قَالَ ان اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالَیٰ أَنْزَلَ إِلَیْکم الْکِتَابَ مُفَصِّلاً وَتَرَکَ فِيهِ مَوْضِعًا لِلسُّنَّةِ، وَسَنَّ رَّسُولُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرَكَ فِيهَا مَوْضِعًا لِلرَّأْيِ"۔

(الدرالمنثور فی التأویل بالماثور، جلال الدین السیوطی:۴/۱۲۰، شاملہ،موقع التفاسیر)

ترجمہ:امام مالکؒ امام ربیعہؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ربیعہؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مفصل کتاب نازل فرمائی اور اس میں حدیث کے لیئے جگہ چھوڑی اور آنحضرت   نے بہت سی باتیں حدیث میں بیان فرمائیں اور قیاس کے لیئے جگہ رکھی۔

الفاظ مقصود بالذات نہیں، مقصود اطاعت اور اتباع شریعت ہے اور یہ مقصد معانی کے سمجھنے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے، مقصود بالذات معنی ہیں، الفاظ نہیں الفاظ مقصود بالعرض ہیں، امام مالکؒ تبع تابعینؒ کے طبقہ میں تھے، آپؒ کے شیوخ واساتذہ کی تعداد نوسو تھی، جن میں تین سو تابعینؒ اور چھ سو تبع تابعینؒ تھے (تہذیب الاسماء للنووی:) امام شافعیؒ کا فرمان ہے کہ آپؒ کواگرحدیث کے ایک ٹکڑے پر بھی شک پڑجاتا توپوری کی پوری ترک کردیتے تھے، محدثینؒ کے نزدیک اصح الاسانید میں بحث ہے، مشہور ہے کہ جس کے راوی مالکؒ نافعؒ سے اور نافعؒ ابن عمرؓ سے ہوں وہ اسناد سب سے صحیح ہے (ترجمان السنہ:۱/۲۴۲) لیثؒ، ابنِ مبارکؒ، امام شافعیؒ اور امام محمدؒ جیسے مشاہیر امت آپؒ کے تلامذہ میں سے ہیں اور ابنِ وہبؒ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں ایک منادی سے سنی کہ مدینہ میں ایک مالک بن انس اور ابن ابی ذئبؒ کے سوا کوئی فتوےٰ نہ دیا کرے (مشاہیرِامت:۲۹، از قاری محمدطیبؒ) امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام اسحاق بن ابراہیمؒ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ اگر امام مالکؒ امام اوزاعیؒ اور امام ثوریؒ کسی مسئلہ پر متفق ہوجائیں تووہی مسئلہ حق اور سنت ہوگا؛ اگرچہ اس میں نص نہ موجود ہو (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۵) ابن سعدؒ فرماتے ہیں کہ امام مالکؒ ثقہ، مامون، ثبت، متورع، فقیہ، عالم اور حجت ہیں (تہذیب التہذیب:۱۰/۸) علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ امام مالکؒ الامام الحافظ فقیہ الامت شیخ الاسلام اور امام دارالھجرت تھے (تذکرہ:۱/۱۹۳) آپؒ کا مسلک زیادہ تراُندلس ومغرب پہنچا (بستان المحدیثن:۲۶) افریقی ممالک خصوصاً مغربی افریقہ میں زیادہ تراُنہی کے مقلد ہیں، اس جلالت علم کے باوجود وہ امام ابوحنیفہؒ کے معتقد تھے "نظرمالک فی کتب ابی حنیفۃ وانتفعہ بھا کمارواہ الدراوردی وغیرہ" (الانتقاء:۱۴) سو یہ حقیقت ہے کہ امام مالکؒ کا امام ابوحنیفہؒ کی کتابوں کو دیکھنا اور ان سے نفع حاصل کرنا ثابت ہے۔


(۳)حضرت امام شافعیؒ (۲۰۴ھ)



امام محمدبن ادریس الشافعیؒ کی پرورش انتہائی نامساعد حالات اور تنگدستی میں ہوئی، بسااوقات آپؒ کوعلمی یادداشتوں کوتحریر کرنے کے لیئے کاغذ بھی میسر نہ آتا تھا، آپؒ جانوروں کی ہڈیوں پر بھی لکھ لیتے تھے، تیرہ سال کی عمر میں امام مالکؒ کی خدمت میں پہنچے، مؤطا حفظ کرچکے تھے، دوسرے سال عراق چلے گئے، آپؒ کوپندرہ سال کی عمر میں آپؒ کے شیخ مسلم بن خالدؒ نے فتوےٰ نویسی کی اجازت دے دی تھی، علم حدیث وفقہ اور تفسیر وادب میں کمال حاصل کیا، امام نوویؒ نے شرح مہذب میں لکھا ہے کہ امام عبدالرحمن بن مہدیؒ کے فرمانے پر آپؒ نے اصولِ فقہ پر "الرسالہ" تحریر کیا، آپؒ کواصولِ فقہ کاموسس کہا جاتا ہے، فقہ میں آپؒ صرف صحیح احادیث کو لیتے اور ضعیف کو ترک کردیتے، آپؒ کی تصنیف کتاب الاُم اور الرسالہ آج بھی دستیاب ہیں۔

"وقال الزعفرانی کان اصحاب الحدیث رقودًا حتی ایقظھم الشافعی وقال ربیع بن سلیمان کان اصحاب الحدیث لایعرفون تفسیر الحدیث حتی جاء الشافعی"۔

(توالی التاسیس للحافظ ابنِ حجر :۵۹)

ترجمہ:زعفرانی کہتے ہیں کہ اصحابِ حدیث محوِخواب تھے، امام شافعیؒ نے آکرانہیں بیدار کیا (یعنی معانی اور فقہ کی طرف متوجہ کیا) ربیع بن سلیمانؒ کہتے ہیں کہ اصحابِ حدیث تفسیر اور شرح سے واقف نہ تھے امام شافعیؒ نے آکر حدیث کے معانی سمجھائے۔

علامہ ذہبی آپ کی تعریف یوں کرتے ہیں:

"الامام العالم، حبرالامۃ وناصرالسنۃ"۔          

  (تذکرہ:۱/۳۲۹)

ترجمہ:اونچے درجہ کے امام، امت کے عالم اور سنت کے مددگار تھے۔

امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں اگرامام شافعیؒ نہ ہوتے تو میں حدیث کے ناسخ ومنسوخ کوہرگز نہ پہنچتا ان کی مجلس میں بیٹھنے سے مجھ کویہ سب کچھ حاصل ہوا (مشاہیرامت، ازقاری محمدطیب صاحب:۲۸) علماء کا آپ کی ثقاہت وعبادت اور نزاہت وامانت اور زہد وورع پر اتفاق ہے، حافظ ابنِ حجرؒ نے لکھا ہے کہ امام شافعیؒ جب بغداد تشریف لائے توامام احمد بن حنبلؒ نے اس حلقۂ درس کوچھوڑ دیا جس میں یحییٰ بن معینؒ اور اُن کے معاصرین شریک ہوتے تھے اور امام شافعیؒ کی صحبت اختیار کی؛ حتی کہ اگر امام شافعیؒ کہیں جاتے توامام احمدؒ اُن کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتے، یحییٰ بن معینؒ کویہ ناگوار گزرا اور کہلا بھیجا کہ یہ طریقہ ترک کردیں، امام احمد بن حنبلؒ نے کہلا بھیجا کہ اگر فقہ (مفہومِ حدیث) سمجھنا چاہتے ہوتو امام شافعیؒ کی سواری کی دُم پکڑ کرچلو، آپؒ کے خادم بنو (توالی التاسیس،ابنِ حجر:۵۷) آپؒ فقہ وحدیث کے امام اور جلیل القدر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ سخی بھی تھے، بقول حمیدی آپ ایک مرتبہ صنعاء سے تشریف لائے، خیمہ مکہ سے باہر لگا ہوا تھا اور آپؒ کے پاس دس ہزار دینار تھے، لوگ آپ کی ملاقات کے لیئے آتے تھے توآپ اُن میں تقسیم فرماتے؛ یہاں تک کہ دس ہزار دینار اسی جگہ تقسیم کردیئے۔

(ترجمان السنۃ:۱/۲۴۶)

شروع شروع میں تحقیقِ اسناد پر آپؒ کی توجہ زیادہ تھی، ان کے ہاں حدیث کی قبولیت کا معیار اس کی صحت سند تھا، استفاضہ عمل کوکچھ نہ سمجھتے تھے؛ لیکن آخری دور میں آپؒ بھی اِس طرف پلٹے، جوامام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کا نظریہ تھا کہ تواتر عمل کے ہوتے ہوئے اسناد کی ضرورت نہیں رہتی، بیس رکعت تراویح کے ثبوت میں اُن کے پاس کوئی صحیح حدیث نہ تھی، آپؒ نے یہاں اہلِ مکہ کے عملی استفاضہ سے استدلال کیا، امام ترمذیؒ لکھتے ہیں:

"وَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً"۔

(ترمذی، كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۷۳۴، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: اور امام شافعیؒ نے کہا اور اسی طرح پایا ہم نے شہر مکہ میں لوگوں کوبیس رکعت تراویح پڑھتے ہیں۔

اس فکری تبدیلی کے باعث بہت سے مسائل میں آپؒ کے دودو قول ملتے ہیں، قولِ قدیم اورقولِ جدید..... اور فقہاء شافعیہ میں اس کی بحث رہی ہے۔


امام شافعیؒ کے تفردات



کبھی آپؒ اپنی تحقیق میں سب ائمہ کوپیچھے چھوڑدیتے ہیں، اِن مسائل کوآپؒ کے تفردات کہا جاتا ہے، فاتحہ خلف الامام کوفرض سمجھنے میں آپؒ دوسرے سب اماموں سے علیٰحدہ ہیں، امام احمد بن حنبلؒ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے؛ مگراسے فرض نہ سمجھتے تھے، ائمہ اربعہ میں سے تین امام، امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کوفرض نہیں کہتے، امام شافعیؒ اِس مسئلہ میں سب سے علیٰحدہ ہیں، اِس طرح آپ کے کچھ اور تفردات بھی ہیں، مسئلہ طلاق میں آپؒ جمہور امت کے ساتھ ہیں، منفرد نہیں، آپ رحمہ اللہ ایک مجلس میں تین دفعہ دی گئی طلاق کوتین طلاق قرار دیتے تھے، آپؒ کے مقلدین کوبھی اِس مسئلہ میں کبھی اختلاف نہیں ہوا، ایک مجلس میں تین دفعہ دی گئی طلاق گوسنت کے خلاف ہے، طلاق بدعت ہے؛ لیکن اِس کے واقع ہوجانے میں ائمہ اربعہ کا اختلاف نہیں، حضرت امام نووی شافعیؒ لکھتے ہیں:

"وقد اختلف العلماء فیمن قال لامرأتہ انت طالق ثلٰثاً فقال الشافعی ومالک وابوحنیفۃ واحمد وجماھیرالعلماء من السلف والخلف یقع الثلاث"۔ 

(نووی شرح مسلم:۱/۲۹۰)

سویہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ مسئلہ طلاق میں آپؒ دوسرے ائمہ سے منفرد تھے اور اُن کا طریقہ موجودہ دور کے غیرمقلد حضرات کا ساتھا، آپؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کا بہت احترام کرتے، دل ودماغ سے اُن کی جلالتِ علمی کا اعتراف کرتے، ایک دفعہ حضرت امامؒ کی مسجد میں نماز پڑھی تورکوع کے وقت رفع یدین نہ کیا، لوگوں نے سبب پوچھا توفرمایا کہ حضرت امامؒ کا علمی رعب میرے دل پرچھاگیا تھا، احترامِ اکابر کی اس سے بڑی روشن مثال اور کیا ہوگی۔


(۴)حضرت امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ)




اپنے زمانہ کے متفق علیہ امام اور جلیل القدر محدث تھے، علی بن المدینیؒ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کودواشخاص کے ذریعے عزت نصیب فرمائی پہلے شخص فتنہ ارتداد کے وقت حضرت ابوبکرصدیقؓ تھے اور دوسرے فتنۂ خلقِ قرآن کے وقت حضرت امام احمد بن حنبلؒ تھے، امام احمدؒ امام المحدثین تھے، بخاریؒ، مسلمؒ اور ابوداؤدؒ سب حضرات آپؒ کے تلامذہ میں سے ہیں، آپؒ صاحبِ مذہب ہیں، آپؒ کی فقہ "فقہ حنبلی" کے نام سے موسوم ہے، آپ کوایک لاکھ کے قریب احادیث یاد تھیں، آپؒ کی مسند احمد میں بہت سی وہ احادیث جمع ہیں جودوسرے محدثین کے ہاں نہیں ملتیں، ثابت قدمی، حق گوئی اور اتباعِ سنت میں اپنی مثال آپ تھے، یہ آپؒ کا استقلال ہی تھا کہ فتنہ خلقِ قرآن میں روزانہ کوڑے کھاتے؛ مگرخلقِ قرآن کا اقرار ہرگز نہ کرتے، جب انتقال ہوا تو آٹھ لاکھ مرد اور ساٹھ ہزار عورتیں جنازہ میں شریک ہوئیں، حنبل بن اسحاق جوامام احمدؒ کے بھتیجے ہیں؛ انہوں نے امام احمدؒ سے نقل کیا ہے کہ آپؒ نے مسنداحمد سات لاکھ سے زیادہ ذخیرۂ احادیث سے منتخب کی ہے۔
علامہ خطیب بغدادیؒ (۴۶۳ھ) اپنی سند کے ساتھ احمد بن محمد بن خالد البرقیؒ سے روایت کرتے ہیں کہ ہماری موجودگی میں ایک شخص امام احمد بن حنبلؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے حلال وحرام کے ایک مسئلے کے بارے میں دریافت کیا؛ انہوں نے کہا خدا تجھ پر رحم کرے کسی اور سے پوچھ لے، سائل نے کہا حضرتؒ ہم توآپؒ ہی سے اس کا جواب سننا چاہتے ہیں، امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا:

"سل عافاک اللہ غیرنا سل الفقہاء سل اباثور"۔         

  (بغدادی:۶/۶۶)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ تجھے عافیت سے رکھے کسی اور سے پوچھ لے، فقہاء سے پوچھ ابوثور سے پوچھ۔

 اِس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؒ پر حدیث کا غلبہ تھا، فقہ میں آپؒ دوسرے ائمہ کی طرف رجوع کرنے کی تعلیم دیتے تھے، آپؒ سرخیلِ محدثین اور مقتدائے ملت ہیں اور اہلِ سنت کے امام ہیں؛ مگر مسائل کے بارہ میں کس قدر احتیاط سے چلتے ہیں کہ دوسرے فقہاء کا راستہ دکھاتے ہیں اور خود فتوےٰ دینے سے حتی الوسع احتراز کرتے ہیں، آپؒ فقہاء کی طرف رُجوع کرنے کا اس لیئے حکم دیتے کہ فقہاء قرآن وحدیث کے مطابق ہی مسائل کا استنباط کرتے ہیں، علامہ ذہبیؒ امام احمدؒ کی تعریف اِن الفاظ سے کرتے ہیں، شیخ الاسلام، سیدالمسلمین، الحافظ اور الحجۃ (تذکرہ:۲/۱۷) امام شافعیؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بغداد میں امام احمدؒ سے بڑا کوئی نہیں دیکھا (بغدادی:۴/۴۱۹۔ تذکرہ:۲/۱۷۔ البدایہ والنہایہ:۱/۳۳۵) محدث ابراہیم حربی کہا کرتے تھے کہ امام احمد بن حنبلؒ میں اللہ تعالیٰ نے اوّلین وآخرین کے علوم جمع کردیئے تھے۔   

(تذکرہ:۲/۱۷)


حضرت امام احمدؒ کا نظریۂ حدیث


حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کواپنے لیئے حجت اور سند سمجھتے تھے، آپؒ کا عقیدہ تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے ہیں، اُمت پر اُن کی پیروی لازم ہے، صحابی کی بات کوحجۃ تسلیم کرنے میں آپؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ ہیں، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:

"(قال ابوعمرو) جعل للصحابۃ فی ذلک مالم یجعل لغیرہم واظنہ مال الی ظاہر حدیث اصحابی کالنجوم واللہ اعلم والی نحو ھذا کان احمد بن حنبل یذھب"۔

(جامع بیان العلم:۲/۱۴۵)

ترجمہ:امام ابوحنیفہؒ نے صحابہ کے لیئے وہ درجہ مانا ہے جو دوسرے راوویوں کے لیئے نہیں، آپ حدیث"اصحابی کالنجوم" کے ظاہر کی طرف مائل ہیں، امام احمد کی بھی یہی رائے تھی۔

اِسی اُصول پر آپؒ کا موقف یہ تھا کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے؛ کیونکہ حضور   کے صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؒ پوری صراحت سے فرماچکے ہیں کہ سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی مگر امام کے پیچھے، آپ ہی سوچیں کہ صحابی کا اِس قدر صریح فیصلہ، کیا نظر انداز کیاجاسکتا ہے؟۔
حضرت امام ابوحنیفہ کی طرح حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ حدیثِ ضعیف کواپنے قیاس اور اجتہاد پر مقدم کرنا چاہیے، ضعیف حدیث کو کلیۃً نظرانداز کردینا قطعاً صحیح نہیں، جب کسی موضوع پر صحیح حدیث نہ ملے تووہاں ضعیف حدیث کو ہی لے لینا چاہئے، حضرت امام اعظمؒ اور حضرت امام احمدؒ کا مسلک اس باب میں ایک ہے، حافظ ابنِ قیمؒ (۷۵۱ھ) لکھتے ہیں:

"فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابة على القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد"۔

(اعلام الموقعین عن رب العالمین، كلام التابعين في الرأي:۷/۵)

ترجمہ:سوضعیف حدیث اور آثارِ صحابہ کوقیاس اور رائے پر مقدم کرنا امام ابوحنیفہؒ کا مذہب ہے اور یہی قول امام احمد کا ہے۔

صحابہ رضی اللہ عنہم کی پیروی سے جوفقہ مرتب ہوئی اللہ تعالیٰ اسے بڑی قبولیت سے نوازتے رہے ہیں، تاریخ اسلامی میں حکومتی سطح پر زیادہ تردوہی فقہ نافذ العمل رہی ہیں، فقہ حنفی اور فقہ حنبلی، دورِ اوّل میں قاضی القضاۃ حضرت امام ابویوسفؒ تھے، اِس دَور میں سعودی عرب کواللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی ہے کہ انہوں نے اللہ کی حدود قائم کیں اور فقہ حنبلی کے مطابق فیصلے کیئے، جن حضرات کا ہم نے یہاں تذکرہ کیا ہے، وہ سب ائمہ حدیث تھے، ائمہ حدیث میں صرف وہی حضرات شامل نہیں ہوتے جوکہ صرف روایات کواسانید اور مختلف طرق سے بیان کرسکیں؛ بلکہ وہ بھی ائمہ حدیث ہوتے ہیں جوحدیث کی کسی بھی نوع کی خدمت کریں؛ خواہ اسناد بیان کریں؛ خواہ مسائل کا استنباط کریں اور علماء کا اِس پر اجماع ہے، صاحب کنزالعمال لکھتے ہیں:

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کوکوئی مسئلہ پیش آتا تواہل الرائے اور اہل الفقہ کومشورہ کے لیئے بلاتے، مہاجرینؓ وانصارؓ میں سے اہلِ علم کوبلاتے، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اورحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ اورحضرت ابی بن کعبؓ اورحضرت زید بن ثابتؓ کوبلاتے،یہی لوگ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت میں فتوےٰ دیا کرتے تھے،پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے وہ بھی انہی حضرات سے مشورہ لیا کرتے تھے اور فتویٰ کا مدار انہی حضرات پر تھا۔

(کنز العمال:۳/۱۳۴)

اس روایت سے صاف ظاہرہے کہ علماء حدیث سب صحابہ کرام تھے،مگر اہل الرائے اور اہل الفقہ صرف فقہاء صحابہؓ ہی تھے،فقہ حدیث سے جدا کوئی چیز نہ تھی،یہ حدیث کی ہی تفسیر ہوتی تھی،اسے محض رائے سمجھ لینا بہت بڑی غلطی ہے،سو ید بن نصرؒ جو کہ امام ترمذیؒ اورامام نسائیؒ کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارکؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:

"لاتقولو ارای ابو حنیفۃ ولکن قولوا تفسیر الحدیث"۔

(کتاب المناقب للموفق:۲/۵۱)

ترجمہ:یہ نہ کہا کرو ابو حنیفہ کی رائے بلکہ کہو یہ حدیث کی شرح اور تفسیر ہے۔

فقہ حدیث سے الگ کوئی چیز نہیں فقہ کے خلاف ذہن بنانا خود حدیث سے بدگمان کرنا ہے، لفظ رای یہ فقہی استنباط کا ہی دوسرانام ہے،اجتہاد رائے سے ہی تو ہوتا ہے،حضرت عمرؓ نے قاضی شریح کو لکھا تھا:

"فَاخْتَرْ أَىَّ الأَمْرَيْنِ شِئْتَ : إِنْ شِئْتَ أَنْ تَجْتَهِدَ رَأْيَكَ"۔

(سنن الدارمی،باب الفتیاوما فیہ من الشدۃ،حدیث نمبر:۱۶۹)

ترجمہ ان دوکاموں میں سے جس کو چاہے اختیار کرلے چاہے تو اپنی رائے سے اجتہاد کرلینا۔

حضرت زید بن ثابت نے اس کے ساتھ دوسرے مجتہدین سے معلوم کرلینے کی بھی تعلیم دی ہے۔

"فَادْعُ أَهْلَ الرَّأْىِ ثُمَّ اجْتَهِدْ وَاخْتَرْ لِنَفْسِكَ وَلاَحَرَجَ"۔

(سنن دارمی:۱/۶۰۔سنن کبری بیہقی:۱۰/۱۱۵)

دوسرے اہل الرائے سے بھی پوچھ لینا پھر اجتہاد کرنا اوراپنا موقف اختیار کرنا اوراس میں کوئی حرج نہیں۔

صحابہ میں حضرت ابوبکرؓ (مستدرک حاکم:۴/۳۴۰) حضرت عمرؓ (میزان کبریٰ للشعرانی:۱/۴۹)  حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ (شرح فقہ اکبر:۷۹)حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت ابوالدردا، حضرت زید بن ثابت حضرت عبداللہ عباس (سنن دارمی:۱/۵۹۔ مستدرک:۱/۱۲۷۔ سنن بیہقی:۱۰/۱۱۵) اور مغیرہ بن شعبہ(مستدرک حاکم:۳/۴۴۷) سب اہل الرائے تھے۔



مسانید امام ابوحنیفہؒ کا تعارف

امام ابو حنیفہؒؒ کی شخصیت جامع کما لات ہے، آپؒ جیسے ایک بلند پایہ مجتہد، عظیم فقیہ، بلند مرتبت مفسر ، بے مثل اصولی ومتکلم ، صوفی با صفا ، ولی اللہ، عابد ،متقی ، پرہیز گار ، مجاہد فی سبیل اللہ، عظیم مدبراور زیرک سیاستدان تھے، ایسے ہی آپؒ ایک جلیل ا لقد ر محدث اور پختہ کار حافظ الحدیث بھی تھے؛ لیکن ان سب فضائل و کمالات کے ساتھ سا تھ آپؒ بہت بڑے مظلوم بھی ہیں، آپؒ اپنی زندگی میں ہی حا سد ین کے حسد اور معا ندین کے طعن و تشنیع کا نشانہ بنتے رہے، اس وقت سے لے کر اب تک یہ سلسلہ جاری ہے؛ لیکن اللہ جس کو بلند کرنا چاہیں اس کو کون نیچا د کھا سکتا ہے!

            چنانچہ لوگوں نے جتنا آپ کو بدنام کرنے کی کوشش کی، اللہ نے اتنا ہی آپؒ کو دنیا میں شہرت و عظمت عطاکی اور دن بدن آپؒ کے چاہنے اور ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہی اور بڑھتی جار ہی ہے۔

کانٹوں میں ہے گھرا ہوا چاروں طرف سے پھول

پھر بھی کِھلا ہوا ہے عَجَب خوش مزاج ہے

             بر صغیر (پاک و ہند ) میں انگریزی دور کی یاد گار جماعت غیر مقلدین ،جس کا مشن ہی امام ابوحنیفہؒ کی مخالفت کرنا اور آپؒ کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے ان کو آپؒ سے متنفر اور بیزار کرنا ہے،ان لوگوں کا آج کل سب سے بڑا پر و پیگنڈ ہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ علم حدیث میں کم پایہ تھے اور آپؒ کی فقہ حدیث کے مخالف اور محض قیاسات پر مبنی ہے۔ یہ لوگ امام ابوحنیفہؒ کے محدثا نہ مقام کو گرانے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی کتاب یا رسالہ چھاپ رہے ہیں، ان کے وا عظین و مقر رین بھی اپنے بیانات میں آپ کے خلاف طوفان بد تمیزی برپا کیے ہو ئے ہیں۔ ایسی صورت میں اہل السنة پر یہ ذ مہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام کے اس عظیم محسن کے دفاع کا فریضہ سر انجام دیں اور آپؒ کے خلاف ان اہلِ بدعت (غیر مقلدین) کے اعتراضات ،الزامات ، اور مطا عن کا حقیقی اور مسکت جواب دیں(۱)۔

امام ابو حنیفہؒ کی مسانید کا تعارف

            امام حاکم نیشا پوریؒ فرماتے ہیں :امام اعظم ابو حنیفہؒ ان مشہور ثقہ ائمہ حدیث میں سے ہیں، جن کی احادیث مشرق تا مغرب جمع کی جاتی ہیں اور ان سے تبرک حاصل کیا جاتا ہے۔ امام حاکم کے اس قول کی تصدیق کرنی ہو تو امام اعظم کی مسا نید کو دیکھ لیجیے کہ مشرق سے لے کر مغرب تک ہر طبقہ کے محدثین نے آپؒ کی احادیث سے ا عتنا کیا ہے اور بڑی کثرت سے آپؒ کے احادیث کے مجموعے مسا نید کی صورت میں لکھے ہیں۔

            آپؒ کا یہ شرف ہے کہ جس کثرت سے آپؒ کی مسا نید لکھی گئی ہیں اتنی کسی امام کی نہیں لکھی گئیں اورجن حضرات نے آپؒ کی مسا نید لکھی ہیں، وہ سب کے سب بلند پا یا حفاظِ حدیث ہیں۔

            امام حافظ ابن نقطہ حنبلیؒ(م ۶۲۹ھ)فرماتے ہیں: مسند ابی حنیفة جمعہ غیر واحد من الحفا ظ(۲)۔

            امام ابن حجر مکی شافعی (م ۹۷۳ھ) امام صاحبؒ کے مناقب میں لکھتے ہیں: و قد خرج الحفاظ من احا دیثہ مسا نید کثیرة، اتصل بنا کثیر منہا کما ھو مذکور فی مسندات مشا یخنا (۳)۔

            امام ابو ا لموٴید خو ا رزمیؒ(م ۶۶۵ھ)نے امام اعظمؒ کی ان مسا نید کثیر ہ میں سے پندرہ مسا نید کی ”جامع ا لمسا نید“میں تخریج کی ہے۔

            اسی طرح موٴ ر خ کبیر علامہ محمد بن یوسف صا لحیؒ(م ۹۴۲ھ)موٴلف ”السیرة ا لکبریٰ الشامیة“ نے امام اعظمؒ کے مناقب میں آپؒ کی سترہ مسا نید کی نشاندہی کی ہے اور ان کے موٴلفین تک اپنی اسانید بھی ذکر کر دی ہیں(۴)۔

            حافظ ابن طو لونؒ(م۹۵۳ھ)نے بھی ”الفہرست الاوسط“ میں امام اعظمؒ کی سترہ مسا نید کی اسناد اپنے سے لے کر ان کے موٴلفین تک ذکر کردیں ہیں(۵)۔

            امام ابو ا لصبرایوب الخلونیؒ (م ۱۰۷۱ھ)کی ”الثبت“ میں بھی سترہ مسا نید کی اسانید ان کے موٴلفین تک مذکور ہیں(۶)۔

            مصر کے مشہور عالم اور مایہ ناز محقق علامہ زاہد الکو ثریؒ (م ۱۳۷۱ھ )امام اعظمؒ کی ۲۱مسا نید کی نشاندہی کی ہے اور اپنی تصنیف ”التحریرالوجیز“ میں ان کے موٴلفین تک اپنی مسا نید بھی ذکر کر دی ہیں(۷)۔

مسا نید ا بی حنیفہؒ کی چند خصوصیات

            (۱) مسند ابی حنیفہؒ اُن دس کتب حدیث میں شامل ہے جو اسلام کی اساس ہیں اور جن پر دین کا مدار ہے۔ امام محمد بن جعفر الکتا ئیؒ(۱۳۴۵ھ)ان دس کتب کا تعارف کرانے کے بعد لکھتے ہیں: ائمہ اربعہ کی کتب حدیث(مسند ابی حنیفہ موٴطاامام مالک،مسندالشافعی، مسند امام احمد)پہلی چھ کتب صحیح للبخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن النسائی، سنن الترمذی اور سنن ابن ماجہ سے مل کر مکمل دس کتب ہو جاتی ہیں، جو اسلام کی بنیادیں ہیں اور جن پر دین کا مدار ہے۔ شیخ الا سلام حافظ ابن حجر عسقلا نیؒ(م۸۵۲ھ)نے امام حسینی کی اس کتاب سے کتب ستہ کے روات کو حذف کر کے صرف ائمہ اربعہ کی مسا نید کے روات کے حالات الگ ایک کتاب کی صو رت میں جمع کی ہیں اور اس میں کئی مفید اضافے بھی کیے ہیں۔ اس کتاب کا نام ”تعجیل المنفعة بزوائد رجال الائمة الأربعة“ ہے اور یہ کتاب بھی مطبوعہ ہے۔ امام اعظمکی کئی مسا نید کے روات کے حالات اس میں آ گئے ہیں۔

            (۲) امام اعظمؒ کی یہ مسا نید اور آپؒ کی تصنیف ”کتاب ا لآ ثار“ فقہ حنفی(جو تقریباً تیرہ سو سال سے امت مسلمہ کی اکثریت کا دستور عمل ہے) کی بنیاد ی کتب میں سے ہیں؛ چنانچہ مسند ا لہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ (م ۱۱۷۶ھ) فرماتے ہیں: ”فقہ حنفی کی بنیاد مسند ابی حنیفہؒ اور کتاب ا لآثا ر بر وا یت امام محمدؒ پر ہے(۸)۔

            (۳) ان مسانید میں امام اعظمؒ کی اسناد سے جتنی احادیث مذکور ہیں،وہ سب آپؒ کے فقہی مستدلات ہیں اور یہ آپؒ کی ان مرویات میں سے ہیں جو آپؒ کے نزدیک صحیح ہیں۔حافظ ابو المحاسن الحسینیؒ(م۷۶۵ھ)اپنی کتاب ”التذکرة“ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ”وکذلک المسند الشافعی موضوع لأدلتہ علیٰ ما صح عندہ من مرویاتہ، وکذلک مسند أبی حنیفة“(۹)۔ یعنی مسند شافعیؒ کی طرح مسند ابی حنیفہؒ بھی ان دلائل پر مشتمل ہے جو امام صاحب کی صحیح روایات میں سے ہیں۔

            (۴) امام اعظمؒ کی ان مسا نید کو محدثین میں بہت پزیرائی ملی ہے جس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ مسانید محدثین کے زیر نظر رہی ہیں،ان کے ہاں ان مسانید کو سماعت اور روایت کرنے کا رواج رہا ہے،اسی طرح امام اعظمؒ کی کئی مسا نید موٴرخ اسلام امام کمال الدین عمر بن احمدؒ المعروف بہ ”ابن العدیم“(م ۶۶۰ھ)کی زیر نظر بھی رہ چکی ہیں؛ چنانچہ وہ ایک حدیث کی تحقیق میں رقم طراز ہیں: ”وقد نظرت فی مسانید أبی حنیفہ“(۱۰)۔

            امام محمد بن معنہؒ (م۹۰۴ھ)جو ایک جلیل المرتبت محدث اور دمشق کے قاضی القضاة رہے ہیں،ان کے ترجمہ میں امام نجم الدین غزنوی شافعیؒ(م۱۰۶۱ھ)اور امام ابن العماد حنبلیؒ (م۱۰۸۹ھ)نے لکھا ہے کہ”وسمع بعض مسانید أبی حنیفة علیٰ قاضی القضاة حمیدالدین“(۱۱)۔

موٴلفین مسانید ابی حنیفہؒ کا تعارف

             اما م ابو حنیفہؒ کی مسا نید جن لوگوں نے تالیف کی ہیں وہ خود علم حدیث کے عظیم سپوت ہیں اور وہ خود اس لائق تھے کہ ان کی مسانید لکھی جاتیں(بعض کی لکھی بھی گئی ہیں)لیکن با یں ہمہ انھوں نے اما م اعظمؒ کی مسا نید کو فوقیت دی اور ان کو مسا نید کی صورت میں لکھ کرامت کے سامنے پیش کیا۔ ذیل میں ان حضرات کا تعارف پیش کیا جاتا ہے جنھوں نے مسا نید تالیف کی ہیں۔

۱- امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ

            اما م محمد بن حسن بن فرقد شیبانیؒ ، آپؒ کی کنیت ابو عبد اللہ ہے، آپ ۱۳۲ھ میں واسط میں پیدا ہوئے اور کوفہ کی علمی فضا میں پروان چڑھے،آپؒ فقیہ عراق اور امام اعظمؒ کے مایہ ناز شاگردوں میں سے تھے۔آپؒ سے امام اعظمؒ کی احادیث کی دوکتابیں مروی ہیں: ایک ”کتاب الآثار“ جس کو انھوں نے اما م اعظمؒ سے روایت کیا ہے۔دوسری ”مسند ابی حنیفہ“ ہے، جس کو امام خوارزمیؒ نے جوامع المسانید میں”نسخہ امام محمد“کہہ کر ذکر کیا ہے۔یہی کتاب ”مسند محمد“ کے نام سے مشہور ہے۔

            محدث شام امام محمد بن یوسف صالحیؒ نے امام محمدؒ کی دونوں تصانیف کا ذکر کیا ہے۔امام صالحیؒ نے امام محمدؒ کی مسند کا ذکر اپنے شیخ عبد العزیز بن عمر بن محمد ہاشمیؒ کی متصل سند کے ساتھ کیا ہے۔

امام محمدؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام محمدؒ خود اپنے علمی ذوق کے بارے میں فرماتے ہیں: ”میرے والد نے وراثت میں تیس ہزار درہم چھوڑے،ان میں سے میں نے پندرہ ہزار نحو و شعر اور باقی پندرہ ہزار حدیث و فقہ پر خرچ کردیے“(۱۲)۔

            ۲- فقہ شافعی کے بانی امام محمد بن ادریس شافعیؒ (م۲۰۴ھ)نے امام محمدؒ کے بارے میں فرمایا: ”میں نے دس سال ان کی شاگردی اختیار کی اور میں نے ان سے اس قدر علمی استفادہ کیا ہے کہ اگر اسے تحریری شکل دی جائے تو کتابت شدہ مواد اٹھانے کے لیے اونٹ درکار ہوگا ،وہ اگر اپنی عقل کے مطابق گفتگو کرتے تو ہم ان کے کلام کو نہ سمجھ پاتے؛ لیکن وہ ہماری عقلوں کے مطابق گفتگو کرتے تھے“(۱۳)۔

            ۳- امام محمد بن حسنؒ خود امام مالکؒ سے سماع حدیث کرنے کو بیان کرتے ہیں:”میں امام مالکؒ کی چوکھٹ پر تیس سال تک حاضر رہااور میں نے ان کی زبانی سات سو(۷۰۰)سے زائد احادیث کا سماع کیا“(۱۴)۔

            ۴- امام حمد بن حنبلؒ نے ایک مرتبہ فرمایا: جب کسی مسئلہ میں تین اشخاص کا اتفاق ہو جائے تو ان کی مخالفت نا ممکن ہے۔ان سے پوچھا گیا :وہ کون ہیں؟ آپؒ نے فرمایا:”ابو حنیفہ ،ابو یوسفؒ اور محمدبن حسن ۔ابو حنیفہؒ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ قیا س میں ماہر ہیں،ابو یوسفؒ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ آثار پر نظر رکھتے ہیں اور محمدؒ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عربی لغت جانتے ہیں“(۱۵)۔

            جب خلیفہ ہارون الرشیدؒ رَے کے علاقے میں گئے تو امام محمدؒ بھی ان کے ساتھ گئے اور وہیں ۱۸۹ھ میں ۵۸سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا(۱۶)۔

۲- امام حماد بن ابی حنیفہ رحمہ اللہ

            امام ابو حنیفہؒ کے لخت جگر اور اکلوتے بیٹے فقیہ ومحدث امام حمادؒ کوبھی اپنے والد گرامی کی مسند جمع کرنے کا شرف حاصل ہے۔امام حمادؒ کی کنیت ابو اسماعیل ہے۔آپؒ اپنے شفیق والد کے نقش قدم پر تھے۔امام حمادؒ نے اپنے والد بزرگوار سے ہی با لخصوص حدیث وفقہ کا علم حاصل کیا اور آپؒ سے آپؒ کے بیٹے نے اکتسابِ علم کیا(۱۷)۔

            ۱- حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنے شیخ ابو عبدالعزیز بن محمد بن شروطیؒ کے طریق سے متصل سند کے ساتھ امام حمادؒ کی مسندِ ابی حنیفہؒ کا ذکر کیا ہے۔(۱۸)

            ۲- صاحب السیرة الشامیہ امام محمد یوسف صالحی شامیؒ نے بھی اپنے شیخ ابو فارس بن عمر مکی شافعیؒ کی متصل سند سے مسند امام حمادؒ کا ذکر کیا ہے۔(۱۹)

امام حمادؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            امام حمادؒ فقیہ اور محدث ہونے کے ساتھ ساتھ زہد و ورع کا پیکر بھی تھے،اتنے عظیم وجلیل القدروالد کے زاہد و متقی بیٹے سے کذب و بطلان کا اظہارناممکنات میں سے ہے۔

            ۱- محدث کبیر امام عبد الرحمن بن ابی حاتمؒ (م ۳۲۷ھ) نے ”الجرح و تعدیل“ میں امام حمادؒ کا ذکر کیا ہے؛ لیکن ان پر کوئی جرح نہیں کی جو ان کے عادل و صادق ہونے پر واضح دلیل ہے۔(۲۰)

            ۲- امام صمیریؒ (م ۴۳۶ھ)امام حمادؒ کے متعلق لکھتے ہیں: ”علم و فقہ اور کتابت حدیث کے ساتھ ساتھ اما م حمادؒ پر دین داری اور زہد و تقویٰ کا بھی غلبہ تھا“۔(۲۱)

            ۳- حافظ شمس الدین ذہبیؒ(م ۷۴۸ھ)امام حمادؒ کویوں نذرانہٴ عقیدت پیش کرتے ہیں’ ’آپؒ صاحبِ علم ،دین دار، صالح اورپیکرِ ورع تھے“۔(۲۲)

            ۴- حافط عبد القادر بن ابی الوفا قرشیؒ (م۷۷۵ھ)نے آپؒ کے علمی مقام پر یوں روشنی ڈالی ہے: ”آپؒ نے پنے والد گرامی سے اس قدر علمِ فقہ حاصل کیا کہ ان کے زمانے میں فتویٰ دینے لگے اورآپؒ کا شمار امام ابو یوسف، امام محمد ،امام زفراورامام حسن بن زیادرحمہم اللہ کے اعلیٰ طبقہ میں ہوتاہے“۔(۲۳)

            ۵- امام محمد عبد الحی لکھنویؒ(م ۱۳۰۴ھ)،امام حمادؒ کی شان میں یوں گویا ہیں: ”امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد ِر شید قاسم بن معنؒ کے بعد کوفہ کے منصبِ قضا پر آپؒ کو ہی بٹھایا گیا“۔(۲۴)

            # حافظ شمس الد ین ذہبیؒ کے مطابق امام حماد بن ابی حنیفہؒ کا وصال ۱۷۶ھ میں ہوا۔(۲۵)

۳- امام محمد بن مخْلَد ا لدّ و رِی رحمہ اللہ

            حافظ ابو عبداللہ محمد بن مخلد بن حفص ا لد ور ی ا لعطا رؒ بغداد سے تعلق رکھنے والے جلیل ا لقد ر محدث ہیں۔ بقو ل ان کے آپؒ کی ولادت ۲۳۳ھ میں ہوئی۔امام موصوف علم حدیث کی بلند مرتبت شخصیت ہیں۔ امام ابن مخلدؒ نے کثیر محدثین کے ہاں زانوئے تلمُّذ تہہ کیا جن میں سے بعض نام درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو ا لسا ئب سلْم بن جُنا دہؒ، (۲) یعقوب بن ابراہیم دور قیؒ، (۳) فضل بن یعقوب ر خا میؒ، (۴) ابو حز یفہ سہمیؒ، (۵) زبیر بن بکّا رؒ، (۶) ابو یحییٰ محمد بن سعید ا لعطا رؒ، (۷) احمد بن عثمان بن حکیم اودیؒ، (۸) محمد بن حسّا ن ازرقؒ، (۹) حسن بن عرفہؒ، (۱۰)صاحب ا لصحیح امام مسلم بن حجاج قشیر یؒ۔

            امام محمد بن مخلد وہ بلند ہستی ہیں جن سے اکابر محدثین نے علم حدیث حاصل کیا۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

            (۱) حافظ ابو ا لعبا س بن عقدہؒ، (۲) محمد بن حسین آجر یؒ، (۳) حافظ ابو بکر بن جعا بیؒ، (۴) محمدبن ا لمظفرؒ ، (۵) ابو عمر بن حیو یہؒ، (۶) صاحب ا لسنن امام ابو الحسن دارقطنیؒ، (۷) امام ابوحفص بن شاہینؒ اور دیگر ائمہ رحمہم اللہ تعالیٰ۔(۲۶)

            امام محمد بن مخلدؒ صاحب تصانیف کثیر ہ تھے ان کو مسند ابی حنیفہؒ کے جمع وتدوین کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

            ۱- حافظ خطیب بغدادیؒ نے ”تاریخ بغداد“ میں کئی ائمہ کے تعارف میں امام ابن مخلد ؒکی مسند ابی حنیفہؒ کو درج کیا۔

            انھوں نے محمد بن احمد بن الجہمؒ کے تذکرہ میں لکھا ہے:”محمد بن مخلد الدور یؒ نے ان سے مسند ابی حنیفہؒ میں روایت کیا ہے“۔(۲۷)

            ۲- خطیب بغدادی نے ہی احمد بن محمد جہم بلخیؒ کے ترجمہ میں لکھا ہے:”محمد بن مخلد الدوریؒ نے ان سے مسند ابی حنیفہؒ میں روایت کیا ہے، یہ مسند انھوں نے جمع کی ہے“۔(۲۸)

            ۳- شیخ محمود الحسن طونکیؒ نے بھی حافظ امام ابو عبداللہ محمد بن مخلدؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا ذکر کیا ہے۔

            ۴- امام ابو سعد سمعا نیؒ (م ۵۶۲ھ)نے بھی اس مسند کا ذکر کیا ہے؛ چنانچہ وہ محمد بن الحسن ا لجمال الوازعیؒ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:”ان سے محمد بن مخلد دوریؒ نے اپنی تالیف ”جمع حدیث ابی حنیفہ“ میں روایت لی ہے“۔(۲۹)

امام محمد بن مخلدؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            محدثین اور محققین نے امام ابن مخلدؒ کے علمی رتبے کو اپنی کتب میں نمایاں جگہ دی ہے۔

            ۱- صاحب السنن امام دار قطنیؒ(م ۳۸۵ھ) نے امام ابن مخلدؒ کو ”ثقہ اور مامون“ بیان کیاہے۔(۳۰)

            ۲- اجل نقاد حافظ ذہبیؒ (م ۷۴۸ھ)نے امام ابن مخلدؒ کے مقام و مرتبہ پر لکھا ہے: ”آپؒ علمِ حدیث ، صا لحیت ، صد ق اور طلب و جستجو میں حد درجہ محنت جیسی اعلیٰ صفات سے متصف تھے، آپؒ کو طویل عمر نصیب ہوئی ،آپؒ کے نام کو خوب شہرت حاصل ہوئی، قاضی محا ملیؒ کے باوجود علوِّ مَر تبت کی انتہا ء آپؒ پر ہوئی۔(۳۱)

            ۳- حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م ۸۵۲ھ)نے امام ابن مخلدؒ کا علمی مرتبہ یوں بیان کیا ہے:”وہ ثقہ ثقہ ثقہ مشہور ہیں ،تاریخ بغداد میں ان کا تعارف درج ہے، انھوں نے ۳۳۱ھ میں انتقال کیا ہے، وہ اپنے ہم عصر و ں میں سب سے زیادہ علم الاسناد جانتے تھے۔ ہمیں اعلیٰ طریق سے تفصیلی سماع کے ساتھ ان کی حدیث ملی ہے جس میں اس پانچ سو سالہ دور میں ہمارے اور ان کے درمیان چھ اشخاص ہیں۔(۳۲)

            امام عبد ا لبا قی بن قانعؒ اور ابو الحسن بن فراتؒ کے مطابق امام ابن مخلدؒ کا ۳۳۱ھ میں وصال ہوا۔(۳۳)

۴- مسند امام ابن عقدہ رحمہ اللہ

            آپؒ کانام ، احمد بن محمد بن سعید بن عبدالرحمان بن ابراہیمؒ ہے، کنیت ابو لعبا س ، نسبت کوفی اور آپؒ ابن عقدہ کے نام سے مشہور تھے۔ آپؒ کی ولادت کوفہ میں ۲۴۹ھ میں ہوئی۔امام ابن عقدہؒ ایک مشہور اور عدیم المثل حافظ ہیں۔ امام ابن عقدہؒ نے طلب حدیث کے لیے کوفہ ، مکہ، بغداد اور دیگر علمی مراکز کا کونہ کو نہ چھان مارا ۔انھوں نے ان گنت محدثین سے حدیث کا سماع کیا۔مثلاً

            (۱) ابو جعفر محمد بن عبید اللہؒ، (۲) حسن بن علی بن عفا نؒ، (۳) حسن بن مکرمؒ،

            (۴) احمد بن ابی خیثمہؒ،(۵) ابو بکر بن ابی الد نیاؒ، (۶) ابراہیم بن ابی بکر بن ابی شیبہؒ ودیگر ائمہ۔

            آپؒ کے بلند علمی مرتبے کو دیکھتے ہوئے درج ذیل اکابر محدثین نے آپؒ سے علم حاصل کیا۔ مثلاً

            (۱)محمد بن المظفرؒ، (۲) حافظ ابوبکر بن جعا بیؒ، (۳) صاحب المعاجم سلیمان بن احمد طبر انیؒ، (۴) صاحب السنن علی بن عمر دار قطنیؒ، (۵) عبداللہ بن موسیٰ ہاشمیؒ، (۶)ابو عبداللہ ا لمر ز بانیؒ و دیگر(۳۴)

            ۱- امام الجرح والتعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے ”سیر اعلام النبلاء“ میں ابو جعفر طوسیؒ کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اس میں آپ نے حافظ ابن عقدہؒ کی تصانیف کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی ایک کتاب ”اخبار ابی حنیفہ“ کا تذکرہ کیا۔(۳۵)

            ۲- شارح صحیح البخاری ”حافظ بد ر الدین عینیؒ “نے اپنی کتاب ”ا لتا ر یخ الکبیر“ میں مسند ابی عقدہؒ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:”امام ابن عقدہؒ کی اکیلی مسند ابی حنیفہؒ ہی کی احادیث ایک ہزار سے زائد ہیں۔(۳۶)

            ۳- ابو القاسم حمزہ بن یوسف سہمی،خطیب بغدادی اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ نے امام ابن عقدہؒ کے طریق سے امام اعظم ابو حنیفہؒ سے مروی احادیث کو روایت کیا۔(۳۷)

حافظ ابن عقدہؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- حافظ ابو علی حسین بن علی نیشا پوری (م ۳۴۹ھ)نے آپ کے علمی مقام پر کہا:”میں نے ابوالعبا س بن عقدہؒ سے بڑھ کر کسی ایک شخص کو بھی کوفیو ں سے مروی حدیث کا حافظ نہیں دیکھا“(۳۸)

            ۲- صاحب ا لسنن امام علی بن عمر دارقطنیؒ (م ۳۸۵ھ) فرماتے ہیں:”اہل کوفہ کا (ایک زمانے میں)اس امر پر اجماع ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؒ کے زمانے سے لے کر ابو ا لعبا س بن عقدہؒ کے زمانے تک اِن سے بڑا کوئی حافظ حدیث نہیں دیکھا گیا“۔(۳۹)

            ۳- ابو ہما م محمد بن ابر ہیمؒ کرخی فرماتے ہیں:”احمد بن عمیر بن جو صا کا شام میں وہی مقام حاصل ہے جیسے کوفہ میں ابوالعباس بن عقدہؒ کا“۔(۴۰)

            ۴- امام محمد بن جعفرؒ ا لنجار بھی امام ابن عقدہؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”ابوالعبا سؒ ہمارے زمانے میں سب سے زیادہ حدیث کے حافظ تھے“۔(۴۱)

            امام موصوف نے امام اعظمؒ کی جو مسند لکھی ہے اس کا نام ”اخبار أبی حنیفة ومسندہ“ ہے۔

             حافظ ابو الحسن بن ابن سفیان کے بقول امام ابو العباس ابن عقدہؒ کا وصال ۳۳۲ھ میں ہوا۔(۴۲)

۵- امام عبداللہ بن ابی ا لعو ام رحمہ اللہ

            حافظ ابو القاسم عبداللہ بن محمد بن احمد بن سعدی ابن ابی العوامؒ بھی علم حدیث کی مثالی شخصیت ہیں، انھوں نے بھی امام اعظمؒ کی مسند کو جمع کیا ہے۔امام ابن ابی العوامؒ نے درج ذیل ائمہ سے حدیث کا سماع کیا۔

            ۱- صاحب السنن امام نسائیؒ                ۲- امام ابو جعفر طحاوی          ۳- محمد بن احمد بن حمادؒ و دیگر

            جب کہ امام ا بن ابی العوامؒ سے ان کے بیٹے ابو عبداللہ محمد بن عبداللہؒ ود یگر ائمہ نے اخذ حدیث کیا۔

            امام ابو القاسم عبداللہ محمد بن ابی العوامؒ کے مسند امام اعظمؒ کو تالیف وتد و ین کرنے پر دلائل حسب ذیل ہیں:

            ۱- حافظ محمد بن محمود خوارزمیؒ نے ”جامع المسانید“ میں پندرہویں مسند امام ابن ابی العو امؒ کی ذکر کی ہے۔(۴۳)

            ۲-مشہور سیرت نگار و معروف محدثِ شام امام محمد بن یوسف صالحیؒ نے اپنے دو شیوخ ابوالفارس بن عمر علویؒ اور ابوالفضل بن اوجاقیؒ کے طرق سے مسند ابی ا لعوا مؒ کا تذکرہ کیا ہے۔(۴۴)

امام ابن العوامؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- حافظ شمس الدین ذہبیؒ(م ۷۴۸ھ) نے امام نسائیؒ کے ترجمہ میں امام عبداللہ بن ابی العوامؒ کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو ”قاضی مصر“ کا لقب دیا۔(۴۵)

            ۲- حافظ عبد القادر قرشیؒ (م ۷۷۵ھ)نے ابن ابی العوامؒ کے پوتے احمد بن محمدؒ کا تعارف کرتے ہوئے ان کے گھرانے کے متعلق لکھا ہے:”ان کے و الد (محمدؒ)اور دادا عبداللہؒ علماء وفضلاء کے گھرانے سے ہیں“۔(۴۶)

            ۳- محدثِ شام حافظ محمد بن یوسف صالحی (م ۹۴۲ھ) نے ابن ابی العوام، امام ابو جعفر طحاوی، قاضی ابو عبداللہ صمیری اور دیگر ائمہ احناف رحمہم اللہ کے متعلق لکھا ہے:”یہ سارے ائمہ حنفی ، ثقہ، ثبت اور نقاد محدثین ہیں جنہیں کثیر احادیث کا علم ہے“۔(۴۷)

            امام ابو القا سم عبداللہ بن ابی العو ا م کا ۳۳۵ھ میں وصال ہوا۔

۶- امام عمر بن حسن اشنا نی رحمہ اللہ

            حافظ حدیث امام قاضی ابو حسن عمر بن حسن بن علی بن مالک اشنانیؒ کو بھی امام اعظمؒ کی مسند جمع کرنے کا شرف حاصل ہواہے۔ان کی ولادت بغداد میں ۲۵۹ھ یا ۲۶۰ھ میں ہوئی۔امام اشنانیؒ نے درج ذیل ائمہ سے حدیث روایت کی ہے۔

            (۱) حافظ ابر ہیم حربیؒ، (۲) محمد بن عینی مد ائنیؒ، (۳) ابو اسماعیل ترمذیؒ، (۴) محمد بن مسلمہ واسطیؒ،(۵) ابو بکر بن ابی الد نیاؒ، (۶) محمد بن شداد مسمعیؒ ، (۷) موسیٰ بن سہل الو شاءؒ، (۸)حسن بن شنا نیؒ

            محدثین کی کثیر تعداد نے امام ا شنانیؒ سے روایت کیا ہے جن میں سے چندکے نام یہ ہیں:

(۱) ابو العبا س بن عقدہؒ، (۲) محمد بن المظفرؒ، (۳) ابو قاسم بن حبا بہؒ، (۴)حافظ ابن شاہینؒ و دیگر

            ۱- امام محمد بن محمود خوارزمیؒ نے اپنے تین شیوخ تقی الدین یوسف بن احمد بن ابی الحسن اسکاف، ابو محمد ابراہیم بن محمود بن سالم اور ابو عبداللہ محمد بن علی بن بقاء رحمہم اللہ کے طرق سے متصل سند کے ساتھ امام عمر اشنا نیؒ کی مسند کو نقل کیا ہے۔(۴۸)

            ۲- محدث شام امام محمد بن یوسف صالحیؒ نے بھی اپنے شیوخ ابو الفضل عبد الر حیم بن محمد بن محمد ارجانی اور ابو حفص عمر بن حسن بن عمر ثو ر ی رحمہم اللہ کے طرق سے متصل اسناد کے ساتھ امام عمراشنانیؒ کی مسند کی تخریج کی ہے۔(۴۹)

            ۳- حاجی خلیفہؒ نے ”کشف الظنو ن“ میں امام عمر اشنا نیؒ کی مسند امام اعظمؒ کا ذکر کیا ہے۔(۵۰)

            ۴- علامہ سید مر تضیٰ ز بید یؒ نے ”عقود الجواھر المنیفة“ کے مقدمہ میں مسند امام ا شنا نیؒ کو ذکر کیا ہے۔(۵۱)

امام اشنانیؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- المستدرک علی الصحیحین کے موٴلف امام حاکم نیشا پوریؒ کی روایت کے مطابق امام ابو علی ہر ویؒ نے ہی امام عمراشنا نیؒ کو ثقہ قرار دیا ہے۔(۵۲)

            ۲- خطیب بغدادیؒ بیان کرتے ہیں: ”آپ اپنے دور کے جلیل القدر لوگوں اور محدثین میں شمار ہوتے تھے،حافظ حدیث تھے اور بہت اچھے اسلوب میں محدثین سے مذاکرہ کیا کرتے تھے“۔(۵۳)

            ۳- خطیب بغدادیؒ نے ہی امام اشنانیؒ کے مقام حدیث کو یوں بیان کیا ہے: ”انھوں نے کثیر احادیث بیان کی ہیں اور لوگوں نے ان سے قدیم اور جدید احادیث حاصل کی ہیں“۔(۵۴)

            امام طلحہ محمد بن جعفرؒ کے مطابق بروز جمعرات ذوالحجہ۳۳۹ ھ امام عمر بن حسن اشنانیؒ کا وصال ہوا۔(۵۵)

۷- امام محمد بن ابراہیم بن حبیش بغوی رحمہ اللہ

            امام محمد بن ابراہیمؒ ایک بلند پا یا فقیہ اور عظیم المرتبت محدث ہیں،آپؒ نے فقہ کی تعلیم امام محمد بن شجاع ثلجیؒ وغیرہ سے حاصل کی اور حدیث کا درس امام عباس دوریؒ اور اسحاق حربیؒ وغیرہ سے لیا؛جب کہ آپ کے تلامذئہ حدیث میں امام دار قطنیؒ وغیرہ جیسے نامور حفاظِ حدیث بھی ہیں، امام دار قطنیؒ نے آپ کو اپنا شیخ بتایا ہے۔(۵۶)

            امام موصوفؒ بھی امام اعظمؒ کی مسند لکھنے والوں میں سے ہیں؛ چنانچہ علامہ جمال الدین قا سمی دمشقیؒ (م ۱۳۳۲ھ)نے تصریح کی ہے کہ علامہ محمد بن سلیمان مغربیؒ (م ۱۰۹۴ھ)نے اپنی ”ثبت صلة الخلف“ میں امام ابو حنیفہؒ کی جن چار مسانید کو ذکر کر کے ان کے موٴلفین تک اپنی اسناد ذکر کی ہیں،ان میں سے ایک امام محمد بن ابراہیم بن حبیش بغویؒ کی تالیف کردہ ”مسند ابی حنیفہ“ بھی ہے۔

            امام محمد بن ابراہیمؒ کی وفات ۳۳۸ھ میں ہوئی۔

۸- امام عبداللہ بن محمد حارثی رحمہ اللہ

            امام ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب بن الحارث بن خلیل الحار ثی البخاری الکلا بازی الحنفیؒ ما و ر ا ء النہر سے تعلق رکھنے والے مشہور عالم ،فقیہ اور محدث تھے۔ آپ ”استاذ“ کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ کی ولادت ۲۵۸ھ میں ہوئی،امام حارثیؒ نے درج ذیل محدثین سے روایت کیا ہے:

            (۱) عبداللہ بن واصلؒ، (۲) محمد بن لیث سر خسی، (۳) عمران بن فر ینامؒ، (۴) فضل بن محمد شعر ا نیؒ و دیگر ۔

            آپؒ کے حدیث کے شا گر د درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو طیب عبداللہ بن محمدؒ، (۲) محمد بن حسن بن منصور نیشا پوریؒ، (۳) احمد بن محمد بن یعقوب فارسیؒ۔(۵۷)

            امام موصوفؒ نے بھی مسند ابی حنیفہؒ کو جمع کیا ہے ،ائمہ کے شواہد ملاحظہ فرمائیں:

            ۱- امام محمد بن محمود خوارزمیؒ نے ”جامع المسانید“ میں اپنے چار شیوخ سے متصل سند کے ساتھ مسند حارثیؒ کو اپنی کتاب میں روایت کیا ہے۔(۵۸)

            ۲- امام شمس الدین محمد بن احمد بن عبدالہادی حنبلی (م۷۴۴ھ) نے مسائل طلاق پر احادیث بیان کرتے ہوئے امام حارثیؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا حوالہ دیا ہے۔(۵۹)

            ۳- امام عسقلانیؒ نے ”الاصا بة“ میں حضرت رافع مولیٰ سعدؒ کا ذکر کرتے ہوئے امام حارثیؒ کی مسند کا حوالہ دیا ہے۔(۶۰)

            ۴- علامہ شوکانیؒ (م۱۲۵۵ھ)نے بھی حضرت عبداللہ بن عباسؒ سے مروی مرفوع حدیثِ حدود پر بحث کرتے ہوئے امام حارثیؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا حوالہ درج کیا ہے۔(۶۱)

اما م حارثیؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابو یعلیٰ خلیلیؒ (م ۴۴۶ھ) آپؒ کے متعلق لکھتے ہیں: ”انھیں علم حدیث کی معرفت حاصل ہے“۔

            ۲- امام سمعانی (م۵۶۲ھ) نے امام حارثیؒ کے متعلق لکھا ہے: ”آپ بزرگ تھے اور کثرت سے احادیث روایت کرنے والے تھے“۔

            ۳- امام ابو الموٴید خوارزمیؒ(م۶۶۵)نے اپنی کتاب ”جامع المسانید“ میں امام حارثیؒ کے علمی مقام پر لکھا ہے: ”جو شخص بھی اما م حا رثیؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا مطالعہ کرے گا وہ ان کے علم الحدیث میں تبحر اور حدیث کے متون و طرق میں بلند پایا معرفت کو جان لے گا“۔

            حافظ شمس الدین ذہبیؒ کی تحقیق کے مطابق امام حارثیؒ کا وصال ۳۴۰ھ میں ہوا۔(۶۲)

۹- مسند امام عبداللہ بن عد ی جر جانی رحمہ اللہ

            امام ابو احمد عبداللہ بن عدی بن عبداللہؒ جرجان سے تعلق رکھنے والے جلیل القدر حافظ حدیث اور علم جرح و تعد یل کے امام تھے۔ آپؒ نے حدیث کے رُوات ورجال پر جرح و تعد یل میں ”الکامل فی ضعفاء الر جال“ کے نام سے مشہور تصنیف لکھی۔ ا ن کی ولادت ۲۷۷ھ میں ہوئی۔

            آپؒ نے درج ذیل ائمہ سے حدیث روایت کی۔

            (۱) بہلول بن اسحاق تنو حیؒ، (۲) محمد بن یحیٰ مروز یؒ، (۳) صاحب المسند ابو یعلیٰ موصلیؒ ودیگر

            ان کے حدیث میں شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو ا لعبا س بن عقدہؒ، (۲) حسن بن ر ا مینؒ، (۳)ابو الحسین احمد بن العالیؒ ودیگر(۶۳)

            ۱- سلطان الملک ا لمعظم علامہ عیسی بن ابو بکر ایوبیؒ(م۶۲۴ھ)نے اپنی کتاب ”السھم المصیب فی الرد علی الخطیب“ میں امام ابن عد یؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کی اسنا درج کی ہیں۔(۶۴)

            ۲- امام محمد بن ا لخوارزمیؒ نے ”جامع المسانید“ میں اپنے شیخ ابو محمد حسن بن احمد بن ھبة اللہؒ کے طریق سے متصل سند کے ساتھ امام ابن عدیؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کی اسناد درج کی ہیں۔(۶۵)

امام ابن عد یؒ کا علمی مقام و مر تبہ

            ۱- امام ابن عد یؒ کے شاگرد حمزہ بن یوسف سہمی جرجانیؒ(م ۴۲۷ھ)بیان کرتے ہیں:

            ”ابن عدیؒ حافظ حدیث اور پختہ محدث تھے، ان کے زمانے میں کوئی ان جیسا نہ تھا“۔(۶۶)

            ۲- اما م ابوالولید سلیمان بن خلف البا جیؒ نے آپ کے متعلق فرمایا:”ابن عدیؒ کے حافظ حدیث ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں“۔(۶۷)

            امام ابن عدیؒ کے تلمیذ خاص حمزہ بن یوسفؒ کے مطابق امام ابن عدیؒ کا انتقال ۳۶۵ھ میں ہوا، ابو بکر اسماعیل ؒنے آپؒ کی جنازہ پڑھائی۔(۶۸)

۱۰- امام محمد بن مظفر بغدادی رحمہ اللہ

            امام ابو الحسین محمد بن مظفر بن موسیٰ بن عیسی بن محمدؒ بغداد سے تعلق رکھنے والے ممتاز حافظ حدیث تھے۔آپ ۲۸۶ھ ،میں پیدا ہوئے۔ یہ بات مشہور ہے کہ آپ حضرت سلمہ بن اکوعؒ کی اولاد میں سے تھے،امام صاحبؒ نے درج ذیل ائمہ سے حدیث کا سماع کیا:

            (۱) حامد بن شعیب بلخیؒ، (۲) ابوبکر بن با غند یؒ، (۳) ابوالقاسم بغو یؒ ، (۴) ابو جعفر طحاویؒ ودیگر

            آپؒ کے حدیث میں بہت سے شا گر ہیں: مثلاً

            (۱) ابو حفص بن شاہینؒ ، (۲) ابو الحسن بن علی بن عمر دار قطنیؒ ، (۳) حسن بن محمد خلالؒ ودیگر(۶۹)

            امام صاحبؒ کے مسند امام اعظمؒ لکھنے پر ائمہ کے ثبوت:

            ۱- امام محمد بن عبدالغنی بغدادیؒ المعروف ابن نقطہ حنبلی( م۶۲۹ھ) امام محمد بن مظفرؒکا تعارف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں”انھوں نے مسند ابی حنیفہ کو جمع کیا ہے“۔(۷۰)

            ۲- امام محمد بن خوارزمیؒ نے اپنے چار شیوخ سے متصل سند کے ساتھ مسند امام ابن مظفرؒکو نقل کیاہے۔(۷۱)

            ۳- حاجی خلیفہؒ نے بھی مسند ابن المظفرؒ کا تذکرہ کیا ہے۔(۷۲)

امام ابن المظفرؒکا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- علامہ خطیب بغدادیؒ(م ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں:”امام ابن مظفرؒ سمجھ دار ،حافظ الحدیث اور راست باز شخص تھے“۔

            ۲- حافظ ابو بکر احمد بن محمد البر قانیؒ نے ( م۴۲۵ھ) امام ابن مظفرؒ کے کثیر الحدیث ہونے کو یوں بیان کیا ہے:”میں نے دار قطنیؒ کے طریق سے امام ابن مظفرؒ سے ایک ہزار احادیث لکھیں، پھر ہزار احادیث لکھیں، پھر ہزار احادیث لکھیں انھوں نے اس طرح کئی مرتبہ عدد گنوا یا“۔(۷۳)

            امام ابو قاسم ازھریؒ اور احمد بن محمد عتیقیؒ کے مطابق امام ابن مظفرؒ کا وصال جمعہ کے دن ۳۷۹ھ میں ہوا۔(۷۴)

۱۱- امام طلحہ بن محمد العد ل رحمہ اللہ

            امام ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاہد ا لعد ل المقریؒ بغداد سے تعلق رکھنے والے محدث تھے۔ آپ ۲۹۱ھ میں پیدا ہوئے ۔آپ نے درج ذیل ائمہ سے حدیث روایت کی ہے:

(۱) محمد بن عباسؒ، (۲) عبداللہ بن زید انؒ، (۳) ابو بکر بن ابی داوٴدؒ ، (۴)ابو القاسم بغویؒ و دیگر

شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) ازہر یؒ، (۲) ابو محمد ا لخلا لؒ، (۳) علی بن محسن تنو حیؒ، (۴)حسن بن علی جوہریؒ و د یگر(۷۵)

مسند لکھنے پر تحقیق :

            ۱- امام محمد بن خوارزمیؒ نے امام اعظمؒ کی ۱۷ مسانید میں دوسری مسند جو آپؒ تک متصل سند سے بیان کی ہے، وہ یہی اما م طلحہ کی مسند ہے۔(۷۶)

            ۲- حاجی خلیفہؒ (م ۱۰۶۷) نے ”کشف الظنون“ میں امام ابو قاسم طلحہ بن محمدؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا ذکر کیا ہے۔(۷۷)

            ۳- امام تقی الدین سبکیؒ نے اپنی مشہور تصنیف ”شفاء السقام“ میں ایک حدیث کے تحت مسند ابی طلحہؒ کا حوالہ درج کیا ہے۔

امام طلحہؒ کا علمی مقام اور مرتبہ

            ۱- امام ابن جوزیؒ(م۵۷۹) آپؒ کے متعلق لکھتے ہیں : ”طلحہؒ کا شمار ابن مجاہدؒ کے صف اول کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔“(۷۸)

            ۲- امام خوارزمیؒ نے امام طلحہؒ کی ثقاہت پر اظہار خیال کیا:”وہ اپنے زمانے کے عدول،ثقات اور پختہ محدثین میں سب سے مقدم تھے“۔(۷۹)

            ۳- امام ذہبیؒ نے امام طلحہؒ کے بارے میں لکھا ہے:”امام دار قطنیؒ کے زمانے میں و ہ صحیح السماع مشہور تھے“۔(۸۰)

            امام از ہریؒ اور عتیقیؒ کے مطابق امام طلحہ بن محمدؒ کا وصال شوال ۳۸۰ھ میں ہوا۔(۸۱)

۱۲- امام محمد بن ابراہیم مقری رحمہ اللہ

            ابو بکر محمد بن ابراہیم بن علی بن عاصم بن زاذانؒ اصبہان کے ممتاز حافظ حدیث،ثقہ،صدوق اورطلب حدیث میں کثرت سے سفر کرنے والے تھے،آپ ابن المقریؒ کے لقب سے مشہورتھے۔ المعجم الکبیراوراربعین کے مصنف ہیں ۔ آپؒ کی ولادت ۲۸۵ھ میں ہوئی۔آپؒ کے شیوخ درج ذیل ہیں:

            (۱) محمد بن نصیر بن ابا ن مدینیؒ، (۲) عمر بن ابی غیلا نؒ ، (۳) جعفر بن احمد بن سنا نؒ، (۴) محمدبن حسن بن قتیبہؒ ود یگر۔

            ان کے شاگرد درج ذیل ہیں:

(۱) حافظ ابو اسحاق بن حمزہؒ، (۲) ابو الشیخ بن حیانؒ، (۳) محمد بن عمر البقالؒ، (۴) ابو زیدمحمد بن سلامہؒ ودیگر(۸۲)

مسند تدوین کرنے پر ائمہ کی تحقیق

            ۱- امام ابن نقطہؒ فرماتے ہیں:”انھوں نے مسند ابی حنیفہؒ کو جمع کیا“۔(۸۳)

            ۲- حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے امام ابن المقریؒ کے تعارف میں لکھا ہے:”انھوں نے مسند ابی حنیفہ تصنیف کی ہے“۔(۸۴)

امام ابن ا لمقر یؒ کا علمی مقام و مر تبہ

            ۱- امام ابن المقریؒ بنفس نفیس اپنے طلب علم کے متعلق لکھتے ہیں:”میں نے (حصول علم کی خاطر )چار مرتبہ شرق تاغرب سفر کیا“۔(۸۵)

            ۲- امام ابن المقریؒ ہی اپنے اسفار کے متعلق کہتے ہیں:”میں نے دس مرتبہ بیت المقد س حاضری دی، چار حج کیے ہیں اور ۲۵ مہینے مکہ مکر مہ میں قیام کیا ہے“۔(۸۶)

            ۳- امام ابن مردویہؒ (م ۴۱۰ھ)امام ابن لمقریؒ کے متعلق لکھتے ہیں:”آپ ثقہ، مامون اور صاحب اصول ہیں“۔(۸۷)

            امام ابن المقریؒ کا وصال ماہ شوال میں ۳۸۱ھ میں ۹۶سال کی عمر میں ہوا۔(۸۸)

۱۳- امام دار قطنی رحمہ اللہ

            شیخ الا سلام امام ابو الحسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی بن مسعود بن نعمان بن دینا ر بن عبداللہؒ بغداد کے رہنے والے مشہور محدث تھے۔ آپؒ کی ولادت بغداد کے ایک محلے دار قطن میں ۳۰۶ھ میں ہوئی ۔آ پؒ کی تصنیف ”السنن“ کتب حدیث میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔آپؒ کے اساتذہ درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو القاسم بغویؒ، (۲) ابو حامد محمد بن ہارون حضر می، (۳) قاضی بدر بن ہیثمؒ و دیگر

            آپؒ سے درج ذیل محدثین نے حدیث روایت کی:

            (۱) حمزہ بن محمد بن طاہرؒ، (۲) صاحب المستد ر ک حاکم نیشا پوریؒ، (۳) تمام رازیؒ، (۴)ابومحمد خلالؒ و دیگر ائمہ

مسند لکھنے پر تحقیق

            ۱- محدث شام علامہ زاہد کوثریؒ لکھتے ہیں:”خطیب بغدادیؒ جس وقت بذات خود سفر کر کے دمشق گئے تو ان کے پاس امام دار قطنیؒ کی مسند ابو حنیفہؒ بھی تھی“۔(۸۹)

            ۲- مسند امام د ا رقطنیؒ کے مسند ابی حنیفہؒ کو تدوین کرنے پر یہ دلیل بھی ہے کہ انھوں نے اپنی السنن میں تقریباً ۱۳۰ احادیث آپؒ کے طریق سے روایت کی ہیں“۔

حافظ دار قطنیؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابو اطیب طبریؒ ان کو ”امیر الموٴمنین فی الحدیث“ قرار دیتے تھے۔(۹۰)

            ۲- ایک اور جگہ فرماتے ہیں:”میں نے کوئی حافظ حدیث ایسا نہیں دیکھا جو بغداد سے آیا ہو اور ان کے پاس سلام کے لیے حاضر نہ ہوا ہو“۔(۹۱)

            عبد العزیز بن ازجی،احمد بن محمد عتیقی اور محمد بن ابی الفوا رس رحمہم اللہ کے مطابق حافظ دارقطنیؒ ذوالقعدہ ۳۸۵ھ فوت ہوئے۔(۹۲)

۱۴- ا مام ابن شاہین رحمہ اللہ

            حافظ ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان بغدادی المعروف ابن شاہینؒ عراق کے بلند پایا محدث تھے۔ آپؒ کی ولادت ۲۹۷ھ اور آپؒ نے ۳۰۸ھ میں پہلی مرتبہ حدیث کا سماع کیا۔ آپؒ کے حدیث کے اساتذہ درج ذیل ہیں:

            (۱) محمد بن محمد بن غندیؒ، (۲) محمد بن ھارون بن المجدرؒ، (۳) شعیب بن محمد ذراعؒ ، (۴) ابوالقاسم بغویؒ ودیگر

            آپ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو سعد مالینیؒ، (۲) ابو بکر البرقانیؒ، (۳) ابو محمد خلالؒ، (۴) ابو محمد جوہریؒ ودیگر(۹۳)

            حافظ خطیب بغدادیؒ جس وقت بغداد سے دمشق گئے تو آپؒ کے پاس امام ابن شاہینؒ کی مسند ابی حنیفہؒ بھی تھی۔(۹۴)

امام ابن شاہینؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابن ماکولاؒ آپؒ کے متعلق فرماتے ہیں:”ثقہ مامون ہیں، آپؒ نے شام ،فارس اور بصرہ میں حدیث کا سماع کیا، آپؒ نے احکام و مسائل اور علماء کے تراجم ذکرکیے نیز بہت سی کتب تصانیف کیں“۔(۹۵)

            ۲- امام ابو الفتح محمد بن احمد بن ابی الفوارسؒ فرماتے ہیں:”آپؒ ثقہ مامون ہیں ، آپ ؒجتنی تصانیف کسی نے نہیں کیں“۔(۹۶)

            حافظ ابو نعیم اصبہانیؒ اور عبدالعزیز بن علی ازجیؒ کے مطابق امام ابن شاہینؒ کا وصال ماہ ذو الحجہ ۳۸۵ھ میں ہوا۔(۹۷)

۱۵- امام ابن مندہ رحمہ اللہ

            ابو عبداللہ محمد بن ابی یعقوب اسحاق بن ابی عبداللہ محمد بن یحییٰ بن مندہ اصبہان کے رہنے والے بے مثل، حافظ حدیث اور اپنے زمانے کے ممتازمحدث تھے ،آپ کا سن ولادت ۳۱۰یا ۳۱۱ھ ہے، آپ نے سب سے پہلے حدیث کا سماع ۳۱۸ھ میں کیا۔ آپ نے پوری دنیا سے ۱۷۰۰ شیوخ سے علم حدیث حاصل کیا ، ان مین سے چند درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو یعقوب اسحاقؒ             (۲) عبدالرحمان بن یحییٰؒ،

             (۳) اسماعیل صفارؒ               (۴) احمد بن عمرو مدینیؒ ودیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو بکر بن مقریؒ، (۲) تمام بن محمد رازیؒ، (۳) حمزہ بن یوسف سہمیؒ ودیگر(۹۸)

            ۱- امام ابن مندہؒ نے بہت سی کتب تصانیف کیں جن میں مسند ابی حنیفہؒ بھی شامل ہے ۔ڈاکٹر فواد سیزگین نے مسانید ابی حنیفہؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے امام ابن مندہ کی مسند کا بھی ذکر کیا۔(۹۹)

امام ابن مندہؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابن مندہ خود اپنے طلب ِعلم کے بارے میں فرماتے ہیں: ”میں نے حصول علم کے لیے شرق تا غرب دو مرتبہ چکر لگایا“۔(۱۰۰)

            ۲- حافظ ابو اسحاق بن حمزہ(م ۳۵۳ھ) فرماتے ہیں:”میں نے ابو عبداللہ بن مندہ جیسا نہیں دیکھا“۔(۱۰۱)

            ۳- حافظ ابو نعیم اصبہانی(م ۴۳۰ھ)کے پاس امام ابن مندہ کا تذکرہ ہوتا تو وہ فرماتے :”وہ علم کے پہاڑ تھے“۔(۱۰۲)

            حافظ ابو نعیم اصبہانی اوردیگر ائمہ کے مطابق امام ابن مندہ کا وصال ذو القعدہ ۳۹۵ھ میں ہوا۔

۱۶- امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ

            امام ابو نعیم احمد بن عبداللہ بن احمد بن اسحاق اصبہانیؒ ، جو ایک ثقہ حافظ الحدیث ،عظیم القدر صوفی اور مشہور صاحب تصانیف بزرگ ہیں۔ مشہور ِزمانہ کتب ”المستخرج علیٰ الصحیحین، دلائل النبوة اور حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء“ کے مصنف ہیں اورآپؒ کوبھی شرف حاصل ہے کہ انھوں نے امام ابو حنیفہؒ کی مرویات کو اپنی مسند میں جمع کیا۔ آپؒ کی ولادت ۳۳۶ھ میں ہوئی۔آپؒ نے کثیر محدثین سے علم حدیث حاصل کیا،جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو محمد عبداللہ بن جعفرؒ                (۲) قاضی ابو احمد العسالؒ

            (۳) محمد بن عمر الجعانیؒ                      (۴) محمد بن معمر ذہلیؒ ودیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو بکر خطیب بغدادی ؒ                 (۲) ابو سعد محمد بن محمد مطرزؒ

            (۳) صالح ابن عبدالواحدالبقالؒ ودیگر ائمہ۔(۱۰۳)

مسند امام اعظمؒ تالیف کرنے پر ائمہ کی تحقیق

            ۱- امام ابو الموٴیدمحمد بن محمود خوارزمیؒ نے ( م ۶۶۵ھ) اپنے چار مشائخ سے متصل سند کے ساتھ امام ابو نعیمؒ کی مسند ابی حنیفہ کو روایت کیاہے۔(۱۰۴)

            ۲- حافظ حدیث شمس الدین ابن طولونؒ ( م۹۵۳ھ)نے ”الفہرست الاوسط“ میں اپنی سند کے ساتھ مسند ابی نعیمؒ کا ذکر کیا ہے۔(۱۰۵)

            ۳- علامہ سید محمد مرتضیٰ زبیدیؒ(م ۱۲۰۵) نے ”عقود الجواھر المنیفة“کے مقدمہ میں امام ابو نعیمؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کو شمار کیا ہے۔(۱۰۶)

امام ابو نعیمؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابو طاہر احمد بن محمدفرماتے ہیں کہ امام ابو نعیمؒ کی کتاب ”حلیة الالیاء“ جیسی کوئی کتاب تصنیف نہیں کی گئی۔(۱۰۷)

            ۲- اما م ابن النجارؒ(م ۶۴۳ھ) نے امام ابو نعیمؒ کے مقام حدیث کے متعلق فرمایا:”آپؒ محدثین کے تاج ہیں اور دین کی عظیم علامت ہیں“۔(۱۰۸)

            امام ابن نقطہ حنبلیاور اما م ذہبی کے مطابق امام ابو نعیم کا بروز پیر ۲۰/محرم الحرام کو ۴۳۰ھ میں وصال ہوا۔(۱۰۹)

۱۷- امام احمد بن محمدکلاعی رحمہ اللہ

            امام احمد بن محمد بن خالد خلی کلاعی مقریؒ نے بھی مسند امام ابی حنیفہؒ کو روایت کیا ہے۔ان کی کنیت ابوعمر ہے۔آپؒ قرطبہ سے تعلق رکھنے والے محدث تھے۔ مظفر عبدالملک ابن عامر کے عہد میں ۳۹۴ھ میں ان کی ولادت ہوئی،آپؒ کے حدیث کے اساتذہ درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو محمد بن شفاقؒ             (۲) ابو محمد بن بنوشؒ

            (۳)ابو علی حدادؒ                 (۴)ابن نباتؒ ودیگر(۱۱۰)

تصریحات

            ۱- حاجی خلیفہؒ نے بھی امام کلاعیؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا نام درج کیا۔(۱۱۱)

            ۲- محدث شام امام محمد بن یوسف صالحیؒ نے اپنے دو شیوخ فضل بن اوجاتیؒ اور ابو حفص عمر بن حسنؒ کے متصل طرق سے امام کلاعی کی مسند ابی حنیفہؒ کا ذکر کیا ہے۔(۱۱۲)

 امام احمد کلاعیؒ کا مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابن بشکوال نے اپنی کتاب ”الصلة“ میں امام کلا عیؒ کا تذکرہ کیا ہے ۔وہ ان کے متعلق فرماتے ہیں:” وہ معلم قرآن، فاضل ،عبادت گذار، فن قراء ت اور اس کے وجوہ کے عالم اور حافظ تھے، انھوں نے قراء ت کے معانی ومفاہیم پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔(۱۱۳)

            امام ابو عمر کلاعیؒ نے ہفتہ کے دن بوقت زوال ۱۰/ذو القعدہ ۴۳۲ھ میں وصال فرمایا۔(۱۱۴)

۱۸-امام ابو الحسن ماوردی رحمہ اللہ

            امام ابو الحسن علی بن محمد بن حبیب ماوردیؒ شافعی بصرہ سے تعلق رکھنے والے أقضیٰ القضاة تھے۔آپ کی ولادت ۳۶۴ھ میں ہوئی۔ انھوں نے درج ذیل اساتذہ سے حدیث روایت کی:

            (۱) حسن بن علی بن محمد الحبلیؒ             (۲) محمد بن معلی ازدیؒ

            (۳)جعفر بن محمد بن فضل بغدادیؒ ودیگر

            جب کہ امام ماوردیؒ سے خطیب بغدادیؒ اور ابو الفضل ابن خیرونؒ نے علم حدیث حاصل کیا۔(۱۱۵)

            ان کی کثیر کتب میں سے ایک تالیف مسند ابی حنیفہؒ بھی ہے۔ اس کا ذکر حاجی خلیفہؒ نے ”کشف الظنون“ میں کیا ۔انھوں نے امام اعظم سے مروی پندرہویں مسند امام ما ور دی کا ذکر کیا ہے۔(۱۱۶)

امام ماوردیکا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- علامہ صلاح الدین الصفدیؒ لکھتے ہیں:”وہ بلند وبا لا علمی مرتبہ کے مالک تھے، بادشاہ وقت کے قریبی ساتھی تھے“۔(۱۱۷)

            ۲- خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں:”میں نے ان سے علم حدیث لکھا ہے اور وہ ثقہ تھے“۔(۱۱۸)

            ۳- حافظ ابو الفضل بن خیرونؒ فرماتے ہیں:”وہ امام تھے، علم کے ہر فن میں ان کی قابل قدر تصانیف ہیں“۔(۱۱۹)

            حافظ خطیب بغدادیؒ کے مطابق اما م ماوردیؒ کا ماہ ربیع الاول ۴۵۰ھ میں وصال ہوا۔(۱۲۰)

۱۹- امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ

            جلیل القدر نقاد حافظ حدیث ابو بکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی بغدادیؒ کثیر تصانیف کے مصنف ہیں۔ان کا شمار شام اور عراق کے عظیم محدثین میں شمار ہوتا تھا۔ آپؒ کی ولادت ۳۹۲ھ میں ہوئی۔ آپؒ نے سب سے پہلے سال کی عمر میں حدیث کا سماع کیا،۲۰سال کی عمر میں بصرہ تشریف لے گئے۔ ۲۳سال کی عمر میں نیشاپور حتی کہ بڑھاپے میں شام ،مکہ مکر مہ اور دیگر شہروں میں بھی حصول علم کے لیے تشریف لے گئے۔ حافظ خطیب بغدادیؒ نے بے شمار اساتذہ سے علم حدیث کا سماع کیا:

            (۱) ابو عمر بن مہدی فارسیؒ                (۲) ابو الحسین بن المتیّمؒ،

            (۳) حسین بن حسن جوالیقیؒ               (۴) محمد بن عیسیٰ ہمذانیؒ و دیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) حافظ ابو بکر احمد بن محمد بن بر قا نیؒ    (۲) ابو الفضل بن خیرونؒ

            (۳) عبدالعزیز کتانیؒ                        (۴)ابو نصر بن ماکولاؒ و دیگر(۱۲۱)

            شام سے تعلق رکھنے والے نقاد محدث محمد زاہد الکوثریؒ نے اپنی کتاب ”تانیب الخطیب“ میں مسانید امام اعظمؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:”جس وقت خطیب بغدادیؒ خود سفر کر کے دمشق گئے تو ان کے ساتھ خود ان کی تالیف کردہ مسند ابی حنیفہؒ بھی تھی“۔(۱۲۲)

خطیب بغدادیؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- مشہور فقیہ ابو اسحاق ابرہیم شیرازیؒ آپؒ کے متعلق فرما تے ہیں:”ابو بکر خطیب بغدادیؒ کو معرفت اور حفظ حدیث میں ابو الحسن دار قطنیؒ اور ان کے اقران کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے“۔(۱۲۳)

            ۲- حافظ ابو علی بن احمد بن محمد بردانی حنبلیؒ کہتے ہیں:”شاید خطیب بغدادیؒ نے اپنے جیسا کوئی نہیں دیکھا“۔(۱۲۴)

            آپؒ کا انتقال ۴/ذو الحجہ ۴۶۳ھ دوشنبہ کو ہوا۔ سہ شنبہ کو آپؒ کو بغداد میں صوفی باصفا حضرت بشر حافی کی قبر کے پاس ،امام احمدبن حنبلؒ کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔(۱۲۵)

۲۰- امام عبداللہ بن محمد انصاری رحمہ اللہ

            شیخ الاسلام امام ابو اسماعیل عبداللہ بن محمد بن علی بن محمد انصاری ہرات کے رہنے والے جلیل القدر حافظ حدیث تھے۔ آپؒ حضرت ابو ایو ب خالد بن زید انصاریؒ کی اولاد میں سے ہیں۔ آپؒ کی ولادت ۳۹۶ھ میں ہوئی۔ آپؒ کے حدیث کے اساتذہ درج ذیل ہیں:

            (۱) یحییٰ بن عمار سجستانیؒ                      (۲) محمد بن جبریل ماحیؒ

            (۳) ابو منصور احمد بن ابی العلاء ؒ           (۴) قاضی ابوبکر الحیریؒ و دیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) محمد بن طاہر مقدسیؒ                     (۲) موٴتمن بن احمد بن ساجیؒ

            (۳) حنبل بن علی بخاریؒ                   (۴) عبدالجلیل بن ابی سعد المعدلؒ(۱۲۶)

            امام ابو عبداللہ نے مسند ابی حنیفہ بھی تالیف کی۔ اس کتاب کا تذکرہ عبدالقادر بن ابی الوفا قرشی نے کیا ہے، انھوں نے اپنی کتاب ”الجواہر المضیئة“ میں نصر بن سیارؒ کے تعارف میں امام سمعانیؒ کا درج ذیل جملہ لکھا ہے: ”میں نے (نصر بن سیار) سے احادیث کی اس کتاب کا سماع کیا، ان احاد یث کو امام ابی حنیفہؒ نے روایت کیا جسے عبداللہ بن انصاری نے نصر بن سیار کے دادا قاضی صاعد کے لیے جمع کیا؛ کیونکہ یہ ان سے روایت کرتے تھے۔“

حافظ عبداللہؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- حافظ عبد الغا فر بن اسماعیل فرماتے ہیں:”ابو اسماعیل انصاریؒ کو عربی لغت، حدیث ، تواریخ اور انساب میں کامل دسترس حاصل تھی، آپؒ تفسیر میں امام کامل تھے اور تصوف میں بے داغ سیرت کے مالک تھے“۔(۱۲۷)

            ۲- شیخ ا لا سلام حافظ ابو القاسم اسماعیل بن محمد نے امام عبداللہ کو ”امام اور حافظ حدیث“ کے القاب سے یاد کیا ہے۔(۱۲۸)

            ۳- حافظ ابو النضر عبد الرحمن فامی فرماتے ہیں:”شیخ الاسلام ابو اسماعیل یگانہٴ روز گارتھے، معانی ومفاہیم کی ترتیب و تبویب کا ذریعہ اور فضائل ومحاسن کے فنون وانواع میں بلند مرتبہ رکھتے تھے۔(۱۲۹)

            امام ابو عبداللہ حسین بن محمد بن حسین ہرویؒ کے مطابق امام عبداللہؒ بروز جمعہ المبارک عشاء کے وقت ۲۲/ذو الحجہ۴۸۱ھ میں وصال فرمایا۔(۱۳۰)

۲۱- امام حسین بن محمد بن خسرو بلخی رحمہ اللہ

            ابو عبداللہ حسین بن محمد بن خسرو بلخیؒ بغداد کے بلند پا یا محدث اورممتاز عالم تھے ۔آپ نے بھی امام ابو حنیفہؒ کی مسند کو جمع کیا ہے۔آپ نے کثیر محدثین سے علم حاصل کیا ان میں چند درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو یوسف عبدا لسلام، (۲) ابو محمد قز و ینیؒ، (۳) عبد ا لوا حد بن فہد اور دیگر ائمہ

            امام صاحب کے صرف دو شاگردوں کے نام معلوم ہوئے ہیں:

            (۱) حافظ ابوا لفر ج عبد الرحمن بن علی ابن جوزیؒ، (۲) حافظ ابو القاسم علی بن حسن بن ھبة اللہ ابن عساکرؒ(۱۳۱)

            ۱- حافظ ابو عبداللہ ابن نجارؒ نے تصریح کی ہے کہ ابن خسروؒ نے مسند امام ابو حنیفہؒ کو جمع کیا ہے۔(۱۳۲)

            ۲- حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے امام ابن خسروؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کو جمع کرنے کا ذکر کیا ہے۔(۱۳۳)

            ۳- امام ابو القادر بن ابی الوفا قرشیؒ نے بھی امام خسروؒ کی مسند امام ابی حنیفہؒکو جمع کرنے کا ذکر کیا ہے۔(۱۳۴)

امام ابن خسروؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- حافظ ابو عبداللہ محمد ابن نجارؒ نے اپنی تاریخ میں امام خسروؒکے تعارف میں لکھا ہے: ”ابوعبداللہ السمسار حنفیؒ ا پنے دور میں اہل بغداد کے لیے مفید شخصیت تھے“۔(۱۳۵)

            ۲- امام الجرح و التعدیل حافظ امام ذہبیؒ نے امام خسروؒ کو ”محدث مکثر“ کے لقب سے یادکیا۔(۱۳۶)

            ۳- امام قاسم بن قطلوبغا آپ کے متعلق فرماتے ہیں:”آپؒ اہل بغداد کی فیض دہندہ شخصیت اور اپنے دور کے عظیم محدث تھے“۔(۱۳۷)

            حافظ ابو القادر بن ابی الوفا قرشیؒ کے مطابق آپؒ کی وفات ۵۲۲ھ میں ہوئی۔(۱۳۸)

۲۲- امام محمد بن عبدا لبا قی انصاری رحمہ اللہ

            ابو بکر محمد بن عبدالباقی بن محمد بن عبداللہ خزرجی سلمی انصاری بغدادی حنبلیؒ بزار ،مرستان کے مشہور قاضی تھے۔آپ کی ولادت ماہ صفر۴۴۲ھ میں ہوئی۔ آپؒ نے درج ذیل ائمہ حدیث سے حدیث کا سماع کیا:

            (۱)ابو اسحاق برمکیؒ                          (۲)علی بن عیسی باقلانیؒ

            (۳) علی بن عمر برمکیؒ                        (۴)محمد بن وشاح زینیؒ ودیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱)ابو القاسم علی ابن عساکرؒ                (۲) ابو موسیٰ مدینیؒ

            (۳) سعید بن عطافؒ                        (۴) ابو حفص عمر ابن طبرزدؒ ودیگر

            ۱- امام محمد بن یوسف صالحی شامیؒ نے بھی اپنے شیخ ابو الفضل عبدالرحیم بن محمد الاوجاتیؒ کے طریق سے متصل سند کے ساتھ قاضی ابو بکر انصاریؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کو بیان کیا ہے۔(۱۳۹)

            ۲- حاجی خلیفہؒ (م ۱۰۶۷ھ) نے بھی قاضی ابو بکرؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا ذکر کیا۔

            ۳- علامہ سید محمد مرتضیٰ ز بیدیؒ نے بھی قاضی صاحبؒ کی مسند کو شمار کیا ہے۔(۱۴۰)

قاضی محمد بن عبدالباقی انصاریکا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابو القاسم ابن السمر قندیؒ( م۵۳۶ ) بار بار قاضی ابو بکرؒ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے تھے: مابقی مثلہ ان جیسا اب کوئی نہیں رہا۔(۱۴۱)

            ۲- امام ابن جوزیؒ (م ۵۷۹ھ)اپنے شیخ قاضی انصاریؒ کی خدمت میں یوں نذرانہ پیش کرتے ہیں:”میں نے ان کے سامنے کثیر احادیث پڑھیں ، آپؒ (حدیث میں)ثقہ، ذکی ،حجت اور ماہر تھے۔(۱۴۲)

            ۳- محدث بغداد حافظ ابن شافعؒ (م ۵۶۵ھ) نے اپنی تاریخ میں قاضی صاحبؒ کے بارے میں لکھا ہے:”وہ اہل علم کے شیخ ہیں، ساری روئے زمین پر بسنے والوں میں سب سے بڑی مستند ہیں اور ہمارے خیال میں وہ(اپنے زمانے کے)سب سے سن رسیدہ عالم ہیں“۔(۱۴۳)

            اما م ابن شافعؒ کے مطابق بروز بدھ ۲یا ۳/رجب ۵۳۵ھ میں قاضی صاحبؒ کا وصال ہوا۔(۱۴۴)

۲۳-امام ابن عساکر دمشقی رحمہ اللہ

            محدث شام ، فخر الائمہ، امام ابو القاسم علی بن حسن بن ھبة اللہ بن عبد اللہ شافعی المعروف ”ابن عساکرؒ“ کو بھی یہ سعادت حاصل ہوئی کہ انھوں نے مسند ابی حنیفہؒ کی تدوین کی ہے۔آپؒ مشہور ِعالَم کتاب ”تاریخ مدینہ دمشق“ کے مصنف ہیں،جو کہ ”تاریخ ابن عساکر“ کے نام سے مشہور ہے ۔آپؒ ۴۹۹ھ کے اوائل میں پیدا ہوئے۔ آپؒ نے سات سال کی عمر میں ہی حدیث کا سماع کیا۔ آپؒ کے شیوخ کی تعداد ۱۳۰۰تک ہے، ان میں سے ۸۰سے زائد خواتین بھی ہیں۔ آپؒ کے بعض اساتذہ درج ذیل ہیں:

            (۱) سبیع بن قیراطؒ                          (۲) ابو القاسم ابن حصینؒ

            (۳)عبداللہ بن محمد الغزالؒ                (۴) یوسف بن ایوب ہمدانی ؒ

            آ پؒ سے احادیث کا سماع درج ذیل ائمہ نے کیا:

            (۱) آپ کا بیٹا قاسمؒ                          (۲)حافظ ابو سعد سمعانیؒ

            (۳) معمر بن فاخرؒ                            (۴)یونس بن محمد فاروقیؒ ودیگر(۱۴۵)

            ۱-امام الجرح والتعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے اما م ابن عساکرؒ کی کتب میں ”مسند ابی حنیفہ“ کا بھی تذکرہ کیا ہے۔(۱۴۶)

            ۲- عربی لغت و ادب کے ماہر یاقوت بن عبداللہ حمویؒ(م ۶۲۶ھ) نے ”معجم الأدباء“ اور علامہ صلاح الدین خلیل صفدیؒ نے ”الوافی بالوفیات“ میں امام ابن عساکرؒ کی مسند کا ذکرکیا ہے۔

امام ابن عساکرؒ کا علمی مقام و مر تبہ

            ۱- امام ذہبیؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:”امام ابن عساکرؒسمجھ دار ،حافظ الحدیث، پختہ کار اور علم حدیث میں بصیرت رکھنے والے تھے“۔(۱۴۷)

            ۲- ابو الحسن سعد الخیرؒ فرماتے ہیں:”میں نے حافظ ابو القاسمؒ کی عمر میں ان جیسا نہیں دیکھا۔(۱۴۸)

            ۳- حافظ ابن نجارؒ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:”ابو القاسم اپنے زمانے میں محدثین کے امام تھے، حفظ ،اتقان ، ثقاہت اور معرفت تامہ کی ان پر انتہا تھی، علم حدیث کا فن ان پر ختم ہو گیا۔

            حافظ ابن عساکرؒ کا ۱۱/رجب۵۷۱ھ میں وصال ہوا۔(۱۴۹)

۲۴-امام علی بن احمد رازی رحمہ اللہ

            اما م علی بن احمد بن مکی رازیؒ کا لقب حسام الدین ہے۔آپؒ مشہور حنفی فقیہ ہیں ۔ابن عدیمؒ کہتے ہیں کہ ان سے ان کے چچا ابو غانم اور ایک جماعت نے علم فقہ حاصل کیا؛ جب کہ جلیل القدر فقیہ عمر بن بدر مو صلیؒ نے ان سے حدیث کا سماع کیا۔(۱۵۰)

            # ترکی کے نامور فاضل پرو فیسر فواد سیز گین نے اپنی کتاب ”تاریخ التراث العربی“ میں امام اعظمؒ کی مسانید کا تذکرہ کرتے ہوئے آٹھویں مسند کے متعلق لکھا ہے:”یہ مسند حسام الدین علی بن احمد رازی سے مروی ہے“۔

امام علی رازیؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- حافظ ابن عساکرؒ ان کے متعلق لکھتے ہیں:”انھوں نے ماور اء ا لنہر سے علم فقہ حاصل کیا ہے، اس کے بعد دمشق چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کی ،آپؒ مدرسہ صادر یہ میں تدریس کا فریضہ سرانجام دینے کے ساتھ سا تھ امام ابو حنیفہؒ کے مذہب پر فتویٰ دیتے تھے اور (حدیث سے) شواہد لاتے تھے نیز اختلافی مسائل میں مناظرہ بھی کرتے تھے۔(۱۵۱)

            ۲- حافظ ابو القادر قرشیؒ آپؒ کے علمی مقام کے متعلق لکھتے ہیں: ”آپؒ نے مختصر القد و ر ی پر ”خلاصة الدلائل فی تنقیح المسائل“ کے نام سے ایک عمدہ کتاب لکھی ہے، یہ وہ کتاب ہے جسے میں نے فقہ میں مکمل حفظ کیا ہے اور ضخیم جلد میں اس کی احادیث کی تخریج کی ہے اور اس پر شرح لکھی ہے۔(۱۵۲)

            امام علی بن احمدؒ کا وصال ۵۹۸ھ میں ہوا۔(۱۵۳)

۲۵-امام موسیٰ بن زکریا ا لحصکفی رحمہ اللہ

            یہ صدر الدین کے لقب سے مشہور ہیں اور حدیث وفقہ میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ ان سے متعدد ائمہ نے روایت کیا ہے جن میں حافظ دمیا طیؒ بھی ہیں، انھوں نے ان کا اپنی ”معجم الشیوخ“ میں تذکر ہ کیا ہے۔

            حافظ عبدالقادر قرشیؒ بھی ایک واسطہ سے ان کے شاگرد ہیں۔(۱۵۴)

            انھوں نے بھی مسند امام اعظمؒ لکھی ہے جس کو انھوں نے امام صاحبؒ کے شیوخ پر ترتیب دیا تھا پھر علامہ محمد عابد سندیؒ(م۱۲۵۷ھ) نے اس مسند کو فقہی ابواب پر ترتیب دیا ہے اور یہ مسند اب علامہ سندیؒ کی ترتیب کے ساتھ مطبوعہ ہے۔

علمی مقام و مر تبہ

            علامہ ابن العدیم(م ۶۶۰ھ)نے ”تاریخ حلب“ میں ان کے تذکرہ میں تصریح کی ہے کہ یہ مصر میں کئی علاقوں پر قاضی رہے ،اور متعدد مدارس میں تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔

            آپ کا انتقال ۶۵۰ھ میں قاہرہ میں ہوا اور حضرت سیدہ نفیسہؒ کے جوار میں مدفون ہوئے۔(۱۵۵)

۲۶-د امام ابو علی البکری رحمہ اللہ

            امام صدر الد ین ابو علی حسن بن محمد بن ابی الفتو ح محمد بن محمد بن محمد قرشی تیمی البکر ی کا سلسلہ نسب بوا سطہ قاسم بن محمد سیدنا حضرت ابو بکرؒ صدیق سے جا ملتا ہے۔ آپؒ ۵۷۴ھ میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے چند مشائخ کے نام درج ذیل ہیں:

            (۱) آپؒ کے نانا ابو حفص المیانشیؒ         (۲) حنبل دمشقیؒ

            (۳) حفصہ بنت حمکاؒ                         (۴) موٴید بن محمد طوسیؒ ودیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) تقی الدین بن الصلاحؒ                 (۲)بدر ابن التوزیؒ

            (۳) ابو عبداللہ بن زرادؒ                    (۴) ابوبکر بن یوسف حریریؒ(۱۵۶)

            ۱- محدث شام امام محمد بن یوسف صالحیؒ نے اپنے استاد شیخ الاسلام ابو الفضل بن ابی بکر شافعیؒ کے متصل طریق سے حافظ ابو علی البکر ی کی مسند ابی حنیفہؒ کا ذکر کیا ہے۔(۱۵۷)

            ۲- حافظ ابن طولونؒ نے بھی حافظ ابو علیؒ کی مسند کا ذکر کیا ہے۔(۱۵۸)

امام ابو علی ا لبکریؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- عمر بن حاجبؒ آپؒ کے بارے میں فرماتے ہیں:”آ پ امام، عالم،فصیح و بلیغ، خوبصورت، تحصیل علم کے لیے بے حد سفر کرنے والے؛ مگر اکثر اوقات دعوے بھی کرتے تھے“۔(۱۵۹)

            ۲- زکی الدین برزالیؒ کہتے ہیں: ”کان کثیر التخلیط․․․․“ اس پر امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: ”آخر عمر میں ان کی حا لت بہتر ہو گئی تھی“۔(۱۶۰)

            امام ابو علی البکر ی وصال سے کئی سال پہلے فالج میں مبتلا ہو گئے۔ پھر آپؒ مصر چلے گئے اور وہیں آپؒ نے ۱۱/ذوالحجہ۶۵۶ھ میں انتقال فرمایا۔(۱۶۱)

۲۷-امام محمد بن محمد بن محمد بن عثمان بلخی بغد اد ای رحمہ اللہ

            یہ عظیم محدث اور جلیل القدر حنفی فقیہ ہیں ۔آپؒ کا لقب ”النظام“ ہے اور یہ اپنے اس لقب سے مشہور ہیں۔ آپؒ کے اساتذہ اجلہ محدثین ہیں:

            (۱)الموٴ ید الطو سیؒ، (۲) مسعود بن مودودا لاستر آبادی ؒ، (۳) محمد بن عبدالر حیم الفامیؒ

            آپؒ کے شاگردوں میں کئی محدثین ہیں، جن میں سے مشہور محدث حافظ دمیا طی بھی ہیں۔

            انھوں نے بھی مسند ابی حنیفہؒ لکھی ہے، جس کا نام ”جزء ابی حنیفة“ ہے۔ حافظ عبدالقادر قرشیؒ نے اس مسند کا ان کے صاحبزادے امام عبدالوہاب بن محمدؒ سے سماع کیا تھا؛ چنانچہ حافظ عبدالقا در ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:”آپؒ کے بیٹے امام عبدالوہاب بن محمدؒ نے ان سے ”جزء ابی حنیفة“کو روایت کیا ہے اور میں نے امام عبدالوہابؒ سے اس جزء کا سماع کیا تھا۔(۱۶۲)

علمی مقام و مرتبہ

            ۱- حافظ ذہبیؒ ان کو ”مفتی الحنفیة“ قرار دیتے ہیں اور ان کے بارے میں تصریح کرتے ہیں کہ انھوں نے صحیح مسلم کا درس دیا ہے۔(۱۶۳)

            ۲- حافظ عبدالقادر قرشیؒ ان کے صاحبزادے کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :”آپؒ کے والد امام محمد کبارؒ فقہا ئے ا حنا ف میں سے تھے۔“

            امام محمد بن محمد بلخیؒ کا انتقال ۶۵۳ھ ہوا۔

۲۸-امام قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ

            امام موصوف کا شمار ان متبحر اور کثیر الاستحضار محدثین میں ہوتا ہے جن کی نظیر نہیں ملتی۔ انھوں نے حدیث کا درس امام بدرالدین عینیؒ، امام ابن حجر عسقلانیؒ اور امام ابن الہمامؒوغیرہ سے لیا ،جب کہ آپؒ سے شرف تلمذ رکھنے والے اس کثرت سے ہیں کہ موٴر ک ابن العمادؒ نے لکھا ہے:”ان سے علم حاصل کرنے والے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا ہے“۔

            شیخ فواد سیز گین کی تصریح کے مطابق انھوں نے امام ابو حنیفہؒ کی مسند بھی لکھی ہے اور اس کا مخطوطہ برلن وغیرہ کے کتب خانوں میں موجود ہے۔(۱۶۴)

            علامہ محمد شوکانیؒ نے بھی ان کی تعریف کی ہے اور ان کے بارے میں لکھا ہے کہ:”انھوں نے اپنے بعد اپنا ہم مثل نہیں چھوڑا“۔(۱۶۵)

            امام قاسمؒ کا انتقال ۸۷۹ھ میں ہوا۔

۲۹-امام شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ

            حافظ شمس الدین ابو الخیر محمد بن عبدالرحمان بن محمد بن ابی بکر بن عثمان بن محمدؒ عظیم موٴرخ اور جلیل القدر محدث ہیں۔ آپؒ ماہ ربیع الاول ۸۳۱ھ میں قاہرہ مصر کے ایک علاقہ بہاوٴ الدین میں باب الفتوح کے قریب پیدا ہوئے”سخا“ خاندان سے تعلق کی وجہ سے آپؒ کو سخاو ی کہا جاتا ہے۔آپ شافعی المذہب تھے۔ آپ کے اساتذہ درج ذیل ہیں:

            (۱) حافظ ابن حجر عسقلانیؒ                 (۲) حافظ بدرالدین عینیؒ

            (۴)تقی الدین ابن فہدؒ                    (۴) برہان الدین زمزیؒ ودیگر(۱۶۶)

             حافظ شمس الدین سخاویؒ نے ”الضوء اللامع“ میں بنفس نفیس اپنی تصانیف کا تذکرہ کیا تو اس میں امام اعظمؒ سے مروی احادیث پر مشتمل اپنی کتاب ”التحفة المنیفة فیما وقع لہ من حدیث الامام أبی حنیفة“ کو بھی شامل کیا ہے۔(۱۶۷)

امام سخاویکا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام سخاوی ؒنے شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانیؒ سے اس قدر اکتساب فیض کیا انھیں کہنا پڑا: ”میرے ہم منصبوں میں سے قریب ترین ہیں“۔(۱۶۸)

            ۲- امام سخاویؒ کے تلمیذ رشید شیخ جار اللہ بن فہد مکیؒ نے آپؒ کے متعلق فرمایا:”اللہ رب العزت کی قسم!یہ حقیقت ہے کہ متاخر حفاظ حدیث میں سے میں نے ان جیسا کوئی نہیں دیکھا،جس شخص نے بھی ان کی تصانیف کا مطالعہ کیا ہے یا انھیں دیکھا وہ اس بات کو جانتا ہے۔(۱۶۹)

            امام شمس الدین سخاویؒ نے مدینہ منورہ میں ۲۸/شعبان ۹۰۲ھ میں وصال فرمایا۔(۱۷۰)

۳۰- امام عیسیٰ بن محمد ثعالبی رحمہ اللہ

            امام الحرمین الشریفین ،عالم المغربین و المشرقین عیسیٰ بن محمد بن محمد بن احمد عامر کا لقب ”جاراللہ“ اور کنیت ابو مکتوم و ابو مہدی ہے۔آپ کا سلسلہ نسب حضرت جعفر بن ابی طالبؒ سے ملتا ہے اس لیے جعفری اور ہاشمی کہلاتے ہیں ۔مولد کے اعتبار سے مغربی، اصلاًجزائر کے علاقہ ثعالبہ سے تعلق رکھنے کی بناپر ثعالبی جب کہ مذہب کی بنا پر مالکی ہیں۔ آپ مر اکش کے علاقہ زواوہ میں ۱۰۲۰ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے شیوخ درج ذیل ہیں:

            (۱) عبدالصادقؒ، (۲)برہان مامونیؒ، (۳) شمس محمد شوبریؒ، (۴) نور علی الاجھوریؒ ودیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) احمد بن محمد نخلیؒ، (۲) حسن بن علی عجیمیؒ، (۳) سید احمد بن ابی بکر ؒودیگر

            حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:

            ۱- ”محدث ثعالبی نے امام ابو حنیفہؒ کی مسند کو تالیف کیا ،اس میں وہ متصل سند کے ساتھ عنعنہ سے امام ابو حنیفہؒ تک احادیث لائے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کا دعوی باطل ہوگیا جو تابعین کے دور میں عدم اتصال سند کا گمان کرتے ہیں“۔(۱۷۱)

            ۲- ڈاکٹر فواد سیزگین نے بھی مسانید ابی حنیفہؒ میں بارہویں مسند ”مسند ثعالبی“ کو ہی درج کیا ہے۔(۱۷۲)

علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام محمد المحبی حافظ ثعالبی کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:”امام ا لحر مین، دنیائے شرق و غرب کے نامور عالم،امام،با عمل عالم ،صالح، زہد و ورع کے پیکر،علم و تحقیق کے ہر میدان کا احاطہ کرنے والے ہیں۔“(۱۷۳)

            ۲- امام ثعالبیؒ کے شیخ برہان مامو نی نے آپ کو اجازت علمی دیتے ہوئے لکھا ہے:”انھوں نے کتنے زمانوں سے اپنی مثل بلکہ منزلت علم میں اپنے قریب تک کوئی نہیں دیکھا“۔(۱۷۴)

            امام محمد محبیؒ اور علامہ عصامیؒ کے مطابق امام ثعالبیؒ کا وصال بروز بدھ ۱۴/رجب ۱۰۸۰ھ میں ہوا۔(۱۷۵)

#         #         #

حواشی

(۱)          امام ابو حنیفہ کا محد ثا نہ مقام از حضرت مولانا حافظ ظہور أحمد الحسینی ۔ (۲) التقیید لمعرفة السنن و المسا نید: چ۳، ج۱۔

(۳)         الخیرات الحسان: ۱۴۴۔                                              (۴)         عقود الجمان،ص: ۳۲۳۔

(۵)         تانیب الخطیب ،ص: ۱۵۶۔                                         (۶)          الرسالة المستطرفة ، ص: ۲۱۔

(۷)         تانیب الخطیب ،ص: ۱۵۶۔                                         (۸)         قرة العینین فی تفصیل الشیخین ، ص:۱۵۸۔

(۹)          تعجیل المنفعة ،ص: ۱۸۔                                               (۱۰)        بغیة الطلب فی تاریخ حلب : جلد ۶، ص ۲۷۱۰۔

(۱۱)         الکواکب السائرة،ص: ۱۷۱۔                                       (۱۲)        تاریخ بغداد للخطیب بغدادی:جلد۲ ص۱۷۳۔

(۱۳)       مناقب الامام ابو حنیفہ لکردی :جلد۲ ص ۱۵۵۔               (۱۴)       لسان المیزان لعسقلانی:جلد۵ ص ۱۲۱۔

(۱۵)         الانساب لسمعانی :جلد۳،ص ۴۸۴۔                             (۱۶)        اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ لصمیری، ص۱۳۰۔

(۱۷)       سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد۶ ص۴۰۳۔                       (۱۸)        المعجم المفہرس لعسقلانی: ص ۳۷۳، رقم ۱۱۲۱۔

(۱۹)        عقود الجمان لصالحی شامی: ص۳۳۰۔                              (۲۰)       الجرح و التعدیل لابن حاتم:جلد ۳ ص۱۴۹۔

(۲۱)        اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ للصمیری: ص ۱۵۱۔                      (۲۲)       سیر اعلام النبلاء للذہبی : جلد۶، ص۴۰۳۔

(۲۳)      الجواہر المضیئة للقرشی: ص ۱۴۸۔                                (۲۴)      الفوائد البھیة لعبد الحی لکھنوی: ص۱۱۹۔

(۲۴)      سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد۶ ص۴۰۳۔                      (۲۵)       تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی: جلد۳ ص۳۱۰۔

(۲۷)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی:جلد۱ ص ۲۸۷۔           (۲۸)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی: جلد۴ ص ۴۰۳۔

(۲۹)       کتاب الانساب :جلد۴، ص ۲۶۳۔                                (۳۰)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی : جلد ۳ ص ۳۱۱۔

(۳۱)       سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد ۱۵،ص ۲۵۷۔                   (۳۲)      لسان المیزان للعسقلانی: جلد ۵، ص ۳۷۴۔

(۳۳)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی : جلد ۳ ص ۳۱۱۔            (۳۴)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی: جلد ، ص ۔

(۳۵)      سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد، ص ۔                                (۳۶)       زاہد الکوثری، تانیب الخطیب للزاہد الکوثری

(۳۷)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی: جلد۴ ص ۳۲۷۔          (۳۸)      لسان المیزان للعسقلانی: جلد۱، ص۲۶۵۔

(۳۹)       تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی:جلد۵، ص ۱۶۔             (۴۰)      سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد۱۵، ص ۳۴۵۔

(۴۱)       سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۵، ص ۳۴۴۔                   (۴۲)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی:جلد ۵، ص ۲۲۔

(۴۳)      جامع المسانید للخوارزمی:جلد ۱، ص ۷۷۔                        (۴۴)      عقود الجمان للصالحی شا می: ص ۳۳۳۔

(۴۵)      تذکرة ا لحفاظ للذہبی: ۔جلد ۲، ص ۷۰۰۔                      (۴۶)       الجواھر ا لمضیئة للقرشی: ص۴۹۔

(۴۷)      عقود الجمان للصالحی شا می:ص۴۹۔                                (۴۸)      جامع المسانید للخوارزمی جلد ۱، ص ۷۳۔

(۴۹)       عقود الجما ن للصالحی ص۳۲۷۔                                      (۵۰)       کشف الظنون لحاجی خلیفہ: جلد ۲، ص۱۶۸۱۔

(۵۱)        عقود الجو اہر المنیفةلمرتضی :جلد ۱، ص ۶۔                       (۵۲)       تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی :جلد ۱۱، ص ۲۳۸۔

(۵۳)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی ،جلد ۱۱، ص ۲۳۷۔        (۵۴)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی ،جلد ۱۱، ص ۲۳۸۔

(۵۵)       تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی ،جلد ۱۱، ص ۲۳۸۔        (۵۶)       تاریخ بغداد، جلد ۱، ص۴۲۶۔

(۵۷)      سیر اعلام النبلاء للذہبی ۔جلد ۱۵، ص۴۲۴۔  (۵۸)      جامع المسانید للخوارزمی : جلد ۱، ص ۷۰۔

(۵۹)       تنقیح تحقیق، أحادیث التعلیق لابن عبدالھادی: جلد ۳، ص ۲۱۵۔

(۶۰)       الاصابة فی تمییز الصحابہ للعسقلانی :جلد ۲، ص ۴۴۸۔

(۶۱)        نیل الأو طار للشوکانی،جلد ۷، ص ۲۷۲۔                         (۶۲)       سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد ۱۵، ص ۴۲۵۔

(۶۳)       سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد۱۶، ص ۱۵۵۔                     (۶۴)       السھم المصیب لعیسی ایوبی: ص ۱۰۵۔

(۶۵)       جامع المسانید للخوارزمی: جلد ۱، ص ۷۳۔                        (۶۶)       تاریخ جرجان لحمزہ بن یوسف جرجانی: ص ۲۶۷۔

(۶۷)       سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد۱۶، ص ۱۵۵۔                     (۶۸)       تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد ۳، ص ۹۴۲۔

(۶۹)        سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۶، ص ۴۱۸۔                    (۷۰)      التقیید لمعرفة رواة السنن و المسا نید لابن نقطہ: ص ۱۱۳۔

(۷۱)       جامع المسانید للخوارزمی : جلد۱ ص ۷۱۔                           (۷۲)      کشف ا لظنو ن لحاجی خلیفہ: جلد ۲، ص ۱۶۸۱۔

(۷۳)      تذ کرة الحفاظ للذہی: جلد ۳، ص ۹۸۱۔                           (۷۴)      تاریخ بغداد للخطیب بغدادی: جلد ۳، ص ۲۶۴۔

(۷۵)      تاریخ بغداد للخطیب بغدادی : جلد ۹ ص ۳۵۱۔                               (۷۶)       جامع المسا نید للخوارزمی: جلد ۱، ص۷۰۔

(۷۷)      جامع المسا نید للخوارزمی: جلد۲، ص ۴۸۷۔

(۷۸)      المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم لابن جوزی، جلد ۷، ص ۱۵۴۔

(۷۹)       جامع المسا نید للخوارزمی: جلد ۲ ص ۴۸۷۔                      (۸۰)      میزان الاعتدال للذہبی:جلد ۸، ص ۱۲۸۔

(۸۱)       تاریخ بغداد لخطیب بغدادی: جلد ۹، ص ۳۵۱۔               (۸۲)      سیر اعلام النبلاء :جلد ۱۶ ص۴۰۰۔

(۸۳)      التقیید لابن نقطہ: ص ۲۷۔                                         (۸۴)      تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۳، ص ۹۷۳۔

(۸۵)      سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۶، ص۴۰۰۔                    (۸۶)       سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۶، ص۴۰۰۔

(۸۷)      التقیید لابن نقطہ:ص ۲۷۔                                         (۸۸)      سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد ۱۶ ص ۴۰۲۔

(۸۹)       تانیب الخطیب لزاہد الکوثری:ص ۱۵۶۔                       (۹۰)       تذکرة الحفاظ: جلد ۳، ص ۱۳۲۔

(۹۱)        تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر: جلد ۴۳، ص ۱۰۱۔          (۹۲)       تاریخ بغداد للخطیب بغدادی: جلد ۱۲ ص ۳۹۔

(۹۳)       تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد ۳، ص ۹۸۷۔                         (۹۴)       تانیب الخطیب لزاہد الکوثری: ۱۵۶۔

(۹۵)       تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد ۳ ص ۹۸۸۔                          (۹۶)        سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد ۱۶، ص ۴۳۲۔

(۹۷)       تاریخ بغداد للخطیب بغدادی: جلد ۱۱، ص ۲۶۷۔            (۹۸)       سیر اعلام االنبلاء للذہبی: جلد ۱۷، ص ۲۸۔

(۹۹)        تاریخ التراث العربی لفواد سیزگین :جلد ۳، ص ۴۲۔      (۱۰۰)     التقیید لابن نقطہ: ص ۴۰۔

(۱۰۱)      تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۳ ص ۱۰۳۴۔                        (۱۰۲)     تاریخ مدینہ دمشق،لابن عساکر :جلد ۱۷ ص ۳۶۔

(۱۰۳)     سیر اعلام النبلاء للذھبی : جلد ۱۷، ص ۴۸۷۔                  (۱۰۴)     جامع المسا نید للخوارزمی:جلد۱ ص ۷۲۔

(۱۰۵)     تانیب الخطیب لزاہد الکوثری: ص ۱۵۶۔                       (۱۰۶)     عقو دالجواھر المنیفہ:جلد۱ ص ۶۔

(۱۰۷)     سیراعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۷ ص ۴۵۸۔                    (۱۰۸)     شذرات الذہب لابن عماد :جلد۳ ص ۲۴۵۔

(۱۰۹)      سیراعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۷ ص ۴۶۲۔                     (۱۱۰)      الصلة لابن بشکوال: ص ۱۶۔

(۱۱۱)       کشف الظنون لحاجی خلیفہ:جلد ۲ ص ۱۶۸۱۔                   (۱۱۲)      عقود الجمان لصالحی شامی: ص ۳۲۸۔

(۱۱۳)      الصلة لابن بشکوال:ص ۱۶۔                                         (۱۱۴)      الصلة لابن بشکوال:ص ۱۶۔

(۱۱۵)      تاریخ بغداد للخطیب بغدادی :جلد ۱۲ ص ۱۰۲۔              (۱۱۶)      کشف الظنون لحاجی خلیفہ:جلد ۲ ص ۱۶۸۱۔

(۱۱۷)      الوافی بالوفیات للالصفدی:جلد ۲۱ ص ۲۹۸۔                  (۱۱۸)      تاریخ بغداد للخطیب بغدادی :جلد ۱۲ ص ۱۰۲۔

(۱۱۹)       لسان المیزان لعسقلانی:جلد ۴، ص ۲۶۰۔                     (۱۲۰)     تاریخ بغداد للخطیب بغدادی :جلد ۱۲ ص ۱۰۲۔

(۱۲۱)      سیراعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۷ ص ۲۷۰۔                    (۱۲۲)     تانیب الخطیب لزاہد الکوثری: ص ۱۵۶۔

(۱۲۳)     سیراعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۷، ص ۲۷۶۔                   (۱۲۴)     سیراعلام النبلاء للذہبی:جلد۱۸ ص ۲۷۶۔

(۱۲۵)     تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر :جلد ۵ ص ۳۸۔              (۱۲۶)     تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۳ ص ۱۱۸۳۔

(۱۲۷)     تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۳، ص ۱۱۸۹۔                        (۱۲۸)     تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۳، ص ۱۱۸۹۔

(۱۲۹)      تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۳ ص ۱۱۸۴۔                         (۱۳۰)     التقیید لابن نقطہ :ص ۳۲۳۔

(۱۳۱)      جامع المسا نید للخوارزمی:جلد ۲ ص ۴۳۴۔                      (۱۳۲)     جامع المسا نید للخوارزمی :جلد۲، ص ۴۳۵۔

(۱۳۳)    سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد۱۹ ص ۵۹۲۔                      (۱۳۴)    الجواہر المضیئة للقرشی: ص ۱۴۳۔

(۱۳۵)     جامع المسا نید للخوارزمی: جلد ۲ ص ۴۳۴۔                      (۱۳۶)     جامع المسا نید للخوارزمی: جلد ۲ص ۴۳۵۔

(۱۳۷)    تاج التراجم لابن قطلوبغا: ص۱۶۱ ۔                               (۱۳۸)    الجواہر المضیئة للقرشی: ص ۱۴۳۔

(۱۳۹)     عقود الجمان لصالحی شامی: ص ۳۲۵۔                              (۱۴۰)     عقود الجواہر لمرتضیٰ زبیدی:جلد ۱ ص۶۔

(۱۴۱)      لسان المیزان للعسقلانی:جلد ۵ ص ۲۴۲۔

(۱۴۲)     سیر اعلام النبلاء للذ ہبی:جلد۲۰ ص۲۶۔

(۱۴۳)    التقیید لمعرفة رواة السنن و المسانید لابن نقطہ: ص ۸۲۔

(۱۴۴)    التقیید لمعرفة رواة السنن و المسانید لابن نقطہ: ص ۸۲۔

(۱۴۵)     تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۴ ص ۱۳۲۹۔

(۱۴۶)     سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد۲۰، ص ۵۶۳۔

(۱۴۷)    سیر اعلام النبلاء : (ت۵۱۲۹)۔

(۱۴۸)    تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد۴ ص ۱۳۳۱۔

(۱۴۹)     تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد ۴ ص ۱۳۳۷۔

(۱۵۰)     الجواہر المضئة للقرشی: ص ۲۳۰۔

(۱۵۱)      تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر:جلد ۵۳ ص ۲۵۲۔

(۱۵۲)     الجواہر المضیئة للقرشی: ص ۲۳۰۔

(۱۵۳)     الجواہر المضیئة للقرشی: ص ۲۳۰۔

(۱۵۴)     الجواہر المضیئة للقرشی :جلد ۲ ص ۱۸۶۔

(۱۵۵)     الجواہر المضیئة للقرشی :جلد ۲ ص ۱۸۶۔

(۱۵۶)     تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۴ ص۱۴۴۴۔

(۱۵۷)     عقود الجمان لصا لحی: ص ۳۳۴۔

(۱۵۸)     تانیب الخطیب لزاہد الکوثری:ص ۱۵۶۔

(۱۵۹)      تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد۴ ص۱۴۴۴۔

(۱۶۰)     تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد ۴ ص۱۴۴۴۔

(۱۶۱)      تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد ۴ ص ۱۴۴۴۔

(۱۶۲)     الجواہر المضیئة:جلد ۱ص ۳۳۵۔

(۱۶۳)     سیر اعلام النبلاء : (ت ۵۸۶۶)

(۱۶۴)     تاریخ التراث العربی:جلد ۳ ص ۴۳۔

(۱۶۵)     البدر الطالع:جلد۱ ص ۳۸۴۔

(۱۶۶)      شذرات الذہب لابن عماد:جلد ۸ ص ۱۵۔

(۱۶۷)     الضوء اللامع لسخاوی:جلد ۸ ص ۱۶۔

(۱۶۸)     شذرات الذہب لابن عماد:جلد ۸ ص ۱۵۔

(۱۶۹)      النورالسافر لعبدالقادر عیدروسی: ص ۲۲۔

(۱۷۰)     شذرات الذھب لابن عماد:جلد ۸ ص ۱۷۔

(۱۷۱)      انسان العین فی مشائخ الحرمین لشاہ ولی اللّٰہ: ص ۷۔

(۱۷۲)     تاریخ التراث العربی لفواد سیز گین:جلد۳، ص ۴۴۔

(۱۷۳)    خلاصة الأثرلمحبی: جلد ۳، ص ۲۴۲۔

(۱۷۴)    خلاصة الأثرلمحبی: جلد ۳، ص ۲۴۲۔

(۱۷۵)     خلاصة الأثرلمحبی: جلد ۳، ص ۲۴۲۔

مسند امام اعظم , الحصكفي اور مسند حماد بن ابي حنيفه يعني كتاب الآثار ابي حنيفة بروايت حماد 


امام ابوحنیفہؒ کی کتاب الآثار حدیث کی سب سے قدیم اور صحیح کتب میں سے ہے ۔

موجود طبع شدہ کتب میں اس سے پہلے کی غالباََ صرف صحیفہ ہمام بن منبہؒ ہے ۔

کتاب الآثار اور موطا امام مالک ؒ کا طرز آپس میں کافی ملتا جلتا ہے ۔

یہ دو بڑے ائمہ کی کتب کئی حوالوں کے علاوہ اس لحاظ سے بھی دوسری کتب سے منفرد ہیں کہ ان کو روایت کرنے والے بھی عظیم فقہاء اور ائمہ ہیں اور کثیر تعداد میں ہیں ۔


کتاب الآثار کو امام ابو یوسفؒ ، امام محمدؒ ، امام زفرؒ ، امام المقرئ حمزہ بن زیاتؒ ، اور کئی دوسرے ائمہ نے روایت کیا جن کی تفصیل مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کے مقدمہ کتاب الآثار میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

اسی طرح موطا امام مالک ؒ کو بھی امام یحییؒ ، امام محمد ؒ ، امام ابن القاسمؒ ، امام شافعیؒ کے علاوہ کثیر ائمہ نے روایت کیا ۔

کتاب الآثار کے دو نسخے امام محمد ؒ اور امام ابو یوسفؒ کے دستیاب اور متداول ہیں ۔
امام حسن بن زیادؒ کے نسخہ کے مخطوطہ کا ذکر فہارس میں موجود ہے ۔

اس کے علاوہ دوسرے نسخے میری معلومات کے مطابق بذات خود فی الحال دستیاب نہیں ہیں ۔

لیکن امام ابوحنیفہؒ کی مسانید جمع کرنے والے محدثین نے اپنی اسانید سے ان نسخوں کی کئی روایات کو محفوظ کرلیا ہے ۔

اصل نسخہ اور مسند میں روایت شدہ احادیث کے درمیان فنی لحاظ سے یہ فرق ہے کہ اگر صرف سند کی تحقیق کرنی پڑے تو اصل نسخہ میں امام ابوحنیفہؒ سے اوپر کے راویوں کی ہی تحقیق کرنی پڑے گی ۔ جبکہ مسند میں روایت کردہ حدیث کی سند کی جامع مسند سے امام ابوحنیفہؒ تک کے راویوں کو بھی دیکھنا پڑے گا ۔

مثال کے طور پہ کتاب الآثار بروایت حسن بن زیادؒ ابھی چھپی نہیں ۔ لیکن اس کی سینکڑوں روایات ایک ہی سند سے
جامع المسانید خوارزمی میں کئی دوسری مسانید کے حوالے سے مروی ہیں ۔ اور مسند ابن خسرو میں بھی مروی ہیں ۔
مولانا محقق ابو الوفا افغانیؒ فرماتے ہیں کہ مسند حسن بن زیادؒ (یعنی نسخہ کتاب الآثار بروایت حسن) کو جامع المسانید اور ابن خسروؒ نے پورا محفوظ کر لیا ہے ۔

اب اس پر میرے نزدیک اعتماد کیا جاسکتا ہے اور صاحب جامع المسانید اور ابن خسروؒ سے لے کر امام حسن بن زیادؒ تک کی
سند کی تحقیق کی زیادہ حاجت نہیں ۔
اور امام خوارزمی ؒ صاحب جامع المسانید کے پاس تو مسند حسن بن زیادؒ موجود بھی تھی۔ وہ اس کی روایات

(وأخرجه) الحسن بن زياد في مسنده

کہہ کر براه راست نقل کرتے ہیں ۔

اور اگر اصل نسخہ دستیاب ہو تو اس کی روایت پھر اور زیادہ معتمد ہو گی ۔

اسی طرح نویں صدی ہجری کے بڑے محدث حنبلی عالم ابن الدوالیبی الحنبلی ۸۵۸ھ نے کتاب الآثار بروایت حسن بن زیاد(جس کو بعض مسند الحسن بن زیاد بھی کہتے ہیں)
اس کتاب سے ۶۰ احادیث ’’ الاحادیث الستون ابی حنیفہ ‘‘ کے عنوان سے روایت اورجمع کی ہیں ۔

اس کا مخطوطہ بھی موجود ہے اور علامہ زاہد الکوثریؒ نے امام حسن بن زیاد ؒ کی سوانح ’’ الامتاع ‘‘ میں ان کو نقل بھی کردیا ہے جو طبع ہے ۔
اس کی حیثیت کتب احادیث سے جو زوائد جمع کئے جاتے ہیں اس جیسی ہے ۔ اب چاہے اصل کتاب مفقود ہوجائے لیکن زوائد جمع کرنے والا اگر ثقہ عالم ہے تو اس پر اعتماد لازمی ہے ۔

اسی لئے ہم امام خوارزمیؒ اور امام ابن الدوالیبی الحنبلیؒ پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس کی حیثیت اصل نسخہ جیسی ہی ہے ۔
----------------------------
امام ابوحنیفہ ؒ کے صاحبزادے امام ابن الامام حماد بن ابی حنیفہؒ نے بھی کتاب الآثار کو امام صاحب سے روایت کیا ہے ۔

جس کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ دوسرے کئی محدثین کی طرح حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی المعجم المفہرس میں اس کا ذکر

نسخة حماد بن أبي حنيفة عن أبيه

۔ کہہ کر کیا ہے ۔ اور امام حماد ؒ تک اپنی سند بھی نقل کی ہے

اور ابن کثیر ؒ نے تفسیر میں اس نسخہ کی روایت حماد بن أبي حنيفة عن أبيه کہہ کر نقل کی ہے ۔

اس نسخہ کی بھی بہت سی روایات مسانید ابی حنیفہ میں موجود ہیں ۔
جامعین مسانید جو بڑے بڑے محدثین ہیں ، ان کی اور حافظ ابن حجرؒ کی سند بھی تقریباََ ایک جیسی ہی ہے ۔

امام ابو حنیفہؒ کی مسانید میں سب سے زیادہ مشہور ، مستند ۔۔امام حافظ عبد الله الحارثی البخاریؒ 340ھ کی مسند امام اعظم ہے

جس کا اختصار ساتویں صدی ہجری کے عالم حافظ دمیاطی ؒ کے شیخ حافظ موسي بن زكريا الحصكفيؒ 650ھ نے کیا۔
جو کہ بہت مشہور ہے ۔آج کل خصوصاََ اردو میں مطلق مسند امام اعظم بولا جائے تو اس سے یہی مراد لی جاتی ہے ۔


اگرچہ مسند الحصکفیؒ ۔۔۔۔۔۔۔مسند الحارثیؒ کا ہی اختصار ہے لیکن انہوں نے کچھ وہ روایات جو امام حماد بن ابی حنیفہؒ نے
اپنے والد سے روایت کی ہیں ۔۔۔وہ بھی اس میں لی ہیں ۔
مولانا ابو الوفا افغانی ؒ نے مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کو خط میں لکھا کہ ایسی روایات الحصکفی ؒ نے مسند ابن خسرو سے لی ہیں ۔

لیکن یہ خیال تب کیا جا سکتا ہے کہ جب یہ سمجھ لیا جائے کہ امام حمادؒ کا اصل نسخہ مفقود ہے ۔ حالانکہ حافظ ابن حجرؒ ،
حافظ خوارزمیؒ ، حافظ ابن کثیرؒ وغیرہ اس نسخہ سے واقف ہیں تو حافظ الحصکفیؒ تو ان سے بھی پہلے کے ہیں ۔

اس لئے زیادہ گمان ہے کہ انہوں نے یہ روایات ۔نسخہ حماد بن ابی حنیفہ عن ابیہ ۔ سے براہ راست نقل کی ہیں ۔

مسند الحصکفیؒ کی اصل مسند ابھی چھپی نہیں ۔ جو چھپی ہوئی ہے وہ مسند حصکفیؒ کو فقہی ابواب پر شیخ حافظ عابد سندیؒ نے مرتب کیا ہے ۔ یہ کتاب چھپی ہوئی ہے ۔

گمان تھاکہ اصل مسندحصکفی دیکھنے سے یہ معلوم ہوسکتا ہےکہ انہوں نے ابن خسروؒ سے لی ہیں یا اصل نسخہ حمادؒ

سے ۔ پھر یہ گمان قوی سے بڑھ کرکافی حد تک یقین کے درجہ میں ہوگیا ۔

اسلامی کتب کے مخطوطات کے بڑے ذخائر میں سے ایک ملک ترکی بھی ہے جہاں بڑے قدیم مخطوطات موجود ہیں ۔

ترکی کا مشہور مکتبہ ہے ۔۔ینی جامع ۔

بالتركية : Yeni Cami

اس مكتبه میں ایک حدیث کے مجموعہ کا مخطوطہ ہے جو ۷۵۹ھ کا لکھا ہوا ہے ۔
اور آٹھویں صدی ہجری کے حنفی عالم محدث کا ہے ۔

كتاب التيسير في حديث البشير النذير - صلي الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم تسليما

اس کے ناسخ عثمان بن محمد بن عثمان الكراكي الانصاري ہیں ۔
اور مصنف کا نام ہے ۔

الشيخ الامام المتقن المفنن قاضي القضاه الورع الزاهد العالم العامل

علم الدين ابي داؤد سليمان ابن الشيخ شرف الدين (اوشر بن بلدق) الترکمانی (او الترجمانی) الحنفي
المعروف بقاضي حماه

المتوفي 736هـ

حافظ ابن حجرؒ نے درر الکامنہ میں اور حافظ تقی الدین نے طبقات السنیہ میں ان کا مختصر ذکر کیا ہے ۔

حماة قَضَاء سُلَيْمَان التركماني الْحَنَفِيّ نَشأ بحمص ودرس بهَا ثمَّ ولي


مشاركاً فِي الْفُنُون ويدري القراآت مَاتَ فِي ربيع الآخر سنة736 وَكَانَ

طبقات السنیۃ میں ہے

سليمان بن عبد اللّه القاضى، علم الدّين التّركمانىّ *

قال فى «الدّرر»: نشأ بحمص، و درّس بها، ثم ولى قضاء حماة.

و كان مشاركا فى الفنون، و برّز فى القراءات .

و مات فى ربيع الآخر، سنة ست و ثلاثين و سبعمائة. رحمه اللّه تعالى.

ان کی یہ کتاب ۔

ایک طرح سے جامع الاصول مجد الدین ابن الاثیر الجزریؒ ۶۰۶ھ کے اوپر ایک طرح کا کام ہے ۔ اس میں انہوں نے کچھ ترتیب بدلی ہے اور جامع الاصول میں جو کتب تھیں ۔ موطا ۔ بخاری ۔ مسلم ۔ ابو داود ۔ نسائی ۔ ترمذی ۔ رزین ۔ اس میں مسند امام اعظم کا اضافہ کیا ہے ۔ جو کتاب کے آخر میں ہے ۔اور صفحہ ۲۷۷ سے شروع ہوتی ہے ۔








۔ مسند الامام ابي حنيفة من رواية الحصكفي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور روایات امام ابوحنیفہ ؒ کے شیوخ کی ترتیب پر ہیں ۔پھر صفحہ ۲۹۷ تک روایات ہیں

اور پھر جلی عنوان ہے ۔

مسند حماد بن ابي حنيفة رحمهما الله عن ابيه

پھر ۔ حماد عن ابیہ ۔ کی سند سے تقریباََ ۳۱ روایات بیان کی ہیں ۔جو مخطوطہ کے آخری ڈھائی صفحات پر ہیں ۔
جن کا عکس نیچے موجود ہے ۔

اس میں مسند حماد بن ابی حنیفہؒ کی پہلی روایت یہ ہے ۔



حماد بن أبي حنيفة، عن أبيه، عن ابن خثيم المكي، عن يوسف بن ماهك،
: صلى الله عليه وسلم حفصة ؓ زوج النبي عن
أن امرأة أتتها فقالت: إن زوجي يأتيني مجبية ومستقبلة فكرهته،
فقالصلي الله عليه وسلم النبيفبلغ ذلك

. ((لا بأس إذا كان في صمام واحد))

یہ روایت سورۃ بقرہ ۲۲۲،۲۲۳ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیرؒ نے اسی طریق سے نقل کی ہے ۔
وقد روي من طريق حماد بن أبي حنيفة , عن أبيه ,عن ابن خثيم .......(تفسیر ابن کثیر)۔

اورمخطوطہ میں آخری روایت یہ ہے ۔

حماد بن أبي حنيفة، عن أبيه، عن إسماعيل بن أبي خالد، وبيان بن بشر، عن قيس بن أبي حازم قال:
سمعت جرير بن عبد الله ؓ يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
((سترون ربكم عز وجل كما ترون هذا القمر ليلة البدر، لا تضامون في رؤيته،
فانظروا ألا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس، وقبل غروبها)).

قال حماد يعني به الغداة والعشي.

اس میں امام حمادبن ابی حنیفہ ؒ نے تشریحی الفاظ بھی بڑھائے ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا طرز بھی
امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کی طرح تھا۔ یعنی صرف روایت نہیں کیا ۔ بلکہ کتاب میں اضافہ بھی کیا ہے ۔

یہ روایات مسند حصکفی جو چھپی ہوئ ہے جو دراصل ترتیب سندی ہے ۔ اس میں تو موجود ہیں ہی ۔ اور مسند ابن خسرو ؒ میں بھی ہیں ۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ براہ راست الآثار ابی حنیفہ بروایت حماد ۔ یعنی نسخہ حماد بن ابی حنیفہ عن ابیہ ۔ سے نقل کی گئی ہیں ۔

ممکن ہے اس کا مخطوطہ بھی کہیں ہو اور کبھی سامنے آجائے ۔

واللہ سبحانہ اعلم ۔












============================= 



امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله ان مقدس ومحترم شخصيات ميں سے ہیں ، جن کے خلاف فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی طرف طعن وتشنیع وتنقید کا بازار گرم رہتا هے ، اس فرقہ جدید میں شامل تقریبا ہرچهوٹا بڑا امام عالی شان کی ذات میں توہین وتنقیص کا کچهہ نہ کچهہ اظہار کرتا رہتا ہے ، اور یہ صفت قبیحہ اس فرقہ جدید کے تمام ابناء میں سرایت کی ہوئ ہے ، الاماشاءالله من جملہ ان وساوس باطلہ کے ایک وسوسہ یہ امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کے خلاف پهیلایا جاتا هے کہ ان کو تو حدیث کا کچهہ بهی پتہ نہیں تها علم حدیث سے بالکل کورے تهے ( معاذالله ) ،اس باطل وسوسہ پرکچهہ بحث غالبا گذشتہ سطور میں گذرچکی ہے ،لیکن مزید اطمینان قلب کی خاطرمیں امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کی ان مسانید کا تذکره کروں گا ، جن کوکباراهل علم نے جمع کیا هے

تعريف المسانيد:
مسانيد جمع ہے مسند کی جوکہ ( سَنَدَ ) سے اسم مفعول ہے،

اهل لغت نے اس کی تعریف لغوی اس طرح پیش کی هے،

المسانيد أو المساند جمع : مسند ، وهو : اسم مفعول من الثلاثي : ( سَنَدَ ) ، قال ابن فارس ( ت 395 هـ ) : " السين والنون والدال أصل واحد يدل على انضمام الشيء إلى الشيء . وقد سُمِّي الدهر : مُسنَدًا ؛ لأن بعضه متضام " )

وقال الليث : " السند ما ارتفع عن الأرض " وقال الأزهري ( ت 370 هـ ) : " كل شيء أسندت إليه شيئًا فهو مُسنَد " وحكى أيضًا عن ابن بُزُرْج أن السَّنَد مثقل : ( ( سنود القوم في الجبل ) ) ، وقال الجوهري ( ت 393 هـ ) : " السَنَد : ما قابلك من الجبل وعلا عن السطح ، وفلان سَنَده أي : معتمد " وقال ابن منظور ( ت 711هـ ) : " ما يسند إليه يُسمى مسْنَدًا ومُسْنَدًا ، وجمعه : المَساند " (13) وزاد صاحب القاموس أنه يجمع أَيضًا بلفظ : ( مسانيد ) ، ويرى أبو عبد الله : محمد بن عبد الله الشافعي الزركشي ، ( ت 794 هـ ) ( أن الحذف أولى .

حاصل یہ کہ مسند کا معنی لغوی اعتبار سے یہ هے کہ جوکسی چیزکی طرف منسوب کیا جائے ، جوکسی چیزکی طرف ملایا جائے ، اس چیزکومضبوط کرنے کے لیئے٠

مسند کی اصطلاحى تعریف

اصطلاح میں مسند کا اطلاق حدیث پربهی ہوتا ہے اورحدیث کی کتاب پربهی ہوتا ہے، مسند اس حدیث مرفوع کو کہتے ہیں جس کی سند کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک پہنچتا ہو۔ یہ تو مسند حدیث کی تعریف ہے،

اور اسی طرح مسند کا اطلاق حدیث کی ان کتب پربهی ہوتا ہے، جن کو اس کے مؤلفین نے اسماء الصحابة کے مسانيد پرجمع کیا ہو یعنی مسند حدیث کی وه کتاب ہے جس میں ہرصحابی کے احادیث کو الگ الگ جمع کیا جائے،

پهر بعض محدثین نے اس بارے میں یہ ترتیب رکهی کہ پہلے سابقین فی الاسلام صحابہ کی احادیث ذکرکرتے ہیں جیسے عشره مبشره پهر اهل بدر وغیره ، اور بعض محدثین حروف المعجم کے اعتبار سے صحابہ کی احادیث ذکرکرتے ہیں وغيره . بغرض فائده یہ تومسند کی لغوی واصطلاحی تعریف کا مختصرتذکره تها ، اب میں ان کباراهل علم وعلماء امت کا تذکره کروں گا جنهوں نے امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کے ان مسانید کو جمع کیا .

یا درہے کہ امام محمد بن محمود الخوارزمی رحمه الله نے امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کی پندره (15) مسانید کو جامع مسانيد الإمام ابى حنيفة النعمان کے نام سے ایک مستقل کتاب میں جمع کیا هے ، اوران کے جمع کرنے کی وجہ یہ لکهی کہ میں نے شام میں بعض جہلاء سے سنا جوامام اعظم کی شان میں توہین وتنقیص کر رها تها اورامام اعظم پر رواية الحديث کی قلت کا الزام لگا رها تها ، اوراس بارے میں مسند الشافعي وموطا مالك وغیره سے استدلال کر رها تها اوریہ گمان کر رها تها کہ ابو حنیفہؒ کی تو کوئ مسند نہیں ہے ، لہذا مجهے دینی غیرت وحمیت لاحق ہوئ پس میں نے اراده کیا کہ میں امام اعظم رحمه الله کی ان پندره (15) مسانید کو جمع کروں جن کبار علماء الحديث نے جمع کیا هے .

ان کبار علماء الحديث کے اسماء درج ذیل ہیں جنهوں نے امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کے مسانید کوجمع کیا هے

1 = الإمام الحافظ ابو محمد : عبد الله بن محمد بن يعقوب الحارثي البخاري المعروف : بعبد الله

2 = الإمام الحافظ ابو القاسم : طلحة بن محمد بن جعفر الشاهد العدل

3 = الإمام الحافظ ابو الحسين : محمد بن المظفر بن موسى بن عيسى بن محمد

4 = الإمام الحافظ : ابو نعيم الأصفهاني

5 = الشيخ ابو بكر : محمد بن عبد الباقي بن محمد الأنصاري

6 = الإمام ابو احمد : عبد الله بن عدي الجرجاني

7 = الإمام الحافظ : عمر بن الحسن الأشناني

8 = الإمام ابو بكر : احمد بن محمد بن خالد الكلاعي

9 = الإمام ابو يوسف القاضي : يعقوب بن ابراهيم الأنصاري ، وما روي عنه يسمى : نسخة ابي يوسف

10 = الإمام : محمد بن الحسن الشيباني والمروي عنه يسمى : نسخة محمد

11 = ابن الإمام : حماد رواه عن ابي حنيفة

12 = الإمام : محمد ايضا ، وروى معظمه عن التابعين ، وما رواه عنه يسمى : الآثار

13 = الإمام الحافظ ابو القاسم : عبد الله بن محمد بن أبي العوام السعدي

14 = الإمام الحافظ ابو عبد الله : حسين بن محمد بن خسرو البلخي

15 = الإمام الماوردي ابو الحسن : علي بن محمد بن حبيب

یہ مسانید( ابواب الفقه ) کے مطابق جمع کیئے گئے ہیں ، پهر بعد میں بعض علماء امت نے ان مسانید کی اختصار اور شرح بهی لکهی ، مثلا
1 = الإمام شرف الدين : اسماعيل بن عيسى بن دولة الأوغاني المكي نے اس کا اختصار بنام اختيار اعتماد المسانيد في اختصار اسماء بعض رجال الأسانيد ) لكها ،

2 = الإمام ابو البقاء : احمد بن ابي الضياء ( محمد القرشي البدوي المكي ) نے اس کا اختصار بنام مختصر ( المستند مختصر المسند ) لكها ،

3 = الإمام محمد بن عباد الخلاطي نے اس کا اختصار بنام ( مقصد المسند ) لكها

4 = ابو عبد الله : محمد بن اسماعيل بن ابراهيم الحنفي ،نے اس کا اختصار لکها

5 = حافظ الدين : محمد بن محمد الكردري المعروف : بابن البزازي نے اس کے زوائد کو جمع کیا ،

6 = شيخ جلال الدين السيوطي نے اس کی شرح بنام ( التعليقة المنيفة على سند ابي حنيفة ) لکهی اس کے علاوه بهی بہت ساری کتب وشروحات امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کی مسانید پرلکهی گئ ہیں .

رحمهم الله جميعا وجزاهم الله تعالى خيرا في الدارين

یقینا اس ساری تفصیل کے بعد آپ نے ملاحظہ کرلیا کہ چند جہلاء زمانہ کی طرف سے امام اعظم کے خلاف جو باطل وکاذب وسوسہ پهیلایا جاتا هے یہ وسوسہ صرف جہلاء وسفہاء کی مجلس میں کارگر ہوتا ہے اربابِ علم واصحاب فکرونظر کی نگاه میں اس کی کوئ حیثیت نہیں ہے۔
************************************
امام ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی البخاری المعروف بہ :الاستاذ" المتوفی 340ھ)
امام حارثی ؒ وہ شخص ہیں جنہوں نے علم حدیث میں بلند پایہ مقام رکھنے کی وجہ سے محدثین سے "الاستاذ " کا ممتاز لقب حاصل کیا 
امام خلیلی ؒ المتوفی 446نے" کتاب الارشاد میں ان کے تذکرہ میں لکھتے ہیں 
یعرف بالاستاذ لہ معرفۃ بھذالشاں (لسان المیزان ج3ص 405٭ )
یہ الاستاذ کے لقب سے مشہور ہیں ان کو اس فن حدیث کی معرفت حاصل ہے 
حافث ذہبی ؒالمتوفی 748ھ ان کے متعلق ارقام فرماتے ہیں 
عرف بالاستاذ اکثر عنہ ابو عبداللہ بن مندۃ (لسان المیزان ج3ص 405) یہ الاستاذ سے مشہور ہیں امام ابوعبداللہ بن مندہ نے ان سے بکثرت احادیث روایت کی ہے 
امام ابن مندہ المتوفی 395 ھ مشہور اور بلند مرتبت محدث ہیں انہوں نے امام حارثی سے بکثرت روایت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی توثیق بھی کی ہے 
چنانچہ حافظ ذہبی " تاریخ کبیر میں امام حارثی کے ترجمہ لکھتے ہیں 
وکان ابن مندۃ حسن الرئی فیہ (تاریخ التراجم ص21) 
امام ابن مندہ ؒ ان کے حق میں اچھے رائے رکھتے تھے 
نیز لکھتے ہیں 
وکان ابن مندۃ یحسن القول فیہ )سیر علام النبلاء ت 340) 
امام ابن مندہ ان کی اچھائی بنیان کرتے تھے 
حافظ ذہیبی کا ان کے بارے خود اپنا بیان یہ ہے کہ 
وکان محدثا ضوالا راسا فی الفقہ ( العبر 
نیز ذہیبی ؒ ان کو درج ذیل القاب سے یاد فرماتے ہے 
الاستاذ الشیخ ن الاما الفقہ ، المحدث ، عالم ماوراء النھر ( سیراعلام النبلا ت 340 ، تذکرۃ الحفاظ ج3ص 49
علامہ ابوسعد سمعانی امتوفی 566ھ فرماتے ہیں 
وکان شیخا مکثرا من الحدیث ( کتاب النساب ج3ص 16)
امام حارثی ؒ شیخ اور کثیر الحدیث تھے 
انس بیان میں امام سمعانی ؒ نے امام حارثی کو کثیر الحدیث قرار دینے کے ساتھ ساتھ شیخ بھی قرار دیا جو بتصریح مولانا ارشادلحق اثری الفاظ توثیق میں سے ہے
نیز سمعانی ؒ فرماتے ہیں 
رجل الی خراسان والعراق والحجاز وادرک الشیوخ ( کتاب الانساب ج3س 16)
امام حارثی نے طلب حدیث میں خراسان ، عارق ، اور حجاز ( مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ) کی طرف سفر کیا اور وہاں کے شیوخ حدیث سے ملاقات کی ،
حافظ ابن حجر عسقلانی ان کو حافث الحدیث قرار دیتے ہیں چنانچہ ان کے تعارف میں ارقام فرماتے ہیں 
ابو محمد الحارثی ۔ ھو عبداللہ بن یعقوب الحافظ الحنفی وھو الاستاذ وھو البخاری ( لسان المیزان ج7ص 124 باب الکنی)
اس طرح حافظ موصوف نے ان مولفہ " مسند ابی حنیفہ کے تعارف میں بھی ان کا حافظ الحدیث ہونا تسلیم کیا ہے چنانچہ وی رقمطراز ہیں 
وقد اعتنی الحافظ ابو محمد الحارثی وکان بعد الظلاچمائۃ بحدیث ابی حنیفہ فجمعہ فی مجلد ورتبہ علی شیوک ابی حنیفۃ ( تعجیل المنفعۃ ص19)
حافظ ابو محمد حارثی جو 300ھ کے بعد ہوئے ہیں انہوں نے امام ابوحنیفہ ؒ کی احادیث پر خصوصی توجہ دی اور ان کو ایک جلد میں جمع کیا اور اس مسند کو انہوں نے امام ابوحنیفہ کے شیوخ پر ترتیب دیا ہے 
حافظ ابو الموئد خوارزمی المتوفی 665ھ نے ان کی جمع کردہ " مسند ابی حنفہ کی تعریف میں لکھا ہے
من طالع مسدہ الذی جمعہ للامام ابی حنیفہ علم تبحرہ فی علم الحدیث واحاطتہ بمعرفۃ الطرق والمنوں ( جامع المسانید ج2ص 525)

جو شخص بھی امام حارثی کی جمع کردہ " مسند امام ابی حنیفہ " کا مطالعہ کرے گا وہ علم حدیث میں ان کے تبحر اور طرق و متون حدیث پر ان کے احاطہ علیمہ کو جان لے گا۔
=====================================


3 comments:

  1. ماشاءاللہ بھائی۔ بہت ہی اعلیٰ اور زبردست۔۔۔ آپ کی محنت قابل قدر ہے۔ نہایت شاندار مضمون اور ائمہ اربعہ کا نہایت دقیق تعارف۔ اور یہی بات وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ آج بزرگان دین اور فقہا فی الدین جو کہ اصل وارث ہیں نبی پاک سلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اور صحابہ کے علم کے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور ان کی قدر و منزلت سے امت کے ہر فرد ادنیٰ و اعلیٰ کو اس سے آگاہ کیا جائے۔
    جزاک اللہ۔ اللہ پاک آپ کے کام کو بلندیوں تک لے جائے اور برکتیں اور کامیابی آپ کا مقدر ہوں۔ اٰمین

    ReplyDelete
    Replies
    1. رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخوٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا رَبَّنا إِنَّكَ رَءوفٌ رَحيمٌ {59:10}
      اے ہمارے پروردگار! ہمارے لئے اور ہمارے بھائیوں کے لئے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (وحسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے
      آمین

      Delete